اتوار مجلس۱۱۔ مئی۲۰۱۴ء حاصلِ تصوف صرف گناہوں کو چھوڑنا ہے!

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں(کلک کریں)

خلاصۂ مجلس:محبی و محبوبی مرشدی و مولائی حضرت والا دامت برکاتہم مجلس میں تشریف فرما تھے، جناب اثر صاحب دامت برکاتہم حاضرِ خدمت تھے حضرت والا نے اِن کو اشعار سنانے کا فرمایا، انہوں نے اپنے کئی اشعار سنائے۔۔۔۔ خوب داد لی، اشعار کے اختتام پر حضرت والا نے جناب شاہین اقبال اثرؔ صاحب دامت برکاتہم کی تعریف فرمائی:

ارشاد فرمایا: یہ حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت کا اثر ہے کہ اثرؔصاحب کے اشعار خالی اشعار نہیں ہیں اِن میں نسبت مع اللہ کا وزن معلوم ہوتا ہے، وہ نسبت جو حضرت کی صحبت سے ان کو عطا ہوئی وہ الفاظ میں ظاہر ہوگئی اس کو کوئی اور شاعر بیان نہیں کرسکتا یہ تو دل کی بات ہے دل تک پہنچتی ہے، یہ شعر ادب کے دائرے سے باہر کی چیز ہے اور ساری ادب کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے، ادب اس کی غلامی کرتا ہوا نظر آتا ہے اور یہ صحبت کا اثر ہے۔ ماشاء اللہ!

ایک بات اور میں کہنا چاہ رہا ہوں کہ اثر صاحب کی محبت میرے ساتھ علی الاعلان ہے ایسی علی الاعلان محبت صرف چند لوگوں سے کی، بلکہ اِن کو تو  اس اعلانِ محبت کرنے میں بہت سے خطرات  بھی تھے ؎

در ره منزل ليلي که خطرهاست در آن
شرط اول قدم آن است که مجنون باشی

لیلیٰ کے راستے میں بہت سے خطرے ہیں لیکن شرط پہلی یہ ہے کہ تم مجنوں بن جاؤ، بس مجنوں بن گئے تو پھر کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اس لئے تمام خطروں سے بےنیاز ہوکے انہوں نے یہ اعلان محبت کیا۔

دوسری ایک یہ بات کہ حضرت والا نے ایک آیت سے استدال فرمایا تھا کہ پہلے نبی کے بعد جو دوسرے نبی سے تعلق کرتے ہیں یعنی ایک نبی کا زمانہ ختم ہوا جیسے سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کوئی نبی آگئے تو انہوں نے دونوں نبیوں کے زمانے پائے تو اُن کو ڈبل اجر ہے، اس آیت سے حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ نے یہ استدال فرمایا تھا کہ شیخ اول سے زیادہ محبت ہوتی ہے اُس کے بعد دوسرے شیخ سے تعلق کرنا آسان نہیں ہے۔ کیونکہ پہلے شیخ کی عظمت اور شان دل میں کچھ اور ہی ہوتی ہے۔ پھر دوسرے شیخ سے تعلق کرنا اور اپنے آپ کو مٹانا اس لئے ڈبل اجر ہے ان شاءاللہ تعالیٰ!

اثر صاحب کا بھی یہی معاملہ ہے، حضرت والا جیسے آفتاب و مہتاب کے ہوتے ہوئے ایک ذرے کو اپنا بڑا بنانا جو آفتاب دیدہ نگاہیں ہیں اور وہ ایک ذرے سے متاثر ہوں اور ذرے کو آفتاب بنادیں بس اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے حُسنِ ظن کے مطابق معاملہ فرمائیں!

میں کہہ رہا ہوں کہ یہ مشکل کام ہے ؎

عشق معشوقان نهان است و ستیر
عشق عاشق با دو صد طبل و نفیر

عاشق کا عشق سینکڑوں طبل کے ساتھ علی الاعلان ہوتا ہے، اور معشوق بھی عشق رکھتے ہیں لیکن چھپا ہوا ہوتا ہے ظاہر نہیں کرتے، عاشق کی شان ہی کچھ اور ہوتی ہے اس لئے عاشق بنو معشوق نہ بنو!  یہ اثر صاحب تو اُس وقت سے حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ سے عاشقانہ تعلق رکھتے تھے جب کہ اِن کی داڑھی مونچھ بھی نہیں آئی تھی جب سے ہی یہ حضرت والا کی خدمت و صحبت میں آگئے تھے اور اشعار بھی اُسی وقت سے کہتے تھے۔

جناب اثر صاحب کے عاشقانہ تعلق کو بیان کرتے ہوئے فرمایا : کہ یہ جس مسجد میں نماز پڑھتے تھے اُس مسجد کے امام نے حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کی شان میں کچھ بے ادبی کردی، اِن کو پتہ چلا یہ اُس وقت چھوٹے تھے داڑھی بھی نہیں آئی تھی ، امام صاحب نے جا کر کہا کہ یہ آج میں نے سنا ہے کہ آپ نے حضرت کی شان میں بے ادبی کی ہے، اب اگر آئندہ آپ نے ایسی بات کی تو میں آپ کا منہ توڑ دوں گا ۔ ۔ ۔ یہ معمولی بات تھوڑی ہے

میں تو اللہ تعالیٰ کا اتنا شکر ادا کرتا ہوں کہ جو حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کے اخص الخواص اور جتنے بھی خاص محبت کرنے والے تھے وہ میرے دوست بن گئے دوست تو پہلے بھی تھے اب اور زیادہ دوستی کو قائم رکھا اور بڑھایا اِس پر میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں اور اپنی نجات کا ذریعہ سمجھتا ہوں کہ اے اللہ یہ تیرے پیارے بندے جو ہمارے نظر میں اقرب الی الیقین یہ ہے کہ یہ آپ کے پیارے ہیں وہ مجھ سے محبت کررہے ہیں! میں قیامت کے دن یہی عرض کردوں گا کہ اے اللہ  آپ کے پیاروں سے مجھ سے پیار کیا تھا، مجھے پیار کی نظر سے دیکھا تھا اُس نظر کی بدولت مجھے بخش دیجئے، جو آپ کے سب سے پیاروں کے پیارے تھے انہوں نے بھی محبت اور پیار کی نظر سے دیکھا پھر اُن کے جو پیارے تھے انہوں نے بھی پیار کی نظر سے دیکھا ہے اس کی برکت سے مجھے بخش دیجئے!

جنہوں نے حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت اُٹھائی اُن کے کلام میں، تقریر میں، وعظ میں زمین آسمان کا فرق ہے اورایک جنہوں نہیں اُٹھائی خالی لفاظی ہیں اگرچہ وہ لکھتے ہیں کہ حضرت والا کو رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہوئے دل کانپتا ہے لیکن ۔۔۔۔ دل نہیں کانپتا ہوا نظر آتا الفاظ کانپتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ تو یہی فرق ہوتا ہے! اب اِس کو وہی پہچان سکتے ہیں جنہوں نے اہل اللہ کی صحبت اُٹھائی ہے کہ الفاظ میں معانی میں کیا فرق ہوتا ہے ؎

خرد    تعبیر   کرتی   ہے  معانی

محبت کہتی ہے  دل   کی    کہانی

کہاں پاؤں گے صدرا  بازغہ  میں

نہاں جو غم ہے دل کے حاشیہ میں

ملفوظاتِ معارفِ ربانی

دھوکہ باز تاجر: ارشاد فرمایا کہ حکیم الامت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی تاجر یعنی بزنس مین آپ کو نمونہ اچھا دکھائے اور مال خراب بھجوادے تو آپ کبھی اس کی گلی میں بھی نہیں جائیں گے اور سات پشت کو وصیت کردیں گے کہ یہ تاجر نہایت خطرناک اور دھوکہ باز ہے، اس سے کبھی مال مت خریدنا کہ یہ نمونہ اچھا دِکھاتا ہے اور مال خراب دیتا ہے۔ مجدد زمانہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ شیطان مردود حسینوں کے گورے گال اور کالے بال اور آنکھیں دِکھاتا ہے لیکن بعد میں کہاں پہنچاتا ہے؟ تم کو پیشاب اور پاخانہ کے گندے مقامات پر۔ بولیے کہ نمونہ کیا دِکھایا اور پہنچایا کہاں، دِکھایا بال اور گال اور پیش کیا گندا مال۔ تو یہ شیطان کتنا دھوکہ باز تاجر ہے مگر افسوس ہے کہ جتنے بزنس مین ہیں سب دھوکہ بازوں سے بچ گئے مگر شیطان سے نہ بچے الا ماشاء اﷲ۔ بار بار اس کے دھوکہ میں آکر حسینوں سے دل لگاتے ہیں۔
 اس لیے کہتا ہوں کہ اگر شیطان مردود کے دھوکہ سے بچنا ہے تو نظر کی سختی سے حفاظت کیجیے ورنہ شیطان کے نمونہ سے دھوکہ کھاجائیں گے۔ اسی لیے میں حفاظتِ نظر کا مضمون زیادہ بیان کرتا ہوں کیونکہ جہاں کالرا پھیلا ہو وہاں نزلہ زکام کی دوا دینا حماقت ہے۔ ری یونین اور سائوتھ افریقہ وغیرہ ممالک میں جہاں عریانی عام ہے اور بد نظری کا کالرا پھیلا ہوا ہے وہاں کالرا کا انجکشن لگائیں گے یا زکام کی دوا پلائیں گے؟ اس دور کا سب سے بڑا مرض یہی ہے اس لیے میں روزانہ اس کو اسی لیے بیان کرتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو نظر کی حفاظت کی توفیق عطا فرمائیں

خصوصاً جہاں عورتیں ٹانگیں کھولے ہوئے پھر رہی ہوں لہٰذا جیسے ہی کوئی عورت سامنے آئے تو ﷲ سے کہو کہ یا ﷲ اس پر اچانک نظر پڑ گئی آپ معاف فرمادیجیے، زبان سے توبہ کے الفاظ ضرور کہو چاہے دل اندر سے مزہ لے رہا ہو، یہ زبان کا استغفار بھی ان شاء اﷲ قبول ہوجائے گا کیونکہ اﷲ جانتا ہے کہ دل پر اس بندہ کا اختیار نہیں، زبان پر اختیار ہے تو زبان سے استغفار کر رہا ہے جیسے کسی کے دل میں بتوں کا عشق ہے لیکن زبان سے کہتا ہے کہ میں اﷲ پر ایمان لاتا ہوں تو یہ مسلمان ہے اگر چہ دل ساتھ نہیں دے رہا کیونکہ بندہ غیر اختیاری چیز کا مکلّف نہیں اسی طرح باوجود پوری کوشش کے ہمارے دل کا حرام لذت چرا لینا ہمارے اختیار میں نہیں ہے لیکن یہ اختیار میں ہے کہ اس حرام لذت کو قے کردو، زبان سے توبہ و استغفار کرو، اﷲ کے غضب کو اور دوزخ کو یاد کرو، قبر کا مراقبہ کرو کہ قبر میں ان حسینوں کا کیا حال ہوگا اور خود ہمارے اعضاء کا کیا حال ہوگا، عاشق و معشوق سب خاک ہوجائیں گے

خاک ہوجائیں گے قبروں میں حسینوں کے بدن
ان کے ڈسٹمپر کی خاطر راہ پیغمبر نہ چھوڑ

حاصلِ سلوک: ارشاد فرمایا کہ سارے سلوک و تصوف کا اور ساری خانقاہوں اور تمام اذکار و اشغال کا حاصل گناہ چھوڑنا ہے اگر انسان اہل اﷲ کی صحبت میں رہے، خانقاہ میں زندگی گذارے لیکن گناہ سے نجات نہیں پارہا ہے تو ابھی اسے حاصلِ سلوک نہیں ملا۔ سلوک و تصوف کا حاصل یہی ہے کہ انسان سر سے پیر تک اﷲ کا ہوجائے۔ ایک بزرگ فرماتے ہیں۔

نہیں ہوں کسی کا تو کیوں ہوں کسی کا
اُنہی کا اُنہی کا ہوا جارہا ہوں

جن کا ہوں اُنہی کا ہوا جارہا ہوں، پیدا تو اﷲ نے کیا، پھر دوسروں پر کیوں مروں۔ جس نے مجھے وجود بخشا ہے اسی پر مروں گا، میں اﷲ کو ناراض نہیں کرسکتا۔ بس جس کو یہ بات حاصل ہوگئی اور گناہ چھوڑ دئیے وہ حاصلِ سلوک پاگیا۔ لیکن یہ نعمت بزور دست و بازو نہیں ملتی اﷲ کے فضل سے ملتی ہے۔ اس لیے اﷲ سے روتے رہو، مانگتے رہو لیکن تدبیر میں کمی نہ کرو۔ جب ان کا فضل ہوگیا تو بڑے بڑے چور اور ڈاکو تائب ہوگئے، بڑے بڑے رند بادہ نوش توبہ کرکے ایک آہ میں اﷲ تک پہنچ گئے۔ مولانا رومی بہت بڑے شخص ہیں فرماتے ہیں   ؎

اے ز تو کس گشتہ جان ناکساں
دست فضل تست در جانہا رساں

اے خدا! بہت سے نالائق لوگ آپ کی رحمت سے لائق بن گئے، آپ کی رحمت و مہربانی کا ہاتھ ہماری جانوں میں ہے، آپ بس ارادہ کرلیں کہ اس بندہ کو ولی بنانا ہے پھر سب اخلاقِ ولایت اور اعمالِ ولایت خود ہی ملنے لگیں گے۔ حکومت جب کسی کو ڈپٹی کمشنر بناتی ہے تو فیصلہ کرتی ہے کہ اس کو ڈپٹی کمشنر بنایا گیا۔ بعد میں اس کو بنگلہ ملتا ہے، بعد میں موٹر ملتی ہے، بعد میں موٹر پر جھنڈا ملتا ہے اور بعد میں سرکاری سیکوریٹی اور پولیس اس کے بنگلہ پر آتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ بھی اپنے بندے کو اپنا ولی بنانے کا فیصلہ پہلے کرتے ہیں پھر اس کو اخلاقِ ولایت اور اعمالِ ولایت عطا فرماتے ہیں یعنی نیک اعمال کی توفیق، اہل اﷲ کی محبت وغیرہ تمام لوازم بعد میں ملتے ہیں۔ مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں   ؎ 

سن لے اے دوست! جب ایام بھلے آتے ہیں
 گھات ملنے کی وہ خود آپ ہی بتلاتے ہیں

جس کی قسمت اچھی ہونے والی ہوتی ہے اﷲ خود اس کے دل میں ڈالتے ہیں کہ اﷲ کیسے ملے گا اور کہاں سے ملے گا۔ میرے شیخ شاہ عبدالغنی صاحب فرماتے تھے کہ مٹھائی ملتی ہے مٹھائی والوں سے، کباب ملتا ہے کباب والوں سے، کپڑا خریدتے ہو کپڑا والوں سے، امرود ملتا ہے امرود والوں سے، آم ملتا ہے آم والوں سے، انسان دنیا میں وہیں جاتا ہے جہاں اس کا والا ہوتا ہے لیکن اﷲ کو حاصل کرنے کے لیے نہیں پوچھتا کہ اﷲ کہاں سے ملے گا۔ خوب سمجھ لو کہ جب ہر چیز اس کے والے سے ملتی ہے تو اﷲ بھی اﷲ والوں سے ملتا ہے۔ کتاب پڑھ کر کیا کباب مل جائے گا؟ کتاب پڑھنے سے کیا مٹھائی مل جائے گی؟ تو صرف کتاب پڑھنے سے اﷲ بھی نہیں مل سکتا۔ اسی لیے بعض لوگوں نے کتابیں نہیں پڑھیں مگر اﷲ والوں کے پاس پہنچ گئے وہ ولی اﷲ ہوگئے اور بعضوں نے بہت کتابیں پڑھیں مگر اﷲ والوں سے نہ ملے لہٰذا ان کو اﷲ نہیں ملا کیونکہ علم پر عمل کی توفیق اہل اﷲ کی صحبت ہی سے ملتی ہے۔

اسبابِ گناہ سے دوری ضروری ہے: فرمایا کہ ایک بہت نصیحت کی بات عرض کرتا ہوں کہ اہل اﷲ کی صحبت اور ذکر اﷲ کی کثرت کے ساتھ ساتھ جہاں تک ہوسکے اسبابِ گناہ سے دور رہیے ورنہ جہاں کیچڑ زیادہ ہوتی ہے تو ہاتھی بھی پھسل جاتا ہے اور جہاں اسبابِ گناہ سے دوری میں مجبوری ہو کہ مثلاً ٹکٹ خریدنا ہے اور لڑکی ٹکٹ دے رہی ہے تو نگاہ کو بہت ہمت سے بچائیے اور کثرت سے یا حی یا قیوم پڑھیے کہ اس میں اسمِ اعظم ہے۔ ان دونوں ناموں سے ہی دنیا قائم ہے۔ یہ زمین و آسمان چاند و سورج اور ستارے، پورا نظامِ شمسی اور نظامِ قمری انہی دو ناموں سے قائم ہے۔   یَا حَیُّ کے معنیٰ ہیں اَیْ اَزَلاً اَبَدًا وَّ حَیَاتُ کُلِّ شَیْئٍ بِہٖ مُؤَبَّدًا یعنی ہر شیٔ اور ہر ذرّۂ کائنات کی حیات اس نام سے قائم ہے اور قیوم کے معنی ہیں قَائِمُہٗ بِذَاتِہٖ وَ یُقَوِّمُ غَیْرَہٗ بِقُدْرَتِہِ الْقَاہِرَۃِ جو اپنی ذات سے قائم ہے اور پوری کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے۔ لہٰذا جب دیکھئے کہ کوئی عورت یا لڑکی سامنے آرہی ہے یا کوئی گاہک آپ سے سامان خریدنے آرہی ہے تو فوراً  یَا حَیُّ  یَاقَیُّوْمُ  کا وِرد شروع کردو کہ اے سارے عالم کو سنبھالنے والے! میرے دل کو سنبھال دیجیے لیکن جب وہ چلی جائے اور نگاہ کی حفاظت بھی کرلی ہو پھر بھی استغفار کرلو کیونکہ نفس کا مزاج ایسا ہے کہ جیسے آپ گلاب جامن کھارہے ہیں اور اس پر مکھی بیٹھ گئی تو اگر آپ فوراً اڑا دیں لیکن پھر بھی کچھ نہ کچھ ذرّہ وہ لے جائے گی۔ نفس کا مزہ بھی ایسا ہی ہے کہ اگر ایک سیکنڈ کے لیے بھی کوئی عورت آگئی تو نفس حرام لذت کا کچھ نہ کچھ ذرّہ ضرور چرالے گا لہٰذا اس کے جانے کے بعد اﷲ سے کہو کہ اے اﷲ میں بشر ہوں اور چور بھی ہوں، میرے نفس نے جو حرام مال آپ کی ناخوشی کی راہ سے چرالیا اور جو خوشی میرے دل میں آئی آپ کی ناخوشی کی راہ سے آئی ہے میں اس خوشی سے خوش نہیں ہوں کیونکہ ہماری وہ خوشی ملعون خوشی ہے جو آپ کو ناخوش کرکے ہم نے حاصل کی۔ جو بندہ اپنے مالک اور خالق کو خوش کرکے خوش ہو وہ شرافت کی خوشی اور جو بندہ اور غلام اپنے مالک کو ناخوش کرکے اپنے دل میں حرام خوشی محسوس کررہا ہے یہ خبیث الطبع ہے، بے غیرت ہے، بے حیاء ہے لہٰذا معافی مانگئے اور معافی مانگنے سے نہ گھبرائیے جہاں آندھی زیادہ چلتی ہے وہاں روزانہ کپڑا بدلنا پڑتا ہے لہٰذا روزانہ دوکانوں پر اور سڑکوں پر کثرت سے استغفار کیجیے اور رات کو گھر جاکر دو نفل پڑھ کر معافی مانگئے۔ یہ روح کی صفائی کی ون ڈے سروس ہے۔ غرض ہر لمحہ اﷲ کو خوش رکھنے کا اہتمام کیجیے۔

تشریح میں فرمایا: یہ ری یونین کا وعظ ہے جہاں ہمہ وقت، چاروں طرف فحاشی اور عریانی ہے، وہاں حضرت والا نے یہ کیسے عجیب نسخے عطا فرمائے ہیں ، یہ الہامی نسخے ہیں

وہاں حضرت مولانا مسیح اللہ خان صاحب سے تعلق رکھنے والے ایک بزرگ اللہ والے تھے اُن کی دکان تھی نیچے دکان اور اوپر گھر تھا تو جب حضرت دُکان سے گذرے تو دیکھا کہ وہاں انہوں نے لڑکیوں کو نوکر رکھا ہوا ہے تو حضرت والا اوپر تشریف لے گئے حضرت والا تو ایسے وقت نصیحت ضرور فرماتے تھے اگرچہ وہ حضرت سے تعلق نہیں رکھتے تھے لیکن اعتقاد تھا توحضرت نے اُن سے فرمایا : مولانا یہ جو آپ نے لڑکیاں رکھی ہوئیں ہیں، آپ تو چونکہ اللہ والوں کے صحبت یافتہ ہیں، آپ تو محفوط رہیں گے اِن سے لیکن آپ کی اولاد کے ایمان کو یہ لڑکیاں کھا جائیں گی، آپ فوراً اِن کو الگ کرکے لڑکوں کو رکھ لیں تو وہ اللہ والے تھے بات مان گئے تو دوسری سال  جب حضرت تشریف لے گئے تو انہوں نے سب لڑکے ملازم رکھ لئے تھے۔

تو وہاں ایسی فضاء ہے کہ دین دار بھی اُس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہے، دیندارہیں ، اللہ والے ہیں حافظ ہیں اپنی بیویوں کو دکان پر بیٹھا رکھا ہے کہ گاہک آتے تھے وہ اُن سے پیسہ لیتی ہے۔ تو اییسے ماحول میں حضرت والا نے ایسے ایسے نسخے بتائے کہ وہاں کے لوگوں کے کہا کہ آپ نے ہمیں نئی زندگی دے دی! وہ تو بالکل اِس کو گناہ ہی نہیں سمجھتے تھے۔

آخر میں فرمایا: میں وللہ کہتا ہوں کہ میں سوچ کر مجلس میں نہیں آتا لیکن ان باتوں سے مجھے خود مزہ آرہا ہے، پتہ نہیں کیا وجہ ہے کہ اِن باتوں سے دل میں ابھی تک حلاوت محسوس ہورہی ہے، اس کو محفوظ کرلو! اُس میں کوئی مفید بات ہے کہ میرا دل اُس سے خوش ہورہا ہے اور جو باتیں بیان ہوئیں میں قسم کھاتاہوں کہ نہ کچھ سوچتا ہوں بس حضرت والا نے بتا دیا تھا کہ دُعا مانگ کر بس بیٹھ جایا کرو! حضرت تو اتنے بڑے عالم تھے، ہمارے پاس تو نہ علم ہے نہ عمل ہے، بس اپنے بزرگوں کا واسطہ دے کر بیٹھتا ہوں اور میرے تو اور کوئی بزرگ بھی نہیں بس حضرت ہی کا واسطہ دے کر بیٹھ جاتا ہوں تو آج ایسا مضمون بیان ہوا کہ اُس کی لذت ابھی تک مجھے محسوس ہورہی ہے!۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries