مجلس۲۹۔ مئی۲۰۱۴ء اللہ تعالیٰ عشق کے راستے سے ملتے ہیں!

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں(کلک کریں)

خلاصۂ مجلس:محبی و محبوبی مرشدی و مولائی حضرت والا دامت برکاتہم  مجلس میں رونق افروز تھے۔ جناب اثر صاحب حضرت کے حکم پراشعار سنائے، اس کے بعد جناب رمضان صاحب نے حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کے مختصر اشعار پیش کیے ۔ یہ سلسلہ تقریبا۳۰ منٹ جاری رہا اس کے بعد جناب ممتاز صاحب کو معارفِ ربانی سے ملفوظات پڑھنے کا فرمایا، درمیان درمیان میں چند ملفوظات کی تشریح بھی فرمائی اور  ۔۔ آج کی مجلس تقریباً ۱ گھنٹہ ۵ منٹ تک جاری رہی۔۔۔۔

تشریح اشعار

سب سے بڑا مجاہدہ اس زمانے میں نگاہ کی حفاظت ہے، جو یہ کرلے گا اور گناہ چھوڑنے آسان ہوجائیں گے۔

نگاہ کی حفاظت کرلو سارے گناہ چھوٹ جائیں گے، اس ضمن میں ایک صاحب کے جذب کا واقعہ بیان فرمایا

نبضِ اُمت پر ہاتھ مجدد کا ہوتا ہے، حضرت والا شروع سے ہی نگاہ کی حفاظت کا مضمون بیان کرتے تھے، اس پر بعض لوگوں کو اعتراض بھی ہوتا تھا، حضرت والا فرماتے تھے کہ میں عریانی اور فحاشی کا طوفان دیکھ رہا ہوں اور جہاں کالرہ پھیلاہوتا وہاں حکیم نزلے کا علاج کرتا ہے یا کالرہ کا علاج کرتا ہے اور فرماتے تھے میں اپنی عزت کو داؤ پر لگا کر یہ مضمون بیان کرتا ہو

مجدد جو ہوتا ہے وہ موید من اللہ ہوتا ہے بھیجا جاتا ہے، ہر صدی کے سرے پر ایک مجدد بھیجا جاتا ہے جو شعبہ دین کے اوجھل ہوگئے تھے اُس کو ظاہر کردیتاہے، حضرت کے اس مجددانہ کام کا اعتراف کئی اکابر علماء کرام سے کیا۔ کہ عمل کی توفیق

وہی نصیحت کرے گا جو گناہ سے بری ہوگا، اور حضرت والا تو بچپن سے ولی تھے، اس ضمن میں حضرت والا کے حالاتِ زندگی بیان فرمانا شروع کیے۔

جو کچھ کسی کو ملا ہے عشق سے ملا ہے،خالی عقل سے ملا۔

اللہ عشق کے راستے سے ملتا ہے اور عشق اہل عشق سے ملتا ہے، خالی مجاہدات سے بھی اللہ کا راستہ طے نہیں ہوتا اس پر ایک عمدہ مثال بیان فرمائی۔ اہل اللہ کے بغیر جو مجاہدات کرتے ہیں وہ کورے کے کورے رہتے ہیں، امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کی مرشد کی تلاش کا قصہ بیان فرمایا۔۔ مرشد کی صحبت سے امام غزالی ، امام غزالی ہوئے۔

جو اللہ والوں کے صحبت یافتہ ہیں مرنے کے بعد اور قیامت تک اُن کا صدقہ جاریہ اور فیض جاری رہتا ہے۔

دشمنوں کو مٹی کا عیش دے دیا اور وہ اِسی میں مست ہیں، لیکن اللہ والوں کو گناہوں سے بچنے کا غم دے دیا۔ اور اس غم میں خوشی کا مزہ اہل اللہ کو ہی ملتا ہے، بظاہرغم ہیں لیکن دل میں خوشی

جس نے اللہ کے خوف سے نگاہ بچالی تو وہ ایمان کی حلاوت کو اپنے دل میں پائے گا، یہ خیالی باتیں ہیں نبوت کا کلام ہے۔

مال کی کمی نہیں چاروں طرف عیش ہی عیش لیکن کافر جو ہوتا ہے اُس کی نظر صرف اسباب پرہوتی ہے اس لئے جب اسباب ختم ہوتے ہیں تو وہ خودکشیاں کرلیتے ہیں اور مومن چاہے فاسق فاجرہی ہو پھر بھی اُس کی نظر اللہ پر ہوتی ہے، اس لئے خودکشی نہیں کرتے۔

کافروں کا عیش عیش نہیں ہے صرف بےچینی ہے۔ اس پر حضرت والا نے ایک غیر مسلم کی بے چینی اور بے سکونی کا قصہ بیان فرمایا۔

ری یونین والوں نے کہا کہ ہمارا مرض کا صرف حضرت والا نے ہی حسن کا پوسٹ مارٹم کیا اور حسن کی عظمت دل سے نکل گئی  ۔ ۔ ۔ آہ! جس جس حضرت والا نکل گئے وہان دینی انقلاب آگیا

ملفوظاتِ معارف ربانی

حسینوں کی فنائیت کا مراقبہ: آپ کو یاد ہوگا کہ گذشتہ سال جب میں یہاں آیا تھا تو اخباروں میں شائع ہوا تھا کہ آج نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ساحلِ سمندر پر ننگے نہائیں گے تو بعض مسلمان نوجوانوں نے مجھ سے کہا کہ اس خبر سے تو دل پاگل ہور ہاہے، دل چاہتا ہے کہ ہم بھی جائیں، اس کا کوئی علاج بتائیے۔ میں نے کہا کہ اس کا علاج بہت آسان ہے، جن حسینوں کے بارے میں ریڈیو فرانس نے اعلان کیا ہے کہ وہ آج ساحلِ سمندر پر ننگے نہائیں گے، ان کے بارے یہ مراقبہ کرو کہ یہ سب ستر سال کے بڈھے اور ستر سال کی بڈھیاں ہیں اور ستر سال کا بڈھا رکوع کی حالت میں ہے اور گیارہ نمبر کا چشمہ لگایا ہو اہے اور منہ میں دانت بالکل نہیں ہیں، لیکن پیٹ میں آنت ہے اور بڈھی جو ہے اس کی کمر بھی جھکی ہوئی ہے، رکوع کی حالت میں ہے، گیارہ نمبر کا چشمہ لگا ہوا ہے اور منہ میں ایک بھی دانت نہیں ہے بلکہ دونوں بڈھا بڈھی ساحلِ سمندر پر اپنے اپنے دانتوں کو نکال کر برش کررہے ہیں، خلاصہ یہ کہ ان باتوں کا مراقبہ کرو۔ تو جن کو میں نے یہ مراقبہ سکھایا انہوں نے کہا کہ آپ نے ایسا اچھا علاج بتایا کہ الحمدﷲ دل کو سکون مل گیا، اسلام کا بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے ان چیزوں کو ہم پر حرام کرکے ہمیں حرام کام سے بچالیا۔ اس مراقبہ سے بہت فائدہ ہوا کہ ریڈیو فرانس اگر اعلان کردے کہ آج ساحل پر بڈھی بڈھے ننگے نہائیں گے، جوان کو دیکھے گا اسے ایک ایک سوفرینک ملے گا تو بھی کوئی نہیں جائے گا کیونکہ آپ نے ان حسینوں کی صورت کا جو نقشہ کھینچا ہے اس سے دل میں کراھت پیدا ہوگئی۔ اس پر میرا ایک شعرہے جو ا س وقت یاد آگیا   ؎

اِدھر جغرافیہ بدلا اُدھر تاریخ بھی بدلی
نہ ان کی ہسٹری باقی نہ میری مسٹری باقی

جب حسینوں کا جغرافیہ بدل جائے گا تو عاشقوں کی تاریخیں بدل جائیں گی۔ اگر غیر اﷲ سے دل نہیں چھڑاؤ گے تو اﷲ کو نہیں پاؤ گے۔ اسی لیے اﷲ نے کلمہ میں لا الٰہ پہلے بیان کیا کہ جب تک باطل خداؤں سے یعنی غیر اﷲ سے دل نہیں چھڑاؤ گے اﷲ نہیں ملے گا، اور باطل خداؤں میں یہ حسین بھی شامل ہیں، ورنہ لوگ کہیں گے کہ یہاں تو بتوں سے وہ بت مراد ہیں جو ہندو پوجتے ہیں لیکن میں قرآن پاک سے اس کو ثابت کرتا ہوں کہ یہ حسین بھی اس میں شامل ہیں۔ اب دلیل سنیے اَفَرَأَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰہَہُ ھَوَاہُ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کیا آپ نے ان نالائقوں کو دیکھا جنہوں نے اپنے نفس کی خواہشات کو اپنا الٰہ اور خدا بنایا ہوا ہے۔ اب اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہوسکتی ہے کہ قرآنِ پاک میں خواہشاتِ نفسانیہ کو الٰہ سے تعبیر کیا ہے، زِنا کاری اور بدکاری کی تمام خواہشات الٰہ ہیں یا نہیں؟ اس لیے میں نے جس جگہ اپنا یہ شعر سنایا تو لوگوں نے اس کو بہت پسند کیا۔

آپ کو یاد ہوگا کہ ایک مرتبہ جب میں یہاں آیا تھا تو ایک دوست نے کہا کہ یہاں کرسچین لڑکیاں ڈاڑھی والوں کو اشارہ کرتی ہیں۔ میں نے کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ سمجھتی ہیں کہ پتلون والے آؤٹ آف اسٹاک ہوتے ہیں اور ڈاڑھی والے تقویٰ کی وجہ سے فل آف اسٹا ک ہیں، لہٰذا میںنے اس دوست سے کہا کہ علاج کے لیے ایک شعر بنادیتا ہوں کہ اگر وہ تمہیں اشارہ کریں تو تم یہ اشعار پڑھ لیا کرو   ؎

اس نے کہا کہ کم ہیر، میں نے کہا کہ نو پلیز
اس نے کہا کہ کیا وجہ؟ میں نے کہا خوفِ خدا

تو ایک طبقہ کی فنایت بیان کردی، ویسے تو بہت تفصیل ہے لیکن میں مختصراً عرض کرتا ہوں کہ جس کو حسن پرستی کی، حسینوں کو دیکھنے کی بیماری ہے وہ سوچ لے کہ ایک دن وہ صورتیں ایسی ہوجائیں گی کہ ان کو دیکھنے کو دل تیار نہیں ہوگا اور زندگی حسن پرستی کے چکروں میں بیکار، ضائع اور برباد ہوجائے گی، یہی زندگی اگر خدا پر فدا ہوتی تو ولی اﷲ ہوجاتے اور اگر قیامت کے دن اﷲ نے پوچھ لیا کہ تم کو میں نے کس لیے پیدا کیا تھا؟ کیا تمہاری جوانی اس کام کے لیے تھی؟ کیا تم نے یہ حدیث نہیں سنی تھی کہ شَابٌ نَشَأَ فِیْ عِبَادَۃِ رَبِّہِ کہ جس جوان کی زندگی اﷲ پر فدا ہو اس کوعرش کا سایہ ملے گا؟ اس مجلس میں کوئی ایسا شخص ہے جس نے کسی کا جغرافیہ کے بدلنے کے بعد اس کو دیکھا ہو؟میں ہندوستان سے سن ۱۹۶۰ء میں آیا تھا پھر دوبارہ سن۱۹۷۶ء میں گیا تو جب میں سولہ سال کے بعد گیا تو سولہ سال والے جن دوستوں کو چھوڑ کرآیا تھا وہ بتیس سال کے ہوگئے تھے، ان میں سے بعض دوستوں نے مجھ سے کہا کہ میری بیٹی کے نکاح کے لیے دعا کیجئے کہ کوئی رشتہ مل جائے، اب بتائیے کہ جن کو ہم نے سولہ سال کی عمر میں چھوڑا تھا وہ اپنی لڑکیوں کے رشتے کے لیے ہم سے دعا ؤں کے لیے کہہ رہے تھے اور اب یعنی ۹۳ ۱۹ء میں تو وہ نانا اور دادا ہوگئے ہوں گے۔ تو سولہ برس کے بعد جب میں ہندوستان گیا اور جوان لوگوں کو بوڑھا دیکھا اور حسینوں کے حسن کے آثارِ قدیمہ دیکھے تو اس پر ایک شعر کہا   ؎

سولہ برس کے بعد جو آیا میں ہند میں
کچھ حسن کے آثارِ قدیمہ نظر آئے

اسی لیے عرض کرتا ہوں کہ خدا نہ کرے کہ کسی کی جوانی غیر اﷲ پر برباد ہوجائے، چند دن کی زندگی ہے، سب ختم ہونے والا ہے۔ میر صاحب کو یاد ہوگا کہ میںنے ان کے لیے لاہور میں ایک شعر کہا تھا   ؎

میر مارے گئے ڈسٹمپر سے
ورنہ مٹی کی حقیقت کیا تھی

تو یہ سب مٹی کی عورتیں اور مٹی کے مرد ہیں، قبرستان میں جاکر دیکھ لو کہ مٹی ہوگئے کہ نہیں، اﷲ نے امتحان کے لیے حسن کا ڈسٹمپر لگادیا ورنہ مٹی کی کیا حقیقت تھی، اس پر میرے یہ دوشعر حال ہی میں ہوئے   ؎

خاک ہوجائیں گے قبروں میں حسینوں کے بدن
ان کے ڈسٹمپر کی خاطر راہِ پیغمبر نہ چھوڑ 

بہرحال اس مضمون کی تفصیل دیکھنی ہوتو میری کتاب روح کی بیماریاں اور ان کا علاج پڑھو ان شاء اﷲ آنکھیں کھل جائیں گی۔ یہ صورت پرستی کی بیماری ایسی ہے جو بدفعلی میں مبتلا کردیتی ہے۔

زِنا کی حرمت کے عقلی دلائل: اگر کوئی انگریز لندن میں مجھ سے پوچھے کہ اسلام نے زِنا کو کیوں حرام کیا تو میں اس کو جواب دوں گا کہ اﷲ نے زِنا کو اس لیے حرام فرمایا تاکہ بندے حرامی نہ ہوں حلالی رہیں اس لیے کہ جب وہ دیکھے گا کہ میری اماں کے پاس تو کئی آدمی آرہے ہیں تو اس کو خود شبہ ہوجائے گا کہ نہ جانے میں کس کا ہوں اور اس کو ماں باپ کی محبت بھی نہیں ہوگی کیونکہ اس کو اپنی رگوں میں اپنے باپ کا خون محسوس نہیں ہوگا، وہ سمجھے گا کہ میں لمیڈیڈ ہوں، جس ملک میں عورت دولتِ مشترکہ ہوجائے تو اس میں باپ بھی مشترک ہوں گے اور اس کو پتا ہی نہیں ہوگا کہ میرا باپ کون ہے؟ اس لیے آپ دیکھتے ہیں کہ یورپ اور امریکہ میں جہاں زِنا عام ہے وہاں کے لوگوں میں ماں باپ کی عظمت و محبت نہیں، جہاں بڈھے ہوئے ان کو شہر سے دور اولڈ ہاؤس میں پھینک دیا اور سال میں ایک دفعہ جاکے مل لیے اور وہ بھی بادِلِ نخواستہ، صرف معاشرہ کے خوف سے کہ لوگ کیا کہیں گے، دل میں کوئی احترام نہیں ہوتا، تو یہ کتنا بڑا نقصان ہوا کہ جنہوں نے زِنا کو عام کردیا، اﷲ کی حرام کی ہوئی باتوں پر کوئی توجہ نہ دی بلکہ قانوناً اس کو نافذ کردیا، ایسی قوموں کا آج یہ حال ہے کہ ماں باپ اُس عزت سے محروم ہیں جو اﷲ نے ان کو عطا فرمائی تھی۔
اسی طرح اگر کرسچین لڑکیوں کے متعلق کوئی پوچھے کہ یہ تو کافر ہیں ان سے زِنا کرنے میں کیا حرج ہے؟ پھر ان کے ساتھ اﷲ نے زِنا کو کیوں حرام کیا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ مالک ہے جس طرح چاہے اپنی مملکت میں قانون نافذ کرے لیکن اس کا ایک اور جواب میرے دل میں اﷲ نے یہیں ری یونین میں عطا فرمایا کہ اﷲ کے ہاں مقدمہ چلے گا کہ تم نے زِنا کرکے میری نافرمانی تو کی مگر اس کافرہ سے جو اولاد ہوئی اس کے ذریعہ تم نے ایک دشمنِ خدا کا اضافہ کیا کیونکہ کافرہ عورت اپنی اولاد کو کافر ہی بنائے گی لہٰذا تم نے زِنا کر کے میرے دشمن کی تعداد بڑھائی، اور اگر مسلمان عورت سے زِنا کرتا ہے تو اﷲ دوسرا مقدمہ دائر کریں گے کہ تم نے میرے مومن بندہ کو حرامی کیوں بنایا، جو اولاد اس زِنا سے ہوئی حرامی ہوئی یا نہیں؟ یہ الزامی جوابات ہیں، یہ حقائق جو اختر بیان کررہا ہے کنزالدقائق میں نہیں ملیں گے
۔۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries