مجلس۱۹۔ مئی۲۰۱۴ء حیات کا اصلی مزہ اللہ پر جان دینے میں ہے!

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں(کلک کریں)

خلاصۂ مجلس:محبی و محبوبی مرشدی و مولائی حضرت والا دامت برکاتہم مجلس میں رونق افروز تھے،  مولانا ابراہیم کشمیری صاحب کو فرمایا کہ حضرت والا کے اشعار سنائیے، انہوں نے اپنی پرسوز آواز میں اشعار سنا کر حاضرین مجلس کو مست کردیا۔ حضرت والا نے بھی بہت پسند فرمائے اور الہامی تشریح بھی فرمائی، یہ سلسلہ تقریباً آدھا گھنٹہ جاری رہا۔ پھرحضرت والا کے حکم سے ملفوظات کا مجمومہ معارفِ ربانی سے جناب ممتاز صاحب نےملفوظات پڑھ کر سنانے شروع کیے، ملفوظات کے تشریح میں بھی حضرت نے ملفوظات ارشاد فرمائے آج کی مجلس تقریباً ۱ گھنٹےتک جاری رہی۔۔

 تشریح اشعار

شیخ کامل سے ایسا ایمان نصیب ہوتا ہے کہ جگر صاحب کی رند توبہ کرلیتے ہیں اور خود ہی جام و سبو توڑ دیتے ہیں، اور اگر پھر اُن پیشکش بھی کی جائے تو بھی وہ اس کومنہ نہیں لگاتے۔

اللہ تعالی کے ذکر کے نشے کا مزہ ایسا ہے کہ دنیا کی شرابوں کے نشے اس کے سامنے ہیچ ہوجاتے ہیں

وہ اللہ کی محبت کی شراب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے در سے ملتی ہے، وہ ایک رات کی مستی نہیں ہوتی بلکہ پوری زندگی کی مستی ہے اور یہ نشہ تلواروں کے نیچے بھی نہیں اُترتا۔

جب تک انہیں خالق سلطنت دل میں نہیں آیا تھا  وہ سلطنتوں کے لذتوں میں مست تھے لیکن جب اللہ کی محبت دل میں آئی تو سلطنت کو قربانی کردیا۔

حضرت والا رحمہ اللہ کا زریں ملفوظ اس کی تو سینکڑوں مثالیں ہیں کہ بادشاہوں نے اللہ کی محبت میں اپنی سلطنتیں چھوڑ دی لیکن ایک مثال بھی ایسی مل سکتی کہ کس اللہ والے نے فقیری چھوڑ کر بادشاہت لے لی ہو۔

حضرت والا سے ایک صاحب نے عرض کیا کہ میری بیوی بہت حسین ہے لیکن آپ کے پاس ایک فیصد بھی ایسا مزہ نہیں آتا جیسا آپ کی صحبتِ مبارک میں آتا ہے تو حضرت والا نے فرمایا پتہ ہے اس کی کیا وجہ ہے، تمہاری بیوی کے پاس حسن ہے اورمیرے پاس خالقِ حسن ہے!!!

جب اللہ جذب فرماتا ہے تو دل میں کھٹک پیدا ہوجاتی ہے۔ اس ضمن میں سلطان ابراہیم ابن ادھم  رحمۃ اللہ علیہ کا واقعہ بیان فرمایا جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی محبت  میں سلطنت چھوڑ دی تھی۔

جن کو اللہ کی محبت کا مزہ مل گیا انہوں نے دنیا کی سلطنتوں کو لات مار دی۔

تنہائی میں اللہ والوں کو اللہ کی یاد میں اور زیادہ مزہ آتا ہے۔

اللہ والوں کی نظر بلندی کی طرف ہوتی ہے اور دنیا والوں کی نظر پستی میں رہتی ہے جیسے پرندہ کو مستقبل میں اُڑنا ہوتا ہے اس لئے اُس کی نظر شروع ہی سے اوپر ہوتی ہے اور گائے وغیرہ شروع ہی سے پستی میں دیکھتے ہیں کیوں کہ اُن کو اُڑنا ہی نہیں ہے۔

حضرت والا کے حالاتِ زندگی بیان فرمائے کہ حضرت مادر زاد ولی تھے

اللہ کے عاشقوں کو مخلوق کو بہت کم پہچانا ہے، اپنا جیسا سمجھتے ہیں، ہر شخص اپنے خیال کے مطابق میرا دوست بنا ہوا ہے لیکن جو میرے دل میں راز چھپا ہوا ہے اُس سے کوئی باخبر نہیں ہے۔

اللہ والوں کے راز دار صرف اللہ  تعالیٰ ہی ہیں۔

حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کے اتنے احسانات ہیں کہ اگر میں جان بھی دے دو تو بھی حق ادا نہیں ہوسکتا ۔ جسم و روح تک کی پرورش فرمائی، ہم تو اُن کی اولاد اور قیامت تک کی ذریات کے غلام ہیں اور اِس رنجیرِ غلامی کو پہننا اپنا شرف سمجھتے ہیں۔

اللہ والا دنیا کے سارے کام کرتا ہے لیکن ہر وقت باخدا رہتا ہے۔

ملفومظاتِ معارف ربانی

ایک واقعہ سناتا ہوں، میرے ایک پیر بھائی بہت بڑے رئیس تھے، ان کے یہاں کاریں گھوڑے بندوق کا پہرہ ہوتا تھا اور پستول لگا کر خود بھی ایسی آن بان سے رہتے تھے کہ بادشاہ معلوم ہوتے تھے۔ ایک مرتبہ ہم بحری جہاز پر کراچی سے بمبئی گئے، اس وقت شاہ عبدالغنی پھولپوری رحمۃ ﷲ علیہ، شاہ ابرار الحق صاحب دامت برکاتہم اور حضرت حافظ عبد الولی صاحب بہرائچی رحمۃ ﷲ علیہ اور وہ رئیس صاحب بھی ہمراہ تھے، وہ عالم نہیں تھے مگر بہت ہی دین دار اور تہجد گذار تھے۔ ایک دن چائے بنا کر مجھ سے کہنے لگے کہ ذرا پیالیاں دھو لیں، وہ عمر میں مجھ سے بڑے تھے لیکن میں نے ان سے کہا کہ جناب! سنئے مجھ کو ﷲ نے دو حرف علم عطا فرمایا ہے۔ اگر مجھ کو چائے پلانی ہے تو آئندہ کبھی پیالی دھونے کے لیے نہ کہیے گا ورنہ میں اُس کی چائے کبھی نہیں پیتا جو بعد میں مُلاّ سے پیالی دُھلوائے، انہوں نے اُسی وقت اپنی ٹوپی اُتاری اور کہا کہ آپ میرے سر پر جوتے لگائیے، مجھ سے یہ گستاخی کیوں ہوئی، لہٰذا جب اس طرح کا موقع آئے گا تو پتہ چلے گا کہ میں مال داروں کے ساتھ کیا برتاؤ کرتا ہوں لیکن ہر ایک کے ساتھ ڈنڈے کا استعمال مناسب نہیں ہے بلکہ اخلاق کے ساتھ پیش آنا بھی ہمارے بزرگوں کا طریقہ ہے۔

حضرت والا فرماتے تھے کہ دنیا بھر کے سلطاتین بھی جمع ہوجائے تو بھی میرے قلب پر ایک ذرہ برابر بھی اُن کا اثر نہیں ہوگا!

حضرت والا کسی سے متاثر نہیں ہوتے تھے جہاں دین کا معاملہ آیا تو حضرت کسی کی پروا نہیں کرتے تھے اس ضمن میں کئی واقعات کا ذکر فرمایا۔

پھر جن کا مال ﷲ کے راستہ میں خرچ ہورہا ہے وہ واجب الاحترام ہیں یا نہیں؟ کیا یہ سنت نہیں ہے کہ آپ صلی ﷲ علیہ وسلم نے سیدنا عثمان رضی ﷲ عنہ کے مال پر خوشی کا اظہار فرمایا۔ اگر آپ ایک مدرسہ قائم کریں اور کوئی آپ کو ایک لاکھ روپے دے دے تو کیا آپ اس کو لات ماریں گے یا اس کو انگوٹھا دکھائیں گے۔ ہاں مولانا اسماعیل شہید رحمۃ ﷲ علیہ نے ایک دفعہ ایک شہزادہ کو انگوٹھا دکھایا تھا لیکن وہ کسی مدرسہ کے لیے چندہ لے کر نہیں آیا تھا بلکہ وہ ان کے پیر چوم رہا تھا یعنی آدابِ شاہی بجا لا رہا تھا تو مولانا نے اس کو پہلے انگوٹھا دکھایا، اس کو تعجب ہوا کہ یہ کیسے ولی ﷲ ہیں کہ میں ان کا پیر چوم رہا ہوں اور یہ مجھے انگوٹھا دِکھا رہے ہیں۔ آخر میں اس کی عقیدت ختم کرنے کے لیے مولانا نے اس کا منہ چڑا دیا اور بالکل آخر میں پیر دکھا دیا، شہزادہ وہاں سے بھاگ گیا کہ ان کا تو دماغ ہی ٹھیک نہیں ہے۔ بعض وقت بزرگانِ دین ایسی حرکت کرتے ہیں تاکہ بادشاہ یا مالدار لوگ ان کے زیادہ معتقد نہ ہوں لہٰذا مالداروں کے بارے میں یہ اصول ہمیشہ یاد رکھو کہ اُن کو حقیر مت سمجھو کیونکہ وہ ﷲ کے راستہ میں اپنا مال دے رہے ہیں اِس لیے اُن کی عزت کرو اور سوچو کہ معلوم نہیں قیامت کے دن اس کے ساتھ کیا معاملہ ہو اور ہمیں کسی کو حقیر سمجھنے کا حق ہی کیا ہے؟ حضرت حکیم الامت رحمۃ ﷲ علیہ نے فرمایا کہ ہوسکتا ہے کہ بعض مال دار خود تو بے عمل ہوں لیکن انہوں نے اپنا جو مال مدرسہ میں دیا اس سے بعض اولیاء ﷲ پیدا ہوگئے جن کی برکت سے وہ مال دینے والے بخشے جائیں، آہ! کیا بات فرمائی! اس لیے کسی کو حقیر مت سمجھو لیکن قلب میں ان کا احترام علماء کے احترام سے زیادہ نہ ہو کہ علماء سے بھی زیادہ ان کو محترم سمجھنے لگو۔ ایک بزرگ تھے جو علماء سے پیر نہیں دبواتے تھے لیکن جو مال دار ان کے پاس آتا اس سے کہتے تھے کہ پیر دباؤ، اس طرح ان کا دماغ ٹھیک کرتے تھے مگر علماء کی عزت کرتے تھے۔

اب مولانا شاہ محمد احمد صاحب کا ایک شعر پیش کررہا ہوں، میں نے تین برس ان کی صحبت اٹھائی ہے اور سلسلۂ نقشبندیہ میں انہوں نے مجھے اجازت بھی دی ہے، حضرت نقشبندیہ سلسلہ سے تعلق رکھتے تھے لیکن ان میں ہزاروں چشتیوں سے زیادہ عشق تھا۔ ان کا ایک شعر سناتا ہوں جو میری ان سے دلچسپی کا سبب بنا۔ میں پندرہ سال کا تھا جب حضرت کی خدمت میں گیا، اُس وقت حضرت کی خدمت میں لکھنؤ کے علماء آئے ہوئے تھے اور حضرت یہ اشعار پڑھ رہے تھے   ؎

دلِ مضطرب کا یہ پیغام ہے
تیرے بن سکوں ہے نہ آرام ہے
تڑپنے سے ہم کو فقط کام ہے
یہی بس محبت کا انعام ہے
جو آغاز میں فکرِ انجام ہے
ترا عشق شاید ابھی خام ہے

اور   ؎

لطف جنت کا تڑپنے میں جسے ملتا نہ ہو
وہ کسی کا ہو تو ہو لیکن ترا بسمل نہیں

یہاں تڑپنے سے مراد وہ تڑپنا نہیں ہے جیسے دردِ دل والے تڑپتے ہیں اور ہسپتال جاتے ہیں، دردِ دل سے مراد اﷲ کی محبت کا درد ہے، جس کو اﷲ کی محبت کا درد حاصل ہوجائے اُس کو دنیا ہی میں جنت مل جاتی ہے، ساری دنیا کے بادشاہ جو تخت و تاج کو لیے بیٹھے ہیں اگر ان کو اﷲ والوں کے ذکرِ کامل کا مزہ مل جائے تو اپنے تخت و تاج کو نیلام کردیں، سلطان ابراہیم ابن ادھم رحمۃ اﷲ علیہ کی جانِ پاک جب حق آشنا ہوگئی تو انہوں نے کچھ تو مزہ پایا تھا جو بلخ کی سلطنت چھوڑ دی، اس پر میرے اشعار سنئے   ؎

جسمِ شاہی آج گدڑی پوش ہے
جاہِ شاہی فقر میں روپوش ہے
الغرض شاہِ بلخ کی جانِ پاک
عشقِ حق سے ہوگئی جب دردناک
فقر کی لذت سے واقف ہوگئی
جانِ سلطاں جانِ عارف ہوگئی

میرے یہ اشعار معارفِ مثنوی میں بھی موجود ہیں، اس کو پڑھو اور دیکھو کہ اس میں کیا لکھا ہے۔ میری اس کتاب کے بارے میں حضرت مولانا محمد یوسف بنوری رحمۃﷲ علیہ فرماتے تھے کہ اختر کی یہ کتاب پڑھ کر مجھے ان سے اتنی عقیدت ہوگئی جس کا مجھے تصور بھی نہیں تھا۔

تو میں مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کے بارے میں عرض کررہا تھا، ایک مرتبہ مولانا علی میاں ندوی لکھنؤ کے علماء کے ساتھ ان سے ملنے گئے، مولانا شاہ محمد احمد صاحب عمر میں ان سب سے بڑے تھے لہٰذا ڈانٹ کر فرمایا کہ اے ندوہ کے علماء بری نظر لگ جاتی ہے، یہ اسلامی عقیدہ ہے ، اسلام نے اس کو قبول کیا ہے اور کہا ہے کہ اَلْعَیْنُ حَقٌ بری نظر سے درخت سوکھ جاتے ہیں، انسان سوکھ کر کانٹا ہوجاتا ہے تو جب بری نظر لگنا آپ تسلیم کرتے ہیں تو اﷲ والوں کی اچھی نظر لگنے کو کیوں تسلیم نہیں کرتے؟ پھر یہ شعر پڑھا   ؎

سنیں یہ بات میری گوشِ دل سے جو میں کہتا ہوں
میں اُن پر مرمٹا تب گلشنِ دل میں بہار آئی 

اﷲ پر مر کر دیکھو پھر حیات کا اصلی مزہ ملے گا، جو اﷲ پر مرجائے یعنی بری خواہشات اور گناہ چھوڑ دے پھر اس کی زندگی زندگی پاجائے گی۔ میرا شعر ہے   ؎

آپ کے نام پر جان دے کر
زندگی زندگی پاگئی ہے

فرمایا پورا قطعہ یہ ہے    ؎

آپ کے نام پر جان دے کر
زندگی زندگی پاگئی ہے
چل کے نقشِ قدم پر نبی کے
بندگی بندگی پاگئی ہے

تو مولانا شاہ محمد احمد صاحب نے ندوہ کے علماء سے فرمایا کہ اگر کسی اﷲ والے کے ناز نہیں اٹھاؤ گے تو زبانِ ہوشمند تو پاجاؤ گے لیکن دلِ روشن سے محروم رہو گے   ؎

ہے   دلِ روشن   مثالِ   دیوبند
اور  ندوہ ہے زبانِ   ہوشمند
اب علی گڈھ کی بھی تشبیہ جان لو
اک معزز  پیٹ  اُس  کو  مان   لو

پھر حضرت نے فرمایا   ؎

تنہا نہ چل سکیں گے محبت کی راہ میں
میں چل رہا ہوں آپ میرے ساتھ آئیے

لہٰذا حضرت کے دردِ محبت سے متأثر ہوکر علماء ندوہ حضرت کے ہاتھ پر بیعت ہوگئے اور پھر ان سے بہت فیض پھیلا۔

تو میں عرض کررہا تھا کہ ذکر کے ساتھ ہم لوگ نگاہوں کی حفاظت نہیں کرتے جیسی کرنی چاہیے، خاص کر جب مارکیٹ جاتے ہیں اور کرسچین لڑکیوں کی ٹانگوں اور رانوں پر نظر پڑتی ہے تو کَلاَّ بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ آپ محسوس کریں گے، بتائیے عورتوں کی ننگی ران دیکھنے سے کَلاَّ بَلْ رَانَ کا زنگ لگتا ہے یا نہیں؟ لہٰذا ہمت سے کام لو، یہ سب لاشئی ہیں اور سب لاشیں قبرستانوں میں جانے والی ہیں، مجھے اپنا ایک بہت ہی پیارا شعر یاد آرہا ہے   ؎

خاک ہوجائیں گے قبروں میں حسینوں کے بدن
ان کے ڈسٹمپر کی خاطر راہِ پیغمبر نہ چھوڑ

لیکن یہ وہ شعر نہیں ہے جو میں سنانا چاہتا ہوں، ابھی اُس شعر کو میں قصداً چھوڑ رہا ہوں کیونکہ بعض اوقات ابا لڈو ہاتھ میں رکھ کر ہاتھ اوپر کرلیتا ہے اور بچہ کود کود کر لینے کی کوشش کرتا ہے تو میں بھی آپ کو اس شعر کے لیے اس لیے تڑپا رہا ہوں تاکہ خوب بے چینی پیدا ہوجائے لہٰذا ری یونین میں جب آپ سڑکوں پر جارہے ہوں، مارکیٹنگ کرنی ہو، کچھ خریدنا ہو اور داہنی طرف دیکھیں تو کرسچین لڑکی کھڑی ہے، بائیں طرف دیکھیں تو اُدھر بھی لڑکی کھڑی ہے، اوپر دیکھیں تو اُدھر بھی فلیٹ سے جھانک رہی ہے اب کہاں جائیں گے؟ جس طرف دیکھو اَعُوْذُ بِاﷲِ اور اَسْتَغْفِرُ ﷲَ ہے، آپ اس وقت بِسْمِ ﷲِ  نہیں کہہ سکتے، ہر طرف اِنَّا ِﷲِہے البتہ اس وقت نظر بچا کراَلْحَمْدُ ِﷲِ کہوکہ یا اﷲ! آپ کی توفیق اور کرم سے آنکھوں کو بچانے کی توفیق ہوئی اب اس بصارت کے بدلے ہم کو بصیرت عطا فرما دیجیے۔ علامہ ابن القیم جوزی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ جو اپنی آنکھ کی روشی خدا پر فدا کرتا ہے اور نامحرموں کو نہیں دیکھتا تو اﷲ اس کی بصارت کی قربانی پر اس کی بصیرت کو حلاوتِ ایمانی سے روشن کردیتا ہے۔ ترازو کے ایک پلڑے میں ہزار تہجد کا نور رکھ دو اور نظر بچانے سے قلب میں جو نور پیدا ہوتا ہے وہ دوسرے پلڑے میں رکھ دو تو ہزار تہجدکے مقابلہ میں وہ پلڑا جھک جائے گا۔ 

اﷲ والی محبت میں احتیاط کا حکم ہے کہ جو آنسو نکلیں ان کو کوئی مخلوق نہ دیکھے صرف اﷲ دیکھے یعنی مخلوق کو دِکھانے کی نیت نہ ہو   ؎

میں نے چھپائی لاکھ محبت نہ چھپ سکی
آنکھوں نے رو کے یار سے اظہار کردیا

جو آنسو صرف اﷲ کے لیے نکلیں گے اس پر عرش کا سایہ ملے گا لیکن اگر کبھی بے ساختہ مخلوق کے سامنے نکل آئیں تو بھی کوئی گناہ نہیں، اس کے برعکس لوگ دنیاوی محبت بہت چھپاتے ہیں۔ ایک شاعر نے میرے شیخ کو ایک شعر سنایا کہ دنیاوی محبت میں ایک عاشق نے کہا کہ میں آنسوؤں کو بہنے نہیں دوں گا ورنہ میری محبت کا راز فاش ہوجائے گا   ؎

میں اشکوں کو کس طرح بہہ جانے دیتا
کہ   مدِّنظر   آبرو    تھی    کسی    کی

کیونکہ اگر آنسو نکل جاتے تو سب کہتے کہ دال میں کچھ کالا ہے لیکن اگر اﷲ کی محبت میں آنسو نکل آئیں تو کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ یہاں کوئی بدنامی کا خطرہ نہیں، اگر رونا آئے تو رو لیں اور اگر نہیں آئے تو نہ روئیں البتہ رونے والوں کی شکل ضرور بنالیں۔اب میں آپ کی خدمت میں وہ شعر پیش کررہا ہوں جس کے لیے آپ کو اتنا انتظار کرایا اور وہ شعر ہے   ؎

جو کرتا ہے تو چھپ کے اہل جہاں سے
کوئی دیکھتا ہے تجھے آسماں سے

یہ میرا شعر ہے اور بتائیں کتنا پیارا شعر ہے کیونکہ کلمہ لاَ اِلٰہَ اِلاَّ ﷲُ میں نفی پہلے ہے اور اثبات بعد میں ہے، غیر اﷲ سے تعلق کی نفی پہلے ہے اور اﷲ سے تعلق کا اثبات بعد میں ہے، اگر آپ کہیں کہ یہاں لاَ اِلٰہَ سے مراد باطل خدا ہیں جبکہ ہم خواہشاتِ نفس کو خدا نہیں سمجھتے لیکن اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تم اپنی خواہشاتِ نفس کو جو پوجتے ہو یہ بھی تمہارے باطل اِلٰہَ ہیں اور اس کی دلیل قرآن پاک کی یہ آیت ہے اَفَرَأَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰہَہُ ھَوَاہُ اے محمد !صلی اﷲ علیہ وسلم کیا آپ نہیں دیکھتے کہ بعض نالائقوں نے اپنی بری خواہشات کو اپنا خدا بنایا ہوا ہے۔ معلوم ہوا کہ جو بدنظری کرتا ہے وہ اپنی بری خواہشات کو خدا بنائے ہوئے ہے۔ میں بحیثیت طبیب کے عرض کرتا ہوں کہ نظر کی حفاظت میں صحت کی ضمانت بھی ہے کیونکہ بد نظری سے صحت خراب ہوجاتی ہے، جو شخص جتنی نظر بچائے گا اس کی آنکھ کی روشنی بھی محفوظ رہے گی اور مثانہ کی بیماریوں سے بھی بچا رہے گا کہ بار بار پیشاب آرہا ہے اور اس کا دل بھی مضبوط رہے گا، قلب میں سکون رہے گا کیونکہ بخاری شریف کی روایت کے مطابق بد نظری کو آنکھوں کا زِنا قرار دیا گیا ہے زِنَا الْعَیْنِ النَّظَرُ تو بتاؤ کیا آنکھوں کا زِنا کرنے پر ہم کو صحت ملے گی؟ خالقِ صحت کو ناراض کرکے ہم صحت مند رہیں گے؟ حکیم الامت فرماتے ہیں کہ بدنظری سے دل پریشان رہتا ہے مگر شیطان بہکاتا ہے کہ بہت مزہ آئے گا تو شیطان کو جواب دینے کے لیے میں نے ایک شعر بنایا ہے، جب آپ سڑکوں پر چلیں اور شیطان کہے کہ دیکھو کیسے کیسے جلوے نظر آرہے ہیں اور کہے کہ بد نظری کرنے سے بڑا مزہ آئے گا تو اس وقت آپ یہ شعر پڑھ لیں   ؎

ہم   ایسی   لذتوں   کو  قابلِ  لعنت  سمجھتے ہیں
کہ جن کو دیکھنے سے رب میرا ناراض ہوتا ہے

اور اگر شیطان پھر بھی وسوسہ ڈالے تو اس کو سختی سے جواب دو   ؎

نہ دیکھیں گے نہ دیکھیں گے، انہیں ہرگز نہ دیکھیں گے
کہ   جن   کو   دیکھنے   سے  رب  میرا ناراض ہوتا ہے
۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries