مجلس۱۴۔ مئی۲۰۱۴ء معرفت سے محبت پیدا ہوتی ہے !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں(کلک کریں)

خلاصۂ مجلس:محبی و محبوبی مرشدی و مولائی حضرت والا دامت برکاتہم مجلس میں رونق افروز تھے،  مولانا ابراہیم کشمیری صاحب سے فرمایا کہ اشعار سنائیے، انہوں نے اشعار سنائے حضرت والا نے بہت پسند فرمائے اور درمیان درمیان تشریح بھی فرماتے رہے۔ پھر حضرت والا کے حکم سے حضرت والا شیخ العرب والعجم مجددِ عصر عارف باللہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ کے سفرِ ری یونین کے ملفوظات کا مجمومہ معارفِ ربانی سے جناب ممتاز صاحب نےملفوظات پڑھ کر سنانے شروع کیے آج کی مجلس تقریباً ۱ گھنٹےتک جاری رہی۔۔

ملفوظات در تشریحِ اشعار

حسن کا پرچم بھی بڑھاپے میں سرنگوں ہوجاتا ہے۔

جوانی کی بہار دلکش معلوم ہوتی ہے لیکن جب بڑھاپا یعنی خزاں آتی ہے تو وہ پھول کانٹوں میں بدل جاتا ہے۔

حسن کے عاشقین کی حسرت بیان فرمائی کہ آخر میں اُن کو شرمندگی ہوتی ہے کہ ہائے ہم نے کہاں اپنی جوانی ضائع کی۔

جو حسن کے عاشق تھے جب حسن زائل ہوجاتا ہے تو وہ وہاں سے بھاگ جاتے ہیں اور مزاج ہی بدل جاتا ہے۔

حضرت والا کا شعر فرمایا :

حسن جب چہرے سے زائل ہوگیا

وہ مجھے نظر آیا بندر کُھلا

ایک شعر کی تشریح میں فرمایا: عجیب و غریب شعر ہے اس کا سمجھنا بھی آسان نہیں ہے، جو سردارِ اولیاء ہیں وہی نفس کی چالوں کو س مجھ سکتے ہیں۔

نفس بہت زیادہ گناہ کا تقاضا کرنے والا ہے، اس لئے اپنی چالیں بدلتا رہتا ہے، جب اُس نے حسینوں کا چال بدلا، مختلف طریقے سے ہمیں گناہ میں مبتلا کرنا چاہتا، اِسی طرح حسن کے بتوں کا جال بدلتا رہتا ہے، جیسے یہ جال بدلتا ہے، تو میں بھی فوراً بابِ تقویٰ پر پاست

تقویٰ کے دروازے پر میں اپنی حفاظت کے لئے جو محافظ رکھا تھا وہ ہی نفس دشمن سے جا ملا تو میں نے فوراً وہ محافظ بدل کر دوسرا محافظ رکھ لیا یعنی اُس نے نیا چال چلائی ہمارے تقویٰ کو تباہ کرنے کےلئے تو ہم نے بابِ تقویٰ پر نئی ترکیب لگائی تاکہ نفس کی چال سے بچ جاؤں۔ جس طرح نفس اپنے حسن کے جال بدلتا رہتا اسی طرح بابِ تقویٰ پر جو محافظ بیٹھائے ہوئے ہیں اگر وہ دشمن

شیخ کامل ایک ہی مر ض کے مختلف علاج بتاتا ہے، ہر کسی کے لحاظ سے الگ علاج ہوتا ہے۔

غفلت کا فردِ کامل گناہ ہے، غفلت کی وجہ سے ہی گناہ ہوتے ہیں، جب وہ اللہ کو بھلاتا ہے جب ہی گناہ کرتا ہے۔

فرمایا : جیسے میں ہندوستان سے پاکستان میں داخل ہوا تھا اُس وقت پاکستان کا زمین  آسمان کو دیکھا کہ تو ایسا معلوم ہوا کہ اور ہی آسمان و زمین ہیں۔

گناہوں سے دل کی فضاء تنگ ہوجاتی ہے،پھر جب وہ اِس گھٹن سے نکل کر توبہ کی کھلی فضاؤں میں آتا ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آسمان و زمین بھی بدل گئے، یعنی آگ سے نکل کرگلشن میں آگیا

حضرت والا نے فرمایا تھا کہ اولیاء اللہ کے دل میں جو نور اگر وہ ظاہر ہو جائے تو یہ چاند و سورج اُس کے سامنے مانند پڑجاتے ہیں

جس کے دل پر اللہ کی تجلی ہوجاتی ہے تو دنیا کے حسین اُس کی نگاہ سے گر جاتے ہیں

تقویٰ اِس کا نام ہے کہ سارے دنیا مین حسن میں اول نمبر آنے والی ہو اور وہ گلشن اقبال آجائے تو جو اُس وقت اُس کو خاطر میں نہ لائے اور اُدھر جائے بھی نہیں تو وہ اللہ والا ہے تقویٰ والا ہے۔

اگر تجلی دل میں نہیں ہے تو وہ معمولی معمولی چیز سے بک جائے گا ورنہ اگر دل میں نور ہوتا تو دنیا کی کسی چیز سے نہیں بکتا۔

شیخ کا فیض وفات سے بعد بھی جاری رہتا ہے، البتہ اصلاح زندہ شیخ سے ہوتی ہے۔

فرمایا: سب شیخ کا فیض ہے، مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں یہ خود کلام نہیں کرتا ہے سب حضرت والا کا فیض ہوتا ہے۔

ملفوظاتِ معارف ربانی

معرفت سے محبت پیدا ہوتی ہے: ارشاد فرمایا کہ محبت پیدا ہوتی ہے معرفت سے، جب تک جان پہچان نہ ہو محبت نہیں ہوتی۔ ایک دفعہ دو شیخ الحدیث میرے پاس بیٹھے ہوئے تھے، ایک داہنی طرف ایک بائیں طرف اور دونوں حضرت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ کے خلفاء  کے بیٹے تھے، دونوں شیخ الحدیث تھے اور سہارن پور میں ساتھ پڑھے ہوئے تھے لیکن تیس چالس سال کے بعد ملاقات ہوئی، ایک دوسرے کو نہیں پہچانا اور اجنبی کی طرح ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ میں نے دونوں کا تعارف کرایا کہ یہ جو داہنی طرف محدث ہیں یہ مولانا خیر محمد صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کے صاحبزادے ہیں جو حکیم الامت کے خلیفہ تھے ملتان میں اور یہ مولانا محمد نبیہ صاحب جو رام پور میں حکیم الامت کے خلیفہ تھے ان کے صاحبزادے ہیں مولانا مفتی محمد وجیہ صاحب جو کہ ٹنڈو الہ یار میں شیخ الحدیث ہیں۔ یہ سنتے ہی دونوں کھڑے ہوگئے اور ایک دوسرے کو لپٹ گئے اور کہا کہ ارے ہم تم تو ساتھ پڑھتے تھے۔ معلوم ہوا کہ محبت میں اشتداد معرفت کے بعد پیدا ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک بچہ ری یونین میں ہو اس کا باپ بچپن ہی میں سعودیہ نوکری کے لیے چلا گیا ہو اور بیس سال کے بعد اگر آئے گا تو یہ بچہ اس کو نہیں پہچان سکتا بلکہ باپ کے کسی دوست سے معلوم کرے گا کہ میرے والد کون ہیں۔ ری یونین کے ائیرپورٹ پر باپ اترا اور اس نے پہچان لیا کہ یہ میرا بیٹا ہے لیکن بیٹے نے نہیں پہچانا۔ باپ نے کہا کہ میرا بستر اٹھائو تو کہتا ہے کہ آپ کو کیا حق ہے مجھ سے بستر اٹھوانے کا، میں تو اپنے باپ کی تلاش میں مشغول ہوں۔ تب اس بڑے بوڑھے نے کہا کہ ارے یہی تو ہے تیرا ابا تو پھر باپ سے لپٹ جائے گا اور معافی بھی مانگ رہا ہے اور بستر بھی سر پر رکھ رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ ابا آپ خود بھی میرے کندھے پر بیٹھ جائیے۔ معلوم ہوا کہ معرفت کے بعد محبت پیدا ہوتی ہے لیکن اس کے لیے ضرورت ہے ایک معرف کی جو جان پہچان کرائے۔ ساری دنیا اﷲ سے غافل ہوتی ہے، ایک نبی آتا ہے اور ایک عالَم کو اﷲ کا عارف بنادیتا ہے اور اب نبوت تو ختم ہوگئی، اب نائبین رسول قیامت تک ہمارے اور اﷲ کے درمیان معرف کے فرائض انجام دیتے رہیں گے۔ تقویٰ کا حصول یعنی اﷲ کی معرفت و وِلایت موقوف ہے اہل اﷲ کی صحبت پر اور آیتکُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِیْنَ اس پر دلالت کررہی ہے، اسی لیے ہمارے اکابر مولانا قاسم نانوتوی، مولانا گنگوہی، مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمہم اﷲ وغیرہ کے پاس کیا علم کی کمی تھی لیکن علم کے یہ آفتاب و ماہتاب ایک غیر عالم حضرت حاجی امداد اﷲ صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کی خدمت میں گئے اﷲ کی معرفت حاصل کرنے۔ آج لوگ علماء کی خدمت میں جانے میں عار محسوس کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج نسبت مع اﷲ اور درد بھرے دل سے محروم ہیں، ان کی تقریر میں جان نہیں

جب نور نہیں خود ہی دل میں منبر پہ وہ کیا برسائیں گے

صحبت اہل اﷲ کا فائدہ لوگوں کو نہیں معلوم ورنہ چالیس دن کیا دوسال کسی صاحبِ نسبت کے دروازے پر پڑے رہتے اور یہ کہتے   ؎

جی چاہتا ہے در پہ کسی کے پڑے رہیں
سر زیرِ بارِ منتِ درباں کیے ہوئے

جس کو اہل ﷲ کی معیت و صحبت کا لطف حاصل ہوگیا انہیں وہ مزہ ملا کہ ساری زندگی کے مجاہدے ایک طرف اور اہل اﷲ کی صحبت کا انعام ایک طرف۔ یہی میرے شیخ حضرت پھولپوری رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے تھے کہ اﷲ والوں کی صحبت میں اﷲ کا راستہ صرف آسان ہی نہیں ہوتا لذیذ بھی ہوجاتا ہے۔ ورنہ صرف مجاہدہ بھی کافی نہیں، تل اپنے آپ کو لاکھ رگڑ لے کہ بھوسی چھوٹ جائے یہاں تک کہ کولہو میں پیل دو لیکن تلی کا تیل ہی رہے گا کیونکہ پھولوں کی صحبت میں نہیں رہا لیکن اسی رگڑی ہوئی تلی کو پھولوں میں ایک مدت بسادو پھر کولہو میں پیلوگے تو اب روغن گل اور روغن چنبیلی نکلے گا۔ اسی طرح اہل اﷲ کی صحبت میں رہ کر مجاہدہ کرو، ان کے مشورہ پر چلو تب ولی اﷲ بنو گے، بدونِ صحبتِ اہل اﷲ محض اپنے مجاہدوں سے اﷲ والے نہیں بن سکتے۔ ان کی صحبت سے جب معرفت نصیب ہوتی ہے تو عارف کی ایک رکعت غیر عارف کی لاکھ رکعات سے افضل ہوتی ہے کیونکہ جس درد و اخلاص و محبت سے عارف کا سجدہ ہوگا غیر عارف کو اس کی ہوا بھی نہیں لگ سکتی۔ اسی لیے ہمارے بزرگ فرماتے ہیں کہ اپنی نفلوں اور اپنی تسبیحات میں مشغول ہونے کے بجائے کسی اﷲ والے کی صحبت میں بیٹھو۔ اہل اﷲ کی صحبت کا جو فائدہ ہے اس کو وہی سمجھ سکتا ہے جس نے یہ فائدہ اٹھایا ہو، غرض ولایت موقوف ہے تقویٰ پر اور تقویٰ بدونِ صحبتِ صادقین متقین صالحین کے حاصل نہیں ہوسکتا جیسا کہ آیت کُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِیْنَ دلالت کر رہی ہے اور اولیاء اﷲ کون ہیں؟ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں

{اِنَّ اَوْلِیَآءَ اﷲِ لاَ خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَ}
(سورۃ یونس، اٰیۃ:۶۲)

معلوم ہوا کہ ایمان اور تقویٰ ان دو نعمتوں سے ولایت مرکب ہوتی ہے۔ ایمان تو الحمدﷲ ہم لوگوں کو حاصل ہے بس اگر ہم تقویٰ بھی حاصل کرلیں تو اﷲ کے ولی ہوجائیں۔ اسی لیے علامہ آلوسی نے کُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِیْنَ کی تفسیر میں فرمایا کہ صادقین متقین کے ساتھ اتنی مدت رہو کہ تم ان کے مثل ہوجائو، ان کا سا تقویٰ تمہیں بھی حاصل ہوجائے یعنی جس طرح وہ گناہوں سے بچتے ہیں تم بھی بچنے لگو، ان کی سی اشکبار آنکھیں، ان کا سا درد بھرا دل تمہیں بھی عطا ہوجائے، ان کا سا سجدہ، ان کی سی عبادت تمہیں بھی نصیب ہوجائے، ان کی طرح تمہیں بھی حفاظتِ نظر کی توفیق اور ہر گناہ سے اجتناب کی ہمت عطا ہوجائے تو سمجھ لو کہ ان کے ساتھ رہنے کی مدت حاصل ہوگئی۔

پہلے معرفت پیدا ہوتی ہے پھر محبت پیدا ہوتی ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ فرمایا وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ۔ لیعبدون کے معنی ہیں لیعرفون ، حضرت والا علمِ عظیم کہ یہاں پھر لیعدون ہی کیوں نازل فرمایا اس لئے کہ معرفت وہ مقبول ہیں جو معرفت کے راستے سے ہو! اور عبادت بھی سنت کے مطابق ہو، جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبادت سیکھائی۔ غرض عبادت اور سنت کے راستے سے جو معرفت پیدا ہوگی وہی قبول ہیں۔

آخر میں پاکستان اور کراچی اور تمام اسلامی ممالک کی حفاظت اور امن و امان کے لئے دُعا فرمائی۔۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries