اتوار مجلس۱۸۔ مئی۲۰۱۴ء نسبت مع اﷲ کا خدائی منشور!

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں(کلک کریں)

خلاصۂ مجلس:محبی و محبوبی مرشدی و مولائی حضرت والا دامت برکاتہم مجلس میں رونق افروز تھے،  جناب اظہر کریم صاحب  نے حضرت والا مرشدی و مولائی حضرت میر صاحب کی محبت میں اپنے تازہ اشعار پیش کیے، اشعار کے بعد حضرت والا نے اپنے تاثرات کا اظہار فرمایا۔ پھر جناب رمضان صاحب کو اشعار سنانے کا فرمایا  انہوں نے اپنی پرسوز آواز میں اشعار سنا کر حاضرین مجلس کو مست کردیا۔ حضرت والا نے بھی بہت پسند فرمائے اور ہر شعر کی الہامی تشریح بھی فرمائی، یہ سلسلہ تقریباً آدھا گھنٹہ جاری رہا۔ پھرحضرت والا کے حکم سے ملفوظات کا مجمومہ معارفِ ربانی سے جناب ممتاز صاحب نےملفوظات پڑھ کر سنانے شروع کیے، ملفوظات کے تشریح میں بھی حضرت نے ملفوظات ارشاد فرمائے آج کی مجلس تقریباً ۵۲ منٹ تک جاری رہی۔۔

 تشریح اشعار

جو اللہ کی نافرمانیوں سے دل  کو بربار کر دیتا ہے تو اُس کے دل کا عالم ایسا ہوتا ہے جیسے دوزخ میں ہو ۔۔۔۔

اللہ کی محبت میں جو غرق ہوجائے تو سمجھ لو وہ غرق نہیں ہوا ابھر گیا فنا نہیں ہوا باقی ہوگیا۔

اللہ کی محبت صرف اوپر اوپر نہ رہے بلکہ غرق ہوجائے ڈوب جائے۔

اللہ تعالیٰ کے جن باتوں کا حکم دیا ہے اُن کو اوامر کہتے ہیں

اللہ کے نام پر جینا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مان کر جیئے اور مرنا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں چھوڑ دے۔

اتنا خوف مطلوب نہیں ہے کہ آدمی خوف

اتنا خوف مطلوب ہے یعنی اتنا ڈرو کہ اللہ کی نافرمانی نہ کرو۔

حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ نے سنا کہ حضرت پھولپوریؒ فرماتے تھے کہ  نہ اتنا ڈرو کہ ڈرنا چھوڑ دو اور نہ اتنا کرو کہ ڈرنا چھوڑ دو۔

اللہ تعالیٰ کی تمام حدود کی رعایت کر اللہ تعالیٰ کی محبت کے حقوق ادا کرنا ہی مطلوب ہے****

حضرت تھانویؒ کے ملفوظ : خالی جوش سے کام نہ لو ہوش بھی ساتھ رہے۔

ایسا جوش جس میں آدمی ہوش میں نہ رہے یہ تو اہل سیاست کا کام ہے۔

 بدنظری یعنی غیر محرم عورتوں کو دیکھنے میں سوائے پریشانی اور بے چینی کے کچھ نہیں۔

دنیا کے مٹی اور پانی سے بنے فانی حسینوں سے مستغنی ہوجانے کو ہی اللہ تعالیٰ کی طرف پرواز کرنا کہتے ہیں۔

سونے کو جب آگ میں ڈالا جاتا ہے تو وہ اور نکھر جاتا ہے۔ ۔ ۔  اسی طرح کسی شیخِ کامل کی قدموں کو اپنے کو ڈال دے ۔ ۔  تو وہ نکھر جاتا ہے۔

اصلاح اسی طرح ہوتی ہے کہ شیخِ کامل کے سپرد اپنے کو کردو۔

محبت کی بھٹی میں اپنے کو ڈال دو، دنیا کی بھٹی کو جلا دے گی لیکن اللہ کی بھٹی سے تم اور نکھر جاؤگے۔

حضرت خواجہ صاحبؒ کو حضرت تھانویؒ نے خانقاہ سے نکال دیا ، حضرت خواجہ صاحب کا شیخ سے والہانہ تعلق اور عشق کا پورا واقعہ بیان فرمایا۔

یہ خالی اشعار نہیں ہے تصوف کے اصول ہیں اور نہایت نصیحت آموز ہیں۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں سے خود کو سنوار لو، اسی کو اصل میں سنورنا اور بننا کہتے تھے!

ملفوظاتِ معارف ربانی

غزوۂ بدر کا ایک واقعہ: ارشاد فرمایا کہ سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے رات بھر عشاء کے بعد سے اذان فجر تک دعائیں مانگی اس وقت صرف حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہٗ تھے اور کوئی نہ تھا اور ان کی حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ بچپن سے دوستی اور محبت تھی، وہ ہمیشہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں رہا کرتے تھے۔ بدر کے دن بھی وہ ساتھ تھے۔ اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم پر ایسی کیفیت طاری ہوئی کہ آپ کے دونوں ہاتھ دعا میں اوپر کی طرف اُٹھ گئے، زندگی مبارک میں بہت کم ایسا ہوا کہ دعا میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہاتھ اتنے اوپر اٹھے ہوں یہاں تک کندھوں سے آپ کی چادر گرگئی تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہٗ  نے اس چادر کو اٹھالیا فَاَخَذَ رِدَائَ ہُ فَاَلْقَاہٗ عَلٰی مَنکِبَیْہِ اور آپ کے مبارک کندھوں پر ڈال دیا اور اس دن سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کی دعا کیا تھی؟

{اَللّٰہُمَّ اَنْجِزْلِیْ مَا وَعَدْتَّنِیْ اَللّٰھُمَّ اٰتِ مَا وَعَدْتَّنِیْ اَللّٰہم اِنَّکَ اِنْ تُہْلِکْ ہٰذِہِ الْعِصَابَۃَ مِنْ اَہْلِ الْاِسْلاَمِ لاَ تُعبَدْ فِی الْاَرْضِ}
(صحیح مسلم،کتاب الجہاد والسیر، باب الامداد بالملائکۃ،ج:۲،ص:۹۳)

اے اﷲ! آپ نے جو وعدہ کیا وہ آج پورا کردیجیے۔ اے اﷲ! اگر مسلمانوں کی جماعت آج ہلاک ہوگئی تو پھر کبھی زمین پرآپ کی عبادت نہیں ہوگی۔ علماء نے لکھا ہے کہ یہ آپ پر حال طاری ہوا تھا اور غلبۂ حال میں بندہ معذور ہوتا ہے اس لیے اﷲ نے اس پر کوئی نکیر نہیں فرمائی اور اﷲ کا نکیر نہ فرمانا دلیل ہے کہ اﷲ اپنے نبی کو اسی حال میں دیکھنا چاہتے تھے۔ اس کے بعد حضرت ابو بکر صدیق حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی پشت مبارک کی جانب سے کندھوں کو لپٹ گئے اور عرض کیا کہ یَا نَبِیَّ اﷲِ کَفَاکَ مُنَاشَدَ تُکَ رَبَّکَ اے اﷲ کے نبی! یہ دعا آپ کے لیے کافی ہوگئی ،یعنی اب بس کیجیے اپنے رب سے آپ کا یہ مناشدہ آپ کے لیے کافی ہے اور مناشدہ کہتے ہیں کیا ہوا وعدہ بار بار یاد دِلانا، جس کی حضور صلی اﷲ علیہ وسلم فریاد کر رہے تھے کہ یا اﷲ! جو وعدہ کیا اس کو پورا کردیجیے، یااﷲ! جو وعدہ کیا اس کو پورا کردیجیے، حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ تعالیٰ عنہٗ سے سید الانبیاء صلی اﷲ علیہ وسلم کا اس قدر رونا برداشت نہیں ہوا۔ کس کی ہمت تھی جو نبی سے یہ جملہ کہہ سکتا، یہ صدیق اکبر ہی کا مقام تھا جن کو مقامِ نبوت کی معرفت حاصل تھی اور آپ جانتے تھے کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا رونا رائیگاں نہیں جاسکتا چنانچہ عرض کیا:

یَا نَبِیَّ اﷲِ کَفَاکَ مُنَاشَدَ تُکَ رَبَّکَ فَاِنَّہُ سَیُنْجِزُلَکَ مَا وَعَدَکَ
(صحیح مسلم،کتاب الجہاد والسیر، باب الامداد بالملائکۃ،ج:۲،ص:۹۳)

پس اﷲ عنقریب آپ کا وعدہ پورا کرے گا، زبان صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہٗ سے یہ جملہ نکلا اور ادھر حضرت جبرئیل علیہ السلام آگئے۔ یہ ہے مقامِ صدیق کہ اسی وقت اﷲ تعالیٰ نے وحی نازل فرمادی۔ کیا یہ معمولی بات ہے؟ میں تو کہتا ہوں کہ ہماری کروڑہا جانیں ان پر فدا ہوں بڑی زبردست شخصیت تھے۔ 

اُس وقت یہ آیات نازل ہوئیں:
{اِذْ تَسْتَغِیثُونَ رَبَّکُمْ فَاسْتَجَابَ لَکُمْ اَنِّیْ مُمِدُّکُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰٓئِکَۃِ مُرْدِفِیْنَ}(سورۃُ الانفال، اٰیۃ:۹)

اور جب تم لوگ ہم سے فریاد کررہے تھے، حالانکہ نبی کی دعا تھی مگر تَسْتِغِیْثُوْنَ  جمع کیوں فرمایا؟ چونکہ اس وقت تمام صحابہ آمین کہہ رہے تھے تو معلوم ہوا کہ آمین کہنے والے اتنا ہی حق رکھتے ہیں جتنا دعا کرنے والا رکھتا ہے، پس ایک ہزار فرشتے آگئے اور کفار کو عبرتناک شکست ہوئی۔

نسبت مع اﷲ کا خدائی منشور: حضرت والا نے یہ آیت تلاوت فرمائی:

یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوا اﷲَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِیْنَ
(سورۃ التوبۃ، اٰیۃ:۱۱۹)

ارشاد فرمایا کہ یہ آیت دین کی بنیاد اور دین کی ابتداء سے انتہاء تک نسبت مع اﷲ کے تمام درجات کا خدائی منشور ہے اور نسبت کسے کہتے ہیں؟ بندے کو اﷲ سے اور اﷲ کو بندے سے تعلق ہو اور تعلق بھی کیسا ؟ وہ تعلق خاص جو اﷲ اپنے اولیاء کو عطا فرماتا ہے، وہ خاص رابطہ جو اﷲ اور بندے کے مابین ہوجاتا ہے   ؎

دونوں جانب سے اشارے ہوچکے
ہم تمہارے تم ہمارے ہوچکے

اور    ؎

نسبت اِسی کا نام ہے نسبت اِسی کا نام
اُن کی گلی سے آپ نکلنے نہ پائیے

اس کو کہتے ہیں نسبت، اس میں عطاء نسبت بھی ہے، بقاء نسبت بھی ہے، ارتقاء نسبت بھی ہے۔ غور سے سنئے یہ سرکاری الفاظ ہیں یعنی مُنَزَّل مِنَ السَّمَآئِ مِنَ الِالْہَامَاتِ سے ہیں۔ اﷲ والوں کی دعائوں کے صدقے میں ﷲ سے وہ خاص تعلق ہوجانا جو اﷲ اپنے اولیاء اور دوستوں کو دیتا ہے یعنی اپنا خاص تعلق علیٰ سطح الولایت نصیب فرمادے یہ عطائے نسبت ہے، پھر اس کو باقی بھی رکھے یہ بقائے نسبت ہے اور پھر اس میں ترقی بھی ہوتی رہے یہ ارتقائے نسبت ہے۔ یہ تین الفاظ اﷲ نے مجھ کو نصیب فرمائے۔ یہ تینوں نعمتیں اہل اﷲ کی صحبت میں موجود ہیں۔ اس لیے میں نے کہا کہ یہ آیت نسبت مع اﷲ کے تمام درجات و مقامات کا خدائی منشور ہے

آخر میں اعلان فرمایا کہ یہاں شعبان اور رمضان میں جناب قاری انور صاحب یہاں تشریف فرما ہوں گے جو صاحب اپنے قرآن پاک کی تصیح کروانا چاہیں وہ اس کو سعادت سمجھیں اور  قرآن پاک کے صحیح الفاظ کا ادا کرنا واجب ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries