مجلس۲۶۔ مئی۲۰۱۴ء ہر وقت نظر اللہ پر رہے!

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں(کلک کریں)

خلاصۂ مجلس:محبی و محبوبی مرشدی و مولائی حضرت والا دامت برکاتہم مجلس میں رونق افروز تھے، حضرت والا کے حکم پر جناب مصطفیٰ صاحب نے اپنی عمدہ آواز میں مولانا منصور صاحب دامت برکاتہم کے اشعار سنائے، پھر جناب اثر صاحب دامت برکاتہم نے اپنے اشعار پیش کئے، حضرت نے بہت پسند فرمائے، پھر آخر میں جناب ممتاز صاحب کو معارفِ ربانی سے ملفوظات پڑھنے کا فرمایا، درمیان درمیان میں ملفوظات کی تشریح بھی فرماتے رہے۔۔ آج کی مجلس تقریباً ۱گھنٹےتک جاری رہی۔۔۔۔

ملفومظاتِ معارف ربانی

 ایک مجذوبہ کا واقعہ: میرے شیخ نے فرمایا کہ جونپور میں ایک مجذوبہ رہتی تھی۔ عورتیں بھی تکوینیات میں ہوجاتی ہیں۔ وہ شیخ اور خلیفہ تو نہیں بن سکتیں لیکن مجذوب ہوجاتی ہیں، صاحبِ خدمت ہوجاتی ہیں۔ حضرت شاہ عبدالغنی صاحب نے فرمایا کہ جب مولانا گنگوہی کا انتقال ہوا تو اس مجذوبہ نے جونپور میں اعلان کیا کہ گنگوہ میں بڑے مولانا کا انتقال ہوگیا۔ اس کا کشف اتنا زبردست تھا، کہاں جونپور اور کہاں گنگوہ، اُس زمانہ میں نہ کوئی تار تھا نہ ٹیلیفون۔ یہ قصہ میرے شیخ نے سنایا تھا۔ اختر سے یہ باتیں سن لو، یہ باتیں سنانے والے پھر کم ملیں گے۔ ﷲ کے فضل سے بزرگوں کی اتنی طویل مدت تک خدمت میں رہنے کا موقع کم لوگوں کو ملتا ہے

اور میرے شیخ نے فرمایا کہ ایک گاؤں میں ایک مجذوبہ صاحبِ خدمت تھی۔ اس کے بعد اس کا منصب تکوینی طور پر اس کے گاؤں کی مسجد کے امام صاحب کو ملنے والا تھا۔ اس کو ﷲ کی طرف سے کشف ہوا کہ اب تیرا انتقال ہونے والا ہے اور تیرا درجہ مسجد کے امام صاحب کو منتقل کرنا ہے۔ اس عورت نے اپنے شوہر سے پوچھا کہ امام صاحب کی تقریر جب ہوتی ہے تو تم کو ان کی کس بات میں زیادہ مزہ آتا ہے، تو اس نے کہا کہ ہم تو جاہل آدمی ہیں، ہم تو کچھ سمجھ نہیں سکتے لیکن جب امام صاحب تقریر کے دوران کہتے ہیں کہ آپ لوگ کچھ سمجھے؟ تو مجھے بہت مزہ آتا ہے۔ مجذوبہ نے کہا کہ جب امام صاحب کہیں کہ کچھ سمجھے تو تم کھڑے ہوکر کہہ دینا کہ امام صاحب آپ بھی کچھ سمجھے؟ دیکھئے! اس طرح ڈیوٹی منتقل ہورہی ہے لہٰذا جب امام صاحب نے کہا کہ آپ لوگ کچھ سمجھے تو اس کا جاہل شوہر کھڑا ہوا اور کہا کہ امام صاحب آپ بھی کچھ سمجھے؟ بس امام صاحب منبر پر بیٹھ گئے اور رونے لگے، اسی وقت ان کو وہ مقام مل گیا اور اس کا شوہر جب لوٹ کر آیا تو عورت مرچکی تھی۔ یہ تکوینی انتظامات ہیں، اس پر امت کا اجماع ہے۔ ملا علی قاری نے بھی ان واقعات کو لکھا ہے کہ ہر بستی میں تکوینی قطب اور صاحبِ خدمت وغیرہ ہوتے ہیں۔علامہ شعرانی نے بھی لکھا ہے کہ میں اپنی بستی کا قطب بنایا گیا ہوں۔ جو بات امت میں اکابر کی زبانوں سے تواتر سے چلی آرہی ہے اس کی تردید کی ضرورت نہیں ہے لیکن کسی کو زبردستی منوانے کی بھی ضرورت نہیں ہے لیکن ان باتوں کا عوام میں زیادہ تذکرہ کرنے کی اور زیادہ اہمیت دینے کی بھی ضرورت نہیں ہے ورنہ عام لوگ بس ان باتوں کے پیچھے پڑجاتے ہیں اور اعمال سے غافل ہوجاتے ہیں حالانکہ اصل چیز تو اعمال ہیں پھر وہ مجذوبوں کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دینے لگتے ہیں حالانکہ مجذوب تو قطب الارشاد کا چپراسی ہوتا ہے یعنی وہ اولیاء خواص جو اشاعتِ دین میں مصروف ہیں قطب الارشادکہلاتے ہیں، ان کے بڑے درجات ہیں۔ ان کے مقابلہ میں مجاذیب کا مقام بہت کمتر ہے۔

قطب الارشاد کا مقام: حضرت حکیم الامت مجدد الملت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی کو جب خطوط آتے کہ اگر آپ کانگریس میں شامل نہ ہوئے تو ہم آپ کو قتل کردیں گے تو حضرت حکیم الامت ایسے خطوط کو پڑھ کر پھاڑ دیتے تھے اور فرماتے تھے کہ ﷲ حفاظت کے لیے کافی ہے۔ اس زمانہ میں دو مجذوب خانقاہ تھانہ بھون میں حضرت کے پہرہ پر آگئے، کوئی ان کو جانتا بھی نہ تھا، وہ تھانہ بھون کے نہیں تھے۔ ایک مجذوب کی ڈیوٹی ختم ہوتی تو دوسرا مجذوب آکر بیٹھ جاتا تھا۔ ایک دن بعض علماء نے کہا کہ حضرت یہ مجذوب یہاں پہلے نہیں تھے، جب سے آپ کے قتل کے خطوط آرہے ہیں تب سے یہاں نظر آرہے ہیں، معلوم ہوتا ہے کہ ﷲ کی طرف سے مقرر کیے گئے ہیں، آپ کسی دن ان سے مل لیجئے۔ حضرت نے فرمایا کہ جس کی نظر جاذب پر ہوتی ہے وہ مجذوب سے نہیں ملتا۔

تشریح میں فرمایا: جاذب معنی کھینچنے والا جس کی نظر کھینچنے والے پر ہوتی ہے وہ کھنچے ہوئے کو نہیں دیکھتا، مجذوب تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جذب کئے ہوئے ہیں اور جاذب یعنی اللہ ہیں۔

چنانچہ حضرت ایک دن بھی ان مجذوبوں سے نہیں ملے لہٰذا مجذوبوں کی تلاش اور ملاقات کے چکر میں نہیں رہنا چاہئے، ان کے اختیار میں کچھ نہیں ہوتا۔ حکیم الامت فرماتے ہیں کہ مجذوب وہی کرتا ہے جو اس کو ﷲ کا حکم ہوتا ہے، اس کے خلاف وہ دعا بھی نہیں کرسکتا مثلاً اگر تکوینی طور پر اس کو معلوم ہوجائے کہ اس وقت ﷲ کی مرضی کفار کو غلبہ دینے کی ہے تو وہ ﷲ سے دعا بھی نہیں کرے گا کہ یااﷲ مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما اور سالک قطب الارشاد جو دین کی خدمت کرتے ہیں ﷲ ان کی دعاؤں کو قبول فرماتے ہیں۔ یہ ہمارے لیے مفید ہیں، ان سے دعا کرائیے، مجذوب تو جس ڈیوٹی پر ہے اس کے منہ سے وہی نکلے گا جو ﷲ تعالیٰ کرنا چاہتے ہیں اور قطب الارشاد کی دعاؤں سے قسمتیں بدل جاتی ہیں، یہ سوء قضاء کو حسن قضاء سے تبدیل کراسکتے ہیں کیونکہ وہ عارف ہوتے ہیں، جانتے ہیں کہ ﷲ تعالیٰ اپنے فیصلہ کو بدل سکتے ہیں جیسا کہ حدیثِ پاک میں ہے:

لاَ یَرُدُّ الْقَضَائَ اِلاَّ الدُّعَاءُ (سننُ الترمذی،کتابُ القدر،ج:۲،ص:۳۵)

دعا کی برکت سے ﷲ تعالیٰ اپنا فیصلہ تبدیل فرما دیتے ہیں اور دوسری حدیثِ پاک میں ہے:

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ جَھْدِ الْبَلآَءِ وَ دَرْکِ الشَّقَآءِ وَسُوْئِ الْقَضَآءِ وَشَمَاتَۃِ الْاَعْدَآءِ (صحیحُ البخاری،کتابُ القدر، باب من تعوذ باﷲ، ج:۲، ص:۹۷۹)

اس حدیث کی شرح دیکھئے۔ ملا علی قاری فرماتے ہیں کہ حضور صلی ﷲ علیہ و سلم نے یہ دعا سکھائی۔ اگر ﷲ اپنی قضاء یعنی اپنے فیصلہ کو نہ بدلتا تو حضور صلی ﷲ علیہ و سلم یہ دعا نہ سکھاتے۔ مطلب یہ ہے کہ ﷲ کی قضاء مخلوق نہیں بدل سکتی لیکن ﷲ خود اپنی قضاء اور اپنے فیصلہ کو بدل سکتا ہے۔

مثنوی میں سوء قضا کو بدلنے کی دعا کا عجیب عنوان: مولانا رومی نے مثنوی میں اس حدیث کی شرح یوں کی ہے کہ اے خدا آپ کی قضاء آپ پر حاکم نہیں ہوسکتی یعنی آپ کا فیصلہ آپ پر حکومت کیسے کرسکتا ہے؟ کیونکہ اگر ﷲ اپنے فیصلہ کو نہ بدل سکتا تو پھر ﷲ ﷲ کہاں رہتا، وہ تو اپنے فیصلہ کامحکوم ہوجاتا، پس اے ﷲ! آپ کا فیصلہ آپ کا محکوم ہے، آپ اپنے فیصلہ پر حاکم ہیں لہٰذا سوء قضاء کو آپ حسن قضاء سے بدل دیجیے، کبھی کبھی یہ دعا کرلیا کیجئے کہ اے ﷲ! اگر میرا خاتمہ میری شامتِ اعمال سے آپ نے خراب لکھا ہے اور مجھ کو جہنمی لکھ دیا ہے تو اپنے اس فیصلہ کو، اس سوء قضاء کو حسن قضاء سے بدل دیجئے۔ ﷲ سے مانگئے، ان شاء ﷲ وہ اس فیصلہ کو بدل کر جنتی لکھ دیں گے۔ اپنی تقدیریں اسی زندگی میں بدلوالیجئے ، دعا کیجئے، ﷲ سے کہئے کہ اے ﷲ! اگر مستقبل میں مجھ پر فالج گرنا ہے، لقوہ گرنا ہے، کینسر میں مبتلا ہونا مقدر ہے یا گردے بے کار ہونا ہیں، جتنی بھی سوء قضا ہے میرے لیے یا میرے گھر والوں کے لیے میرے دوستوں کے لیے تو اے ﷲ جملہ سوء قضا کو حسنِ قضا سے بدل دیجئے۔ ان شاء ﷲ آپ بھی، آپ کے گھر والے بھی اور دوست احباب بھی سب خیریت سے رہیں گے۔ ﷲ میاں سے رونے کا اور دعاؤں کا معمول بنائیے۔ کتنی بڑی دعا ہے کہ اے ﷲ! اگر میری شامتِ عمل سے آپ نے میرے لیے شقاوت، بدبختی، سوء خاتمہ اور جہنم لکھا ہے تو اس سوء قضا کو اپنی رحمت سے حسنِ قضا سے بدل دیجئے کیونکہ آپ کے نبی صلی ﷲ علیہ وسلم نے ہم کو سکھادیا، اگر آپ اپنا فیصلہ نہ بدلتے تو حضور صلی ﷲ علیہ وسلم ہمیں کیوں سکھاتے اور مولانا رومی کا یہ جملہ ضرور یاد کرلیجئے کہ اے خدا!آپ کی قضا یعنی آپ کے فیصلہ کو آپ پر حکومت کا اختیار نہیں ہے، آپ اپنی قضا پر حاکم ہیں لہٰذا اپنی سوء قضا کو حسن قضا سے تبدیل فرمادیجئے۔ دعا کرلیجئے کہ ﷲ عمل کی توفیق دے اور ہم سب کی حاضری کو قبول فرمائے اور اپنی رحمت سے ہم سب کو ﷲ والا بنادے وَصَلَّی ﷲُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِیْمِ۔

کھانے کے بعد کی مسنون دعا: حضرت والا یہ ارشادات کھانے کے بعد دستر خوان اٹھانے سے پہلے فرماتے رہے۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا کہ اب میزبان کو کھانے کے بعد کی دعا دوں گا بغیر ہاتھ اٹھائے کیونکہ کھانے کے بعد کی دعا کی سنت میں ہاتھ اُٹھانا ثابت نہیں ہے، پھر یہ مسنون دعا فرمائی:

اَکَلَ طَعَامَکُمُ  الْاَبْرَارُ وَ صَلَّتْ عَلَیْکُمُ  الْمَلاَئِکَۃُ وَاَفْطَرَ عِنْدَکُمُ  الصَّائِمُوْنَ (مشکوٰۃ المصابیح،کتابُ الاطعمۃ، باب الولیمۃ،ص:۳۶۹) 

اے ﷲ! مولانا رشید بزرگ کے گھر نیک بندے کھانا کھاتے رہیں اور فرشتے ان کے اور ان کے گھر والوں کے لیے دعائے مغفرت کرتے رہیں اور روزے دار افطار کرتے رہیں۔ بزرگوں نے فرمایا کہ اس دعائے مسنونہ میں رزقِ ظاہری اور رزقِ باطنی دونوں کی دعا ہوگئی کیونکہ جب ﷲ خوب زیادہ دے گا تب ہی تو کھلائیں گے اور نیک بندوں کے آنے سے صالحین کی صحبت بھی میسر آئے گی جو جڑ ہے دین کی، لہٰذا ظاہری اور باطنی دونوں رزق کی دعا ہوگئی۔

دسترخوان اُٹھانے کی مسنون دعا: آخر میں حضرت والا نے دسترخوان اٹھانے کی مسنون دعا پڑھی:

اَلْحَمْدُ ِﷲِ حَمْدًا کَثِیْرًا طَیِّبًا مُّبَارَکًا فِیْہِ غَیْرَ مَکْفِیٍّ وَ لاَ مُوَدَّعٍ وَلاَ مُسْتَغْنًی عَنْہُ رَبَّنَا(صحیحُ البخاری،کتابُ الاطعمۃ، باب ما یقول اذا فزع من طعامہ،ج:۲، ص:۸۲۰)

پھر فرمایا کہ آج کی مجلس کا رنگ تو عجیب تھا۔ کیسی مزے دار مجلس تھی۔ ﷲ قبول فرمائے۔ تقریباً ڈھائی بجے کے قریب خانقاہ کے لیے سینٹ پیئر (St. Pierre) واپسی ہوئی۔ کار میں حضرت والا کے ساتھ احقر راقم الحروف اور یوسف صاحب فرانسیسی برادر حبیب ﷲ صاحب فرانسیسی اور مولانا داؤد صاحب تھے جبکہ  مولانا داؤد صاحب کار چلارہے تھے۔ کار میں حضرت والا نے یہ شعر سنایا جو غالباً اسی وقت موزوں ہوا تھا   ؎

میں کرتا ہوں چمن میں یاد اُن کو رات دن اخترؔ
مگر مشتاق رہتی ہیں مری آہیں بیاباں کی

(سبحان ﷲ! کیاعمدہ شعر ہے۔ ﷲ حضرت والا کے درد سے امت کو قیامت تک کے لیے مستفید فرمائے اور صدقہ ٔجاریہ بنائے۔ جامع)

دسترخوان اُٹھانے کی مسنون دعا: پھرراستہ میں یوسف صاحب فرانسیسی کو مخاطب کرکے فرمایا کہ ﷲ کے لیے جو محبت ہوتی ہے وہ ناف کے اوپر کے اعضاء سے ہوتی ہے یعنی جسمِ اعلیٰ سے۔ کیونکہ یہ محبت اعلیٰ درجہ کی چیز ہے اور جو محبت دنیوی ہوتی ہے عورتوں سے یا لڑکوں سے وہ ناف کے نیچے سے کی جاتی ہے، اس محبت کا آخری مقام ناف کے نیچے ہے۔ اسی سے سمجھ لو کہ یہ نیچا کام ہے، یہ نیچے لوگ ہیں، نیچی ذات ہیں یہ اعلیٰ لوگ نہیں ہیں۔ فاعل و مفعول دونوں نیچے والے کام کرتے ہیں، یہ دلیل ہے کہ یہ عشق گندا ہے اگرچہ لاکھ سرافگندہ رہے لیکن عاشقوں کا دل پراگندہ رہے گا۔

موت کی ریل اور دنیا کا پلیٹ فارم: حضرت والا اپنے کمرہ سے خانقاہ تشریف لائے۔ خانقاہ میں احقر راقم الحروف اور یوسف صاحب فرانسیسی تھے۔ فرمایا کہ میر غمِ جدائی میں ہے کیونکہ اس کی شادی نہیں ہوئی اور یوسف عیشِ آشنائی میں ہے۔جس کو ﷲ جس حال میں رکھیں اسی میں خوش رہنا چاہئے وہی حال اس کے لیے اچھا ہے۔ پلیٹ فارم پر ایک شخص اپنا سامان لیے ہوئے ریل کے انتظار میں بیٹھا ہے اور دوسرا فرسٹ کلاس کے ویٹنگ روم میں بیوی سے مزے لے رہا ہے لیکن جب ریل آئے گی تو دونوں کو لے جائے گی اسی طرح موت کی ریل دونوں کو آخرت کی منزل پر پہنچادے گی لیکن ﷲ اپنے عاشقوں کو بغیر اسبابِ عیش کے عیش میں رکھتا ہے کیونکہ وہ خالقِ اسبابِ عیش ہے لہٰذا بغیر اسباب کے وہ اپنے عاشقوں کو مست رکھتا ہے اور ایسی لذتِ باطنی دیتا ہے کہ بعض غافل اہلِ عیش اس کا اِدراک بھی نہیں کرسکتے۔

اہلِ ری یونین کے لیے دو شعر: بعد عصر کچھ حضرات تشریف لائے تو فرمایا کہ آج ری یونین کے دوستوں کے لیے میں نے یہ شعر کہا ہے   ؎

جب اُڑ جاؤں گا میں کراچی کی جانب
کہاں مجھ کو پاؤگے ری یونین میں
سمندر کا ساحل پہاڑوں کا دامن
عجب لطف ملتا ہے ری یونین میں

اس ملاقات کو غنیمت سمجھو پھر یہ باتیں کہاں سنوگے۔
اس کے بعد چائے کا وقت ہوگیا۔ یعقوب لمبات صاحب اپنے گھر سے حضرت والا کے لیے کچھ سموسے بنوا کر لائے جو چائے کے ساتھ پیش کیے۔ فرمایا کہ یہ سموسے میں کسی اور کو نہیں دوں گا کیونکہ ان کی تعداد بتارہی ہے کہ یہ صرف میرے لیے لائے گئے ہیں۔ جو چیز آدمی اپنے شیخ کے لیے لائے اور دوسرے اسے کھائیں تو لانے والے کو تکلیف ہوتی ہے جبکہ وہ چاہتا ہے کہ یہ صرف میرا شیخ کھائے۔ (سبحان ﷲ! حضرت والا اپنے خدام کی کس کس انداز سے دلجوئی فرماتے ہیں۔ جامع)

کیا برکت صرف بالائی میں آتی ہے؟: اس پر ایک واقعہ یاد آیا۔میرے شیخ شاہ عبدالغنی صاحب کے لیے پسے ہوئے پستہ بادام بالائی میں ڈال کر ایک میزبان لائے۔ دسترخوان پر اور کھانا بھی تھا۔ حضرت نے بادام اور بالائی تھوڑی سی کھاکر چھوڑ دی تو ایک دیہاتی بار بار اس بالائی کو کھانے لگا تو حضرت نے فرمایا کہ بھائی یہ کیوں کھارہے ہو؟ یہ تو میزبان میرے لیے لایا ہے، تم کھاؤگے تو اس کے دل کو تکلیف ہوگی۔ کہنے لگے کہ حضرت آپ کا دستِ مبارک اس میں لگا ہے، میں برکت کے لیے کھارہا ہوں۔ حضرت نے فرمایا کہ میرا دستِ مبارک تو اس دال میں بھی لگا ہے تم دال کیوں نہیں کھاتے؟ کیا برکت صرف بادام اور بالائی میں آتی ہے دال میں نہیں آتی؟
بزرگوں کی باتوں میں کیسا نور ہوتا ہے اور ان میں کیسی نصیحت ہوتی ہے، دسترخوان پر نمک پارے بھی تھے۔ حضرت نے اپنے دستِ مبارک سے ایک ایک نمک پارہ سب کو تقسیم کیا اور فرمایا کہ اپنے شیخ کے ہاتھ سے چھوٹی چیز بھی مل جائے تو مرید کے لیے بہت قیمتی ہوتی ہے۔ لیلیٰ سب کو پلاؤ قورمہ بھیجتی تھی اور مجنوں کے لیے سوکھی روٹی۔ مجنوں کو اس سوکھی روٹی میں کیا مزہ آتا تھا، رونے لگتا تھا کہ آہ! میری لیلیٰ کے ہاتھوں سے یہ روٹی ملی ہے۔ اسی طرح یہ رزق جو ہے مولیٰ کے ہاتھوں سے ملا ہے، خالی زمین سے پیدا نہیں ہوا  وَفِیْ السَّمَآئِ رِزْقُکُمْ یہ رزق آسمان سے اترا ہے، ہمارے مولیٰ نے عطا فرمایا ہے اس تصور سے ﷲ والے کھاتے ہیں تو ان کو رزق میں کچھ اور ہی مزہ آتا ہے۔

رزق کا یقینی دروازہ: فرمایا کہ ﷲ تعالیٰ نے قرآن پاک میں تقویٰ کی برکت نازل فرمائی کہ اگر تم گناہوں سے بچو گے، ہمیں راضی رکھو گے، ہماری نافرمانی نہیں کروگے وَیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لاَ یَحْتَسِبُ  تو ہم تمہیں ایسی جگہ سے رزق دیں گے جہاں سے تمہیں گمان بھی نہیں ہوگا اور یہ ﷲ کا وعدہ ہے لہٰذا پکا ہے، اس میں کسی قسم کے خسارہ کا کوئی خطرہ نہیں ہے باقی دنیا میں روزی کے جتنے ذرائع ہیں، بزنس ہو، ملازمت ہو ہر ایک میں خسارہ کا خطرہ موجود ہے۔ کوئی ملازم ہے تو نکالا جاسکتا ہے، اس کی روزی منقطع ہوسکتی ہے، تجارت میں گھاٹا آسکتا ہے یا نہیں؟ لیکن تقویٰ ایک ایسی تجارت ہے جس میں رزق یقینی ملے گا، کبھی گھاٹا نہیں آئے گا کیونکہ ﷲ کا وعدہ ہے کہ جو تقویٰ اختیار کرے گا ہم اس کو ایسی جگہ سے رزق دیں گے جہاں سے اس کو گمان بھی نہیں ہوگا۔ رزق کا اتنا یقینی دروازہ کوئی نہیں جیسا تقویٰ کا دروازہ ہے، تقویٰ اختیا ر کرنے سے رزق یقینی ملے گا۔ پوری کائنات میں رزق کے جتنے دروازے ہیں سب میں خسارہ کا اِمکان ہے، نواب کا بچہ، رئیس ابن رئیس اور کروڑپتی سب خسارہ میں آسکتے ہیں اور بھیک مانگ سکتے ہیں، کوئی ایسی بیماری لگ سکتی ہے کہ ساری تجارت اس کے علاج میں لگ گئی اور پھر بھی اچھے نہ ہوئے،دوکان بک گئی، مکان بک گیا اور آخر میں امریکہ میں جاکر کسی ہسپتا ل میں مر گئے۔
پوری کائنات میں رزق کی یقینی راہ تقویٰ کے علاوہ کوئی نہیں ہے۔ میرے شیخ و مرشد حضرت مولانا شاہ ابرارالحق صاحب کے درجات کو ﷲ تعالیٰ بلند فرمائیں، حضرت نے کراچی میں یہ مضمون بیان فرمایا تھا کہ رزق کا یقینی راستہ تقویٰ ہے جو لاَ یَحْتَسِبُ  بھی ہے کہ رزق بغیر شان و گمان مل جائے اور ساتھ ساتھ یہ بھی ہے کہ آسانی سے مل جائے، اس کے تمام اُمور آسان ہوجائیں، جینا آسان ہوجائے اور کہیں بھی اس کو مشکل پیش نہ آئے۔

متقی کے کاموں میں آسانی کا راز: وَمَنْ یَّتَّقِ ﷲَ یَجْعَلْ لَّہٗ مِنْ اَمْرِہٖ یُسْرًا جو تقویٰ اختیار کرتا ہے ﷲ تعالیٰ اس کے تمام کاموں کو آسان کر دیتے ہیں، اب اس کا راز بتانا چاہتا ہوں کہ ﷲ تعالیٰ اس کے کاموں کو کیوں آسان کر دیتے ہیں کیونکہ متقی ﷲ کا دوست ہوتا ہے اور دنیا میں بھی آپ دیکھ سکتے ہیں کہ دوست اپنے دوست کی ملاقات کا حریص ہوتا ہے اور حتی الامکان اپنے دوست کی ملاقات کے اسباب و وسائل کی ذمہ داری خود لیتا ہے۔ اگر کبھی مشکل میں پھنستا ہے اور اپنی اس مشکل کی وجہ سے ملاقات کے لیے نہیں آپاتا تو چاہتا ہے کہ ایسی کیا ترکیب کروں کہ میرا دوست میرے پاس آجائے۔ دنیا کے دوست تو مجبور بھی ہوسکتے ہیں کہ اپنے دوست کی مشکل دور نہ کرسکیں اور ملاقات کے اسباب و وسائل نہ پیدا کرسکیں لیکن ﷲ تو قادرِ مطلق ہیں، جب ان کا دوست مشکل میں پھنسے گا تو ﷲ اس کے کام کو آسان فرما کر جلدی سے اس کو اپنی یاد کے لیے اور اپنے قرب سے مشرف کرنے کے لیے اپنے پاس بلا لیتے ہیں کیونکہ اگر مشکلات میں پھنسا رہے گا تو نوافل کیسے پڑھے گا، ذکر ﷲ کیسے کرے گا لہٰذا ﷲ جسے اپنا دوست بناتے ہیں تو فضلاً و احساناً اس کے کام کو آسان کرنااپنے ذمہ کر لیتے ہیں اس لیے متقین کے کام کھٹائی میں نہیں پڑتے۔قرآن پاک میں ﷲ تعالیٰ کا وعدہ ہے  وَمَنْ یَّتَّقِ ﷲَ یَجْعَلْ لَّہٗ مِنْ اَمْرِہٖ یُسْرًا جو تقویٰ اختیار کرناچاہتا ہے یعنی ﷲ کا پیارا ہونا چاہتا ہے ﷲ اس کے کاموں کو آسان فرمادیتے ہیں۔
اب میں ساری دنیائے انسانیت سے ایک بین الاقوامی مطالبہ کرتا ہوں چاہے وہ عیسائی ہو، یہودی ہو، ہندو ہو، کوئی بھی کافر ہو کیا کوئی شخص دنیا میںایسا ہے جو یہ کہے کہ میں رزق  لاَ یَحْتَسِبُ نہیں چاہتا، آسانی سے رزق نہیں چاہتا، بہت مصیبتوں سے چاہتا ہوں، گدھے کی طرح پیٹھ پر مرچ دھنیہ غلہ لاد کر دھوپ میں پریشان ہو کر روزی کمائوں، کوئی یہ نہیں چاہتا، سب آسانی سے رزق چاہتے ہیںلیکن آسانی کا کوئی راستہ سوائے تقویٰ کے نہیں ہے وَمَنْ یَّتَّقِ ﷲَ یَجْعَلْ لَّہٗ مِنْ اَمْرِہٖ یُسْرًا رزق تو اس کو لاَ یَحْتَسِبُ بے شان و گمان دیں گے ہی اس کے علاوہ اس کے جتنے بھی کام ہیں تقویٰ کی برکت سے سب آسان فرما دیں گے۔ صرف تقویٰ کے راستہ کو فرماتے ہیں کہ لاَ  یَحْتَسِبُ ہے، قطعی ہے، یقینی ہے جہاں کوئی خسارہ نہیں، مجھے کوئی بتائے کہ دنیا میں کوئی ایسی تجارت ہے جس میں خسارہ کا امکان نہ ہو؟ اگر کوئی ہے جہاں خسارہ کا امکان نہ ہو تو وہ سود ہوجائے گا جو حرام ہے اور دوزخ کا سامان ہے۔

آج صبح ساڑھے گیارہ بجے مولانا عمر فاروق صاحب احقر کے کمرے میں آئے، احقر سفر نامہ لکھ رہا تھا، انہوں نے بتایا کہ مولانا رشید بزرگ صاحب آئے تھے اور حضرت والا کے ساتھ ابھی ابھی لی مارک (Les Mark)کی پہاڑیوں کی سیر کے لیے روانہ ہوئے ہیں اور حضرت والا دامت برکاتہم نے احقر کے لیے فرمایا ہے کہ مولانا دائود کے ساتھ آجائے۔

مولانا دائود صاحب کچھ ضروری کاموں سے فارغ ہو کر تقریباً بارہ بجے خانقاہ سے روانہ ہوئے۔کار میں ان کے ساتھ احقر اور الیاس صوفی صاحب تھے۔ مولانا عمر فاروق اور حسن پٹیل صاحب ہم سے پہلے جاچکے تھے، تقریباً دس منٹ بعد ہماری کار پہاڑی راستوں سے گذر رہی تھی۔ آج موسم قدرے گرم تھا اور پہاڑ کی سیر کے لیے نہایت موزوں،جتنی بلندی کی طرف ہم بڑھتے جاتے تھے منظر خوش نما ہوتا جاتا تھا۔ دور نیچے سمندر نظر آرہا تھااور چاروں طرف سبزہ سے لدے ہوئے بلند قامت پہاڑ اور ان کے وسیع قدرتی سبزہ زار گویا زمین پر مخمل بچھا ہوا تھا۔ تقریباً آدھے گھنٹہ کی کوہ پیمائی کے بعد پہاڑوں کی بلندیوں پر سرو قد درختوں کی قطاریں نظر آئیں اور نہایت ہلکا کہر سبزپوش پہاڑوں پر مثل آنچل کے گررہا تھا لیکن اتنا ہلکا تھا کہ منظر صاف نظر آرہا تھا۔ ایک بجے کے قریب ہم منزلِ مقصود پر پہنچ گئے اور الحمدللہ وہاں محبی ومحبوبی و مرشدی عارف باﷲ حضرت والا دامت برکاتہم کو پالیا ورنہ اب تک ان مناظر میںاحقرکوکچھ مزہ نہیںآرہاتھا۔ حضرت والا کے بغیر احقر کو کوئی چیز اچھی نہیں لگتی اور دوستوں کے ساتھ بھی تنہائی محسوس ہورہی تھی اور احقر کو اپنے یہ شعر یاد آرہے تھے جو کسی زمانے میں حضرت کی یاد میں کہے تھے   ؎

سامنے تم ہو تو دنیا ہے مجھے خُلدِ بریں
اور قیامت کا سماں تم سے بچھڑ جانے میں
پاس اگر  تم ہو  تو  ہے  آباد   ویرانہ   مرا
ورنہ آبادی بھی شامل میرے ویرانے میں ہے

اس مقام کانام فرانسیسی زبان میں Fennets ہے اس کا ترجمہ ہے کھڑکی۔ کیونکہ یہ پہاڑ اتنی بلندی پر ہے کہ یہاں سے تمام پہاڑوں کی چوٹیاں ایسی نظر آتی ہیں جیسے بلند چھت کی کھڑکی سے میدان، علاوہ ری یونین کے بلند ترین سیاہ پہاڑکے کہ وہ اس سے بھی بلند ہے۔ حضرت والا نے احقر سے فرمایا کہ وہاں سامنے جا کر دیکھو کیا منظر ہے اور ﷲ تعالیٰ سے جنت مانگ لوکہ یہ دنیائے فانی جب ایسی حسین بنائی ہے تو جنت کیسی ہوگی۔ یہ پہاڑاوردرخت اور یہ خوشنما مناظر تو زلزلۂ قیامت کی زد میں ہیں، ایک دن قیامت کا زلزلہ ان کو ختم کردے گا لہٰذا ﷲ تعالیٰ سے جنت کا سوال کرو کہ اے ﷲ! ہم آپ سے جنت مانگتے ہیں اور ان اعمال کی توفیق بھی جو جنت میں لے جانے والے ہیںاور دوزخ سے پناہ چاہتے ہیں اور ان اعمال سے بھی جو دوزخ میں لے جانے والے ہیں، جنت کا ہمارا استحقاق تو نہیں ہے لیکن دوزخ کے عذاب کا تحمل نہیں ہے۔ اس لیے بدونِ استحقاق محض اپنے کرم سے ہم سب کو جنت نصیب فرمادیں، آمین۔

احقر نے آگے بڑھ کر جب بلندی سے نیچے کی طرف دیکھا تو اتنا حسین منظر پہلے کبھی نگاہوں سے نہیں گذرا تھا۔ نیچے سبز پوش پہاڑوں کے ساکت و خاموش عظیم القامت خیمے جا بجا پہلو بہ پہلو گڑے ہوئے تھے اور گہرائی در گہرائی میں سانپ کی طرح بل کھاتی ہوئی سڑکیں اتنی چھوٹی معلوم ہورہی تھیں جیسے بچوں کے کھلونے ہوں اور سامنے ری یونین کا سب سے بلند اور طویل و عریض سیاہ پہاڑ جس کی بلندیاں کہر آلود تھیں یوں معلوم ہوتا تھا کہ آسمان پر کوئی بادل ہے اور چاروں طرف ایک ھو کا عالم۔ کان لگا کر غور سے سننے سے دور دراز چشموں کی ہلکی ہلکی دلکش آواز فضا کی خاموشی کی ہمنوا تھی اور سارے مناظر پر تنہائی برس رہی تھی اور کسی شاعر نے شاید کسی ایسی ہی خیالی بستی کے لیے یہ شعر کہے تھے جو اس وقت احقر کو یا د آرہے تھے   ؎ 

آفاق کے اُس پار اک اس طرح کی بستی ہو
صدیوں سے جو انساں کی صورت کو ترستی ہو
اور اس کے مناظر پر تنہائی برستی ہو
یوں ہو تو وہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل

موسم میں خوشگوار ہلکی سی خنکی تھی۔ اب کچھ بھوک بھی محسوس ہونے لگی تھی۔ اس منظر کے عین مقابل میں زمین پر دریاں اور چٹائیاں بچھا دی گئیں اور چا ئے،  بسکٹ، مٹھائی اور پھل وغیرہ سے ضیافت کی گئی جو مولانا دائود صاحب ساتھ لائے تھے۔

ضیافت سے فارغ ہوکر حضرت والا نے احقر سے فرمایا کہ میرے وہ اشعار پڑھو جو یہاں آنے سے کچھ دن پہلے کراچی میں ہوئے تھے، جیسا بھی ہو بے تکلف دردِ دل سے پڑھیے۔ حضرت والا کے ارشاد کے مطابق احقر نے ترنم سے وہ اشعار پڑھے   ؎

منور کردے یا رب! مجھ کو تقویٰ کے معالم سے
ترے درتک جو پہنچادے ملادے ایسے عالم سے

علاجِ حزن و غم ہے صرف توبہ کر گناہوں سے
اندھیرے بے سکونی ہیں معاصی کے لوازم سے

جو دل سے غیر مخلص ہو وفاداری سے عاری ہو
بہت محتاط رہنا چاہیے پھر ایسے خادم سے

کیا برباد جس نے آخرت کو اپنی غفلت سے
بھلا پھر فائدہ کیا اس کو دنیا کے مغانم سے

حضرت والا نے فرمایا کہ مغانم کے معنی ہیںغنیمت یعنی ﷲ تعالیٰ کو بھول کر جس نے اپنی آخرت تباہ کرلی اگر وہ دنیا میں بادشاہ ہوگیا، وزیر ہوگیا، بہت بڑا تاجر ہو گیا تو بھی کیا فائدہ؟ پھر فرمایا کہ پڑھنے والے کو داد بھی دو اور یہ بھی دیکھو کہ یہ درخت اپنی قطاروں کے ساتھ ہم لوگوں کے کلام کو سن رہے ہیں۔ پھر احقر نے اگلا شعر پڑھا   ؎  

نہ اہلِ دل کی صحبت ہو نہ دردِ دل کی نعمت ہو
تو پڑھ لکھ کر بھی وہ محروم ہو گا قلبِ سالم سے

کسی کی آہِ سوزندہ فلک پر نعرہ زن بھی ہو
تو پھر ظالم کو ڈرنا چاہیے اپنے مظالم سے

اس شعر کے متعلق فرمایا کہ یہ بالکل اِلہامی ہے یعنی میرے دماغ کو اس میں بالکل دخل نہیں۔ رات کو ڈھائی بجے میر ی آنکھ کھلی تو یہ مصرع میری زبان پر جاری تھا اس کو میں نے بنایا نہیں   ؎  

کسی کی آہِ سوزندہ فلک پر نعرہ زن بھی ہو

آسمان پر وہ آہِ بارگاہِ حق کا دروازہ کھٹکھٹا رہی ہے کہ رحم کیجئے، ظالموں کے مقابلہ میں میر ی مدد کیجئے۔ آہ ِسوزاں تو بہت لوگوں نے استعمال کیا ہے، آہِ سوزندہ کی لغت شاید زمین پر پہلی بار اختر نے استعمال کی ہے یعنی یہ میر ی آہ جلانے والی ہے، جدھر سے گذرے گی ظالموں کو جلا کر خاک کر دے گی   ؎

کہیں شامل نہ ہو طائر کی بھی آہ و فغاں اس میں
دھواں اُٹھا نشیمن سے یہ کہہ صیادِ ظالم سے

کتب خانے تو ہیں اخترؔ بہت آفاقِ عالم میں
جو ہو ﷲ کا عالم ملو تم ایسے عالم سے 

حضرت والا نے فرمایا کہ جَزَاکَ ﷲُ خَیْرًا  بہت اچھا پڑھا، ماشاء ﷲ دردِ دل سے پڑھا، جو شعر زیادہ درد دل والے تھے ان کو کئی بار پڑھا، یہ سمجھ کی بات ہے، آخر بیس سال سے رات دن میرے ساتھ ہیں۔

یہاں حضرت والا نے مجلس کا اختتام فرمایا اور تمام حاضرینِ مجلس کو سلام فرمایا۔ یوں یہ پرنور مجلس اختتام کو پہنچی۔

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries