مجلس۱۔ جون۲۰۱۴ء بدنظری،عشقِ مجازی،حسن پرستی رُوحانی کینسر ہیں!

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں(کلک کریں)

خلاصۂ مجلس:محبی و محبوبی مرشدی و مولائی حضرت والا دامت برکاتہم مجلس میں رونق افروز ہوئے، مصطفیٰ صاحب کو اشعار سنانے کا فرمایا انہوں نے حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کے درد بھرے اشعار بہت عمدہ انداز میں پڑھے، حضرت درمیان درمیان میں تشریح بھی فرماتے رہے، اور اشعار پڑھنے کے انداز کی بھی تعریف فرمائی، اشعار و تشریح کا سلسلہ تقریباً ۲۰ منٹ جاری رہا ۔ اس لئے بعد حضرت اقدس میر صاحب دامت برکاتہم  نے خود معارفِ ربانی سے ملفوظات پڑھنے شروع کئے،آخر تک یہی سلسلہ رہا۔ آج کی مجلس تقریباً ۵۶ منٹ تک جاری رہی۔۔

ملفوظات

حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ مجھے تین مقام میں بہت دل لگتا ہیں اور یہ میرے محبوب ہیں:  دامن کوہ ، جنگل کا سناٹا، دریا کا کنارہ

گلستان جوہر مدرسہ اور خانقاہ کا تذکرہ فرمایا کہ جب یہاں کچھ بھی نہیں تھا حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ روزانہ یہاں تشریف لاکر دُعا  اور ذکراللہ فرماتے تھے، اُسی کی برکت سے یہاں ایسے آبادی ہوگئی۔

جب حضرت یہاں تشریف لائے تھے تو جناب تائب صاحب نے یہ شعر کہا تھا ؎

یہ  نہ سمجھنا  بھٹک  گئے گلشن  سے ویرانے میں
دیوانے کچھ سوچ سمجھ کر پہنچے ہیں ویرانے میں

فرمایا : اِس شعر سے ہمیں بھی بہت تسلی ہوتی ہے۔

حضرت والا فرماتے تھے کہ دل لگانے کی ذات صرف اللہ تعالیٰ کوئی اور دل لگانے کے قابل نہیں کیونکہ سب کے حسن پر زوال آجاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا حسن و جمال لازوال ہے، اُس پر کبھی زوال نہیں آتا۔ کُلَّ یَوْمٍ هُوَ فِی شَأْنٍ.(سورۃ الرحمٰن ایت ۲۹) ہر وقت ایک نئی شان ہے اور اس لئے حضرت فرماتے تھے کہ اُن کے عاشقوں کی بھی ہر وقت ایک نئی شان ہوتی ہے۔ کیونکہ اس آیت کا اُن پر عکس پڑتا رہتا ہے۔

سنت کے خلاف جو جعلی پیر ہوتے ہیں یہ ظاہر میں تو بہت عاشق بنتے ہیں لیکن اندر سے بڑے چکر باز ہوتے ہیں، مولانا شاہ محمد احمد صاحب فرماتے تھے ؎

حال  تیرا  جال  ہے
مقصود  تیرا  مال  ہے
کیا خوب تیری چال ہے
لاکھوں کو اندھا کردیا

مگر بیوقوف ہی اندھے ہوتے ہیں جس پر اللہ کا فضل ہوتا ہے وہ نہیں ہوتے۔

یہ جعلی پیر ظاہر میں تو عاشق بنتے ہیں لیکن اندر سے دنیا داری اور چکر بازی ، مال اور جاہ حرض ہوتی ہے۔

بس راہِ سنت پر چلنے والے ہی اللہ والے ہیں جو سرِمو انحراف نہیں کرتے سنت و شریعت سے۔

عشقِ مجازی، بدنظری، حسن پرستی کے مرض کے حضرت والا مجدد تھے، اس کو بیان بھی کرنا ہر ایک کے بس کے بات نہیں تھی۔ جیسے مولانا یونس پٹیل صاحب نے ساؤتھ افریقہ میں فرمایا تھا کہ حضرت اگر آپ کے علاوہ کوئی دوسرا یہ مضمون بیان کرتا تو یہاں چپل انڈے اور ٹماٹر پڑجاتے۔ لیکن آپ کے تقویٰ اور اخلاص کی برکت ہے کہ سب سنتے ہیں اُن کو مزہ آتا ہے اور اصلاح ہوتی ہے۔

یہ جو فحاشی اور عریانی، حسن مجازی اور حسن پرستی کی تباہ کاریوں کا مضمون حضرت والا نے بیان فرمایا اِسی کو فرما رہے ہیں کہ کہاں تک میں ضبط کروں، کہاں تک اللہ تعالیٰ کی محبت کو چھپاؤں اور جو چیزیں اللہ تعالیٰ سے دور کرنے والی ہیں اُس کو کب تک میں مخلوق میں بدنامی کے خوف سے چھپاتا رہوں۔ بدنامی ہوا کرے مجھے کچھ پروا نہیں، قیامت کے دن کے خوف نے مجھے اسِ اظہار پر مجبور کردیا کہ میں کُھل کُھل کر اِس مرض کو بیان کردوں! اللہ تعالیٰ کی محبت کے جوش نے  اور قیامت کے خوف نے مجبور کیا کہ کہیں میرا مواخذہ نہ ہو کہ اتنا بڑا روحانی مرض کینسر پھیلا ہوا تھا اور تم نے پروا نہیں کی۔

اِسی لئے حضرت والا شروع ہی سے یہ مضمون بیان فرماتے تھے اُس وقت بھی بہت سے لوگ اعتراض کرتے تھے اور بہت سے ایسے نادان تھے اُن پر غصہ بھی اُن پر آتا تھا وہ حضرت کے سامنے تو کچھ نہیں کہتے تھے لیکن باہر جا کر کہتے تھے کہ یہاں تو بس حضرت کا ایک ہی مضمون ہے، حُسن و عشق کے پیچھے حضرت ڈنڈا لے کر دوڑتے رہتے ہیں اور بعضے ایسے نادان تھے کہ وہ بدگمانی  بھی کرتے تھے کہ کوئی نہ کوئی بات ہے کہ حضرت والا یہی مضمون بیان فرماتے ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جو اس مرض میں مبتلا ہوگا اُس کی زبان کُھل نہیں سکتی کیوں کہ وہ خود ہی سمجھتا ہے کہ میں اِس مرض میں مبتلا ہوں کہ وہی کر سکتا ہے جو اِس سے بالکل پاک صاف ہو۔ لیکن عقل ہو تو یہ بات سمجھ میں آئے!! لیکن حضرت والا فرماتے تھے کہ یہ جو لوگ مجھے کہہ رہے ہیں مجھے اس بات کی مطلق پروا نہیں ہے میں یہ مضمون اپنی عزت داؤ پر لگا کر بیان کرتا ہوں اور قیامت تک کرتا رہوں گا! مجھے کسی کا خوف نہیں!! چنانچہ حضرت والا ۴۶ پہلے بھی جو بیان فرماتے تھے وہ آخر تک بیان فرماتے رہے بلکہ اُس میں اور ترقی ہوتی چلی گئی اور سارے عالم میں حضرت کا شہرہ اِسی مضمون سے ہوا۔ اور کتنے ہی لوگوں کی اِس سے اصلاح ہوگئی۔

ری یونین میں لوگوں نے یہی کہا کہ حضرت یہ جو مضمون آپ بیان کرتے ہیں، ہماری دکھتی ہوئی رَگ پر آپ نے ہاتھ رکھا ہے اور ہمیں اِس سے اتنا نفع ہوا کہ ورنہ ہم عشقِ مجازی اور حسن پرستی کے چکر میں مبتلا تھے اور بہت سو نے کہا کہ ہم مبتلا ہوجاتے اگر آپ کا مضمون نہ سنتے، چنانچہ حضرت والا کی برکت سے کتنے ہزاروں نوجوانوں کی جوانیاں محفوظ ہوگئیں!

فرمایا : مجدد عام آدمی نہیں ہوتا علماء اِس کو پہچانتے ہیں، اکثر یہاں کے علماء اور غیر ممالک کے علماء کا یہی خیال ہے،  کہ حضرت والا اس صدی کے مجدد تھے، بہت سے علماء نے میرے سامنے کہا کہ حضرت پچھلی صدی کے مجدد تو حضرت حکیم الامت تھانویؒ تھے اب وہ صدی ختم ہورہی ہے اور آپ کے کارنامے بتا رہے ہیں کہ اس صدی کے مجدد آپ ہیں!!

ملفوظاتِ معارف ربانی

چوتھا محبوب … اچھا لباس:  تو تین طبقے بیان ہوگئے، اب چوتھا طبقہ ہے، اس کو نہ تو کھانے پینے کا شوق ہے، نہ حسینوں کا شوق ہے اور نہ مکانات کاشوق ہے، اگر انہیں کسی چیز کا شوق ہے تو وہ لباس کا ہے کہ لباس عمدہ ہونا چاہیے، یہ ہر وقت اپنے آپ کو آئینہ میں دیکھتا رہتا ہے۔ حکیم الامت فرماتے ہیں کہ اگر ائیر پورٹ یا ریلوے اسٹیشن یا بس اسٹاپ پر یا راہ چلتے ہوئے کوئی حسین لڑکی یا لڑکا نظر آجائے تو ا س وقت اگر ڈاڑھی ٹھیک کر لی، ٹوپی درست کرلی یا چہرے سے پسینہ صاف کرلیا تو یہ سب نفس کی بدمعاشی ہے کیونکہ اِس وقت تم یہ سب کس کے لیے کر رہے ہو؟ اس حسین کے لیے تاکہ اس کی نظر میں سلیکٹ (Select)ہوجاؤ۔ حکیم الامت رحمۃ اﷲ علیہ کو اﷲ جزائے خیر عطا فرمائے کیا نفس کی چال پکڑی ہے کہ اُس وقت اپنی ہیئت کو درست کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ غیر اﷲ سے دل لگانے کا اہتمام ہے جو حرام ہے۔
اسی طرح حج و عمرہ کرنے کے بعد جیسے ہی جہاز پرچڑھے تو بعض حاجی صاحبان کو دیکھو کہ ایئر ہوسٹس کو دیکھ کر ڈاڑھی ٹھیک کرکے چبا چبا کر باتیں کررہے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ آپا پاپا لاؤ اور اس کے حسن پر چھاپا مارہا ہے، شرم نہیں آتی کیوں دیکھتے ہو اور اپنے حج وعمرہ کو خراب کرتے ہو، نظر نیچی کرو پھر اس کے دل میں عزت آئے گی ورنہ کہے گی کہ یہ حاجی نہیں پاجی ہے۔

خیر، میں عرض کررہا ہوں کہ چوتھا محبوب عمدہ کپڑے پہننے کا شوق ہے۔ مولانا رومی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ چاہے کتنا ہی قیمتی کپڑا پہن لو لیکن کپڑے سے عزت نہیں ہوتی، اگر کپڑے سے عزت ہوتی تو جب تم رات کو کپڑے اتارتے ہو تو کیا روزانہ اپنی عزت اتارتے ہو؟
ایک عالم چارپائی پر بیٹھے تھے، ایک جاہل عمدہ لباس میں آیا، عالم غریب تھے اور لباس بھی ان کا معمولی تھا، دیہاتی ان کے سرہانے بیٹھ گیا، اپنے شاندار کپڑے دیکھ کر اس نے اپنے کو خود ہی فضلیت دی۔ جو میزبان تھا وہ اُن عالم کو پہچانتا تھا کہ یہ عالم ہیں لیکن دیہاتی کے بارے میں نہیں جانتا تھا کہ یہ عالم ہے یا نہیں۔ اس نے سوچاکہ معلوم کرلیں کہ کیا یہ بھی عالم ہے تاکہ اگر عالم ہوتو سرہانے بیٹھنا صحیح ہے ورنہ ایک عامی کا عالم کے سرہانے بیٹھنا خلافِ ادب ہے۔ لہٰذا اس نے پوچھا کہ جناب آپ کا نام کیا ہے تو وہ جاہل جو عمدہ کپڑے پہنے ہوئے تھا اور عالم کو پائنتی میں بٹھا رکھا تھا اس نے کہا کہ ہمارانام ای سف ہے، اتنا جاہل تھا کہ اپنا نام بھی لینا نہیں آیا، یوسف نہیں کہا ای سف کہا تو میزبان نے اس کا کان پکڑا اور کہا کہ اُدھر پائنتی میں بیٹھئے۔
خیر مولانا رومی فرماتے ہیں کہ اگر تمہیں کپڑے سے عشق ہے اور تم کپڑا پہن کر خدا کر بھول رہے ہو تو اس معشوق کا انجام بھی تمہیں بتاتا ہوں کہ کیا ہے، یہ کپڑا دوتین سال چلے گا اس کے بعد پرانا ہوجائے گا، آپ اس کو پھینک دیں گے، کے ایم سی کی گاڑیاں آئیں گی اور اس کو اٹھا کر جنگل میں پھینک دیں گی، وہاں کتے اس پر پیشاب کریں گے تو بتائیے! کپڑے کی کیا عزت ہے؟

میں نے اپنے شیخ شاہ عبد الغنی پھولپوری رحمۃ اﷲ علیہ کو دیکھا کہ لنگی کرتے میں نواب چھتاری کے یہاں گئے، جو ہندوستان کی ایک بڑی ریاست کے نواب تھے، انگریزی حکومت میں ہندوستان کے پہلے مسلمان گورنر تھے، انڈیا میں ان کی اسپیشل ریل چلتی تھی، اس میں کوئی دوسرا مسافر نہیں بیٹھ سکتا تھا، انہوں نے میرے شیخ کو دعوت دی، میں بھی حضرت کے ساتھ تھا، چونکہ میں نے بڑے بڑے گورنر وں اور نوابوں کو دیکھا ہے اس لیے الحمدﷲ مجھ پر کسی مالدار کاکوئی اثر نہیں ہوتا۔ نواب صاحب حافظِ قرآن تھے اور حضرت سے بیعت تھے۔  میرے شیخ کرتے میں بٹن نہیں لگاتے تھے اورلنگی پہنتے تھے تو میں نے راستہ میں حضرت سے کہا کہ حضرت نواب لوگوں کے پاس تشریف لے جا رہے ہیں اور آپ کی ٹوپی میلی ہے اور کرتا اُجلا ہے تو شیخ نے فرمایا کہ جس ٹوپی سے میں نے اﷲ کے سامنے نماز پڑھی ہے ان نوابوں کو خوش کرنے کے لیے اس کو صاف نہیں کروں گا، جیسی ہے ویسی رہنے دو لیکن واﷲ! میںنے دیکھا کہ حضرت کی عظمت سے نواب صاحب کانپ رہے تھے اور زبان میں رعشہ پیدا ہوگیا تھا.

حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ گرمی کے موسم میں لنگی باندھے ہوئے درخت کے نیچے سو رہے تھے، کسریٰ کے دوسفیر آئے، انہوں نے لوگوں سے پوچھا کہ اے مسلمانو! تمہارا بادشاہ کدھر رہتا ہے؟ مدینہ والوں نے جواب دیا   ؎

قوم گفتندش عمر را قصر نیست
ور عمر را قصر جان روشنے ست

قوم نے کہا کہ اے سفیرو! ہمارے خلیفہ کاکوئی ذاتی محل نہیں ہے، وہ فلاں درخت کے نیچے سورہے ہیں، جب  وہ دونوں بتائی ہوئی جگہ پہنچے تو دیکھا کہ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ زمین پر صرف لنگی باندھے ہوئے لیٹے ہیں اور کوئی پہرہ دار وغیرہ بھی نہیں ہے، مولانارومی فرماتے ہیںکہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کو دیکھ کر وہ دونوں کانپنے لگے اور ایک دوسرے سے کہنے لگے   ؎

بے سلاح ایں مرد خفتہ بر زمیں
من بہفت اندام لرزم چیست ایں

یہ کیا بات ہے کہ ہم دونوں ساتوں جسم سے کانپ رہے ہیں یعنی اگر ہم کو سات جسم اور مل جائیں تو وہ بھی کانپنے لگیں جبکہ ہم روزانہ بادشاہوں سے ملتے ہیں، یہ کیسا بادشاہ ہے کہ جس کے کرتے کے بٹن بھی نہیں ہیں اور کوئی پہرہ دار سپاہی بھی نہیں ہے لیکن پھر بھی ہم لوگ کانپ رہے ہیں۔ مولانا رومی اس کا جواب دیتے ہیں   ؎

ہیبتِ حق است ایں از خلق نیست
ہیبتِ ایں مرد صاحبِ دلق نیست

یہ نسبت مع اﷲ کی دولت تھی جو ان کے قلب میں تھی اس کی ہیبت باہر ظاہر ہورہی تھی، جس کے دل میں اﷲ ہوتا ہے اس کی ہیبت چہرہ سے ظاہر ہوجاتی ہے، یہ اس گدڑی کی ہیبت نہیں تھی اﷲ کی ہیبت تھی، یہ ہیبت ظاہر کررہی تھی کہ اُن کے قلب میں اﷲ موجود ہے۔
تو دنیا کی یہ چار چیزیں ہر ایک کو محبوب ہیں۔ یہ چیزیں نعمت تو ہیں لیکن اس وقت جب دل نعمت دینے والے کی محبت سے بھر جائے جبکہ آج ہم لوگوں کا یہ حال ہے کہ اپنے کاروبار میں یار کو بھولے ہوئے ہیں، اپنی موٹر کار اور کاروبار اور اپنی دنیا کمانے میں جماعت کی نمازیں، ذکر اﷲ، تلاوتِ قرآنِ پاک کو بالائے طاق رکھے ہوئے ہیں۔ اس کیے کہتا ہوں کہ روزانہ کم سے کم ایک رکوع تو تلاوت کریں ورنہ دس آیتیں ہی تلاوت کرلیں ورنہ قیامت کے دن اﷲ تعالیٰ کے سامنے قرآن شریف یہ مقدمہ نہ کردے کہ یا اﷲ اس نے مجھے طاق میں رکھا ہوا تھا

دنیا کے ان چار فانی محبوبوں کا علاج: اب میں ان چاروں محبوبوں کا علاج ذکر کرتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ کی محبت جب ہمیں نعمتوں سے زیادہ مل جائے گی تب یہ نعمتیں ہمیںگمراہ نہیں کرسکیں گی۔ اسی محبت کے حصول کے لیے خانقاہ بنائی جاتی ہے، اﷲ والوں کی صحبتیں اُٹھائی جاتی ہیں تاکہ ہم جو کچھ کتابوں میں پڑھتے ہیں کہ نعمتوں کادرجہ کم رکھو اور نعمت دینے والے کی محبت کو غالب رکھو وہ حاصل ہوجائے۔ اس کے لیے بزرگوں کی صحبت کی ضرورت ہے جن کے اوپر خدا کی محبت غالب ہوچکی ہے اور دنیا کی محبت مغلوب ہوچکی ہے، ان کی صحبت کی برکت سے ہم بھی غالب ہوجائیںگے، لیکن اگر ہم ایسے لوگوں کی صحبت میں رہیں گے جن کے اوپر دنیا غالب ہے اور اﷲ کی محبت مغلوب ہے تو ان کے ساتھ رہ کر ہم بھی مغلوب ہوجائیں گے چاہے مولوی ہی کیوں نہ ہوں اگر دنیا داروں کے ساتھ رہیں گے تو وہ بھی مغلوب ہوجائیں گے۔ اس لیے مولانا رومی فرماتے ہیں   ؎

یارِ مغلوباں مشو ہیں اے غوی
یارِ غالب جو کہ تا غالب شوی

جو اﷲ والے ہیں جن پر اﷲ کی محبت غالب ہے ان کو تلاش کرو تاکہ ان کی محبت سے تم پر بھی اﷲ کی محبت غالب ہوجائے اور جو مغلوب ہیں ان کی صحبت میں مت بیٹھو، ضرورت کے لیے کوئی معاملہ و تجارت کرلو لیکن ان کی صحبت مت اختیار کرو ورنہ مغلوبوں کے ساتھ رہ کر تم بھی مغلوب ہوجاؤ گے اور جن اﷲ والوں پر اﷲ کی محبت چھائی ہوئی ہے ان کی صحبت کے صدقہ میں آپ بھی غالب ہوجائیں گے۔

حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ لکھنؤ کے شیعہ نواب واجد علی کے یہاں ایک مرد عورتوں کی خدمت میں باورچی خانہ میں رہتا تھا حالانکہ تھا وہ مرد لیکن کئی برس سے عورتوں میں رات دن رہ رہا تھا، ایک دن سانپ نکلا تو نواب واجد علی کی بیویوں نے شور شرابہ کیا کہ ارے جلدی کسی مرد کوبلاؤ تاکہ سانپ مار دے تو وہ مرد صاحب بھی کہتے ہیںکہ ہاں ہاں جلدی کسی مرد کو بلاؤ تو سب عورتوں نے کہاکہ تم بھی تو مرد ہوا س نے کہا کہ اچھا! واﷲ میں بھی مرد ہوں؟ تمہاری صحبتوں میں رہتے رہتے میں تو بھول ہی گیاتھا کہ میں بھی مرد ہوں۔ تو دیکھیے غلط صحبت سے کتنا نقصان پہنچتا ہے۔ جو لوگ سینما دیکھنے کے بعد سینما ہال سے نکلتے ہیں تو بالکل عورتوں کی طرح مٹک مٹک کر ویسے ہی گانے گاتے ہوئے نکلتے ہیں اور اﷲ والوں کی صحبت سے جو نکلتے ہیں تو اﷲ کی یاد میں اﷲ والوں کی طرح آہ ونالے، آہ وفغاں کرتے ہیں۔

بس دوستو! ایک دن قبر میں جنازہ اُترنا ہے، مولوی ہو یا پیر ہو ایک دن زمین کے نیچے جانا ہے اس لیے جلدی جلدی اﷲ کی محبت کو کمالو یہی کام آئے گا، خوب سن لو! آپ لوگوں میں سے کسی کا گھر ایسا نہیںہوگا کہ اس کے یہاں کسی کوموت نہ آئی ہو لہٰذا اس سے سبق لیں کہ وہ اپنے ساتھ کیا چیز لے کر گئے، اپنا کاروبار لے گئے، ٹیلیفون لے گئے، قالین لے گئے، نوٹوں کی گڈیاں لے گئے، کیا لے گئے؟ بس اﷲ گیا ہے ساتھ، اگر انہوں نے خدا کوزمین کے اوپر یا د کیا ہے تو خدا زمین کے نیچے بھی کام دے گا۔ اس لیے بزرگوں نے فرمایا ہے کہ اﷲ جیسا باوفا تم کسی کو نہیں پاؤ گے، جو زمین کے اوپر خدا کو یاد کرتا ہے تو زمین کے نیچے بھی اﷲ اس کا ساتھ دیتا ہے۔

ایک نہایت اہم بات یاد آئی اس کو بھی بیان کرتا چلوں، بعض لوگوں کی بیویاں ان سے ناراض ہوکر بھاگ جاتی ہیں اور وہ ان کے عشق میں دو کام کرتے ہیں ایک تو ان کی محبت میں دن رات رویا کرتے ہیں اور دوسرے یہ کہ دوسری شادی بھی نہیں کرتے تو میں ایک حدیث سے ان کے اس غم کو ناجائز کہتا ہوں۔ سرورِ عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

{تَزَوَّجُوا الْوَدُوْدَ الْوَلُوْدَ فَاِنِّیْ مُکَاثِرٌ م بِکُمُ الْاُمَمَ} (سنن ابی داؤد، کتاب النکاح،باب فی تزویج الابکار،ج:۱،ص:۲۸۰)

ایسی عورت سے شادی کرو جو خوب محبت کرنے والی اور کثیر الاولاد ہو کیونکہ میں قیامت کے دن اپنی امت کی کثرت پر فخر کروں گا۔ تو جب وہ تم کو چھوڑ کر بھاگ گئی تو معلوم ہوا کہ ودود نہیں تھی، محبت کرنے والی نہیں تھی، بے وفا تھی تو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی اس حدیث کے مطابق تم کو اس کی یاد میں نہیں رہنا چاہیے، کوئی اور بیوی تلاش کرو، کیوں اس کے غم میں گھلے جاتے ہو اور یہ غیرت کے بھی خلاف ہے کہ کوئی عورت تم کو لات مار کر بھا گ جائے اور تم اس کی یاد میں تارے گن رہے ہو اور آہ وبکا کررہے ہو اور ہر وقت اسی کی یاد میں مصروف ہو یہ کیا ہے؟ ایسی عورت کو اپنے دماغ سے نکالو اس لیے کہ اگر وہ ودود ہوتی یعنی اس میں محبت ہوتی تو اپنی محبت کو شوہر پر فدا کرتی۔ اگر اس کی محبت دماغ سے نہ نکلے تو دوسری شادی کرلو خود ہی نکل جائے گی اس لیے کہ خلامحال ہے چونکہ اب دل میں خلا ہے جب دوسری آجائے گی تو اس کی محبت ختم ہوجائے گی۔
لاہور میں میرے ایک پیر بھائی کی بیوی کا انتقال ہوگیا، وہ اپنی بیوی کے بڑے عاشق تھے حالانکہ بڑے افسر تھے اور ایسے افسر تھے کہ بڑے بڑوں کی ٹر نکال دیتے تھے لیکن دو گھنٹہ روزانہ اپنی بیوی کی قبر پر بیٹھ کر رویا کرتے تھے، میںنے ان کو لاکھ سمجھایا لیکن ان کی سمجھ میں بات نہیں آئی، آخر ہم دوستوں نے مشورہ کیاکہ ان کی دوسری شادی کرادو، جب ان کی شادی ہوجائے گی پھر دیکھنا کہ یہ کتنا قبر پر جاتے ہیں، وہی ہوا، اب شادی کو تین سال ہوگئے ہیں مگر سال بھر سے اس کی قبر پر نہیں گئے، سب بھول گئے، فاتحہ خوانی اور ایصالِ ثواب کو منع نہیں کرتا ہوں مگر قبروںپر جا کر اتنا زیادہ رونا مناسب نہیں ہے۔

آج کے بیان کا خلاصہ یہ ہوا کہ اﷲ تعالیٰ کی محبت ہم پر اس طرح چھاجائے کہ خدا ہمیں ہماری جان سے زیادہ اور اہل و عیال سے زیادہ اور ٹھنڈے پانی سے زیادہ محبوب ہوجائے اور اﷲ کی محبت اہل اﷲ کی صحبت سے میسر ہوتی ہے لہٰذا اس کو حاصل کرنے کا آسان اور مؤثر طریقہ صحبتِ اہل اﷲ ہے کیونکہ چراغ سے چراغ جلا کرتا ہے اور محبت بھی محبت والوں سے ملا کرتی ہے اور جس کا دل اس محبت سے خالی ہو اس سے اﷲ کی محبت ملنے کی کیا امید ہوسکتی ہے، دنیا فی نفسہٖ بری نہیں ہے بلکہ اس کی محبت بری چیز ہے۔ بس اسی پر بیان ختم کرتا ہوں۔
اب دعا کریں کہ اﷲ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے، یا اﷲ! ہم سب کو اﷲ والی حیات نصیب فرما، یا اﷲ! اختر مسافر ہے اور مسافر کی دعا کو آپ قبول فرماتے ہیں، یا ارحم الرحمین برحمۃ للعالمین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ہم سب کو ایسا ایمان عطا فرماکہ ہماری زندگی کی ہر سانس آپ پر فدا ہو اور ایک سانس بھی ہم آپ کو ناراض نہ کریں،یااﷲ ہم سب کو تقویٰ والی حیات اور اﷲ والی زندگی نصیب فرما، ہماری دنیا بھی بنادے اور آخرت بھی بنادے، اے مالکِ دو جہاں ہم آپ سے دونوں جہاں مانگتے ہیں، ہم کو یہاں بھی سکون سے رکھیے اور میدانِ محشر میں بھی بے حساب مغفرت فرما، یا اﷲ! جنت میں ہم سب کو ایسے ہی اکٹھا فرما جیسا کہ اس خانقاہ امدادیہ اشرفیہ ری یونین میں ہم سب اس وقت بیٹھے ہیں، یا اﷲ! اپنی رحمت سے ہمارے دلوں کو درد بھرا دل بنادے، یا اﷲ! ہم سب کو وہ محبت نصیب فرما جس کو نبی کریم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے آپ سے مانگا ہے، یااﷲ اپنی اتنی محبت دے دے جو ہماری جان سے زیادہ، ہمارے اہل وعیال سے زیادہ اور شدید پیاس میں ٹھنڈے پانی سے زیادہ ہو۔

رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ یَاذَالْجَلاَ لِ وَالْاِکْرَامِ  وَصَلَّی اﷲُ تَعَالٰی عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہٖ مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ
وَ صَحْبِہٖ اَجْمَعِیْنَ بِرَحْمَتِکَ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ

دینی اجتماع کی اہمیت: آخرمیں ایک ضروری اعلان بار بار کرتاہوں کہ میرے جانے کے بعد جن کو مجھ سے تعلق ہے بلکہ تعلق نہ بھی ہو حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ سے تعلق ہوتو اﷲ کے لیے ہر اتوار کو یہاں جمع ہونے کی کوشش کریں۔ اگر کوئی بڑا شیخ نہ ہو تو برابر کے لوگوں میں بیٹھنا چاہیے۔ مولانا رومی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر ایک بڑا چراغ نہیں ہے تو بیس چھوٹے چھوٹے چراغ جمع ہوجاؤ   ؎

بست مصباح از یکے روشن ترست

فرماتے ہیں کہ اگر بیس چھوٹے چھوٹے چراغ جمع ہوجائیں تو ایک بڑے چراغ جتنی روشنی ہوجائے گی لہٰذا اگر ہر اتوار کو نہ آسکیں تو ماہانہ آجائیں، ایک ماہانہ اجتماع رکھیے کہ اس میں سب جمع ہوگئے اور حکیم الامت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ کی کتابیں اور ان کے مواعظ پڑھ سن لیے اور دعا کر کے چلے گئے۔ یہ اجتماع ضرور رکھیں اگر یہ اجتماع ختم ہوجائے گا تو سمجھو جو بکری اپنے ریوڑ سے الگ ہوجائے تو بھیڑیا اسے اُٹھا لیتا ہے، اگر ہم لوگ الگ الگ ہوجائیں گے تو سمجھ لو یہاں بہت بھیڑئیے ہیں، ری یونین میں حسن کے بھیڑئیے موجود ہیں جو ہماری ایمان کی بکریاں اٹھا لے جائیں گے اور ایسا لے جائیں گے کہ ہم آپ خوشی خوشی لدے ہوئے چلے جائیں گے، بکری تو چلاتی بھی ہے تاکہ مالک کو خبر ہوجائے اور وہ اس کو بچالے مگر یہ حسن کے بھیڑئیے ایسے ہیں کہ آپ ان کی پیٹھ پر بیٹھ کر مسکراتے ہوئے چلے جائیں گے اور کہیں گے او کے (OK) ۔

اہل اﷲ کی صحبت کی برکات: بالاکوٹ کے مجاہدوں کا قافلہ جارہاتھا، راستے میں ایک شخص اس غرض سے کھڑا تھا کہ ایک نظر مجاہدین کے اس قافلہ کو دیکھ لوں جس میں سید احمد شہید اور مولانا اسماعیل شہید جیسے اولیاء ہیں، سید احمد شہید رحمۃا ﷲ علیہ حسبِ عادت نیچے دیکھ کر چل رہے تھے، اچانک جو نظر اُٹھائی تو آپ کی نظر اس شخص کی نظر سے ٹکرائی تو ایک ہی نظرمیں اﷲ نے اس کو کیا دے دیا کہ جب وہ مسجد میں داخل ہوتا تھا تو مسجد میں روشنی ہوجاتی تھی۔ حضرت مولانا یعقوب صاحب رحمۃ اﷲ علیہ نے جو حکیم الامت کے استاد تھے  ایک مرتبہ فرمایا کہ معلوم کرو کہ یہ کون آتا ہے جس کے آنے سے مسجد روشن ہوجاتی ہے۔ جب وہ حضرت کے پاس لائے گئے تو حضرت نے پوچھا کہ آپ کے آنے سے مسجد کیوں روشن ہوجاتی ہے، آپ ایسا کیا عمل کرتے ہیں؟ وہ رونے لگے کہ حضرت میرے پاس کوئی عمل نہیںہے، بالاکوٹ جہاد کے لیے جب حضرت سید صاحب کا قافلہ جارہا تھا میں بھی راستہ میں کھڑا دیکھ رہا تھا تو سید احمد شہید کی نظر سے میری نظر مل گئی اس کے بعد سے یہ کیفیت پیدا ہوگئی۔
حضرت شاہ عبد القادر صاحب رحمۃ اﷲ علیہ تفسیر موضح القرآن کے مصنف شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی کے بیٹے مسجد فتح پوری دہلی میں کئی گھنٹے عبادت کے بعد نکلے تو ایک کتا سامنے بیٹھا تھا اس پر نظر پڑ گئی ان کے دل کا نور آنکھوں سے اس کتے پر پڑگیا۔ حکیم الامت فرماتے ہیں کہ جہاں جہاں وہ کتا جاتا تھا دہلی کے سارے کتے اس کے پاس ادب سے بیٹھ جاتے تھے، وہ کتوں کا پیر بن گیا۔ اس پر حکیم الامت نے ٹھنڈی سانس بھری اور فرمایا کہ آہ! جن کی نگاہوں سے جانور بھی محروم نہیں رہتے تو انسان کیسے محروم رہے گا۔
میرے شیخ شاہ ابرار الحق صاحب نے حکیم الامت کے انتقال کے بعد خواجہ صاحب کو پیر بنایا اور جب خواجہ صاحب کا انتقال ہوا تو مولانا عبد الرحمن صاحب کیملپوری جو مفتی احمد الرحمٰن صاحب کے والد اور حکیم الامت کے خلیفہ تھے ان سے فوراً رجوع کیا تاکہ سر پر اپنے بڑوں کا سایہ رہے اور جب ان کا انتقال ہوا تو مولانا شاہ عبد الغنی صاحب کو اپنا مربی بنا لیا جبکہ حضرت والا خود بھی حکیم الامت کے خلیفہ ہیں۔ اﷲ مرتے دم تک بزرگوں کا سایہ ہم کو نصیب فرمائے، آمین۔ اس پر میرے دو شعر ہیں   ؎

مری زندگی کا حاصل، مری زیست کا سہارا
ترے عاشقوں میں جینا ترے عاشقوں میں مرنا
مجھے کچھ خبر نہیں تھی ترا درد کیا ہے یا رب
ترے عاشقوں سے سیکھا ترے سنگِ در پہ مرنا

میں طبیہ کالج کی پڑھائی کے زمانہ میں مولانا شاہ محمد احمد صاحب کے یہاں تین سال الٰہ آباد میں رہا ہوں۔ مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اﷲ علیہ حضرت مولانا شاہ فضلِ رحمٰن صاحب گنج مراد آبادی کے سلسلہ کے خلیفہ تھے، ایک مرتبہ انہوںنے تقریر کی تو مولانا شاہ ابرار الحق صاحب دامت برکاتہم نے اعلان کیا کہ آج آپ لوگوں نے مولانا کی جو تقریر سنی ہے تو سمجھ لو کہ شاہ فضلِ رحمن صاحب گنج مراد آبادی کی تقریر سن لی، اﷲ نے ان کا سارا انہیں فیض عطا فرمایا ہے اور مولانا شاہ محمد احمد صاحب ایسے نقشبندی تھے کہ بڑے بڑے چشتیوں کو اپنا غلام بنا لیا تھا۔ ان کے سارے اشعار عشق ومحبت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ اصل مقصود سلاسلِ اربعہ نہیں، مقصود اﷲ تعالیٰ کی ذات ہے۔ اگر ایئرپورٹ جانے کے چار راستے ہیں تو بتائیے! اصل مقصود راستے ہیں یا ائیرپورٹ پہنچنا ہے؟ ظاہر بات ہے کہ مقصود ائیرپورٹ پہنچنا ہے اسی طرح ہر اﷲ والے کی عزت کرو چاہے وہ کسی بھی سلسلے کا ہو چونکہ مقصود سب کا اﷲ کی ذات ہے، کسی طریق میں ذکر بلند آواز سے ہے تو کسی میں آہستہ ہے لیکن اتباعِ سنت سب میں مشترک ہے لہٰذا اس میں تفریق کرنے والے نادان ہیں، میرا شعر ہے   ؎

نقشِ قدم نبی کے ہیں جنت کے راستے
اﷲ سے ملاتے ہیں سنت کے راستے

اور سنت پر عمل کرنے کے لیے ہی بزرگوں نے ہمیں ذکر بتایا ہے، کسی نے جہری بتایا ہے کسی نے سِرّی، جیسا پیر بتائے ویسا ہی کرو لیکن مقصد اتباعِ سنت ہو، اگر کوئی شخص روزانہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی زیارت کرتا ہے لیکن سنت پر عمل نہیںکرتا بلکہ خلافِ سنت عمل کرتا ہے تو وہ شخص حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کامبغوض ہے اور اگر کسی شخص نے خواب میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو کبھی نہیں دیکھا مگر ا س کا عمل سنت کے مطابق ہے تو وہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا محبوب ہے، یہ کمالاتِ اشرفیہ میں لکھا ہے جس کا دل چاہے دیکھ سکتا ہے۔ ابو جہل تو حضورصلی اﷲ علیہ وسلم کو بیدار ی کی حالت میں دیکھتا تھا لیکن کیا فائدہ ہوا؟ اس کو عمل نہ کرنے کی وجہ سے کچھ نہ ملا لہٰذا اتباعِ سنت سب سے بڑی نعمت ہے، حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی زیارت کو اﷲ سے مانگو لیکن اگر نصیب نہ ہو تو دل چھوٹا نہ کرو اتباعِ سنت کرتے رہو، بس وہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے نزدیک محبوب ہے۔

حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اﷲ علیہ نقشبندی بزرگ تھے، اور ہمارے شیخ کے بھی شیخ تھے، ہمارے یہاں چاروں سلسلے میں بیعت کرتے ہیں، حاجی امداد اﷲ صاحب رحمۃا ﷲ علیہ کے سلسلے میں چاروں سلسلے ملتے ہیں۔ ہم اور ہمارے شیخ کے داماد حکیم کلیم اﷲ صاحب کے بارے میں حضرت نے اپنے خدام کی موجودگی میں فرمایا کہ میں آپ دونوں کو خلافت دیتا ہوں تو میں اﷲ کی رحمت سے نقشبندی سلسلہ میں بھی خلیفہ ہوں، یہ بھی انعام ہے لیکن میں کہتا ہوں کہ جو بھی اﷲ والا ہو اس سے محبت کرو، یہ فرق مت کرو کہ یہ چشتی ہے اور وہ قادری ہے اور وہ نقشبندی ہے اس لیے کہ سب کا مقصد اﷲ تعالیٰ کی ذات ہے۔

ری یونین میں ولی اﷲ بننے کا آسان طریقہ: ری یونین میں ولی اﷲ بننا بہت آسان ہے، صرف فرض، واجب اور سنتِ مؤکدہ ادا کرلو، کوئی نفل نہ پڑھو اور نظر بچالو ولی اﷲ ہوجاؤ گے، کامیابی کے لیے یہی ایک پرچہ کافی ہے جبکہ امتحان میں مختلف پرچے ہوتے ہیں، کسی ایک کی وجہ سے کامیابی نہیں ہوتی لیکن میں کہتا ہوں کہ ری یونین میں ایک ہی پرچہ ہے نظر بچانے کا بس اس کو پاس کرلو ولی اﷲ ہوگئے۔ یہاں حسینوں کے چہرہ سے بھی نظر بچاؤ اور ٹانگوں سے بھی نظر بچاؤ اور ملکوں میں تو چہرہ ہی سے نظر نیچی کرو یہاں تو نظر نیچے کرو تو پنڈلی اور ران تک آنکھ کی شعاعیں دوڑ جاتی ہیں، انگریزوں نے اس قسم کا لباس اس لیے بنایا ہے تاکہ بے حیائی اور زِنا عام ہو۔ غرض نفس کو گرم کرنے اور اس میں جوش پیدا کرنے کے جتنے اسباب ہیں وہ انہوں نے بدمعاشی کے لیے جائز کررکھے ہیں۔ حدیث شریف میں ہے کہ جو نظر بچائے گا اس کو ہم حلاوتِ ایمانی عطا فرمائیں گے، یہ حدیثِ قدسی ہے اور حدیثِ قدسی اُس کو کہتے ہیں جس کے راوی حضور صلی اﷲ علیہ وسلم ہوں اور کلام اﷲ کا ہو اور حضور صلی اﷲ علیہ وسلم یہ فرمائیں کہ اﷲ یہ فرما ر ہے ہیں تو اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جو نظر بچائے گا ہم ا س کو حلاوتِ ایمانی عطا کریں گے اور جس کو حلاوتِ ایمانی عطا کریں گے اس سے کبھی واپس نہیں لی جائے گی اور اس کا خاتمہ ان شاء اﷲ ایمان پر ہوگا۔

ریڈیو ری یونین سے حضرتِ والا کے مواعظ کے اقتباسات کا نشر: بعض خاص احباب نے بتایا کہ حضرت والا کے تشریف لانے کے بعد سے ہر اتوار کو صبح نو بجے ریڈیو ری یونین کے اسلامی پروگرام میں حضرت والا کی تقاریر کے اقتباسات فرانسیسی ترجمہ کے ساتھ نشر کیے جارہے ہیں۔

اکرامِ کافر سے بچنے کی عجیب تدبیر: حضرت والا کے احباب میں سے ایک صاحب نے چند روز پہلے حضرت والا سے عرض کیا تھا کہ ری یونین کا ایک عیسائی وزیر حضرت سے ملاقات کرنا چاہتا ہے۔ حضرت نے فرمایا کہ اس کو لے آنا۔ آج وہ صاحب اس وزیر کو لے آئے اور ان کو کمرے میں لانے کی اجازت چاہی۔ حضرت والا نے فرمایا کہ ان کو دوسرے کمرے میں بٹھلاؤ کیونکہ اگر وہ یہاں آیا تو مجھ کو اٹھنا پڑے گا جس سے اکرامِ کافر لازم آئے گا اور میں جاؤں گا تو اس کو اٹھنا پڑے گا۔ (سبحان اﷲ! بظاہر تو یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں لیکن حفاظتِ دین کا خزانہ ہیں۔ ملا علی قاری نے لکھا ہے( مَنْ سَلَّمَ الْکَافِرَ تَبْجِیْلاً لاَ شَکَّ فِیْ کُفْرِہٖ، جامع۔ )

آخرمیں حضرت والا نے دُعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ قبول فرمائے!

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries