مجلس۱۰۔ مئی۲۰۱۴ء باطنی کیفیات بقدرِ تقویٰ ملتی ہیں!

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں(کلک کریں)

خلاصۂ مجلس:محبی و محبوبی مرشدی و مولائی حضرت والا دامت برکاتہم کی آمد میں تاخیر تھی حضرت والا کے حکم سے حضرت والا شیخ العرب والعجم مجددِ عصر عارف باللہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ کے سفرِ ری یونین کے ملفوظات کا مجمومہ معارفِ ربانی سے جناب ممتاز صاحب نےملفوظات پڑھ کر سنانے شروع کیے تقریباً ۲۰ منٹ بعد حضرت والا تشریف لے آئے، آج کی مجلس تقریباً ۵۲ منٹ تک جاری رہی۔۔

ملفوظات معارفِ ربانی

اہل اﷲ سے محبت ذریعۂ نجات ہے: دیکھئے!آج یہ بات عجیب ہورہی ہے، کوئی مضمون مسلسل نہیں ہے، واقعات اور حکایاتِ اہل اﷲ پیش کررہا ہوں۔ یہ بھی اﷲ کا احسان ہے کہ آج کا دن اسی کا ہوگیا۔ اب حضرت جلال آبادی کی ایک بات اور سناتا ہوں کہ جب ریل چلتی ہے تو فرسٹ کلاس ڈبے بھی انجن کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں اور تیسرے درجے یعنی تھرڈ کلا س کے ڈبے بھی انجن سے جڑے ہوتے ہیں،جن کی سیٹوں کے اسکرو ڈھیلے ہوتے ہیں، چوں چاں کی آوازیں آتی ہیں، پورا ڈبہ ہلتا رہتا ہے ، تھرڈ کلا س ڈبے میں بالکل چین نہیں ملتا لیکن جب وہ ریل منزل پر پہنچے گی مثلاً کراچی سے لاہور تو کیا وہ تھرڈ کلاس والے ڈبے بھی فرسٹ کلاس والوں کے ساتھ منزل پر نہیںپہنچیں گے ؟ پہنچ جائیں گے نا! بس فرمایا کہ بزرگوں سے تعلق رکھو ان شاء اﷲ جہاں ان کا حشر ہوگا وہاں ہمارا بھی حشر ہوگا، بس ان سے لگے لپٹے رہو، ہم تھرڈ کلاس کے ڈبے ہیں، ہمارے اسکرو بھی ڈھیلے ہیں، سیٹیں بھی ڈھیلی ہیں، یعنی ہمارا عمل ٹھیک نہیں ہے لیکن اگر ہمارا ڈبہ انجن سے جڑا ہوا ہے تو ان شاء اﷲ ہم بھی منزل پر پہنچ جائیں گے۔

 جیسا کہ تفسیر روح المعانی میں ہے کہ ایک اعرابی نے عمل کبیر کی نفی کی کہ میرے پاس کوئی بڑا عمل نہیں ہے لیکن میرے قلب میں اﷲ اور اس کے رسول کی محبت ہے، اس پر سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا اَلْمَرْءُ مَعَ مَنْ اَحَبَّ آدمی اسی کے ساتھ ہوگا جس سے اس کو محبت ہے۔ علامہ آلوسی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے یہ پتہ چلا کہ اعمال میں کمی محبت کی نفی نہیں کرتی ، یہی وجہ ہے کہ سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس اعرابی کے اعمال کی نفی کے باوجود اس کی محبت کو تسلیم فرما کراَلْمَرْءُ مَعَ مَنْ اَحَبَّ کی بشارت دی۔ نبوت کا مقام تو وہ مقام ہے کہ کسی مسئلہ پر اگر نبی خاموش ہی ہوجائے تو وہ مسئلہ ثابت ہوجاتا ہے یعنی اگر کسی بات کا نبی کے سامنے تذکرہ ہو اور نبی سن کر خاموش رہے تو اس کی خاموشی بھی اس کی اجازت سمجھی جاتی ہے کیوں کہ نبی کسی ناجائز بات پر خاموش نہیں رہ سکتا لہٰذا مسکوت عنہا جتنے مسائل ہیں فقہاء نے ان سب مسائل کو مباحات میں شامل کیا ہے چہ جائیکہ یہ حدیث خود ناطق ہے کہ محبت خود ایک مستقل نعمت ہے ،بتائیے سکوتِ نبوت سے اقرارِ نبوت کی دلیل زیادہ قوی ہے کہ نہیں؟ اس لیے اﷲ والوںسے محبت رکھو، یہ بہت بڑی نعمت ہے، اس کی قیمت میدانِ حشر میں معلوم ہوگی ۔ مشکوٰۃ شریف میں ہے کہ جو لوگ اﷲ کے لیے آپس میں محبت کررہے ہیںچاہے ایک شخص مشرق میں ہے اور دوسرا مغرب میں لیکن اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن دونوں کو اکٹھا کردیں گے جَمَعَ اﷲُ تَعَالٰی بَیْنَھُمَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ اور براہ ِراست یا بواسطہ فرشتہ ارشاد فرمائیں گے ھٰذَا الَّذِیْ کُنْتَ تُحِبُّہُ فِیَّ دیکھ لے جس کے ساتھ تجھ کو کھڑا کیا ہے یہ وہی تو ہے جس سے تو اﷲ کے لیے محبت کرتا تھا، یہ تیرا رشتہ دار نہ تھا، نہ تیری زبان والا تھا، نہ تیرے قبیلہ والا تھا، نہ تیرا بزنس اس کے ساتھ تھا۔ ملا علی قاری فرماتے ہیں کہ اس جمع کرنے میں تین مصلحتیں پوشیدہ ہیں:

متحابین فی اﷲ کو میدان حشر میں اکٹھا کرنے کے اسرار: (۱) لِشَفَاعَۃِ اَحَدِ ھِمَا لِلْاٰخَرَ اکٹھا اس لیے کریں گے تاکہ ایک دوسرے کی شفاعت کرسکیں کیونکہ جب دونوں ملیں گے تو کہیں گے کہ دنیا میں ہم تو اﷲ کے لیے ملتے تھے،پس ایک دوسرے کے لیے کہے گا کہ یا اﷲ! یہ میرا خاص دوست تھااس کو بخش دیجئے، اگر دور ہوں گے تو شفاعت کیسے کریں گے؟
(۲) لِلْمُجَا وَرَۃِ فِی الْجَنَّۃِ جنت میں اﷲ تعالیٰ دونوں کو ایک دوسرے کا پڑوسی بنا دیں گے، اپنے عاشقوں کو جنت میں اکٹھا کردیں گے، یہاں تو ایک نہ ایک دن جدائی ہوجاتی ہے، ائیر پورٹ جانا پڑتا ہے، دوست ایک دوسرے سے جدائی پر رونے لگتے ہیں، وہاں نہ ائیرپورٹ ہے، نہ ہوائی جہاز ہے، نہ جدائی ہے، یہاں تو سونے کے بعد بھی جدائی ہوجاتی ہے، وہ ادھر سورہا ہے، ہم ادھر سو رہے ہیں، رات بھر بات کرنے سے محروم ہوگئے، لیکن جنت میں نیند ہی نہیں ہوگی، چوبیس گھنٹہ اپنے دوستوں کو دیکھو، چوبیس گھنٹہ ان سے گپ شپ لگاؤ، چوبیس گھنٹہ ان کی زیارتیں کرو، سبحان اﷲ کیا مزہ ہے! وہاں نہ گھنٹے نہ منٹ ہے ،نہ سورج ہے نہ چاند ہے، نہ دن ہے نہ رات ہے، وہاں روشنی آفتاب سے نہیں اﷲ کے انوار و تجلیات سے ہوگی جس کو بعض علماء نے لکھا ہے کہ سورج نکلنے سے ذرا پہلے جو ہلکا سا اجالا ہوتا ہے وہاں ایسا اجالا ہوگا۔
(۳) لِلْمُزَاوَرَۃِ  فِیْہَا تاکہ ایک دوسرے کی زیارت کرکے خوش ہوجائیں، یہ دنیا میں بھی آپس میں مل کر خوش ہوتے تھے، یہاں بھی مل کر خوش ہوجائیں۔ اب بتاؤ ہم لوگ جب آپس میں ملاقات کرتے ہیں تو خوشی ہوتی ہے یا نہیں؟ بس اس خوشی کی رعایت سے وہ جزا ملے گی کہ یہ لوگ دنیا میں بھی آپس میں مل کر خوش ہوتے تھے لہٰذا ان کو یہاں بھی پڑوسی بنادیا، ایک دوسرے کی زیارت کو آسان فرمادیا اور وہاں سواری کون سی ملے گی ہنڈا، ٹویوٹا، مرسیڈیز؟ نہیں، اس سواری کا نام ہے رَف رَف ، شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ جو میرے استاذ بھی ہیں، شیخ بھی ہیں فرماتے تھے کہ اﷲ نے جنت کی سواری کابڑا پیارا نام رکھا ہے رف رف جو فَرفَراڑے گی، رف رف کو الٹ دو تو فر فر ہوجائے گا، واہ! اﷲ والوں کی کیسی پیاری سواری ہے۔

رزق کے ذرّات کا اکرام: پیاری پر ایک بڑے عالم کی بات یاد آگئی۔ حضرت مولانا شاہ ابرارالحق صاحب نے فرمایا کہ دسترخوان پر رزق کے جو ذرّات ہیں ان کو ایسی جگہ مت پھینکو جہاں پیر پڑے، یہ پیاری چیز ہے، اس کو کیاری میں ڈال دو۔ قحط کے زمانے میں جب اﷲ کے رزق کا ذرہ بھی کھانے کو نہیں ملا تو لوگ ہوٹلوں کے سامنے کھانے کی خوشبو کو سونگھتے پھرتے تھے ، جان بچانے کے لیے سونگھنے سے بھی طاقت محسوس کرتے تھے۔ ایک تابعی نے صحابی سے پوچھا کہ جب چھوہارے ختم ہوگئے تو سنا ہے کہ آپ لوگ گٹھلی چوس کر جہاد کرتے تھے تو گٹھلی چوسنے سے کیا طاقت آتی تھی؟ صحابی نے جواب دیا کہ جب گٹھلی بھی ختم ہوگئی تب پتہ چلا کہ اس سے کیا طاقت آتی تھی۔
تو میرے شیخ نے فرمایا کہ دسترخوان کے ذرّات موتی اور جواہرات سے کم نہیں ہیں، کھانا جب نہ ملے تب پتا چلتا ہے کہ یہ سب جواہرات ہیں، ان کو غلط جگہ مت پھینکو، جس سے بے ادبی ہوتی ہو۔ بمبئی میں ایک سیٹھ اپنے بچے ہوئے کھانے کو گٹر لائن میں پھینکوا دیتا تھا۔ لوگوں نے بتایا کہ رزق کے ساتھ بے اکرامی کی وجہ سے وہ اب فٹ پاتھ پر بنیان بیچ رہا ہے۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے ارشاد فرمایا:

اَکْرِمُوا الْخُبْزَ
(المستدرک للحاکم،کتابُ الاطعمۃ)

روٹی کا اکرام کرو ورنہ برکت چلے جانے کے بعد کئی پشتوں تک واپس نہیں آتی ۔ جس کا دل چاہے کہ اس کے رزق میں برکت ہو تو اسے چاہیے کہ رز ق کا اکرام کرے ۔ دسترخوان اسی لیے ہے تاکہ کوئی ذرہ اس کا باہر نہ جائے۔

گرے ہوئے لقمہ کو اٹھا کر کھانے کا راز: ڈاکخانہ کے ایک ہندو ملازم نے میرے شیخ شاہ ابرارالحق صاحب سے پوچھا کہ آپ مسلمانوں کا عجیب طریقہ ہے کہ کوئی چیز گرجائے تو زمین سے اُٹھا کر صاف کرکے کھالو تو حضرت نے جواب میں فرمایا کہ اگر ڈاک خانے کا سب سے بڑا افسر تمہیں کیلا کھانے کے لیے دے اور وہ کیلا تمہارے ہاتھ سے گرجائے تو اس بڑے افسر کے سامنے تم اس کو اٹھاؤگے یا نہیں؟ بس وہ سمجھ گیا ۔ تو اﷲ دیکھ رہا ہے کہ بندہ ہمارے رزق کو کیسے استعمال کررہا ہے، اس لیے کھانا جلدی جلدی کھاؤ، اس طرح کھاؤ جس طرح کئی دن کے بھوکے ہو، نوابوں کی طرح استغناء کے ساتھ مت کھاؤ، اسی لیے ٹیک لگا کر کھانا بھی جائز نہیں ہے کیونکہ اس میں استغنائی شان ہے، اس لیے حدیث کی روایت پڑھو کہ ایسا تیز کھاؤ کہ معلوم ہو کہ کئی وقت سے بھوکا ہے لیکن اتنا تیز بھی مت کھا ؤ کہ بغیر چبائے نگل جاؤ اور پیٹ میں درد شروع ہوجائے۔

گرم کھانا کھانے کا مسئلہ: ایک مسئلہ یاد آگیا، میں ۱۹۹۲ء میں بمبئی گیا تھا تو ایک عالم فاضلِ دیوبند کے ساتھ ناشتہ پر دعوت ہوئی، دعوت کرنے والے مولانا مسیح اﷲ خان صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کے داماد تھے جو عالم بھی ہیں۔ انہوں نے گرم گرم پوریاں اور گرم گرم کباب دسترخوان پر رکھے توہمارے مزے آگئے۔ آپ سوچئے گرم پوری بھی ہو اور گرم کباب بھی ہو تو مزہ آئے گا یا نہیں؟ تو ایک مولانا صاحب نے کہا کہ بھئی گرم گرم کھانا سنت کے خلاف ہے۔ مجھے یاد آیا کہ حضرت مولانا شاہ ابرارالحق صاحب دامت برکاتہم بھی گرم گرم چپاتی منگواتے ہیں، جب دسترخوان بچھ جاتا ہے تو گرم گرم چپاتی پک کے آتی ہے، میں نے سوچا کہ میرے شیخ اور کتنے بڑے بزرگ ہیں جو گرم گرم پلاؤ بریانی کھاتے ہیں۔ کباب کوئی فریج میں رکھ کے کھاتا ہے؟ یا گرم گرم کھاتے ہو؟ اور پلاؤ بریانی فریج میں رکھ کے کھاتے ہو یا گرم کرکے؟ تو میں نے کہا کہ بھئی! آپ نے جو یہ روایت بیان فرمائی یہ کس کتاب میں ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ مشکوۃ شریف میں۔ کسی نے مشکوٰۃ شریف لا کرپیش کردی، واقعی اس میں لکھا تھا کہ گرم کھانا مت کھاؤ، اس میں برکت نہیں ہے۔ میں نے کہا بھئی! حدیث کو خود سے سمجھنا ٹھیک نہیں ہے، ملاعلی قاری محدّثِ عظیم نے جو شرح کی ہے اُسے دیکھنا چاہیے، کیونکہ اس میں صاحبِ مشکوٰۃ کی ساری روایتیں ہیں، محدثین و شارحین جو ہوتے ہیں وہ سب حدیثوں کو جمع کرکے پھر اس پر اپنا فیصلہ لکھتے ہیں۔
خیر میں نے مشکوٰۃ شریف کی شرح مرقاۃ منگوائی کہ دیکھیں اس میں اس حدیث کی کیاشرح لکھی ہے کیونکہ اعتراض کرنے والا عالم اور فاضلِ دیوبند تھااور اس نے ہمارے گرم گرم کباب اور گرم گرم پوریوں پر حملہ کیا تھا اور پھر میرے شیخ تک اس بات کا سلسلہ پہنچتا تھا تو میں نے جب شرح کو دیکھا تو مسئلہ حل ہوگیا کہ گرم کھانا بالکل جائز ہے ۔ ملاعلی قاری رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ صحابہ گرم کھانے کو ڈھک کر رکھ دیتے تھے۔

حَتّٰی یَذْھَبَ مِنْہُ غِلْیَانُ الْبُخَارَۃِ وَکَثْرَۃُ الْحَرَارَۃِ

تاکہ کھانے سے بھاپ کا جوش کم ہوجائے اور کثرتِ حرارت میں اعتدال پیدا ہوجائے تاکہ منہ نہ جل جائے، یہ نہیں کہ بالکل ٹھنڈا کرکے کھاؤ، اگر مقصود ٹھنڈا کرنا ہوتا تو ڈھکن اُتار کر رکھتے، اگر مقصود کھانے کی گرمی کو بالکل ختم کرنا ہوتا تو ڈھک کر کیوں رکھتے؟ صحابہ کھانے کو ڈھک کر انتظار کرتے تھے یہاں تک کہ کھانے سے پلاؤ بریانی کباب کچھ بھی ہو اس سے حرارت کی تیزی کم ہوجائے، اگر بہت جلتا ہوا کھاؤگے تو منہ میں چھالے پڑجائیں گے اور پیٹ میں زخم ہوجائے گا تو جب میں نے ملا علی قاری کی یہ روایت اُن فاضلِ دیوبند کے سامنے پیش کی تو وہ مجھ سے بہت خوش ہوئے، کیونکہ مخلص تھے معترض نہیں تھے اور پھر انہوں نے میرا کوئی وعظ نہیں چھوڑا، ہر وعظ میں شریک ہوئے۔

بمبئی میں قاری طیب صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کے خلیفہ صوفی عبد الرحمن صاحب کے لڑکے مولانا ابرارالحق صاحب سے بیعت ہیں، وہ یہ واقعہ سن کر پھڑک گئے کہ اگر حضرت یہ نہ بتاتے تو میں اپنے شیخ کے بارے میں سوچتا کہ یہ گرم کیوں کھاتے ہیں، لیکن آج تو آپ نے ہمارے بزرگوں سے اعتراضات رفع کردئیے۔ یہ ہے علم کی برکت ، کتنے اکابر ہیں جو گرم کھانا کھاتے ہیں بلکہ سارے ہی اکابر گرم کھانا کھاتے ہیں، ٹھنڈا کرکے کوئی نہیں کھاتا۔ ہمارے شیخ شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ نے یہ واقعہ سنایا تھا کہ ایک غیر عارف صوفی کے سامنے جب کھانا آیا جو نہایت شاندار اور بہت مزے دا ر تھا تو اس ظالم نے اس میں ایک لوٹا پانی ڈال دیا اور کہا کہ اے نفس تجھ کو ستا کے رکھوں گا، تجھ کو مزے دار کھانا نہیں کھلاؤں گا، وہیں ایک عارف اور اﷲ والا بیٹھا ہوا تھا اس نے کہا یہ ظالم بے وقوف ہے، اب اسے کیا مزہ آئے گا، زبردستی ٹھونسے گا، دل سے الحمدﷲ نہیں نکلے گا، یہ زبانی شکر کرے گا مگر اس کا قلب اس کی زبان کے ساتھ شامل نہیں ہوگا، اگر یہ عارف ہوتا تو مزے دار کھاتا اور دل سے شکر کرتا۔

یَامُقِیْتُ کے معنیٰ: صوفی عبدالرحمن صاحب ماشاء اﷲ بہت ہی پڑھے لکھے آدمی ہیں انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ مولانا  یَا مُقِیْتُ کے کیا معنیٰ ہیں؟ اﷲ کے ننانوے ناموں میں سے ایک نام  یَا مُقِیْتُ ہے میں نے کہا کہ کتاب دیکھ کر بتاؤں گا، اس وقت مجھے مستحضر نہیں ہے۔ میں رضوان صاحب عطر والے کے یہاں ٹھہرا ہوا تھا، ان کے پاس مشکوٰۃ کی شرح مرقاۃ موجود تھی جس کی جلد نمبر پانچ میں ملا علی قاری نے اﷲ کے ننانوے ناموں کی شرح لکھی ہے، میں نے رات کو کتاب دیکھی تو یَا مُقِیْتُ کے دو معنی لکھے تھے یَا خَالِقَ الْاَقْوَاتِ الْبَدَ نِیَّۃِ  اے جسم کی غذاؤں کے پیدا کرنے والے اور یَا خَالِقَ الْاَرْزَاقِ الْمَعْنَوِیَّۃِ اور اے روح کو رزق پہنچانے والے اور علوم و معرفت پیدا کرنے والے یعنی اﷲ جسم کی غذا کو بھی پیدا کرنے والا ہے اورروح کی غذا کو بھی پیدا کرنے والا ہے یعنی اﷲ کی وہ شان ہے کہ وہ تمام جانداروں کو رزق جسمانی بھی عطا کرتاہے اور انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کرام کو رزقِ روحانی بھی عطا کرتا ہے اور قرب کی دولت سے مالا مال کرتا ہے تو خَالِقُ الْاَقْوَاتِ الْبَدَنِیَّۃِ میں تو کافر بھی شریک ہیں کیونکہ کافر کو بھی خدا رزق دیتا ہے اور خَالِقُ الْاَرْزَاقِ الْمَعْنَوِیَّۃِیہ انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کرام اور مسلمانوں کے لیے خاص ہے۔  تو جب میں نے ان کو یَا مُقِیْتُ کی یہ شرح سنائی تو ان کو مزہ آگیا، کہنے لگے کہ آج کی تقریر بہت عجیب و غریب ہوئی ہے۔

فقہاء کا احسان: محدثین کرام تمام احادیث کو جمع کرتے ہیں اور فقہاء کرام تمام حدیثوں کو جمع کر کے ان سے مسئلہ اخذ کرتے ہیں، جیسے مشکوٰۃ شریف کی روایت میں السلام علیکم و رحمۃ اﷲ و برکاتہٗ سے آگے وَمَغْفِرَتُہٗ کا بھی اضافہ ہے۔ لیکن امام ابوحنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں جسے علامہ شامی نے ردالمحتار میں نقل کیا ہے کہ لاَ یَزِیْدُ الرَّادُّ عَلٰی وَبَرَکَاتُہٗ یعنی وَبَرکَاتُہٗ سے آگے زیادتی نہ کرو، یہ مکروہ ہے ۔ اب اگر کوئی کہے کہ کیا فقہا کو حدیث میں دخل اندازی کی اجازت ہے ؟ نہیں، فقہاء حدیث میں دخل اندازی نہیں کرتے، دوسری حدیث سے اس کو سمجھتے ہیں۔ چنانچہ ائمہ فقہ نے دوسری حدیث پیش کی ہے،ابوداؤد شریف کی  روایت ہے کہ ایک صحابی نے کہا السلام علیکم و رحمۃ اﷲ و برکاتہٗ یا رسول اﷲ تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا و علیکم السلام و رحمۃ اﷲ و برکاتہٗ صحابی نے عرض کیا کہ آپ کچھ اضافہ فرمادیجئے تو ارشاد فرمایا کہ اس نے میرے لیے کچھ بھی نہیں چھوڑا کہ میں اضافہ کرتا۔ اس لیے ہمارے فقہاء حنفیہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث پہلی حدیث کی ناسخ ہے یعنی وبرکاتہ سے آگے اضافہ کرنا جائز نہیں، لہٰذا شامی کی عبارت ہے لاَ یَزِیْدُ الرَّادُّ عَلٰی وَبَرَکَاتُہٗ جب برکاتہ کہہ دو تو آگے زیادہ مت کرو اور بعض لوگ تو اور زیادہ کرتے ہیں یعنی وَمَغْفِرَتُہٗ وَ جَنَّۃُ ٗ مَقَامُہٗ وَ دَوْزَخُ ٗ حَرَامُہٗ پتا نہیں کیا کیا ملاتے جاتے ہیںگویا دین کو بس ایسا سمجھتے ہیں کہ جو چاہو ملاتے چلے جاؤ۔ بھائی دین میں اضافہ مت کرو۔

محبت کی برکت: اسی دوران حضرت والا نے ایک صاحب کے بارے میں دریافت فرمایا کہ آج وہ نہیں آئے؟ اُن کو آنا چاہیے تھا، یہ محبت ہے؟ سبحان اﷲ، سبحان اﷲ، میاں! محبت وہ چیز ہے کہ سخت اندھیرا تھا اور تیز بارش میں بھیگتے ہوئے صحابی حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو تلاش کررہے تھے۔ صحابی خود کہتے ہیں فَاَدْرَکْنَاہُ ہم نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو پالیا ۔ ان کے اس مجاہدہ پر خوش ہوکر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے انہیں ایک وظیفہ بخشا کہ جب تم اتنی تکلیف اٹھا کر آئے ہو تو اب ہم تم کو ایک وظیفہ دیتے ہیں، تینوں قل روزانہ صبح و شام پڑھ لیا کرو، کبھی کسی مخلوق کا شر تم کو نقصان نہ پہنچا سکے گا، کسی مخلوق کا شر تم پر غالب نہ آئے گا، نہ کالا عمل، نہ جادو، نہ جنات، یہ وظیفہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا عطا فرمایا ہوا ہے جو صحابی کے مجاہدہ کی برکت سے ملا۔

تفسیر ِسکینہ: آج دوپہر کو مولانا رشید بزرگ کے ساتھ چند حضرات حاضرِ خدمت ہوئے، گذشتہ رات ایک صاحب کے گھر لڑکی کی ولادت ہوئی جس کا نام حضرت والا نے پہلے ہی تجویز فرمادیا تھا کہ اگر لڑکی ہو تو اس کا نام سکینہ رکھنا۔ چنانچہ انہوں نے عرض کیا کہ اس کا نام سکینہ رکھ دیا ہے۔ حضرت والا نے فرمایا کہ سکینہ کی تفسیر سن لو۔ علامہ آلوسی نے ھُوَ نُوْرُٗ الَّذِیْ اَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ …الخ کی تفسیر میں فرمایا کہ سکینہ کیا ہے؟ ھُوَ یَّسْتَقِرُّ فِی الْقَلْبِ سکینہ ایک نور ہے جو دل میں ٹھہر جاتا ہے وَیَتَخَلَّصُ عَنِ الطَّیْشِ جس کے بعد وہ شخص طیش سے نجات پاجاتا ہے اور طیش کہتے ہیں کہ جب کتا پاگل ہوجاتا ہے تو ایک سمت کو نہیں چلتا، ادھر اُدھر دائیں بائیں چلتا ہے لاَ یَقْصُدُ فِی الْمَشْیِ سِمْتًا وَّاحِدًاجو علامت بے سکونی کی ہے، حاملِ سکینہ بے سکونی سے نجات پاجاتا ہے اور دوسری علامت سکینہ کی یہ ہے وَیَثْبُتُ بِہِ التَّوَجُّہُ اِلَی الْحَقِّ جس کے دل کو سکینہ عطا ہوتا ہے وہ ہر وقت حق تعالیٰ کی طرف متوجہ رہتا ہے، اسی کو نسبت کہتے ہیں۔ مولانا محمد احمد صاحب رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں   ؎

شکر ہے دردِ دل مستقل ہوگیا
اب تو شاید مرا دل بھی دل ہوگیا

محبت کی کرامت: ایک صاحب کی اصلاح کے لیے فرمایا کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ و سلم ارشاد فرماتے ہیں لاَ خَیْرَ فِیْمَنْ لَّا یَأْلَفُ وَلاَ یُؤْلَفُ اُس شخص میں کوئی خیر نہیں ہے جو لوگوں سے محبت نہیں کرتا اور اس کی پاداش میں وہ محبت نہیں کیا جاتا، یعنی لوگوں سے خوش اخلاقی اور محبت نہ کرنے کی سزا اس کو یہ ملتی ہے کہ لوگ بھی اس سے محبت نہیں کرتے۔ کراچی میں ایک مسجد کے امام مظاہر العلوم سہارنپور کے فارغ اور دورہ میں اوّل آنے والے ایک عالم صاحب نے مجھ سے کہا کہ آج کل کے لوگ محبت سے عاری ہیں حتیٰ کہ مقتدی تک محبت نہیں کرتے۔ میں نے کہا کہ آپ ان سے محبت کیجئے، وہ خود آپ سے محبت کرنے لگیں گے۔ کہنے لگے کہ جب وہ محبت نہیں کرتے تو میں کیوں کروں؟ میں نے کہا کہ مولانا حدیث کے الفاظ کی تقدیم و تاخیر بتارہی ہے کہ جو یَأْلَفْ ہوگا وہ  یُؤْلَفْ ہوگا۔ پہلے آپ لوگوں سے محبت کریں پھر آپ محبت کیے جائیں گے۔

محبت بہت بڑی نعمت ہے، میں کیا بتاؤں کہ اس کا کتنا بڑا فائدہ ہوتا ہے، دین پھیلانے میں اس سے ایسی آسانی ہوتی ہے کہ بہت جلد لوگ دین سیکھنے لگتے ہیں۔ دین کے پھیلانے میں محبت سے ایسی مدد ملتی ہے کہ کہہ نہیں سکتا۔ بعض دفعہ مجھ سے بعض لوگ ملنے نہیں آئے تو میں خود ان کے پاس پہنچ گیا، محبت کی چوٹ ایسی ہے کہ آدمی گرویدہ ہوجاتا ہے۔ دشمن بھی ہو تو اس سے بھی سلام دعا کرلو، اس کی دشمنی کا جوش کم ہوجائے گا اور دوستوں کی دوستی میں اضافہ ہوجائے گا۔ دوسری حدیث میں ہے اَلتَّوَدُّ دُ اِلَی النَّاسِ نِصْفُ الْعَقَلِ لوگوں سے محبت کرنا آدھی عقل ہے اور تَوَدُّدُ بابِ تفعل سے ہے جس میں تکلف کی خاصیت ہوتی ہے یعنی اگر کسی سے مناسبت نہ ہو، دل نہ چاہے تب بھی بہ تکلف تم اس سے محبت و خوش اخلاقی سے پیش آؤ، یہ آدھی عقل ہے۔
ایک شخص حضور صلی اﷲ علیہ و سلم کی خدمت میں آرہا تھا، اس کو دیکھ کر حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے فرمایا بِئْسَ اَخُو الْعَشِیْرَۃِ یہ اپنے قبیلہ کا سب سے بُرا آدمی ہے لیکن جب وہ آگیا تو آپ اس سے بہت خوش اخلاقی سے پیش آئے اور اس کی خوب خاطر مدارت فرمائی، جب وہ چلا گیا تو حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ! آپ تو فرما رہے تھے کہ یہ بہت بُرا آدمی ہے لیکن آپ نے تو اس کی خوب خاطر مدارات فرمائی، آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ و سلم نے فرمایا کہ کیا میں بداخلاق ہوجاؤں۔

اَغْنٰی نَفْسَہٗ کی عجیب شرح: ہاں اگر کوئی اپنے مال کی وجہ سے علماء کو حقیر سمجھتا ہے یا باوجود آپ کی محبت کے دشمنی کرتا ہے اور دین نہیں سیکھتا تو ایسوں سے مستغنی ہوجانا چاہئے، حدیث پاک ہے:

{نِعْمَ الرَّجُلُ الْفَقِیْہُ فِی الدِّیْنِ اِنِ احْتِیْجَ اِلَیْہِ نَفَعَ وَ اِنِ اسْتُغْنِیَ عَنْہُ اَغْنٰی نَفْسَہٗ}
(مشکوٰۃ المصابیح،کتاب العلم،ص:۳۶)

دین کا بہترین سمجھدار وہ ہے کہ اگر لوگ اس سے احتیاج ظاہر کریں تو ان کو نفع پہنچائے لیکن اگر اُس سے استغناء ظاہر کریں تو یہ بھی اُن سے مستغنی ہوجائے۔ عام شارحینِ حدیث نے اس کی یہی شرح کی ہے لیکن ملا علی قاری رحمۃ اﷲ علیہ نے اَغْنٰی نَفْسَہٗ کی عجیب شرح فرمائی کہ لوگ اگر اُس سے استغناء کریں اور دین نہ سیکھیں تو یہ اپنے نفس کو اﷲ کے ذکر و عبادت و نوافل کے انوار سے غنی کرلے اور خوب اﷲ کی یاد میں لگ جائے۔ یہ شرح غالباً آپ نے پہلی بار سنی ہوگی۔
لیکن یہ تو معاندین اور ناقدروں کے لیے ہے، عام حالات میں لوگوں کے ساتھ محبت سے پیش آئیے، اسی میں خیر ہے۔ اس کا نفع میں بتا نہیں سکتا کہ دین پھیلانے میں آپ کو کس قدر مدد ملے گی۔ آج یوسف صاحب (جو ایک نو مسلم ہیں) کا فون آیا جس کے لیے ہم مولانا رشید بزرگ کے ساتھ اس کے مالک کے پاس گئے تھے کہ یوسف کو چھٹی دے دے اور وہاں ناشتہ پر کچھ دین کی بات سنانے کی توفیق اﷲ نے مجھے عطا فرمائی۔ یوسف نے آج بتایا کہ وہ کہہ رہے تھے، ان کی بات مجبوراً نقل کررہا ہوں مجھے تو اپنے منہ سے کہتے ہوئے شرم آتی ہے لیکن اگر نہ کہوں تو آپ لوگوں کو کیسے معلوم ہوگا اور آپ لوگوں کو بتانا دینی ضرورت ہے کیونکہ اس سے بعض کا حسنِ ظن بڑھے گا جس سے وہ زیادہ نفع اٹھاسکیں گے تو یوسف نے بتایا کہ وہ یہ کہہ رہے تھے کہ ان کی بات کا میرے اوپر اتنا اثر ہوا کہ میں عنقریب رونے والا تھا اور یہ بھی کہا کہ یہ مولانا بڑے عالم معلوم ہوتے ہیں۔

گناہ کے تقاضوں کا علاج صرف ہمت کا استعمال ہے، ہمت استعمال ہم نہیں کرتے جب ہی گناہ چھوٹتے ہیں ، وظیفوں اور چلّوں سے نہیں چھوٹتے ، اس پر ایک واقعہ بیان فرمایا۔ت

گناہ جو کرتے ہیں وہ اس لئے ہم اپنی ہمت کو استعمال نہیں کرتے بلکہ نفس کی لذت سے مغلوب ہوکر گناہ کرتےہیں ۔ یہ ٹھان لو کہ جان دے دو لیکن اللہ کو ایک لمحہ ناراض نہ کرو! خالی یہ عزم کرنا کہ میں گناہ نہیں کروں گا، یہ کافی نہیں ہے علاج یہ ہے کہ جس طرح جان کی بازی لگا کر جان کو بچاتے ہو اسی طرح ایمان بچانے کے لئے جان کی بازی لگا کر گناہ سے بچو!

گناہ کرنے کا سبب صرف ہمت کی کمزوری ہے

ہر شخص کو گناہ سے بچنے کی ہمت دی ہے پھر گناہوں سے بچنے کا حکم فرمایا ہے

خود ہمت کرنا، ہمت کی دعا کرنا، اور اہل اللہ سے استعمال ہمت کے لئے دُعا کروانا۔

۱) اسباب گناہ سے دوری: گناہ کے ماحول سے الگ ہوجائے، دوری اختیار کرے

۲) ذکر اللہ کی پابندی

۳) اہل کی مصاحبت

یہ چیزیں ہمت کے استعمال کے لئے معین ہے لیکن اصل علاج صرف ہمت کا استعمال ہے

اصلی ذکر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی یعنی گناہ سے بچنا ہے اور اسی کے لئے زبان سے بھی ذکر بتایا جاتا ہے لیکن گناہوں سے بچنا ہی اصل مقصود ہے! اصلی ذاکر وہ ہے جو گناہوں سے بچتا ہے۔

ذکر اللہ کا مقصد یہ ہے کہ نور پیدا ہوجائے اور گناہوں سے بچنے لگ جائے ۔ ۔ ۔ اللہ کے اولیاء صرف وہ ہیں جو گناہوں سے بچتے ہیں۔ ۔ ۔ گناہ سے بچنا مشکل ہے اور عبادت کرنا مزیدار ہے،گناہ سے بچنے میں تکلیف ہوتی ہے اور عبادت میں مزہ آتا ہے، عبادت تو آسان ہے گناہ سے بچنا مشکل ہے۔

اللہ کے راستے میں ہر ایک کے مجاہدات الگ ہیں ، اس ضمن میں ایک حکایت بیان فرمائی۔

جس کی جتنی قربانی اُتنی خدا کی مہربانی، جتنی قربانی دیتا ہے اُتنا ہی محبوب ہوجاتا ہے

گناہوں کے تقاضوں کو گناہوں کے تقاضوں کو دبانے سے خدا ملتا ہے

گناہوں کے تقاضوں کو جتنا دباؤ گے اتنا ہی اللہ کا قرب نصیب ہوگا۔

اللہ  کی محبت اور قرب کے شربت کی مٹھاس اور مزہ لاثانی ہے۔۔۔۔ایک ولی بھی دوسرے ولی کے کیفیتِ احسانی ، لذتِ قرب کو نہیں پہچان سکتا، صرف اندازہ ہوسکتا ہے صحیح اور تفصلی اندازہ نہیں ہوسکتا۔

باطنی کیفیات بقدرِ تقویٰ ملتی ہیں۔

جتنے جس میں تقاضے زیادہ ہوں گے اُتنا اُس کو دبانے سے اللہ کا قرب نصیب ہوگا۔

ری یونیں میں حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ  نے جب عشقِ مجازی کی تباہ کاریوں اور بدنظری کے مضموں کو بیان فرمایا تو وہاں کے نوجوانوں نے کہا کہ حضرت ہمیں اس ہی مضمون کی ضرورت تھی آپ کے بیان سے ہماری جوانیاں بچ گئیں۔

دعائے انس رضی اللہ عنہ ، دعائے ابو دردہ رضی اللہ عنہ، اور تینوں قل ہر شخص پڑھنے کا معمول بنالے پھر بے دھڑک گھومو ہر آفت سے محفوظ رہو گے۔ اس پر چند واقعات بیان فرمائے  ۔ ۔ ۔ ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے اس میں تو کوئی شک ہو نہیں سکتا۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries