مجلس۱۲۔ مئی۲۰۱۴ء گناہ کا اظہار بھی گناہ ہے!

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں(کلک کریں)

خلاصۂ مجلس:محبی و محبوبی مرشدی و مولائی حضرت والا دامت برکاتہم کی آمد میں تاخیر تھی، حضرت والا نے پیغام بھجوایا کہ مولانا ابراہیم کشمیری صاحب کو اشعار سنائیں انہوں نے اپنی پرسوز آواز میں جناب اثر صاحب کے اشعار سنائے۔ پھر حضرت والا کے حکم سے حضرت والا شیخ العرب والعجم مجددِ عصر عارف باللہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ کے سفرِ ری یونین کے ملفوظات کا مجمومہ معارفِ ربانی سے جناب ممتاز صاحب نےملفوظات پڑھ کر سنانے شروع کیے آج کی مجلس تقریباً ۱ گھنٹےتک جاری رہی۔۔

اہم ملفوظات

اگر کوئی تعریف کرے تو یہ سوچو کہ یہ اللہ تعالیٰ کے پردۂ ستاریت کی تعریف ہورہی ہے

 یہ جو میری تعریف ہورہی ہے ہمارے عیبوں کو چھپا لیا اور نیکیوں کو ظاہر فرما دیا اس پر شکر ادا کرے اور یہ مطلوب بھی ہے

زنا حقوق العباد نہیں ہے، بلکہ حقوق اللہ ہے، اس پر ایک

زنا کا اقرار کرنے سے بہتر انکار ہے، چار گواہ رکھے ہیں، اللہ تعالیٰ جانتے تھے کہ یہاں زیادہ مغلوبیت کا امکان ہے، چار آدمی گواہ ایسے دیکھیں کہ وہ فعل

ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اعتراف قصور کا واقعہ بیان فرمایا کہ صحابہ کرام پر

گناہ کا اظہار بھی گناہ ہے، انکار ضروری ہے، شیخ کو بتائے صرف علاج کی خاطر، کیونکہ اپنے خلاف گناہوں کی تعداد بڑھا رہا ہے۔

ملفوظاتِ معارف ربانی

حاصلِ سلوک: ارشاد فرمایا کہ سارے سلوک و تصوف کا اور ساری خانقاہوں اور تمام اذکار و اشغال کا حاصل گناہ چھوڑنا ہے۔ اگر انسان اہل اﷲ کی صحبت میں رہے، خانقاہ میں زندگی گذارے لیکن گناہ سے نجات نہیں پارہا ہے تو ابھی اسے حاصلِ سلوک نہیں ملا۔ سلوک و تصوف کا حاصل یہی ہے کہ انسان سر سے پیر تک اﷲ کا ہوجائے۔ ایک بزرگ فرماتے ہیں   ؎

نہیں ہوں کسی کا تو کیوں ہوں کسی کا
اُنہی   کا   اُنہی   کا   ہوا   جا رہا  ہوں

جن کا ہوں اُنہی کا ہوا جارہا ہوں، پیدا تو اﷲ نے کیا، پھر دوسروں پر کیوں مروں۔ جس نے مجھے وجود بخشا ہے اسی پر مروں گا، میں اﷲ کو ناراض نہیں کرسکتا۔ بس جس کو یہ بات حاصل ہوگئی اور گناہ چھوڑ دئیے وہ حاصلِ سلوک پاگیا۔ لیکن یہ نعمت بزور دست و بازو نہیں ملتی اﷲ کے فضل سے ملتی ہے۔ اس لیے اﷲ سے روتے رہو، مانگتے رہو لیکن تدبیر میں کمی نہ کرو۔ جب ان کا فضل ہوگیا تو بڑے بڑے چور اور ڈاکو تائب ہوگئے، بڑے بڑے رند بادہ نوش توبہ کرکے ایک آہ میں اﷲ تک پہنچ گئے۔ مولانا رومی بہت بڑے شخص ہیں فرماتے ہیں   ؎

اے ز تو کس گشتہ جان ناکساں
دست فضل تست در جانہا رساں

اے خدا! بہت سے نالائق لوگ آپ کی رحمت سے لائق بن گئے، آپ کی رحمت و مہربانی کا ہاتھ ہماری جانوں میں ہے، آپ بس ارادہ کرلیں کہ اس بندہ کو ولی بنانا ہے پھر سب اخلاقِ ولایت اور اعمالِ ولایت خود ہی ملنے لگیں گے۔ حکومت جب کسی کو ڈپٹی کمشنر بناتی ہے تو فیصلہ کرتی ہے کہ اس کو ڈپٹی کمشنر بنایا گیا۔ بعد میں اس کو بنگلہ ملتا ہے، بعد میں موٹر ملتی ہے، بعد میں موٹر پر جھنڈا ملتا ہے اور بعد میں سرکاری سیکوریٹی اور پولیس اس کے بنگلہ پر آتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ بھی اپنے بندے کو اپنا ولی بنانے کا فیصلہ پہلے کرتے ہیں پھر اس کو اخلاقِ ولایت اور اعمالِ ولایت عطا فرماتے ہیں یعنی نیک اعمال کی توفیق، اہل اﷲ کی محبت وغیرہ تمام لوازم بعد میں ملتے ہیں۔ مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں   ؎ 

سن لے اے دوست! جب ایام بھلے آتے ہیں
 گھات ملنے کی وہ خود آپ ہی بتلاتے ہیں

جس کی قسمت اچھی ہونے والی ہوتی ہے اﷲ خود اس کے دل میں ڈالتے ہیں کہ اﷲ کیسے ملے گا اور کہاں سے ملے گا۔ میرے شیخ شاہ عبدالغنی صاحب فرماتے تھے کہ مٹھائی ملتی ہے مٹھائی والوں سے، کباب ملتا ہے کباب والوں سے، کپڑا خریدتے ہو کپڑا والوں سے، امرود ملتا ہے امرود والوں سے، آم ملتا ہے آم والوں سے، انسان دنیا میں وہیں جاتا ہے جہاں اس کا والا ہوتا ہے لیکن اﷲ کو حاصل کرنے کے لیے نہیں پوچھتا کہ اﷲ کہاں سے ملے گا۔ خوب سمجھ لو کہ جب ہر چیز اس کے والے سے ملتی ہے تو اﷲ بھی اﷲ والوں سے ملتا ہے۔ کتاب پڑھ کر کیا کباب مل جائے گا؟ کتاب پڑھنے سے کیا مٹھائی مل جائے گی؟ تو صرف کتاب پڑھنے سے اﷲ بھی نہیں مل سکتا۔ اسی لیے بعض لوگوں نے کتابیں نہیں پڑھیں مگر اﷲ والوں کے پاس پہنچ گئے وہ ولی اﷲ ہوگئے اور بعضوں نے بہت کتابیں پڑھیں مگر اﷲ والوں سے نہ ملے لہٰذا ان کو اﷲ نہیں ملا کیونکہ علم پر عمل کی توفیق اہل اﷲ کی صحبت ہی سے ملتی ہے۔

اسبابِ گناہ سے دوری ضروری ہے: فرمایا کہ ایک بہت نصیحت کی بات عرض کرتا ہوں کہ اہل اﷲ کی صحبت اور ذکر اﷲ کی کثرت کے ساتھ ساتھ جہاں تک ہوسکے اسبابِ گناہ سے دور رہیے ورنہ جہاں کیچڑ زیادہ ہوتی ہے تو ہاتھی بھی پھسل جاتا ہے اور جہاں اسبابِ گناہ سے دوری میں مجبوری ہو کہ مثلاً ٹکٹ خریدنا ہے اور لڑکی ٹکٹ دے رہی ہے تو نگاہ کو بہت ہمت سے بچائیے اور کثرت سے یا حی یا قیوم پڑھیے کہ اس میں اسمِ اعظم ہے۔ ان دونوں ناموں سے ہی دنیا قائم ہے۔ یہ زمین و آسمان چاند و سورج اور ستارے، پورا نظامِ شمسی اور نظامِ قمری انہی دو ناموں سے قائم ہے۔   یَا حَیُّ کے معنیٰ ہیں اَیْ اَزَلاً اَبَدًا وَّ حَیَاتُ کُلِّ شَیْئٍ بِہٖ مُؤَبَّدًا یعنی ہر شیٔ اور ہر ذرّۂ کائنات کی حیات اس نام سے قائم ہے اور قیوم کے معنی ہیں  

قَائمبِذَاتِہٖ وَ یُقَوِّمُ غَیْرَہٗ بِقُدْرَتِہِ الْقَاہِرَۃِ جو اپنی ذات سے قائم ہے اور پوری کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے۔ لہٰذا جب دیکھئے کہ کوئی عورت یا لڑکی سامنے آرہی ہے یا کوئی گاہک آپ سے سامان خریدنے آرہی ہے تو فوراً  یَا حَیُّ  یَاقَیُّوْمُ  کا وِرد شروع کردو کہ اے سارے عالم کو سنبھالنے والے! میرے دل کو سنبھال دیجیے لیکن جب وہ چلی جائے اور نگاہ کی حفاظت بھی کرلی ہو پھر بھی استغفار کرلو کیونکہ نفس کا مزاج ایسا ہے کہ جیسے آپ گلاب جامن کھارہے ہیں اور اس پر مکھی بیٹھ گئی تو اگر آپ فوراً اڑا دیں لیکن پھر بھی کچھ نہ کچھ ذرّہ وہ لے جائے گی۔ نفس کا مزہ بھی ایسا ہی ہے کہ اگر ایک سیکنڈ کے لیے بھی کوئی عورت آگئی تو نفس حرام لذت کا کچھ نہ کچھ ذرّہ ضرور چرالے گا۔

کتنی باریک بات ہے یہ شیخ کامل کی شان ہے، اس مرض کی باریکیوں سے کوئی حضرت والا سے بچ نہیں سکتا تھا، اس پر ایک صاحب کا واقعہ بیان فرمایا۔

نفس کا بھروسہ نہیں ہے، پہلے متاثر اُس کے بعد دوسری باتیں شروع  ہوتی نہیں ہیں۔

لہٰذا اس کے جانے کے بعد اﷲ سے کہو کہ اے اﷲ میں بشر ہوں اور چور بھی ہوں، میرے نفس نے جو حرام مال آپ کی ناخوشی کی راہ سے چرالیا اور جو خوشی میرے دل میں آئی آپ کی ناخوشی کی راہ سے آئی ہے میں اس خوشی سے خوش نہیں ہوں کیونکہ ہماری وہ خوشی ملعون خوشی ہے جو آپ کو ناخوش کرکے ہم نے حاصل کی۔ جو بندہ اپنے مالک اور خالق کو خوش کرکے خوش ہو وہ شرافت کی خوشی اور جو بندہ اور غلام اپنے مالک کو ناخوش کرکے اپنے دل میں حرام خوشی محسوس کررہا ہے یہ خبیث الطبع ہے، بے غیرت ہے، بے حیاء ہے لہٰذا معافی مانگئے اور معافی مانگنے سے نہ گھبرائیے جہاں آندھی زیادہ چلتی ہے وہاں روزانہ کپڑا بدلنا پڑتا ہے لہٰذا روزانہ دوکانوں پر اور سڑکوں پر کثرت سے استغفار کیجیے اور رات کو گھر جاکر دو نفل پڑھ کر معافی مانگئے۔ یہ روح کی صفائی کی ون ڈے سروس ہے۔ غرض ہر لمحہ اﷲ کو خوش رکھنے کا اہتمام کیجیے۔!۔

 

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries