مجلس۲۷۔ مئی۲۰۱۴ء تقویٰ سے دنیاوی زندگی بھی مزیدار ہوجاتی ہے!

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں(کلک کریں)

خلاصۂ مجلس:محبی و محبوبی مرشدی و مولائی حضرت والا دامت برکاتہم مجلس میں رونق افروز تھے، حضرت والا کے حکم پر جناب تائب صاحب نے اپنی عمدہ آواز میں اپنےاشعار سنائے، حضرت نے بہت پسند فرمائے، اور بہت تعریف فرمائی یہ سلسلہ تقریبا ۲۳ منٹ جاری رہا اس کے بعد جناب ممتاز صاحب کو معارفِ ربانی سے ملفوظات پڑھنے کا فرمایا، درمیان درمیان میں چند ملفوظات کی تشریح بھی فرمائی۔۔ آج کی مجلس تقریباً  ۵۳ منٹ تک جاری رہی۔۔۔۔

تشریحِ اشعار

جناب تائب صاحب کے اشعار کے اختتام پر فرمایا: آج اثر صاحب کے ہاں حاضری ہوئی تھی، بہت مزہ آیا اور دل خوش ہوا، بہت انوار محسوس ہوئے، ماشاء اللہ! اللہ تعالیٰ اُن سے خوب کام لے رہے ہیں، واقعی وہاں بہت نور معلوم ہورہا تھا، میں نے وہاں دُعا بھی کی کہ اُن کا مدرسہ ہے اللہ اِس کو دارالعلوم بنادے اور اللہ والے علماء یہاں سے پیدا ہوں اور قیامت تک صدقۂ جاریہ رہے، وہاں کی خانقاہ اور مدرسہ کو اللہ قبول فرمالے اور خوب کام لے اثر صاحب اور تائب صاحب سے! حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کے خاص ہیں، بہت معتمد ہیں یہ دونوں ہیں ، حضرت کے خاص نظر تھی ان دونوں پر اور یہ حضرت کے محب اور محبوب تھے۔

 اور تائب صاحب نے ایک شعر کہا تھا ؎

ترے حسن نے صدا دی کوئی مجھ سے ہو تو آئے
میرا عشق ہوں پکارا  کوئی تھا   نہ ہے   نہ ہوگا

تو اسی پر میں نے کہا تھا لیکن کسی کو سنایا نہیں ؎

یہ میں دل سے کہہ رہا ہوں سنو گوشِ دل سے تائب
غمِ عاشقی میں  تم سا    کوئی تھا   نہ ہے   نہ ہوگا

یہ دونوں ہی منفرد ہیں ایک تائبؔ  کا رنگ ہے عاشقی میں، اِس میں یہ منفرد ہیں اور کوئی اِن کا ثانی نہیں اور ایک رنگ اثرؔ کا ہے اُس میں بھی کوئی دوسرا ثانی نہیں ہے۔ دونوں کو اللہ نے یہ شرف دیا ہے، شیخ کی محبت میں ایسے اشعار ہم نے کہیں دیکھے نہیں، اور یہ حضرت کی محبت کا اور اُن کی صحبت کا فیض ہے کہ اِن کے ایسے اشعار ہوئے ہیں کہ جتنا پڑھیں اُتنا ہی دل خوش ہوتا ہے۔اور وہ شعر تو مجھے بہت ہی پسند ہے! تائب صاحب ایک دفعہ سنا دیجئے پھر!! ۔۔۔ یہ نہ سمجھنا بھٹک گئے ہیں ۔ اور یہ اشعار اُس وقت کے ہیں جب حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ گلستانِ جوہر تشریف لائے تھے، اور اُسی وقت فرمایا تھا کہ بہت عجیب شعر ہیں!۔ اور اب یہ حسبِ حال بھی ہیں۔

جناب تائب صاحب نے حضرت والا نے حکم پر اشعار سنانے شروع کئے اور شروع میں فرمایا کہ آج بھی یہ غزل بالکل تازہ اور حسبِ حال ہے!

تائب صاحب کے اشعار حضرت نے بہت پسند فرمائے اور خوب لطف اندوز ہوئے۔

ملفومظاتِ معارف ربانی

متقی کے کاموں میں آسانی کا راز: وَمَنْ یَّتَّقِ ﷲَ یَجْعَلْ لَّہٗ مِنْ اَمْرِہٖ یُسْرًا جو تقویٰ اختیار کرتا ہے ﷲ تعالیٰ اس کے تمام کاموں کو آسان کر دیتے ہیں، اب اس کا راز بتانا چاہتا ہوں کہ ﷲ تعالیٰ اس کے کاموں کو کیوں آسان کر دیتے ہیں کیونکہ متقی ﷲ کا دوست ہوتا ہے اور دنیا میں بھی آپ دیکھ سکتے ہیں کہ دوست اپنے دوست کی ملاقات کا حریص ہوتا ہے اور حتی الامکان اپنے دوست کی ملاقات کے اسباب و وسائل کی ذمہ داری خود لیتا ہے۔ اگر کبھی مشکل میں پھنستا ہے اور اپنی اس مشکل کی وجہ سے ملاقات کے لیے نہیں آپاتا تو چاہتا ہے کہ ایسی کیا ترکیب کروں کہ میرا دوست میرے پاس آجائے۔ دنیا کے دوست تو مجبور بھی ہوسکتے ہیں کہ اپنے دوست کی مشکل دور نہ کرسکیں اور ملاقات کے اسباب و وسائل نہ پیدا کرسکیں لیکن ﷲ تو قادرِ مطلق ہیں، جب ان کا دوست مشکل میں پھنسے گا تو ﷲ اس کے کام کو آسان فرما کر جلدی سے اس کو اپنی یاد کے لیے اور اپنے قرب سے مشرف کرنے کے لیے اپنے پاس بلا لیتے ہیں کیونکہ اگر مشکلات میں پھنسا رہے گا تو نوافل کیسے پڑھے گا، ذکر ﷲ کیسے کرے گا لہٰذا ﷲ جسے اپنا دوست بناتے ہیں تو فضلاً و احساناً اس کے کام کو آسان کرنااپنے ذمہ کر لیتے ہیں اس لیے متقین کے کام کھٹائی میں نہیں پڑتے۔قرآن پاک میں ﷲ تعالیٰ کا وعدہ ہے وَمَنْ یَّتَّقِ ﷲَ یَجْعَلْ لَّہٗ مِنْ اَمْرِہٖ یُسْرًا جو تقویٰ اختیار کرناچاہتا ہے یعنی ﷲ کا پیارا ہونا چاہتا ہے ﷲ اس کے کاموں کو آسان فرمادیتے ہیں۔

اب میں ساری دنیائے انسانیت سے ایک بین الاقوامی مطالبہ کرتا ہوں چاہے وہ عیسائی ہو، یہودی ہو، ہندو ہو، کوئی بھی کافر ہو کیا کوئی شخص دنیا میںایسا ہے جو یہ کہے کہ میں رزق  لاَ یَحْتَسِبُ نہیں چاہتا، آسانی سے رزق نہیں چاہتا، بہت مصیبتوں سے چاہتا ہوں، گدھے کی طرح پیٹھ پر مرچ دھنیہ غلہ لاد کر دھوپ میں پریشان ہو کر روزی کمائوں، کوئی یہ نہیں چاہتا، سب آسانی سے رزق چاہتے ہیںلیکن آسانی کا کوئی راستہ سوائے تقویٰ کے نہیں ہے وَمَنْ یَّتَّقِ ﷲَ یَجْعَلْ لَّہٗ مِنْ اَمْرِہٖ یُسْرًا رزق تو اس کو لاَ یَحْتَسِبُبے شان و گمان دیں گے ہی اس کے علاوہ اس کے جتنے بھی کام ہیں تقویٰ کی برکت سے سب آسان فرما دیں گے۔ صرف تقویٰ کے راستہ کو فرماتے ہیں کہ لاَ یَحْتَسِبُ ہے، قطعی ہے، یقینی ہے جہاں کوئی خسارہ نہیں، مجھے کوئی بتائے کہ دنیا میں کوئی ایسی تجارت ہے جس میں خسارہ کا امکان نہ ہو؟ اگر کوئی ہے جہاں خسارہ کا امکان نہ ہو تو وہ سود ہوجائے گا جو حرام ہے اور دوزخ کا سامان ہے۔

رزّاق کی نافرمانی کے ذرائع سے رزق حاصل کرنے کی نحوست:  تو رزق لاَ یَحْتَسِبُ حاصل ہونا بلکہ ہر کام آسان ہونا یہ دونوں چیزیں بین الاقوامی طور پر مطلوب ہیں لیکن اس کا طریقہ کیا ہے؟ جس کے اختیار میں رزق ہے، جس کے اختیار میں کاموں کو آسان کرنا ہے آج ہم جیسے حمقاء اس رزّاق کو ناراض کرکے روزی بڑھانے کا سوچ رہے ہیں، نافرمانی کے کام کرکے کہتے ہیں کہ صاحب اس سے رزق زیادہ بڑھے گا، دوکان پر ٹیلی ویژن چلارہے ہیں کہ زیادہ بِکری ہوگی، دوکان پر لڑکیوں کو ملازم رکھ رہے ہیں کہ زیادہ گاہک آئیں گے۔ بتائیے! جو ظالم ﷲ کو ناراض کرکے رزق حاصل کررہا ہے اس کے رزق میں برکت ہوسکتی ہے؟ ﷲ تو کافر کو بھی رزق دیتا ہے، چور کو بھی رزق دیتا ہے، چور کو چوری سے اور حرام خور کو حرام خوری کے راستے سے رزق ملتا ہے اور حلال خور کو حلال راستہ سے دیتا ہے، جو حرام کی نیت کرتا ہے اس کو حرام راستہ سے سزا کے طور پر رزق دیتا ہے اور جو حلال کی نیت کرتا ہے اس کو حلال راستہ سے رزق عطا فرماتا ہے۔
اس لیے جو ﷲ کو ناراض کرکے رزق حاصل کر رہا ہے انتہائی احمق ہے، رزق ﷲ کے ہاتھ میں ہے، ﷲ کو راضی کرکے رزق حاصل کرو، اگر ناراض کرکے حاصل کیا تو وہ رزق برکت والا نہیں ہوگا، وہ سب چور ڈاکو لے جائیں، ڈاکٹر لے جائیں، کینسر ہوجائے، ایکسیڈنٹ ہوجائے غرض جو ہو جائے کم ہے۔
ہمارے یہاں سمندر کے کنارے رئیسوںکی ایک بستی کلفٹن ہے۔ وہاں کے ایک سیٹھ صاحب نے کہا کہ مجھے نماز روزہ کی کیا ضرورت ہے؟ سات پشت تک کھانے کے لیے بینک میں پیسہ ہے، میں تو ساری زندگی پلائو قورمہ کھائوں گا، ان کے پیٹ میں کینسر ہوگیا، سب غذا بند ہوگئی، جو کا دو تولہ پانی چوبیس گھنٹہ میں ڈاکٹروں کے بورڈ نے تجویز کیا وہ بھی پیٹ پھاڑ کر نلکی کے ذریعہ، نتیجہ یہ ہوا کہ چھ مہینہ کے بعد مرگئے البتہ مرتے وقت علماء کو بلا کر ہاتھ جوڑ کے معافی مانگی کہ میں نے بہت گستاخی کی ہے۔ خیر ﷲ ان کی مغفرت فرمائے۔مگر ایک بات کہتا ہوں کہ ﷲ کو ناراض کر کے رزق نہ کمائو، ﷲ کو ناراض نہ کرو۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے اگر لڑکیوں کو ملازم نہ رکھا تو ہماری بِکری (Sale) کم ہو جائے گی۔ میں کہتا ہوں کہ آج ہمارے پیٹ پر پتھر نہیں بندھے ہوئے ہیں، صحابہ کے پیٹوں پر پتھر بندھے ہوئے تھے، گٹھلی چوس کر جہاد کرتے تھے۔ ایک تابعی نے کسی صحابی سے پوچھا کہ سنا ہے آپ گٹھلی چوس کر جہاد کرتے تھے، گٹھلی سے کیا ملتا تھا؟ صحابی نے فرمایا کہ جب وہ گٹھلی بھی ختم ہوگئی تب پتا چلا کہ اس گٹھلی سے کیا ملتا تھا۔
ایک مرتبہ صحابہ نے شدتِ بھوک میں سرورِ عالم صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ ہمارے پیٹوں پر دو پتھر بندھے ہوئے ہیں، سرورِ عالم صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پیٹ پر تین پتھر بندھے ہوئے ہیں۔ آج اس زمانہ میں کسی کے پیٹ پر پتھر نہیں بندھے، صرف بڑا آدمی بننے کا شوق ہے ورنہ کھانے کو بہت ہے، ضروریات سے بھی زیادہ ہے۔ اس لیے میں دردِ دل سے کہتا ہوں کہ اپنی دوکانوں میں کسی عورت کو مت رکھیے صرف مردوں کو رکھیے زیادہ سے زیادہ بِکری کم ہو جائے گی، سیلنگ اور ڈیلنگ کچھ کم ہو جائے گی تو ہوسکتا ہے کہ آپ کا ڈیل ڈول بھی کم ہوجائے، ہوسکتا ہے کہ انڈا، مرغا کم ملے لیکن ﷲ تو راضی ہوگا یہ کیا معمولی نعمت ہے؟ اس کے علاوہ رزق میں برکت ہوگی، آپ سکون سے رہیں گے، سکون سے جئیں گے، سلامتیِ اعضاء سے رہیں گے، سلامتیِ ایمان سے رہیں گے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ﷲ راضی رہے گا۔ اب آپ فیصلہ کرلیں کہ ﷲ کو ناراض کرکے ﷲ کے رزق کو حاصل کرنا اور بڑا آدمی بننا فائدہ مند ہے یا ﷲ کو راضی رکھنا فائدہ مند ہے۔

اور ﷲ کو ناراض کرنے کا نتیجہ بڑا بھیانک ہے۔ آج جن لوگوں کے ڈاڑھیاں ہیں اور جن لوگوں نے بزرگوں کی صحبتیں اُٹھائی ہیں ممکن ہے کہ وہ تو بچ جائیں لیکن یہ ہمارے نوجوان بچے جن کی دوکانوں پر کرسچین لڑکیاں سیلنگ (Selling) کر رہی ہیں کل کو ان کا دین ایمان سب ضائع ہوجائے گا۔ بخاری شریف کی حدیث ہے کہ زِنَی الْعَیْنِ النَّظَرُ نامحرم عورتوں پر نظر ڈالنا آنکھوں کا زِنا ہے اَلنَّظَرُ اِلَی الْمَحَارِمِ حَرَامٌ کَالزِّنَا۔ جب ہمارے بچے ہر وقت کرسچین لڑ کیوں کو دیکھیں گے تو ان کا ایمان سلامت رہے گا؟ بتائیے کیا ایمان کا یہ تقاضا ہے کہ جس بات سے ﷲ ناراض ہوں اس سے روزی بڑھائی جائے؟ اگر ہمت سے کام لیں تو فاقہ کی نوبت ہی نہیں آئے گی ان شاء ﷲ آپ گوشت روٹی کھائیں گے۔ جب ﷲ کا وعدہ ہے کہ تقویٰ کی برکت سے ﷲ ایسی جگہ سے رزق دے گا جہاں سے متقی کو وہم و گمان بھی نہ ہوگا اور ﷲ اس کے ہر کام کو آسان فرمادے گا تو ہم کو مومن ہونے کی حیثیت سے ﷲ سے کیا توقع رکھنی چاہیے کہ اگر ہم عورتوں کو ملازم نہیں رکھیں گے، حرام طریقہ سے روزی نہیں بڑھائیں گے تو بھوکوں مرجائیں گے؟ اگر ایسا خیال ہے تو ہم لوگ سوچیں کہ ہمارے ایمان کا کیا حال ہے۔ ہمارا ایمان آج یہ ہے کہ ہم نافرمانی کی راہوں سے روزی بڑھا رہے ہیں کہ صاحب اگر ہم لڑکیوں کو نہیں رکھیں گے تو بِکری اور (Sale) کم ہوجائے گی لہٰذا لڑکیاں نوجوان ہوں، حسین ہوں، نمکین ہوں، خوبصورت ہوں تاکہ ان کی نظارہ بازی کے لیے زیادہ گاہک آئیں۔ لہٰذا دعوتِ زِنا دی جارہی ہے۔ اگر کسی سیٹھ نے اس نیت سے نمکین لڑکیوں کو رکھاکہ ان سے سیل زیادہ ہوجائے گی تو نعوذ باﷲ رزق کو آنکھوں کے زِنا کی دعوت دے کر حاصل کیا۔ دوستو! اس دنیا میں چند دن رہناہے، آخرت میں ہمیشہ رہنا ہے۔ ایک تابعی سے کسی نے عرض کیا کہ مجھے کچھ نصیحت کردیجئے تو فرمایا کہ دنیا کے لیے اتنی محنت کرو جتنا یہاں رہنا ہے اور آخرت کے لیے اتنی محنت کرو جتنا وہاں رہنا ہے لہٰذ ا خود فیصلہ کرلو۔ مان لوکہ پچاس سال خوب مال ملائی اُڑا لیا لیکن جب قیامت کے دن ﷲ پوچھے گا کہ تم نے کرسچین لڑکیوں کو نوکر رکھ کر اپنی اولاد کو کیوں ضائع کیا، یہ گناہ میں مبتلا تھے تو کیا جواب دو گے؟
عقل سے سوچو کہ ﷲ پناہ میں رکھے یہ نوجوان کل زِنا میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔ ہر وقت نامحرموں کے ساتھ رہنے سے کب تک بچیں گے، پٹرول پمپوں پر لکھا رہتا ہے کہ یہاں سگریٹ پینا منع ہے (No Smoking Please) اور عربی میں لکھا ہوتا ہے
مَمْنُوْعُ التَّدْخِیْنِ اور آج ہمارا کیا حال ہے کہ اپنے ایمان کے پٹرول پمپ کے ساتھ کرسچین لڑکیوں کی آگ کو رکھا ہوا ہے کہ ایمان کا پٹرول پمپ کسی وقت بھی دھماکہ سے اُڑ جائے، اب جو بے چارے دین دار ہیں، ڈاڑھی رکھے ہوئے ہیں، ﷲ ﷲ کرتے ہیں، گول ٹوپی لگائے ہوئے وہ بھی کرسچین لڑکیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اس ماحول کو دیکھیے۔ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی، قربانی کے زمانہ میں بکرے کی ماں لاکھ روئے کہ میرے بیٹے کی قربانی نہ ہو لیکن ایک نہ ایک دن کوئی خرید کر ذبح کردے گا۔ ایسے ماحول میں اپنے بچوں کو رکھنا، اُن کو قربانی کا بکرا بنانا ہے لہٰذا جتنا ہوسکے اتنا تو ﷲ سے ڈرو۔ جب یہ آیت نازل ہوئی:

یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا ﷲَ حَقَّ تُقَاتِہٖ (سورۃ اٰل عمران، اٰیۃ:۱۰۲)

اے ایمان والو! اتنا ڈرو کہ ﷲ سے ڈرنے کا حق ادا کردو۔ میرے شیخ نے فرمایا کہ اس آیت کے نازل ہونے پر صحابہ میں کہرام مچ گیا اور وہ رونے لگے کہ اے ﷲ! ہم آپ سے ڈرنے کا حق کیسے ادا کر سکتے ہیں۔ ﷲ کو رحم آگیا اور دوسری آیت نازل ہوئی فَاتَّقُوا ﷲَ مَا اسْتَطَعْتُمْ تم سے جتنا ہوسکے اُتنا ڈرو۔ اب دیکھ لو کہ یہ استطاعت ہے کہ نہیں روزانہ بریانی چھوڑ کر ہم گوشت روٹی پر راضی ہوسکتے ہیںیا نہیں کچھ کم کما سکتے ہیں یا نہیں ۔ یقینا ہم میں یہ استطاعت ہے چاہیں تو اس پر عمل کرسکتے ہیں۔ بیس ہزار فرینک کماتے ہو ،تو پندرہ ہزار پر راضی ہوجائو۔ نقصان میں نہیں رہو گے، دل میں ﷲ کے قرب کی وہ سلطنت حاصل ہوگی کہ بادشاہوں کے تخت و تاج نگاہوں سے گر جائیں گے۔ مجھے اپنا ایک شعر یاد آیا   ؎

دامنِ فقر میں مرے پنہاں ہے تاجِ قیصری
ذرئہ درد و غم ترا دونوں جہاں سے کم نہیں

آج میں صرف یہ بات عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہماری صحت، عزت، مال اور رزق کی برکت، ہماری زندگی و موت، میدانِ محشرمیں ہمارا فیصلہ اور جنت و دوزخ سب ﷲ کے قبضہ میں ہے تو ایسے صاحبِ قدرت مالک کو ناراض کرنے والا کیا احمق، بے وقوف اور پاگل نہیں ہے کہ مالک کو ناراض کر کے روزی بڑھا رہا ہے؟ ﷲ ہم کو اپنی ایسی دیوانگی، ایسا عشق عطا فرمائے کہ   ؎

اُڑا دیتا ہوں اب بھی تا رتارِ ہست و بود اصغرؔ
لباسِ زہد و تقویٰ میں بھی عریانی نہیں جاتی

اﷲ ایسا ایمان و یقین ہم سب کو عطا فرمائے کہ ساری دنیا ایک طرف ہو لیکن ﷲ ناراض ہوتا ہے تو ہم ایسی دنیا پر لات ماردیں۔ جو ﷲ کو خوش رکھتا ہے ﷲ اس کو خوش رکھتا ہے اور جو ﷲ کو ناراض رکھتا ہے سمجھ لو اس کی خیر نہیں ہے اس کو کہیں بھی خیر نہیں ملے گی۔ یہ شخص ائیرکنڈیشنوں میں خودکشی کرے گا۔ خواجہ عزیز الحسن صاحب مجذوب رحمۃ ﷲ علیہ فرماتے ہیں   ؎

نگاہِ   اقربا   بدلی   مزاجِ   دوستاں    بدلا
نظر اِک اُن کی کیا بدلی کہ کل سارا جہاں بدلا

نافرمانی کرکے، گناہ کرکے جو ﷲ کو ناراض کرتا ہے تو سارے جہان میں وہ مصیبت ہی مصیبت پاتا ہے۔ اَلاَ بِذِکْرِ ﷲِ تَطْمَـئِنُّ الْقُلُوْبُ دلوں کا اطمینان ﷲ ہی کی یاد پر موقوف ہے، یہاں باء معنیٰ میں فی کے ہے کہ جو ذکر میں غرق ہوجاتا ہے یعنی سر سے پیر تک کسی عضو سے ﷲ کی نافرمانی نہیں کرتا ﷲ اس کے دل کو وہ چین اور سکون و اطمینان دیتا ہے اور وہ خوشیاں دِکھاتا ہے کہ سارے عالم کے بادشاہوں کو بھی اس کے دل کی خوشی کا تصور نہیں ہوسکتا۔ آسمان پر ﷲ جس کے قلب کو خوش رکھنے کا فیصلہ کرے زمین پراس کے قلب کی خوشی کا کیا عالم ہوتا ہے سلاطین بھی اس کو نہیں سمجھ سکتے۔
بس آج کی تقریر کا خلاصہ یہ ہے کہ ﷲ کو ناراض کرکے کسی قسم کا دنیاوی فائدہ نہ اُٹھائیے چاہے پیٹ پر پتھر باندھنا پڑے، چاہے ایک جوڑا کپڑے میں زندگی گذارنا پڑے۔ آپ عزم کرکے دیکھیے لیکن نہ پیٹ پر پتھر باندھنے پڑیں گے نہ لباس میں پیوند لگیں گے۔ ﷲ کا وعدہ ہے جو اپنے ہر کام میں آسانی اور رزقِ واسعہ چاہتا ہے وہ تقویٰ اختیا ر کرلے، جو شخص تقویٰ اختیار کرے گا اور ﷲ کی نافرمانی سے بچے گا ﷲ اس کا ہر کام آسان فرمائیں گے اور اس کو ایسی جگہ سے رزق دیں گے جہاں سے اس کووہم و گمان بھی نہ ہوگا۔ تقویٰ کے علاوہ ایسی پکی تجارت کوئی اور نہیں ہے جس کی ذمہ داری خود ﷲ نے لی ہے۔
بیان کے بعد حضرت والا خانقاہ میں اپنے حجرہ میں تشریف لے گئے۔ چند خاص احباب بھی ساتھ حجرہ میں آگئے۔ اس وقت فرمایا کہ ﷲ کے مقبول بندوں کی جوتیاں اُٹھانے کا انعام،شاہ عبدالغنی رحمۃ ﷲ علیہ کی جوتیوں کا صدقہ آج دیکھ رہا ہوں کہ آج حق میں نے پیش کردیا کہ میرا مالک مجھ سے خوش ہوجائے، علماء کے کانوں میں بات ڈال دی کہ کر سچین لڑکیوں کو یا مسلمان لڑکیاں ہی کیوں نہ ہوں،کوئی صورت ان کے ملازم رکھنے کے جواز کی نہیں ہے۔ مردوں کو ملازم رکھو، چاہے آمدنی کم ہوجائے۔ میں نے پاکستان میں بڑے بڑے مسٹروں سے کہا کہ اپنی بیٹیوں کو جو ایئر ہوسٹس بناتے ہو یہ بڑی بے غیرتی ہے، ہوائی جہاز کے مسافروں کے سامنے عمدہ لباس میں مٹک مٹک کر چل رہی ہیں کہ حضورچائے پئیںگے، شرم نہیں آتی، کوئی شریف آدمی نامحرم مردوں کی خدمت اپنی بیٹیوں کے ذریعہ برداشت نہیں کرسکتا۔

لڑکیوں کا نوکری کرنا اقتصادی بد حالی کا ذریعہ ہے: تو وہ مسٹر کہنے لگے کہ صاحب اس طرح سے اقتصادی حالات درست ہوجاتے ہیں۔ پانچ ہزار میرا داماد کماتاہے پانچ ہزار میری بیٹی کماتی ہے دس ہزار ہو جاتے ہیںجس سے گھر میں شاندارصوفے میز کرسیاں اور کار آجاتی ہے، آج کل کے معاشرہ میں ایک مقام حاصل ہوجاتا ہے۔ میں نے کہا کہ لڑکیوں کا نوکری کرنا بہت بڑا ظلم ہے، پانچ ہزار جو آپ کی بیٹی کماتی ہے اگر کسی کا بیٹا کماتا تو اس کے ماں باپ اور بچوں کی پرورش کا ذریعہ ہو جاتا۔ اس لڑکی کو نوکری دینے سے ایک گھرامیر تر ہوگیا اور دوسرا گھر غریب تر اور فاقہ سے دوچار ہوگیا۔ یہ اقتصادی حالت بہتر ہوئی ہے یا خراب ہوئی ہے کہ ایک گھر ضرورت سے بھی زیادہ عیش کر رہا ہے اور دوسرا ضروریاتِ زندگی سے بھی محروم ہوگیا۔ یہ حمقائِ زمانہ ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ لڑکیوں کی نوکری سے اقتصادی حالت بہتر ہوجاتی ہے۔ذرا سوچیے کہ جس کا شوہر اور اس کی بیوی دونوں نوکری پاگئے تو وہ گھر امیرتر ہوگیا لیکن جس گھر کے مرد کو اس لڑکی کی وجہ سے فیل کردیا اور اس نوکری سے محروم کردیا گیا اس کے گھر اس کے بوڑھے ماں باپ بیٹھے ہوئے ہیں اوران کو فاقے ہورہے ہیں، ان پر ظلم ہوا یا نہیں؟ اس لیے لڑکیوں کا نوکری کرنا اقتصادی ناانصافی اور بدحالی کا ذریعہ ہے۔

نصیحت کا ایک عظیم فائدہ : میں کہتا ہوں کہ چلو کان میں بات پڑتی تو رہے، گناہ کو گناہ تو سمجھو۔ اگر ایک شخص گناہ کو گناہ سمجھتا ہے تو اس کے لیے اُمیدِ ندامت اور اُمیدِ مغفرت ہے کہ جب گناہ کو گناہ سمجھتا ہے تو کبھی نہ کبھی نادم ہوجائے گا، توبہ کرلے گا اور مغفرت پاجائے گا۔ میرا ایک شعر ہے   ؎  

ندامت تجھ پہ ہو رحمت خدا کی
دلا دی مغفرت رب جہاں سے

حُبِّبَ اِلَیَّ الْخَلاَءُ ذوقِ نبوت ہے: فرمایا کہ تنہائی میں خُدا کو یاد کرنا ذوقِ نبوت ہے۔ آپ صلی ﷲ علیہ وسلم نے سب سے پہلے غارِ حرا میں عبادت کی، معلوم ہوا کہ تنہائی تلاش کرنا اور تنہائی میں ﷲ کو یاد کرنا ذوقِ نبوت ہے، سنت کا ایک ذوق ہے ۔ چنانچہ خواجہ صاحب فرماتے ہیں   ؎

تمنا ہے کہ اب کوئی جگہ ایسی کہیں ہوتی
اکیلے بیٹھے رہتے یاد اُن کی دلنشیں ہوتی

اور جب ذکر میں آنسو نکل آتے تب یہ شعر پڑھتے   ؎

ستاروں کو یہ حسرت ہے کہ وہ ہوتے میرے آنسو
تمنا  کہکشاں  کو  ہے  کہ  میری  آستیں   ہوتی

بیت ﷲ میں میں نے ایک شعر کہا تھا   ؎

جو گرے اِدھر زمیں پر مرے اشک کے ستارے
تو  چمک  اُٹھا  فلک  پر  مری  بندگی  کا  تارا

حرم کی زمین پر جو آنسو گرے تو سب معاف ہوگیا۔ مولانا رومی رحمۃ ﷲ علیہ نے بھی فرمایا   ؎

آہ را جز آسماں ہمدم نہ بود
راز را غیرِ خدا محرم نہ بود

میری آہ کا سوائے آسمان کے کوئی ساتھی نہیں ہوتا میں ایسی جگہ جا کر ﷲ کو یاد کرتا ہوں اور ان کی یاد میں آہیں کھینچتا ہوں کہ میری محبت کے راز کو سوائے خدا کے کوئی نہیں جانتا ، دنیا نہیں جانتی کہ جلال الدین اپنے ﷲ سے کیسی محبت کرتا ہے۔

محابیبِ اربعہ یعنی چار محبوب چیزیں: اَلْحَمْدُ ِﷲِ وَکَفٰی وَ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی اَمَّا بَعْدُ وَقَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صَلَّی ﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ حُبَّکَ اَحَبَّ اِلَیَّ مِنْ نَّفْسِیْ وَاَہْلِیْ وَمِنَ الْمَآئءِ الْبَارِدِ (سننُ الترمذی،کتابُ الدعوات، باب ماجآء فی عقد التسبیح بالید، ج:۲، ص:۱۸۷)

دنیا کا مسلمہ اور بین الاقوامی تسلیم شدہ قاعدہ ہے کہ جہاں انسان کو کچھ دن رہنا ہوتا ہے اور پھر آخر میں اپنے اصلی مقام یعنی وطن جانا ہوتا ہے تو پردیس میں تعمیرِ وطن کے لیے وہ خوب محنت کرتا ہے، کسی شخص کو آپ نہیں دیکھیں گے کہ وہ پردیس میں کمانے کے لیے آیا ہو اور وہاں آرام سے خراٹا مار کر سو رہا ہو اور کچھ نہ کرتا ہو کیونکہ جو شخص پردیس میں کمائی پر سستی کرگیا اس کا وطن تباہ و برباد ہوگیا، جب وطن جائے گا تو وہاں اس کو پردیس کی کمائی کا جواب دینا ہوگا جب مختلف لوگ اس سے سوال کریں گے کہ بھائی کیا لائے ہو؟ ایک تابعی سے کسی نے پوچھا کہ حضرت! کوئی نصیحت کیجئے تو انہوں نے کہا کہ بھائی نصیحت یہ ہے:

{اِعْمَلْ لِلدُّ نْیَا بِقَدْ رِ مَقَامِکَ فِیْھَا وَ اعْمَلْ لِلْاٰخِرَۃِ بِقَدْ رِ مَقَامِکَ فِیْھَا}

دنیا کے لیے اتنی محنت کرو جتنا دنیا میں رہنا ہے اور آخرت کے اتنی محنت کرو کہ جتنا وہاں رہنا ہے اور وہاں تو اتنا رہنا ہے کہ وہاں سے پھر لوٹ کر نہیں آنا ہے۔ میرے تین جملے آسمانی ہیں جن کو میں عطاء حق سمجھتا ہوں اور یہ میرا مخترعہ اور گھڑا ہوا نہیں ہے اور آپ کا دل بھی اس کو تسلیم کرے گا کہ یہ ﷲ کی طرف سے عطاء ہے، جو چیز آسمانی ہوتی ہے زمین والے اس میں آسمانی خوشبو ضرور محسوس کرتے ہیں اور جو زمین کی چیز ہوتی ہے اس میں زمین کی بو آسمان والے محسوس کرتے ہیں۔ اب میں وہ تین جملے سناتا ہوں اگر آپ اس پر عمل کرلیں تو ان شاء ﷲ کبھی گمراہ نہیں ہو سکتے اور دنیا کی رنگینیوں میں پھنس کر اس سے دھوکہ نہیں کھائیں گے اور نفس کی خواہشات میں پھنس کر تباہ نہیں ہوں گے:

(۱)جس دنیا سے ہمیشہ کے لیے جانا(۲) اور پھر کبھی لوٹ کر نہ آنا (۳)ایسی دنیا سے کیا دل لگانا ۔

بتاؤ! ہمارے باپ دادا جو دنیا سے رخصت ہوگئے کیا ان میں آج تک کوئی لوٹ کر آیا ہے، ان کی بلڈنگ، ان کی قالین اور ان کا کاروبار، ان کے ٹھاٹ باٹ کچھ ان کے لیے مفید ہیں؟ سوا ئے اس کے کہ ﷲ کی محبت دل میں ہو، بس ایک ہی سامان ہم ﷲ کے یہاں لے جاسکیں گے، جب ہماری روح نکل جائے گی اور ہمیں نہلایا جائے گا اور کفن دیاجائے گا اور قبر میں داخل کیا جائے گا تونہ مکان جائے گا، نہ بیوی بچے جائیں گے، ہمارے ساتھ صرف ایک نعمت جائے گی  اور وہ نعمت ﷲ کی رضا اور اس کی محبت اور نیک اعمال اور اہل ﷲ کی دعائیں ہیں۔ بس یہ خزانے ساتھ جائیں گے، اس کے علاوہ اور کچھ نہیں جائے گا۔ 

اس ملفوظ پر آج کی مجلس اختتام کو پہنچی آخر میں حضرت والا نے درد بھری دُعا بھی فرمائی۔۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries