مجلس۶۔ مئی۲۰۱۴ء  اللہ کا راستہ تعلقِ شیخ سے مزیدار ہوجاتا ہے!

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں(کلک کریں)

خلاصۂ مجلس:محبی و محبوبی مرشدی و مولائی حضرت والا دامت برکاتہم مجلس میں تشریف فرما تھے، جناب تائب صاحب دامت برکاتہم حاضرِ خدمت تھے حضرت والا نے اِن کو اشعار سنانے کا فرمایا، انہوں نےحضرت والا میر صاحب کی محبت میں بالکل تازہ اشعار سے سنائے جو اُن کے چھوٹے بھائی جناب اثر صاحب نے چند دن پہلے کہے تھے، ہر ہر شعر پر حاضرین مجلس نے خوب داد دی، اشعار کے بعد حضرت والا نے اپنے تاثرات کا اظہار فرمایا۔ اس کے بعد حضرت والا شیخ العرب والعجم مجددِ عصر عارف باللہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ کا سفرِ ری یونین کے ملفوظات خود حضرت اقدس میر صاحب دامت برکاتہم نے پڑھ کر سنائے، آج کی مجلس مختصر تھی اور  تقریباً ۳۲ منٹ تک جاری رہی۔

ملفوظات معارفِ ربانی

مجالسِ اہل اﷲ کی اہمیت: یہ مجلس جو میں نے آپ کے ساتھ اس وقت کی ہے پوری امت کے اولیاء اﷲ کا اجماع ہے کہ ان مجالس سے ہی دین پھیلا ہے۔ یہ مجلس ان مجالس کی نقل ہے۔ اب حقیقت کہاں سے لائو گے، اب نقل ہی کو غنیمت سمجھ لو ورنہ وہ بھی کہاں ملے گی، اب اولیاء سابقین کہاں ملیں گے، جو موجود ہیں ان کو غنیمت سمجھ لو، میرے شیخ فرماتے تھے گندم اگر بہم نہ رسد بھس غنیمت است گندم اگر نہ ملے تو بھوسی کی روٹی کھالو لیکن شیخ اپنے کو ایسا سمجھے، طالبین نہ سمجھیں کہ میرا شیخ بھوسی ہے ورنہ مرید پھُوسی ہوجائے گا، پھُوسی کہتے ہیں بلی کو یعنی شیخ کو حقیر سمجھنے والا محروم ہوجائے گا۔ حاجی صاحب فرماتے ہیں کہ شیخ تو یہی سمجھے کہ میں کچھ نہیں ہوں مگر مریدین سمجھیں کہ روئے زمین پر میرے لیے ان سے بہتر کوئی مربی نہیں۔

شیخ اپنے کو کمتر ہی سمجھے لیکن طالبین ایسا نہ سمجھیں!

یہ عقیدہ لازم ہے ورنہ فائدہ نہیں ہوگا، اور مولانا گنگوہی نے اس کو سکھادیا۔ مولانا گنگوہی فرماتے ہیں کہ اگر ایک مجلس ہو اور اس میں ہمارے پیر حاجی امداد اﷲ صاحب تشریف فرما ہوں اور اسی مجلس میں امام غزالی، جنید بغدادی، بابا فرید الدین عطار، شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اﷲ علیہم ہوں تو میں کسی کی طرف رُخ نہیں کروں گا، اپنے حاجی صاحب کو دیکھتا رہوں گا، مرید کویہ محبت ہونی چاہیے، آج کل تو ایسا ہے کہ اولیاء اﷲ تو درکنار لوگ کسی دنیا دار کو دیکھ کر بھی شیخ کو بھول جاتے ہیں۔ ایک صاحب اپنے شیخ سے ملنے آئے، اتنے میں ایک نواب صاحب آگئے تو شیخ صاحب کو بھول گئے بس نواب صاحب سے باتیں کر رہے ہیں، شیخ صاحب ہنسے اور مجھ سے کہا اس مخلص کو دیکھا؟ آیا تھا ہم سے ملنے اور ایک نواب آگیا تو اب نواب کی طرف منہ کیے ہوئے ہے، ہماری طرف پیٹھ کیے ہوئے بیٹھا ہے۔ اگر شیخ سے صحیح عقیدت اور محبت ہے تو چاہے بادشاہ اور وزیر اعظم بھی آجائے تو اس کو خاطر میں بھی نہیں لائے گا کہ ہمارا بادشاہ تو ہمارا شیخ ہے۔ اﷲ کا شکر ہے جب میرے شیخ پاکستان آتے ہیں تو میں اعلان کردیتا ہوں کہ میرا بادشاہ میرا وزیراعظم آرہا ہے، سب کام بندکرو اور شیخ کے استقبال اور خدمت کی فکر کرو۔ میرے شیخ فرماتے تھے کہ اﷲ کا راستہ بہت مشکل ہے مگر اے حکیم اختر سن لے کہ اگر سچا اﷲ والا شیخ مل جائے تو اﷲ کا راستہ صرف آسان نہیں ہوتا مزے دار ہوجاتا ہے۔ حاجی امداداﷲ صاحب نے فرمایا تھا کہ مولانا رومی کو شمس الدین تبریزی کی برکت سے ان کی محبت کے صدقے میں اتنا اونچا مقام نصیب ہوا کہ اگر وہ سینکڑوں سال تہجد پڑھتے تب بھی اس مقام پر نہ پہنچتے لہٰذا مولانا رومی کا عشق دیکھ لو، جہاں کہیں شیخ کا نام آتا ہے پورے صفحے کے صفحے شمس الدین تبریزی کی محبت میں کہہ جاتے ہیں۔۔ ایک ہی شعر کافی ہے ان کا   ؎

مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم
تا غلامِ شمس تبریزی نہ شد

لوگ مجھ کو مُلّا مُلّاکہتے تھے، آج شمس الدین تبریزی کی برکت سے مولائے روم بنا ہوا ہوں۔ جب حضرت شاہ عبدالقادر صاحب مفسر قرآن شاہ ولی اﷲ کے بیٹے، تفسیر موضح القرآن کے مصنف آٹھ گھنٹے عبادت کرکے مسجد فتح پوری سے نکلے ایک کتے پر نظر پڑ گئی تو وہ کتا دلی میں جہاں جاتا تھا سب کتے اس کے سامنے ادب سے بیٹھتے تھے جبکہ کتوں کا مزاج یہ ہے کہ اپنی برادری سے ان کو مناسبت نہیں، جب کوئی کتا آجائے تو اس کو دوڑا لیتے ہیں بھونکتے ہوئے دور بھگا دیتے ہیں، لیکن وہ شیخ الکلاب بن گیا، جہاں جارہا ہے سارے کتے اس کے سامنے ادب سے بیٹھ رہے ہیں تو حکیم الامت مجدد الملت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی فرماتے ہیں کہ آہ جن کی نگاہوں سے جانور بھی محروم نہیں رہتے ان کی نگاہوں سے انسان کیسے محروم رہے گا۔

دیکھئے! ابھی کھانا بھی نہیں کھایا لیکن اتنا مزہ آرہاہے کہ میں کیا عرض کروں۔ آہ! سب کچھ بھول جاتا ہے اگر اﷲ اپنی محبت کا صحیح مزہ دے دے تو پھر کچھ یاد نہیں رہتا، اسی لیے جنت میں جب اﷲ تعالیٰ اپنے کو دِکھائیں گے، دیدار نصیب ہوگا تو کسی جنتی کو جنت یاد نہ رہے گی   ؎

کہاں خرد ہے کہاں ہے نظامِ کار اس کا
یہ پوچھتی ہے تری نرگسِ خمار آلود
وہ سامنے ہیں نظامِ حواس برہم ہے
نہ آرزو میں سکت ہے نہ عشق میں دم ہے

غنیمت سمجھ لو ان ملاقاتوں کو، بڑی مشکل سے آیا ہوں جبکہ امریکہ لے جانے کے لیے ایک آدمی کراچی آیا ہوا ہے۔ اب سفر کی تاب بھی نہیں،  کمزور بھی ہوگیا ہوں اس لیے مسجد نہیں جاپاتا، زیادہ سیڑھیاں چڑھنے سے دل پر اثر پڑجاتا ہے اس لیے یہاں نماز پڑھ رہا ہوں اس لیے غنیمت سمجھ لو پتہ نہیں اگلے سال آنا ہو یا نہ ہو   ؎

غنیمت جان لو مل بیٹھنے کو
مبادا پھر یہ وقت آئے نہ آئے

بس اﷲ سے دعا کرلو کہ جو حضرات تشریف لائے، اختر کو اور میرے سارے احباب کو اور جو عورتیں آئیںـ، اﷲ اپنے کرم سے سب کو ولی اﷲ بنادیں کیونکہ آپ کریم ہیں اور کریم کی تعریف یہ ہے جو محدثین نے ہمیں بتائی کہ کریم وہ ہے جو نالائقوں پر مہربانی کردے اور استعداد نہ دیکھے، اﷲ! ہم سب نا اہل ہیں لیکن اپنی نااہلیت کا اعتراف کرتے ہوئے آپ کے کریم ہونے کے صدقے میں درخواست کرتے ہیں کہ اولیاء صدیقین کی جو سب سے آخری سرحد ہے جہاں ان کی منتہا ہوتی ہے ہم سب کو، ہماری اولاد کو، ہمارے احباب کو، ہمارے گھر والوں کو سب کو اے اﷲ اس مقام تک پہنچادے۔ اور ان مجلسوں کو اور ری یونین کی میری حاضری کو قبول فرما اور میرے پاس جو لوگ تشریف لارہے ہیں اﷲ ان کو بھی قبول فرما اور ہم سب کو اپنی محبت کا وہ اونچا مقام دے جو تو اپنے اولیاء صدیقین کو نصیب فرماتا ہے اور جس کو جو روحانی بیماری ہو کسی کو بدنظری ہو، کسی کو جھوٹ بولنے کی عادت ہو کسی کو غصہ کی بیماری ہو اﷲ ہم سب کی تمام روحانی بیماریوں کو اور جسمانی بیماریوں کو شفاء عاجل کامل مستمر نصیب فرمائے اور سکونِ قلب عطا فرمائے۔ اے اﷲ! سلامتی اعضاء اور سلامتی ایمان کے ساتھ زندہ رکھ اور سلامتی اعضاء اور سلامتی ایمان کے ساتھ دنیا سے اُٹھا اور یہ دعا ہمارے لیے اور ہمارے گھر والوں کے لیے اور سارے عالم کے مؤمنین اور مؤمنات مسلمین اور مسلمات کے لیے قبول فرما، آمین۔ ۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries