مجلس۴۔ مئی۲۰۱۴ء  اللہ تعالیٰ کی خبر اہل اللہ سے ہوگی!

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں(کلک کریں)

خلاصۂ مجلس:محبی و محبوبی مرشدی و مولائی حضرت والا دامت برکاتہم مجلس میں تشریف فرما تھے، جناب قاری عبد اللہ صاحب نے حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کے اشعار سنائے جن کی تشریح حضرت اقدس حضرت میر صاحب دامت برکاتہم فرماتے رہے۔۴۰ منٹ تک یہ سلسلہ رہا  اس کے بعد حضرت والا شیخ العرب والعجم مجددِ عصر عارف باللہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ کا سفرِ ری یونین کے ملفوظات خود حضرت اقدس میر صاحب دامت برکاتہم نے پڑھ کر سنائے، آج کی مجلس  تقریباً ۱  گھنٹہ منٹ پر مشتمل تھی۔ 

ملفوظات تشریح اشعار

معرفت سے محبت پیدا ہوتی ہے، اگر اللہ کی معرفت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو جو اللہ کی پہچان رکھتے ہیں اُن سے اللہ کی پہچان حاصل کرلو

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ دنیا تمہارے لئے ہے اور تم ہمارے لئے ہو یعنی اللہ تعالیٰ کے لئے ہو

ہر تحقیق سائنس کی اللہ کی موجودگی پر شاہد ہے، موجود تحقیق کے جاننے

ایمان عقل سے نہیں ملتا بلکہ اللہ کے فضل سے ملتا ہے، بڑے بڑے عقل ہوئے لیکن گمراہ ہوئے۔

اللہ سے باخبر اور معرفت ہونا بغیر شیخِ و رہبر کے نہیں کرسکتے

بغیر رہبر اور شیخ کے اللہ کا راستہ طے نہیں ہوتا۔

چوں چراں کرنے والے محروم رہ جاتے ہیں، جو شیخ کہے اُس پر عمل کرلو آسان راستہ ہے یہ

ہماری ساری اُمیدوں کا مرکز آپ ہی کا درد ہے کسی اور کے در پر یہ پیشانی نہیں جاتی۔

جو خود محتاج ہو وہ حاجت کیا پوری کرے گا۔ اللہ تعالیٰ ہی حاجت روا ہیں، مشکل کشا ہیں

جس سے چاہو پیار کرلو لیکن اُس سے جدائی ضرور ہوگی، صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے جو سے کبھی جدائی نہ ہوگی۔

ساری حسن و جمال رو بہ زوال ہے، صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کی  ہر لحظہ ہر لمحہ ہر وقت ایک نئی شان ہے۔

ساؤتھ افریقہ کے ایک شیخ الحدیث صاحب کا سوال اور حضرت والا کا الہامی جواب ۔ ۔  اللہ تعالیٰ کے شان کا وجود تو رہتا ہے لیکن ظہور اپنے وقت پر ہوتا ہے۔

جب محبت اشد ہوجاتی ہے اُسی وقت آدمی اپنا قلب و جگر ، اپنی حرام کو فنا کرنے خون کرنے کی ہمت ہوتی ہے۔

اہل اللہ کے پاس یہی دولت ملتی کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز سے محبوب ہو جاتی ہے، مال

محبت کی مقدار کیا ہونی چاہیے ۔ اتنی محبت ہو جان سے محبوب ہوجائیں ، اہل و عیال سے، شدید پیاس میں ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ اللہ تعالیٰ کی محبت عطا فرمائیے، تو اس مقدار کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیان فرمایا۔

جو اللہ والوں سے جڑ جائے گا اُس کو اللہ کی محبت بھی نصیب ہوجاتی ہے

خدا کی محبت اور اعمال کی محبت حاصل کرنے کا طریقہ اہل اللہ کی محبت ہے۔

پہلے اللہ کا خاص بندہ ہے روٹی کھا کر اللہ پر فدا کرتا ہے پھر جب زیادہ محبت ہوجاتی ہے تو جان بھی قربان کردیتا ہے۔

حضرت والا نے فرمایا تھا کہ جب دشمن حملہ کرتا ہے تو پہلے پلاننگ کرتا ہے لیکن نفس ایسا دشمن ہے جو پلک چھپکتے ہی حملہ کرتا ہے  ۔ اور تباہ کردیتا ہے اور ایمان سلب کروا دیتا ہے۔

حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ کلمہ میں پہلے لا الہ ہے یعنی غیراللہ کو قلب سے نکالو تب تمہیں اللہ ملے گا یہ نہیں ہو سکتا کہ بتوں کو غیر کو بھی بوچتے ر

دل کو غیر سے پاک کرو پھر سارے عالم میں تمہیں اللہ ہی نظر آئے گا۔

خدا کو چاہتا اور دنیا کے فانی لذتوں کو بھی چاہتا ہے تو اگر تو یہ سمجھتا ہے کہ تو غیر اللہ کو چاہ کر اللہ کو بھی پا لے گا تو یہ تیری

غیر اللہ کو قلب سے نکالو اور اللہ کو دل میں لاؤ

غیر اللہ کو کیسے دل سے نکالو گے محمد رسول اللہ، یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نقشِ قدم پر چل کر غیر اللہ کو نکالو۔

اگر کسی سے گناہ نہ بھی چھوٹیں تو بھی شیخ کے پاس رات دن رہنا رائیگاں نہیں جاتا ایک نہ ایک دن اصلاح ہوجائے گی۔

اللہ سے غافل ہوجانا کیا کم نقصان ہے، پھر یہ گناہ کی طرف لے جاتے ہیں۔

ملفوظات معارفِ ربانی

حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی نظر میں محبت کا مقام: آخر میں علامہ آلوسی فرماتے ہیں کہ جو طاعات ہیں وہ محبت کے لیے موافقات میں سے ہیں یعنی محبت سبب ہے اور اطاعت کرنا مسبب ہے اور گناہ سے بچنا یہ محبت کا اثر ہے لیکن کہتے ہیں کہ اگر اعمال میں کمزوری ہو تو یہ محبت کے مغایر نہیں یعنی کہ اگر کسی شخص میں عملی طور پر کوئی کمزوری ہو تو اس کو یہ نہ کہو کہ یہ اﷲ کا عاشق نہیں ہے۔ آگے اس کی دلیل میں ایک حدیث پیش کرتے ہیں اَلاَ تَرٰی اِلَی الْاَعْرَابِی کیا تم اس بدوی کو نہیں دیکھتے جس نے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ قیامت کب آئے گی فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اﷲُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَمَا اَعْدَدْتَّ لَہَا؟ تم نے قیامت کے لیے کیا تیاری کی ہوئی ہے؟ اس نے کہا  مَا اَعْدَدْتُّ لَہَا کَبِیرَ عَمَلٍ میرے پاس کوئی بڑے بڑے عمل نہیں۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ فرض، واجب، سنت مؤکدہ ضروری عمل کرلیتا ہوں مگر رات رات بھر جاگنا، بڑی بڑی محنتیں کرنا یہ مجھ سے نہیں ہوتا، میرے پاس کبیر اعمال تو نہیں ہیں لٰکِنْ حُبَّ اﷲِ تَعَالٰی وَ رَسُوْلِہٖ صَلَّی اﷲُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لیکن میرے پاس اﷲ اور رسول کی محبت بہت ہی عظیم ہے۔ کبیر کا استثنیٰ کبیر سے ہوگا یعنی میرے پاس کبیر عمل نہیں ہے لیکن میرے پاس محبت کبیر ہے فَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَ مُ اَلْمَرْئُ مَعَ مَنْ اَحَبَّ آدمی اسی کے ساتھ ہوگا جس سے وہ محبت کرتا ہے یعنی جنت میں اسی کے ساتھ رہے گا جس سے وہ اﷲ کے لیے محبت کرتا ہے۔ اب علامہ آلوسی کا فیصلہ دیکھیے۔ اگر اور کوئی یہ بات کہتا تو یقین نہ آتا لیکن یہ اتنا بڑا شخص ہے جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ یہ اور علامہ شامی دونوں مرید بھی ہیں مولانا خالد کُردی کے اور مولانا خالد کُردی خلیفہ ہیں مولانا شاہ غلام علی صاحب کے اور وہ خلیفہ ہیں مظہر جانِ جاناں رحمۃ اﷲ علیہ کے اور یہ سب ہمارے دِلّی کے بزرگوں کا سلسلہ ہے۔ وہ فرماتے ہیں:

{ فَہٰذَا ناطق بِاَنَّ الْمَفْہُوْمَ مِنَ الْمَحَبَّۃِ ِﷲِ تَعَالٰی غَیْرُ الْاَعْمَالِ وَ اِلْتِزَامِ الطَّاعَاتِ }

یعنی یہ حدیث محبت کے مفہوم کو واضح کر رہی ہے کہ اﷲ کی محبت اعمال سے مغایر ہے اور طاعات کا التزام بھی یہاں مراد نہیں لِاَنَّ الْاَعْرَابِیَ نَفَاہَا کیونکہ اعرابی نے اعمال کی نفی کردی مَا اَعْدَدْتُّ لَہَا کَبِیرَ عَمَلٍ میں نے قیامت کی کوئی تیاری نہیں کی کبیر عمل سے یعنی بڑے بڑے اعمال میرے پاس نہیں ہیں لہٰذا اُس نے اعمال اور التزامِ طاعات کی نفی کردی لیکن اُس نے اپنی محبت کو بیان کردیا کہ اگرچہ میرے اندر اعمال کی کمزوریاں ہیں لیکن اس کے باوجود میں اﷲ و رسول سے محبت رکھتا ہوں، میں اﷲ کا عاشق ہوں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے مجھے محبت ہے۔ آہ! اس صحابی کی بات دیکھئے! لٰکِنْ حُبَّ اﷲِ تَعَالٰی وَ رَسُوْلِہٖ سے اس نے اپنی محبت کو ثابت کردیا کہ یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم میرے پاس اﷲ و رسول کی محبت ہے اور کبیر محبت ہے کیونکہ کبیر کا مستثنیٰ کبیر ہوگا وَ اَقَرَّہُ النَّبِیُّ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اس صحابی نے اپنی محبت کا دعویٰ کیا اور سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کا دعویٰ قبول فرمالیا کہ ہاں ٹھیک کہتے ہو۔ سبحان اﷲ! دوستو اگر ایک کروڑ جانیں ہم اﷲ پر اور سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم پر فدا کردیں تو ان کا حق ادا نہیں ہوسکتا، اور علامہ آلوسی کو داد دیجیے کہ کیا نکتہ نکالا ہے کہ اس کے اثباتِ محبت کا آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اقرار فرمایا یعنی اس کے دعویٰ محبت کو آپ نے قبول فرمالیا اور اس کا ثمرہ بتادیا کہ اَلْمَرْءُ مَعَ مَنْ اَحَبَّ  تم کو جس کے ساتھ محبت ہے اسی کے ساتھ رہو گے یعنی جنت میں اﷲ تعالیٰ کے ساتھ اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ رہو گے۔ واہ! میں تو کہتا ہوں کہ علامہ آلوسی کو اﷲ بے شمار جزا دے (آمین) کہ ناامیدوں کے دلوں میں اُمید ڈال دی اور فرماتے ہیں کہ اس کے بعد اَلْمَرْءُ مَعَ مَنْ اَحَبَّ فرما کر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے بندہ کی محبت کو اﷲ کے لیے حقیقتاً و لغۃً ثابت کردیا  ثُمَّ اَثْبَتَ اِجْرَائَ مَحَبَّۃِ الْعَبْدِ ِﷲِ تَعَالٰی عَلٰی حَقِیْقَتِہَا لُغَۃً یعنی اس کا دعویٰ کرنا کہ میرے دل میں اﷲ و رسول کی بہت زیادہ محبت ہے اگرچہ میرے پاس اعمال زیادہ نہیں ہیں اور آپ کا اَلْمَرْءُ مَعَ مَنْ اَحَبَّ فرمانا دلیل ہے کہ بندوں کی اﷲ کے ساتھ محبت کی اس حقیقت کو لغۃً آپ نے قبول فرمالیا ورنہ آپ فرمادیتے کہ جب تمہارے پاس عمل نہیں ہے تو خواہ مخواہ جھوٹا دعویٰ کرتے ہو لہٰذا اﷲ کی محبت کے ان درجات کے بارے میں کسی مومن کو حقیر مت سمجھو۔ حضرت حکیم الامت نے لکھا ہے کہ ایک شخص تھا جو عمل میں بالکل صفر تھا۔، اس سے کہا گیا کہ کچھ روزہ نماز کرلو، اس نے کہا میاں جنت تو میرے دو ہاتھ میں ہے، ایک ہاتھ اِدھر ماروں گا، ایک ہاتھ اُدھر ماروں گا اور جنت میں چلا جاؤں گا لہٰذا جب ہندوئوں سے جہاد شروع ہوا تو وہ تلوار لے کر نکلا، ایک ہاتھ اِدھر مارا ایک ہاتھ اُدھر مارا اور شہید ہوگیا اس لیے کسی کو حقیر مت سمجھو، نہ کسی کو مایوس ہونا چاہیے۔ قیامت کے دن معلوم ہوگا کہ کتنے بندے ایسے ہیں جو اﷲ کی محبت چھپائے بیٹھے ہیں اور اس کا عام لوگوں کو پتہ نہیں۔

ہم کو کیا پتہ کس کے دل میں اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کیسی محبت ہے، اس پر ایک واقعہ بیان فرمایا

حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے حضرت والا کہ بارے میں کہ روح المعانی اور عالم بھی بیان کرتے ہیں لیکن جیسا آپ بیان کرتے ہیں ویسا کوئی نہیں بیان کرتا ۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries