مجلس۱۵۔ مئی۲۰۱۴ء بزم اشعار تائبؔ و اثر !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں(کلک کریں)

خلاصۂ مجلس:محبی و محبوبی مرشدی و مولائی حضرت والا دامت برکاتہم مجلس میں رونق افروز تھے،  جناب تائب صاحب اور جناب اثر صاحب حاضرِ خدمت تھے، حضرت والا نے فرمایا کہ آج ان کے اشعار ہی سنے جائیں گے، پہلے جناب اثر صاحب نے اشعار سنائے، حضرت والا نے بہت پسند فرمائے اور بہت تعریف فرمائی اس کے بعد جناب تائب صاحب نے حضرت والا کی محبت میں اپنے تازہ اشعار پیش کیے۔ حضرت والا نے بہت پسند فرمائے پھر حضرت والا کے حکم سے حضرت والا شیخ العرب والعجم مجددِ عصر عارف باللہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ کے سفرِ ری یونین کے ملفوظات کا مجمومہ معارفِ ربانی سے جناب ممتاز صاحب نےملفوظات پڑھ کر سنانے شروع کیے آج کی مجلس تقریباً ۱ گھنٹےتک جاری رہی۔۔

ملفوظاتِ معارف ربانی

درسِ مثنوی: بعض علماء نے آج حضرت والا سے مثنوی کے درس کی درخواست کی تھی۔ ان کی خواہش پر حضرت والا نے مثنوی کے چند اشعار کا درس دیا   ؎

ہر ولی را نوح کشتی باں شناس
صحبت ایں خلق را طوفاں شناس

ارشاد فرمایا کہ دنیا کی گمراہی مثلاً ٹی وی، وی سی آر، سینما اور فحاشی و عریانی کے طوفانوں میں ہر ولی اﷲ نوح علیہ السلام کی طرح اپنی کشتی چلا رہا ہے اور اپنی صحبت کی کشتی میں اپنے متعلقین کو لے کر چل رہا ہے۔ اور اﷲ سے غافل اور نافرمان مخلوق کی صحبت یہی طوفان ہے لہٰذا جو اہل اﷲ کی کشتی کو چھوڑ کر نافرمانوں کی صحبت اختیار کرے گا وہ اس طوفان میں غرق ہوجائے گا۔ تو مولانا رومی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ   ؎

ضعفِ قطب درتن بود در روح نے
ضعف در کشتی بود در نوح نے

ارشاد فرمایا کہ انبیاء اور اولیاء کا جسم ضعیف ہوسکتا ہے، ان کی روح میں ضعف نہیں ہوتا۔ کمزوری کشتی میں تھی حضرت نوح علیہ السلام میں نہیں تھی۔ ان ظالموں نے کشتی کو دیکھا لیکن کشتی چلانے والے کو نہ دیکھا کہ وہ نبوت سے مشرف ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام کا نورِ نبوت ان کو نظر نہ آیا۔ اسی لیے ان ظالموں نے کہا کہ ہم ان کا مذاق اڑاتے ہیں بھلا یہ کشتی طوفان سے بچا سکتی ہے اس لیے سب غرق ہوگئے کیونکہ انہوں نے کشتی کے ضعف پر نظر کی اور کشتی چلانے والے پر نظر نہ کی کہ وہ نبی ہے۔ لہٰذا مولانا نصیحت فرماتے ہیں   ؎

ہیں برادر کشتی بابا نشیں

اے بھائیو! کسی بابا کی کشتی میں بیٹھ جائو۔ بابا سے مراد متبع سنت و متبع شریعت بزرگ ہے نہ کہ بھنگ پی کر سمندر کے کنارے سٹہ کا نمبر بتانے والے شیطان کے متبعین۔ مولانا فرماتے ہیں کہ اﷲ والوں کی کشتی میں بیٹھنے میں دیر نہ کرو کیونکہ جتنے اولیاء اﷲ ہیں یہ سب حضرت نوح علیہ السلام کے نائب ہیں ان کی کشتی تمہیں گمراہی کے طوفان میں غرق ہونے سے بچا سکتی ہے   ؎

ہر کہ خواہد ہم نشینی باخدا
گو نشیند باحضورِ اولیاء

فرماتے ہیں کہ جس شخص کا دل چاہے کہ وہ اﷲ کے پاس بیٹھے تو اس سے کہو کہ اولیاء اﷲ کے پاس بیٹھ جائے۔ جس طرح اگر کوئی عطر کی شیشی کے پاس بیٹھا ہے تو گویا وہ عطر ہی کے پاس بیٹھا ہے۔ اولیاء اﷲ کے قلوب حق تعالیٰ کی تجلیاتِ خاصہ سے متجلی ہیں لہٰذا جو ان کا جلیس ہے گویا وہ اﷲ کے پاس بیٹھا ہوا ہے   ؎

چوں شوی دور از حضورِ اولیاء
در حقیقت گشتیٔ دور از خدا

جو اہل اﷲ کی صحبت سے اپنے کو مستغنی قرار دے دے چاہے مشغولیت کی وجہ سے یا ان کو حقیر سمجھ کر تو وہ اﷲ والوں سے دور نہیں ہوا در حقیقت خدا سے دور ہوگیا۔ جو عطر کی شیشی سے دور ہوا در حقیقت عطر سے دور ہوگیا کیونکہ عطر اس کو شیشی کے واسطے ہی سے مل سکتا ہے لہٰذا عطر کی شیشی سے استغناء عطر سے استغناء ہے   ؎

طبعِ نافِ آہویست ایں قوم را
از بروں خوں و اندروں شاں مشک ہا

مولانا رومی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں اہل اﷲ کی شان ایسی ہے جیسے ہرن کی ناف کہ اس کے اوپر خون ہے اور اندر مشک بھرا ہوا ہے۔ ناف کا ظاہر گوشت اور خون ہے کہ اگر کاٹو تو خون بہے گا لیکن اس کے باطن میں مشک بھرا ہوا ہے جس کی قیمت لاکھوں کی ہوتی ہے۔ ایسے ہی اہل اﷲ کے ظاہرکو مت دیکھو کہ ان کے بھی ہماری طرح دو کان اور ایک ناک ہے، یہ بھی ہماری طرح کھاتے پیتے ہیں، ان کو بھی پیشاب پاخانے کی حاجت ہوتی ہے، اگر ان کے ظاہر کو دیکھو گے تو گمراہ ہوجائو گے لہٰذا ان کے باطن پر نظر رکھو جس میں نسبت مع اﷲ کا موتی چھپا ہوا ہے۔ مولانا رومی فرماتے ہیں کہ پہلے زمانے میں دریا کا ایک جانور دریائے گائو ہوتا تھا اس کے اندر ایک قیمتی موتی ہوتاتھا جس کو وہ نکال کر رکھ دیتا تھا جس سے رات کے وقت سارا جنگل روشن ہوجاتا اور وہ جلدی سے اچھی اچھی گھاس چر لیتا۔ تاجر لوگ اس دریائی گائو کے موتی لینے کے لیے درخت پر چڑھ جاتے تھے اور ایک مٹکے میں مٹی اور بھوسہ ملا کر اس موتی کے اوپر گرادیتے جس سے اندھیرا ہوجاتا اور دریائی گائو اسے تلاش کرنے کے لیے بار بار اس جگہ آتا جہاں موتی چھپا ہوا تھا لیکن مٹی اور کیچڑ دیکھ کر واپس چلا جاتا اور صبح تک مایوس ہوکر دریا میں واپس چلا جاتا۔ مولانا فرماتے ہیں کہ جس طرح یہ جانور مٹی اور کیچڑ میں چھپے ہوئے موتی کو نہ پہچان سکا ایسے ہی ابلیس حضرت آدم علیہ السلام کے مٹی کے پتلے میں چھپے ہوئے نبوت کے موتی کو نہ دیکھ سکا ورنہ انکار نہ کرتا اور حضرت آدم علیہ السلام کو حقیر نہ سمجھتا۔ اسی طرح بعض لوگ اہل اﷲ کو حقیر سمجھتے ہیں اور ان کو اپنا ہی جیسا گمان کرتے ہیں   ؎

گفت اینک ہم بشر ایشاں بشر
ما و ایشاں بستۂ خوابیم و خور

جیسے ہم بشر ہیں ایسے ہی یہ بھی بشر ہیں جیسے ہم کھاتے ہیں ایسے ہی یہ بھی کھاتے ہیں، کھانے پینے اور سونے کے محتاج ہیں۔ مولانا رومی فرماتے ہیں کہ اﷲ والوں کے قلب کے اندر ایک موتی چھپا ہوا ہے اور اس کا نام ہے تعلق مع اﷲ کا موتی، نسبت مع اﷲ کا موتی، اﷲ کی محبت کا موتی۔ مولانا فرماتے ہیں کہ اﷲ والوں کے جسم کو نہ دیکھو ولایت کے اس موتی کی قیمت کو پہچانو ورنہ تم بھی ابلیس کی طرح گمراہ ہوجائو گے اور اﷲ کی محبت سے محروم مروگے۔

درسِ نظامی کے بانی کا عجیب واقعہ: ارشاد فرمایا کہ آج کل درس نظامی پڑھنے کو کافی سمجھتے ہیں اور اہل اﷲ کی صحبت کو ضروری نہیں سمجھتے وہ اس واقعہ سے سبق لیں کہ درسِ نظامیہ کے بانی ملا نظام الدین جنہوں نے فتاویٰ عالمگیری مرتب کی ان کو بادشاہ عالمگیر رحمۃ اﷲ علیہ نے فتاویٰ عالم گیری لکھنے کے لیے پانچ سو علماء کا افسر مقرر کیا تھا، پانچ سو علماء ان کے ماتحت تھے لیکن وہ خود جاکر بیعت ہوئے شاہ عبدالرزاق صاحب بانسوی رحمۃ اﷲ علیہ سے جن کا قرآن شریف بھی ختم نہیں ہوا تھا لیکن ان کو علمِ لدنی حاصل تھا۔ یہ واقعہ میرے شیخ شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ نے سنایا تھا۔ ملا نظام الدین صاحب کے ان سے بیعت ہونے پر لکھنؤ کے پانچ سو علماء نے مذاق اڑایا اور اعتراض کیا کہ حضرت اتنے بڑے عالم ہو کر آپ ایک غیر عالم سے بیعت ہوگئے تو فرمایا کہ آپ لوگ نہیں جانتے، ہم کتاب اﷲجانتے ہیں وہ اﷲ کو جانتے ہیں۔ لیکن علماء نہیں مانے تو حضرت نظام الدین شاہ عبدالرزاق صاحب کی خدمت میں گئے اور عرض کیا کہ حضرت لکھنؤ کے علماء مجھ پر اعتراض کر رہے ہیں، آپ میری عزت کے لیے تشریف لے چلیں، میں ان کو آپ کی تقریر سنوائوں گا تو حضرت دو رکعت پڑھ کر بہت روئے کہ یا اﷲ! اتنے بڑے عالم کی عزت کا مسئلہ ہے لہٰذا مجھے بیان کرنے کی سعادت نصیب فرمادے۔ جس کا قرآن بھی ختم نہ ہوا ہو اور جو بالکل اُمّی تھے لکھنؤ تشریف لے گئے۔ اسٹیج پر بٹھایا گیا اور پانچ سو علماء کے محضر میں حضرت شاہ عبدالرزاق صاحب نے تقریر شروع کی اور بخاری شریف کی حدیث بیان کی اور اس کے بعد منطق و فلسفہ کے مسائل اور شیخ بو علی سینا کی تحقیقات بیان کرنا شروع کیں اور پھر ایسے دقیق اور غامض مضامین بیان کیے کہ شروع شروع میں تو علماء کچھ کچھ سمجھے لیکن اس کے بعد بے ہوش ہوگئے۔ جب ہوش میں آئے تب حضرت نے جوش میں فرمایا کہ اے علماء کرام آپ لوگوں نے الف باء تاء چھوٹے چھوٹے حرفوں میں پڑھا ہے اور اپنے ہاتھ کو دراز کرکے فرمایا کہ ہم کو اﷲ نے اتنے بڑے حروف میں پڑھایا ہے۔ افسوس لوگ اﷲ والوں کو نہیں پہچانتے کہ ان کا کیا مقام ہے اور ان کی صحبت سے کیا ملتا ہے۔ جس کو کسی اﷲ والے کی صحبت مل جائے اس پر اﷲ کا بہت بڑا احسان ہے اور چاہے وہ بڑا عالم بھی نہ ہو لیکن اس سے لوگوں کو نفع زیادہ ہوگا۔

علم لدنی وہ ہے علم ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے وارد ہوتے ہیں، حضرت والا نے فرمایا کہ ایک بزرگ کے کے علم لدنی کا واقعہ بیان فرمایا

حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب کی قبولیتِ دُعا کاو اقعہ بیان فرمایا

آخر میں دُعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ اِن مجالس کو حضرت والا کی برکت سے نافع بنائے، حضرت والا کی دُعاؤں کی لاج رکھ لیجئے اور جیسا حضرت چاہتے تھے ویسا بنا دیجئے اور عالمِ برزخ میں حضرت والا کی جانِ پاک کو ہم سے خوش فرمادیجئے۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries