مجلس۱۳۔ مئی۲۰۱۴ء علاماتِ محبت الٰہیہ !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں(کلک کریں)

خلاصۂ مجلس:محبی و محبوبی مرشدی و مولائی حضرت والا دامت برکاتہم مجلس میں رونق افروز تھے،  جناب تائب صاحب سے فرمایا کہ اشعار سنائیے، انہوں اپنے اشعار سنائے حضرت والا نے بہت پسند فرمائے۔ پھر حضرت والا کے حکم سے حضرت والا شیخ العرب والعجم مجددِ عصر عارف باللہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ کے سفرِ ری یونین کے ملفوظات کا مجمومہ معارفِ ربانی سے جناب ممتاز صاحب نےملفوظات پڑھ کر سنانے شروع کیے آج کی مجلس تقریباً ۱ گھنٹےتک جاری رہی۔۔

ملفوظاتِ معارف ربانی

اسبابِ گناہ سے دوری ضروری ہے: نفس کا مزاج ایسا ہے کہ جیسے آپ گلاب جامن کھارہے ہیں اور اس پر مکھی بیٹھ گئی تو اگر آپ فوراً اڑا دیں لیکن پھر بھی کچھ نہ کچھ ذرّہ وہ لے جائے گی۔ نفس کا مزہ بھی ایسا ہی ہے کہ اگر ایک سیکنڈ کے لیے بھی کوئی عورت آگئی تو نفس حرام لذت کا کچھ نہ کچھ ذرّہ ضرور چرالے گا لہٰذا اس کے جانے کے بعد اﷲ سے کہو کہ اے اﷲ میں بشر ہوں اور چور بھی ہوں، میرے نفس نے جو حرام مال آپ کی ناخوشی کی راہ سے چرالیا اور جو خوشی میرے دل میں آئی آپ کی ناخوشی کی راہ سے آئی ہے میں اس خوشی سے خوش نہیں ہوں کیونکہ ہماری وہ خوشی ملعون خوشی ہے جو آپ کو ناخوش کرکے ہم نے حاصل کی۔ جو بندہ اپنے مالک اور خالق کو خوش کرکے خوش ہو وہ شرافت کی خوشی اور جو بندہ اور غلام اپنے مالک کو ناخوش کرکے اپنے دل میں حرام خوشی محسوس کررہا ہے یہ خبیث الطبع ہے، بے غیرت ہے، بے حیاء ہے لہٰذا معافی مانگئے اور معافی مانگنے سے نہ گھبرائیے جہاں آندھی زیادہ چلتی ہے وہاں روزانہ کپڑا بدلنا پڑتا ہے لہٰذا روزانہ دوکانوں پر اور سڑکوں پر کثرت سے استغفار کیجیے اور رات کو گھر جاکر دو نفل پڑھ کر معافی مانگئے۔ یہ روح کی صفائی کی ون ڈے سروس ہے۔ غرض ہر لمحہ اﷲ کو خوش رکھنے کا اہتمام کیجیے۔

جو بندہ اﷲ کو خوش رکھے گا تو کیا اﷲ تعالیٰ اس کو خوش نہیں رکھیں گے؟ بتائیے! اگر کوئی بیٹا اپنے باپ کو ہر وقت خوش رکھتا ہے کیا باپ کا دل نہیں چاہتا کہ میں بھی اپنے بیٹے کو خوش رکھوں۔ اور باپ تو مجبور بھی ہوسکتا ہے کہ باوجود چاہنے کے وہ بیٹے کو خوش نہ رکھ سکے لیکن اﷲ تعالیٰ مجبور نہیں ہیں۔ جو بندہ ان کو خوش رکھتا ہے اﷲ تعالیٰ اپنے بندہ کو خوش رکھنے کے اسباب پیدا کردیتے ہیں اور وہ اسباب سے بھی بے نیاز ہیں۔

ﷲ کو ایسی قدرت حاصل ہے کہ غم کے اسباب میں بھی وہ اپنے بندے کے دل کو خوش رکھ سکتا ہے۔ اجتماعِ ضدین اﷲ کے لیے محال نہیں ہے۔ اسی پر میرا ایک قطعہ ہے   ؎

رضائے دوست کی خاطر یہ حوصلے ان کے
لبوں سے ہنستے ہیں گو دل پہ زخم کھاتے ہیں
عجیب جامعِ اضداد ہیں ترے عاشق
خوشی میں روتے ہیں اور غم میں مسکراتے ہیں

ایک صاحب نے کہا کہ یہ بات تو ناممکن سی معلوم ہوتی ہے۔ میں نے کہا کہ میرا دوسرا شعر سن لو تو سمجھ میں آجائے گی   ؎

صدمہ و غم میں مرے دل کے تبسم کی مثال
جیسے غنچہ گھرے خاروں میں چٹک لیتا ہے

کلیاں چاروں طرف کانٹوں سے گھری ہوتی ہیں کہ نسیمِ صبح کا ایک جھونکا آتا ہے اور وہ ان کانٹوںکے درمیان ہی کھل جاتی ہیں۔ تو نسیمِ صبح کے ایک جھونکے سے نباتات اور کلیاں تو کھل جائیں اور اﷲ کے عاشقوں کا دل اﷲ کی نسیمِ رحمت سے بھلا شگفتہ نہ ہوگا!

محبت کے بارے میں جو علامہ آلوسی رحمۃ اﷲ علیہ کا ایک مضمون چل رہا ہے کہ سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک صحابی سے فرمایا کہ تم نے قیامت کے لیے کیا تیاری کی ہے؟ کہا کہ مَا اَعْدَدْتُّ لَہَا کَبِیْرَ عَمَلٍ میرے پاس کوئی بڑا عمل نہیں ہے لٰکِنْ حُبَّ اﷲِ وَرَسُوْلِہٖ،لیکن اﷲ اور رسول کی محبت۔ کبیر سے استثنیٰ کیا ہے یعنی میں اﷲ و رسول سے بہت زیادہ محبت رکھتا ہوں تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اَلْمَرْئُ مَعَ مَنْ اَحَبَّ   آدمی اسی کے ساتھ ہوگا جس کے ساتھ اس کو محبت ہے۔ علامہ آلوسی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ ہٰذَا نَاطِقٌ حدیث بول رہی ہے بِاَنَّ الْمَفْہُوْمَ مِنَ الْمَحَبَّۃِ ِﷲِ تَعَالٰی غَیْرُ الْاَعْمَالِ وَاِلْتِزَامِ الطَّاعَاتِ کہ ا ﷲ سے محبت کا جو مفہوم ہے وہ غیر الاعمال اور غیر التزام طاعات ہے یعنی عبادت اور اعمال سے الگ ایک چیز ہے، لِاَنَّ الْاَعْرَابِیَ نَفَاہَاکیونکہ اعرابی نے نفی کی کہ میرے پاس اعمال بڑے نہیں ہیں لیکن نفی کے باوجود  وَاَثْبَتَ الْحُبَّ اس صحابی نے اپنی محبت کو ثابت کیا  وَاَقَرَّہُ النَّبِیُّ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلٰی ذٰلِکَ اور سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کو تسلیم فرمایا اس لیے آج کل میں بار با ر اس کا مزہ لے رہا ہوں کہ اﷲ اس محبت کو ہم لوگوں کے لیے بھی نصیب فرمائے،

اور محبت کی تین علامات ہیں(۱) اَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الْکَافِرِیْنَ، مؤمنین پر مہربان ہیں، ایمان والے بھائیوں پر فدا ہورہے ہیں،اور کافروں پر تیز ہیں۔

 علامہ آلوسی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ عرب کے لوگ تَذَلَّلَ زَیْدٌ لِفُلاَنٍ کہتے تھے کہ زید مہربان ہوگیا فلاں پر۔ عرب کے محاورہ میں  تَذَلُّلْ کے لیے علٰی استعمال نہیں ہوتا تھا بلکہ اس کا صلہ لام آتا ہے اور قرآن پاک محاورۂ عرب پر نازل ہوا ہے، پھر اﷲ تعالیٰ نے یہاں علٰی کیوں استعمال فرمایا؟ علامہ آلوسی رحمۃ اﷲ علیہ نے اس اِشکال کا جواب دیا ہے کہ اﷲ نے یہاں علٰی استعمال فرما کر صحابہ کی بلندی شان ظاہر کی ہے کہ مَعَ عُلُوِّ شَانِہِمْ وَفَضْلِ مَرَاتِبِہِمْ یعنی ان کی فضیلتیں بہت زیادہ ہیں اور ان کے بڑے بڑے درجے اور مرتبے ہیں اس کے باوجود وہ اپنے اﷲ کے لیے اپنے کو مٹاکر ملتے ہیںمثلاً حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کا کیا درجہ ہے کہ آپ کے اسلام پر فرشتوں نے آسمان پر خوشیاں منائیں لیکن ایک دن حضرت بلال حبشی رضی اﷲ عنہ کے لیے ان کے منہ سے یہ نکل گیا کہ اے بلال! تم کالے ہو، اسی وقت زمین پر لیٹ گئے اور فرمایا کہ اے بلال! میرے جسم پر چلو اور اپنے پائوں سے مجھے کچل دو تاکہ میری یہ خطا معاف ہوجائے کہ میں نے تم کو کالا کیوں کہا، کیوں کہ کالے اور گورے سے کوئی مطلب نہیں ہے، اﷲ جس کو پیار کرے وہ چاہے کالا ہو وہ ان گوروں سے افضل ہے جو اﷲ سے محبت نہیں رکھتے، عَلٰی نازل کرکے اﷲ تعالیٰ نے یہ بتادیا کہ میرے یہ صحابہ بڑے درجہ کے لوگ ہیں مگر میری محبت میں اپنے بھائیوں سے اپنے کو مٹاکے ملتے ہیں تو اگر اﷲ عَلٰی نازل نہ فرماتے تو یہ مقصد حاصل نہ ہوتا کہ یہ حاملِ علوء مراتب، اور حاملِ ارتفاعِ فضل ہیں، بڑی فضیلتوں والے ہیں اور اس کی دلیل اَعِزَّۃٍ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ ہے کہ اور کافروں پر تیز ہیں، ان کی تواضع اور فنائیت اپنے ایمان والے بھائیوں کے ساتھ ہے۔ اگر یہ فطرتاً ذلیل ہوتے تو کافروں پر سخت نہ ہوتے۔ اور محبت کی دوسری علامت ہے یُجَاہِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ وہ اﷲ کے راستہ کا ہر غم اور ہر مجاہدہ برداشت کرتے ہیں اور اگر کبھی خطاء ہوتی ہے تو ان کی توبہ بھی عجیب و غریب ہوتی ہے، مولانا رومی فرماتے ہیں   ؎

در مناجاتم بہ بیں خونِ جگر

اے خدا! میری مناجات میں میرے جگر کا خون تو دیکھئے کہ میں کیسا رو رہا ہوں۔ آپ کے لیے یعنی توبہ اور استغفار میں کتنا رو رہا ہوں کہ میرے آنسوئوںمیں میرے جگر کا خون بھی شامل ہے، یہ معمولی توبہ نہیں ہے   ؎

بر دلِ سالک ہزاراں غم بود
گر ز باغِ دل خلالے کم بود

ﷲ والوں پر ہزاروں غم ٹوٹ پڑتے ہیں اگر ان سے کوئی خطا ہوجاتی ہے اور رو رو کے سجدہ گاہ بھردیتے ہیں، لہٰذا  یُجَاہِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ میں اﷲ نے یہ بتادیا کہ مجھ کو راضی کرنے کے لیے یہ چار قسم کی تکلیفیں اُٹھاتے ہیں۔ اب میں مجاہدہ کی تفسیر کررہا ہوں:

(۱) اَلَّذِیْنَ اخْتَارُوا الْمَشَقَّۃَ فِی ابْتِغَائِ مَرَضَاتِنَا میری رضا مندی کو ڈھونڈنے میں ہر تکلیف کو اُٹھالیتے ہیں، نظر بچانے میں تکلیف ہویا گناہوں سے بچنے پر مخلوق کی لعن طعن کی تکلیف ہو یہ سب برداشت کرتے ہیں۔

(۲) اَلَّذِیْنَ اخْتَارُوا الْمَشَقَّۃَ فِی نُصْرَۃِ دِیْنِنَا ہمارے دین کے پھیلانے میں ہر قسم کی مشقت اختیار کرتے ہیں۔

(۳) اَلَّذِیْنَ اخْتَارُوا الْمَشَقَّۃَ فِی امْتِثَالِ اَوَامِرِنَا اور میرے احکام کی بجاآوری میں ہرقسم کی تکلیف کا گوارا کرلیتے ہیں

(۴) اَلَّذِیْنَ اخْتَارُوا الْمَشَقَّۃَ فِی الْاِنْتِہَاءِ عَن مَّنَاہِیْنَا میری نافرمانی سے بچنے کا سب غم اٹھالیتے ہیں

کچھ بھی دل پر گذرجائے، دل تڑپ جائے برداشت کرو دوزخ کی آگ سے تو کم ہے۔ جب نظر بچانے میں شیطان کہے کہ اس سے نظر ہٹانے میں بہت تکلیف ہوگی تو اپنے نفس سے پوچھو کہ دوزخ کی آگ زیادہ تکلیف دہ ہوگی یا نظر بچانے کی آگ تکلیف دہ ہے؟ جبکہ یہاں وعدہ بھی ہے کہ نظر ہٹانے پر ایمانی حلاوت بھی نصیب ہوگی اور نظر ڈالنے پر کون سا وعدہ ہے؟ ایمانی حلاوت چھن جائے گی۔ اگر خدانخواستہ اسی حال میں ہارٹ فیل ہوجائے تو اسی حالت میں اٹھایا جائے گا اور عبادت کا مزہ ختم ہوجاتا ہے، پھر لاکھ امامت کرو، تلاوت اور ذکر کرو کچھ مزہ نہیں آتا، اس گناہ کی ظلمت بہت زیادہ ہوتی ہے اور اُس وقت تک نہیں جاتی جب دوبارہ کہیںایسا موقع آئے اور نظر بچائے تب جاکے پرانا نور ملے گا، خالی توبہ سے معافی تو مل جائے گی مگر قلب میں نورِ سابق واپس نہیں آئے گا، آج میں یہ خاص بات بیان کررہا ہوں، یہ میرے شیخ نے مجھے بتایا ہے کہ بدنظری کا گناہ توبہ سے معاف تو ہوجائے گا لیکن قلب میں پہلا والا نور نہیں آئے گا جب تک سڑک پر کہیں آنا جانا ہو اور پھر کوئی ایسا موقع آئے اور پھر وہ نظر بچانے کا غم اٹھائے۔ اگر کہیں ایسا موقع آئے تو دل میں یہ خیال کرو کہ اگر اس کے منہ میں کینسر ہوجائے اور بدبو آنے لگے تو اس سے دور بھاگو گے۔ آپ بتائیے کہ اب کیوں بھا گے   ؎

اِدھر جغرافیہ بدلا اُدھر تاریخ بھی بدلی
نہ اُن کی ہسٹری باقی نہ میری مسٹری باقی

کسی کے سوال پر میں نے کہا کہ تمہارا جو دل ہر وقت پریشان رہتا ہے تو میں تمہارے حال پر یہ شعر پڑھتا ہوں   ؎

ہتھوڑے دل پہ ہیں مغزِ دماغ میں کھونٹے
بتائو عشقِ مجازی کے مزے کیا لوٹے

اور محبت کی تیسری علامت ہے وَلاَ یَخَافُوْنَ لَوْمَۃَ لاَ ئِمٍ کہ یہ جو کچھ دین کا کام کرتے ہیں اس میں کسی کی ملامت کا خوف نہیں کرتے، یہ حال ہے اور عطف بھی ہے اور جملہ مستقلہ بھی ہے مگر حال بھی ہے اور دونوں صورتیں جائز ہیں۔ اگر عطف ہے تو مطلب یہ ہواکہ مثبت اور منفی دونوں صورتوں میں، دونوں عبادتوں میں یعنی اﷲ کے راستہ میں نیک کام کرنے یا گناہوں سے بچنے میں لوگوں کی ملامت کا خوف نہیں کرتے، اور اگر حال ہے تو معنی یہ ہیں کہ حَالُہُمْ حَالَ غَیْرِ الْمُنَافِقِیْن یعنی منافقین مخلوق سے ڈرتے ہیں، اس لیے صحابہ سے ملتے ہوئے ہر وقت ڈرتے تھے کہ کہیں ہمارے پرانے کافر دوست ہم کو نہ دیکھ لیں، لیکن ہمارے صحابہ اور ہمارے عاشق اس کو نہیں دیکھتے کہ کچھ بھی ہوجائے، کسی کا خوف نہیں کرتے حَالُہُمْ غَیْرَ حَالِ الْمُنَافِقِیْنَ وَلاَ یَخَافُوْنَ لَوْمَۃَ لاَ ئِمٍ اور لَوْمَۃ یہاں واحد ہے لیکن معنیٰ میں اسمِ جنس کے ہے جس کا ترجمہ تفسیر روح المعانی کے اعتبار سے یہ ہوگا  وَلاَ یَخَافُوْنَ مِنْ لَوْمَاتِ لاَّئِمِیْنَ ساری دنیا کے ملامت کرنے والوں سے یہ لوگ بے خوف ہیں لومۃ اسمِ جنس ہے اور اسمِ جنس وہ کلّی ہے جو انواعِ مختلف الحقائق پر مشتمل ہوتی ہے، مطلب یہ ہوا کہ دنیا میں جتنی بھی ملامتیں ہیں یہ کسی سے نہیں ڈرتے   ؎

سارا جہاں خلاف ہو پروا نہ چاہیے
پیشِ نظر تو مرضی جانانہ چاہیے

پھر علامہ آلوسی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ لومۃ اسمِ جنس ہے اور معنی میں لومات کے ہے۔ اس پر یہ اِشکال ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے لومات کیوں نازل نہیں فرمایا؟ واحد کیوں نازل فرمایا تو فرماتے ہیں کہ اس میں بلاغت زیادہ ہے کہ میرے عاشقین اتنے بہادر ہیں کہ ان کے نزدیک ساری کائنات کی ملامتیں مثل لومۃ واحدہ کے ہیں، جس کو مولانا رومی فرماتے ہیں کہ مومن کی شان مرغابی جیسی ہے کہ جب موج اوپرآتی ہے تو مرغابی بھی اوپر چلی جاتی ہے اور جب موج نیچے جاتی ہے تو وہ بھی نیچے چلی جاتی ہے اپنی جگہ سے ایک انچ بھی آگے پیچھے نہیں پھرتی۔ کمال ہے اس کی استقامت کا   ؎

دعویِ مرغابی کردہ ست جاں
کے ز طوفانِ بلا دارد فغاں

میں نے بمبئی میں سمندر کے کنارے اس شعر کو حل کیا کہ سمندر میں ایک لہرآئی اور مرغابی وہاں بیٹھی تھی وہ لہر کے ساتھ اوپر چلی گئی اور جب لہر نیچے آئی تو وہ بھی نیچے آگئی،میں نے بہت غور سے دیکھا کہ وہ ایک انچ بھی آگے پیچھے نہیں ہوئی، تب معلوم ہوا کہ اﷲ کے عاشقوں کا یہی مقام ہے کہ وہ دنیا کی بلائوں کی پرواہ نہیں کرتے، بلائوں کی موجیں آتی رہتی ہیں لیکن وہ اپنی جگہ پر ہی رہتے ہیں، اس سے متاثر نہیں ہوتے، اﷲ ہم سب کو یہ مقام عطا فرمائے اور ہم کو مرغابی والی استقامت دے دے۔ 

بعض لوگ اس لیے بد نظری کرتے ہیں کہ اگر ہم نہیں دیکھیں گے تو لوگ کہیں گے کہ مولانا لوگ بڑے بد اخلاق ہوتے ہیں مثلاً ائیر پورٹ پر ٹکٹ دینے والی اگر عورت ہے تو چونکہ اس سے ٹکٹ لینا ہے لہٰذا اس سے بات بھی کرتے ہیں اور مسکراتے بھی ہیں تاکہ اس کو یہ شکایت نہ ہو کہ ملّا لوگ بڑے خشک ہوتے ہیں دیکھو ان کے اخلاق کیسے خراب ہیں۔ تو یہ ڈرگئے، یہی ملامت خلق کا خوف ہے، ارے اگر وہ دل میں تمہیں جانور سمجھ لے مگر اﷲ توخوش ہے  لہٰذا کسی کی پروا مت کرو، ایسی لاکھ بداخلاقیاں جو بظاہر بد اخلاقی ہے لیکن اﷲ اس سے خوش ہے تودنیا بھر کی خوش اخلاقیاں اس پر فدا ہوجائیں، جس وقت کہ ملک شام میں حضراتِ صحابہ داخل ہوئے تو شامیوں نے شام کی عیسائی عورتوں کو ان کے سامنے سجا کر پیش کردیا، راستہ کے دونوں طرف جوان جوان خوبصورت لڑکیاں کھڑی کردیں، صحابہ کے سپاہ سالار نے یہ آیت پڑھی قُلْ لِلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِہِمْ اے نبی! صلی اﷲ علیہ وسلم آپ ایمان والوں سے فرمادیں کہ وہ نظریں نیچی کرلیں تو سب صحابہ نے نظریں نیچے کرلیں، صحابہ کہتے ہیں کہ ایسا لگا کہ ابھی ابھی یہ آیت نازل ہوئی ہے تو ان لڑکیوں نے یہ نہیں کہا یہ لوگ بد اخلاق ہیں بلکہ گھر جاکر اپنے والدین سے کہا کہ تم نے ہم کو کہاں فرشتوں کے پاس بھیجا تھا، وہ تو سب فرشتے تھے انسان نہیں تھے انہوں نے تو ہم کو نظر اٹھا کر دیکھا بھی نہیں اور ان کی تعریف کی اور عیسائیوں نے بغیر لڑے ہوئے ہتھیار ڈال دئیے، آپ نظر کی حفاظت کرکے تو دیکھیں، جس عورت کو آپ نہیں دیکھیں گے اگرچہ وہ عیسائی ہو اس کے دل میں اﷲ ہیبت ڈال دے گااور وہ کہے گی کہ یہ خدا والے ہیں جو ہم کو نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے۔

 حضرت حکیم الامت کا ایک جملہ یاد آیا، فرمایا کہ جو خدا کے حکم کو اپنے اوپر غالب کرلیتا ہے تو اﷲ اس کو سارے زمانے پر غالب کردیتا ہے، جس کو مفتی اعظم پاکستان فرماتے تھے   ؎

ہم کو مٹاسکے یہ زمانے میں دم نہیں
ہم سے زمانہ خود ہے زمانے سے ہم نہیں

جگر مراد آبادی جب اﷲ والا شاعر ہوگیا اور حکیم الامت رحمۃ اﷲ علیہ کے ہاتھ پر توبہ کرلی تب اس نے یہ شعر کہا   ؎

میرا کمالِ عشق بس اتنا ہے اے جگرؔ
وہ مجھ پہ چھاگئے میں زمانے پہ چھا گیا

وَلاَ یَخَافُوْنَ لَوْمَۃَ لاَ ئِمٍ میںﷲ تعالیٰ نے اپنے عاشقوں کی تعریف کے لیے لومۃ واحد نازل فرمایا ہے لیکن وہ اسمِ جنس ہے اس لیے ساری دنیا کی ملامتیں اس میں شامل ہیں۔ پس واحد نازل کرکے اﷲ تعالیٰ نے یہ بتادیا کہ میرے عاشقوں کی جان مرغابی جیسی ہے، بلائوں کی ساری موجیں اور ساری دنیا کی ملامتیں ان کے نزدیک مثل ایک ملامت کے ہیں وَﷲ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ  واسع کے معنیٰ ہیں کَثِیْرُ الْفَضْلِ وَلاَ یَخَافُ نَفَادَ مَاعِنْدَہٗ ﷲ کثیر الفضل ہے اور اپنے خزانۂ فضل و مہربانی کے ختم ہونے کا اس کو خوف نہیں اور عَلِیْم کے معنی ٰہیں عَلِیْمٌ بِّاَہْلِہٖ وَمَحَلِّہٖ اور ﷲ کو علم ہے کہ کس کو ولی بنانا ہے اور کون اس کا اہل ہے اور جو اہل نہیں ہوتے اس کے ارادہ کے بعد وہ بھی اہل بن جاتے ہیں اور نااہلوں پر مہربانی کرنے والی ذات کا نام ہی کریم ہے اَلَّذِیْ یَتَفَضَّلُ عَلَیْنَا بِدُوْنِ الْاِ سْتِحْقَاقِ کہ جو نالائقوں پر مہربانی کرے وہی کریم ہے۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ ہروقت چلتے پھرتے یَاکَرِیْمُ کا ذکر کیا کرو، تاکہ نالائقی کے باوجود ہم اﷲ پاک کی رحمت سے محروم نہ ہوں،  یَا حَلِیْمُ سے عذاب رُک جائے گا۔  حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب رحمۃ اﷲ علیہ انتقال کے وقت یہی نام لیتے لیتے انتقال کرگئے، یا کریم، یاکریم، یا حلیم اور یا کریم کے بعد آخر میں  یَا وَاسِعَ  الْمَغْفِرَۃِ پڑھ لو یعنی اے اﷲ! آپ کی مغفرت ہمارے گناہوں سے بہت وسیع ہے، یہ تین نام آخرت کے کام بنانے کے لیے ہیں اور دنیا میں بھی اس کے پڑھنے والے ان شاء اﷲ محروم نہیں رہیں گے۔ دعا کیجیے کہ اﷲ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائیں، آمین۔

ٹیلیفون پر دوسری نصیحت: آج ظہر کے بعد کینیڈا سے کلیم صاحب کا دوبارہ فون آیا۔ ان کو یہ نصیحت فرمائی کہ ہر نماز کے بعد لاَحَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ اِلاَّ بِاﷲِ  تین دفعہ اور جب گناہ کا وسوسہ آئے تو اٰمَنْتُ بِاﷲِ وَرُسُلِہٖ تین بار پڑھ لیا کرو اور ہر وقت یہ مراقبہ کرو کہ اﷲ مجھے دیکھ رہا ہے اور چلتے پھرتے یا اﷲ یا رحمٰن یا رحیم پڑھیے اور تھوڑی تھوڑی دیر پر یاکریم کا نعرہ بھی ماریئے۔ بس اس وقت اتنی ہی نصیحت ہے۔ اسی بہانہ سے اﷲ کا نام لیتے رہیے، نہ یہ ستانے والے ہوتے نہ خدا یاد آتا   ؎

پڑی بیداد بتوں کی تو خدا یاد آیا

ان بتوں کے ستانے سے خدا یاد آتا ہے اور ان کا ستانا یہی ہے کہ عریاں و بے پردہ گھوم رہے ہیں، نظر کی حفاظت کرنی پڑتی ہے۔ اور میری صحت کے لیے خوب دعا کرو۔ ہر فرض نماز کے بعد دعا کرو کہ اﷲ خوب عمر میں برکت دے۔ دل میں اور جسم میں ہر طرح سے قوت دے روحانی بھی جسمانی بھی۔ اچھا۔ السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ۔

اﷲ کا نام سن کر بھی دل کو مزہ آنا چاہیے: ساڑھے چھ بجے شام مغرب کے بعد کچھ لوگ خانقاہ میں ذکر کررہے تھے اور حضرت والا اپنے کمرہ میں تھے جو خانقاہ سے متصل ہے۔ احقر راقم الحروف حضرت والا کے کمرہ میں داخل ہوا تو فرمایا کہ اﷲ کی محبت کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ ان کا نام سن کر دل کو مزہ آئے، روح پر سُکر کی کیفیت طاری ہوجائے   ؎

نام لیتے ہی نشہ سا چھا گیا
ذکر میں تاثیرِ دورِ جام ہے

اور اگر کسی کو اﷲ کا نام سن کر اثر نہیں ہوتا اور مزہ نہیں آتا تو اس کی محبت ابھی کامل نہیں ہے۔ جب کوئی درد سے اﷲ کا نام لیتا ہے تو الحمدﷲ میرا دل تڑپ جاتا ہے اور مولانا دائود صاحب سے فرمایا کہ خانقاہ میں ذکر ضرور کرایا کرو۔ اگر خانقاہ میں ذکر نہیں ہوگا تو وہاں علومِ خانقاہ تو ہوں گے روحِ خانقاہ نہیں ہوگی۔ حاشیہ حموی میں امام شعرانی رحمۃ اﷲ علیہ سے منقول ہے:

اَجْمَعَ الْعُلَمَآءُ سَلْفاًً وَّخَلْفاً عَلٰی اِسْتِحْبَابِ ذِکْرِ الْجَمَاعَۃِ فِی الْمَسَاجِدِ وَغَیْرِہَا اِلاَّ اَنْ یُّشَوِّشَ جَھْرُہُمْ عَلٰی نَائِمٍ اَوْمُصَلٍّ اَوْقَارِیٍٔ
(فتاوٰی شامیۃ،ج:۲،ص:۳۷۷، مطبوعۃ بیروت)

ترجمہ: متقدمین اور متاخرین (یعنی پہلے اور بعد کے) تمام علماء کا مساجد وغیرہ میں اجتماعی ذکر کے مستحب ہونے پر اتفاق ہے بشرطیکہ ان کے جہر کی وجہ سے کسی بھی سونے والے یا نماز پڑھنے والے یا تلاوت کرنے والے کو تشویش یعنی پریشانی لاحق نہ ہو۔

اپنے نابالغ بچوں کو چیزوں کا مالک نہ بنائو: آج دوپہر کچھ علماء اور کچھ دوسرے حضرات تشریف لائے۔ ایک صاحب نے عرض کیا کہ میرے بچے نے کچھ پیسے جمع کیے تھے، آپ کو ہدیہ پیش کرنے کے لیے لایا ہے تو حضرت اقدس دامت برکاتہم نے یہ مسئلہ بیان فرمایا کہ نابالغ سے ہدیہ لینا جائز نہیں، نہ اس کا مال استعمال کرنا جائز ہے خواہ وہ اجازت بھی دے دے کیونکہ نابالغ کی اجازت معتبر نہیں۔ حضرت حکیم الامت مجدد الملت مولانا تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ جب تک بچے بالغ نہ ہوں ان کو جو چیز دو، ہدیہ یا تحفہ یا کپڑا بنوائو تو ان کو مالک نہ بنائو کیونکہ اگر ان کو مالک بنادیا تو نابالغ کی اجازت معتبر نہیں، خود باپ بھی وہ چیز ان سے نہیں لے سکتا اور اس کا وہ لباس اس کے چھوٹے بھائیوں کو بھی نہیں دے سکتا۔ مثال کے طور پر ایک بچہ پانچ سال کا ہے آپ نے اس کے کپڑے بنادئیے اور اس کو ان کپڑوں کا مالک بنادیا۔ اب وہ آٹھ سال کا ہوگیا تو اس کے کپڑے اب آپ اس کے چھوٹے بھائیوں کو نہیں دے سکتے کیونکہ نابالغ کی اجازت معتبر نہیں۔ اس لیے حکیم الامت نے فرمایا کہ نابالغ بچوں کو مالک مت بنائو۔ مالک خود رہو، دل میں یہ نیت کرلو کہ اے اﷲ! ان کپڑوں کا میں مالک ہوں، ان کو پہننے کے لیے دے رہا ہوں پھر جس کو چاہو دے دو۔ ورنہ اگر ایک بچہ کو قلم کا مالک بنادیا تو پھر اس کے قلم سے آپ لکھ بھی نہیں سکتے۔ بس ایک بار نیت کرلیں کہ یا اﷲ جو چیز بھی میں ان کو دے رہا ہوں یا آئندہ دوں گا ان کو مالک نہیں بناتا ہوں عاریت کے طور پر دیتا ہوں، میری چیز ہے ان کو عاریت کے طور پر استعمال کے لیے دے رہا ہوں۔ بار بار نیت کرنے کی ضرورت نہیں بس ایک بار نیت کرلینا کافی ہے۔ اس نیت کے بعد جو چیز آپ ان کو دیں پھر آپ خود بھی استعمال کرسکتے ہیں، ان کے قلم سے لکھ بھی سکتے ہیں، ان کی کاپی سے ورق بھی لے سکتے ہیں اور ان کا لباس جب چھوٹا ہوجائے تو دوسرے بچوں کو دے سکتے ہیں۔ بتائیے کتنے کام کی بات ہے۔ اس میں بہت آرام رہے گا۔ جب یہ مسئلہ حضرت والا نے دوپہر کو بیان فرمایا تو حضرت والا سے تعلق رکھنے والے بعض علماء نے عرض کیا کہ آج رات کے اجتماع میں بھی اس مسئلہ کو بیان فرمادیں کیونکہ اکثر لوگ اس سے واقف نہیں ہیں۔۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries