اتوار مجلس۱۔ جون۲۰۱۴ء اللہ والوں کی پہچان!

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں(کلک کریں)

خلاصۂ مجلس:محبی و محبوبی مرشدی و مولائی حضرت والا دامت برکاتہم مجلس میں رونق افروز ہوئے جناب اثر صاحب دامت برکاتہم کو اشعار سنانے کا فرمایا انہوں نے اپنے اشعار سنائے جو حضرت نے بہت پسند فرمائے اور خوب تعریف فرمائی اس لئے بعد حضرت والا نے خود معارفِ ربانی سے ملفوظات پڑھنے شروع کئے، آج حضرت والا پڑھنے کے دوران بار بار گریاں طاری ہوجاتا تھا۔ بعض ملفوظات بہت ہی درد سے روتے ہوئے سنائے۔ آج کی پُر درد مجلس تقریباً ۵۳ منٹ تک جاری رہی۔۔

ملفوظات

نسبت مع اللہ کو تولنے کا معیار یہ ہے کہ جب حسین صورتیں سامنے آجائیں تو اپنی نگاہ کو بچا لے

بدنظری شیطان کے تیروں میں سے زہر میں بجھا ہوا تیر ہے، جو اللہ کے خوف نظر بچاتا ہے اُس کو حلاوتِ ایمان نصیب فرماتے ہیں۔

جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچنے کا غم اُٹھاتا ہے اُسی کو اللہ کے راستے کا کیف سرور ملتا ہے۔

گناہ کا بچنے کا غم جو دل پر نہیں جھیلتا اُس کو راہِ سلوک کا کیف و سرور نہیں ملتا۔

اللہ والوں کے دل میں جو نور ہے اگر وہ ظاہر ہوجائے تو چاند و سورج  کو گرہن لگ جائے۔

جو خود جسم پر اسلام نافذ نہیں کرسکتا وہ ملک پر کیا اسلام نافذ کرے گا۔

اللہ کے طالب بنو! ۔ ۔ ۔ ۔اللہ کو صرف اللہ کے لئے چاہو! جنت بھی نعمت ہے لیکن جنت کی بھی جان اللہ تعالیٰ کی ذات ہے

جن کو اللہ کا عشق ہوجاتا ہے تو دونوں جہاں اُس کی نگاہوں سے گر جاتے ہیں۔

 اللہ کی یاد اور توبہ میں نکلے ہوئے آنسوؤں کے موتی گرے ہیں وہ ایسے قیمتی کہ  اس کے خریدار خود اللہ تعالیٰ ہیں

مجدد کو ۲۴ گھنٹے میں چند لمحے قربِ الٰہی کے  ایسے ملتے ہیں کہ اُس وقت سارے عالم میں کسی کو ایسا قرب نہیں نصیب ہوتا۔

جو اہل ظاہر ہیں اُن کے سارے علوم ایک طرف رہ جاتے جب ایک اللہ والا دردِ دل سے تقریر کرتا ہے۔ وہ دم بخود رہ جاتے ہیں کہ ان کو کہاں سے ایسے علوم آرہے ہیں۔

گناہوں کا غم اُٹھانے میں آدھی جان چلی گئی لیکن اُس کے بدلے میں ہزار جانیں عطا ہوتی ہیں اور ایسی حیاتِ جاوداں عطا ہوئی کہ اُس کی مثال نہیں ملتی اور ایسا قرباور لذت نصیب ہوتی ہے کہ اِس کو کوئی چھین نہیں سکتا۔

ملفوظاتِ معارف ربانی

چوتھا محبوب … اچھا لباس:  تو تین طبقے بیان ہوگئے، اب چوتھا طبقہ ہے، اس کو نہ تو کھانے پینے کا شوق ہے، نہ حسینوں کا شوق ہے اور نہ مکانات کاشوق ہے، اگر انہیں کسی چیز کا شوق ہے تو وہ لباس کا ہے کہ لباس عمدہ ہونا چاہیے، یہ ہر وقت اپنے آپ کو آئینہ میں دیکھتا رہتا ہے۔ حکیم الامت فرماتے ہیں کہ اگر ائیر پورٹ یا ریلوے اسٹیشن یا بس اسٹاپ پر یا راہ چلتے ہوئے کوئی حسین لڑکی یا لڑکا نظر آجائے تو ا س وقت اگر ڈاڑھی ٹھیک کر لی، ٹوپی درست کرلی یا چہرے سے پسینہ صاف کرلیا تو یہ سب نفس کی بدمعاشی ہے کیونکہ اِس وقت تم یہ سب کس کے لیے کر رہے ہو؟ اس حسین کے لیے تاکہ اس کی نظر میں سلیکٹ (Select)ہوجاؤ۔ حکیم الامت رحمۃ اﷲ علیہ کو اﷲ جزائے خیر عطا فرمائے کیا نفس کی چال پکڑی ہے کہ اُس وقت اپنی ہیئت کو درست کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ غیر اﷲ سے دل لگانے کا اہتمام ہے جو حرام ہے۔
اسی طرح حج و عمرہ کرنے کے بعد جیسے ہی جہاز پرچڑھے تو بعض حاجی صاحبان کو دیکھو کہ ایئر ہوسٹس کو دیکھ کر ڈاڑھی ٹھیک کرکے چبا چبا کر باتیں کررہے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ آپا پاپا لاؤ اور اس کے حسن پر چھاپا مارہا ہے، شرم نہیں آتی کیوں دیکھتے ہو اور اپنے حج وعمرہ کو خراب کرتے ہو، نظر نیچی کرو پھر اس کے دل میں عزت آئے گی ورنہ کہے گی کہ یہ حاجی نہیں پاجی ہے۔

خیر، میں عرض کررہا ہوں کہ چوتھا محبوب عمدہ کپڑے پہننے کا شوق ہے۔ مولانا رومی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ چاہے کتنا ہی قیمتی کپڑا پہن لو لیکن کپڑے سے عزت نہیں ہوتی، اگر کپڑے سے عزت ہوتی تو جب تم رات کو کپڑے اتارتے ہو تو کیا روزانہ اپنی عزت اتارتے ہو؟
ایک عالم چارپائی پر بیٹھے تھے، ایک جاہل عمدہ لباس میں آیا، عالم غریب تھے اور لباس بھی ان کا معمولی تھا، دیہاتی ان کے سرہانے بیٹھ گیا، اپنے شاندار کپڑے دیکھ کر اس نے اپنے کو خود ہی فضلیت دی۔ جو میزبان تھا وہ اُن عالم کو پہچانتا تھا کہ یہ عالم ہیں لیکن دیہاتی کے بارے میں نہیں جانتا تھا کہ یہ عالم ہے یا نہیں۔ اس نے سوچاکہ معلوم کرلیں کہ کیا یہ بھی عالم ہے تاکہ اگر عالم ہوتو سرہانے بیٹھنا صحیح ہے ورنہ ایک عامی کا عالم کے سرہانے بیٹھنا خلافِ ادب ہے۔ لہٰذا اس نے پوچھا کہ جناب آپ کا نام کیا ہے تو وہ جاہل جو عمدہ کپڑے پہنے ہوئے تھا اور عالم کو پائنتی میں بٹھا رکھا تھا اس نے کہا کہ ہمارانام ای سف ہے، اتنا جاہل تھا کہ اپنا نام بھی لینا نہیں آیا، یوسف نہیں کہا ای سف کہا تو میزبان نے اس کا کان پکڑا اور کہا کہ اُدھر پائنتی میں بیٹھئے۔
خیر مولانا رومی فرماتے ہیں کہ اگر تمہیں کپڑے سے عشق ہے اور تم کپڑا پہن کر خدا کر بھول رہے ہو تو اس معشوق کا انجام بھی تمہیں بتاتا ہوں کہ کیا ہے، یہ کپڑا دوتین سال چلے گا اس کے بعد پرانا ہوجائے گا، آپ اس کو پھینک دیں گے، کے ایم سی کی گاڑیاں آئیں گی اور اس کو اٹھا کر جنگل میں پھینک دیں گی، وہاں کتے اس پر پیشاب کریں گے تو بتائیے! کپڑے کی کیا عزت ہے؟

میں نے اپنے شیخ شاہ عبد الغنی پھولپوری رحمۃ اﷲ علیہ کو دیکھا کہ لنگی کرتے میں نواب چھتاری کے یہاں گئے، جو ہندوستان کی ایک بڑی ریاست کے نواب تھے، انگریزی حکومت میں ہندوستان کے پہلے مسلمان گورنر تھے، انڈیا میں ان کی اسپیشل ریل چلتی تھی، اس میں کوئی دوسرا مسافر نہیں بیٹھ سکتا تھا، انہوں نے میرے شیخ کو دعوت دی، میں بھی حضرت کے ساتھ تھا، چونکہ میں نے بڑے بڑے گورنر وں اور نوابوں کو دیکھا ہے اس لیے الحمدﷲ مجھ پر کسی مالدار کاکوئی اثر نہیں ہوتا۔ نواب صاحب حافظِ قرآن تھے اور حضرت سے بیعت تھے۔  میرے شیخ کرتے میں بٹن نہیں لگاتے تھے اورلنگی پہنتے تھے تو میں نے راستہ میں حضرت سے کہا کہ حضرت نواب لوگوں کے پاس تشریف لے جا رہے ہیں اور آپ کی ٹوپی میلی ہے اور کرتا اُجلا ہے تو شیخ نے فرمایا کہ جس ٹوپی سے میں نے اﷲ کے سامنے نماز پڑھی ہے ان نوابوں کو خوش کرنے کے لیے اس کو صاف نہیں کروں گا، جیسی ہے ویسی رہنے دو لیکن واﷲ! میںنے دیکھا کہ حضرت کی عظمت سے نواب صاحب کانپ رہے تھے اور زبان میں رعشہ پیدا ہوگیا تھا۔

تقریباً ۳۸ منٹ پر روتے ہوئے ارشاد فرمایا: کہ میں نے بھی حضرت پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت کی تھی۔۔۔ اس کا تفصیلی واقعہ نہایت درد  سے ذکر فرمایا۔

حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ گرمی کے موسم میں لنگی باندھے ہوئے درخت کے نیچے سو رہے تھے، کسریٰ کے دوسفیر آئے، انہوں نے لوگوں سے پوچھا کہ اے مسلمانو! تمہارا بادشاہ کدھر رہتا ہے؟ مدینہ والوں نے جواب دیا   ؎

قوم گفتندش عمر را قصر نیست
ور عمر را قصر جان روشنے ست

قوم نے کہا کہ اے سفیرو! ہمارے خلیفہ کاکوئی ذاتی محل نہیں ہے، وہ فلاں درخت کے نیچے سورہے ہیں، جب  وہ دونوں بتائی ہوئی جگہ پہنچے تو دیکھا کہ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ زمین پر صرف لنگی باندھے ہوئے لیٹے ہیں اور کوئی پہرہ دار وغیرہ بھی نہیں ہے، مولانارومی فرماتے ہیںکہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کو دیکھ کر وہ دونوں کانپنے لگے اور ایک دوسرے سے کہنے لگے   ؎

بے سلاح ایں مرد خفتہ بر زمیں
من بہفت اندام لرزم چیست ایں

یہ کیا بات ہے کہ ہم دونوں ساتوں جسم سے کانپ رہے ہیں یعنی اگر ہم کو سات جسم اور مل جائیں تو وہ بھی کانپنے لگیں جبکہ ہم روزانہ بادشاہوں سے ملتے ہیں، یہ کیسا بادشاہ ہے کہ جس کے کرتے کے بٹن بھی نہیں ہیں اور کوئی پہرہ دار سپاہی بھی نہیں ہے لیکن پھر بھی ہم لوگ کانپ رہے ہیں۔ مولانا رومی اس کا جواب دیتے ہیں   ؎

ہیبتِ حق است ایں از خلق نیست
ہیبتِ ایں مرد صاحبِ دلق نیست

یہ نسبت مع اﷲ کی دولت تھی جو ان کے قلب میں تھی اس کی ہیبت باہر ظاہر ہورہی تھی، جس کے دل میں اﷲ ہوتا ہے اس کی ہیبت چہرہ سے ظاہر ہوجاتی ہے، یہ اس گدڑی کی ہیبت نہیں تھی اﷲ کی ہیبت تھی، یہ ہیبت ظاہر کررہی تھی کہ اُن کے قلب میں اﷲ موجود ہے۔
تو دنیا کی یہ چار چیزیں ہر ایک کو محبوب ہیں۔ یہ چیزیں نعمت تو ہیں لیکن اس وقت جب دل نعمت دینے والے کی محبت سے بھر جائے جبکہ آج ہم لوگوں کا یہ حال ہے کہ اپنے کاروبار میں یار کو بھولے ہوئے ہیں، اپنی موٹر کار اور کاروبار اور اپنی دنیا کمانے میں جماعت کی نمازیں، ذکر اﷲ، تلاوتِ قرآنِ پاک کو بالائے طاق رکھے ہوئے ہیں۔ اس کیے کہتا ہوں کہ روزانہ کم سے کم ایک رکوع تو تلاوت کریں ورنہ دس آیتیں ہی تلاوت کرلیں ورنہ قیامت کے دن اﷲ تعالیٰ کے سامنے قرآن شریف یہ مقدمہ نہ کردے کہ یا اﷲ اس نے مجھے طاق میں رکھا ہوا تھا

آخر میں قرآن پاک کی تجوید کی اہمیت کے حوالے سے اعلان فرمایا کہ ہمارے ہاں یکم شعبان سے آخر رمضان تک یہاں قرآن پاک کی تجوید سکھائی جائے گی۔۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries