مجلس۱۸۔ مئی۲۰۱۴ء تصوف نام ہے اپنے کو مٹانے کا!

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں(کلک کریں)

خلاصۂ مجلس:محبی و محبوبی مرشدی و مولائی حضرت والا دامت برکاتہم مجلس میں رونق افروز تھے،  مولانا ابراہیم کشمیری صاحب کو فرمایا کہ حضرت والا کے اشعار سنائیے، انہوں نے اپنی پرسوز آواز میں اشعار سنا کر حاضرین مجلس کو مست کردیا۔ حضرت والا نے بھی بہت پسند فرمائے اور ہر شعر کی الہامی تشریح بھی فرمائی، یہ سلسلہ تقریباً آدھا گھنٹہ جاری رہا۔ پھرحضرت والا کے حکم سے ملفوظات کا مجمومہ معارفِ ربانی سے جناب ممتاز صاحب نےملفوظات پڑھ کر سنانے شروع کیے، ملفوظات کے تشریح میں بھی حضرت نے ملفوظات ارشاد فرمائے آج کی مجلس تقریباً ۵۲ منٹ تک جاری رہی۔۔

 تشریح اشعار

حضرت والا کی پوری زندگی مقصد یہی تھا کہ چند روز اپنی حرام آرزؤں کا خون کرلو! صرف چند روز کی بات ہے شارٹ کٹ راستہ ہے اس سےزیادہ کوئی شارٹ کٹ راستہ نہیں ہے اللہ تک پہنچنے کا!

ملفوظاتِ معارف ربانی

نسبت مع ﷲ کا خدائی منشور: حضرت والا نے یہ آیت تلاوت فرمائی:

یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوا ﷲَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِیْنَ
(سورۃ التوبۃ، اٰیۃ:۱۱۹)

ارشاد فرمایا کہ یہ آیت دین کی بنیاد اور دین کی ابتداء سے انتہاء تک نسبت مع ﷲ کے تمام درجات کا خدائی منشور ہے اور نسبت کسے کہتے ہیں؟ بندے کو ﷲ سے اور ﷲ کو بندے سے تعلق ہو اور تعلق بھی کیسا ؟ وہ تعلق خاص جو ﷲ اپنے اولیاء کو عطا فرماتا ہے، وہ خاص رابطہ جو اور بندے کے مابین ہوجاتا ہے   ؎

دونوں جانب سے اشارے ہوچکے
ہم تمہارے تم ہمارے ہوچکے

اور    ؎

نسبت اِسی کا نام ہے نسبت اِسی کا نام
اُن کی گلی سے آپ نکلنے نہ پائیے

اس کو کہتے ہیں نسبت، اس میں عطاء نسبت بھی ہے، بقاء نسبت بھی ہے، ارتقاء نسبت بھی ہے۔ غور سے سنئے یہ سرکاری الفاظ ہیں یعنی مُنَزَّل مِنَ السَّمَآءِ مِنَ الِالْہَامَاتِ سے ہیں۔ ﷲ والوں کی دعائوں کے صدقے میں ﷲ سے وہ خاص تعلق ہوجانا جو اپنے اولیاء اور دوستوں کو دیتا ہے یعنی اپنا خاص تعلق علیٰ سطح الولایت نصیب فرمادے یہ عطائے نسبت ہے، پھر اس کو باقی بھی رکھے یہ بقائے نسبت ہے اور پھر اس میں ترقی بھی ہوتی رہے یہ ارتقائے نسبت ہے۔ یہ تین الفاظ ﷲ نے مجھ کو نصیب فرمائے۔

تشریح میں فرمایا: حضرت والا خود فرمارہےہیں کہ غور سے سن لو یہ الفاظ میرے نہیں ہے آسمان سے اُترے ہیں۔

اللہ تعالیٰ کا تعلق عطا بھی ہوتا ہے باقی بھی رہتا ہے اور ہر لمحہ ترقی پذیر بھی رہتا ہے۔

یہ تینوں نعمتیں اہل کی صحبت میں موجود ہیں۔ اس لیے میں نے کہا کہ یہ آیت نسبت مع کے تمام درجات و مقامات کا خدائی منشور ہے۔دنیا میں کوئی شخص ولی ﷲ نہیں ہوا جب تک اس نے کسی ولی کی تربیت اور صحبت نہ اُٹھائی ہو۔ جس طرح میاں بیوی کی صحبت کے بغیر کسی انسان کا ظاہری وجود نہیں ہوا اسی طرح آج تک جب سے زمین و آسمان قائم ہوئے کسی کا روحانی وجود، ایمانی وجود نسبت مع ﷲ کا وجود ﷲ والوں کی صحبت کے بغیر نہیں ہوا یعنی بدونِ صحبتِ اہل ﷲ کوئی شخص ولی ﷲ نہیں ہوا۔ میرا ﷲ والوں سے تعلق شروع کرنے کا سبب صرف ایک جملہ بنا جبکہ میں بالغ بھی نہیں ہوا تھا۔ سمجھئے کہ میں بزرگوں کی گود میں بالغ ہوا ہوں۔ وہ جملہ یہ تھا کہ ﷲ جس کو اپنا ولی بنانا چاہتا ہے، اس زمانے کے کسی ولی سے اس کی دوستی کرادیتا ہے اور وہ ان کے پاس آنا جانا شروع کردیتا ہے، پھر آہستہ آہستہ وہ اس ولی کی صحبت سے ولی ہوجاتا ہے۔ اس لیے ایک ولی ﷲ جب دنیا سے جاتا ہے تو ہزاروں کو ولی بناکر جاتا ہے ورنہ آج پوری دنیا میں اولیاء ﷲ کا بیج بھی نہ ملتا، آپ کو روئے زمین پر ایک ولی ﷲ بھی نہ ملتا لیکن ﷲ کا دستور یوں ہی جاری ہے کہ ایک ولی کی صحبت سے لاکھوں ولی بن جاتے ہیں۔ اس لیے میں اس آیت کو دین کی بنیاد اور عطاء نسبت، بقاء نسبت اور ارتقاء نسبت کا خدائی منشور سمجھ کر بار بار ذکر کرتا ہوں لیکن اس کے مضامین آپ کو بدلے ہوئے ملیں گے۔ آیت تو وہی ہوگی مگر جو مضامین عطاء حق ہیں تو ان شاء ﷲ آپ کو ضرور بدلے ہوئے ملیں گے۔ اگر رٹی رٹائی تقریر ہو تو روزانہ ایک ہی مضمون ہوگا لیکن چونکہ ﷲ کی شان ہر وقت نئی ہے تو جس پر ہروقت ان کی ایک نئی شان کا ظہور ہوتا ہے تو اس کے لیے مضامین میں بھی نئی نئی شان آتی ہے۔ اس لیے علامہ سید محمود بغدادی رحمۃ ﷲ علیہ نے کُلَّ یَوْمٍ ہُوَ فِیْ شَاْنٍ کی تفسیر کی ہے کہ یہاں یوم سے مراد دن نہیں ہے بلکہ

{فِیْ کُلِّ وَقْتٍ مِّنَ الْاَوْقَاتِ وَفِیْ کُلِّ لَمْحَۃٍ مِّنَ اللَّمْحَاتِ وَفِیْ کُلِّ لَحْظَۃٍ مِّنَ اللَّحْظَاتِ ہُوْ فِیْ شَأْنِ}

یعنی ہر وقت، ہر لحظہ، ہر لمحہ ﷲ کی نئی شان ہے، کسی کو سلطنت دے رہا ہے، کسی سے سلطنت چھین کر اس کو ذلیل و خوار کر رہا ہے، کسی فقیر کو بادشاہ بنارہا ہے، کسی بادشاہ کو فقیر کر رہا ہے، کسی گنہگار کو توفیقِ توبہ دے کر اپنا بنارہا ہے، ہر وقت اس کی ایک نئی شان ہے۔ اس وقت اس آیت کو اختیار کرنے کا سبب یہی ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ ساری دنیا میں ہر انسان کی کسی ﷲ کے ولی سے دوستی ہوجائے اور اس کی برکت سے پھر وہ ﷲ کا دوست اور ولی بن جائے اور میں اپنی طرف کبھی نسبت نہیں کروںگا کیونکہ یہ کہنا کہ سب مجھ سے بیعت ہوجائو سلوک و تصوف میں یہ ایک مجرمانہ اقدام ہے، کیونکہ حضرت حکیم الامت فرماتے ہیں کہ کسی سے تعلق میں سب سے پہلے مناسبت دیکھیں۔ اگر محمد علی کلے یہاں ری یونین میں آجائے اور کہے کہ بھائی سب لوگ میرا بلڈ (Blood) لے لو کیونکہ میں بہت تگڑا بوکسر ہوں، مشہور ہوں، ٹی وی پر اور اخبارات میں میرا نام آتا ہے تو آپ کے مقامی ڈاکٹر کہیں گے کہ اس کو بکنے دو، پہلے اپنے بلڈ سے اس کا بلڈ گروپ ملالو، اگر گروپ مل رہا ہے تو شاباش۔ تو ایسے ہی روحانی مناسبت دیکھ لو کہ جس کو جہاں مناسبت ہو اس سے تعلق کرے، روئے زمین خالی نہیں ہے۔ ہمیں تو ﷲ والوں کی غلامی کی نسبت کرتے ہوئے بھی شرم آتی ہے، حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم کہتے ہیں کہ ہم اولیاء ﷲ کے خادم اور غلام ہیں تو اس میں بھی ہم کو شرم آتی ہے کیونکہ ان کی خدمت اور غلامی کا حق ادا کہاں ہو رہا ہے لیکن اب اگر بالکل ہی کچھ نہ کہوں تو بقول حکیم الامت کے کہ مولانا گنگوہی رحمۃ ﷲ علیہ نے ایک دن فرمایا کہ خدا کی قسم میں کچھ بھی نہیں ہوں تو ان کا یہ کہنا خود ایک عظیم مقام پر فائز ہونے کی علامت تھی، حضرت شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ ﷲ علیہ نے فرمایا    ؎

کچھ ہونا مرا ذلت و خواری کا سبب ہے
یہ ہے میرا اعزاز کہ میں کچھ بھی نہیں ہوں

جو اپنی ہستی کی نفی کردے تو معلوم ہوا کہ ﷲ کی عظمت اور بڑائی کو یہ شخص پہچان گیا، ایک قطرہ کبھی سمندر کے سامنے اپنے وجود کو پیش کرسکتا ہے کہ میں بھی کچھ ہوں؟ تو جن کے دل پر ﷲ کی عظمت منکشف ہوجاتی ہے ان کو اپنا وجود نظر ہی نہیں آتا، وہ یہی کہتے ہیں کہ ہم کچھ بھی نہیں لیکن معلوم ہوا کہ دیہاتیوں کے سامنے ایسا کہنا مناسب نہیں کیونکہ یہ سن کر ایک دیہاتی بھاگ گیا۔ اس نے کہا کہ جب مولانا قسم اٹھا رہے ہیں کہ میں کچھ بھی نہیں ہوں تو جب ان کے پاس کچھ نہیں ہے تو پھر ان سے ہمیں کیا ملے گا حالانکہ یہی بات ان کے کامل ہونے کی علامت تھی۔ مولانا رومی رحمۃ ﷲ علیہ فرماتے ہیں جس طرح چاند کی روشنی ذاتی نہیں ہے سورج کی روشنی سے چاند روشن ہے اِنَّ نُوْرَ الْقَمْرِ مُستَفَادٌ مِّنْ  نُوْرِ  الشَّمْسِ

 چاند کی روشنی سورج کی روشنی سے مستفید ہے۔ آفتاب منیر ہے اور قمر مستنیر ہے، سورج افادۂ نور میں مفید ہے اور چاند مستفید ہے لیکن جب دنیا کا گولا سورج اور چاند کے درمیان میں حائل ہوجاتا ہے اس دن چاند بے نور ہوجاتا ہے اور لوگ اس کو چاند گرہن کہتے ہیں اور جیسے ہی دنیا کا وہ گولا ہٹے گا تو اتنا ہی حصہ چاند کا روشن ہوجائے گا اور جیسے جیسے وہ گولا ہٹتا جائے گا اتنا ہی چاند روشن ہوتا چلا جائے گا، اور چاند کی چودہ تاریخ کو زمین کا یہ گولا چاند اور سورج کے درمیان سے بالکل ہٹ جاتا ہے اور چاند مکمل روشن ہوجاتا ہے۔ اب مولانا رومی رحمۃ ﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ نسبت مع ﷲ کے تمام درجات حاصل کرنے کا طریقہ اس تمثیل سے خوب سمجھ میں آجائے گا کہ اصلی مرید وہی ہے اور کُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِیْنَ کا حق وہی ادا کرتا ہے جو اپنے شیخ کے مشورہ سے اپنے نفس کے گولے کو مٹاتا رہے اور اس کے قلب کو ﷲ کے آفتابِ قرب سے روشن کرتا رہے اور اپنی انا کو فنا کرتا رہے۔ تو جیسے جیسے وہ خدا کے راستے میں اپنے نفس کو مٹائے گا اس کے دل کا چاند روشن ہوتا چلا جائے گا اور نسبت مع ﷲ میں ترقی ہوگی اور اگر نفس کچھ ابھی زندہ ہے تو اتنا حصہ ابھی دل کے چاند کا بھی کم روشن ہوگا اور فائدہ کم ہوگا۔اور جس دن بالکل مٹ جائے گا اور انا بالکل فنا ہوجائے گی اس کا قلب ﷲ کے آفتابِ نور سے مکمل روشن ہوجائے گا کیونکہ ﷲ اور قلب کے درمیان سے نفس کی حیلولۃ بالکل ہٹ گئی اس لیے نورِ حق کا قلب پر اب مکمل انعکاس ہورہا ہے اور ایسا شخص فانی فی ﷲ کہلاتا ہے۔ اس لیے مولانا گنگوہی رحمۃ ﷲ علیہ کا یہ فرمانا کہ میں کچھ بھی نہیں ہوں یہی بات ان کے کامل ہونے کی دلیل تھی اور یہ دلیل اس بات کی تھی کہ ان کے قلب کا چاند مکمل روشن ہوچکا تھا۔ اسی نفس کے مٹانے کا نام سلوک ہے۔

 علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ ﷲ علیہ نے حضرت تھانوی رحمۃ ﷲ علیہ سے پوچھا کہ حضرت تصوف کس چیز کا نام ہے؟ تو حضرت نے جواب دیا کہ آپ جیسے فاضل کو مجھ جیسا طالبِ علم کیا بتاسکتا ہے لیکن جو اپنے استادوں سے سنا ہے اُسی سبق کا تکرار کرتا ہوں کہ تصوف نام ہے اپنے کو مٹانے کا۔ جس نے اپنے نفس کو نہیں مٹایا اس کا کوئی حصہ ﷲ کے راستے میں نہیں ہے اور نفس کو مٹانے کے کئی مفہوم ہیں، ایک تکبر کو مٹادے، اپنی جاہ کو مٹادے، اپنے شیخ کے سامنے اپنے نفس کی کوئی حقیقت نہ سمجھے، اگر شیخ خانقاہ میں جھاڑو لگوادے تو جھاڑو لگانے پر تیار ہوجائے اور دوسرے اپنی باہ کو مٹادے یعنی بدنظری وشہوت پرستی وغیرہ جتنی بیماریاں ہیں ان سب کو مٹانا بھی فنا فی ﷲ میں داخل ہے۔ ایک شعر آپ لوگوں کی برکت سے یاد آگیا اور شعر بھی ﷲ کے ایک خاص بندے کا ہے یعنی حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ ﷲ علیہ کا کہ ﷲ کے راستہ کا پہلا سبق اپنے نفس کو مٹانا ہے   ؎

مدرسہ میں عشق کے جس کی بھی بسم ﷲ ہو
اس  کا  پہلا  ہی  سبق  یارو  فنا  فی  ﷲ   ہو

یہ نفس ہی تو حائل ہے جس کی وجہ سے آج لوگ بزرگوں سے تعلق قائم نہیں کر رہے ہیں۔ اپنے بزرگوں کے نقشِ قدم ہمارے سامنے موجود ہیں لیکن افسوس ہے کہ اس طرف خیال ہی نہیں جاتا۔ نسبت مع ﷲ کے حاصل کرنے اور صاحبِ نسبت بننے کی اس وقت علماء میں بھی فکر نہیں ہے۔ اہل علم کو اپنے علم کا پندار مانع بن جاتا ہے کہ مجھے کیا ضرورت ہے بزرگوں کے پاس جانے کی، میرے پاس بخاری شریف کا علم ہے، میں بخاری پڑھا رہا ہوں لہٰذا میرا علم کافی ہے۔ نہیں علم کافی نہیں ہے، علم اور عمل میں فاصلے ہوتے ہیں۔ علم ایک روشنی ہے جیسے آپ کی کار میں روشنی ہے جس سے ایک میل تک دیکھ رہے ہیں، راستہ نظر آرہا ہے، لیکن کار میں پیٹرول نہیں ہے اب ذرا کار چلا لیجیے! معلوم ہوا کہ علم کی روشنی کے ساتھ ساتھ ﷲ کی محبت اور ﷲ کے خوف کا پیٹرول بھی ہونا چاہیے ورنہ علم و عمل میں فاصلے ہوں گے۔

حضرت شاہ ابرار الحق صاحب دامت برکاتہم کے ساتھ میں ایک دن کار سے جدہ سے مکہ شریف جارہا تھا۔ راستہ میں پیٹرول پمپ پر پیٹرول ڈلوانے کے لیے کار روکی گئی۔ اتنے میں ایک ٹینکر آیا جس کی پشت پر دس ہزار گیلن پیٹرول تھا۔ اس کے ڈرائیور نے کہا کہ پانچ گیلن پیٹرول ڈال دو۔ تب حضرت نے فرمایا کہ دس ہزار گیلن اس کی پیٹھ پر ہے لیکن یہ کیوں پانچ گیلن پیٹرول مانگ رہا ہے؟ کیونکہ انجن میں پیٹرول نہیں ہے اور پیٹھ کے لدے ہوئے پیٹرول سے نہ خود فائدہ لے سکتا ہے اور نہ کسی دوسرے کو دے سکتا ہے۔ اس پر مولانا ابرار الحق صاحب دامت برکاتہم نے فرمایا کہ علماء ظاہر کا یہی حال ہے کہ ان کی پیٹھ پر کتابیں لدی ہوئی ہیں، علم ہے لیکن ان کے دل میں پیٹرول ﷲ کی محبت کا نہیں ہے جس کی وجہ سے نہ وہ خود ﷲ والے بن سکے اور نہ کوئی دوسرا ان کی صحبت سے ﷲ والا بن سکا۔ مدرسوں میں پڑھانے سے ان کی تنخواہیں تو حلال ہوجائیں گی، مسجدوں میں امامت سے امامت کی تنخواہ بھی حلال ہوجائے گی لیکن دردِ دل اور نسبت مع ﷲ تو کسی ﷲ والے کی صحبت ہی سے ملے گی، ﷲ والے ﷲ کی محبت کے پیٹرول پمپ ہیں۔ جو ان سے ﷲ کی محبت کا پیٹرول حاصل کرلے وہی صاحبِ نسبت اور ﷲ والا بنتا ہے اور علم پر عمل کی توفیق ہوتی ہے۔ اپنے اکابر مولانا گنگوہی رحمۃ ﷲ علیہ، مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ ﷲ علیہ اور مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ ﷲ علیہ کے پاس کیا علم کی کمی تھی؟ لیکن ﷲ کی محبت سیکھنے کے لیے ایک غیر عالم کے غلام بن گئے اور آج یہ حال ہے کہ صاحبِ نسبت علماء کے پاس جاتے ہوئے بھی اہل علم کو شرم آتی ہے۔ اسی طرح بعد کے علماء میں دیکھ لیجیے۔ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ ﷲ علیہ مفتی اعظم پاکستان جو تفسیر معارف القرآن لکھ سکتا ہے ان کے پاس کیا علم کی کمی تھی؟ لیکن وہ تھانہ بھون گئے اور بھی جتنے اکابر علماء ہندوستان پاکستان کے ہوئے سب نے اہل ﷲ کی جوتیاں اٹھائی ہیں لیکن اب جو یہ نئی نسل چلی ہے اور مدرسوں سے نکلی ہے اور مسجدوں کے منبروں پر بیٹھ گئی ان کو فکر ہی نہیں کہ اس کا نتیجہ کیا ہے۔ اسی لیے آج علماء کی عزت نہیں رہی کیونکہ اُمت دیکھتی ہے کہ ان کے علم و عمل میں فاصلے ہیں۔ لیکن آج بھی وہ علماء جنہوں نے اہل ﷲ کی صحبت اٹھائی ہے امت اشک بار آنکھوں سے ان کی تقریر سنتی ہے اور آج بھی ان کے ہاتھوں میں ہاتھ دینے کے لیے تیار ہے۔ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ یہ آیت:

{یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوا ﷲَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِیْنَ}
(سورۃ التوبۃ، اٰیۃ:۱۱۹)

دین کی بنیاد اور نسبت مع ﷲ اور تعلق مع ﷲ کے جملہ درجات علیٰ وجہ الکمال حاصل کرنے کا خدائی منشور ہے۔

معصیت کے ساتھ ذکر ﷲ کا نفع کامل نہیں ہوتا: ارشاد فرمایا کہ جب ہماری کار ذرا اور آگے بڑھی تو حضرت نے فرمایا کہ جلدی ائیر کنڈیشن چالو کرو، سخت گرمی اور لُو چل رہی ہے۔ حضرت کے خلیفہ انجینئر انوار الحق صاحب کار چلا رہے تھے انہوں نے چالو کردیا لیکن کار ٹھنڈی نہیں ہوئی تو حضرت نے فرمایا کہ کیا بات ہے کہ کار ٹھنڈی نہیں ہوئی تو انوار الحق صاحب نے کہا کہ حضرت کسی طرف کا شیشہ کھلا ہوا ہے۔ میں نے دیکھا تو میری طرف ہی کاشیشہ دو انگل کھلا ہوا تھا۔ میں نے اس کو بند کردیا تو پوری کار ٹھنڈی ہوگئی۔ اب مولانا ابرار الحق صاحب نے فرمایا کہ جو لوگ ذکر ﷲ کا ائیرکنڈیشن تو چلا رہے ہیں مگر کبھی اپنی آنکھوں کا شیشہ کھول دیتے ہیں، کان کا شیشہ کھول دیتے ہیں، کبھی زبان کا شیشہ کھول دیتے ہیں ان کے دل میں ﷲ کے نور کی ٹھنڈک کا صحیح اِدراک نہیں ہوسکتا۔ کار میں چار شیشے ہوتے ہیں اور انسان کے پاس پانچ شیشے ہیں یعنی حواسِ خمسہ۔ قوت باصرہ (دیکھنے کی قوت)، قوت ذائقہ (چکھنے کی قوت)، قوت سامعہ (سننے کی قوت)، قوت شامہ (سونگھنے کی قوت) اور قوت لامسہ (چھونے کی قوت) ان پانچوں حواس پر تقویٰ کا شیشہ چڑھا دو۔ ایک گناہ بھی عادۃً سرزد نہ ہونے دو پھر ﷲ کے ذکر کا نفع کامل ہوگا، پھر دل میں ٹھنڈک آئے گی اور کامل سکون اور کامل اطمینان حاصل ہوگا۔

معصیت کے ساتھ ذکر ﷲ کا پورا فائدہ نہیں ہوتا، ذکر ﷲ نفع سے خالی نہیں لیکن کامل نفع ترکِ معصیت پر موقوف ہے۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر گناہ نہیں چھوٹتے تو ذکر ہی چھوڑ دو کیونکہ ﷲ کا ذکر ہر حالت میں مفید ہے۔ بعض لوگ یہ شکایت کرتے ہیں کہ میرا مرید ہونا بیکار ہے کہ میں مرید بھی ہوں، ذاکر بھی ہوں مگر گناہ مجھ سے نہیں چھوٹتے تو سنئے کہ ذاکر گنہگار اور غافل گنہگار میں فرق ہے۔ ہمارے دادا حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمۃ ﷲ علیہ فرق بیان کر رہے ہیں کہ ایک آدمی بالکل ذکر نہیں کرتا نہ کسی بزرگ سے تعلق ہے، نہ نماز نہ روزہ، ،مسلمان تو ہے لیکن غافل ہے، نہ عبادت کرتا ہے نہ گناہوں سے بچتا ہے اس سے جب کوئی گناہ ہوگا تو اس کوکوئی افسوس نہیں ہوگا اور توفیقِ توبہ نصیب نہیں ہوگی۔ اس کی مثال یہ ہے کہ جیسے کوئی نابینا ہو اور بجلی چلی جائے تو اس کو کوئی احساس نہیں ہوگا کہ بجلی چلی گئی کیونکہ اس نے کبھی نور دیکھا نہیں۔ جہاں پہلے سے اندھیرا ہو اس کو بجلی جانے کا احساس کیا ہوگا۔ اسی لیے غیر ذاکر کو گناہ کی ظلمت کا احساس نہیں ہوتا کیونکہ اس کے پاس ذکر کا نور نہیں، گناہوں کے اندھیروں کا عادی ہے، اس کو احساس ہی نہیں ہوتا کہ گناہ میں کتنے اندھیرے ہیں۔ اور جو ذکر کرتا ہے اس کے دل میں ایک روشنی، ایک نور ﷲ کی طرف سے عطا ہوتا ہے۔ جس گھر میں روشنی ہو وہاں بجلی فیل ہوتی ہے تو احساس ہوجاتا ہے اور سخت گھبراہٹ ہوتی ہے اور وہ پاور ہائوس کے متعلقہ حکام کو فون کرتا ہے کہ آج میرے گھر میں بجلی نہیں ہے، ازراہِ کرم بجلی جلد بھیج دیجیے۔ اسی طرح جو ذاکر ہے، ﷲ ﷲ کرتا ہے اس کے قلب میں ایک نور ہوتا ہے، ری یونین کی مارکیٹ میں اس کی بھی نظر غلط ہوسکتی ہے لیکن جب اس سے گناہ ہوگا تو چونکہ ذکر کی برکت سے، اہل ﷲ کی صحبت کی برکت سے اس کے قلب میں نور ہے وہ نور گناہ سے جب ختم ہوجاتا ہے اور دل میں اندھیرا آتا ہے تو اس کو سخت پریشانی اور گھبراہٹ ہوتی ہے اور یہ بھی ﷲ میاں کو فون کرتا ہے۔ کیسے؟ دو رکعت پڑھ کر سے کہتا ہے کہ یﷲ! مجھ سے سخت جرم ہوگیا مجھے معاف فرمادیجیے، گناہ سے میرے دل میں جو ظلمت آگئی ہے، جو اندھیرے آگئے ہیں ان کو آپ اُجالے سے بدل دیجیے، میرے ندامت کے آنسوئوں کو اور میری توبہ کو قبول فرما کر دل کے اندھیروں کو اُجالوں سے بدل دیجیے اور توبہ کی برکت سے یہ شخص کا محبوب بھی ہوجاتا ہے لہٰذا اگر گناہ نہیں چھوٹ رہے ہیں تو مایوس ہوکر ذکر نہ چھوڑو۔ ذکر نفع سے خالی نہیں البتہ ذکر کا کامل نفع ترکِ معصیت پر موقوف ہے لہٰذا ذکر کرتا رہے، ذکر کی برکت سے ایک دن گناہ چھوٹ جائیں گے۔

شیخ کے انتقال پر غم کی مدت: ارشاد فرمایا کہ  بزرگوں سے میں نے سنا ہے کہ جب شوہر مرجائے تو بیوی کی عدت چار مہینہ دس دن ہے لیکن مرید کی عدت صرف تین دن ہیں۔ تین دن شیخ کا غم منائو اور چوتھے دن شیخِ زندہ تلاش کرو خواہ کتنا ہی طبعی غم ہو کیونکہ شیخِ اوّل سے محبت بے پناہ ہوتی ہے لیکن طبیعت پر جبر کرکے دوسرے شیخ سے تعلق قائم کرو ورنہ اصلاح نہیں ہوگی اور ترقی رک جائے گی۔ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب دامت برکاتہم نے فرمایا کہ شیخ کے انتقال کے بعد جنہوں نے دوسرا شیخ نہیں کیا وہ مصلح تو کیا صالح بھی نہ رہے۔ ڈاکٹر کا انتقال ہوجائے تو دوسرا ڈاکٹر تلاش کرتے ہیں، یہ نہیں کرتے کہ مردہ ڈاکٹر کی قبر پر بیٹھ جائیں اور قبر کے اندر سے مردہ نسخہ لکھواتا رہے اور مریض اچھا ہوجائے۔

مولانا رومی رحمۃ ﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ قبروں سے اصلاح نہیں ہوگی، اصلاح زندہ شیخ سے ہوگی۔ یہی وجہ ہے حضرت حکیم الامت رحمۃ ﷲ علیہ کے انتقال کے بعد مولانا شاہ ابرار الحق صاحب دامت برکاتہم نے خواجہ صاحب رحمۃ ﷲ علیہ کو اپنا پیر بنایا، ان کے انتقال کے بعد مولانا عبدالرحمن صاحب کیملپوری رحمۃ ﷲ علیہ سے تعلق قائم کیا، ان کے بعد شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ ﷲ علیہ کو پیر بنایا، اور ان کے بعد حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ ﷲ علیہ کو۔ کمال ہے ان بزرگوں کا کہ کبھی بغیر شیخ کے نہیں رہتے۔ لیکن یہ ضروری ہے کہ مناسبت دیکھ لو، اگر تردد ہے تو استخارہ کرلو لیکن مناسبت ہے تو پھر استخارہ کی ضرورت نہیں، اس لیے کہ استخارہ کی ضرورت اس وقت ہوتی ہے جب کسی کام میں تردد ہو کہ کروں یا نہ کروں اس وقت استخارہ مسنون ہے۔ علامہ ابن سِنّی رحمۃ ﷲ علیہ نے عمل الیوم و اللیلۃ میں استخارہ کی یہ روایت نقل کی ہے کہ:

{یَا اَنَسٍ اِذَاہَمَمْتَ بِاَمْرٍ فَاسْتَخِرْ رَبَّکَ سَبْعَ مَرَّاتٍ}
( عمل الیوم واللیلۃ لابن سنی،ص:۲۸۲)

جب تم کو کسی کام میں تردد ہوجائے تو سات مرتبہ استخارہ کرو اور جب سو فیصد مناسبت ہے وہاں استخارہ کی کوئی ضرورت نہیں، برکت کے لیے کوئی کرلے تو اور بات ہے۔

وضو کی تین مسنون دعائیں: ارشاد فرمایا کہ وضو میں تین دعائیں مسنون ہیں:
(۱) وضو شروع کرتے وقت بِسْمِ ﷲِ وَالْحَمْدُ ِﷲِ  پڑھنا۔ مجمع الزوائد میں یہ حدیث ہے کہ جب تک وضو رہے گا فرشتہ ثواب لکھتا رہے گا۔
(۲) امام نسائی اور علامہ ابن سنّی سے یہ حدیث منقول ہے کہ وضو کے دوران یہ دعا پڑھنا مسنون ہے:

{اَللّٰہُمَّ اغْفِرْلِیْ ذَنْبِیْ وَوَسِّعْ لِیْ فِیْ دَارِیْ وَبَارِکْ لِیْ فِیْ رِزْقِیْ}
 (عمل الیوم واللیلۃ للنسائی،ص:۴۲، ولابن سنّی، ص:۱۷)

اے ﷲ! میرے گناہوں کو معاف فرمادے اور میرے مکان کو وسیع کردے اور میرے رزق میں برکت عطا فرما۔ مکان کے وسیع ہونے سے مراد یہ نہیں ہے کہ دوہزار گز کا بنگلہ ہو بلکہ توفیقِ ذکر دے جس کو ﷲ ذکر کی توفیق دے دے تو اس کا مکان چھوٹا بھی ہو تو بھی وہ دو ہزار گز سے زیادہ ہے، چھوٹا مکان بھی ذکر کی برکت سے وسیع معلوم ہوتا ہے اور جو ﷲ کا نافرمان ہے پوری دنیا اس کے لیے تنگ ہوجاتی ہے ضَاقَتْ عَلَیْہِمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ جس سے خدا ناراض ہوتا ہے زمین اپنی وسعت کے باوجود اس پر تنگ ہوجاتی ہے وَضَاقَتْ عَلَیْہِمْ اَنْفُسُہُمْ اپنی جان سے بھی وہ بیزار ہوجاتے ہیں اور ان کو خودکشی تک کے خیالات آنے لگتے ہیں۔ ﷲ جس سے ناراض ہوتا ہے یعنی جو ﷲ کا نافرمان ہے اور گناہ نہیں چھوڑتا عرصۂ حیات تو اس پر تنگ ہوتا ہی ہے عرصۂ کائنات بھی اس پر تنگ ہوجاتا ہے، یعنی پوری دنیا اس کو تنگ معلوم ہوتی ہے اور جو ﷲ کو راضی کیے ہوئے ہے اس کا کیا کہنا کہ اس کا دل تو ساتوں آسمان پر محیط ہوتاہے۔ جب خالقِ ارض و سما اس کے دل میں ہے، یعنی اپنی تجلیاتِ خاصہ سے متجلی ہے تو وہ آسمان و زمین کو اپنے اندر سموئے ہوتا ہے۔ مولانا رومی رحمۃ ﷲ علیہ کہتے ہیں کہ جب میں ﷲ کا نام لیتا ہوں تو میرے قلب میں ایسی وسعت آتی ہے کہ ساتوں آسمان و زمین مجھے چھوٹے نظر آتے ہیں   ؎

چرخ در گردش اسیرِ ہوشِ ماست

آسمان اپنی گردش میں میرے ہوش کا قیدی ہے اور قیدی چھوٹا ہوتا ہے قید خانے سے   ؎

ظاہرش را پشۂ آرد بہ چرخ

ﷲ کے ولی کو ایک مچھر کاٹ لے تو وہ شو شو کرنے لگے گا اس کے ظاہر یعنی جسم کو ایک مچھر بھی نچا سکتا ہے لیکن   ؎

باطنش باشد محیط ہفت چرخ

لیکن اس کا باطن اتنا وسیع ہے کہ ساتوں آسمان کواپنے اندر لیے ہوئے ہے، جب خالقِ آسمان کو لیے ہوئے ہے تو آپ ذکر ﷲ کو، اہل ﷲ سے تعلق کو اور خانقاہوں کو معمولی نہ سمجھیں کہ یہاں سے اتباعِ سنت اور گناہوں سے حفاظت کا سبق سیکھ کر کتنے بڑے بڑے اولیاء ﷲ پیدا ہوئے ہیں۔

۳) وضو کی تیسری مسنون دعا وضو کے بعد کی ہے جو حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے سکھائی۔ ﷲ کا نام بہت بڑا نام ہے، جو اُن کا نام لیتا ہے وہ محروم نہیں رہتا ، ان کا نام لینے والے سے اگر کبھی گناہ ہوجاتا ہے تو ﷲ اپنے نام کے صدقہ میں اس کو توفیقِ توبہ دے دیتے ہیں اور جس شخص کو ﷲ توفیقِ توبہ دے دے تو وہ محبوب ہے اس لیے سرورِ عالم صلی ﷲ علیہ وسلم نے وضو کے آخر میں دعا سِکھائی کہ اگر وضو کے بعد تم یہ دعا پڑھ لو تو تمہاری نماز محبوبین اور مقبولین کی نماز ہوگی، اولیاء اللہ جیسی نماز ہوگی اور وہ دعا ہے اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ مِنَ التَّوَّابِیْنَ وَاجْعَلْنِیْ مِنَ الْمُتَطَہِّرِیْنَ یعنی اے ﷲ! مجھے توابین یعنی توبہ کرنے والوں میں سے بنادیں اور پاکیزگی حاصل کرنے والوں میں سے بنادیں تو جب آپ نے یہ کہہ دیا کہ اے اللہ! مجھ کو تَوَّابِیْنَ میں سے بنا دیں تو آپ لوگ یہ بتلائیں کہ توابین اللہ کے محبوب ہیں یا نہیں؟ ان کی محبوبیت کی دلیل قرآن ہی میں موجود ہے کہ اِنَّ ﷲَ  یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ  یعنی ﷲ توبہ کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ معلوم ہوا کہ توبہ علامتِ محبوبیت اور اولیاء ﷲ کا شعار ہے۔ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کے بعد یہ دعا سکھاکر ہمیں ﷲ کا محبوب بنانے کا اور ہماری نماز کو اللہ کے محبوبین اور مقبولین اور اولیاء اللہ والی نماز بنانے کا انتظام کیا ہے کہ اگر تم وضو کے بعد یہ دعا کرلو تو اللہ کے محبوب اور ولی اللہ بن جائو گے، پھر تمہاری نماز بھی اولیاء اللہ اور اللہ کے محبوبوں والی نماز ہو جائے گی۔ یہ ایک ایسا مضمون ہے کہ اس طرف کبھی ذہن نہیں گیا، ری یونین آکر اس طرف ذہن گیا ہے، بعض نعمتیں بعض زمین پر مقدر ہوتی ہیں، یہ نعمت یہاں مقدر تھی۔

اب دو نعمتیں اور پیش کرتا ہوں، جو یہاں خانقاہ امدادیہ اشرفیہ ری یونین میں عطا ہوئیں۔ ایک نعمت تو یہ ہے کہ اللہ کی محبت کے بارے میں میرا اب تک خیال تھا کہ جوشخص اللہ سے محبت کا دعویٰ کرتا ہے اس کے لیے اعمال لازم ہیں ورنہ وہ اس میں کاذب ہے مگر علامہ آلوسی رحمۃاللہ علیہ کی تحقیق میں نے دیکھی کہ اللہ کی محبت کے لیے التزامِ طاعت اور اعمال ضروری نہیں ہیں، اس کے بغیر بھی محبت کا وجود ہو سکتا ہے اور علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے دلیل پیش کی کہ ایک اعرابی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا مَتَی السَّاعَۃُ قیامت کب آئے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مَا اَعَدَدْتَّ لَہَا تم نے اس کے لیے کیا تیاری کی ہے؟ اس نے کہا کہ مَا اَعَدَدْتُّ لَہَا کَبِیْرَ عَمَلٍ وَ لٰکِنْ اُحِبُّ ﷲَ  وَ رَسُوْلَہٗ میں ﷲ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہوں، اس کے علاوہ میرے پاس کوئی بڑا عمل نہیں ہے، یہ اعرابی کبیر اعمال کی نفی کررہا ہے اور محبت کو عمل کے مقابلہ میں مستثنیٰ کررہا ہے تو حضور صلی ﷲ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ جب تم نے کچھ تیاری نہیں کی تو تمہارا دعویٰ محبت بیکار ہے بلکہ فرمایا اَلْمَرْءُ مَعَ مَنْ اَحَبَّ قیامت کے دن آدمی اُسی کے ساتھ ہوگا جس سے محبت رکھتا ہے۔ علامہ آلوسی رحمۃ ﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ ھٰذَا الْحَدِیْثُ اَنَّ الْمَحَبَّۃَ ِﷲِ تَعَالٰی شَانُہٗ مَغَائِرَۃُٗ  مِّنَ  الْاَعْمَالِ وَ اِلْتِزَامِ الطَّاعَاتِ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اعمال میں کمزوری ﷲ کی محبت کے منافی نہیں ہے، بعضوں کے قلب میں ﷲ کی محبت تو بہت ہوتی ہے مگر اعمال میں کمزور ہوتے ہیں جیسے اِن صحابی نے اعمال کی کثرت کی نفی کی اور اپنی محبت کا دعویٰ کیا تو سرورِ عالم صلی ﷲ علیہ وسلم نے ان کی محبت کو تسلیم فرمایا اور اَلْمَرْءُ مَعَ مَنْ اَحَبَّ کی بشارت دی، جب نبوت کی زبان اس کو تسلیم کرلے تو پھر کون ظالم ہے جو اس کے خلاف بات کرے۔

معلوم ہوا کہ ﷲ کے لیے اولیاء اور اپنے شیخ سے محبت معمولی نعمت نہیں ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ اعمال میں سست پڑجائیں، ہم آپ کو اعمال سے غفلت زدہ نہیں کرنا چاہتے البتہ مایوسی سے بچانا چاہتے ہیں کہ آپ مایوس نہ ہوں۔ آہ! مجھ کو ری یونین کی خانقاہ میں آکر اس حدیث کی تحقیق کی نعمتِ عظمیٰ عطا ہوئی، یہاں آکر میں نے روح المعانی دیکھی ورنہ یہ حدیث بارہا سن چکا ہوں، سارے مولوی درسِ نظامی میں یہ حدیث پڑھتے ہیں لیکن علامہ آلوسی رحمۃ ﷲ علیہ کی یہ تحقیق بہت مدلل ہے۔ تو معلوم ہوا کہ ﷲ کی محبت کی نعمت جس کو نصیب ہوجائے اس کو معمولی اور حقیر مت سمجھو، اگر کوئی شخص رات دن کسی بزرگ کے ساتھ رہتا ہے مگر عمل میں کمزور ہے تو اس کو حقیر مت سمجھو، اب اس پر ایک تائید پیش کرتا ہوں۔

مولانا جلال الدین رومی رحمۃ ﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک دن حکیم جالینوس جس کی جوارش جالینوس مشہور ہے ٹہلنے کے لیے نکلے، اس سے معلوم ہوا کہ ٹہلنے کا رواج کئی سو برس سے چلا آرہا ہے اس لیے بعض بزرگوں کا قول ہے کہ صبح کی ہوا لاکھ روپے کی دوا۔ الحمد ﷲ! میں بھی اکثر صبح ٹہلنے کے لیے جاتا ہوں۔ توحکیم جالینوس جب ٹہلنے کے لیے گئے تو راستہ میں ان کو ایک پاگل مل گیا جس نے انہیں آنکھ ماری اور قہقہہ لگایا اور بہت خوش ہوا تو وہ فوراً اپنے دواخانہ میں گئے اور خادم سے کہا کہ میں پاگلوں کو جو دوا دیتا ہوں اس کی ایک خوراک جلدی سے مجھے کھلادو۔ خادم نے کہا کہ حضور ابھی تو آپ صحیح گئے تھے پھر آپ کو کیا ہوا؟ انہوں نے کہا کہ مجھے بیماری تو کوئی نہیں لیکن ایک پاگل نے مجھ کو دیکھ کر خوشی کا اظہار کیا اور مجھے آنکھ ماری، مجھے دیکھ کر اس کا خوش ہونا دلیل ہے کہ میں بھی کچھ پاگل ہوں۔ مولانا رومی رحمۃ ﷲ علیہ نے یہ قصہ نقل کرنے کے بعد بیان کیا کہ کسی ﷲ والے کو دیکھ کر کوئی شرابی، زانی بلکہ ہندو، عیسائی بھی اگر خوش ہوتا ہے تو ضرور اس کو کبھی ایمان نصیب ہوگا کیونکہ ﷲ والے کو دیکھ کر اس کا خوش ہونا دلیل ہے اس بات کی کہ اس کے دل میں ﷲ کی محبت کا کوئی ذرّہ موجود ہے۔

شاہ عبد الغنی صاحب رحمۃ ﷲ علیہ نے فرمایا کہ شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ ﷲ علیہ بخاری شریف پڑھایا کرتے تھے، ایک ہندو ان کے پاس آیا کرتا تھا مگر ظالم غسل کرکے سورج کے سامنے ہاتھ جوڑ کر پوجا کرتا تھا پھر اس کے بعد فجر کے درسِ حدیث میں شریک ہوتا تھا، شاہ صاحب اس کو دیکھتے رہتے تھے لیکن کبھی اس سے یہ نہیں کہا کہ تم سورج کی پوجا مت کرو کیونکہ شاہ صاحب یہ سمجھتے تھے کہ اگر اس کو ﷲ سے اور سرورِ عالم صلی ﷲ علیہ وسلم سے محبت نہ ہوتی تو میرے درس میں کیوں آتا اور یہ کمال ہے ان بزرگوں کا کہ سب کچھ برداشت کیا، آج کل کے ملا تو یہ کہتے کہ انہوں نے منکر پر نکیر کیوں نہیں کی فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہٖ وَاِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہٖ پر عمل کیوں نہیں کیا لیکن ﷲ والوں کی نظر مستقبل پر ہوتی ہے، وہ سمجھتے تھے کہ اس کا میرے پاس آنا کسی وقت ضرور رنگ لائے گا، یہاں تک کہ شاہ صاحب کا انتقال ہوگیا اور ان کے صاحبزادہ کا زمانہ آیا تو ایک دن اس ہندو پنڈت نے کہا کہ صاحبزادہ ہاتھ بڑھاؤ میں کلمہ پڑھنا چاہتا ہوں تو وہ رونے لگے اور کہا کہ کاش آپ میرے ابا کی زندگی میں اسلام لے آتے تو وہ کتنا خوش ہوتے، اس پنڈت نے کہا کہ میرا اسلام انہی کا صدقہ ہے جنہوں نے مجھ جیسے کافر کو درسِ حدیث میں بیٹھنے دیا، نہ کبھی نکیر کی نہ کبھی اپنی مجلس سے نکالا، اسی وقت سے میرے دل میں اسلام آگیا تھا لیکن اب تمہارے ہاتھ پر ظاہر کررہا ہوں، قلب کو اسلام ملا تمہارے والد سے اور زبان سے اسلام بیٹے پر پیش کررہا ہوں۔ اس لیے اگر کوئی بزرگ کسی گنہگار کو گلے لگائے اور پیار کرے تو ان سے بدگمانی مت کرو۔ 

مولانا رومی رحمۃ ﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ بدگمانی کا مرض بہت خطرناک ہے اس کی وجہ سے انسان بزرگوں کے فیض سے محروم ہوجاتا ہے چنانچہ جب ﷲ والے کسی پر غصہ کرتے ہیں تو بعض لوگوں کو شیطان کہتا ہے کہ دیکھو یہ کیسا ولی ﷲ ہے، اس کو کتنا غصہ آتا ہے اور اگر انہوں نے کسی کو عزت دی تو کہتے ہیں کہ دیکھو یہ مالدار تھا اس لیے اس کی عزت کی، اس سے چندہ کی کوئی بڑی رقم ملنے کی امید ہے، آہ! مولانا رومی فرماتے ہیں   ؎

ہر کسے از ظنِّ خود شد یارِ من
و اندرونِ من نہ جُست اسرارِ من

میرے باطن کے دردِ محبت کو ان ظالموں نے نہ سمجھا۔ حضرت شیخ العرب و العجم حاجی امداد ﷲ صاحب رحمۃ ﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ میں مالداروں کی عزت اس لیے کرتا ہوں کہ جب یہ ہمارے دروازہ پر آگئے تو یہ نِعْمَ الْاَمِیْرُ ہوگئے اور اگر کوئی بزرگ کسی امیر کے پاس جاتے ہیں تو سمجھ لو کہ اس لیے جاتے ہیں کہ اس کو بھی کچھ دین کا فائدہ پہنچ جائے اور ان کی صحبت کے فیض سے وہ ولی ﷲ ہوگیا تو اس کی برکت سے کتنے مسلمان ولی ہوجائیں گے۔

ایک بزرگ حاکم وقت سے ملتے تھے، لوگوں نے کہا کہ یہ کیسے بزرگ ہیں جب دیکھو سرکاری لوگوں سے ملتے ہیں۔ ایک مرتبہ کسی معاملہ میں ان کے معترض پھنس گئے اور حکومت نے ان کو گرفتار کرلیا، جب ان بزرگ کو معلوم ہوا تو وہ حاکم کے پاس گئے اور اس سے کہا کہ یہ ہمارے دوست ہیں، مظلوم ہیں، اس جرم میں بالکل مبتلا نہیں ہیں، ان کو چھوڑ دو، اس نے فوراً اپنے عملہ کو حکم دیا کہ ان لوگوں کو چھوڑ دو۔ تب وہ معترضین آکر ان کے پیروں پر گر گئے کہ حضرت ہم آپ سے بدگمانی کرتے تھے کہ آپ حاکموں سے کیوں ملتے ہیں۔ اب معلوم ہوا کہ غریبوں اور مظلوموں کی مدد کے لیے ملتے ہیں تو ایسے ﷲ والوںسے بدگمانی کرنا جن کے دل میں سلاطین کی کوئی قدر و قیمت نہ ہو اپنی آخرت کو برباد کرنا ہے۔ 

جب سید سلیمان ندوی رحمۃ ﷲ علیہ حضرت حکیم الامت سے بیعت ہوئے تو خواجہ صاحب کے منہ سے نکل گیا کہ علامہ سید سلیمان ندوی جیسا بڑا عالم حضرت سے بیعت ہوگیا اب تو خانقاہ چمک جائے گی۔ حضرت تھانوی رحمۃ ﷲ علیہ کو یہ بات ناگوار ہوئی اور غصہ آگیا اور فرمایا آہ! خواجہ صاحب آپ نے مجھے پہچانا نہیں، ان کے بیعت ہونے سے میری خانقاہ چمک جائے گی یا یہ خود چمک جائیں گے؟ پھر حضرت نے جوش سے فرمایا کہ اگر ساری دنیا کے بادشاہ جو مسلمان ہیں وہ بھی اور جو کافر ہیں وہ بھی مسلمان ہوکر اشرف علی کے ہاتھ پر بیعت ہوجائیں تو بھی مجھے کوئی فرق محسوس نہیں ہوگا، میرا رجوع الی ﷲ کا جو حال اب ہے تب بھی وہی رہے گا اور بعض اہل سیاست کی پیشکش پر فرمایا کہ کیا تم مجھے دولت سے خریدنا چاہتے ہو؟ میں اُس خاندان سے تعلق رکھتا ہوں جس نے سلطنت بلخ چھوڑ دی تھی۔ حکیم الامت حضرت سلطان ابراہیم ابن ادھم رحمۃ ﷲ علیہ کے خاندان سے تھے، حضرت فرماتے تھے کہ میں فاروقی ہوں۔

 تو مالداروں کو حقیر سمجھنا جائز نہیں۔ سیدنا عثمان غنی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے غزوۂ تبوک میں اتنا مال دیا تھا جس سے تہائی فوج کا انتظام ہوگیا تھا، آپ صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت عثمان غنی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کے ﷲ کی راہ میں دیئے ہوئے دراہم کو ایک ہاتھ میں لے کر دوسرے ہاتھ میں رکھا اور دعا دی کہ یاﷲ! تیرا نبی عثمان سے خوش ہوگیا تو بھی عثمان سے خوش ہوجا۔ لہٰذا ﷲ کے دین کے معاملہ میں مالدار کا مال باعثِ نصرت ہے، ابھی اگر مدرسہ کے طلبہ کو کھانے کے لیے نہ ملے تو سب بھاگ جائیں گے یا نہیں؟ یا اصحابِ صفہ کی طرح پیٹ پر پتھر باندھنے والے ہیں؟ آج کل تو ماشاء ﷲ مدارس میں طلبہ کو بوٹیوں کی پلیٹ ملتی ہے جبکہ ہمارے زمانہ میں ہفتہ میں ایک دن گوشت ملتا تھا اور ایک دن سبزی اور باقی دن دال اور دال بھی ایسی پتلی کہ طلبہ کہتے تھے کہ اس سے وضو کرنا جائز ہے، لیکن آج زمانہ بدل گیا ہے، پہلے تو گوشت کھانے کو نہیں ملتا تھا اور آج طلبہ کہتے ہیں کہ ہم گوشت کھاتے کھاتے تنگ آگئے، اب دال کھلاؤ۔ لیکن جو زیادہ پاپڑ بیلتا ہے یعنی مجاہدے کرتا ہے اس کو درد بھرا دل بھی عطا ہوتا ہے۔ اب میں شکر ادا کرتا ہوں کہ ایسے مدرسہ میں پڑھا جس میں نہ ناشتہ ملتا تھا نہ گوشت، مجھے بس یہی لالچ تھی کہ وہ میرے شیخ شاہ عبد الغنی پھولپوری رحمۃ ﷲ علیہ کا مدرسہ تھا، وہاں پڑھنے سے میرا مقصد اپنے شیخ کی صحبت تھا اور حضرت اتنے بڑے ولی ﷲ اور حضرت تھانوی رحمۃ ﷲ علیہ کے اتنے پرانے خلیفہ تھے کہ مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی شفیع صاحب رحمۃ ﷲ علیہ فرماتے تھے کہ حضرت کہنے کو تو آپ میرے پیر بھائی ہیں لیکن میں آپ کو استاد کے درجہ میں سمجھتا ہوں کیونکہ آپ میرے استاد مولانا اصغر میاں دیوبندی رحمۃ ﷲ علیہ کے ہم عصر ہیں۔ میرے شیخ اتنے بڑے عالم تھے اور ﷲ کے فضل و کرم سے وہ میرے استاد بھی تھے، انہوں نے مجھے بخاری شریف کے اکثر اجزاء پڑھائے ہیں اور یہ بات کم لوگوں کو معلوم ہے کہ میرے شیخ میرے والد بھی تھے کیونکہ میری والدہ سے حضرت کا نکاح ہوا تھا اور جب نکاح پڑھایا تو فرمایاکہ امام محمد کی والدہ سے امام ابو حنیفہ رحمۃ ﷲ علیہ نے نکاح کیا تھا، مجھے یہ سن کر بڑی خوشی ہوئی اور میں نے دعا کی کہ یا ﷲ! ﷲ والوں کے عمل سے مطابقت کے صدقہ میں میرے اس عمل کو قبول فرمالیجیے۔ 

تو دوستو! میں یہ عرض کررہا تھا کہ بدگمانی سے بچو، اگر اہل ﷲ کا کوئی عمل سمجھ میں نہیں آرہا تو اس کی تاویل کرلو کہ اگر یہ کسی امیر سے محبت کرتے ہیں تو ﷲ ہی کے لیے کرتے ہیں، ہاں اگر کوئی امیر ایسا بددین ہے کہ اسلام کو گالیاں دیتا ہے اور اہل ﷲ کے ساتھ گستاخیاں کرتا ہے تو ایسے امیروں کو وہ گھاس بھی نہیں ڈالتے۔ حضرت حاجی صاحب رحمۃ ﷲ علیہ فرماتے تھے کہ میں مالداروں سے اس لیے محبت کرتا ہوں کہ ا ن کو بھی تو دین سکھانا ہے، اگر یہ ﷲ والے بن گئے تو ﷲ کے دین پر مال خرچ کریں گے اور ان کا مال صحیح جگہ استعمال ہوگا اور پھر وہ بھی تو ﷲ کے بندے ہیں۔ کیا مالدار ولی ﷲ نہیں بن سکتا؟ کیا حضرت سلیمان علیہ السلام مالدار نہیں تھے؟ وہ بادشاہ بھی تھے اور نبی بھی تھے، حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ ﷲ علیہ کا جملہ نقل کرتا ہوں کہ جب نبوت سلطنت کے ساتھ جمع ہوسکتی ہے تو ولایت سلطنت کے ساتھ کیوں نہیں جمع ہوسکتی کہ آدمی بادشاہ بھی ہو اور ولی بھی ہو جیسا کہ حضرت عالمگیر رحمۃﷲ علیہ ولی بھی تھے اور بادشاہ بھی تھے۔

آخر قرآن پاک کی تجوید صحیح کرنے کے حوالہ سےضروری اعلان فرمایا کہ تجوید سے قرآن پاک پڑھنا واجب ہے۔۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries