مجلس۲۳۔ مئی۲۰۱۴ء جینے کا لطف اللہ کے دھیان میں ہے!

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں(کلک کریں)

خلاصۂ مجلس:محبی و محبوبی مرشدی و مولائی حضرت والا دامت برکاتہم مجلس میں رونق افروز تھے ، حضرت والا نے جناب تائب صاحب سے فرمایا کہ آپ اشعار سنائیے، تو انہوں نے اپنے اشعار بہت ہی عمدہ انداز میں پیش کیے، تائب صاحب کے حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کی محبت میں تھے، ان اشعار پر حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کی یاد سے تمام حاضرین مجلس اور خود حضرت اقدس میر صاحب اشکبار تھے۔ہر شعر کی تشریح بھی روتے ہوئے فرمائی۔ اس کے بعد ملفوظات کا مجمومہ معارفِ ربانی سے جناب ممتاز صاحب نےملفوظات پڑھ کر سنانے شروع کیے۔۔ آج کی مجلس تقریباً سوا گھنٹےتک جاری رہی۔۔

تشریح اشعار

یعنی اگر حضرت اپنی آہ فغان کو ظاہر نہ کرتے تو وہ دردِ محبت جو حضرت والا نے دل میں تھا وہ ظاہر نہ ہوتا تو ہم محروم رہ جاتے۔

شیخ مثالِ خورشید کے ہیں اگر شیخ کے ذریعے سے اللہ کا فضل نہ ہوتا تو اگر شیخ کی صحبت کے نور کا نہ ہوتا تو ہم گناہوں کے اندھیروں سے کبھی بھاگ نہ پات

ستاروں سے پہلے راستہ دیکھتے ہیں۔ تو تائب صاحب فرما رہے ہیں، ہم اللہ کی منزل کا راستہ نہ پاتے اگر آپ کی چشمِ مبارک کے زیرِ سایہ ستاروں جیسے آنسوؤں کو نہ دیکھتے۔

اگر آپ ہمیں نہ بتاتے کہ اصلی خوشی کیا ہے، ہم تو حرام خوشیوں کو ہی خوشی سمجھے اور اگر آپ نہ بتاتے ان تقاضوں کو دباو تو تم کو جو غم آئے گا اس میں ایسی خوشی ملے گی پھر تم آگاہ ہوگے کہ اصلی خوشی کیا ہے۔

گناہ کے غم کے چھوڑنے سے وہ خوشی ملتی ہیں وہی اصلی خوشی ہے ۔ گناہوں سے چھوڑنے کا غم اُٹھالو تو اصلی خوشی پا جاؤ۔

ملفومظاتِ معارف ربانی

اکرام شیخ علی الدوام کا طریقہ : ارشاد فرمایا کہ اکرامِ شیخ علی الدوام وہی کرسکتا ہے جس کو حضور دوام مع الحق حاصل ہو یعنی ہر وقت شیخ کا ادب و اکرام وہی کرسکتا ہے جس کو ہر وقت ﷲ کے ساتھ دوامِ حضور حاصل ہو۔ یہ قاعدہ کلیہ ہے۔ شیخ سے محبت ﷲ ہی کے لیے کی جاتی ہے تو جب ﷲ ہی سے اس کا دل غافل ہے تو وہ شیخ کا اکرام کیسے کرے گا۔ شیخ تو ﷲ کے راستہ کا راہبر ہے اور یہ شخص جب منزل ہی سے غافل ہے، اسے ﷲ کی حضوری کا خیال بھی نہیں ہے تو وہ شیخ کے سامنے بھی بے موقع ہنسے گا، بے موقع بات کرے گا، اس لیے شیخ کا اکرام دواماً وہی کرسکتا ہے جس کو ﷲ کا حضورِ دوام حاصل ہو اور یہ چیز حقائق میں سے ہے۔ ہر وقت یہ سوچنا کہ ﷲ ہم کو دیکھ رہا ہے بتائیے! یہ چیز حقائق میں سے ہے یا نہیں؟ ﷲ ہر وقت ہم کو دیکھ رہا ہے یہ کوئی فرضی بات نہیں حقیقت ہے۔ اگر میں یہ مراقبہ سکھاؤں کہ سب لوگ یہ سمجھیں کہ ہم بادشاہ یا وزیر اعظم ہوگئے ہیں تو سب ہنسیں گے کیونکہ یہ حقیقت نہیں ہے لیکن یہ مراقبہ کہ ﷲ ہم کو دیکھ رہا ہے ایک حقیقت ہے اور ﷲ تعالیٰ نے قرآن شریف میں اس مراقبہ کی تعلیم دی ہے اَلَمْ یَعْلَمْ بِاَنَّ ﷲَ یَرٰیک یا بندہ نہیں جانتا کہ ﷲ اس کو ہر وقت دیکھ رہا ہے۔

انبیاء اور اولیاء کی حضوری مع الحق کا فرق: لیکن اس مراقبہ کی تعلیم میں اولیاء کے ساتھ ﷲ کا معاملہ اور ہے پیغمبر کے ساتھ معاملہ اور ہے۔ عنوان میں فرق ہے حضور صلی ﷲ علیہ و سلم کو بھی یہی تعلیم دی لیکن اس کا عنوان کتنا عجیب ہے فَاِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا اے نبی!آپ ہر وقت میری نگاہ میں ہیں جیسے کوئی اپنے بیٹے سے کہے کہ گھبرانا مت میں ہر وقت تمہاری خبر رکھتا ہوں لہٰذا حضور صلی ﷲ علیہ و سلم کے ساتھ جو عنوان ہے وہ صحابہ کو نہیں عطا فرمایا کیونکہ نبی اور صحابی کیسے برابر ہوسکتے ہیں لہٰذا صحابہ سے فرمایا یَعْلَمُ مُتَقَلَّبَکُمْ وَمَثْوَاکُمْ اے اصحابِ نبی! تمہارا مدینہ شریف کی گلیوں میں چلنا پھرنا، بازاروں میں جانا اور اپنے مکانوں میں جاکر سونا سب سے ہم باخبر ہیں۔ متقلب کو پہلے بیان فرمایا اور مَثْوَاکُمْ  کو بعد میں بیان کیا اس میں راز یہ ہے کہ انسان کے گھر کی راحت موقوف ہے تَقَلُّبُ فِی الْبِلاَدِ پر یعنی جتنی محنت کرتا ہے، چلتا پھرتا ہے اس کے بعد گھر ہی میں تو آرام کرتا ہے، اگر کچھ نہ کمائے اور ہر وقت گھر میں بیٹھا رہے تو کھانے کو کیسے ملے گا۔ قرآن پاک کے کلام ﷲ ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ ایک ایک لفظ کی تقدیم و تاخیر میں حکمت و راز ہے۔

تو ﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں یَعْلَمُ مُتَقَلَّبَکُمْ وَ مَثْوَاکُمْ اے صحابہ! جب تم مدینہ کی سڑکوں اور گلیوں میں جاتے ہو، کبھی حضور صلی ﷲ علیہ و سلم سے ملنے جارہے ہو، کبھی اپنی روزی کے لیے اپنی دوکانوں پر جارہے ہو، کبھی نمازوں کے لیے مسجد نبوی آرہے ہو تو تمہارا چلنا پھرنا ہر وقت میری نظر میں ہے اور جب رات کو اپنے گھر جاکر آرام کرتے ہو تو تمہارا وہ ٹھکانہ بھی ہم کو معلوم ہے تو مثواکم کا مزہ متقلب پر ہے، کوئی کمائے نہیں، گھر سے نہ نکلے، ہر وقت گھر میں پڑا رہے تو اس کو گھر کا مزہ آئے گا؟

فَاِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی عظیم الشان محبوبیت ہے: تو دونوں کے عنوان میں فرق ہے۔ جو نبی کو عطا ہورہا ہے اور جو ولی یعنی صحابہ کو عطا ہورہا ہے دونوں کے عنوان میں فرق ہوگیا۔ حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے فرمایا فَاِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا صحابہ سے فَاِنَّکُمْ بِاَعْیُنِنَا  نہیں فرمایا کیونکہ نبی کے لیے جو عنوان ہے اُس میں پیار زیادہ ہے کہ اے نبی! آپ ہر وقت میری نظروں میں ہیں، میں ہر وقت آپ کے حالات سے باخبر ہوں اور اَعْیُنُ جمع کا صیغہ فرمایا یعنی بے شمار غیر محدود نگاہوں سے ہم ہر وقت آپ کو دیکھ رہے ہیں کیونکہ حقوقِ الوہیت جو میرا نبی دواماً ادا کرسکتا ہے اے صحابہ! تم نہیں کرسکتے لہٰذا دوامِ نسبتِ نبوت پر دوامِ نعمت کے بیان کے لیے جملہ اسمیہ سے فرمایا فَاِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا کیونکہ جملہ اسمیہ میں ثبوت و دوام ہوتا ہے، میری عنایت آپ پر ہمہ وقت ہے اور صحابہ کے لیے جملہ فعلیہ سے فرمایا یَعْلَمُ مُتَقَلَّبَکُمْ وَمَثْوَاکُمْ جس سے معلوم ہوا کہ غیر نبی کے ساتھ عنایت میں ایسا ثبوت و دوام نہیں ہوسکتا جو نبی کے ساتھ ہوتا ہے کیونکہ نبی کی نسبت مع ﷲ میں دوام ہوتا ہے اس لیے عنایتِ الٰہیہ میں بھی دوام ہوتا ہے۔ غیر نبی کی نسبت میں ایسا دوام نہیں ہوسکتا اس لیے غیر نبی کے ساتھ عنایت کبھی تبدیل بھی ہوسکتی ہے جیسے بعض لوگ پہلے بظاہر مسلمان تھے بعد میں مرتد ہوگئے۔

آیت یَعْلَمُ مُتَقَلَّبَکُمْ وَ مَثْوَاکُمْ میں علم سے کیا مراد ہے؟:  یہاں علم سے مراد فقط علم نہیں ہے بلکہ علم العنایات ہے یعنی علم عنایت کے ساتھ ہے ورنہ ﷲ کو تو ابوجہل اور ابولہب کا بھی علم تھا لیکن ان کے اوپر عنایت نہیں تھی۔ یہاں یَعْلَمُ سے مقصود لطف و کرم کا اظہار ہے کہ میرا کرم، میری رحمت اور عنایت تم لوگوں پر ہے کہ بازاروں میں تمہارے چلنے پھرنے اور گھروں میں سونے سے میں باخبر ہوں۔ اس آیت میں صحابہ کے لیے کتنا پیار و شفقت ہے۔ فَاِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا میں حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ و سلم کی محبوبیت آپ کی نبوت کے شایانِ شان ہے اور نبی کا درجہ کسی کو کیسے مل سکتا ہے لہٰذا نبی کی شانِ محبوبیت اور صحابہ کی شانِ محبوبیت میں فرق ہے لیکن جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کو کیا مزہ آیا ہوگا اس کا کون اندازہ کرسکتا ہے۔
 لہٰذا جو شخص ہر وقت شیخ کے ساتھ رہے اس کو ہر وقت اکرامِ شیخ لازم ہے اور ہر وقت اکرامِ شیخ کے لیے اس پر ہر وقت حضورِ حق کا ہونا لازم ہے یعنی حق تعالیٰ کا استحضار ہر وقت اس پر غالب رہے۔ دوامِ حضور مع الحق جس کو نصیب ہو وہ اکرامِ شیخ علی الدوام کرسکتا ہے لہٰذا جو لوگ رات دن شیخ کے ساتھ رہیں ان پر لازم ہے کہ دوامِ حضورِ حق کا مقام حاصل کریں، کسی وقت بھی خدا سے غافل نہ رہیں۔

ہنسی کے وقت کا مراقبہ:  ہنسنے میں بھی خیال رکھیں کہ ﷲ ہم کو دیکھ رہا ہے اور خوش ہورہا ہے جیسے بچے ہنستے ہیں تو باپ کو اچھا معلوم ہوتا ہے اور بچے غمگین ہوجائیں تو باپ کو بھی غم ہوتا ہے اس لیے ہنسنے میں یہ نیت کرو کہ ہم لوگ ہنس رہے ہیں تو ﷲ خوش ہورہے ہیں اور جو شخص ہنسی مذاق میں ﷲ کو بھول گیا وہ لطفِ حیات سے محروم ہوگیا، ایک لمحہ کے لیے جو خالقِ حیات سے بے خبر ہے اس کی اتنی دیر کی حیات لطف سے خالی ہے کیونکہ جب خالقِ لطف سے بے خبر ہوگیا تو لطف کہاں سے آئے گا۔

جینے کا لطف حاصل کرنے کا طریقہ : اس لیے جو ہر وقت یہ سوچے گا کہ ﷲ مجھ کو دیکھ رہا ہے اس کی زندگی ہر وقت لطف میں رہے گی، اس کا ہنسنا بولنا کھانا پینا سب میں لطف رہے گا۔ ایک شخص تو وہ ہے جو جانور کی طرح سے جیتا ہے کچھ پتا ہی نہیں کہ میں کون ہوں، میرا مالک کون ہے اور ایک وہ شخص ہے جو سوچ رہا ہے کہ ﷲ تعالیٰ آسمان سے دیکھ رہے ہیں کہ میرا بندہ اپنا وطن چھوڑ کر، اپنے بال بچوں کو چھوڑ کر، اپنی راحت کو چھوڑ کر میرے دین کی خاطر ری یونین میں آیا ہوا ہے اور میرے دین کی باتیں سکھا رہا ہے تو بتائیے! اس مراقبہ سے لطف بڑھ گیا کہ نہیں ورنہ وطن بھی چھوٹے گا اور پردیس کا مزہ بھی نہیں ملے گا، خسارہ ہی خسارہ ہے، نقصان ہی نقصان ہے، جو حیات خالقِ حیات سے غافل ہوتی ہے وہ خسارہ میں ہے لہٰذا میر صاحب کو یہ تنبیہہ کی جارہی ہے کہ اپنے کھانے پینے میں، ہنسنے میں، مسکرانے میں، لطیفہ میں، سموسہ کھانے میں اور ہری مرچ جب کھایا کریں تو خاص مراقبہ کریں کہ یہ ہری مرچ ﷲ نے پیدا کی ہے جو مجھے بہت مرغوب اور پسند ہے اور یہ جو میری زبان میں تیزی پیدا کررہی ہے اس میں یہ خاصیت ﷲ نے رکھی ہے اور پھر یہ کہیں کہ واہ رے میرے ﷲ! آپ عشرت کو کیسی مزے دار چیزیں کھلارہے ہیں تب ان کے لیے ہری مرچ کھانا بھی عبادت ہوجائے گی اور اگر ایسے ہی کھاتا رہے آسمان سے دور زمین پر دھرا ہوا تو پھر لطفِ حیات کہاں؟

حضرت صدیقِ اکبر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کامقامِ حضوری: چنانچہ حضرت صدیق اکبر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کو حضور مع الحق کا جو مقام حاصل تھا، ﷲ کے ساتھ ہر وقت جو حضوری حاصل تھی اس وجہ سے ہر وقت وہ حضور صلی ﷲ علیہ و سلم کے اکرام میں اعلیٰ ترین مقام پر تھے کیونکہ امت میں کسی امتی کا ایمان ان سے بڑھ کے نہیں ہے چنانچہ عین جنگِ بدر کے موقع پر جب آپ صلی ﷲ علیہ و سلم نے عشاء کے بعد دعا شروع کی تو فجر کی اذان ہوگئی اور آپ اتنا زیادہ گڑگڑائے اور آپ کے دستِ مبارک بہت اونچے اُٹھ گئے اور جسمِ مبارک کے ہلنے سے آپ کی چادر گرگئی فَسَقَطَ رِدَائُ ہُ فَاَخَذَہُ اَبُوْ بَکْرٍتو حضرت ابوبکر صدیق نے آپ کی چادر مبارک کو پکڑ لیااور زمین پر نہیں گرنے دیا  فَوَضَعَہٗ عَلَی مَنْکَبَیْہِ اور حضور صلی ﷲ علیہ و سلم کے مبارک کندھوں پر دوبارہ ڈال دیا، اس کے بعد جب حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور زیادہ روئے تو حضرت ابوبکر صدیق پر ایک کیفیت طاری ہوگئی، غلبہ ٔحال ہوگیا فَالْتَزَمَہٗ آپ کی پشت ِمبارک کے جانب سے چمٹ گئے لیکن اس وقت بھی وہ ﷲ سے باخبر تھے اس لیے اس وقت بھی حضور صلی ﷲ علیہ وسلم کے اکرام کا پورا خیال رکھا اور یوں نہیں کہا کہ اب مجھ سے برداشت نہیں ہورہا ہے بلکہ یہ کہا  کَفَاکَ یَا نَبِیَّ ﷲِ بِاَبِیْ اَنْتَ وَاُمِّیْ مُنَاشَدَتُکَ رَبَّکَ اے ﷲ کے نبی!میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں یہ دعا آپ کے لیے کافی ہوگئی، اب آپ زیادہ نہ روئیے آپ کا اپنے رب سے اتنا مناشدہ آپ کے لیے کافی ہے، دیکھئے یہاں بھی انہوں نے ﷲ کو یاد کیا، یعنی زمین پر رہتے ہوئے بھی اس وقت صدیقِ اکبر آسمان پر تھے اور ﷲ سے باخبر تھے اور یہ بھی عرض کیا فَاِنَّہُ سَیُنْجِزُ لَکَ مَا وَعَدَکَ اور ﷲ اپنا وعدہ عنقریب پورا کردے گا جیسے ہی حضرت صدیق اکبر کے منہ سے یہ نکلا جبرئیل علیہ السلام آگئے، حضرت صدیق اکبر آسمانی تھے اس لیے آسمانی پیغمبر کے اکرام میں کبھی کوتاہی نہیں کی۔ اسی طرح شیخ کے ساتھ وہ رہے جو ہر وقت آسمانی رہے، جو آسمان میں رہتے ہوئے اپنے شیخ کے ساتھ رہے گا شیخ کے اکرام میں اس سے غلطی نہیں ہوگی یعنی ﷲ کا تعلق اس پر ہر وقت قائم و دائم رہے گا پھر وہ شیخ کے اکرام میں ان شاء ﷲ ہر وقت چوکنا رہے گا کیونکہ اس کو دھیان رہے گا کہ میں اپنے شیخ، رہبرِ منزل، ﷲ تک پہنچانے والے کے ساتھ ہوں۔

خشیت اور ذکر کا ربط: بارہ بجے دوپہر مولانارشیدبزرگ حضرت والا سے ملاقات کے لیے حاضرِ خدمت ہوئے اور عرض کیا کہ میرا سفر ہندوستان کا ہوا تھا لیکن میں فلاں بزرگ کی قبر پر فاتحہ پڑھنے نہ جاسکا جس کا میرے قلب پر بہت اثر ہے اور بہت وَساوِس نے گھیر لیا ہے۔ حضرت والا نے فرمایا کہ آپ کا یہ غم بالکل غیر شرعی ہے اور یہ وساوسِ شیطانیہ ہیں، شیطان اگر کچھ گناہ نہیں کراسکتا تو ایسے غموں میں مومن کو مشغول کردیتا ہے جس سے وہ غمگین رہے، کبھی وہ غیرِ دین کو دین بنا کر پیش کرتا ہے اور کبھی ادنیٰ دین میں مشغول کرکے اعلیٰ دین سے محروم کرتا ہے۔ کراچی میں مجھ سے تعلق رکھنے والے کتنے علماء آتے ہیں میں نے کبھی ان سے نہیں کہا کہ آپ حضرت شیخ پھولپوری رحمۃ ﷲ علیہ کی قبر کی زیارت کے لیے جائیں، میرے شیخ مولانا شاہ ابرارالحق صاحب دامت برکاتہم بھی تشریف لاتے ہیں لیکن کبھی حضرت پھولپوری رحمۃ ﷲ علیہ کی قبر پر جانے کا اہتمام نہیں کیا، کبھی چلے گئے لیکن اکثر نہیں جاتے لہٰذا آپ ﷲ سے استغفار کریں کہ اے ﷲ!میں نے اپنے دل کو بے کار پریشان کیا، میرا یہ غم قابلِ غم نہیں تھا اور یہ دعا پڑھیں:

اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ وَسَاوِسَ قَلْبِیْ خَشْیَتَکَ وَذِکْرَکَ

اے ﷲ! میرے دل کے وساوس کو اپنی محبت اور اپنا ذکر بنادیجئے، آپ کہیں گے کہ خَشْیَتَکَ کا ترجمہ محبت کیوں کیا؟ اس کی دلیل یہ ہے کہ علامہ آلوسی فرماتے ہیں کہ خشیت وہ خوف ہے جو محبت کے ساتھ ہو اور خوف میں محبت نہیں ہوتی جیسے سانپ سے صرف خوف ہوتا ہے، یہ نہیں کہیں گے کہ مجھے سانپ سے خشیت ہے اور خشیت کو مقدم فرمایا کہ سبب ہے اور ذکر مسبب ہے یعنی ﷲ کو وہی یاد کرتا ہے جس کے دل میں خشیت ہوتی ہے بس خشیت اتنی مطلوب ہے جس پر ذکر کا ترتب ہوجائے اور تم ذکر میں مشغول رہو۔ حضرت والا کی اس تقریر سے مولانا موصوف کو اطمینان ہوگیا

ادب راحت رسانی کا نام ہے: تقریباً دو بجے خانقاہ میں عبدالعزیز صاحب نے عرض کیا کہ اب ہم لوگوں نے یہ طے کیا ہے کہ ہم میں سے ایک آدمی حضرت والا کے ساتھ کراچی تک جائے گا، پہلے نیروبی تک جانے کا خیال تھا۔ حضرت والا نے فرمایا کہ جو شخص شیخ کے آرام کے لیے سفر کرسکتا ہے اور کوئی موانع بھی نہ ہوں جبکہ سفر بھی ایسا ہو کہ جس میں تکلیف پہنچنے کا احتمال بھی ہو پھر بھی شیخ کے ساتھ سفر نہ کرے تو اگرچہ شرعاً کوئی اِشکال وارد نہ ہو لیکن ایسا شخص باطنی برکات سے محروم ہوجائے گا کیونکہ اس نے اکرامِ شیخ اور راحت رسانی کا حق ادا نہیں کیا اور اس سے دین کا کام نہیں لیا جائے گا، نہ اس کو انصار ملیں گے۔ تمام اکابر اولیاء کا اجماع ہے کہ جس نے اپنے شیخ پر اپنی جان فدا کی اتنا ہی اُس پر ﷲ کا فضل ہوا اور دین کا کام ایسے ہی لوگوں سے لیا گیا۔

ہاں اگر سفر میں تکلیف پہنچنے کا احتمال نہ ہوتا مثلاً یہاں سے جہاز اُڑ کر کراچی میں اُترتا تو پھر میں کسی کو ساتھ نہ لے کر جاتا کیونکہ مسلمانوں کے پیسہ کا خون تھوڑی کرنا ہے، اسی پیسے سے کوئی دوسرا دین کا کام ہوتا لیکن اگر رہبر ساتھ نہ ہو تو سفر میں بڑی مشکلات ہوتی ہیں، اگر آتے وقت عبدالعزیز ساتھ نہ ہوتے تو ماریشس میں بڑی پریشانی ہوجاتی کیونکہ ایئرپورٹ پر انہوں نے کہہ دیا کہ ہمارے پاس سیٹ کی واپسی کی کوئی اطلاع نہیں۔ یہ تو عبدالعزیز نے سرگرمی دکھائی فرانسیسی میں گفتگو کی تو پھر اس نے کام کیا، اگر عبدالعزیز نہ ہوتے تو ہم اور میر صاحب کیا کرتے؟ زبان بھی نہیں جانتے تھے، صبر کرکے بیٹھے رہتے اور کتنی پریشانی ہوتی۔ پھر مزاحاً فرمایا کہ الیکشن والا معاملہ نہ کرو کہ ووٹ ڈالنے کے لیے تو گاڑیوں میں لائے اور ہر وقت آگے پیچھے تھے لیکن بیلٹ باکس میں ووٹ ڈالنے کے بعد اب پوچھتے بھی نہیں یعنی زبانِ حال سے کہہ رہے ہیں کہ اب خود واپس جائیے ہمارا کام ہوگیا۔ تو یہ الیکشن کا راستہ نہیں ہے، یہ ﷲ کا راستہ ہے۔

کھانے کے آداب: اس کے بعد دسترخوان بچھا دیا گیا اور جب کھانا شروع ہوا تو ایک صاحب جو حضرت والا کے متعلقین میں سے ہیں وہ حضرت والا کے قریب ہی بیٹھے تھے اور کھانے میں منہ سے چَپ چَپ کی آواز آرہی تھی۔ حضرت والا نے فرمایا کہ کھاتے وقت منہ سے آواز نہیں آنی چاہیے اس سے طبیعت مالش کرنے لگتی ہے۔
ہمارے بزرگوں نے ہمیں کھانے کا طریقہ بھی سکھایا، اگر وہ نہ سِکھاتے تو ہم آپ کو کیسے سِکھاتے ؟ یہ اُنہی کا سکھایا ہوا ہے کہ کھانے میں منہ سے آواز نہ آئے اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ منہ بند کرکے لقمہ چباؤ اور پلیٹ میں چاولوں پر دال سالن ڈال کر ایک ساتھ نہ ملاؤ جیسے گائے بھینس کو سانی کی جاتی ہے بلکہ تھوڑا تھوڑا سالن اور چاول اپنے سامنے سے ملاتے رہو اور کھاتے رہو ویسے بھی حکم ہے کُلْ مِمَّا یَلِیْکَ اپنے سامنے سے کھاؤ اور کھانے میں سڑپ سڑپ کی آواز بھی نہ ہو۔
پھولپورمیں ایک مولوی صاحب آئے، حضرت کے مہمان ہوئے، دوپہر کو دسترخوان پر انہوں نے روٹی کا نوالہ اس طرح بنایا جیسے خول ہوتا ہے، ہندوستان میں اس کو چونگا کہتے ہیں اور اس کے اندر دال بھر بھر کے کھانے لگے۔ بعد میں حضرت شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃُ ﷲ علیہ نے تنہائی میں فرمایا کہ اب ان کو کھانا الگ بھجوانا، میں ان کے ساتھ نہیں کھاسکتا کیونکہ ساتھ کھانے کے آداب سے یہ شخص واقف نہیں۔

اہل اللہ کی طبیعت بہت لطیف ہوتی ہے، اس لئے حضرت والا کے چند نصائح ذکر فرمائیں، کھانے کے آداب ذکر فرمائے۔ حضرت والا کے زمانے میں ایک ذرہ بھی کھانے کا ضائع نہیں ہوتا تھا، بلکہ ذرات تک سمیٹ کر ایک طرف ڈلوادیتے، حضرت ہردوئی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے رزق پیاری چیز ہے اس لئے اِس کو کیاری میں ڈلوادو۔ رزق کے اکرام کا خاص خیال رکھیں

اگر کوئی رزق کی بے اکرامی کرے گا تو پھر سات پشتوں تک واپس نہیں آئے، اس پر ایک بمبئی کے ایک سیٹھ کا عبرت ناک واقعہ ذکر فرمایا۔

نذر عباداتِ مقصودہ میں ہوتی ہے: دورانِ گفتگو ایک صاحب کے تبلیغی چلہ پر جانے کا ذکر آگیا۔ ایک تبلیغی دوست نے کہا کہ چونکہ انہوں نے لکھوا دیا تھا لہٰذا اب ان کا جانا ضروری ہے۔ حضرت والا نے فرمایا کہ حیدرآباد سندھ میں میرے ایک دوست حافظ عبدالرحیم صاحب نے بتایا کہ میں نے نذر مانی تھی کہ ایک چلہ لگاؤں گا لیکن بعض وجوہات سے نہ جاسکا تو انہوں نے کہا کہ میں نے مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی شفیع صاحب رحمۃ ﷲ علیہ کو لکھا کہ میں نے تبلیغ کے چلہ کی نذر مانی تھی لیکن نہ جاسکا تو اب اس کا کیا کفارہ ہے؟ کیا میں خود چلہ لگاؤں یا اپنی طرف سے کسی کو بھیج دوں؟ حضرت مفتی شفیع صاحب رحمۃ ﷲ علیہ نے ان کو جواب میں لکھا کہ نذر عباداتِ مقصودہ میں ہوتی ہے اور چلہ پر جانا عباداتِ مقصودہ میں نہیں ہے لہٰذا نذر واقع ہی نہیں ہوئی، نہ آپ کا چلہ پر جانا ضروری ہے اور نہ اپنی طرف سے کسی کو بھیجنا ضروری ہے۔ میں نے حافظ صاحب سے کہا کہ یہ فتویٰ تو بہت ضروری ہے کیونکہ اکثر لوگ اس وجہ سے پریشان رہتے ہیں کہ ہم نے نام لکھوا دیا تھا لیکن جا نہیں سکے لہٰذا اس فتویٰ کی ایک کاپی میں نے لے لی جس پر باقاعدہ حضرت مفتی اعظم پاکستان کے دستخط اور دار العلوم کی مہر ہے۔ مولانا داؤد سے فرمایا کہ کراچی سے آپ بھی اس کی ایک نقل منگوا کر یہاں رکھیں۔
اسی طرح ایک صاحب نے مجھ سے کہا کہ میں نے ایک نذر مانی تھی کہ اگر میرا فلاں کام ہوگیا تو میں آپ کو دس ہزار روپیہ دوں گا چنانچہ میرا کام ہوگیا ہے اب میں آپ کو دس ہزار روپیہ دینا چاہتا ہوں، اب میں بہت پریشان ہوا کیونکہ نذر کا روپیہ غنی نہیں لے سکتا یہ غریبوں کا حق ہے چنانچہ میں نے ایک بڑے مفتی صاحب سے مسئلہ پوچھا تو انہوں نے ہنس کر فرمایا کہ پیر کو ہدیہ دینا عباداتِ مقصودہ میں سے نہیں ہے، یہ نذر ہی نہیں ہوئی، لہٰذا روپیہ لے لو۔ واقعی علماء کا دم بہت غنیمت ہے، اگر مفتی صاحب سے نہ پوچھتا تو بلاوجہ دس ہزار کا نقصان ہوجاتا، اگر یہ علماء نہ ہوتے تو دین کی حفاظت مشکل ہوجاتی اور لوگ گمراہی میں پڑ کر ہلاک ہوجاتے۔

نگاہ پر احکام جاری کرنے کا حق: آج شام بعد مغرب مولانا اسماعیل صاحب جو تفسیر میں حضرت والا کے شاگرد ہیں اور کراچی میں انہوں نے حضرت والا سے تفسیر پڑھی ہے انہوں نے احقر راقم الحروف کو بتایا کہ اَلَمْ نَجْعَلْ لَّہُ عَیْنَیْنِ کی آیت پر حضرت والا نے ایک جملہ فرمایا کہ خالقِ آنکھ کو حق ہے کہ آنکھ پر احکام جاری کردے، اس کو حق ہے غض بصر کے حکم کا کہ فلاں کو دیکھو فلاں کو نہ دیکھو۔

علومِ متفرقہ: اشد محبت اور اس کا طریقۂ حصول: اَلْحَمْدُ ِﷲِ وَکَفٰی وَعَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی اَمَّا بَعْدُ قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صَلَّی ﷲُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ حُبَّکَ وَحُبَّ مَنْ یُّحِبُّکَ وَ الْعَمَلَ الَّذِیْ یُبَلِّغُنِیْ حُبَّکَ اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ حُبَّکَ اَحَبَّ اِلَیَّ مِن نَّفْسِیْ وَ اَھْلِیْ وَ مِنَ الْمَآءِ الْبَارِدِ

یہ بخاری شریف کی حدیث ہے جس میں سرورِ عالم صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا ِﷲِ کی تفسیر فرمائی ہے ۔ تفسیر وہی معتبر ہے جس کو حضور صلی ﷲ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہو، آپ صلی ﷲ علیہ وسلم سے بڑھ کر کس کی تفسیر معتبر ہوسکتی ہے؟ لہٰذا اشد محبت کی تفسیر کیا ہے اور اس کا طریقہ کیا ہے دونوں چیزیں اس میں بیان ہوگئیں۔ بخاری شریف کی اس حدیث میں اشد محبت کیا ہے ؟ اس کا معیار کیا ہے؟ اس کے حدود اربعہ کیا ہیں؟ اس کا جغرافیہ کیا ہے اور اس کی تاریخ کیا ہے ؟ ان سب کی تفصیل آگے آرہی ہے۔ کیسے معلوم ہوکہ کسی شخص میں ﷲ کی اشد محبت ہے؟ اس کے جغرافیہ سے پتا چل جائے گا، راستہ میں، سڑکوں پر چلتے ہوئے، ریلوں میں، ائیرپورٹ پر، اسٹیشنوں پر مارکیٹوں میں ظاہر ہو جائے گا کہ اس کے دل میں دنیا کی محبت اشد ہے یا ﷲ کی محبت اشد ہے، یہ اس کا جغرافیہ ہے، اگر اس نے تقویٰ سے اپنے دن گذارے تو اس کی زندگی کی تاریخ نورِ تقویٰ سے روشن ہورہی ہے۔ سمجھ لیا آپ نے، میں آپ کوتاریخ بھی پڑھا رہا ہوں اور جغرافیہ بھی پڑھا رہا ہوں۔ آپ صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس حدیث کے پہلے جملہ میں ﷲ کی اشد محبت حاصل کرنے کا نسخہ بیان فرمایا ہے اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ حُبَّکَ اس میں حُبَّکَ سے مراد ﷲ سے اَشَدُّ حُبًّا ِﷲِ مانگنا ہے اَلْمُطْلَقُ اِذَا اُطْلِقَ یُرَادُ بِہِ الْفَرْدُ الْکَامِلُ جب کوئی لفظ مطلق بولا جاتا ہے تو اس سے فردِ کامل مراد لیا جاتا ہے اور زبانِ نبوت سے جب مطلق لفظ استعمال کیا جائے گا تو اس کا فردِ کامل قرآن پاک کے معیار پر بیان کیا جائے گاکیونکہ نبی مفسرہے ﷲ کے کلام کا لہٰذا یہاں مراد اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ حُبَّکَ سے یہ ہے کہ اے ﷲ! میں آپ سے آپ کی محبت مانگتا ہوں اور اتنی محبت مانگتا ہوں کہ  وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا ِﷲِ کا مصداق ہوجاؤں اور مجھے یہ انعام مل جائے کہ میرے اس بندے کے قلب میں ﷲ کی محبت شدید نہیں اشد ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ یہ اشد محبت ملے گی کیسے؟ ڈاکٹر عبدالحی صاحب رحمۃ ﷲ علیہ حکیم الامت کے بڑے پرانے خلفاء میں سے تھے اور تیس برس حضرت کی صحبت اُٹھائی تھی، آج لوگوں کو شیخ کے پاس چلہ لگانا بھی گرا ں معلوم ہوتا ہے، بزرگوں نے کتنے کتنے سال اپنے بزرگوں کی صحبت اٹھائی تب جا کر چمکے، ان کے قلب کاکباب خوشبودار ہوگیا ، مجاہدہ کی گرمی سے ان کے کباب کی محلہ محلہ کیا سارے عالم میں خوشبو پھیل گئی۔ آج اسی کی کمی ہے ، اس کی اہمیت ہی دلوں سے نکل گئی۔ جو علماء آج یہاں موجود نہیں ان کو سنادینا کہ اب میں نے چالیس دن سے گھٹا کر بیس دن کردیا ہے کہ اگر کوئی مولوی بوجہ کمیٹی کے خوف کے چلہ نہیں دے سکتا کہ اس کی چھٹی منظور نہیں ہوگی، ملازمت چلی جائے گی تو وہ شیخ کے یہاں بیس دن ہی لگا لے۔ حاجی صاحب نے دو سال کو چھ مہینے سے تبدیل فرمادیا تھا اور حکیم الامت نے چھ مہینے کو چالیس دن میں تبدیل فرمایا اور حکیم الامت کے ادنیٰ خادم نے چالیس دن کو بیس دن میں تبدیل کردیا

حقوقِ واجبہ ادا کرنا تو خانقاہ کی روح ہے، اس ضمن میں حضرت تھانویؒ کا ایک واقعہ ذکر فرمایا۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries