اتوار مجلس۲۵۔ مئی۲۰۱۴ء اپنے سے بدگمانی، دوسروں سے خوش گمانی!

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں(کلک کریں)

خلاصۂ مجلس:محبی و محبوبی مرشدی و مولائی حضرت والا دامت برکاتہم مجلس میں رونق افروز ہوئے جناب اثر صاحب دامت برکاتہم کو اشعار سنانے کا فرمایا انہوں نے اپنے اشعار سنائے جو حضرت نے بہت پسند فرمائے اور خوب تعریف فرمائی اس لئے بعد جناب ممتاز صاحب کو معارفِ ربانی سے ملفوظات پڑھنے کا فرمایا۔ آج کی مجلس تقریباً ۵۲ منٹ تک جاری رہی۔۔

ملفومظاتِ معارف ربانی

پیر سے پیار کا فیض: فرمایا کہ آپ کے ری یونین میں ایک دوست جو حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی صاحب دامت برکاتہم سے بیعت ہیں ان کا یہ جملہ مجھے بہت اچھا لگا کہ ان کو اپنے پیر سے بہت پیار ہے۔ واقعی پیر سے پیار ہونا ہی چاہیے کیونکہ پیر میں بھی پ ی ر ہے اور ایک الف بڑھا دیا تو پیار ہوجاتا ہے تو یہ دونوں الفاظ قریب اللغت ہیں یعنی لغت کے لحاظ سے قریب ہیں، پیار اور پیر اور جس کو پیر کی محبت نہیں ملی اس کو کچھ نہیں ملے گا اور اس کی حسی دلیل بھی بتاتا ہوں ۔
پاکستان کے ایک علاقہ ٹنڈو جام میں دیسی آم کو لنگڑا آم بنایا جاتا ہے، دیسی آم کی شاخ کو لنگڑے آم کی شاخ سے پیوند کرکے کَس کے پٹی باندھتے ہیں تو میں نے سائنس کے اسٹوڈنٹ سے سوال کیا کہ اتنا کس کے کیوں باندھتے ہو؟ اس نے کہا کہ اگر تعلق ڈھیلا ہوگا تو لنگڑے آم کی خاصیت و لذت اس میں نہیں آئے گی، دیسی کا دیسی رہے گا۔ معلوم ہوا کہ پیر سے پیار اس کے تعلق کو قوی کردے گا اور جب تعلق قوی ہوگا تو پیر کا سارا فیض اس میں منتقل ہوجائے گا اور جو پیر کے پیار سے محروم ہے وہ بہت سخت محروم ہے۔ میرے شیخ فرماتے تھے کہ شیخ کو پیر کیوں کہتے ہیں؟ پیر کے ایک معنی تو بڈھے کے ہیں جیسے کہتے ہیں کہ پیری آگئی یعنی بڑھاپا آگیا اور پیر کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ جو دل کی پیرا نکال دے، پیرا کہتے ہیں درد کو یعنی اس سے روحانی بیماریوں کو شِفا ہو، دل کی پیرا نکالنے والا ہو۔
بس اب دعا کرو کہ ﷲ اپنی رحمت سے ان گذارشات کو قبول فرمائے اور میرے جن دو ستوں نے ان کو سنا اُن کو آگے سنانے کی توفیق عطا فرمائے
فَلْیُبَلِّغِ الشَّاھِدُ الْغَائِبَ جو آج تشریف نہیں لائے ان تک میرے ان علوم کو پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی رحمت سے یا ﷲ یہ سب باتیں فرانسیسی زبان میں شائع فرمادے اور میرے دوستوں کو توفیق دے ان کو ترجمہ کرنے اور چھاپنے کی، اس بات کی سب لوگ اجتماعی فکر کریں۔
مولانا داؤد نے میرے دو رسالوں کا ترجمہ کیا ہے ایک تو حقوق النساء اور ایک یہاں محضرِ علماء میں بیان ہوا تھا منازلِ سلوک دونوں کا رب العالمین نے فرانسیسی زبان میں ترجمہ کرادیا، یا ﷲ! اس کے لیے مولانا داؤد کی محنت کو قبول فرما اور آج جو باتیں آپ نے سنیں ان کو بھی چھاپنا چاہتے ہیں، اس کے لیے ہم سب کو اجتماعی فکر کی توفیق دے دے، میرے دوست احباب نے آپس میں اس کے چھاپنے کے لیے جو وسائل اختیار کیے ہیں اس میں ﷲ ان کو شرکت کی توفیق دے

اور اس مجلس میں میری گذارشات کو قبول فرما اس مجلس کو قبول فرما اور ہم سب کو مقبول بنالے اور ہمارے گھر والوں کو بھی، دوست احباب کو بھی، حاضرین کو بھی اور غائبین کو بھی کسی کو محروم نہ فرما۔ اے ﷲ! آپ کی شان بہت بڑی ہے، آپ کا نام بہت بڑا ہے، جتنا بڑا آپ کا نام ہے، اتنا بڑا کرم ہم سب پر کردیجئے۔
اگر دل میں کوئی مضمون نہ آئے تو ہم کیا بولیں گے، یہ ﷲ کا کرم ہے، آپ لوگوں کے خلوص و طلب کی برکت ہے، ہم اتنی دور سے آئے اور اگر کچھ نہ بولیں تو آپ کا دل کھٹا ہوتا کہ نہیں؟ تو یہ ﷲ کا شکر ہے کہ اس نے ایسے عالی مضامین میرے قلب کو عطا فرمائے، جب ﷲ اپنی رحمت سے کسی کام کے لیے اپنے کسی بندے کو منتخب کرتا ہے تو اس کی مدد بھی فرماتا ہے اور میں اپنے شیخ کے بتائے ہوئے اس نسخہ پر بھی عمل کرتا ہوںکہ اے ﷲ! جو مفید مضامین ہوں وہ میرے دل میں ڈال دیجیے تو الحمدﷲ! آج کا مضمون بہت عجیب و غریب تھا، خود مجھے بھی تعجب ہے، ہر بات متفرق ہے، گو کہ مضامین میں آپس میں کوئی جوڑ نہیں لیکن ہر مضمون مفید ہے، بس ﷲ ہی کا شکر ہے۔

حدیث اَللّٰھُمَّ اغْسِلْ خَطَایَایَ الخ کی عجیب تشریح: ایک مرتبہ مجھے بخاری شریف پڑھاتے ہوئے میرے شیخ شاہ عبدالغنی صاحب پھولپوری رحمۃ ﷲ علیہ نے ایک حدیث پڑھی:

اَللّٰھُمَّ اغْسِلْ خَطَایَایَ بِمَآئِ الثَّلْجِ وَ الْبَرَدِ وَنَقِّ قَلْبِیْ مِنَ الْخَطَایَا کَمَا یُنَقَّی الثَّوْبُ الْاَبْیَضُ مِنَ الدَّنَسِ (المشکٰوۃ، کتاب الدعوات،باب الاستعاذۃ)

اے ﷲ! میرے گناہوں کو دھو دے برف کے پانی سے اور اولے کے پانی سے۔ ڈاکٹر عبد الحی صاحب بھی موجود تھے۔ انہوں نے حضرت سے سوال کیا کہ حضرت یہ برف کے پانی سے اور اولے کے پانی سے گناہوں کو دھونے میں کیا راز ہے ؟ حدیث میں یہ مثالیں کیوں دی گئی ہیں؟ حضرت نے فوراً آنکھیں بند کرلیں، سر جھکالیا اور مشکل سے چند سیکنڈ گذرے ہوں گے کہ فرمایا کہ ڈاکٹر صاحب جواب آگیا۔ آہ! ایسے بزرگ ہیں جن کی صحبت ﷲ نے اختر کو عطا فرمائی جن کو آسمان سے علوم عطا ہوتے تھے، حالانکہ ہمارا کوئی استحقاق نہیں تھا، بغیر استحقاق کے اُس کریم رب نے مجھے اپنے مقبول بندہ کی صحبت نصیب فرمائی جو حضرت گنگوہی رحمۃ ﷲ علیہ کے شاگرد تھے اور ﷲپاک نے ایسی صحبتیں ایک دو دن نہیں پندرہ سال عطا فرمائیں۔

مثنوی مولانا روم کی جو شرح میں نے کی ہے وہ حضرت ہی کے فیض کا صدقہ ہے ورنہ مثنوی کی شرح کرنا آسان تھوڑی ہے۔ تو ڈاکٹر صاحب کے سوال کا حضرت نے جواب دیا کہ گناہ سے دو چیزیں پیدا ہوتی ہیں ایک گرمی اور دوسرے ظلمت یعنی اندھیرا، یہ ہر گناہ کی خاصیت ہے اس لیے آپ گنہگار کی پیشانی پر ہاتھ رکھیں تو گرم ہوگا، گندے خیالات سے بھی آدمی کا بدن گرم ہوجاتا ہے، غرض ہر معصیت کے لیے حرارت اور ظلمت ضروری ہے لہٰذا برف کے پانی سے تو حرارت ختم کرادی اور اندھیرا اولے کے پانی سے ختم ہوگیا چونکہ اولے کا پانی سفید اور چمکدار ہوتا ہے۔ اس لیے ﷲ کے رسول صلی ﷲ علیہ وسلم نے ہمارے گناہوں کی حرارت کو تو برف سے زائل کیا اور اولے کے پانی سے اس کی ظلمت اور اندھیرا ختم کیا۔ اس لیے کہتا ہوں کہ علم کی برکت اہل ﷲ کی صحبت پر موقوف ہے اس لیے اس کو فوراً چھاپو، اجتماعی فکر کرو، خاص کر آج کے متفرقات کے لیے، بتائیے !آج کے متفرقات کیسے ہیں   ؎

بظاہر تو ہیں چھوٹی چھوٹی سی باتیں
جہاں سوز  لیکن  یہ  چنگاریاں  ہیں

اس کے چھپنے سے عام لوگوں کو اور علماء کو بھی معلوم ہوجائے گا کہ اہل ﷲ کی صحبت سے کیا حاصل ہوتا ہے ۔ اس لیے حقوق النساء کے بعد اس کا نمبر لگادو، منازلِ سلوک بعد میں رکھو ۔ سلوک کے منازل طے کرنے کے لیے لوگ کہاں اتنے بے چین ہیں۔ اگر بیوی کی پٹائی نہ کریں تو بس سارا سلوک طے ہوگیا لہٰذا پہلے حقوق النساء شائع کرو کہ ہماری بیٹیاں شوہروں کے ظلم و ستم سے بچ جائیں، ان کے ڈنڈوں، گالی گلوج اور جھاپڑ سے بچ جائیں،ایسے لوگ پاپڑ کم کھلاتے ہیں جھاپڑ زیادہ مارتے ہیں۔ دیکھئے یہ سب چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں لیکن سب نئی ہیں، اتنے متفرق علوم کبھی بیان نہیں کیے جتنے آج ہوئے، آج کی پوری مجلس انتخابات ہی کی تھی، منتخب علوم بیان ہوئے گو ربط کے ساتھ نہیں ہیں۔

بدگمانی کی نحوست: دو عورتیں عید کا چاند دیکھ رہی تھیں، ایک عورت اپنے بچہ کو استنجا کرارہی تھی، اتنے میں چاند نظر آگیا تو جو عورت استنجا کرارہی تھی وہ خوشی میں ناک پر انگلی رکھ کر چاند دیکھنے لگی اور انگلی صاف نہیں کی تو کیا کہتی ہے کہ اے بہن! دیکھ چاند تو نظر آگیا مگر اس دفعہ بڑا سڑا ہوا اور بدبودار چاند نکلا ہے حالانکہ بدبو خود اس کی انگلی میں تھی اور بد گمانی چاند سے کی کہ چاند بدبودار ہے اسی لیے حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اپنے بھائیوں کا عیب مت دیکھو! ورنہ بے بھائی کے ہو جاؤگے، کون ہے جو بے عیب ہے ﷲ کے سوا؟ آج کسی بھائی کا کوئی عیب دیکھ کر اس کو چھوڑا کل دوسرے بھائی کو چھوڑا ایک دن تم بے بھائی کہلاؤگے۔

دو شخص حیدرآباد میں رہتے تھے، ان کے مزاج میں بدگمانی اور ترکِ تعلق کا مرض تھا، جب ان کے والد کا انتقال ہوا تو ان کے یہاں جنازہ اُٹھانے کے لیے کوئی مسلمان نہیں گیا، مزدور بلائے گئے کیونکہ ان کے اندر ہر ایک سے لڑنے کی عادت تھی، ہر ایک کو لتاڑ دیا، غصہ میں جو جی میں آیا کہہ دیا، اس سے ہر ایک کا دل اُن سے خراب ہوگیا۔ یہ سب کے لیے سبق ہے کہ اپنے مسلمان بھائیوں کا عیب نہ دیکھو ورنہ بے بھائی ہوجاؤ گے۔ آج ایک بھائی چھوٹے گا کل دوسرا چھوٹے گا اور ایک دن تمہارا کوئی بھائی نہ ہوگا اس لیے اپنے عیب دیکھو اور دوسرے کی خیر اور بھلائی دیکھو یعنی حسنِ ظن لغیرہ و سوء ظن لنفسہ ہونا چاہیے یعنی دوسروں کے ساتھ اچھا اور اپنے نفس کے ساتھ برا گمان رکھنا چاہیے لیکن آج کل معاملہ اُلٹا ہے، سوء ظن لغیرہ و حسن ظن لنفسہ ہم چو من دیگرے نیست یعنی مجھ جیسا کوئی دوسرا نہیں، اس کا ترجمہ ہمارے ایک دوست نے یوں کیا ہے ہم چو من ڈنگرے نیست یعنی اصل میں یہ اپنے کو کہہ رہا ہے کہ مجھ جیسا کوئی جانور نہیں، ڈنگر جانور کو کہتے ہیں ۔

بعض اسماء حسنیٰ کی تشریح: میرے پاس ایک عربی آیا اور کہا کہ مجھ میں کچھ امراض ہیں، میں معالجین سے علاج کرانے آیا ہوں، مجھے کوئی وظیفہ بتاؤ، میں نے اس سے کہا کہ قُلْ یَا سَلاَمُ مِأَۃٌ وَّ ثَلاَ ثُوْنَ اِحْدٰی مَرَّۃً یعنی ۱۳۱ مرتبہ یا سلام پڑھو اور اس کویہ بھی سمجھا دیا کہ جب تم ایک سو اکتیس مرتبہ پڑھ لو تو کہو اَللّٰھُمَّ بِبَرَکَۃِ ھٰذَا الْاِسْمِ یَا سَلاَ مُ سَلِّمْنَا مِنْ کُلِّ دَآئٍ وَ بَلآئٍ وَ مِنْ کُلِّ سَیِّئِ الْاَسْقَامِ یَا ذَا الْجَلاَلِ وَالْاِکْرَامِ بِوَسِیْلَۃِ خَیْرِ الْاَنَامِ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَ مُ تو وہ وجد کرنے لگا۔ اس نے کہا عربی کے اتنے قوافی! عربی اُس کی مادری زبان تھی اور ہماری صرف ونحو کی زبان ہے جو مزیدار ہوتی ہے۔ دیکھو اس جملہ میں کتنے قافیے لگے جس سے اس عربی کو وجد آگیا۔ غرض کثرت سے یا سلام پڑھتے رہو ان شاء ﷲ بہت سے امراض سے محفوظ رہوگے۔ اگر گاڑی میں بیٹھے ہوتو یاسلام پڑھتے رہو اور چند بار پڑھنے کے بعد یہ کہو اَللّٰھُمَّ بِبَرَکَۃِ ھٰذَا الْاِسْمِ یَا سَلاَمُ سَلِّمْنَا مِنْ کُلِّ دَآءٍ وَ بَلآءٍ اگر گناہ سے حفاظت چاہتے ہو تو اتنا اور بڑھادیجئے وَمِنْ کُلِّ مَعْصِیَۃٍ وَّ مُصِیْبَۃٍ اس میں معصیت پہلے کہا، مصیبت بعد میں کہا، مصیبت تو بدن کی تکلیف ہے اور معصیت سے تو ﷲ ناراض ہوگا، اس لیے اس طرح پڑھنے سے ﷲ خوش ہوجائیں گے کہ دیکھو اس نے میری نافرمانی سے بچنے کی پہلے درخواست کی ہے، اس میں ﷲ کی خوشی کا راستہ ہے اس لیے اختر نے معصیت کو مقدم کیا ہے۔ پھر کہیے وَمِنْ کُلِّ سَیِّئِ الْاَسْقَامِ خطرناک بیماریوں سے بھی ﷲ بچائے، جس میں گردے خراب ہونا، بلڈ کینسر، دل کے والو (Valve) بند ہوجانا اور جتنی خطرناک بیماریاں ہیں سب کی نیت کرلیں ان شاء ﷲ سب سے حفاظت ہوگی اور یہ میں نے عربی میں عربی داں کے لیے کہا ہے بس آگے بڑھاتے جاؤ، جتنی خطرناک بیماریاں ہیں ان کے نام لے لو اور آخر میں کہہ دو یَا ذَا الْجَلاَلِ وَالْاِکْرَامِ سرورِ عالم صلی ﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ یَا ذَا الْجَلاَلِ وَالْاِکْرَامِ کثرت سے پڑھا کرو، اس میں اسمِ اعظم ہے۔

حضرت صدیق اکبر کا ایمان افروز واقعہ: حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی وفات کے غم میں بعض مصلحتوں کی وجہ سے صحابہ کی رائے نہیں تھی کہ اس وقت مانعین زکوٰۃ سے جہاد کیا جائے لیکن حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اعلان کیا کہ جو جھنڈا آپ صلی ﷲ علیہ وسلم نے اسامہ کو دیا ہے وہ رکھا نہیں جائے گا،میں تنہا جاؤں گا، اگر آپ لوگ میرا ساتھ نہیں دیتے ہو تو مجھے پرواہ نہیں، کیونکہ نص قرآن سے ﷲ تعالیٰ میرے ساتھ ہیں، جب ﷲ تعالیٰ نے لاَ تَحْزَنْ اِنَّ ﷲَ مَعَنَا فرمایا تھا تو اس وقت اے عمر تم نہیں تھے، اے عثمان تم نہیں تھے، اے علی تم نہیں تھے، اس وقت صرف ابوبکر تھا، میرے ساتھ ﷲ کی معیت منصوص ہے، میں تنہا لڑوں گا وَتَقَلَّدَ سَیْفَہٗ اور تلو ار کو نیام میں لگایا فَخَرَجَ وَحْدَہٗ اور تنہا نکل پڑے، تب صحابہ کو شرح صدر ہوگیا اور حضرت علی نے اعلان کیا کہ ہم سب آپ کے ساتھ ہیں اے صدیق! تلوار نیام میں رکھ لیں وَ لاَ تُفْجِعْنَا بِنَفْسِکَ اپنی جدائی سے ہمیں غمگین نہ کریں۔ اب یہ جملہ کون سا ہے؟ یہ وہی جملہ ہے جو حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا تھا جب جنگِ احد میں حضرت ابوبکرصدیق نے آپ صلی ﷲ علیہ وسلم کا خونِ مبارک دیکھا تو برداشت نہیں ہوا، تلوار کو ننگی کیا اور کہا کہ آج کسی کافر کو نہیں چھوڑوں گا یا شہید ہوجاؤں گا، یہ کہہ کر کفار پر جھپٹے مگر حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جھپٹ کر ان کو پکڑ لیا اور فرمایا شِمْ سَیْفَکَ اے صدیق! اپنی تلوار کو نیام میں رکھ لو وَلاَ تُفْجِعْنَا بِنَفْسِکَ اور اپنی جدائی سے مجھے غمگین نہ کرو یعنی تو شہید ہوجائے گا تو تیری جدائی کا غم مجھ سے برداشت نہیں ہوگا ۔ اب بتائیے درجۂ شہادت سے درجہ ٔصدیقیت افضل ہے کہ نہیں؟ صدیق کی زندگی کا نبی حریص ہوتا ہے نبی مشتاق ہوتا ہے۔ جس کی حیات کا پیغمبر مشتاق ہو کیا وہ حیات شہادت سے افضل نہیں ہے ؟ اس لیے مِنَ النَّبِیِّیْنَ کے بعد صدیقین ہے شہدا ء کو بعد میں بیان کیا گیا ہے کیونکہ صدیق کارِنبوت کی تکمیل کرتا ہے،کارِ نبوت انجام دیتا ہے اس لیے اس کا درجہ بڑا ہے کیونکہ حضرت علی کو اس جملہ کا علم تھا کہ ابوبکر صدیق کے لیے یہ جملہ بارگاہِ نبوت سے بوقتِ جنگِ اُحد عطا ہوا تھا لہٰذا وہی جملہ حضرت علی نے اس وقت نقل فرمایا کہ اے صدیق! تلوار کو نیام میں رکھ لیں، ہمیں اپنی جدائی سے غمزدہ نہ کریں، ہم سب آپ کے ساتھ ہیں۔ یہ ان کا تعارف کرایا کہ نہیں؟ بعض اوقات جب دوسرا نہیں ہوتو خود تعارف کرانا پڑتا ہے جیسے نبی سب سے پہلے اپنا تعارف کراتا ہے کہ میں نبی ہوں ، جب کوئی دوسرا تعارف کرانے والا نہ ہو تو مجبوراً اپنا تعارف خود کرانا پڑتا ہے کہ بھئی! میں شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ ﷲ علیہ کا فلاں ہوں اور شاہ ابرارالحق صاحب کا فلاں ہوں اور حکیم الامت کا پوتا ہوں اور حاجی امداد ﷲ صاحب کا پڑپوتا ہوں۔

تواضع کہاں حرام ہے اور تکبر کہاں حلال ہے؟: اور اس موقع پر جہاں نادان لوگ ہوں وہاں تواضع جائز نہیں چنانچہ مولانا گنگوہی رحمۃ ﷲ علیہ نے ایک جگہ فرمایا کہ خدا کی قسم میں کچھ نہیں ہوں، وہاں ایک گاؤں والا بیٹھا تھا وہ حضرت کا یہ جملہ سن کر بھاگ گیا، اس نے کہا کہ جب یہ کچھ نہیں ہیں تو ان سے مجھے کیا ملے گا کیونکہ ناسمجھ تھا حالانکہ یہی حضرت گنگوہی کی بلندی کی علامت تھی۔ اسی لیے بعض اوقات تواضع حرام ہوتی ہے مثلاً جنگ ہورہی ہے اور کوئی مسلمان ہندوؤں کے مقابلہ میں جاکر کہے کہ دیکھو بھائیو! تمہارے مقابلہ کے لیے یہ ناچیز حقیر فقیر عبدالقدیر آیا ہے تو اس وقت یہ تواضع حرام ہے ، اس وقت تو یہ کہنا چاہئے کہ اگر تم سیر ہو تو ہم سوا سیر ہیں، تمہیں ابھی تمہارے ٹھکانہ جہنم پہنچاتا ہوں، دس کے لیے میں اکیلا کافی ہوں، اس وقت بہادری دِکھانا فرض ہے۔ 

دیکھئے! اسلام میں اکڑ کر چلنا حرام ہے کہ نہیں؟ ﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں وَلاَ تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا تم زمین پر اکڑ کر مت چلو لیکن طواف کی حالت میں اکڑ کر چلنے یعنی رمل کرنے کا حکم دیا گیا تو اگر حکم ہوجائے تو کبر بھی حلال ہے اور اگر حکم نہ ہو تو تواضع بھی حرام ہے جیسے طواف میں رمل کرتے وقت یا کافروں کے سامنے حالتِ جہاد میں۔ جہاں وہ تواضع حرام کردیں اور اکڑ پسند کریں وہاں اکڑ مستحب اور فرض ہے اور تواضع حرام ہے۔

دین نے ہمیں بندگی سکھائی ہے کہ جو ﷲ حکم دے اس کو مانو۔ اسی طرح جب ﷲ کہہ دے کہ ہم جنگل میں ملیں گے تو پھر وہ دن ملتزم سے چمٹے رہنے کا نہیں ہے، بادشاہ جہاں خیمہ لگادے وہی محل سرا ہے، وہ شاہی محل ہے، اس وقت ﷲ کا شاہی محل عرفات میں ہے، اس دن صاحبِ خانہ عرفات میں ہے لہٰذا اب اگر کوئی حاجی خانہ کعبہ سے لپٹا رہے کہ ہم تو کعبہ کو نہیں چھوڑیں گے، ﷲ کے گھر کو نہیں چھوڑیں گے اور کعبہ کی تجلیات کو دیکھتے رہیں گے تو اس کو کچھ نہیں ملے گا، اس وقت خانہ کعبہ خالی کرو ورنہ حج بھی نہیں ہوگا۔

ایک بڑھیا نے کہا تھا کہ ہم خانہ کعبہ چھوڑ کر نہیں جائیں گے، چنانچہ وہ عرفات نہیں گئی، دس تاریخ تک وہیں رہی، پولیس والوں نے جب اس سے پوچھا تو اپنی ہندوستانی زبان میں کہا کہ ہم ﷲ میاں کے مزار کو نہیں چھوڑسکتے تھے۔ اس کے دماغ میں بدعت گھسی ہوئی تھی، کسی بدعتی خاندان کی مزار پرست تھی بلکہ وہ سمجھتی تھی کہ آج تک تو میں نے اولیاء ﷲ کے مزاروں کی زیارتیں کی تھیں، اب اتنی تکلیف اٹھا کر ﷲ کے مزار پر حاضری دی ہے تو یہ ظالم پولیس والے کہہ رہے ہیں کہ چلو عرفات کے میدان میں۔ تو جب وہاں کی حکومت نے اس کی گفتگو کا ترجمہ کرایا تھا تو اس کے معلم کو گرفتار کیا اور کہا کہ تم نے اس کو حج کے احکام کیوں نہیں سمجھائے لہٰذا اس کا سارا خرچہ سال بھر کا دو اور اگلے سال پھر حج کراؤ۔ 

ری یونین میں حفاظتِ نظر کی خاص تلقین: بہت سے لوگوں نے حضرت والا سے بیعت کی درخواست کی تھی۔ بیان کے بعد ان کو بیعت فرما کر یہ نصیحت فرمائی کہ آنکھوں کی حفاظت کرو کیونکہ ری یونین بہت خطرناک مقام ہے اور اس میں تمام کافر و کافرات اور فاحشات رات دن رانیں کھولے ہوئی اتنی کثرت سے چلتی ہیں کہ خدائے تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔ ان کی ٹانگیں دیکھنے سے سوائے دل پریشان ہونے کے  کچھ نہیں ملے گا اور ﷲ کا غضب نازل ہوگا لہٰذا ﷲ کے غضب سے بچو ورنہ سوائے پریشانی کے کچھ نہیں پاؤ گے۔ ﷲ نے جو ہم کو بیویاں دی ہیں وہی ہمارے لیے حلال ہیں، انہی پر صبر کرو ان شاء ﷲ قیامت کے دن جنت میں یہ سب حوروں سے زیادہ حسین کردی جائیں گی۔ اور جو مجھ سے تعلق رکھتے ہیں ان سے کہتا ہوں کہ بہشتی زیور کا ساتواں حصہ بار بار پڑھئے، حیات المسلمین، جزاء الاعمال، قصد السبیل اور آداب المعاشرت پڑھا کریں اور میری ایک کتاب ہے روح کی بیماریاں اور ان کا علاج وہ بمبئی میں چھپ چکی ہے کراچی میں بھی ہے کوئی آنے والا ہو تو اس سے منگوالیں اس کو بھی پڑھا کریں اور تین تسبیح لا الٰہ الا ﷲ کی پڑھو، میں علماء کو کم تعداد بتاتا ہوں لیکن جوان، مضبوط اور تاجر لوگ پانچ تسبیح لا الٰہ الا ﷲ کی پڑھیں اور پانچ تسبیح ﷲ ﷲ کی پڑھیں ۔ جب ﷲ کہیں تو اتنی محبت سے ﷲ کہیں کہ ﷲ کے سامنے کلیجہ رکھ دیں، فرشتوں کو بھی رشک آجائے کہ ایمان والے زمین پر کس محبت سے ﷲ کا نام لے رہے ہیں اور اگر رونا نہ آئے تو بھی بتکلف ذکر کرو، چاہے دل میں عشق ہو یا نہ ہو،عاشقوں کی صورت بناؤ،عاشقوں کا لہجہ اور عاشقوں کے درد کی نقل کرو، ﷲ ان شاء ﷲ عاشق بنادے گا، جب دیکھے گا میرے بندے کے دل میں اگرچہ عشق کم ہے مگر عاشقوں کی نقل کررہا ہے تو وہ ہماری نقل کو ان شاء ﷲ اصل بنادیں گے۔ اور اگر کبھی ﷲ موقع دے تو کراچی بھی کچھ وقت لگا لو خواہ بیس دن ہی سہی۔

تشریح میں فرمایا یہ ۱۹۹۳ء کی بات ہے جب حضرت والا ۳۰۰ یا ۵۰۰ بار تسبیحات بتاتے تھے آخر میں مزید کم کرکے ایک سو مرتبہ کردی تھی، بس فرماتے تھے کہ گناہ نہ کرو اور اللہ والے ہوجاؤ۔

اہل اﷲ سے محبت ذریعۂ نجات ہے : دیکھئے!آج یہ بات عجیب ہورہی ہے، کوئی مضمون مسلسل نہیں ہے، واقعات اور حکایاتِ اہل اﷲ پیش کررہا ہوں۔ یہ بھی اﷲ کا احسان ہے کہ آج کا دن اسی کا ہوگیا۔ اب حضرت جلال آبادی کی ایک بات اور سناتا ہوں کہ جب ریل چلتی ہے تو فرسٹ کلاس ڈبے بھی انجن کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں اور تیسرے درجے یعنی تھرڈ کلا س کے ڈبے بھی انجن سے جڑے ہوتے ہیں،جن کی سیٹوں کے اسکرو ڈھیلے ہوتے ہیں، چوں چاں کی آوازیں آتی ہیں، پورا ڈبہ ہلتا رہتا ہے ، تھرڈ کلا س ڈبے میں بالکل چین نہیں ملتا لیکن جب وہ ریل منزل پر پہنچے گی مثلاً کراچی سے لاہور تو کیا وہ تھرڈ کلاس والے ڈبے بھی فرسٹ کلاس والوں کے ساتھ منزل پر نہیںپہنچیں گے ؟ پہنچ جائیں گے نا! بس فرمایا کہ بزرگوں سے تعلق رکھو ان شاء اﷲ جہاں ان کا حشر ہوگا وہاں ہمارا بھی حشر ہوگا، بس ان سے لگے لپٹے رہو، ہم تھرڈ کلاس کے ڈبے ہیں، ہمارے اسکرو بھی ڈھیلے ہیں، سیٹیں بھی ڈھیلی ہیں، یعنی ہمارا عمل ٹھیک نہیں ہے لیکن اگر ہمارا ڈبہ انجن سے جڑا ہوا ہے تو ان شاء اﷲ ہم بھی منزل پر پہنچ جائیں گے۔
 جیسا کہ تفسیر روح المعانی میں ہے کہ ایک اعرابی نے عمل کبیر کی نفی کی کہ میرے پاس کوئی بڑا عمل نہیں ہے لیکن میرے قلب میں اﷲ اور اس کے رسول کی محبت ہے، اس پر سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا اَلْمَرْءُ مَعَ مَنْ اَحَبَّآدمی اسی کے ساتھ ہوگا جس سے اس کو محبت ہے۔ علامہ آلوسی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے یہ پتہ چلا کہ اعمال میں کمی محبت کی نفی نہیں کرتی ، یہی وجہ ہے کہ سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس اعرابی کے اعمال کی نفی کے باوجود اس کی محبت کو تسلیم فرما کر
اَلْمَرْءُ مَعَ مَنْ اَحَبَّ کی بشارت دی۔ نبوت کا مقام تو وہ مقام ہے کہ کسی مسئلہ پر اگر نبی خاموش ہی ہوجائے تو وہ مسئلہ ثابت ہوجاتا ہے یعنی اگر کسی بات کا نبی کے سامنے تذکرہ ہو اور نبی سن کر خاموش رہے تو اس کی خاموشی بھی اس کی اجازت سمجھی جاتی ہے کیوں کہ نبی کسی ناجائز بات پر خاموش نہیں رہ سکتا لہٰذا مسکوت عنہا جتنے مسائل ہیں فقہاء نے ان سب مسائل کو مباحات میں شامل کیا ہے چہ جائیکہ یہ حدیث خود ناطق ہے کہ محبت خود ایک مستقل نعمت ہے ،بتائیے سکوتِ نبوت سے اقرارِ نبوت کی دلیل زیادہ قوی ہے کہ نہیں؟ اس لیے اﷲ والوںسے محبت رکھو، یہ بہت بڑی نعمت ہے، اس کی قیمت میدانِ حشر میں معلوم ہوگی ۔ مشکوٰۃ شریف میں ہے کہ جو لوگ اﷲ کے لیے آپس میں محبت کررہے ہیںچاہے ایک شخص مشرق میں ہے اور دوسرا مغرب میں لیکن اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن دونوں کو اکٹھا کردیں گے۔

جَمَعَ اﷲُ تَعَالٰی بَیْنَھُمَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ اور براہ ِراست یا بواسطہ فرشتہ ارشاد فرمائیں گے ھٰذَا الَّذِیْ کُنْتَ تُحِبُّہُ فِیَّ دیکھ لے جس کے ساتھ تجھ کو کھڑا کیا ہے یہ وہی تو ہے جس سے تو اﷲ کے لیے محبت کرتا تھا، یہ تیرا رشتہ دار نہ تھا، نہ تیری زبان والا تھا، نہ تیرے قبیلہ والا تھا، نہ تیرا بزنس اس کے ساتھ تھا۔ ملا علی قاری فرماتے ہیں کہ اس جمع کرنے میں تین مصلحتیں پوشیدہ ہیں۔۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries