مجلس۲۵۔ مئی۲۰۱۴ء محبت کی کرامت!

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں(کلک کریں)

خلاصۂ مجلس:محبی و محبوبی مرشدی و مولائی حضرت اقدس حضرت میر صاحب دامت برکاتہم مجلس میں رونق افروز ہوئے حضرت والا کے حکم پر جناب ثروت صاحب نے اپنی عمدہ آواز میں اثر صاحب دامت برکاتہم کے اشعار سنائے پھر جناب ممتاز صاحب کو معارفِ ربانی سے ملفوظات پڑھنے کا فرمایا، درمیان درمیان میں ملفوظات کی تشریح بھی فرماتے رہے۔۔ آج کی مجلس تقریباً سوا گھنٹےتک جاری رہی۔۔

ملفومظاتِ معارف ربانی

 اس لیے ﷲ والوںسے محبت رکھو،  یہ بہت بڑی نعمت ہے، اس کی قیمت میدانِ حشر میں معلوم ہوگی ۔ مشکوٰۃ شریف میں ہے کہ جو لوگ ﷲ کے لیے آپس میں محبت کررہے ہیںچاہے ایک شخص مشرق میں ہے اور دوسرا مغرب میں لیکن ﷲ تعالیٰ قیامت کے دن دونوں کو اکٹھا کردیں گے جَمَعَ ﷲُ تَعَالٰی بَیْنَھُمَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ اور براہ ِراست یا بواسطہ فرشتہ ارشاد فرمائیں گے ھٰذَا الَّذِیْ کُنْتَ تُحِبُّہُ فِیَّ دیکھ لے جس کے ساتھ تجھ کو کھڑا کیا ہے یہ وہی تو ہے جس سے تو ﷲ کے لیے محبت کرتا تھا، یہ تیرا رشتہ دار نہ تھا، نہ تیری زبان والا تھا، نہ تیرے قبیلہ والا تھا، نہ تیرا بزنس اس کے ساتھ تھا۔ ملا علی قاری فرماتے ہیں کہ اس جمع کرنے میں تین مصلحتیں پوشیدہ ہیں:
 

متحابین فی ﷲ کو میدان حشر میں اکٹھا کرنے کے اسرار: (۱) لِشَفَاعَۃِ اَحَدِ ھِمَا لِلْاٰخَرَ اکٹھا اس لیے کریں گے تاکہ ایک دوسرے کی شفاعت کرسکیں کیونکہ جب دونوں ملیں گے تو کہیں گے کہ دنیا میں ہم تو ﷲ کے لیے ملتے تھے،پس ایک دوسرے کے لیے کہے گا کہ یا ﷲ! یہ میرا خاص دوست تھااس کو بخش دیجئے، اگر دور ہوں گے تو شفاعت کیسے کریں گے؟
(۲)
لِلْمُجَا وَرَۃِ فِی الْجَنَّۃِ جنت میں ﷲ تعالیٰ دونوں کو ایک دوسرے کا پڑوسی بنا دیں گے، اپنے عاشقوں کو جنت میں اکٹھا کردیں گے، یہاں تو ایک نہ ایک دن جدائی ہوجاتی ہے، ائیر پورٹ جانا پڑتا ہے، دوست ایک دوسرے سے جدائی پر رونے لگتے ہیں، وہاں نہ ائیرپورٹ ہے، نہ ہوائی جہاز ہے، نہ جدائی ہے، یہاں تو سونے کے بعد بھی جدائی ہوجاتی ہے، وہ ادھر سورہا ہے، ہم ادھر سو رہے ہیں، رات بھر بات کرنے سے محروم ہوگئے، لیکن جنت میں نیند ہی نہیں ہوگی، چوبیس گھنٹہ اپنے دوستوں کو دیکھو، چوبیس گھنٹہ ان سے گپ شپ لگاؤ، چوبیس گھنٹہ ان کی زیارتیں کرو، سبحان ﷲ کیا مزہ ہے! وہاں نہ گھنٹے نہ منٹ ہے ،نہ سورج ہے نہ چاند ہے، نہ دن ہے نہ رات ہے، وہاں روشنی آفتاب سے نہیں ﷲ کے انوار و تجلیات سے ہوگی جس کو بعض علماء نے لکھا ہے کہ سورج نکلنے سے ذرا پہلے جو ہلکا سا اجالا ہوتا ہے وہاں ایسا اجالا ہوگا۔
(۳) 
لِلْمُزَاوَرَۃِ فِیْہَا تاکہ ایک دوسرے کی زیارت کرکے خوش ہوجائیں، یہ دنیا میں بھی آپس میں مل کر خوش ہوتے تھے، یہاں بھی مل کر خوش ہوجائیں۔ اب بتاؤ ہم لوگ جب آپس میں ملاقات کرتے ہیں تو خوشی ہوتی ہے یا نہیں؟ بس اس خوشی کی رعایت سے وہ جزا ملے گی کہ یہ لوگ دنیا میں بھی آپس میں مل کر خوش ہوتے تھے لہٰذا ان کو یہاں بھی پڑوسی بنادیا، ایک دوسرے کی زیارت کو آسان فرمادیا اور وہاں سواری کون سی ملے گی ہنڈا، ٹویوٹا، مرسیڈیز؟ نہیں، اس سواری کا نام ہے رَف رَف ، شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ ﷲ علیہ جو میرے استاذ بھی ہیں، شیخ بھی ہیں فرماتے تھے کہ ﷲ نے جنت کی سواری کابڑا پیارا نام رکھا ہے رف رف جو فَرفَراڑے گی، رف رف کو الٹ دو تو فر فر ہوجائے گا، واہ! ﷲ والوں کی کیسی پیاری سواری ہے۔

رزق کے ذرّات کا اکرام: پیاری پر ایک بڑے عالم کی بات یاد آگئی۔ حضرت مولانا شاہ ابرارالحق صاحب نے فرمایا کہ دسترخوان پر رزق کے جو ذرّات ہیں ان کو ایسی جگہ مت پھینکو جہاں پیر پڑے، یہ پیاری چیز ہے، اس کو کیاری میں ڈال دو۔ قحط کے زمانے میں جب ﷲ کے رزق کا ذرہ بھی کھانے کو نہیں ملا تو لوگ ہوٹلوں کے سامنے کھانے کی خوشبو کو سونگھتے پھرتے تھے ، جان بچانے کے لیے سونگھنے سے بھی طاقت محسوس کرتے تھے۔ ایک تابعی نے صحابی سے پوچھا کہ جب چھوہارے ختم ہوگئے تو سنا ہے کہ آپ لوگ گٹھلی چوس کر جہاد کرتے تھے تو گٹھلی چوسنے سے کیا طاقت آتی تھی؟ صحابی نے جواب دیا کہ جب گٹھلی بھی ختم ہوگئی تب پتہ چلا کہ اس سے کیا طاقت آتی تھی۔
تو میرے شیخ نے فرمایا کہ دسترخوان کے ذرّات موتی اور جواہرات سے کم نہیں ہیں، کھانا جب نہ ملے تب پتا چلتا ہے کہ یہ سب جواہرات ہیں، ان کو غلط جگہ مت پھینکو، جس سے بے ادبی ہوتی ہو۔ بمبئی میں ایک سیٹھ اپنے بچے ہوئے کھانے کو گٹر لائن میں پھینکوا دیتا تھا۔ لوگوں نے بتایا کہ رزق کے ساتھ بے اکرامی کی وجہ سے وہ اب فٹ پاتھ پر بنیان بیچ رہا ہے۔ آپ صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ام المومنین حضرت عائشہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہا سے ارشاد فرمایا:

اَکْرِمُوا الْخُبْزَ (المستدرک للحاکم،کتابُ الاطعمۃ)

روٹی کا اکرام کرو ورنہ برکت چلے جانے کے بعد کئی پشتوں تک واپس نہیں آتی ۔ جس کا دل چاہے کہ اس کے رزق میں برکت ہو تو اسے چاہیے کہ رز ق کا اکرام کرے ۔ دسترخوان اسی لیے ہے تاکہ کوئی ذرہ اس کا باہر نہ جائے۔

گرے ہوئے لقمہ کو اٹھا کر کھانے کا راز: ڈاکخانہ کے ایک ہندو ملازم نے میرے شیخ شاہ ابرارالحق صاحب سے پوچھا کہ آپ مسلمانوں کا عجیب طریقہ ہے کہ کوئی چیز گرجائے تو زمین سے اُٹھا کر صاف کرکے کھالو تو حضرت نے جواب میں فرمایا کہ اگر ڈاک خانے کا سب سے بڑا افسر تمہیں کیلا کھانے کے لیے دے اور وہ کیلا تمہارے ہاتھ سے گرجائے تو اس بڑے افسر کے سامنے تم اس کو اٹھاؤگے یا نہیں؟ بس وہ سمجھ گیا ۔ تو ﷲ دیکھ رہا ہے کہ بندہ ہمارے رزق کو کیسے استعمال کررہا ہے، اس لیے کھانا جلدی جلدی کھاؤ، اس طرح کھاؤ جس طرح کئی دن کے بھوکے ہو، نوابوں کی طرح استغناء کے ساتھ مت کھاؤ، اسی لیے ٹیک لگا کر کھانا بھی جائز نہیں ہے کیونکہ اس میں استغنائی شان ہے، اس لیے حدیث کی روایت پڑھو کہ ایسا تیز کھاؤ کہ معلوم ہو کہ کئی وقت سے بھوکا ہے لیکن اتنا تیز بھی مت کھا ؤ کہ بغیر چبائے نگل جاؤ اور پیٹ میں درد شروع ہوجائے۔

گرم کھانا کھانے کا مسئلہ: ایک مسئلہ یاد آگیا، میں ۱۹۹۲ء میں بمبئی گیا تھا تو ایک عالم فاضلِ دیوبند کے ساتھ ناشتہ پر دعوت ہوئی، دعوت کرنے والے مولانا مسیح ﷲ خان صاحب رحمۃ ﷲ علیہ کے داماد تھے جو عالم بھی ہیں۔ انہوں نے گرم گرم پوریاں اور گرم گرم کباب دسترخوان پر رکھے توہمارے مزے آگئے۔ آپ سوچئے گرم پوری بھی ہو اور گرم کباب بھی ہو تو مزہ آئے گا یا نہیں؟ تو ایک مولانا صاحب نے کہا کہ بھئی گرم گرم کھانا سنت کے خلاف ہے۔ مجھے یاد آیا کہ حضرت مولانا شاہ ابرارالحق صاحب دامت برکاتہم بھی گرم گرم چپاتی منگواتے ہیں، جب دسترخوان بچھ جاتا ہے تو گرم گرم چپاتی پک کے آتی ہے، میں نے سوچا کہ میرے شیخ اور کتنے بڑے بزرگ ہیں جو گرم گرم پلاؤ بریانی کھاتے ہیں۔ کباب کوئی فریج میں رکھ کے کھاتا ہے؟ یا گرم گرم کھاتے ہو؟ اور پلاؤ بریانی فریج میں رکھ کے کھاتے ہو یا گرم کرکے؟ تو میں نے کہا کہ بھئی! آپ نے جو یہ روایت بیان فرمائی یہ کس کتاب میں ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ مشکوۃ شریف میں۔ کسی نے مشکوٰۃ شریف لا کرپیش کردی، واقعی اس میں لکھا تھا کہ گرم کھانا مت کھاؤ، اس میں برکت نہیں ہے۔ میں نے کہا بھئی! حدیث کو خود سے سمجھنا ٹھیک نہیں ہے، ملاعلی قاری محدّثِ عظیم نے جو شرح کی ہے اُسے دیکھنا چاہیے، کیونکہ اس میں صاحبِ مشکوٰۃ کی ساری روایتیں ہیں، محدثین و شارحین جو ہوتے ہیں وہ سب حدیثوں کو جمع کرکے پھر اس پر اپنا فیصلہ لکھتے ہیں۔
خیر میں نے مشکوٰۃ شریف کی شرح مرقاۃ منگوائی کہ دیکھیں اس میں اس حدیث کی کیاشرح لکھی ہے کیونکہ اعتراض کرنے والا عالم اور فاضلِ دیوبند تھااور اس نے ہمارے گرم گرم کباب اور گرم گرم پوریوں پر حملہ کیا تھا اور پھر میرے شیخ تک اس بات کا سلسلہ پہنچتا تھا تو میں نے جب شرح کو دیکھا تو مسئلہ حل ہوگیا کہ گرم کھانا بالکل جائز ہے ۔ ملاعلی قاری رحمۃ ﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ صحابہ گرم کھانے کو ڈھک کر رکھ دیتے تھے:

حَتّٰی یَذْھَبَ مِنْہُ غِلْیَانُ الْبُخَارَۃِ وَکَثْرَۃُ الْحَرَارَۃِ

تاکہ کھانے سے بھاپ کا جوش کم ہوجائے اور کثرتِ حرارت میں اعتدال پیدا ہوجائے تاکہ منہ نہ جل جائے، یہ نہیں کہ بالکل ٹھنڈا کرکے کھاؤ، اگر مقصود ٹھنڈا کرنا ہوتا تو ڈھکن اُتار کر رکھتے، اگر مقصود کھانے کی گرمی کو بالکل ختم کرنا ہوتا تو ڈھک کر کیوں رکھتے؟ صحابہ کھانے کو ڈھک کر انتظار کرتے تھے یہاں تک کہ کھانے سے پلاؤ بریانی کباب کچھ بھی ہو اس سے حرارت کی تیزی کم ہوجائے، اگر بہت جلتا ہوا کھاؤگے تو منہ میں چھالے پڑجائیں گے اور پیٹ میں زخم ہوجائے گا تو جب میں نے ملا علی قاری کی یہ روایت اُن فاضلِ دیوبند کے سامنے پیش کی تو وہ مجھ سے بہت خوش ہوئے، کیونکہ مخلص تھے معترض نہیں تھے اور پھر انہوں نے میرا کوئی وعظ نہیں چھوڑا، ہر وعظ میں شریک ہوئے۔

بمبئی میں قاری طیب صاحب رحمۃ ﷲ علیہ کے خلیفہ صوفی عبد الرحمن صاحب کے لڑکے مولانا ابرارالحق صاحب سے بیعت ہیں، وہ یہ واقعہ سن کر پھڑک گئے کہ اگر حضرت یہ نہ بتاتے تو میں اپنے شیخ کے بارے میں سوچتا کہ یہ گرم کیوں کھاتے ہیں، لیکن آج تو آپ نے ہمارے بزرگوں سے اعتراضات رفع کردئیے۔ یہ ہے علم کی برکت ، کتنے اکابر ہیں جو گرم کھانا کھاتے ہیں بلکہ سارے ہی اکابر گرم کھانا کھاتے ہیں، ٹھنڈا کرکے کوئی نہیں کھاتا۔ ہمارے شیخ شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ ﷲ علیہ نے یہ واقعہ سنایا تھا کہ ایک غیر عارف صوفی کے سامنے جب کھانا آیا جو نہایت شاندار اور بہت مزے دا ر تھا تو اس ظالم نے اس میں ایک لوٹا پانی ڈال دیا اور کہا کہ اے نفس تجھ کو ستا کے رکھوں گا، تجھ کو مزے دار کھانا نہیں کھلاؤں گا، وہیں ایک عارف اور ﷲ والا بیٹھا ہوا تھا اس نے کہا یہ ظالم بے وقوف ہے، اب اسے کیا مزہ آئے گا، زبردستی ٹھونسے گا، دل سے الحمدﷲ نہیں نکلے گا، یہ زبانی شکر کرے گا مگر اس کا قلب اس کی زبان کے ساتھ شامل نہیں ہوگا، اگر یہ عارف ہوتا تو مزے دار کھاتا اور دل سے شکر کرتا۔

یَامُقِیْتُ کے معنیٰ: صوفی عبدالرحمن صاحب ماشاء ﷲ بہت ہی پڑھے لکھے آدمی ہیں انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ مولانا  یَا مُقِیْتُ کے کیا معنیٰ ہیں؟ ﷲ کے ننانوے ناموں میں سے ایک نام یَا مُقِیْتُ ہے میں نے کہا کہ کتاب دیکھ کر بتاؤں گا، اس وقت مجھے مستحضر نہیں ہے۔ میں رضوان صاحب عطر والے کے یہاں ٹھہرا ہوا تھا، ان کے پاس مشکوٰۃ کی شرح مرقاۃ موجود تھی جس کی جلد نمبر پانچ میں ملا علی قاری نے ﷲ کے ننانوے ناموں کی شرح لکھی ہے، میں نے رات کو کتاب دیکھی تو یَا مُقِیْتُ کے دو معنی لکھے تھے یَا خَالِقَ الْاَقْوَاتِ الْبَدَ نِیَّۃِ اے جسم کی غذاؤں کے پیدا کرنے والے اور یَا خَالِقَ الْاَرْزَاقِ الْمَعْنَوِیَّۃِ اور اے روح کو رزق پہنچانے والے اور علوم و معرفت پیدا کرنے والے یعنی ﷲ جسم کی غذا کو بھی پیدا کرنے والا ہے اورروح کی غذا کو بھی پیدا کرنے والا ہے یعنی ﷲ کی وہ شان ہے کہ وہ تمام جانداروں کو رزق جسمانی بھی عطا کرتاہے اور انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کرام کو رزقِ روحانی بھی عطا کرتا ہے اور قرب کی دولت سے مالا مال کرتا ہے تو خَالِقُ الْاَقْوَاتِ الْبَدَنِیَّۃِ میں تو کافر بھی شریک ہیں کیونکہ کافر کو بھی خدا رزق دیتا ہے اور خَالِقُ الْاَرْزَاقِ الْمَعْنَوِیَّۃِ یہ انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کرام اور مسلمانوں کے لیے خاص ہے۔  تو جب میں نے ان کو یَا مُقِیْتُ کی یہ شرح سنائی تو ان کو مزہ آگیا، کہنے لگے کہ آج کی تقریر بہت عجیب و غریب ہوئی ہے۔

فقہاء کا احسان: محدثین کرام تمام احادیث کو جمع کرتے ہیں اور فقہاء کرام تمام حدیثوں کو جمع کر کے ان سے مسئلہ اخذ کرتے ہیں، جیسے مشکوٰۃ شریف کی روایت میں السلام علیکم و رحمۃ ﷲ و برکاتہٗ سے آگے وَمَغْفِرَتُہٗ کا بھی اضافہ ہے۔ لیکن امام ابوحنیفہ رحمۃ ﷲ علیہ فرماتے ہیں جسے علامہ شامی نے ردالمحتار میں نقل کیا ہے کہ لاَ یَزِیْدُ الرَّادُّ عَلٰی وَبَرَکَاتُہٗ یعنی وَبَرکَاتُہٗ سے آگے زیادتی نہ کرو، یہ مکروہ ہے ۔ اب اگر کوئی کہے کہ کیا فقہا کو حدیث میں دخل اندازی کی اجازت ہے ؟ نہیں، فقہاء حدیث میں دخل اندازی نہیں کرتے، دوسری حدیث سے اس کو سمجھتے ہیں۔ چنانچہ ائمہ فقہ نے دوسری حدیث پیش کی ہے،ابوداؤد شریف کی  روایت ہے کہ ایک صحابی نے کہا السلام علیکم و رحمۃ ﷲ و برکاتہٗ یا رسول ﷲ تو آپ صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا و علیکم السلام و رحمۃ ﷲ و برکاتہٗ صحابی نے عرض کیا کہ آپ کچھ اضافہ فرمادیجئے تو ارشاد فرمایا کہ اس نے میرے لیے کچھ بھی نہیں چھوڑا کہ میں اضافہ کرتا۔ اس لیے ہمارے فقہاء حنفیہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث پہلی حدیث کی ناسخ ہے یعنی وبرکاتہ سے آگے اضافہ کرنا جائز نہیں، لہٰذا شامی کی عبارت ہے لاَ یَزِیْدُ الرَّادُّ عَلٰی وَبَرَکَاتُہٗ جب برکاتہ کہہ دو تو آگے زیادہ مت کرو اور بعض لوگ تو اور زیادہ کرتے ہیں یعنی وَمَغْفِرَتُہٗ وَ جَنَّۃُ ٗ مَقَامُہٗ وَ  دَوْزَخٌ حَرَامُہٗ پتا نہیں کیا کیا ملاتے جاتے ہیں گویا دین کو بس ایسا سمجھتے ہیں کہ جو چاہو ملاتے چلے جاؤ۔ بھائی دین میں اضافہ مت کرو۔

محبت کی برکت: اسی دوران حضرت والا نے ایک صاحب کے بارے میں دریافت فرمایا کہ آج وہ نہیں آئے؟ اُن کو آنا چاہیے تھا، یہ محبت ہے؟ سبحان ﷲ، سبحان ﷲ، میاں! محبت وہ چیز ہے کہ سخت اندھیرا تھا اور تیز بارش میں بھیگتے ہوئے صحابی حضور صلی ﷲ علیہ وسلم کو تلاش کررہے تھے۔ صحابی خود کہتے ہیں فَاَدْرَکْنَاہُ ہم نے حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو پالیا ۔ ان کے اس مجاہدہ پر خوش ہوکر آپ صلی ﷲ علیہ وسلم نے انہیں ایک وظیفہ بخشا کہ جب تم اتنی تکلیف اٹھا کر آئے ہو تو اب ہم تم کو ایک وظیفہ دیتے ہیں، تینوں قل روزانہ صبح و شام پڑھ لیا کرو، کبھی کسی مخلوق کا شر تم کو نقصان نہ پہنچا سکے گا، کسی مخلوق کا شر تم پر غالب نہ آئے گا، نہ کالا عمل، نہ جادو، نہ جنات، یہ وظیفہ حضور صلی ﷲ علیہ وسلم کا عطا فرمایا ہوا ہے جو صحابی کے مجاہدہ کی برکت سے ملا۔

تفسیر ِسکینہ: آج دوپہر کو مولانا رشید بزرگ کے ساتھ چند حضرات حاضرِ خدمت ہوئے، گذشتہ رات ایک صاحب کے گھر لڑکی کی ولادت ہوئی جس کا نام حضرت والا نے پہلے ہی تجویز فرمادیا تھا کہ اگر لڑکی ہو تو اس کا نام سکینہ رکھنا۔ چنانچہ انہوں نے عرض کیا کہ اس کا نام سکینہ رکھ دیا ہے۔ حضرت والا نے فرمایا کہ سکینہ کی تفسیر سن لو۔ علامہ آلوسی نے ھُوَ نُوْرٌ الَّذِیْ اَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ …الخ کی تفسیر میں فرمایا کہ سکینہ کیا ہے؟ ھُوَ یَّسْتَقِرُّ فِی الْقَلْبِ سکینہ ایک نور ہے جو دل میں ٹھہر جاتا ہے وَ یَتَخَلَّصُ عَنِ الطَّیْشِ جس کے بعد وہ شخص طیش سے نجات پاجاتا ہے اور طیش کہتے ہیں کہ جب کتا پاگل ہوجاتا ہے تو ایک سمت کو نہیں چلتا، ادھر اُدھر دائیں بائیں چلتا ہے لاَ یَقْصُدُ فِی الْمَشْیِ سِمْتًا وَّاحِدًاجو علامت بے سکونی کی ہے، حاملِ سکینہ بے سکونی سے نجات پاجاتا ہے اور دوسری علامت سکینہ کی یہ ہے وَیَثْبُتُ بِہِ التَّوَجُّہُ اِلَی الْحَقِّ جس کے دل کو سکینہ عطا ہوتا ہے وہ ہر وقت حق تعالیٰ کی طرف متوجہ رہتا ہے، اسی کو نسبت کہتے ہیں۔ مولانا محمد احمد صاحب رحمۃ ﷲ علیہ فرماتے ہیں   ؎

شکر ہے دردِ دل  مستقل  ہوگیا
اب تو شاید مرا دل بھی دل ہوگیا

محبت کی کرامت: ایک صاحب کی اصلاح کے لیے فرمایا کہ حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ و سلم ارشاد فرماتے ہیں لاَ خَیْرَ فِیْمَنْ لَّا یَأْلَفُ وَلاَ یُؤْلَفُ اُس شخص میں کوئی خیر نہیں ہے جو لوگوں سے محبت نہیں کرتا اور اس کی پاداش میں وہ محبت نہیں کیا جاتا، یعنی لوگوں سے خوش اخلاقی اور محبت نہ کرنے کی سزا اس کو یہ ملتی ہے کہ لوگ بھی اس سے محبت نہیں کرتے۔ کراچی میں ایک مسجد کے امام مظاہر العلوم سہارنپور کے فارغ اور دورہ میں اوّل آنے والے ایک عالم صاحب نے مجھ سے کہا کہ آج کل کے لوگ محبت سے عاری ہیں حتیٰ کہ مقتدی تک محبت نہیں کرتے۔ میں نے کہا کہ آپ ان سے محبت کیجئے، وہ خود آپ سے محبت کرنے لگیں گے۔ کہنے لگے کہ جب وہ محبت نہیں کرتے تو میں کیوں کروں؟ میں نے کہا کہ مولانا حدیث کے الفاظ کی تقدیم و تاخیر بتارہی ہے کہ جو یَأْلَفْ ہوگا وہ  یُؤْلَفْ ہوگا۔ پہلے آپ لوگوں سے محبت کریں پھر آپ محبت کیے جائیں گے۔

محبت بہت بڑی نعمت ہے، میں کیا بتاؤں کہ اس کا کتنا بڑا فائدہ ہوتا ہے، دین پھیلانے میں اس سے ایسی آسانی ہوتی ہے کہ بہت جلد لوگ دین سیکھنے لگتے ہیں۔ دین کے پھیلانے میں محبت سے ایسی مدد ملتی ہے کہ کہہ نہیں سکتا۔ بعض دفعہ مجھ سے بعض لوگ ملنے نہیں آئے تو میں خود ان کے پاس پہنچ گیا، محبت کی چوٹ ایسی ہے کہ آدمی گرویدہ ہوجاتا ہے۔ دشمن بھی ہو تو اس سے بھی سلام دعا کرلو، اس کی دشمنی کا جوش کم ہوجائے گا اور دوستوں کی دوستی میں اضافہ ہوجائے گا۔ دوسری حدیث میں ہے اَلتَّوَدُّ دُ اِلَی النَّاسِ نِصْفُ الْعَقَلِ لوگوں سے محبت کرنا آدھی عقل ہے اور تَوَدُّدُ بابِ تفعل سے ہے جس میں تکلف کی خاصیت ہوتی ہے یعنی اگر کسی سے مناسبت نہ ہو، دل نہ چاہے تب بھی بہ تکلف تم اس سے محبت و خوش اخلاقی سے پیش آؤ، یہ آدھی عقل ہے۔
ایک شخص حضور صلی ﷲ علیہ و سلم کی خدمت میں آرہا تھا، اس کو دیکھ کر حضور صلی ﷲ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہا سے فرمایا
بِئْسَ اَخُو الْعَشِیْرَۃِ یہ اپنے قبیلہ کا سب سے بُرا آدمی ہے لیکن جب وہ آگیا تو آپ اس سے بہت خوش اخلاقی سے پیش آئے اور اس کی خوب خاطر مدارت فرمائی، جب وہ چلا گیا تو حضرت عائشہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہا نے عرض کیا کہ یا رسول ﷲ! آپ تو فرما رہے تھے کہ یہ بہت بُرا آدمی ہے لیکن آپ نے تو اس کی خوب خاطر مدارات فرمائی، آپ صلی ﷲ تعالیٰ علیہ و سلم نے فرمایا کہ کیا میں بداخلاق ہوجاؤں۔

اَغْنٰی نَفْسَہٗ کی عجیب شرح: ہاں اگر کوئی اپنے مال کی وجہ سے علماء کو حقیر سمجھتا ہے یا باوجود آپ کی محبت کے دشمنی کرتا ہے اور دین نہیں سیکھتا تو ایسوں سے مستغنی ہوجانا چاہئے، حدیث پاک ہے:

نِعْمَ الرَّجُلُ الْفَقِیْہُ فِی الدِّیْنِ اِنِ احْتِیْجَ اِلَیْہِ نَفَعَ وَ اِنِ اسْتُغْنِیَ عَنْہُ اَغْنٰی نَفْسَہٗ (مشکوٰۃ المصابیح،کتاب العلم،ص:۳۶)

دین کا بہترین سمجھدار وہ ہے کہ اگر لوگ اس سے احتیاج ظاہر کریں تو ان کو نفع پہنچائے لیکن اگر اُس سے استغناء ظاہر کریں تو یہ بھی اُن سے مستغنی ہوجائے۔ عام شارحینِ حدیث نے اس کی یہی شرح کی ہے لیکن ملا علی قاری رحمۃ ﷲ علیہ نے اَغْنٰی نَفْسَہٗ کی عجیب شرح فرمائی کہ لوگ اگر اُس سے استغناء کریں اور دین نہ سیکھیں تو یہ اپنے نفس کو ﷲ کے ذکر و عبادت و نوافل کے انوار سے غنی کرلے اور خوب ﷲ کی یاد میں لگ جائے۔ یہ شرح غالباً آپ نے پہلی بار سنی ہوگی۔
لیکن یہ تو معاندین اور ناقدروں کے لیے ہے، عام حالات میں لوگوں کے ساتھ محبت سے پیش آئیے، اسی میں خیر ہے۔ اس کا نفع میں بتا نہیں سکتا کہ دین پھیلانے میں آپ کو کس قدر مدد ملے گی۔ آج یوسف صاحب (جو ایک نو مسلم ہیں) کا فون آیا جس کے لیے ہم مولانا رشید بزرگ کے ساتھ اس کے مالک کے پاس گئے تھے کہ یوسف کو چھٹی دے دے اور وہاں ناشتہ پر کچھ دین کی بات سنانے کی توفیق ﷲ نے مجھے عطا فرمائی۔ یوسف نے آج بتایا کہ وہ کہہ رہے تھے، ان کی بات مجبوراً نقل کررہا ہوں مجھے تو اپنے منہ سے کہتے ہوئے شرم آتی ہے لیکن اگر نہ کہوں تو آپ لوگوں کو کیسے معلوم ہوگا اور آپ لوگوں کو بتانا دینی ضرورت ہے کیونکہ اس سے بعض کا حسنِ ظن بڑھے گا جس سے وہ زیادہ نفع اٹھاسکیں گے تو یوسف نے بتایا کہ وہ یہ کہہ رہے تھے کہ ان کی بات کا میرے اوپر اتنا اثر ہوا کہ میں عنقریب رونے والا تھا اور یہ بھی کہا کہ یہ مولانا بڑے عالم معلوم ہوتے ہیں۔

دوسروں کی نگاہ میں حقیر ہونا مطلوب نہیں: ﷲ تعالیٰ اگر اپنے بندوں کے دل میں حسنِ ظن ڈال دیں تو یہ بھی ﷲ کا انعام ہے۔ اپنی نگاہ میں آدمی اپنے کو چھوٹا اور حقیر سمجھے لیکن بندوں کی نگاہ میں حقیر ہونا مطلوب نہیں کیونکہ اگر بندوں کی نگاہ میں حقیر ہوگیا تو وہ دین کیسے سیکھیں گے چنانچہ حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ و سلم دعا فرماتے ہیں:

 اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ فِیْ عَیْنِیْ صَغِیْرًا وَّ فِیْ اَعْیُنِ النَّاسِ کَبِیْرًا (کنزُ العمال)

اے ﷲ! مجھے میری نگاہ میں چھوٹا کردیجئے لیکن لوگوں کی نگاہ میں بڑا دِکھا دیجئے، جب ان کی نگاہ میں وقعت ہوگی تب ہی تو وہ دین سیکھیں گے۔ اگر لوگوں کی نگاہ میں حقیر ہونا مطلوب ہوتا تو حضور صلی ﷲ علیہ وسلم یہ دعا نہ سکھاتے البتہ فِیْ عَیْنِیْ صَغِیْرًا  کو مقدم فرمایا کیونکہ اگر یہ اپنی نگاہ میں حقیر نہ ہوا اور لوگوں میں جاہ و عزت مل گئی تو کبر میں مبتلا ہوکر ہلاک ہوجائے گا۔
حضرت مولانا شاہ ابرارالحق صاحب نے ایک صاحب سے فرمایا کہ ہاتھ میں تسبیح رکھا کرو اس سے بہت سے گناہوں سے بچ جاؤگے خصوصاً بدنگاہی سے۔ انہوں نے عرض کیا کہ حضرت تسبیح رکھوں گا تو لوگ مجھے نیک سمجھنے لگیں گے تو حضرت نے فرمایا تو کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ لوگ آپ کو بدمعاش سمجھیں۔ آپ اپنے آپ کو نیک نہ سمجھیں، لوگ اگر سمجھتے ہیں تو یہ ﷲ کا انعام ہے۔

دعوتِ عقیقہ: مولانا عمر فاروق صاحب جو حضرت والا کے خاص احباب میں سے ہیں اور چار سال حضرت والا کی خدمت میں رہے ہیں آج ان کے بیٹے جلال الدین کا عقیقہ تھا۔ پرسوں رات حضرت والا نے حاضرینِ مجلس کو دعوت دے دی تھی کہ جو لوگ اس وقت موجود ہیں سب کی دعوت ہے۔ احقر کے لیے فرمایا کہ یہ بہت اچھا پلاؤ پکاتا ہے۔ چنانچہ آج بعد ظہر سب حضرات جمع ہوگئے جن میں اکثر علماء تھے لیکن احقر کی غلطی سے دیگ کے آدھے چاول کچے رہ گئے۔ احقر کو سخت پریشانی ہوئی کہ حضرت اقدس نے تو لوگوں سے بہت زیادہ تعریف فرمائی تھی اب حضرت کو بھی افسوس ہوگا اور شرمندگی بھی پس احقر نے گیارہ بار یَاجَبَّارُ پڑھ کر دعاکی کہ اے ﷲ! آپ کا نام جبار ہے جس کے معنی ہیں بگڑی کا بنانے والا، میری شامتِ عمل سے کام بگڑگیا ہے لیکن آپ حضرت والا دامت برکاتہم کی برکت سے اس بگڑے ہوئے کام کو بنادیجئے، احقر نے پانی کا چھینٹا دے کر چاولوں کو دم پر لگادیا اور ظہر کی نماز پڑھنے مسجد چلا گیا واپسی پر دیکھا کہ حضرت والا کی برکت سے الحمد ﷲ نہایت عمدہ چاول تیار ہوگئے تھے اور نہایت لذیذ ہوئے۔ مولانا رشید بزرگ اور دوسرے حضرات نے فرمایا کہ دیوبند یا سہارنپور میں ایسے چاول کھائے تھے یا آج کھائے ہیں۔

نبی کا باغ: مولانا موصوف کے والد صاحب اور ان کے چچا بھی تشریف لائے تھے۔ ان کے اعزاء میں سے ایک بڑے تاجر جو ابھی ڈاڑھی نہیں رکھتے تھے لیکن آج ان کی ڈاڑھی تھوڑی بڑھی ہوئی تھی ان سے حضرت والا نے فرمایا کہ معلوم ہوتا ہے کہ الحمدﷲ آپ نے ڈاڑھی رکھ لی ہے، یہ گال آپ کے نہیں ہیں اور یہ باغ نبی کا باغ ہے، خبردار! اب اس پر اُسترا نہ لگانا۔

اس بار ری یونین میں حضرت اقدس دامت برکاتہم پر وقتاً فوقتاً زبردست عارفانہ الہامی اشعار وارد ہوئے جو فیکس کے ذریعہ کراچی بھیجے گئے تاکہ حضرت والا کے مجموعۂ کلام میں شامل کردئیے جائیں جس کی کتابت ہوچکی ہے اور ان شاء ﷲ عنقریب شائع ہونے والا ہے۔ آج بعد نمازِ فجر بھی چند بہت درد بھرے عارفانہ اشعار وارد ہوئے، احقر نے عرض کیا کہ حاجی احمد صاحب کو جو کل اشعار دئیے گئے تھے غالباً ابھی فیکس نہیں کیے گئے ہوں گے ان کے شہر سینٹ لوئیس میں جاکر اگر ابھی دے دئیے جائیں تو یہ بھی ساتھ ہی کراچی پہنچ جائیں گے۔ حضرت والا نے اس کو منظور فرمایا اور حافظ زید صاحب کی موٹر میں حضرت والا کے ساتھ احقر اور مولانا عمر فاروق صاحب سینٹ لوئیس کے لیے روانہ ہوگئے۔

بدنگاہی کی حرمت پر ایک نیا علمِ عظیم: سینٹ لوئیس پہنچ کر گاڑی ہی میں حضرت والا نے فرمایا کہ قُلْ لِلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ میں حفاظت نظر کا حکم صرف مسلمان عورتوں ہی سے نہیں کافر عورتوں سے بھی ہے، چاہے مسلمان عورت ہو یا کافر عورت دونوں سے نظر بچاؤ اور اس کی ایک حکمت ابھی سمجھ میں آئی کہ کافر عورت پر بدنگاہی کرنے سے اگر اس سے عشق پیدا ہوا اور زِنا کی نوبت آگئی تو مسلمان کے خون اور نطفہ سے ﷲ کا ایک دشمن پیدا ہوگا۔ کتنی بڑی بات ہے دیکھو آج سمجھ میں آئی، کیا یہ ﷲ کا انعام نہیں ہے کہ کیسے کیسے علم عطا فرمارہے ہیں۔ ﷲ تعالیٰ نہیں چاہتے کہ میرے مومن بندہ سے میرا دشمن پیدا ہو اس لیے کافر عورتوں سے بھی نظر بچاؤ ورنہ اگر اس سے پھنس گئے اور حمل قرار پاگیا تو گویا مومن نے اپنے خون سے ﷲ کا ایک دشمن پیدا کیا اور قیامت کے دن مقدمہ چلے گا کہ تم نے میرے دشمنوں کی تعداد کیوں بڑھائی؟ لہٰذا یہ جرمِ عظیم ہے اور مومنہ عورت سے زِنا کیوں حرام ہے کہ اس نے اپنے مسلمان بھائی کو حرامی بنایا۔ وہاں دشمن پیدا کرنے کا جرم عائد ہوا یہاں حرامی بنانے کا کیس چلے گا۔

اسلام میں زِنا کیوں حرام ہے؟: دوپہر کو کھانے کے بعد حضرت والا قیلولہ کے لیے آرام فرما ہوئے، اس وقت فرمایا کہ اگر کوئی عیسائی پوچھے کہ اسلام میں زِنا کیوں حرام ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ﷲ نے اپنے بندوں کو حرامی ہونے سے بچایا ہے کیونکہ اگر زِنا عام ہوجائے گا تو کوئی انسان حلالی نہ رہے گا۔ چنانچہ جن ملکوں میں زِنا عام ہوگیا اور عورت دولتِ مشترکہ ہوگئی وہاں کوئی شخص یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ میری رگوں میں کس کا خون ہے اور میں کس کا نطفہ ہوں کیونکہ اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے کہ میری ماں کے پاس سینکڑوں آدمی آتے ہیں نہ جانے کتنے لمیٹڈ نطفوں سے میری تخلیق ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان لوگوں کو اپنے ماں باپ سے محبت نہیںہے۔ برطانیہ میں جب ماں باپ بوڑھے ہوجاتے ہیں تو پولٹری فارم کی طرح ان کو ایک مکان میں ڈال دیتے ہیں اور سال میں ایک بار جاکر ایک آدھ کیک دے آتے ہیں۔ کافر کے لیے تو یہی جواب کافی ہے۔
اور اگر مسلمان پوچھے کہ کیوں زِنا کیوں حرام ہے تو اس کے دو جواب ہیں(۱) اگر تم نے کافرہ عورت سے زِنا کیا اور اس کے حمل ٹھہر گیا تو تم نے ایک کافر کا اضافہ کیا۔ خدا کے دشمنوں کی تعداد بڑھائی(۲) اور اگر کسی مسلمان عورت سے زِنا کیا تو تم نے ایک مسلمان بھائی کو حرامی بنایا۔

ہم جنس پرستی کی حرمت کی عقلی دلیل: اور جو لوگ لڑکوں کے ساتھ بدفعلی کرتے ہیں اس کا عقلی جواب یہ ہے کہ مادّۂ منی میں انسان کے پیدا ہونے کے جراثیم ہوتے ہیں تو جب ان انسان بننے والے جراثیم کو پاخانہ کے مقام میں ڈال دیتا ہے تو وہ جراثیم بزبانِ حال فریاد کرتے ہیں کہ ہم لوگ انسان بننے والے تھے اس نالائق نے ہم کو پاخانے میں ڈال دیا۔ ہم تو انسان بنتے لیکن اس ظالم نے ہم کو کہاں ڈال دیا۔ اور اس نے آبروئے انسانیت کو بھی رسوا کیا اور ایک انسان کی عزت کو ہمیشہ کے لیے ذلیل کردیا، اگر اس فعل پر ﷲ کو غصہ نہ آتا تو اتنا بڑا عذاب نازل نہ ہوتا جو کسی قوم پر نازل نہیں ہوا کہ چھ لاکھ کی بستی کو آسمان پر لے جاکر پلٹ دیا اور اوپر سے پتھر برسائے، یہ عذاب صرف قومِ لوط پر آیا:

فَلَمَّا جَآءَ اَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِیَہَا سَافِلَہَا وَ اَمْطَرْنَا عَلَیْھَا حِجْارَۃً مِّنْ سِجِّیْلٍ مَّنْضُوْدٍ (سورۃ ھود، اٰیۃ:۸۲)

اگر یہ معمولی درجہ کا گناہ ہوتا تو ﷲ اپنے بندوں پر پتھر نہ برساتا، ﷲ تو ارحم الراحمین ہیں اس کے باوجود پتھر برسانا اس سے معلوم ہوا کہ ﷲ کے نزدیک یہ فعل انتہائی مبغوض اور خبیث ہے۔

کافرہ عورت سے زِنا کے حرام ہونے کی ایک اور عجیب وجہ: اب اگر کوئی یہ کہے کہ یہ کافر تو خدا کے دشمن ہیں لہٰذا ان کی عورتوں سے خوب زِنا کرکے ان کو اور ذلیل کرو۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان کے ساتھ زِنا کرنے سے ﷲ خوش نہیں ہوں گے بلکہ اور ناراض ہوں گے جیسے آپ کا کوئی دوست ہو اور اس کی بیٹی نالائق ہوجائے اور حرام کاری میں مبتلا ہوجائے تو باپ تو اس سے ناراض ہو گا لیکن اگر آپ نے یہ سمجھ کر اُس کے ساتھ زِنا کیا کہ یہ تو نالائق ہے، باپ بھی اس سے ناراض ہے تو کیا باپ آپ کو اپنا دوست بنائے گا یا دوستی کے رجسٹر سے ہمیشہ کے لیے خارج کردے گا اور کہے گا کہ میری بیٹی تو نالائق تھی لیکن تم تو میرے دوست بنتے تھے تم نے کیوں نالائقی کی؟ میری بیٹی ہونے کی ایک نسبت تو اس کے ساتھ تھی، تم نے اس نسبت کا خیال کیوں نہیں کیا؟ اسی طرح کافر کو بھی ایک نسبت بندہ ہونے کی ﷲ کے ساتھ ہے، ان کے کفر کی سزا ﷲ تعالیٰ خود دیں گے لیکن اگر کوئی کسی کافرہ کے ساتھ زِنا کرے اور پھر توبہ نہ کرے تو ہمیشہ کے لیے ﷲ کے اولیاء کے رجسٹر سے خارج ہوجائے گا۔ ﷲ تعالیٰ قیامت کے دن اس پر مقدمہ چلائیں گے کہ وہ نالائق تھی اس کی سزا تو میں خود دوں گا لیکن میری بندی ہونے کی نسبت کو تو کیوں بھول گیا لہٰذا تو خود بھی قابلِ سزا ہے۔

غیبت کی حرمت سے محبت پر ایک عجیب استدلال: اسی طرح غیبت کو حرام فرمانا ﷲ کی اپنے بندوں کے ساتھ انتہائی محبت کی دلیل ہے۔ جس طرح باپ اپنے بیٹے کے عیوب پر چاہے سزا دے دے لیکن وہ اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ دوسرے لوگ جگہ جگہ اس کے عیوب بیان کرکے اسے ذلیل کریں۔ اسی طرح ﷲ تعالیٰ اس کو پسند نہیں فرماتے کہ اُن کے بندوں کی بُرائی بیان کرکے ان بندوں کو رسوا کیا جائے۔ غیبت کو حرام کرنا ﷲ کی اپنے بندوں کے ساتھ انتہائی محبت کی دلیل ہے۔

گناہ کی مجلس میں شریک ہونا جائز نہیں: مولانااسماعیل صاحب جنہوں نے فارغ التحصیل ہونے کے بعد کراچی میں حضرت والا سے تفسیر میں تخصص کیا تھا اور حضرت والا کے خلیفہ بھی ہیں، یہاں سینٹ لوئیس میں امام ہیں اور ان کا درسِ تفسیر یہاں مشہور ہے آج قبل نمازِ جمعہ ان کی مسجد میں حضرت والا کا بیان تجویز تھا۔ آج صبح مولانا یاددہانی کے لیے حاضر ہوئے تو حضرت والا نے فرمایا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ کی مسجد کا مؤذن ڈاڑھی منڈاتا ہے، مؤذن کو رکھنے والی کمیٹی اور امام سب سے قیامت کے دن مؤاخذہ کا خوف ہے کیونکہ ایسے شخص کی اذان اورامامت سب مکروہِ تحریمی ہے اس کا اخراج واجب ہے لہٰذا میں آپ کی مسجد میں بیان نہیں کروں گا کیونکہ:

لاَ یَجُوْزُ الْحُضُوْرُ عِنْدَ مَجْلِسٍ فِیْہِ الْمَحْظُوْرُ

جس مجلس میں ﷲ کی نافرمانی ہورہی ہو وہاں شرکت جائز نہیں۔ مولانا اسماعیل صاحب نے عرض کیا کہ اس مؤذن کو ہم نے نہیں رکھا بہت پرانا ہے اور یہاں کے ملکی قوانین کے تحت کسی ملازم کو نکالنا تقریباً ناممکن ہے البتہ ہم نے اس کا انتظام کرلیا ہے کہ کل حضرت کی موجودگی میں وہ اذان واقامت نہیں کہے گا۔ دوسرے صالح شخص کہیں گے۔ کیونکہ عذر معقول تھا اس لیے حضرت والا نے بیان کی دعوت قبول فرمالی اور نماز سے قبل حضرت اقدس کا دس منٹ نہایت مختصر اور جامع بیان ہوا جس میں سورئہ ملک کی شروع کی دو آیتوں کی تفسیر بیان فرمائی۔

چند لطائف: مولانا رشید بزرگ صاحب نے کل رات حضرت والا سے درخواست کی تھی کہ نمازِ جمعہ کے بعد حضرت والا دوپہر کا کھانا میرے یہاں تناول فرمالیں، حضرت والا کا احسان ہوگا۔ نماز کے بعد تقریباً پونے دو بجے حضرت والا مع جملہ احباب کے مولانا رشید بزرگ صاحب کے گھر تشریف لے گئے اور کھانا تناول فرمایا۔ حضرت والا کی طبیعت الحمد ﷲ بہت منشرح تھی چنانچہ کھانے کے بعد حضرت والا نے ایسے مزے دار لطائف سنائے کہ سامعین بہت محظوظ ہوئے اور مجلس زعفران زار بن گئی ۔

یہاں سے حضرت والا نے خود ملفوظات سنانے شروع کیے:

فرمایا کہ ٹیکسلا میں میرے ایک دوست تھے حکیم امیر احمد صاحب مرحوم میرے خلیفہ تھے۔ پہلے تو حضرت تھانوی سے بیعت تھے پھر میرے شیخ شاہ عبدالغنی صاحب سے بیعت ہوئے پھر آخر میں مجھ سے تعلق قائم کیا۔ بڑے صاحبِ درد، مجذوب اور بڑے زندہ دل تھے۔ ﷲ کی یاد میں بہت روتے تھے۔ مغرب سے عشاء تک ذکر و شغل میں رہتے تھے۔ اس وقت کوئی نواب بھی آجائے تو نہیں ملتے تھے۔

اکیلا چنا خود تو پھوٹ سکتا ہے: ایک آدمی نے کہا کہ سارے معاشرہ میں عریانی، بے حیائی اور گمراہی پھیلی ہوئی ہے۔ ایک آدمی سارے معاشرہ سے کیسے ٹکرائے، اکیلا چنا بھاڑ تو نہیں پھوڑ سکتا۔ حکیم صاحب مجذوب تھے لیکن کیسا عجیب جواب دیا۔ فرمایا کہ اکیلا چنا بھاڑ تو نہیں پھوڑ سکتا خود تو پھوٹ سکتا ہے۔ تم خود ﷲ والے بن جاؤ، تمہارا تو کام بن گیا، معاشرہ بھاڑ میں جائے۔ آنکھیں بند کیے ہوئے مطب میں بیٹھے رہتے تھے ﷲ کے ساتھ مشغول۔ جہاں کوئی مریض آیا تو آنکھیں کھولیں دوا دے کر کہتے کہ لاؤ جلدی پیسے لاؤ اور جاؤ میرا وقت خراب مت کرو۔ میرے ذکر میں خلل پڑرہا ہے۔

ہم نے جراثیم پیدا کرنے والے سے رابطہ کررکھا ہے: ان کا مطب بھی عجیب تماشہ تھا۔ کوئی مریض آیا شلوار کے اوپر سے انجکشن لگا دیتے تھے۔ اب وہ کہہ رہا ہے کہ اسپرٹ کا پھایا دو۔ حکیم صاحب پھایا دیتے اور وہ شلوار میں ہاتھ ڈال کر اسپرٹ لگارہا ہے۔ کسی کے سویٹر کے اوپر سے انجکشن لگادیتے تھے کسی کی قمیض کے اوپر سے انجکشن لگادیتے۔ لوگ دور دور سے ان کے مطب کا تماشہ دیکھنے آتے۔ ایک پرانا لوٹا تھا اس میں کائی لگی ہوئی تھی، اسی پانی سے انجکشن دھودیتے۔ کسی نے کہا کہ اس میں تو جراثیم پیدا ہوگئے ہوں گے۔ کہتے تھے کہ ہم نے جراثیم پیدا کرنے والے سے رابطہ کر رکھا ہے۔ جراثیم کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتے لیکن ﷲ نے ان کے ہاتھ میں ایسی شِفا رکھی تھی کہ دور دور کے شہروں سے لوگ علاج کرانے آتے تھے۔ سامنے ہی عیسائیوں کا ہسپتال تھا۔ مجھ سے کہنے لگے کہ میں یوں دعا کرتا ہوں کہ یا ﷲ جن مریضوں کو شفا دینا ہو ان کو آپ میرے پاس بھیج دیجئے۔ کام آپ بنادیجئے، نام میرا چڑھا دیجئے اور جن کو موت دینی ہو ان کو سامنے عیسائیوں کے ہسپتال میں بھیج دیجئے تاکہ ان نالائقوں کی اور بدنامی ہو۔ کئی ایم بی بی ایس ڈاکٹر ان کے مقابلہ میں آئے اور ان کی دوکان کے قریب دوکان کھولی لیکن کسی کی نہ چلی سارا دن مکھیاں مارتے آخر تنگ آکر آدھی رات کو سارا سامان باندھ کر بھاگ گئے کیونکہ دن میں بھاگتے ہوئے شرم آتی اس لیے رات کو بھاگتے۔

یہاں حضرت والا نےحکیم امیر احمد صاحب سے متلق اپنا ذاتی واقعہ بھی بیان فرمایا۔

جب شروع شروع میں پاکستان آئے تو اتنا پیسہ پاس نہیں تھا کہ مطب کھولتے لہٰذا راولپنڈی میں برف بیچنا شروع کیا، راولپنڈی کی سڑکیں ڈھال پر ہیں ان پر چڑھنا مشکل ہوتا ہے۔ سائیکل پر برف لاد کر ان سڑکوں پر چڑھنا مشکل معلوم ہوا تو کہنے لگے کہ ایک دن میں نے ﷲ میاں سے کہا کہ اے ﷲ! آپ نے مجھے انسان بنایا ہے گدھا تو نہیں بنایا پھر گدھوں کا بوجھ مجھ سے کیوں اُٹھوا رہے ہیں؟ میرے لیے کوئی آسان روزی عطا فرمائیے، یہ مجذوبوں کی باتیں ہیں۔ مجذوبوں کی باتیں ﷲ تعالیٰ کو پسند ہیں جیسے آپ ناسمجھ بچوں کی باتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں لیکن اگر کوئی عاقل بالغ بیٹا ایسی بات کرے تو باپ ناراض ہوگا لہٰذا مجذوبوں کی سی باتیں کوئی سالک نہیں کرسکتا ورنہ پکڑ ہوجائے گی۔ اس کے بعد سے پھر ان کا مطب چل گیا۔ خوب برکت ہوئی۔

کیا میں ابھی تک پورا پاگل نہیں ہوا؟: ایک بار ان کے ساتھ کاغان کی پہاڑیوں کا سفر ہوا۔ وہاں کے راستے بڑے خطرناک ہیں، پہاڑوں پر نہایت تنگ سڑکیں ہیں اور نیچے ہزاروں فٹ گہرے کھڈ ہیں۔ حکیم صاحب ڈرائیور کے پاس والی سیٹ پر بیٹھے تھے اور تھوڑی تھوڑی دیر میں اچانک زور سے نعرہ مارتے یارب یارب یارب یارب۔ میں نے کہا کہ آپ کے نعروں سے اگر ڈرائیور کا ہاتھ ذرا سا ہل گیا تو ہزاروں فٹ گہرے کھڈ میں گاڑی گرجائے گی۔ بھلا یہ نعرہ مارنے کا وقت ہے؟ آپ تو مجھے آدھے پاگل معلوم ہوتے ہیں تو کیا کہتے ہیں کہ اچھا اتنے دنوں سے آپ کے ساتھ ہوں ابھی تک آدھا ہی پاگل ہی ہوا ہوں، پورا پاگل پھر کس دن ہوں گا؟ پاگل سے ان کا مطلب اﷲ کا دیوانہ تھا یعنی مجھ کو اﷲ کا پورا دیوانہ بنا دیجیے۔
لیکن یہ مجذوب پاگل نہیں ہوتے، اپنے مطلب میں خوب ہشیار ہوتے ہیں۔ پھولپور میں جب میں پڑھتا تھا، ہم دونوں پیر بھائی تھے، شاہ عبدالغنی صاحب سے ہم دونوں بیعت تھے تو میں نے ان سے کہا کہ میں بہت کمزور ہوں، اکثر بیمار رہتا ہوں، تم خمیرہ وغیرہ بناتے ہو، میں تمہارا پیر بھائی ہوں، کوئی شاندار خمیرہ بناکر مجھے کھلاؤ لیکن بھائی میں طالب علم ہوں مجھ سے پیسے نہ لینا تو کہنے لگے کہ واہ صاحب گھوڑا اگر گھاس سے محبت کرے گا تو کھائے گا کیا؟ میں پیسے تو لوں گا لیکن کم لوں گا۔ ان کا یہ جملہ مجھے اب تک یاد ہے، ان کی باتوں میں مجھے بہت مزہ آتا تھا۔ آہ! مجھ سے بہت محبت کرتے تھے۔

یہاں حضرت والا نے حکیم امیراحمد صاحب کا واقعہ بیان فرمایا کہ وہ مولانا ہردوئی ؒ کے بیان میں انہوں نے نعرہ مارنا شروع کیا۔

محبت صحابہ سے سبق سیکھے:  بڑے صاحبِ دل تھے۔ ایک دفعہ کہنے لگے کہ صحابہ کی محبت کا یہ مقام ہے کہ محبت صحابہ سے سبق سیکھے ،صحابہ سے محبت کا سبق سیکھئے۔ صحابہ سے سیکھئے کہ محبت کسے کہتے ہیں؟ بڑے عجیب جملے ہوتے تھے ان کے۔

دو بزرگوں کے واقعات: میرے شیخ شاہ عبدالغنی صاحب نے فرمایا تھا کہ جونپور میں دو بزرگ گذرے ہیں مولانا کرامت علی صاحب اور مولانا سخاوت علی صاحب۔ مولانا کرامت علی صاحب کو ان کے شیخ نے حکم دیا کہ تم سفر کرتے رہنا ایک جگہ نہ ٹھہرنا۔ وہ بنگال چلے گئے، ایک جگہ نہ ٹھہرے۔ تعمیلِ حکمِ شیخ کی برکت یہ ہوئی کہ جہاں جہاں ان کے قدم گئے وہاں اسلام پھیل گیا۔ بنگال میں اسلام ان ہی کی برکت سے پھیلا ہے۔ ہادیٔ بنگال ان کا لقب ہے اور مولانا سخاوت علی صاحب سے فرمایا کہ تم پڑھاتے رہنا۔ کوئی بخاری پڑھنے آتا اس کو بخاری پڑھا دیتے، کوئی نورانی قاعدہ پڑھنے آتا اس کو نورانی قاعدہ پڑھا دیتے۔یہ نہیں کہ ہم بخاری پڑھاتے ہیں کیا نورانی قاعدہ لائے ہو۔ نہیں جو پڑھنے آئے گا وہی پڑھاؤں گا کسی نے کہا کہ حضرت آپ بخاری پڑھانے والے اتنے بڑے عالم ہیں آپ نورانی قاعدہ کیوں پڑھاتے ہیں فرمایاکہ میرے شیخ نے یہ تھوڑی فرمایا تھا کہ بخاری پڑھایا کرنا بلکہ صرف یہ فرمایا تھا کہ تم پڑھایا کرنا۔
میرے شیخ شاہ عبدالغنی صاحب نے فرمایا کہ مولانا سخاوت علی صاحب قطب الاقطاب تھے۔ ایک دفعہ رات کو خادم پاؤں دبا رہا تھا کہ ایک شخص آیا اور مولانا سے ایک کاغذ پر دستخط کرائے اور چلا گیا۔ خادم نے دیکھا کہ سیڑھیوں پر سے اترا نہیں کہ وہیں سے نظروں سے غائب ہوگیا۔ لہٰذا اس نے پوچھا کہ حضرت یہ کون تھا؟یہ تو کوئی غیبی مرد معلوم ہوتا ہے۔ حضرت نے اس کو ڈانٹ دیا کہ خاموش رہو، یہ سب باتیں نہ پوچھو۔ اس نے کہا کہ نہیں حضرت یہ تو آپ کو بتانا پڑے گا کہ یہ کون شخص تھا؟ یہ خادم پیر دبانے والے ذرا منہ لگے ہوتے ہیں، یہ سارا راز لے لیتے ہیں۔ آخر میں مجبوراً حضرت نے بتایا کہ یہ شخص فلاں بستی کا قطب بنایا گیا ہے لیکن بغیر میرے دستخط کے یہ قطب نہیں ہوسکتا تھا۔ اس بستی کے اقطاب کا اﷲ نے مجھ کوقطب بنایا ہے، میں امیرالاقطاب ہوں۔ یہ تکوینی معاملات ہیں۔

 

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries