مجلس۲۲۔ مئی۲۰۱۴ء حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کے الہامی علوم!

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں(کلک کریں)

خلاصۂ مجلس:محبی و محبوبی مرشدی و مولائی حضرت والا دامت برکاتہم کی آمد میں کچھ تاخیر تھی ، حضرت والا پیغام بھجوایا کہ اشعار سنادیں تو جناب مصطفیٰ صاحب نے حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کے اشعار بہت ہی عمدہ انداز میں پیش کیے، اس کے بعد ملفوظات کا مجمومہ معارفِ ربانی سے جناب ممتاز صاحب نےملفوظات پڑھ کر سنانے شروع کیے۔۔ آج کی مجلس تقریباً ۱ گھنٹےتک جاری رہی۔۔

ملفومظاتِ معارف ربانی

کھانے کے آداب: اس کے بعد دسترخوان بچھا دیا گیا اور جب کھانا شروع ہوا تو ایک صاحب جو حضرت والا کے متعلقین میں سے ہیں وہ حضرت والا کے قریب ہی بیٹھے تھے اور کھانے میں منہ سے چَپ چَپ کی آواز آرہی تھی۔ حضرت والا نے فرمایا کہ کھاتے وقت منہ سے آواز نہیں آنی چاہیے اس سے طبیعت مالش کرنے لگتی ہے۔
ہمارے بزرگوں نے ہمیں کھانے کا طریقہ بھی سکھایا، اگر وہ نہ سِکھاتے تو ہم آپ کو کیسے سِکھاتے ؟ یہ اُنہی کا سکھایا ہوا ہے کہ کھانے میں منہ سے آواز نہ آئے اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ منہ بند کرکے لقمہ چباؤ اور پلیٹ میں چاولوں پر دال سالن ڈال کر ایک ساتھ نہ ملاؤ جیسے گائے بھینس کو سانی کی جاتی ہے بلکہ تھوڑا تھوڑا سالن اور چاول اپنے سامنے سے ملاتے رہو اور کھاتے رہو ویسے بھی حکم ہے کُلْ مِمَّا یَلِیْکَ اپنے سامنے سے کھاؤ اور کھانے میں سڑپ سڑپ کی آواز بھی نہ ہو۔
پھولپورمیں ایک مولوی صاحب آئے، حضرت کے مہمان ہوئے، دوپہر کو دسترخوان پر انہوں نے روٹی کا نوالہ اس طرح بنایا جیسے خول ہوتا ہے، ہندوستان میں اس کو چونگا کہتے ہیں اور اس کے اندر دال بھر بھر کے کھانے لگے۔ بعد میں حضرت شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃُ ﷲ علیہ نے تنہائی میں فرمایا کہ اب ان کو کھانا الگ بھجوانا، میں ان کے ساتھ نہیں کھاسکتا کیونکہ ساتھ کھانے کے آداب سے یہ شخص واقف نہیں۔

وسوسۂ کفر، کفر نہیں ہےارشاد فرمایا کہ شیخ کی صحبت میں وہ علوم نصیب ہوتے ہیں کہ سو برس کی عبادت سے بھی وہ چیز حاصل نہیں ہوتی۔ بہت سے لوگ جن کا کوئی شیخ نہیں تھا کافر ہوکر مرگئے، شیطان نے ان کو کفر میں مبتلا کرکے اور مردود بناکر دنیا سے رخصت کردیا لیکن جو لوگ شیخ کی صحبت میں رہتے ہیں ان کو شیطان مردود نہیں کرسکتا۔ ایک شخص نے حکیم الامت کو لکھا کہ میں کافر ہورہا ہوں کیونکہ ہر وقت مجھ کو کفریہ خیالات آرہے ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ میرے تو عقائد بھی صحیح نہیں ہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ میرا خاتمہ خراب نہ ہوجائے۔ حضرت نے اُن کو لکھا کہ جب آپ کو کفر کا وسوسہ آتا ہے اُس وقت آپ کو خوشی ہوتی ہے یا تکلیف؟ انہوں نے لکھا کہ اتنی تکلیف ہوتی ہے کہ جی چاہتا ہے کہ کاش میں پیدا ہی نہ ہوا ہوتا۔ حضرت نے لکھا کہ اطمینان رکھئے آپ مومنِ کامل ہیں، اسی وجہ سے تو آپ کو کفر کے وسوسہ سے تکلیف ہوتی ہے۔ کسی کافر کو اپنے کفر سے کوئی تکلیف، کوئی صدمہ اور غم نہیں ہوتا۔ اگر ان کو تکلیف ہوتی تو مسلمان نہ ہوجاتے۔ یہ علامت آپ کے ایمانِ کامل کی ہے۔ بتائیے یہ کوئی معمولی علم ہے۔ اگر اس شخص کا کوئی شیخ نہ ہوتا تو یہ خود کو کافر سمجھ کر ہلاک ہوجاتا۔

اہل اللہ کی صحبت میں ایسا ایمان نصیب ہوتا ہے کہ وہ بھٹک نہیں سکتا اور جو صحبت یافتہ نہیں ہوتے وہ بھٹک جاتے ہیں، حضرت ہردوئی ؒ نے فرمایا کہ جتنے گمراہ فرقے ہوئے اُن کے بانی بہت ذہین تھے لیکن کوئی شیخ نہیں تھا، کچھ دور تک تو اُن کی گاڑی چلی لیکن جہاں موڑ آیا وہی تباہ ہوگئے۔

حضرت چاند پوری ؒ مبلغ دیوبند اور بدعت کے امام کے درمیان مذکرہ ہوا، پورا واقعہ ذکر بیان فرمایا۔

اہل اللہ کا صحبت یافتہ اگر جاہل بھی ہوگا تو بھی اُس کو کوئی گمراہ نہیں سکتا۔ اس پر ہندوستان میں اُبھرنے والی گمراہ کن شدھی تحریک

صحبت اہل اللہ کا اثر یہ ہوتا ہے کہ غیر حق کو اُن کا دل قبول ہی نہیں کرتا، حق ہی طرف دل مائل ہوتا ہے۔ اس ضمن میں حضرت والا نے اپنا ذاتی واقعہ ذکر فرمایا۔

اہل اللہ کی صحبت کا اثر یہ ہوتا ہے کہ غیر حق کو دل قبول ہی نہیں کرتا۔

حضرت تھانوی ؒ نے لکھا ہے کہ اہل اللہ کے صحبت یافتہ کا خاتمہ ایمان پر ہوتا ہے۔ اس ضمن میں حضرت تھانوی ؒ کے سلسلے کی برکات بیان فرمائے۔

اہل اللہ کے صحبت یافتہ کا خاتمہ ایمان پر ہوتا ہے اس پر بخاری شریف کی حدیث بیان فرمائی

شیخ سے محبت کی برکت سے ایمان پر خاتمہ نصیب ہوتا ہے۔

اللہ والی محبت حلاوتِ ایمانی دلاتی ہے اور حلاوتِ ایمان جب قلب میں داخل ہوتی ہے پھر وہ کبھی ہرگز نہیں نکلتی اور اس میں بشارت ہے کہ اس کا خاتمہ ایمان پر ہوتا ہے۔ یہ ہے اہل اللہ کی صحبت اور محبت کا اثر ہے۔

اللہ والی محبت کا فردِ کامل۔ شیخ ہی کی محبت ہے۔

 کیونکہ حضرت والا نے فرمایا تھا جب میں نے عرض کیا تھا کہ حضرت میرا حافظہ بہت کمزور ہے یاد نہیں رہتا تو فرمایا تھا بے فکر رہو وقت پر سب یاد آجائے گا، ایسا ہی ہے وقت پر خود یاد آجاتا ہے۔ ہر وقت حضرت والا کا طریقہ سامنے آجاتا ہے اس پر چند واقعات ذکر فرمائے۔پھر انتہائی فنائیت سے فرمایا کہ یہ سب حضرت والا کی نگاہوں کا فیض ہے۔

کلمہ پر مرنے کے معنیٰ:اسی طرح ایک شخص نے کہا کہ اگر کوئی شخص اچانک مرگیا مثلاً ایکسیڈنٹ ہوگیا یا ہارٹ فیل ہوگیا تو اس نے کلمہ تو پڑھا نہیں تو کیا اس کا خاتمہ خراب ہوگیا؟ حضرت تھانوی رحمۃ ﷲ علیہ نے فرمایا کہ ہرگز نہیں، وہ ایمان ہی پر مرا۔ جو شخص مومن ہے وہ اگر اچانک مرجائے تو وہ کلمہ ہی پر مرا۔ کلمہ پر مرنے کے معنیٰ یہ ہیں کہ کلمہ کے خلاف اس کے منہ سے کوئی کلمہ نہ نکلے اور پھر حضرت کی مجلس میں جتنے علماء بیٹھے تھے ان سے فرمایا کہ آپ لوگ کیا اس وقت کلمہ پڑھ رہے ہیں؟ سب نے کہا کہ نہیں ہم لوگ تو آپ کی بات سن رہے ہیں تو فرمایا کہ اگر اس وقت اچانک انتقال ہوجائے تو کلمہ پر مرے یا کفر پر مرے؟ سب لوگ خاموش تھے۔ پھر حضرت نے فرمایا کہ کلمہ ہی پر یہ موت ہوگی کیونکہ کلمہ کے خلاف کوئی کلمہ اس کے منہ سے نہیں نکلا اور اس کی مثال حضرت حکیم الامت تھانوی کی برکت سے ﷲ نے ابھی میرے دل میں ڈالی کہ جس طرح نکاح ایک بار پڑھایا جاتا ہے اور ہمیشہ قائم رہتا ہے تاوقتیکہ کوئی کلمہ نکاح کے خلاف منہ سے نہ نکلے۔ اسی طرح ایمان کا ایک بار اقرار کرنے کے بعد دل میں ہمیشہ ایمان باقی رہتا ہے جب تک ایمان کے خلاف کوئی کلمہ نہ نکلے۔ یہ کتنا بڑا علم ہے ورنہ لوگ مایوس ہوجاتے کیونکہ اگر کسی کا باپ یا کسی کا بیٹا اچانک مرجائے تو یہی سمجھتے ہیں کہ کلمہ نصیب نہیں ہوا۔ بہت بڑی محرومی سے حضرت نے بچایا۔ اس کو علم کہتے ہیں۔

علاجِ وسوسۂ کبر:ارشاد فرمایا کہ ایک شخص نے بندوق خریدی لیکن اس کو ہر وقت وسوسہ آرہا تھا کہ جب سے میں نے بندوق خریدی ہے میرے اندر تکبر آگیا ہے۔ میں برادری میں شاید اپنے کو سب سے بڑا سمجھتا ہوں۔ انہوں نے حضرت کو لکھا کہ بندوق میرے لیے آلۂ کبر ہے تو کیا میں اس بندوق کو بیچ دوں۔ حضرت نے لکھا کہ یہ وسوسۂ کبر ہے، آپ کے اندر کبر نہیں ہے۔ بس دل میں اپنے کو بڑا مت سمجھو اور بندوق بیچنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ فی نفسہٖ آلۂ کبر نہیں ہے، آپ اگر غلط استعمال کریں تو بن سکتا ہے۔ یوں تو آپ کے پاس آلۂ زِنا بھی موجود ہے و قطعش واجب نیست اس سے زِنا بھی کرسکتے ہو تو کیا اس کو اُکھاڑ کر پھینک دوگے۔

بے اصولی پر تنبیہہ:اس وقت رات کے گیارہ بج رہے تھے اور یہاں روزانہ یہی وقت ہورہا ہے۔ لوگ حضرت والا کے ساتھ مجالست کے شوق میں بیٹھے رہتے ہیں اور حضرت والا حسبِ عادت غایت شفقت و کرم سے ارشاد فرماتے رہتے ہیں حضرتِ اقدس کے کلام کی سحر انگیزی و اثر آفرینی سے احباب مجلس سے اٹھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ غرض مجلس ختم ہوئی، حضرت والا عشاء کے بیان کے بعد کھانا تناول فرمارہے تھے۔ دسترخوان پر دورانِ طعام احقر سے ایک سخت غلطی ہوگئی کہ احقر نے سرگوشی کرتے ہوئے مولانا داؤد کے کان میں کچھ کہا جو احقر کے قریب بیٹھے ہوئے تھے اور احقر کو بے اختیار ہنسی آگئی اور آہستہ آہستہ ہنسنے لگا۔
کھانے سے فارغ ہوکر احقر کی اصلاح کے لیے حضرت والا نے تنبیہہ فرمائی کہ تعجب ہے کہ اتنے پرانے ہوکر ایسی غلطی کرتے ہو کہ مبتدی بھی نہیں کرسکتا۔ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ شیخ کی مجلس میں اس طرح کانا پھوسی کرنا سخت بے ادبی ہے۔ کیا آپ نے ہم لوگوں کو کبھی حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب کی مجلس میں اس طرح کانا پھوسی کرکے ہنستے ہوئے دیکھا ہے؟ بتائیے! نئے لوگ آپ کی اس حرکت سے کیا اثر لیں گے۔ بجائے اس کے کہ آپ دوسروں کو ادب سِکھاتے اپنے عمل سے دوسروں کو بے ادب بنارہے ہو۔ سورئہ حجرات میں جو آداب نبی صلی ﷲ علیہ و سلم کے لیے نازل ہوئے ہیں حضرت حکیم الامت نے لکھا ہے کہ نائبینِ رسول یعنی علماء و مشایخ کے لیے بھی وہی آداب ہیں، اس وقت آپ
تَجْھَرُوْا بِالْقَوْلِ کا مصداق تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت آپ کو حضوری مع الحق حاصل نہیں تھی کیونکہ ہر وقت اکرامِ شیخ کا حق وہی ادا کرسکتا ہے جو ہر وقت باخدا ہو حتیٰ کہ ہنسنے میں بھی خدا کو نہ بھولے۔ غلطی تو یہ اتنی بڑی تھی کہ اسی وقت سزا دی جاتی لیکن اب جاکر اعلان کرو کہ مجھ سے سخت نالائقی ہوئی کہ شیخ کی مجلس میں کانا پھوسی کرکے ہنسا۔ ﷲ میری اس نالائقی و بے ادبی کو معاف فرمادے۔ احقر نے حضرت والا سے معافی مانگی کہ سخت نالائقی ہوئی اور ان شاء ﷲ آئندہ کبھی ایسی حرکت نہ ہوگی اور احباب کے سامنے اعلان کرکے حضرت والا کو اطلاع کی تو حضرت والا خوش ہوگئے۔

اکرام شیخ علی الدوام کا طریقہ : ارشاد فرمایا کہ اکرامِ شیخ علی الدوام وہی کرسکتا ہے جس کو حضور دوام مع الحق حاصل ہو یعنی ہر وقت شیخ کا ادب و اکرام وہی کرسکتا ہے جس کو ہر وقت ﷲ کے ساتھ دوامِ حضور حاصل ہو۔ یہ قاعدہ کلیہ ہے۔ شیخ سے محبت ﷲ ہی کے لیے کی جاتی ہے تو جب ﷲ ہی سے اس کا دل غافل ہے تو وہ شیخ کا اکرام کیسے کرے گا۔ شیخ تو ﷲ کے راستہ کا راہبر ہے اور یہ شخص جب منزل ہی سے غافل ہے، اسے ﷲ کی حضوری کا خیال بھی نہیں ہے تو وہ شیخ کے سامنے بھی بے موقع ہنسے گا، بے موقع بات کرے گا، اس لیے شیخ کا اکرام دواماً وہی کرسکتا ہے جس کو ﷲ کا حضورِ دوام حاصل ہو اور یہ چیز حقائق میں سے ہے۔ ہر وقت یہ سوچنا کہ ﷲ ہم کو دیکھ رہا ہے بتائیے! یہ چیز حقائق میں سے ہے یا نہیں؟ ﷲ ہر وقت ہم کو دیکھ رہا ہے یہ کوئی فرضی بات نہیں حقیقت ہے۔ اگر میں یہ مراقبہ سکھاؤں کہ سب لوگ یہ سمجھیں کہ ہم بادشاہ یا وزیر اعظم ہوگئے ہیں تو سب ہنسیں گے کیونکہ یہ حقیقت نہیں ہے لیکن یہ مراقبہ کہ ﷲ ہم کو دیکھ رہا ہے ایک حقیقت ہے اور ﷲ تعالیٰ نے قرآن شریف میں اس مراقبہ کی تعلیم دی ہے اَلَمْ یَعْلَمْ بِاَنَّ ﷲَ یَرٰیک یا بندہ نہیں جانتا کہ ﷲ اس کو ہر وقت دیکھ رہا ہے۔

انبیاء اور اولیاء کی حضوری مع الحق کا فرق : لیکن اس مراقبہ کی تعلیم میں اولیاء کے ساتھ ﷲ کا معاملہ اور ہے پیغمبر کے ساتھ معاملہ اور ہے۔ عنوان میں فرق ہے حضور صلی ﷲ علیہ و سلم کو بھی یہی تعلیم دی لیکن اس کا عنوان کتنا عجیب ہے فَاِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا اے نبی!آپ ہر وقت میری نگاہ میں ہیں جیسے کوئی اپنے بیٹے سے کہے کہ گھبرانا مت میں ہر وقت تمہاری خبر رکھتا ہوں لہٰذا حضور صلی ﷲ علیہ و سلم کے ساتھ جو عنوان ہے وہ صحابہ کو نہیں عطا فرمایا کیونکہ نبی اور صحابی کیسے برابر ہوسکتے ہیں لہٰذا صحابہ سے فرمایا یَعْلَمُ مُتَقَلَّبَکُمْ وَمَثْوَاکُمْ اے اصحابِ نبی! تمہارا مدینہ شریف کی گلیوں میں چلنا پھرنا، بازاروں میں جانا اور اپنے مکانوں میں جاکر سونا سب سے ہم باخبر ہیں۔ متقلب کو پہلے بیان فرمایا اور مَثْوَاکُمْ  کو بعد میں بیان کیا اس میں راز یہ ہے کہ انسان کے گھر کی راحت موقوف ہے تَقَلُّبُ فِی الْبِلاَدِ پر یعنی جتنی محنت کرتا ہے، چلتا پھرتا ہے اس کے بعد گھر ہی میں تو آرام کرتا ہے، اگر کچھ نہ کمائے اور ہر وقت گھر میں بیٹھا رہے تو کھانے کو کیسے ملے گا۔ قرآن پاک کے کلام ﷲ ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ ایک ایک لفظ کی تقدیم و تاخیر میں حکمت و راز ہے۔

تو ﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں یَعْلَمُ مُتَقَلَّبَکُمْ وَمَثْوَاکُمْ اے صحابہ! جب تم مدینہ کی سڑکوں اور گلیوں میں جاتے ہو، کبھی حضور صلی ﷲ علیہ و سلم سے ملنے جارہے ہو، کبھی اپنی روزی کے لیے اپنی دوکانوں پر جارہے ہو، کبھی نمازوں کے لیے مسجد نبوی آرہے ہو تو تمہارا چلنا پھرنا ہر وقت میری نظر میں ہے اور جب رات کو اپنے گھر جاکر آرام کرتے ہو تو تمہارا وہ ٹھکانہ بھی ہم کو معلوم ہے تو مثواکم کا مزہ متقلب پر ہے، کوئی کمائے نہیں، گھر سے نہ نکلے، ہر وقت گھر میں پڑا رہے تو اس کو گھر کا مزہ آئے گا؟

فَاِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی عظیم الشان محبوبیت ہے: تو دونوں کے عنوان میں فرق ہے۔ جو نبی کو عطا ہورہا ہے اور جو ولی یعنی صحابہ کو عطا ہورہا ہے دونوں کے عنوان میں فرق ہوگیا۔ حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے فرمایا فَاِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا صحابہ سے فَاِنَّکُمْ بِاَعْیُنِنَا  نہیں فرمایا کیونکہ نبی کے لیے جو عنوان ہے اُس میں پیار زیادہ ہے کہ اے نبی! آپ ہر وقت میری نظروں میں ہیں، میں ہر وقت آپ کے حالات سے باخبر ہوں اور اَعْیُنُ جمع کا صیغہ فرمایا یعنی بے شمار غیر محدود نگاہوں سے ہم ہر وقت آپ کو دیکھ رہے ہیں کیونکہ حقوقِ الوہیت جو میرا نبی دواماً ادا کرسکتا ہے اے صحابہ! تم نہیں کرسکتے لہٰذا دوامِ نسبتِ نبوت پر دوامِ نعمت کے بیان کے لیے جملہ اسمیہ سے فرمایا فَاِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا کیونکہ جملہ اسمیہ میں ثبوت و دوام ہوتا ہے، میری عنایت آپ پر ہمہ وقت ہے اور صحابہ کے لیے جملہ فعلیہ سے فرمایا یَعْلَمُ مُتَقَلَّبَکُمْ وَمَثْوَاکُمْ جس سے معلوم ہوا کہ غیر نبی کے ساتھ عنایت میں ایسا ثبوت و دوام نہیں ہوسکتا جو نبی کے ساتھ ہوتا ہے کیونکہ نبی کی نسبت مع ﷲ میں دوام ہوتا ہے اس لیے عنایتِ الٰہیہ میں بھی دوام ہوتا ہے۔ غیر نبی کی نسبت میں ایسا دوام نہیں ہوسکتا اس لیے غیر نبی کے ساتھ عنایت کبھی تبدیل بھی ہوسکتی ہے جیسے بعض لوگ پہلے بظاہر مسلمان تھے بعد میں مرتد ہوگئے۔

جنوبی افریقہ میں مولانا یونس پٹیل صاحب اور مولانا عبد الحمید صاحب فرماتے تھے کہ حضرت جو باتیں آپ سے سنتے ہیں کسی کتاب میں نہیں پڑھی یہ مُنّزَل من السماء ، الہامی علوم ہیں۔۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries