مجلس۲۸۔ مئی۲۰۱۴ء مراقبۂ فنائیتِ حُسن!

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں(کلک کریں)

خلاصۂ مجلس:محبی و محبوبی مرشدی و مولائی حضرت والا دامت برکاتہم کی آمد میں کچھ تاخیر تھی، حضرت کے حکم پر جناب مصطفیٰ صاحب نے پہلے حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کے نعتیہ اشعار سنائے مجلس میں رونق افروز تھے پھر حضرت اقدس میر صاحب دامت برکاتہم کے حمدیہ اشعار بھی پیش کئے، اتنے میں حضرت والا مجلس میں تشریف لے آئے اور اشعار جاری رکھنے کا فرمایا،یہ سلسلہ تقریبا۳۰ منٹ جاری رہا اس کے بعد جناب ممتاز صاحب کو معارفِ ربانی سے ملفوظات پڑھنے کا فرمایا، درمیان درمیان میں چند ملفوظات کی تشریح بھی فرمائی اور تقریباً ۳۸ منٹ پر حضرت نے اپنے اشعار خود ترنم نے سنا کر تمام حاضرینِ مجلس کو مسرور فرمادیا ۔۔ آج کی مجلس تقریباً ۱ گھنٹہ ۵ منٹ تک جاری رہی۔۔۔۔

ملفوظاتِ معارف ربانی

محابیبِ اربعہ یعنی چار محبوب چیزیں: اَلْحَمْدُ ِﷲِ وَکَفٰی وَ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی اَمَّا بَعْدُ وَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ حُبَّکَ اَحَبَّ اِلَیَّ مِنْ نَّفْسِیْ وَاَہْلِیْ وَمِنَ الْمَآئءِ الْبَارِدِ (سننُ الترمذی،کتابُ الدعوات، باب ماجآء فی عقد التسبیح بالید، ج:۲، ص:۱۸۷)

دنیا کا مسلمہ اور بین الاقوامی تسلیم شدہ قاعدہ ہے کہ جہاں انسان کو کچھ دن رہنا ہوتا ہے اور پھر آخر میں اپنے اصلی مقام یعنی وطن جانا ہوتا ہے تو پردیس میں تعمیرِ وطن کے لیے وہ خوب محنت کرتا ہے، کسی شخص کو آپ نہیں دیکھیں گے کہ وہ پردیس میں کمانے کے لیے آیا ہو اور وہاں آرام سے خراٹا مار کر سو رہا ہو اور کچھ نہ کرتا ہو کیونکہ جو شخص پردیس میں کمائی پر سستی کرگیا اس کا وطن تباہ و برباد ہوگیا، جب وطن جائے گا تو وہاں اس کو پردیس کی کمائی کا جواب دینا ہوگا جب مختلف لوگ اس سے سوال کریں گے کہ بھائی کیا لائے ہو؟ ایک تابعی سے کسی نے پوچھا کہ حضرت! کوئی نصیحت کیجئے تو انہوں نے کہا کہ بھائی نصیحت یہ ہے:

اِعْمَلْ لِلدُّ نْیَا بِقَدْ رِ مَقَامِکَ فِیْھَا وَ اعْمَلْ لِلْاٰخِرَۃِ بِقَدْ رِ مَقَامِکَ فِیْھَا

دنیا کے لیے اتنی محنت کرو جتنا دنیا میں رہنا ہے اور آخرت کے اتنی محنت کرو کہ جتنا وہاں رہنا ہے اور وہاں تو اتنا رہنا ہے کہ وہاں سے پھر لوٹ کر نہیں آنا ہے۔ میرے تین جملے آسمانی ہیں جن کو میں عطاء حق سمجھتا ہوں اور یہ میرا مخترعہ اور گھڑا ہوا نہیں ہے اور آپ کا دل بھی اس کو تسلیم کرے گا کہ یہ اﷲ کی طرف سے عطاء ہے، جو چیز آسمانی ہوتی ہے زمین والے اس میں آسمانی خوشبو ضرور محسوس کرتے ہیں اور جو زمین کی چیز ہوتی ہے اس میں زمین کی بو آسمان والے محسوس کرتے ہیں۔ اب میں وہ تین جملے سناتا ہوں اگر آپ اس پر عمل کرلیں تو ان شاء اﷲ کبھی گمراہ نہیں ہو سکتے اور دنیا کی رنگینیوں میں پھنس کر اس سے دھوکہ نہیں کھائیں گے اور نفس کی خواہشات میں پھنس کر تباہ نہیں ہوں گے:

(۱)جس دنیا سے ہمیشہ کے لیے جانا (۲) اور پھر کبھی لوٹ کر نہ آنا (۳) ایسی دنیا سے کیا دل لگانا ۔

حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ نے ایک صاحب کے بیٹے کو نصیحت فرماتے ہوئے یہ مندرجہ بالا ملفوظ ارشاد فرمایا، اُس کا اثر یہ ہوا کہ اُن صاحب کے چاروں بیٹوں نے ڈارھی رکھ لی، اور پھر حضرت والا کی برکت سے یہ اشعار ہوگئے تھے

جس جہاں سے ہمیشہ کو جانا
اور کبھی لوٹ کر نہ آنا
یہ ہے ارشادِ قطبِ زمانہ
 ایسی دنیا سے دل کیا لگانا

ارض و سماء کیسے ہیں معلق
کوئی ستوں ہے اور نہ کوئی تھم
سارا عالم ہے بے کالم
واہ رے میرے رب العالم

پھر حضرت والا نے ترنم سے مندرجہ بالا اشعار سنا کر تمام احباب کو مسرور فرمادیا

بتاؤ! ہمارے باپ دادا جو دنیا سے رخصت ہوگئے کیا ان میں آج تک کوئی لوٹ کر آیا ہے، ان کی بلڈنگ، ان کی قالین اور ان کا کاروبار، ان کے ٹھاٹ باٹ کچھ ان کے لیے مفید ہیں؟ سوا ئے اس کے کہ اﷲ کی محبت دل میں ہو، بس ایک ہی سامان ہم اﷲ کے یہاں لے جاسکیں گے، جب ہماری روح نکل جائے گی اور ہمیں نہلایا جائے گا اور کفن دیاجائے گا اور قبر میں داخل کیا جائے گا تونہ مکان جائے گا، نہ بیوی بچے جائیں گے، ہمارے ساتھ صرف ایک نعمت جائے گی  اور وہ نعمت اﷲ کی رضا اور اس کی محبت اور نیک اعمال اور اہل اﷲ کی دعائیں ہیں۔ بس یہ خزانے ساتھ جائیں گے، اس کے علاوہ اور کچھ نہیں جائے گا۔ 

پہلا محبوب …حسین صورتیں: ایک دن مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی شفیع صاحب رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا کہ غالب نے کہاتھا کہ   ؎

چند تصویرِ بتاں، چند حسینوں کے خطوط
بعد مرنے کے میرے گھر سے یہ ساماں نکلا

فرمایا کہ میں نے اس شعر میں ترمیم کردی اور اس شعر کو یوں کردیا   ؎

چند اوراقِ کتب، چند بزرگوں کے خطوط
بعد مرنے کے میرے گھر سے یہ ساماں نکلا

جو لوگ حسینوں سے خط و کتابت کرتے ہیں شیطان ان کو پٹواتا ہے، حدیث میں آتا ہے کہ عورتیں شیطان کا جال ہیں، جو ان کو دیکھے گا وہ اس کو اپنے جال میں پھنسا لے گا۔ ایسے لوگوں کا وہی حال ہوتا ہے جو غالب کہتا ہے کہ جب میں مرجاؤں گا اور میرے گھر کی تلاشی ہوگی کہ دیکھیں غالب صاحب نے کیا ترکہ اور میراث اور کون سی دولت چھوڑی ہے تو میرے صندوق میں حسینوں کی چند تصویریں ہوں گی اور ان کے چند خطوط ہوں گے اور اس خط میں کیا لکھا ہوگا تھوڑا سا آپ کو بتائے دیتا ہوں تاکہ آپ لوگوں کا انتظار ختم ہوجائے۔ اس میں  غالب نے لکھا ہوگا    ؎

دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے

میں تو اس میں ترمیم کر کے کہتا ہوںکہ   ؎

اس کے پیچھے سے یہ ہوا کیا ہے؟ 

کیوں بدبو دار گندی چیز کے پیچھے پڑے ہوئے ہو؟ گناہ کے سارے مراکز گندی جگہ ہیں۔ اﷲ جزائے خیر دے مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃا اﷲ علیہ کو، فرماتے ہیں کہ آپ کو دنیا میں کوئی بزنس مین اچھامال دِکھا کر خراب مال دے دے تو آپ اس گلی سے گذرتے بھی نہیں بلکہ سات پشتوں کو نصیحت کردیتے ہیں کہ فلاں بزنس مین فراڈی ہے کبھی اس سے مال مت خریدنا کیونکہ یہ ظالم مال کا اچھا نمونہ دِکھا کر خراب مال بیچ دیتاہے لیکن شیطان سے آپ بار بار دھوکہ کھاتے ہیں جو اپنے مال کے تین نمونے دِکھاتا ہے یعنی حسینوں کی آنکھ، حسینوں کے گال اور ان کے کالے بال، اب آدمی سمجھتا ہے کہ واہ بھائی! یہ تو بہت اچھا مال ہے۔ اسے میری بات نہ سمجھنا، حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی نور اﷲ مرقدہ فرماتے ہیں کہ شیطان ان مالوں میں سب کو پھنسالیتاہے ملا کو بھی، صوفی کو بھی اور پیر کو بھی اگر اﷲ کا فضل واحسان اس پیر کے شاملِ حال نہ ہو، اب جب وہ اس کے جال میں پھنس گیا کہ واہ واہ شیطان کامال تو بہت اچھا ہے، آنکھیںغضب کی ہیں، بڑی خطرناک ہیں اور کالے بال بھی غضب کے ہیں اور دیکھو اس کے ہونٹ کیسے نازک ہیں   ؎

نازکی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھٹری اک گلاب کی سی ہے

یعنی وہ مال کا اچھا حصہ دِکھاتا ہے۔ مگر حکیم الامت فرماتے ہیں کہ جس نے شیطان کا یہ مال خرید لیا یعنی حسینوں کے گال، کالے بال اور ان کی آنکھیں پھر اس کو شیطان بعد میں کون سا مال دیتا ہے؟ پاخانہ اور پیشاب کا مقام! تو یہ آخری اسٹیشن کتنی خراب جگہ ہے، اس گندی جگہ پہنچا کر پھر وہ بندوں کی ڈاڑھیوں اور ٹوپیوں کی آبروؤں کو نقصان پہنچاتا ہے اور ایمان کو تباہ کردیتا ہے۔ کیااس میں آپ لوگوں کو شک ہے بھائی؟ جو مال وہ دکھاتا ہے اس کے مقابلے میں جہاں آخرمیں وہ پہنچاتا ہے وہ مال گنداہے یا نہیں؟ یہ پیشاب پاخانہ کے مقامات گندے ہیں کہ نہیں؟ اور اس کے بعد جو ذلت و رُسوائی ہوئی وہ الگ رہی۔ اس کے برعکس اﷲ کے عشق ومحبت میں ہرطرف عزت ہوتی ہے، اﷲ کی محبت میں کوئی اپنے شیخ پر عاشق ہوتا ہے تو ا س کا نام بھی چمک جاتا ہے۔ دیکھو خواجہ عزیز الحسن مجذوب ؔحضرت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ کے عاشق تھے، امیر خسرو رحمۃ اﷲ علیہ خواجہ نظام الدین اولیاء کے عاشق تھے اور مولانا رومی رحمۃا اﷲ علیہ اپنے پیر شمس الدین تبریزی کے عاشق تھے۔ مولانا رومی فرماتے ہیں   ؎

مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم
تا غلامِ شمس تبریزی نہ شد

اے دنیا والو! جلال الدین رومی کو لوگ ملاملا کہتے تھے لیکن وہ مولائے روم کب بنا؟ جب شمس الدین تبریزی کی غلامی کی اور یہ غلامی کرنے والا کوئی غریب ملّا نہیں تھا، مولانا رومی شاہ خوارزم کے سگے نواسے تھے، مثنوی میں ان کے ساڑھے اٹھائیس ہزار اشعار ہیں جو عشقِ الٰہی کا آتش فشاں ہیں اور یہ اس مقام کے بزرگ تھے کہ ایک مہینہ پہلے ان کو معلوم ہوگیا تھاکہ اب میرا انتقال ہونے والا ہے، بزرگوں کو بعض وقت کشف ہوجاتا ہے جیسے جگر ؔکے تہجد گذار، اﷲ والے استاد اصغر گونڈوی کو معلوم ہوگیا تھا کہ اب میں زندہ نہیں رہوں گا اور یہ آخری شعر کہا جس کے بعد کوئی کلام نہیں ہوا   ؎

وہ اُٹھی موجِ مے، وہ جام ومینا میں تلاطم ہے
جہانِ بے نشاں سے دعوتِ پرواز ہے ساقی

فرماتے ہیں کہ اﷲ کی محبت کے جام ومینا اور دریائے رحمت میں تلاطم ہے یعنی میرا اﷲ مجھے بلا رہا ہے، میری روح کو پرواز کے لیے دعوت نامہ آرہا ہے۔ اسی طرح مولانا رومی کے انتقال سے ایک مہینہ پہلے قونیہ میں زلزلے کے جھٹکے آنا شروع ہوئے، مولانا نے اعلان فرمایا کہ زمین بھوکی ہے، لقمۂ تر چاہتی ہے اور جس دن جنازہ دفن ہوا زلزلے آنے ختم ہوگئے، یہ ہیں اﷲ والے۔ بس جس نے بھی اﷲ پر اپنے کو فد اکیا اور اﷲ کے لیے اﷲ والوں پر اپنے کو فدا کیا تو اﷲ نے دنیا میں بھی ان کی عزت رکھی اور مرنے کے بعد بھی ان کے تذکرے قائم رہے   ؎

نیکواں رفتند و سنّت ہا بماند
و از لئیماں ظلم و لعنت ہا بماند

نیک بندے چلے گئے مگر ان کی نیکیوں کے تذکرے ہوتے ہیں اور کمینے لوگ چلے گئے مگر ان کے کمینے پن اور بدمعاشیوں کے تذکرہ ہوتے ہیں کہ بڑا بدمعاش تھا، بڑا خبیث تھا۔ اس پر میرا شعر ہے   ؎

عشقِ مجازی کا میر ملتا ہے بس یہ صلہ
ہر طرف آواز سنی دھت تری بد معاش کی

کرسچین عورتوں اور ٹیڈیوں کے عشق سے یعنی عشقِ مجازی اور غیر اﷲ سے دل پھنسانے سے کیا ملتا ہے؟ اگر آپ کو معلوم ہوجائے کہ کوئی شخص فلاں لڑکے یا فلاں لڑکی کے عشق میں مبتلا ہے تو دل میں اس کی ذلت آتی ہے اور اگر بدفعلی کے گناہ میں مبتلا ہوجائے تو فاعل اور مفعول ایک دوسرے کی نگاہ میں ذلیل ہوجاے ہیں اور بعد میں وہ ایک دوسرے سے دعا بھی نہیں کرائیں گے کیونکہ جانتے ہیں کہ دونوں نے شیطانی کام کیا ہے اور شیطان شیطان سے دعا نہیں کراتا بلکہ گناہ کرنے سے پہلے جو عزت تھی وہ خاک میں مل جاتی ہے اور بزرگ سمجھ کر جو لڑکی کہتی تھی کہ حضرت دعاؤں میں ہم کو یاد رکھیے گا گناہ کرنے کے بعد وہی لڑکی اب اس کو بابا نہیں کہتی بلکہ پاپا (پاپ کرنے والا) کہتی ہے اور لڑکا بھی ایسے نالائق سے کبھی دعا کے لیے نہیں کہے گا کہ حضرت میرے لیے دعا کرنا اور عالی جناب بھی نہیں کہے گا ہاں جنابت سے جناب کہہ سکتا ہے۔ اس پر میرا شعر سنئے، میری شاعری محض اﷲ کے لیے اور اصلاحِ نفس کے لیے ہوتی ہے   ؎

عشقِ مجازی کا میر ملتا ہے بس یہ صلہ
ہر طرف آواز سنی دھت تری بدمعاش کی

اس کے برعکس اگر اﷲ کا کوئی نیک بندہ سمندر کے کنارے سجدہ میں رورہا ہو اور آپ دور سے اسے دیکھ رہے ہوں کہ دامنِ کوہ میں سمندر کے ساحل پر ایک بندہ اﷲ کو یاد کررہا ہے اور اشکبار آنکھوں سے دعائیں مانگ رہا ہے تو بتائیے کہ آپ کا دل اس کے پاس جانے کو چاہے گا یا نہیں؟ دل چاہے گا کہ ہم بھی چل کراس سے دعا لے لیں۔ اس لیے عرض کرتا ہوں کہ ایک دن یہ زندگی بے وفائی کرکے ہم کو قبروں میں ڈالنے والی ہے۔ میں آپ سب حضرات سے پوچھتا ہوں، علماء حضرات سے بھی، تاجر حضرات سے بھی اور جوانوں سے بھی پوچھتا ہوں کہ مرنے کے بعد کس کی محبت کام آئے گی؟ اگر کسی عورت یا حسین لڑکے سے دل لگایا تو ایک دن وہ عورت بڈھی اور لڑکا بڈھا ہوجائے گا یا نہیں؟ اور بڈھے بھی کیسے ہوں گے اس پر میرے شعر سن لیجیے   ؎

کمر جھک کے مثلِ کمانی ہوئی
کوئی نانا ہوا کوئی نانی ہوئی
اُن کے بالوں پہ غالب سفیدی ہوئی
کوئی دادا ہوا کوئی دادی ہوئی

یہی جوانی اگر خدا پر فدا ہوتی تو ولی اﷲ ہوجاتے۔ آہ یہ جوانی کہاں برباد ہوئی! جو جوانی خدا پر فدا ہوتی ہے اﷲ اس کو بے شمار جوانی دیتا ہے، روح میں ہزاروں جوانیوں کا کیف ڈال دیتاہے، اﷲ اپنے اوپر مرنے والوں پربے شمار حیات برسادیتا ہے، جو زندگی خدا پر فدا ہوتی ہے اس زندگی پر بے شمار زندگی برستی ہے، اس کی حیات درحقیقت حیات ہے باقی تو سب مردے ہیں، مُردوں پر مرنے والا کیسے حیات پاسکتا ہے، اگر آپ قبرستان میں دو مُردوں کو دیکھیں کہ ایک دوسرے سے لپٹے ہوئے ہیں اور بوس وکنار ہورہا ہے تو آپ کو دیکھ کر ہنسی آئے گی یا نہیں کہ دیکھو ان کم بختوں کو کہ مرنے کے بعد بھی باز نہیں آرہے۔ اسی طرح یہ جوسڑکوں پر پھر رہے ہیں کیا یہ مردے نہیں ہیں؟ جن کا انجام مردہ ہونا ہے وہ کیا زندہ ہیں، زندگی تو مرنے کے بعد شروع ہوگی لہٰذا اﷲ والوں کو ان پر بھی ترس آتا ہے کہ آہ کہاں زندگی ضائع کررہے ہیں، مرنے کے بعد کیا ہوگا۔
میں نے پشاور کے میڈیکل کالج میں طلبہ سے کہا کہ دیکھو تم جو ٹیڈیوں کے ساتھ اسٹیڈی کررہے ہو تو سچ سچ بتاؤ کہ تمہارا حافظہ کمزور ہے یانہیں؟ تمہاری پنڈلیوں میں ہلکا ہلکا درد ہوتا ہے یا نہیں؟ تمہارے ارادوں میں پستی اور دل میں کمزوری آگئی ہے کہ نہیں؟ بلی کودتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ شیر آگیا ہے، تمہارے خیالات میں بلندی باقی نہیں رہی، تم پر ہر وقت مایوسی چھائی رہتی ہے اور نیند بھی مشکل سے آتی ہے، دیر تک بیٹھنے کے بعد جب کھڑے ہوتے ہو تو آنکھوں کے آگے اندھیرا آجاتا ہے، جو کچھ یاد کرتے ہو وہ سب بھول جاتا ہے اس کاسبب یہ ہے کہ تم ٹیڈی کے ساتھ اسٹیڈی کرتے ہو۔ جب میں نے یہ بات پیش کی تو میڈیکل کالج کے طلبہ نے بعد میں میرا پتا نوٹ کیا اور کہا کہ آپ ہماری بیماری کے ماہر ہیں، آپ نے ہماری بیماریوں کا ایکسرے کردیا ہے۔ میں نے کہا کہ اﷲ کی رحمت سے میںنے جوانوں کے معاملہ میں اسپیشلسٹ کا کورس کیا ہے، تخصص کیا ہے کیونکہ جوانی ہی میں میں حکیم ہوگیاتھا، اس لیے ہر جوان کو دیکھ کر پہچان لیتا ہوں کہ یہ کس حالت میں ہے ،اس کی نظر سے نظر ملی تو اس کا سارا جغرافیہ اور تاریخ فوراً ذہن میں آجاتی ہے   ؎

اسعد کو عاشقی میں حاصل ہیں دستگاہیں
پہچانتا ہے ظالم ہر قسم کی نگاہیں

یہ مولانا اسعد اﷲ صاحب رحمۃا اﷲ علیہ کا شعر ہے جو حکیم الامت کے خلیفہ تھے، عالم اور محدث تھے، ان کا ایک اور شعر یاد آیا، بڑا اصلاحی شعر ہے، ا س کو ضرور نوٹ کرلیں، فرماتے ہیں   ؎

عشقِ بتاں میں اسعد کرتے ہو فکرِ راحت
دوزخ میں ڈھونڈتے ہو جنت کی خوابگاہیں

یعنی اے اسعد! تجھے اﷲ نے پیدا کیا ہے تو کہاں حسینوں کے چکر میں پڑا ہوا ہے۔ یہ ایک عالِمِ ربانی کا شعر ہے کہ جو لوگ حسینوں کے چکر میں ہیں وہ دوزخ میں آرام گاہیں ڈھونڈ رہے ہیں، بھلا دوزخ میں بھی کہیں آرام ہے اور حسینوں سے متعلق خواجہ صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کا شعر ہے   ؎

نکالو یاد حسینوں کی دل سے اے مجذوبؔ
خدا کا گھر پئے عشقِ بتاں نہیں ہوتا

آج میں دنیا کے محابیب کا تذکرہ کرتا ہوں، ایک طبقہ کا میں نے تذکرہ کردیا کہ یہ سب فنا ہونے والے ہیں، ا ن حسینوں کی جوانی پر بڑھاپا آنے والا ہے پھر تم مفت میں بھی ان کو نہیں پوچھوگے، ایک زمانہ آئے گا جب حسین لڑکے ستّر سال کے بڈھے ہوجائیں گے اور حسین لڑکیاں ستّر سال کی بڈھیاں ہوجائیں گی تب ان کو پوچھو گے؟

حسینوں کی فنائیت کا مراقبہ: آپ کو یاد ہوگا کہ گذشتہ سال جب میں یہاں آیا تھا تو اخباروں میں شائع ہوا تھا کہ آج نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ساحلِ سمندر پر ننگے نہائیں گے تو بعض مسلمان نوجوانوں نے مجھ سے کہا کہ اس خبر سے تو دل پاگل ہور ہاہے، دل چاہتا ہے کہ ہم بھی جائیں، اس کا کوئی علاج بتائیے۔ میں نے کہا کہ اس کا علاج بہت آسان ہے، جن حسینوں کے بارے میں ریڈیو فرانس نے اعلان کیا ہے کہ وہ آج ساحلِ سمندر پر ننگے نہائیں گے، ان کے بارے یہ مراقبہ کرو کہ یہ سب ستر سال کے بڈھے اور ستر سال کی بڈھیاں ہیں اور ستر سال کا بڈھا رکوع کی حالت میں ہے اور گیارہ نمبر کا چشمہ لگایا ہو اہے اور منہ میں دانت بالکل نہیں ہیں، لیکن پیٹ میں آنت ہے اور بڈھی جو ہے اس کی کمر بھی جھکی ہوئی ہے، رکوع کی حالت میں ہے، گیارہ نمبر کا چشمہ لگا ہوا ہے اور منہ میں ایک بھی دانت نہیں ہے بلکہ دونوں بڈھا بڈھی ساحلِ سمندر پر اپنے اپنے دانتوں کو نکال کر برش کررہے ہیں، خلاصہ یہ کہ ان باتوں کا مراقبہ کرو۔ تو جن کو میں نے یہ مراقبہ سکھایا انہوں نے کہا کہ آپ نے ایسا اچھا علاج بتایا کہ الحمدﷲ دل کو سکون مل گیا، اسلام کا بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے ان چیزوں کو ہم پر حرام کرکے ہمیں حرام کام سے بچالیا۔ اس مراقبہ سے بہت فائدہ ہوا کہ ریڈیو فرانس اگر اعلان کردے کہ آج ساحل پر بڈھی بڈھے ننگے نہائیں گے، جوان کو دیکھے گا اسے ایک ایک سوفرینک ملے گا تو بھی کوئی نہیں جائے گا کیونکہ آپ نے ان حسینوں کی صورت کا جو نقشہ کھینچا ہے اس سے دل میں کراھت پیدا ہوگئی۔ اس پر میرا ایک شعرہے جو ا س وقت یاد آگیا   ؎

اِدھر جغرافیہ بدلا اُدھر تاریخ بھی بدلی
نہ ان کی ہسٹری باقی نہ میری مسٹری باقی

جب حسینوں کا جغرافیہ بدل جائے گا تو عاشقوں کی تاریخیں بدل جائیں گی۔ اگر غیر اﷲ سے دل نہیں چھڑاؤ گے تو اﷲ کو نہیں پاؤ گے۔ اسی لیے اﷲ نے کلمہ میں لا الٰہ پہلے بیان کیا کہ جب تک باطل خداؤں سے یعنی غیر اﷲ سے دل نہیں چھڑاؤ گے اﷲ نہیں ملے گا، اور باطل خداؤں میں یہ حسین بھی شامل ہیں، ورنہ لوگ کہیں گے کہ یہاں تو بتوں سے وہ بت مراد ہیں جو ہندو پوجتے ہیں لیکن میں قرآن پاک سے اس کو ثابت کرتا ہوں کہ یہ حسین بھی اس میں شامل ہیں۔ اب دلیل سنیے اَفَرَأَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰہَہُ ھَوَاہُ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کیا آپ نے ان نالائقوں کو دیکھا جنہوں نے اپنے نفس کی خواہشات کو اپنا الٰہ اور خدا بنایا ہوا ہے۔ اب اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہوسکتی ہے کہ قرآنِ پاک میں خواہشاتِ نفسانیہ کو الٰہ سے تعبیر کیا ہے، زِنا کاری اور بدکاری کی تمام خواہشات الٰہ ہیں یا نہیں؟ اس لیے میں نے جس جگہ اپنا یہ شعر سنایا تو لوگوں نے اس کو بہت پسند کیا۔۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries