مجلس۲۱۔ مئی۲۰۱۴ء کفار کی قومی خدمات کی غیر مقبولیت کا راز!

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں(کلک کریں)

خلاصۂ مجلس:محبی و محبوبی مرشدی و مولائی حضرت والا دامت برکاتہم مجلس میں رونق افروز تھے، جناب اثر صاحب حاضرِ خدمت تھے، حضرت نے فرمایا اثر صاحب اشعار سنائیے انہوں نے اشعار سنائے۔ حضرت والا نے بھی بہت پسند فرمائے،۔ پھرحضرت والا کے حکم سے ملفوظات کا مجمومہ معارفِ ربانی سے جناب ممتاز صاحب نےملفوظات پڑھ کر سنانے شروع کیے، ملفوظات کے تشریح بھی حضرت نےفرمائی، بعد ازیں حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کے۴۰ سال پرانے ملفوظات حضرت اقدس میر صاحب دامت برکاتہم نے خود پڑھ کر سنائے اور تشریح بھی فرماتے رہے۔ آج کی مجلس تقریباً ۱ گھنٹےتک جاری رہی۔۔

ملفومظاتِ معارف ربانی

حضرت والا کی شفقت اور دین کی تڑپ: مجلس کے بعد حضرت والا خانقاہ سے ملحق اپنے کمرہ میں تشریف لائے تو بہت سے احباب مثل پروانوں کے حضرت والا کے ساتھ آگئے اور کمرہ بھر گیا۔ حضرت والا اگرچہ تھک گئے تھے لیکن احباب کو دیکھ کر خوش ہوگئے اور نہایت شفقت و محبت سے فرمایا کہ صرف ﷲ کی محبت ایسی چیز ہے جس سے دل نہیں بھرتا اور ارشاد فرمایا کہ یہ ملاقاتیں کئی سال میں نصیب ہوتی ہیں لہٰذا جن کو وقت پر سونے کا موقع نہیں ملتا اور سونے میں کچھ تاخیر ہوجاتی ہے وہ دن میں اپنی نیند پوری کرلیں اور فجر پڑھ کر سو جائیں جیسے جو تاجر ری یونین سے بزنس کا مال خریدنے فرانس جاتے ہیں تو اگر وہ سارا مال یہاں آجائے اور اعلان ہوجائے کہ جس کو مال لینا ہو یہیں لے لو تو یہ اعلان سن کر سب تاجر دوڑ کرجائیں گے، یہ نہیں دیکھیں گے کہ کیا بجا ہے اور کہیں گے کہ یہ مت دیکھو کہ کیا بجا ہے بلکہ بغلیں بجاؤ، خوشیاں مناؤ اور جلدی سے مال خرید لو، لہٰذا اگر ﷲ کی محبت کی باتوں میں دیر ہوجائے تو حوصلہ کو بلند رکھو، کیا بعید ہے کہ یہ سب چیزیں قیامت کے دن نجات کا ذریعہ اور محبت کا سامان بن جائیں۔

محبت کا اعلیٰ مقامارشاد فرمایا کہ محبت اس کا نام ہے کہ شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اﷲ علیہ نے دہلی سے چل کر اپنے خون کو بالاکوٹ کے پہاڑوں اور گھاس پر بکھیر دیا   ؎

خونِ خود را بر کہہ و کُہسار ریخت

سبحان اﷲ کیا عشق ہے! دیکھو یہی محبت ہے، اسی کا نام محبت ہے کہ جان دے دی مگر اﷲ کو نہیں چھوڑا۔ اسی طرح نفس سے جہاد میں اپنی حرام آرزوؤں کا خون بہادو، یہ بھی اﷲ پر مرنا ہے اور یہ بھی محبت کا اعلیٰ مقام ہے۔

حدیث اَضْحَکَ اﷲُ سِنَّکَ کی شرح: فرمایا کہ حدیثِ پاک میں ہے کہ سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہنسنے پر حضراتِ شیخین رضی ﷲ تعالیٰ عنہما نے کہا اَضْحَکَ اﷲُ سِنَّکَ یَا رَسُوْلَ ﷲِ یعنی ﷲ آپ کو ہمیشہ ہنستا رکھے، لیکن اگر کوئی مسلسل ہنسے تو اس کو نفسیاتی ڈاکٹر کے یہاں لے جاتے ہیں کیونکہ مسلسل ہنسنا بھی بیماری ہے تو اس حدیث کی شرح میں محدثین فرماتے ہیں کہ اَضْحَکَ ﷲُ سِنَّکَ سے مراد ہے اَدَامَ ﷲُ  فَرْحَکَ یعنی ﷲ آپ کی فرحت ہمیشہ قائم رکھے۔ علم کی نعمت و برکت بھی عجیب چیز ہے۔

ﷲ والے دوستوں کی ملاقات کی عظیم نعمت: ارشاد فرمایا کہ دوستوں کی ملاقات بہت بڑی نعمت ہے۔ میرے شیخ مولانا شاہ عبد الغنی صاحب پھولپوری رحمۃ ﷲ علیہ سے جب کوئی پیر بھائی ملنے آتا تو بہت خوش ہوتے اور امام شافعی رحمۃ ﷲ علیہ کا یہ قول نقل فرماتے کہ جب سے مجھے خبر ملی ہے کہ جنت میں دوستوں سے ملاقات ہوگی تو مجھے جنت کا شوق بڑھ گیا، دوستوں کی ملاقات معمولی بات نہیں ہے، دیکھو اب آپ لوگوں سے سال بھر کے بعد ملاقات ہوئی ہے۔
اس لیے ﷲ والے دوستوں کے ساتھ دینی ماحول میں جتنا بیٹھنے کا موقع ملے اس کو غنیمت سمجھو، یہ مت کہو کہ ارے بھائی ابھی تو موقع نہیں ہے، پھر دیکھا جائے گا، کیا معلوم کہ پھر موقع ملے یا نہ ملے اور کیا معلوم کہ یہی ایک مجلس نجات کا ذریعہ بن جائے۔

جنت کے مزوں کے لیے شرک سے حفاظت کی تلقین: ارشاد فرمایا کہ جنت میں نہ رات ہوگی نہ دن، نہ ہفتہ، نہ مہینہ، نہ سال، وہاں دس لاکھ سال بھی گذر جائیں گے تو پتا نہیں چلے گا کہ کون کتنے سال کا ہے کیونکہ وہاں سورج نہیں ہوگا، ہم لوگ جو بوڑھے ہوتے ہیں اسی سورج کی وجہ سے ہوتے ہیں، یہی ظالم دن بناتا ہے، صبح، شام، دن، ہفتہ، مہینہ اور سال بناتا ہے پھر پتا چلتا ہے کہ ہم تو اسّی سال کے ہوگئے اور زندگی کے سفر سے تھک گئے اور جنت میں چونکہ تھکن نہیں ہوگی لہٰذا وہاں نیند کی ضرورت بھی نہیں ہوگی، اﷲ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتے ہیں وَ جَعَلْنَا نَوْمَکُمْ سُبَاتًا اور نیند کو ہم نے آرام کا سبب بنایا، نیند کی وجہ سے بہت سی لذتیں ختم ہوجاتی ہیں تو جنت میں ایک مزہ یہ بھی ہے کہ وہاں نیند نہیں ہوگی، ہر وقت جنت کی نعمتوں اور لذتوں میں مگن رہیں گے اور وہاں غم کا بھی کوئی تصور نہیں، غم آنا تو دور کی بات وہاں اس کے تصور کا گذر بھی نہیں ہوگا اس لیے جنتی جب جنت میں اپنا پہلا قدم رکھے گا تو اس کے منہ سے پہلا جملہ یہی نکلے گا:

اَلْحَمْدُ ِﷲِ الَّذِیْ اَذْھَبَ عَنَّا الْحَزَنَ

شکر ہے اس اﷲ کا جس نے غم سے نجات دی اور خوشیاں بخشیں، وہاں ایک طرف خوشیاں ہوں گی اور ایک طرف غم، جنت میں خوشیاں ہی خوشیاں اور جہنم میں غم ہی غم اس لیے ہر وقت خدا سے دعا کرتے رہو خاص طور پر شرک سے حفاظت کی دعا کرو کیونکہ شرک کی وجہ سے بہت سے لوگوں کا عمل ضائع ہوجائے گا اور شرک کرنے والے کو کبھی نجات نہیں ملے گی۔ اسی لیے حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ہم شرک سے بچنے کے لیے کیا کریں تاکہ ہمارے اعمال ضائع نہ ہوں تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ دعا پڑھا کرو:

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ اَنْ اُشْرِکَ بِکَ وَ اَنَا اَعْلَمُ وَاسْتَغْفِرُکَ لِمَا لاَ اَعْلَمُ(عمل الیوم واللیلۃ لابن السنی، باب الشرک، ص:۱۴۲)

یعنی اے اﷲ! میں اس شرک سے بھی آپ کی پناہ چاہتا ہوں جسے میں جانتا ہوں اور اس شرک سے بھی پناہ چاہتا ہوں جسے میں نہیں جانتا لہٰذا اپنے نیک اعمال میں اخلاص کے لیے اس دعا کو ضرور پڑھ لیا کریں اور اﷲ سوئِ قضاء سے بھی بچائیں اور سوئِ قضا کو حسنِ قضاء سے بدل دیں اس لیے اس دعا کو بھی پڑھ لیا کریں:

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ جَھْدِ الْبَلآَءِ وَ دَرْکِ الشَّقَآءِ وَسُوْئِ الْقَضَآئِ وَشَمَاتَۃِ الْاَعْدَآءِ(صحیحُ البخاری،کتابُ القدر، باب من تعوذ باﷲ، ج:۲، ص:۹۷۹)

جو اس دعا کو پڑھے گا ان شاء اﷲ مستقبل کی بیماریوں سے محفوظ رہے گا کیونکہ اﷲ اس بات پر قادر ہیں کہ سوئِ قضاء کو حسنِ قضاء سے بدل دیں، بعض لوگ یہ اِشکال کرتے ہیں کہ قرآن پاک میں اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں لاتَبْدِیِلَ لِکَلِمَاتِ اﷲِ یعنی اﷲ کا فیصلہ نہیں بدلتا جبکہ اس حدیث میں اﷲ سے سوئِ قضاء کے فیصلہ کو حسنِ قضاء سے بدلنے کی دعا کی جارہی ہے تو یہ کیسے ممکن ہے؟ محدثینِ کرام اس اِشکال کا جواب دیتے ہیں کہ اﷲ کی قضاء کو مخلوق نہیں بدل سکتی اﷲ خود بدل سکتے ہیں کیونکہ خدا کا فیصلہ اور حکم خدا پر حاکم نہیں، قضاء الٰہی خود محکومِ الٰہی ہے۔

عشاء کی مجلس کے بعد بعض علماء حضرات حضرتِ والا دامت برکاتہم کے ساتھ حجرہ میں آگئے، اس وقت کے بعض ارشادات:

بندوں کے علمِ غیب کی نفی کی دلیل: ایک صاحب نے سوال کیا کہ قرآن شریف میں ہے کہ ماں کے پیٹ میں جو کچھ ہے اس کا اﷲ کو علم ہے لیکن آج کل تو ڈاکٹر بتادیتے ہیں کہ رحم میں لڑکا ہے یا لڑکی۔ اس کے جواب میں ارشاد فرمایا کہ اﷲ کو آلات کے وسیلہ کے بغیر علم ہے کہ ماں کے پیٹ میں کیا ہے اور ڈاکٹر آلات کے محتاج ہیں، یہ فرق ہے۔ اﷲ بدونِ اسباب اور بدونِ آلات جانتا ہے کہ ماں کے پیٹ کے اندر کیا بن رہا ہے اور ڈاکٹر آلات کے محتاج ہیں لہٰذا ان کی احتیاج ثابت ہونے سے ان کی مخلوقیت بھی ثابت ہوگئی اور یہ بھی ثابت ہوگیا کہ محتاج عالِم الغیب نہیں ہوسکتا اور اﷲ تعالیٰ چونکہ خالق ہیں اس لیے وہ احتیاج سے پاک ہیں اور ان کو آلات کے وسیلہ کے بغیر علم ہے اس لیے صرف وہی عالم الغیب ہیں۔ اسی طرح بارش کے ہونے یا نہ ہونے کی پیشین گوئی میں بھی سائنس داں آلات کے محتاج ہیں اور اکثر ان کی پیشین گوئی کے خلاف ہوجاتا ہے لہٰذا اسباب و آلات کی محتاجی بندوں کے علمِ غیب کی نفی کی دلیل ہے۔ عالم الغیب صرف اﷲ کی ذات ہے جس کو بدونِ آلات اوّل و آخر، ماضی و حال و مستقبل کا علم ہے۔ پیغمبروں کو جو علم دیا جاتا ہے اس کا نام علم غیب نہیں ہے، اس کا نام وحی الٰہی ہے۔

اس کے بعد حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کے ۴۰ سال پرانے ملفوظات حضرت اقدس میر صاحب دامت برکاتہم نے خود پڑھ کر سنائے:

کفار کی قومی خدمات کی غیر مقبولیت کا راز: ارشاد فرمایا کہ آج کل مغرب زدہ لوگ کہتے ہیں کہ یورپ والے تو چاند پر جا رہے ہیں، سائنسی ترقیات کر رہے ہیں، ہسپتال تعمیر کرا رہے ہیں غریبوں کو مفت دودھ مکھن تقسیم کر رہے ہیں اور اے مسلمانو! تم لوگ ٹوٹی ہوئی چٹائیوں پر سجدوں میں رو رہے ہو، آخر تم نے انسانیت کو کیا دیا؟ کیا تمہارے یہ آنسو تمہیں بخشوادیں گے اور اہل یورپ کی قومی خدمات اور انسانی ہمدردی ان کی نجات کے لئے کافی نہ ہوگی؟ جواب یہ ہے کہ ہاں کفار کی قومی خدمات اور انسانی ہمدردیاں ان کی نجات کے لئے کافی نہیں اس لئے کہ یہ قوم کی تو خدمت کر رہے ہیں اور اللہ کو ناراض کر رکھا ہے اور ہم لوگ دنیا میں انسانیت کو کچھ دینے اور قومی خدمت کرنے نہیں آئے اللہ کو راضی کرنے آئے ہیں ،پہلے اللہ کو راضی کرنا ضروری ہے جوموقوف ہے ایمان باللہ و ایمان بالرسالت پر۔ اس کے بعد ثانوی درجہ قومی خدمات وانسانی ہمدردی کا ہے ان کو راضی کرتے ہوئے جو خدمت کی جائے گی وہ قبول ہے ورنہ بڑے سے بڑا کارنامہ غیر مقبول ہے اور یہ ہم نہیں کہتے حق تعالیٰ فرماتے ہیں اَجَعَلْتُمْ سِقَایَۃَ الْحَآجِّ وَعِمَارَۃَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کَمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ( سورۃ التوبہ آیت ۱۹) اے کفار و مشرکین کیا حاجیو کو پانی پلانے سے اور مسجد حرام کی تعمیر سے تم ان لوگوں کے برابر ہوجائو گے جو اللہ پر ایمان لائے اور یوم آخرت پر اور اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں۔ تو حاجیوں کو پانی پلانے سے بڑھ کر کون سی قومی خدمت ہوسکتی ہے اور تعمیر کعبہ سے بڑھ کر کس ہسپتال کی تعمیر ہوسکتی ہے  پس جب بغیر ایمان کے تعمیر کعبہ اور حاجیوں کو پانی پلانا بھی سبب قبولیت نہ ہوسکا تو پھر ہسپتال کی تعمیر اور دودھ مکھن کی مفت تقسیم اور دوسری تمام قومی خدمات کی کیا حقیقت ہے۔ ان سے یہ کفار مقبولان حق نہیں ہوسکتے۔
    اس کی مثال یہ ہے کہ کسی باپ کے دس بیٹے ہوں ان میں ایک بیٹا تو بھائیوں کی خوب خدمت کر رہا ہو، ان کو دودھ مکھن تقسیم کر رہا ہو ان کے لئے  مکانات بھی بنوا رہا ہو ان کی ترقی کی فکر میںہر وقت لگا ہو لیکن کبھی باپ کی طرف دیکھتا بھی نہ ہو اور باپ کے لئے کچھ نہ کرتا ہو تو خود فیصلہ کرو کہ ایسا نالائق بیٹا واجب القتل ہے یا نہیں اور کیا باپ اس سے خوش ہوسکتا ہے بلکہ اپنی جائیداد سے ایسے بیٹے کو باپ عاق کر دے گا کہ اس نالائق کا اب میری جائیداد میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ اسی طرح یہ کفار حق تعالیٰ کی خاص جائیداد جنت سے عاق شدہ ہیںاور جس بیٹے سے باپ ناراض ہو تو عقلمند بھائی اس کی خدمت کو قبول نہیں کریں گے ۔باپ کے حقوق محبت سے یہ بھی ہے جو بھائی باپ کا نافرمان ہو اس کی خدمت قبول نہ کی جاوے ۔حدیث شریف میں احسان فاسق سے پناہ طلب کی گئی ہے، اس کی ایک حکمت یہ بھی سمجھ میں آئی۔ اسی وجہ سے اولیاء اللہ فاسق کے احسان سے بچتے ہیں کیونکہ جو بندہ اللہ کا باغی و نافرمان ہو اس کی خدمت کو قبول کرنا اللہ کی محبت کے حقوق میں خیانت ہے۔

ارشاد فرمایا کہ حضرت شیخ جو حکم دے دیتے ہیں اس پر اطمینان ہوجاتا ہے اور سمجھتا ہوں کہ بواسطۂ شیخ یہ حق تعالیٰ کا منشا ہے، یعنی اس وقت اللہ تعالیٰ کا یہی منشا ہے۔ اگر شیخ کے ساتھ اتنا اعتقاد نہ ہو تو اصلاح نہیں ہوسکتی اور اس کے خلاف میں نفس ہے، [یعنی شیخ کی تجویز و منشا کے خلاف کرنا نفس کی مرضی پر چلنا ہے۔ جامع]

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا ارشادِ عالی شان: حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ارشاد ہے کہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ شانہ اپنی محبت کا ذرا سا ذائقہ بھی چکھا دیتے ہیں وہ دنیا کی طلب سے فارغ ہوجاتا ہے اور لوگوں سے اس کو وحشت ہونے لگتی ہے یعنی دنیا داری میں اس کا دل نہیں لگتا اور بہ تکلف اللہ تعالیٰ کا حکم سمجھ کر لوگوں کے حقوق ادا کرتا ہے۔ حضرت مرشدی دامت برکاتہم نے اس حدیث کو پڑھ کر ارشاد فرمایا کہ معلوم ہوا کہ دونوں چیزیں جمع نہیں ہوسکتیں، جس کو دیکھو کہ دنیا کا طالب ہے سمجھ لو کہ اس کے دل نے اللہ کی محبت کا مزا نہیں چکھا   ؎

نفس تو تا مست در نُقل  و نبیذ
داں کہ روحت خوشۂ غیبی ندید

یعنی جب تک کہ تیرا نفس دنیا کی فانی لذتوں کے نشہ سے مست ہے سمجھ لے کہ تیری روح نے ابھی اللہ کی محبت کی غیبی لذت کا مزا نہیں چکھا ( ترجمہ از جامع)

حضرت امام احمد ابن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کی دُعا: ارشاد فرمایا کہحضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اکثر یہ دعا مانگتے تھے: اللَّهُمَّ كَمَا صُنْتَ وَجْهِي عَنِ السُّجُودِ لِغَيْرِكَ فَصُنْ وَجْهِي عَنِ الْمَسْأَلَةِ لِغَيْرِكَ (مرقاۃ المفاتیح، خطبۃ الکتاب) اے اللہ، جیسا آپ نے میرا چہرہ بچایا غیر کو سجدہ کرنے سے اسی طرح میرا چہرہ بچائیے غیر سے سوال کرنے سے۔

استدراج کے متعلق علمِ عظیم: ارشاد فرمایا کہ   احقر نے عرض کیا تھا کہ آیت:

سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُونَ
( سورۃ الاعراف  آیۃ ۱۸۲)

سے ظاہر ہوتا ہے کہ مستدرج بہ کو یہ علم نہیں ہوتا کہ میں استدراج میں مبتلا ہوں، اس لئے اس کو خوف ہی نہیں ہوتا کہ کہیں یہ استدراج نہ ہو۔ فرمایا کہ جس کو خوف ہو کہ میں استدراج میں مبتلا ہوں یہ دلیل ہے کہ وہ استدراج میں مبتلا نہیں ہے، کیونکہ یہ خوف دلیل ہے  عِلْم مِنْ وَجْہٍ ہونے کا اور مِنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُونَ میں علم کا نہ ہونا مطلق ہے، پس علمِ استدراج کا ہونا نفیِ استدراج کو مستلزم ہے، جس کو استدراج ہوتا ہے اس کو علم ہی نہیں ہوتا، جس طرح روہو چارہ میں لگا ہوا کانٹا لے کر بھاگتا ہے اس وقت وہ بالکل غافل ہوتا ہے، اس کو یہ علم نہیں ہوتا کہ مجھے ڈھیل دی جارہی ہے اور مِنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُونَ کا پورا مصداق ہوتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میں بڑے نفع میں ہوں بڑا لذیذ چارہ ملا ہے، اگر اسے یہ خوف ہوجائے کہ مجھے ڈھیل دی جارہی ہے تو ڈور ہی کو چھوڑ دے، اسی طرح جو لوگ استدراج میں مبتلا ہیں وہ مطلق بے خبر اور غافل ہوتے ہیں، استدراج سے ان کو کبھی وسوسۂ استدراج بھی نہیں آتا۔

ایک اشکال اور اس کاالہامی جواب:  ارشاد فرمایا کہ حدیث شریف ہے:

أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِيْ بِيْ وَأَنَا مَعَه، إِذَا ذَكَرَنِي فَإِنْ ذَكَرَنِي فِي نَفْسِهٖ ذَكَرْتُه، فِي نَفْسِيْ وَإِنْ ذَكَرَنِي فِي مَلَأٍ ذَكَرْتُه، فِي مَلَأٍ خَيْرٍ مِّنْهُ. (صحیح البخاری، کتاب الرد علی الجہمیۃ و غیرہم التوحید، جلد:۲، صفحہ:۱۱۰۱)

میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں جیسا وہ مجھ سے گمان رکھتا ہے ویسا ہی معاملہ اس کے ساتھ کرتا ہوں ۔جو مجھ سے بھلائی کی امید اور نیک گمان رکھتا ہے اس کے ساتھ بھلائی کرتا ہوں اور جو مجھ سے مایوس ہوتا ہے اس کو مایوس ہی کر دیتا ہوں اور جب وہ مجھے یاد کرتا ہے میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں، پس جب وہ اپنے دل میں مجھے یاد کرتا ہے تو میں بھی اپنے دل میں یعنی خلوت میں اس کو یاد کرتا ہوں اور جب بندہ مجلس میں میرا ذکر کرتا ہے تو میں ایسی مجلس میں اس کا ذکر کرتا ہوں جو اس کی مجلس سے بہتر ہے یعنی ملائکہ کی مجلس۔ اس پر احقر جامع نے عرض کیا کہ خواص امت خواص ملائکہ سے افضل ہیں پس اگر بالفرض تمام خواص امت ایک مجلس میں جمع ہوجائیں تو ملائکہ کی مجلس مَلَأ ٍ خَيْرٍ مِّنْهُ  کیسے ہوگی۔ فرمایا کہ اولیاء کی جماعت اور مجمع میں ہر ولی ملائکہ سے افضل نہیں ہوتا ایک دو ہی ایسے خواص ہوتے ہیں جو خواص ملائکہ سے فضیلت رکھتے ہیں کیونکہ ہر ولی مولانا اشرف علی تھانوی نہیں ہوتا اس لئے اکثریت کے اعتبار سے ملائکہ فضیلت لے جاتے ہیں اور ان کی مجلس خَيْرٍ مِّنْهُ کی مصداق ہوجاتی ہے۔دوسرے یہ کہ ملائکہ کا خیر ہونا یقینی ہے اور خواص اولیاء کا خیر ہونا مقید ہے حسن خاتمہ کے ساتھ یعنی ملائکہ خیر مطلق ہیں اور اولیاء  خیر مقید بحسن خاتمہ ہیں اور خیر مطلق خیر مقید سے افضل ہے، اس لحاظ سے بھی ملائکہ کی مجلس خَيْرٍ مِّنْهُ میں شامل ہوگی۔ فرمایا کہ یہ میرے شیخ حضرت پھولپوری کی کرامت ہے کہ وقت پر جواب حق تعالیٰ عطا فرمادیتے ہیں جس وقت یہ سوال کیا گیا اور سوال بھی بے ڈھب تھا اس وقت ذہن میں کوئی جواب نہ تھا۔ پس اللہ میاں مدد فرمادیتے ہیں ورنہ فقیر کے پاس کچھ نہیں۔

خانقاہ کیا ہے اور کہاں ہے؟: ارشاد فرمایا کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ خانقاہ حجروں میں ہے، پہاڑوں کی چوٹیوں میں ہے، حالانکہ خانقاہ مسجدوںمیں ہے، گھروں میں ہے، سڑکوں میں ہے لوگوں سے تعلقات میں ہے، خلوتوں میں ہے، جلوتوں میں ہے، جس خطۂ زمین پر آپ اللہ کو راضی کر لیں وہی زمین خانقاہ ہے، اگر سڑک پر آپ نگاہ نیچی کر کے چلتے ہیں، کوئی ٹیڈی یعنی حسینہ سامنے آئے تو اس کو دیکھتے نہیں اس وقت وہ سڑک آپ کے لئے خانقاہ بن چکی ہے، اگر دوکان پر امانت کے ساتھ سودا بیچ رہے ہیں اور اس وقت بھی دل کا رابطہ حق تعالیٰ کے ساتھ قائم ہے تو وہ دوکان ہی آپ کے لئے خانقاہ بن گئی، آپ لوگوں سے باتیں کر رہے ہیں اور اس وقت بھی دل اللہ سے غافل نہیں تو یہ تعلق بالمخلوق بھی خانقاہ ہے۔ بر عکس کوئی شخص حجرہ میں یا پہاڑ کی چوٹی پر تنہا بیٹھا ہے اور دل میں حسین صورتوں کا تصور کر رہا ہے تو بظاہر وہ خانقاہ میں بیٹھا ہوا ہے لیکن یہ حجرہ اس کے لئے ٹیلی ویژن اور سینما بن چکا ہے، وہ خلوت کے باوجود اللہ سے دور ہے۔

ذکرِ اللہ کا نفع کامل کیسے حاصل ہوتا ہے: ارشاد فرمایا کہ جو ذکر میں ناغہ کرے گا اس کے لئے گناہ کے دروازے کھل جائیں گے، ذکر کا نور ہی گناہوں کی تاریکی میں جانے سے روکتا ہے۔ پس جو شخص ذکر کو چھوڑے گا وہ گناہ میں مبتلا ہونے لگے گا اور ناغہ کی دوصورتیں ہیں ایک تو یہ کہ بالکل ذکر ہی نہیں کرتا اور ایک یہ کہ ذکر تو کرتا ہے لیکن اللہ کی محبت کی روح اس میں داخل نہیں کرتا، جس ذکر میں دل غیر حاضر ہو، آنکھوں میں آنسو نہ ہوں، جسم تو اللہ کے سامنے ہو اور دل غیروں میں، اپنے کاروبار میں اور دفتروں میں ہو تو وہ ذکر بے روح ہوتا ہے، جیسے کوئی روٹی کھاتا ہے لیکن روکھی سوکھی اور قورمہ پلائو مقوی غذائیں نہیں کھاتا تو جسم کو پورا نفع نہیں ہوتا، جسم کمزور رہتا ہے، اسی طرح جو روکھا سوکھا ذکر کرتا ہے اس کی روح بھی کمزور رہتی ہے اور اللہ کی محبت کی پوری لذت حاصل نہیں ہوتی۔

نسبتِ الٰہیہ کے آثار: ارشاد فرمایا کہآفتاب طلوع ہونے سے پہلے افق پر اپنی سرخیوں کو نمودار کرتا ہے اور آگاہ کردیتا ہے کہ میں آرہا ہوں، اسی طرح جس قلب میں حق تعالیٰ کے قرب کا آفتاب طلوع ہونے والا ہوتا ہے اس کے اخلاق و اعمال و احوال کے افق پر سرخیِ آفتاب یعنی محبت و خشیتِ الٰہیہ کے آثار نمودار ہوجاتے ہیں۔  اسی طرح آفتاب غروب ہونے سے پہلے اپنے آثار سے بتادیتا ہے کہ اب میں غروب ہونے والا ہوں، یعنی جب اصفرار (شعاعوں کی زردی) شروع ہوجائے تو سمجھ لو کہ اب آفتاب غروب ہونے والا ہے، یہی حال اس قلب کا ہوتا ہے جس سے آفتابِ قرب غروب ہونے والا ہوتا ہے، یعنی ذکر سے وحشت، نافرمانیوں پر جرأت، اہلِ حق سے عناد کی ابتدا علامتِ اصفرارِ شعاع آفتابِ باطن ہے اور آخری انجام اس کے دولتِ باطنی کے آفتاب کا غروب ہونا ہے العیاذ باللہ۔ اپنے مربی و مصلح سے بغاوت و عناد اس غروب کا اصل سبب ہوتا ہے اور وحشت از ذکر اور جرأت علی المعاصی اس کے نتائج و لوازم سے ہیں۔

عورتوں کو ملازمت دینامعیشت کے لئے نقصان دہ ہے: ارشاد فرمایا کہ ایک انگریزی تعلیم یافتہ نے کہا کہ عورتوں کے مردوں کے دوش بدوش کام کرنے سے قوم ترقی کر گئی اور معیار زندگی بلند ہوگیا۔ میں نے کہا کہ ہر گز نہیں عورتوں کی ملازمت سے قوم اور تنزل میں پہنچ گئی اور معیار معیشت پر بہت برا اثر پڑا۔ مثلاً اگر ایک ہزار جگہیں خالی ہوئیں وہ ایک ہزار مردوں کو دے دی جاتیں تو ایک ہزار گھر آباد ہوتے ایک ہزار خاندانوں کے کھانے پینے کا سہارا ہوجاتا۔اب اگر پانچ سو جگہیں تم نے عورتوں اور پانچ سو مردوں کو دے دیں اور فرض کرو یہ وہی عورتیں ہیں جن کے شوہروں کو بھی بقیہ پانچ سو جگہیں ملیں نتیجہ یہ ہوا کہ پانچ سو گھر تو امیر سے امیر تر ہوگئے اور پانچ سو گھرانوں کا تم نے چراغ گل کردیا ۔ان کے ان ماں باپ اور بیوی بچوں کو جنہوں نے دعائیں کر کے روزی کے لئے بھیجا تھا ان کو تم نے فاقے کرا دئے۔ اگر ان عورتوں کی جگہ مردوں ہی کو نوکری دی جاتی تو پانچ سو کتنے بوڑھے ماں باپ اور بیوی بچوں کے رزق کا سامان ہوجاتا۔ اب تم خود فیصلہ کرو کہ عورتوں کی ملازمت سے قوم ترقی کر گئی یا تنزل کر گئی اور عورتوں کو ملازمت دے کر کتنی انسانی جانوں پر تم نے ظلم کیا مگر نئی روشنی والوںکی تو عقل اندھی ہے، تنزل اور زوال کو ترقی سمجھتے ہیں۔ بزرگوں کی برکت سے حق تعالیٰ نے  یہ جواب دل میں ڈالا کہ بڑے بڑے انگریزی داں حیران رہ گئے اور اس حقیقت کو تسلیم کیا۔ یہ جواب میں نے نہ کسی کتاب میں دیکھا تھا، نہ اپنے بزرگوں سے سنا تھا مگر انہیں بزرگوں کی برکت سے جن کی جوتیاں اٹھائی ہیں حق تعالیٰ ایسے جواب دل میں ڈال دیتے ہیں۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries