مجلس۲۴۔ مئی۲۰۱۴ء صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی شانِ محبت!

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں(کلک کریں)

خلاصۂ مجلس:محبی و محبوبی مرشدی و مولائی حضرت والا دامت برکاتہم کی آمد میں تاخیر تھی، حضرت والا کے حکم پر جناب مصطفیٰ صاحب نے اپنی عمدہ آواز میں پہلے مولانا منصور صاحب دامت برکاتہم کے اشعار سنائے پھر حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کے اشعار بہت ہی عمدہ انداز میں پیش کیے، کچھ دیر ہی میں حضرت اقدس حضرت میر صاحب دامت برکاتہم مجلس میں رونق افروز ہوئے اورجناب ممتاز صاحب کو معارفِ ربانی سے ملفوظات پڑھنے کا فرمایا، درمیان درمیان میں ملفوظات کی تشریح بھی فرماتے رہے۔۔ آج کی مجلس تقریباً سوا گھنٹےتک جاری رہی۔۔

ملفومظاتِ معارف ربانی

علومِ متفرقہ: اشد محبت اور اس کا طریقۂ حصول: اَلْحَمْدُ ِﷲِ وَکَفٰی وَعَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی اَمَّا بَعْدُ قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صَلَّی ﷲُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ حُبَّکَ وَحُبَّ مَنْ یُّحِبُّکَ وَ الْعَمَلَ الَّذِیْ یُبَلِّغُنِیْ حُبَّکَ اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ حُبَّکَ اَحَبَّ اِلَیَّ مِن نَّفْسِیْ وَ اَھْلِیْ وَ مِنَ الْمَآءِ الْبَارِدِ

سب سے زیادہ محبت وہ اللہ و رسول سے ہوتی ہے ، اس پر دلیل کی ضرورت نہیں صحابہ کرام  کی زندگی اس پر شاہد ہے،  اس ضمن میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایمانی غیرت اور عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ایمان افروز واقعہ بیان فرمایا۔ یہ ہے اشد محبت!

حضورصلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے میرا صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک مُد جو خرچ کرے اور تم احد پہاڑ جتنا سونا اللہ کی راہ میں خرچ کرو پھر بھی تم میرے صحابی تک نہیں پہنچ سکتے۔ اس پر ایک محدث کا واقعہ بیان فرمایا کہ اُن کو خیال ہوتا کہ میں بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اُتنی ہی محبت کرتا ہوں جتنی

حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کو کیسی محبت تھی اس ضمن ایک صحابی ابو دجانہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فدا کاری کا واقعہ بیان فرمایا کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت میں انہوں نے اپنی پیٹھ پر ۷۰ تیر کھائے

حضرت والا کے علمی رسوخ کا واقعہ بیان فرمایا کہ جب حضرت والا نیروبی تشریف لے گئے تو وہاں ایک نقاد مصری عالم بھی بیٹھے تھے اُن کا برسوں کا اشکال حضرت والا نے ایک ملفوظ سے حل ہوا۔ بہت متاثر ہوئے پھر بیعت ہونے آئے میں نے بڑے بڑے علماء کو دیکھا ہے لیکن جیسا حضرت والا کو عربی کے ابتدائی قواعد ایسے بیان کرتے ہیں جیسے ابھی ابھی پڑھ  پورا واقعہ بیان فرمایا۔

اہل کے علوم الہامی ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں مولانا عبد الحمید صاحب دامت برکاتہم کے بیعت ہونے کا واقعہ بیان فرمایا کہتے تھے کہ ہم جو حضرت کے غلام ہوئے سنی سنائی پر ہوئے دیکھ کر ہوئے ہیں جو باتیں ہم نے کتابوں میں پڑھیں تھیں وہ باتیں ہی نہیں ہیں حضرت والا کے علوم

مولانا یونس پٹیل اور مولانا عبد الحمید صاحب سے حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کو بہت محبت فرماتے تھے۔

ایک نقاد عالم کا واقعہ ذکر فرمایا کہ وہ تین سال تک حضرت کی مجلس میں تنقید کی غرض سے بیٹھے لیکن حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس میں کوئی ایک بات بھی نہیں ملی، پھر متاثر ہوکر بیعت ہوگئے۔

ہر ایک اصلاح کا رنگ حضرت والا کا الگ تھا، علماء کو اُن کے مرتبے کے اعتبار سے اصلاح فرماتے تھے اور عوام سے اور طرح، لیکن ہر کا نفس مٹتا تھا یہ حضرت والا کی کرامت تھی۔

جو غذر کی وجہ سے شیخ کی صحبت میں نہ جاسکے تو وہ صحبت ہی میں شمار ہوگا۔ صحبت کا مطلب یہ ہے کہ ظاہری اور باطنی دونوں کا رابطہ ہو، یہ حاصل ہے سلوک کا، یہی حاصل کا صحبتِ اہل اللہ کا!

حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ پر حضرت پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ کا ہی رنگ غالب تھا۔

یہ بخاری شریف کی حدیث ہے جس میں سرورِ عالم صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا ِﷲِ کی تفسیر فرمائی ہے ۔ تفسیر وہی معتبر ہے جس کو حضور صلی ﷲ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہو، آپ صلی ﷲ علیہ وسلم سے بڑھ کر کس کی تفسیر معتبر ہوسکتی ہے؟ لہٰذا اشد محبت کی تفسیر کیا ہے اور اس کا طریقہ کیا ہے دونوں چیزیں اس میں بیان ہوگئیں۔ بخاری شریف کی اس حدیث میں اشد محبت کیا ہے ؟ اس کا معیار کیا ہے؟ اس کے حدود اربعہ کیا ہیں؟ اس کا جغرافیہ کیا ہے اور اس کی تاریخ کیا ہے ؟ ان سب کی تفصیل آگے آرہی ہے۔ کیسے معلوم ہوکہ کسی شخص میں ﷲ کی اشد محبت ہے؟ اس کے جغرافیہ سے پتا چل جائے گا، راستہ میں، سڑکوں پر چلتے ہوئے، ریلوں میں، ائیرپورٹ پر، اسٹیشنوں پر مارکیٹوں میں ظاہر ہو جائے گا کہ اس کے دل میں دنیا کی محبت اشد ہے یا ﷲ کی محبت اشد ہے، یہ اس کا جغرافیہ ہے، اگر اس نے تقویٰ سے اپنے دن گذارے تو اس کی زندگی کی تاریخ نورِ تقویٰ سے روشن ہورہی ہے۔ سمجھ لیا آپ نے، میں آپ کوتاریخ بھی پڑھا رہا ہوں اور جغرافیہ بھی پڑھا رہا ہوں۔ آپ صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس حدیث کے پہلے جملہ میں ﷲ کی اشد محبت حاصل کرنے کا نسخہ بیان فرمایا ہے اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ حُبَّکَ اس میں حُبَّکَ سے مراد ﷲ سے اَشَدُّ حُبًّا ِﷲِ مانگنا ہے اَلْمُطْلَقُ اِذَا اُطْلِقَ یُرَادُ بِہِ الْفَرْدُ الْکَامِلُ جب کوئی لفظ مطلق بولا جاتا ہے تو اس سے فردِ کامل مراد لیا جاتا ہے اور زبانِ نبوت سے جب مطلق لفظ استعمال کیا جائے گا تو اس کا فردِ کامل قرآن پاک کے معیار پر بیان کیا جائے گاکیونکہ نبی مفسرہے ﷲ کے کلام کا لہٰذا یہاں مراد اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ حُبَّکَ سے یہ ہے کہ اے ﷲ! میں آپ سے آپ کی محبت مانگتا ہوں اور اتنی محبت مانگتا ہوں کہ  وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا ِﷲِ کا مصداق ہوجاؤں اور مجھے یہ انعام مل جائے کہ میرے اس بندے کے قلب میں ﷲ کی محبت شدید نہیں اشد ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ یہ اشد محبت ملے گی کیسے؟ ڈاکٹر عبدالحی صاحب رحمۃ ﷲ علیہ حکیم الامت کے بڑے پرانے خلفاء میں سے تھے اور تیس برس حضرت کی صحبت اُٹھائی تھی، آج لوگوں کو شیخ کے پاس چلہ لگانا بھی گرا ں معلوم ہوتا ہے، بزرگوں نے کتنے کتنے سال اپنے بزرگوں کی صحبت اٹھائی تب جا کر چمکے، ان کے قلب کاکباب خوشبودار ہوگیا ، مجاہدہ کی گرمی سے ان کے کباب کی محلہ محلہ کیا سارے عالم میں خوشبو پھیل گئی۔ آج اسی کی کمی ہے ، اس کی اہمیت ہی دلوں سے نکل گئی۔ جو علماء آج یہاں موجود نہیں ان کو سنادینا کہ اب میں نے چالیس دن سے گھٹا کر بیس دن کردیا ہے کہ اگر کوئی مولوی بوجہ کمیٹی کے خوف کے چلہ نہیں دے سکتا کہ اس کی چھٹی منظور نہیں ہوگی، ملازمت چلی جائے گی تو وہ شیخ کے یہاں بیس دن ہی لگا لے۔ حاجی صاحب نے دو سال کو چھ مہینے سے تبدیل فرمادیا تھا اور حکیم الامت نے چھ مہینے کو چالیس دن میں تبدیل فرمایا اور حکیم الامت کے ادنیٰ خادم نے چالیس دن کو بیس دن میں تبدیل کردیا  ( کسی صاحب نے درمیان میں کہا کہ اکیس دن ہونے چاہئیں) توحضرت والا نے مزاحاًارشاد فرمایا کہ اکیس دن نہیں وہ کوئی مرغی کے انڈے تھوڑی ہیں، انسان ہیں، اتنی زیادہ مشابہت مت پیدا کروورنہ یہ سمجھیں گے کہ ہم کو انڈا بنادیا، ہاں برکت کے لیے طاق عدد کرلیا جائے تو اچھا ہے۔ تو مولانا لوگوں کو بتادینا جو ہمارے خاص ہیں کہ اگر کسی کے لیے چلہ مشکل ہے تو جن کا مجھ سے اصلاحی تعلق ہے انہیں بیس دن کی چھٹی تو ملتی ہی ہے تو وہ جنوری میں بیس دن مجھے دے دیں اور دو تین دن یہاں آنے جانے میں لگ جائیں گے، دو دن آنے میں اور دو دن جانے میں اوردو دن آرام بھی کرلیں تاکہ پڑھانے کے اور امامت کے فرائض صحیح انجام دے سکیں۔ اور بیوی کے لیے مال مصالحہ کی بازار سے مارکیٹنگ کرلیں۔ لہٰذا انہیں یہ بتادینا کہ بجائے چلہ کے میں نے اجتہاد کیا ہے کیونکہ یہ چالیس دن کی بات کوئی نصِ قطعی تو ہے نہیں۔ لہٰذا جیسے حاجی صاحب نے اجتہاد فرمایا تھا کہ د و سال کی مدتِ تزکیۂ نفس کو چھ مہینے میں تبدیل فرمایا ، حکیم الامت نے چھ مہینے کو چالیس دن میں اور حکیم الامت کے ایک ادنیٰ حکیم نے (میں حکیم الامت تو نہیں ہوں لیکن حکیم تو ہوں،میں نے حکمت پڑھی ہے) اس کو بیس دن کردیا ہے کیونکہ میں نے حالات کو دیکھا ہے مگر تاجروں کے لیے یہ رعایت نہیں ہوگی۔ یہ مولویوں کے لیے ہے جو بیچارے کہیں امامت میں ہیں، کہیں مدرسوں میں ہیں، ان کو چھٹی نہیں ملتی۔ تاجر کو کیا ہے بیٹے جوان ہوجائیں بس اپنی جگہ کسی کو رکھو تھوڑی سی تنخواہ زیادہ دو ، جنرل منیجر رکھو جو تمہارا کاروبار سنبھال لے اور اولاد کو اس کا نگران رکھ دو۔ جو لوگ یہاں موجود نہیں ہیں ان کو یہ بتادینا فَلْیُبَلِّغِ الشَّاھِدُ الْغَائِبَ جو غائب لوگ ہیں ان کو بتلادو کہ علماء کے لیے مال سستا ہوگیا ہے۔ تاجر طبقہ میں بھی اگر کوئی مجبور ہے ، کوئی بزنس کی دیکھ بھال کرنے والا نہیں ہے تو اس کے لیے بھی بیس دن کافی ہیں لیکن اگر اس کے پاس فرصت ہے تو ا س کے لیے چلہ ضروری ہے اور جو لوگ تبلیغ میں چلہ لگاتے ہیں چلہ سے فارغ ہوکر ان کو بھی کسی خانقاہ میں جانا چاہیے جیسے کہ بانی تبلیغی جماعت مولانا الیاس صاحب رحمۃ ﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ جب میں تبلیغ میں جاکر آتا ہوں تو جس طرح سے موٹر کی ٹیوننگ کرانی پڑتی ہے اس کے پرزوں پر جو گرد و غبار لگ جاتا ہے تو پھر گیرج میں داخل کرکے اس کی دھلائی اور ٹیوننگ ہوتی ہے اسی طرح مخلوق میں میل جول سے،ہاتھ چومنے سے، تعریف کرنے سے کچھ نہ کچھ کبر کا ، عُجب کا، بڑائی کا گرد و غبار دل کی مشین میں آجاتا ہے تو ہم خانقاہوں میں جاتے ہیں تاکہ وہاں ہمارے دل کی ٹیوننگ ہوجائے اور اخلاص کے ساتھ ہمارا تبلیغ میں نکلنا قبول ہوجائے اور بڑائی اور تکبر نہ آئے۔ یہ ہمارے بڑوں کا عمل ہے۔

حضرت مولانا الیاس صاحب رحمۃ ﷲ علیہ حضرت مولانا خلیل احمد صاحب سہارنپوری رحمۃ ﷲ علیہ سے بیعت تھے، اُن ہی سے خلافت ملی تھی اور مولانا خلیل احمد سہارنپوری مولانا گنگوہی رحمۃ ﷲ علیہ کے خلیفہ تھے۔ ان کے بارے میں حضرت گنگوہی رحمۃ ﷲ علیہ کا قول تو میں نے اپنے مرشد شیخ حضرت مولانا شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃاﷲ علیہ سے سنا کہ مولانا گنگوہی رحمۃ ﷲ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ ﷲ نے ہمارے خلیل کو نسبتِ صحابہ عطا فرمائی ہے، یہ جملہ میں نے بارہا اپنے شیخ سے سنا جو ایک ہی واسطے سے مولانا گنگوہی رحمۃ ﷲ علیہ کے شاگرد ہیں یعنی میرے شیخ کے استاذ مولانا عبدالماجد رامپوری اور شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب رحمۃ ﷲ علیہ کے والد مولانا یحییٰ صاحب یہ دونوں مولانا گنگوہی کے شاگردہیں اور ساتھ ہی پڑھتے تھے۔ مولانا یحییٰ صاحب تو مولانا گنگوہی سے بیعت تھے اور مولانا عبدالماجد صاحب رامپوری نے اپنے آپ کو بیعت ہونے سے آزاد رکھاہوا تھا، اس بات کا غم مولانا یحییٰ صاحب کو بہت تھا کہ اتنا بڑا قطب ملا ہوا ہے اور یہ صرف شاگرد بنا ہوا ہے ۔ انہوں نے بہت سمجھایا مگر ان کی طبیعت میں تھوڑی سی آزادی تھی لہٰذا انہوں نے کہا بھئی ہمارا دل پیری مریدی کو قبول نہیں کرتا ہے، مولانا یحییٰ کو اس کا غم تھا کہ اتنے بڑے قطب العالم کی بیعت سے میرا ساتھی محروم ہوگا اور اس کو مولانا گنگوہی جیسا شیخ نہیں ملے گا تو ایک دن انہوں نے ایک ترکیب نکالی اور اسی میں ان کو بیعت کروادیا جسے خود میرے شیخ شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ ﷲ علیہ نے سنایا کہ ایک دن بخاری شریف کا درس ہورہا تھا اس دوران حضرت نے تھوڑا سا وقفہ کیا، آرام کے لیے سکوت اختیار فرمایا تو مولانا یحییٰ صاحب نے کہا کہ حضرت! مولانا ماجد علی کو آپ بیعت فرمالیجئے۔ حضرت سمجھے کہ مولانا ماجد علی نے ان کووکیل بنایا ہوا ہے حالانکہ وکیل نہیں بنایا تھا، بغیر وکالت پھنسا رہے تھے  توحضرت نے ہاتھ بڑھا دیا تو مولانا ماجد علی رامپوری اتنی بڑی نالائقی تو نہیں کرسکتے تھے کہ اتنا بڑا قطب  العالم ہاتھ بڑھائے اور یہ اپنا ہاتھ یہ کہہ کر کھینچ لیں کہ حضرت میں نے ان کو وکیل نہیں بنایا تھا۔ بخاری شریف کا طالبِ علم اتنے بڑے شیخ الحدیث کے ساتھ ایسی بدتمیزی نہیں کرسکتا۔ انہوں نے استاد کے ادب سے فوراً ہاتھ بڑھا دیا اور بیعت ہوگئے۔میرے شیخ شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ ﷲ علیہ نے فرمایا کہ ساری زندگی مولانا ماجد علی صاحب رامپوری مولانا یحییٰ صاحب کو شکریہ کا خط بھیجتے رہے کہ اے شخص! تو میرا ساتھی تو ہے لیکن تو میرا محسنِ عظیم بھی ہے، اگر تم میری مدد نہ کرتے تواتنے بڑے قطب العالم کے ہاتھ پر توبہ کرنے سے میں محروم رہ جاتا کیونکہ میری آزاد طبیعت قبول نہیں کررہی تھی، لہٰذا مولانا یحییٰ ﷲ تم کو اس کی جزا دے، ساری زندگی روتے رہے اور شکریہ ادا کرتے رہے لیکن بتاؤ! مولانا یحییٰ صاحب نے ترکیب کیسی نکالی ۔یہ باتیں آپ کتابوں میں نہیں پائیں گے، یہ صحبت سے ملتی ہیں جو میں آپ کو سنارہا ہوں، صحابی کا لفظ جو ہے صحبت سے ہے ، دین صحبت ہی سے ملتا ہے   ؎

نہ کتابوں سے نہ وعظوں سے نہ زر سے پیدا
دین ہوتا  ہے  بزرگوں  کی  نظر  سے   پیدا

دین صحب سے ملا ہے، اس ہی لئے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو صحابی کہا جاتا ہے یعنی حضور صلی اللہ علیہ کا صحبت یافتہ۔

ہمارے علماء حضرات کتب بینی کرتے ہیں کاش کچھ دن قطب بینی بھی کرلیں تو ان کے علم میں برکت آجائے، برکت اور محنت دونوں میں فرق ہے۔ امام راغب اصفہانی مفردات القرآن میں لکھتے ہیں کہ برکت کے معنی ہیں فیضانِ رحمتِ الٰہیہ، تو اس پر ﷲ کی رحمت کی بارش ہوتی ہے، جو کسی ﷲ والے کے آگے اپنے نفس کو مٹادیتا ہے، ﷲ کو اس پر رحم آجاتا ہے کہ یہ خود تو نااہل اور نالائق ہے لیکن یہ ہمارے کا ہمارا ہے، ہمارے خاص بندے کا غلام اور خادم ہے، یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ 

نَوْمُ الْعَالِمِ عِبَادَۃٌ کی شرح: بات پر بات یاد آتی ہے، اب دو باتیں اور یاد آگئیں۔ حضرت شاہ عبدالغنی پھولپوری رحمۃ ﷲ علیہ نے فرمایا کہ مولانا گنگوہی اپنے درسِ حدیث میں فرماتے تھے کہ عالم کی نیند بھی عبادت ہے، وہ سورہا ہے تو اس کا سونا بھی عبادت ہے۔ اس کی دلیل کیا ہے؟ کوئی حسی دلیل بتاؤ جو مشاہدہ میں ہو تو حضرت گنگوہی رحمۃ ﷲ علیہ فرماتے تھے کہ اگر کوئی کارپینٹر ہندوستان کی زبان میں اس کو بڑھئی کہتے ہیں جو دروازہ کھڑکی بناتا ہے اگر اس کا رَندہ جس سے لکڑی گھستا ہے کُند ہوجائے تو جتنی دیر تک وہ اس کو تیز کرنے کے لیے پتھر پر رگڑے گا اتنی دیر کی مزدوری دیتے ہو یا نہیں؟ اگر کوئی یہ کہے کہ بھئی تم نے اتنی دیر تک ہمارا کام نہیں کیا تو بڑھئی کیا کہے گا کہ صاحب کام تو آپ کا نہیں کیا لیکن آپ ہی کے کام سے میرا اوزار گھسا ہے لہٰذا اس کی مزدوری آپ کو دینی پڑے گی۔ مولانا گنگوہی نے فرمایا کہ جب عالم کتب بینی یعنی پڑھانے سے، تدریس سے یا تقریر و بیان سے تھک کر سورہا ہو تو چونکہ ﷲ ہی کے سرکاری کام میں اس کا دماغ تھکا ہے لہٰذا اس کا سونا بھی عبادت ہے ، اس کی مزدوری اسے ﷲ سے ملے گی۔ یہ علوم ہمارے باپ دادا کے ہیں جو سماعی ہیں، کتابوں میں مشکل سے پڑھو گے دوستو! یہ باتیں میرے شیخ فرمایا کرتے تھے ۔

چھینک پر الحمدﷲ کہنے کی حکمت: اس کے بعد فرمایا کہ یہ جو چھینک آنے پر الحمدﷲ کہنا مسنون ہے تو اس میں کیا راز ہے؟ تمام محدثین نے لکھا ہے کہ چھینک آنے سے دماغ کے بخارات اور بھاپ اور وزن ناک سے نکل جاتا ہے اور دماغ ہلکا ہوجاتا ہے یہ اس کا شکریہ ہے۔ لیکن مولانا گنگوہی نے فرمایا کہ میرے قلب میں ﷲ تعالیٰ نے ایک اور چیز عطا فرمائی ہے کہ چھینک کے وقت چہرہ بگڑ جاتا ہے، جس وقت چھینکنے کے لیے منہ پھیلاتا ہے اس وقت اس کی شکل اتنی ڈراؤنی ہوجاتی ہے کہ اگر وہی شکل برقرار رہے تو بیوی کو اپنا چہرہ نہیں دِکھا سکتا، گھرمیں نہیں گھس سکتا، وہ ڈنڈا لے کر دوڑائے گی کہ کوئی جنات آگیا ہے لہٰذ ا یہ الحمدﷲ کہنا اس کا شکر ہے کہ چھینکنے کے وقت میری شکل جو بگڑگئی تھی آپ کے کرم سے وہ پھر اپنی جگہ پر درست ہوگئی، یہ درستیٔ چہرہ کا شکریہ ہے، اب بتلائیے کبھی سنا آپ نے، یہ باتیں کتابوں میں نہیں پاؤگے، یہ ہمارے اکابر کے علوم ہیں جو سینہ بسینہ چلے آرہے ہیں ۔

درود سے پہلے استغفار پڑھنے کا راز: ایک دفعہ بنوری ٹاؤن میں حضرت مولانا یوسف بنوری رحمۃ ﷲ علیہ، حضرت مولانا شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ ﷲ علیہ اور حضرت مولانا ابرارالحق صاحب موجود تھے ، مصر کے علماء اور غیر عرب کے علماء بھی تھے، وہاں ایک سوال چلا کہ صاحب پہلے ہم استغفار پڑھیں یا پہلے درود شریف پڑھیں، اس میں کیا ترتیب رکھیں؟ چونکہ ہمارے شیخ سب سے بڑے تھے لہٰذا مولانا یوسف بنوری رحمۃ ﷲعلیہ اور سب نے میرے شیخ حضرت مولانا شاہ عبدالغنی صاحب سے کہا کہ حضرت آپ بیان کیجئے، آپ ہم سب میں بڑے ہیں اور حکیم الامت کے خلیفہ ہیں تو حضرت نے جواب دیا کہ اس کا جواب میں وہی دے رہا ہو ں جو حضرت مولانا گنگوہی رحمۃ ﷲ علیہ نے دیا تھا جب ان سے کسی نے ایسا ہی سوال کیا تھا تو حضرت گنگوہی نے فرمایا کہ تم کپڑا پہلے دھوتے ہو یا عطر پہلے لگاتے ہو؟ یعنی گندا کپڑا پہلے دھوؤگے یا عطر پہلے لگاؤگے تو اس نے کہا کہ پہلے کپڑا دھوئیں گے تو فرمایا کہ اسی طرح پہلے استغفار کرکے اپنی روح کو دھولو پھر درود شریف کا عطر لگاؤ۔ 

قبولیتِ دعا کا ایک خاص عمل: اسی طرح میرے شیخ نے حضرت شیخ الہند رحمۃ ﷲ علیہ کا ایک خاص عمل نقل فرمایا کہ کبھی دریا یا تالاب میں نہانے کا موقع ہو تو اتنے پانی تک جاؤ جہاں ڈوبنے کا خطرہ نہ ہو، جسم کے سب کپڑے کنارے پر رکھ دو، اگر کوئی شاگرد کنارے پر ہو تو اس کو پکڑا دو، پانی اتنا ہو کہ تمہارا ستر چھپ جائے تو یہ پانی کا لباس ہوگیا، اب تھوڑا سا پانی پی لو، یہ پانی کی غذا ہوگئی ۔ حدیث شریف میں ہے کہ جس کے پیٹ میں حرام غذا ہوگی یا جس کا کپڑا حرام ہوگا کتنا ہی گڑگڑائے اس کی دعا قبول نہیں ہوگی۔ اب دونوں موانع دور ہوگئے، پیٹ میں بارش کا پانی جو آسمان سے ﷲ نے برسایا اور لبا س بھی پانی کا جو آسمانی ہے یعنی پیٹ میں آسمانی پانی کی حلال غذا ہے اور جسم پر آسمانی لباس ہے، اب جو دعا مانگوگے قبول ہوجائے گی چنانچہ میرے شیخ نے بھی اس پر عمل کرکے دکھا دیا۔ پھولپور کے قریب ایک ندی تھی جس میں اتنا ہی پانی تھا، بس حضرت مجھے لے گئے اور حضرت کئی طرح سے تیرتے تھے، لیٹے لیٹے ، کھڑے کھڑے ، بیٹھے بیٹھے بھی تیرتے تھے، چار پانچ قسم کا تیرنا جانتے تھے اور دس سال تلوار اور لاٹھی چلانی سیکھی تھی جہاد کے لیے، تو حضرت جب پانی کے اتنے اندر پہنچ گئے تو لنگی اُتار کر مجھے پکڑا دی، میں باہر کھڑا تھا پھر حضرت نے غوطہ لگایا، وضو کیا، غسل کیا اور تھوڑا سا پانی پیا، اس کے بعد دیر تک دعا مانگی پھر مجھے بتایا کہ آج میں نے شیخ الہند مولانا محمود الحسن صاحب رحمۃ ﷲ علیہ کا نسخہ استعمال کیا۔ یہ باتیں یاد نہیں آتیں، بس آج یاد آگئیں یہ میرے اختیار میں نہیں ہیں، نہ میں سوچتا ہوں، میں قسم کھاسکتا ہوں کہ ان باتوں کو سنانے کا میرا کوئی ارادہ نہیں تھا، نہ میرے ذہن میں یہ علوم اس وقت مستحضر تھے لیکن ﷲ سے اتنی دعا ضرور کرتا ہوں کہ اے خدا! آپ کے بندوں کے لیے جو مفید مضمون ہو وہ میری زبان سے بیان کرادیں۔

بائیں جانب تکیہ رکھنے کی سنت: میں بائیں طرف تکیہ اس لیے رکھتا ہوں کہ ایک مرتبہ حضرت مولانا مسیح ﷲ خان صاحب جلال آبادی رحمۃ ﷲ علیہ نے میری خانقاہ میں دو گھنٹے بیان کیا اور یہ واقعہ پانچ چھ سال پہلے کا ہے، جب حضرت سفر کیا کرتے تھے تو میں نے حضرت کے دائیں طرف تکیہ رکھا تو فرمایا کہ نہیں بائیں طرف تکیہ رکھنا مسنون ہے ۔ میں نے سوچا کہ یا ﷲ اس میں کیا راز ہے؟ کبھی راز ﷲ میاں سے پوچھنے پڑتے ہیں تو دل میں خیال آیا کہ بائیں طرف دل ہے اور یہ تکیہ ہمارے قالب کے ساتھ ساتھ ہمارے قلب کا بھی سہارا ہوگا، اگر دائیں طرف رکھیں تو صرف جسم کو سہار املے گا، دل کو نہیں ملے گا لہٰذا سنت کا راز معلوم ہوگیا۔

روحانی آباء و اجداد پر عرض اعمال کا استدلال: ہمارے اعمال جس طرح ہمارے باپ داداؤں کو پیش ہوتے ہیں اس طرح ہمارے روحانی باپ داداؤں کو بھی پیش ہوتے ہیں۔ جب کوئی شخص بیعت ہوتا ہے تو چاروں سلسلوں کے جو اولیاء ﷲ عالمِ برزخ میں ہیں ان کو اطلاع دی جاتی ہے اور وہ سب مل کر دعا کرتے ہیں کہ یا ا ﷲ! اس کو صاحبِ نسبت کردیجئے، ﷲ والا بنادیجئے، ہزاروں لاکھوں اولیاء ﷲ کی توجہ اور ان کا فیض ہوتا ہے اور یہ بات حضرت نے فرمائی، اس کی دلیل میں جلالین شریف کے مصنف علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ ﷲ علیہ نے ایک روایت لکھی ہے کہ جامع صغیر میں ہے کہ ﷲ تعالیٰ اپنے بندوں پر اعمال دو دن پیش کرتے ہیں فَلاَ تُؤْذُوْا مَوْتَاکُمْ تم اپنے مرنے والوں کو گندے اور نالائق اعمال کرکے اذیت نہ دو اور سرورِ عالم صلی ﷲ علیہ وسلم کو بھی اذیت مت دو کیونکہ جب اولیاء پر اعمال نامہ پیش ہوگا تو حضور صلی ﷲ علیہ وسلم پر تو پہلے پیش ہوگا تو ﷲ ہمارے گناہوں کو چھپادے کہ ہمارے باپ داداؤں کو بھی ان کی خبر نہ پہنچے اور حضور صلی ﷲ علیہ وسلم کو بھی ۔ بہرحال اگر کوئی دلیل نہ بھی ہو تو بھی ہم اپنے اکابرین کے ارشادات کی روشنی کو اپنے لیے ہدایت کے چراغ سمجھتے ہیں کوئی مانے نہ مانے، ہم اس کو منوائیں گے بھی نہیں، اگر کوئی شخص کہتا ہے کہ ہم اس کو نہیں مانتے تو ٹھیک ہے نہ مانے ہم کب کہتے ہیں کہ آپ مان لیں ۔

حضرت مولانا مسیح ﷲ خان صاحب جلال آبادی بڑے عالم اور بزرگ تھے۔ ان کے ارشاد کی روشنی میں ہم اس پر عمل کرتے ہیںکہ باپ داداؤں کے آگے اعمال پیش ہونے سے اکابر نے بھی استدلال کیا ہے کہ اور اس میں روحانی باپ دادا بھی شامل ہیں چنانچہ حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ ﷲ علیہ نے آیت فَاِذَا نُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَلاَ اَنْسَابَ بَیْنَہُمْ کی تفسیر میں بیان القرآن میں لکھا ہے کہ جب صور پھونکا جائے گا تو کافروں کے لیے کوئی رشتہ کام نہیں دے گا تو کافر کے لیے کام نہیں دے گا لیکن مومن کے لیے رشتہ کام دے گا۔ حضرت نے فرمایا کہ قضیہ عکس ہوتا ہے لہٰذا اس کا مضمون مخالف ثابت ہوجائے گا اور پھر رشتے دو قسم کے ہوتے ہیں ایک تو باپ دادا کا رشتہ کہ ہم فلاں کے بیٹے اور فلاں کے پوتے ہیں، ایک روحانی رشتہ کہ ہم فلاں سے مرید ہیں، ہمارے دادا پیر یہ تھے اور پردادا پیر یہ تھے۔یہ اتنے بڑے حکیم الامت نے لکھا ہے جن کے علم پر آج بڑے بڑے علماء عش عش کررہے ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ اس میں صورتاً جو ہمارے رشتے ہیں جیسے باپ داداؤں کے یہ بھی مفید ہوں گے اور معناً یعنی روحانی طور پر جو رشتے ہیں، اہل ﷲ سے ہماری بیعت اور ان کی محبت و عقیدت، یہ رشتے بھی مفید ہوں گے دیکھ لو بیان القرآن جو یہاں آپ کے پاس موجود ہے، اس آیت کی تفسیر دیکھ لو، مجھے اتنی خوشی ہوئی کہ بس کیا کہوں، میں خوش ہوجاتا ہوں جب بزرگوں کی تائید پاتا ہوں۔ 

ﷲ والوں کا طریقِ دعوت: بعض لوگ کہتے ہیں کہ صاحب آج کی مجلس میں آدمی کم آئے ہیں، بھئی اگر ایک آدمی بھی بن جائے تو سمجھ لو محنت وصول ہوگئی۔حکیم الامت حضرت مولانا شاہ اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ ﷲ علیہ خانقاہ تھانہ بھون میں ظہر سے عصر تک مجلس کرتے تھے اور روزانہ پچاس ساٹھ آدمی ہوتے تھے، ایک دن ایسا ہوا کہ ایک آدمی بھی نہیں آیا، حضرت ظہر سے عصر تک وہیں بیٹھے رہے او ر کہا کہ یا ﷲ! دوکان لگانا ہمارا کام ہے، گاہک بھیجنا آپ کا کام ہے، میں نے آپ کی محبت کی دوکان لگائی ہے، اب کوئی آئے نہ آئے ہم تو ڈیوٹی دے رہے ہیں، ہماری محنت تو وصول ہوجائے گی، ﷲ کا فضل مل جائے گا۔ یہ ہمارے اکابر کا طریقہ ہے، مجھے خود پتا نہیں تھا کہ میں آج کیا بیان کروں گا، میں سچ کہتا ہوں کہ مجھ کو کبھی پہلے سے پتہ نہیں ہوتا کہ میں آج یہ بیان کروں گا، لیکن دو رکعات صلوٰۃ الحاجات پڑھ کر دعا کرتا ہوں پھر بیان کرتا ہوں۔ میرے شیخ نے ایک وظیفہ بھی بتایا تھا کہ سات مرتبہ یہ پڑھ لیا کرو:

رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ وَ یَسِّرْلِیْ اَمْرِیْ وَاحْلُلْ عُقْدَۃً مِّنْ لِّسَانِیْ یَفْقَہُوْا قَوْلِیْ

اور ایک اسم اعظم بھی بتایا تھا:

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ بِاَنَّکَ اَنْتَ ﷲُ لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ الْاَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِیْ لَمْ یَلِدْ وَ لَمْ یُوْلَدْ وَ لَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدُ

یہ اسمِ اعظم میری کتاب کشکولِ معرفت میں بھی ہے، اس کتاب میں سارے اسم اعظم میں نے جمع کیے ہیں، اس کے بعد اپنے بزرگوں کا بھی واسطہ دیتا ہوں جن کی جوتیاں اٹھائی ہیں تو ان کی برکت سے مفید مضامین عطا ہوجاتے ہیں۔ میں سچ کہتا ہوں کہ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ آج یہ مضمون بیان کروں گا، اس کا تصور بھی نہیں تھا بلکہ میں نے یہ سوچا تھا کہ کل کا جو وعدہ تھا اسے پورا کروں گا لیکن دیکھئے! آج کے متفرقات کیسے ہیں؟ یہ متفرق مٹھائیاں ہیں، ایک قسم کی نہیں ہے، اس میں گلاب جامن بھی ہے، امرتی بھی ہے، پیڑا بھی ہے، مختلف مضامین ﷲ نے آج بیان کرادئیے، بس ﷲ پاک قبول فرمائیں۔

علم کی نعمت بھی ایک لذت ہے۔ علم پر ایک بات بتاتا ہوں، مولانا ابرارالحق صاحب نے حضرت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی رحمۃ ﷲ علیہ سے پوچھا کہ میرا دورۂ امتحان ہورہا ہے، میں کیا پڑھوں کہ اوّل نمبر پاس ہوجاؤں۔ حکیم الامت نے فرمایا کہ روزانہ ایک سو پچاس مرتبہ یَاعَلِیْمُ پڑھو۔ حکیم الامت اپنے خلیفہ کو بتارہے ہیں جو دورۂ حدیث کا امتحان دے رہے تھے اور حضرت مولانا شاہ ابرارالحق صاحب کالج کے لڑکوں کو بھی یہی وظیفہ بتادیتے ہیں۔۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries