مجلس۲۔ جون۲۰۱۴ء علم کی روشنی عشق کا راستہ

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں(کلک کریں)

خلاصۂ مجلس:محبی و محبوبی مرشدی و مولائی حضرت والا دامت برکاتہم مجلس میں رونق افروز ہوئے، جناب اثر صاحب کو اشعار سنانے کا فرمایا انہوں نے اپنے اشعار پیش فرمائے، بہت تعریف فرمائی، اشعار و تشریح کا سلسلہ تقریباً ۲۰ منٹ جاری رہا ۔ اس لئے بعد حضرت اقدس میر صاحب دامت برکاتہم  نے خود معارفِ ربانی سے ملفوظات پڑھنے شروع کئے،آخر تک یہی سلسلہ رہا۔ آج کی مجلس تقریباً ۵۸ منٹ تک جاری رہی۔۔

ملفوظات

علم کی روشنی میں عشق کا راستہ طے ہوتا ہے

حضرت پھولپوری کا فرمان نقل فرمایا : آیت کی تشریح ۔ جب عشق حدود شریعت کو توڑتا ہے تو بدعت ہوجاتا ہے۔

ملفوظاتِ معارف ربانی

اکرامِ کافر سے بچنے کی عجیب تدبیر: حضرت والا کے احباب میں سے ایک صاحب نے چند روز پہلے حضرت والا سے عرض کیا تھا کہ ری یونین کا ایک عیسائی وزیر حضرت سے ملاقات کرنا چاہتا ہے۔ حضرت نے فرمایا کہ اس کو لے آنا۔ آج وہ صاحب اس وزیر کو لے آئے اور ان کو کمرے میں لانے کی اجازت چاہی۔ حضرت والا نے فرمایا کہ ان کو دوسرے کمرے میں بٹھلاؤ کیونکہ اگر وہ یہاں آیا تو مجھ کو اٹھنا پڑے گا جس سے اکرامِ کافر لازم آئے گا اور میں جاؤں گا تو اس کو اٹھنا پڑے گا۔ (سبحان اﷲ! بظاہر تو یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں لیکن حفاظتِ دین کا خزانہ ہیں۔ ملا علی قاری نے لکھا ہے( مَنْ سَلَّمَ الْکَافِرَ تَبْجِیْلاً لاَ شَکَّ فِیْ کُفْرِہٖ، جامع۔ )

شام کی سیر کے لیے جاتے ہوئے کار میں حضرت والا نے احقر راقم الحروف کے لیے یہ شعر فرمائے جو قارئین کی نشاطِ طبع کے لیے پیش ہیں۔ قارئین سے درخواست ہے کہ اﷲ تعالیٰ حضرت اقدس دامت برکاتہم کی اس دعا اور تمنا کو احقر کے حق میں قبول فرمائیں اور حضرت والا کی دعا اور توجہ اور شفقت اور کرم فرمائیوں کے صدقہ میں احقر کی اصلاح فرمائیں اور اپنی رضاء کاملہ سے مشرف فرمائیں، آمین، یا رب العالمین۔ وہ اشعار یہ ہیں جو کار میں ارشاد فرمائے   ؎

شروع کر دیا پیر کے پاس جینا
ملا غیب سے میر کو جام و مینا

اللہ تعالیٰ کی محبت کی شراب کے مٹکے کے مٹکے پی کر مست ہو کر دیکھاؤ یہ کیا کبھی گناہ کرلیا کبھی بچ گئے۔

سبو اور خم پی کے دکھلا دے سب کو
دو اِک جام ہے کوئی پینے میں پینا

جو ساقی کے گھر میں ملا اس کو جینا
تو وہ بھول بیٹھا ہے اپنا نگینہ

آج حضرت والا بعد فجر سیر کے لیے تشریف نہیںلے گئے، فرمایا کہ آج نیند کا غلبہ ہے اس لیے سونا چاہیے اورحضرت والا بستر پر استراحت کے لیے لیٹ گئے اس وقت احقر اور چند حضرات حاضر خدمت تھے۔ پھر احقر کی طرف متوجہ ہو کر یہ شعر فرمایا   ؎

ہزاروں  غم  نے  گھیرا ہے ہمارے میر کو ہر دم
مگر چہرہ سے اس کے پھر بھی تابانی نہیں جاتی

اس کے بعد مندرجہ ذیل شعر یکے بعد دیگرے فرمائے جو نشاطِ طبعِ قارئین کے لیے نقل کیے جاتے ہیں   ؎

ہزاروںشاخ میں تقسیم ہے دریائے عشرت بھی
مگر کیا بات ہے کہ پھر بھی طغیانی نہیں جاتی

بہت ضربیں لگاتا ہے دعا میں خوب روتا ہے
مگر ظالم کی ہیجانی و طوفانی نہیں جاتی

پیا کرتا ہے پانی یخ مگر حیرت ہے یہ مجھ کو
نہاتے وقت عادت گرم پانی کی نہیں جاتی

ہری مرچیں بہت کھاتا ہے لیکن یہ تعجب ہے
کبھی سوزش کی کچھ تکلیف سننے میں نہیں آتی

اس کے بعد حضرت والا نے سونے کے لیے آنکھیں بندکرلیں اور تقریباً سوگئے تھے کہ اچانک بیدار ہوکر مندرجہ ذیل اشعار نہایت درد بھر ے ترنم سے پڑھنے لگے جو اسی وقت وارد ہوئے۔ حضرت والا آنکھیں بند کیے نہایت درد سے پڑھ رہے تھے جو احقر نے نوٹ کر لیے اور استفادۂ قارئین کے لیے پیش ہیں   ؎

سوا تیرے کوئی سہارا نہیں ہے
سوا تیرے کوئی ہمارا نہیں ہے

سمندر کا ساحل پہاڑوں کا دامن
بجز آہ کے کچھ سہارا نہیں ہے

نہیں ختم ہوتی ہے موجِ مسلسل
میرے بحرِ غم کا کنارا نہیں ہے

کوئی کشتیِ غم کا ہے ناخُدا بھی
مری موجِ غم بے سہارا نہیں ہے

اس کے فوراً بعد کچھ اور درد بھرے اشعار فرمائے جو حضرت والا آنکھیں بندکیے ہوئے گنگنا رہے تھے اور احقر نوٹ کر رہا تھا   ؎ 

میرا سر ہے اور اُن کا آستاں
کر رہا ہوں کس طرح آہ و فغاں

غم ہے کوئی یا کوئی کوہِ گراں
قلب نعرہ زن ہے سوئے آسماں

آتشِ غم کی ہے کوئی داستاں
کیوں دھواں دیتا ہے میرا آشیاں

جب چمن پر ہو بلائے ناگہاں
طائروں کی پھر سنو آہ و فغاں

جب زمیں پر ہو نہ تدبیرِ زماں
کیوں نہ جائے آہ سوئے آسماں

آشیاں میں طائروں کی سن فغاں
ان کی جانب رخ کریں جب بجلیاں

آہِ مظلومی سے ڈرنا چاہیے
ظالموں کی دیکھ اجڑی بستیاں

جس دعا میں ملتی ہو آہ و فغاں
یہ بلا ہے میر مہر آسماں

اس بار ری یونین کے سفر کے دوران خانقاہ امدادیہ اشرفیہ ری یونین میں الحمدﷲ حضرت والا پر بہت زیادہ اور نہایت درد انگیز اشعار وارد ہوئے جو بذریعہ فیکس کراچی بھجوائے گئے تاکہ حضرت والا کے مجموعۂ کلام میں شامل کردئیے جائیں۔ حضرت اقدس دامت برکاتہم کے مجموعۂ کلام کی کتابت ہوچکی ہے ان شاء اﷲ عنقریب شائع ہو جائے گا۔ احقر ان اشعار کو فیکس کرنے کے لیے صاف کرکے حضرت والا کی خدمت میں لے کرحاضر ہوا تو مولانا رشید بزرگ صاحب تشریف رکھتے تھے، احقر سے فرمایا کہ کچھ اشعار ہو گئے ہیں اضافہ کر دو پھر احقر کو اشعار سُنائے۔ احقر نے عرض کیا کہ بہت عمدہ اشعار ہیں تو مولانا رشید بزرگ سے فرمایا کہ ماشاء اﷲ اس کو مجھ سے بہت زیادہ محبت و مناسبت ہے اور محبت ہی کی وجہ سے تو یہ میرے ساتھ ہیں ورنہ   ؎  

محبت نہ ہوتی توکیوں ساتھ رہتے

یہ مصرع دورانِ گفتگو خود موزوں ہو گیا۔ یہ تو اسٹیل مل میں ملازم تھے،بڑی تنخواہ تھی لیکن سب چھوڑ چھاڑ کے میرے ساتھ ہیں۔ یہ محبت ہی کی تو بات ہے۔ حضرت والا کے اس کرم و شفقت و حوصلہ افزائی پر اگر احقر اپنی ایک لاکھ جانیں قربان کردے تو حق ادا نہیں ہوسکتا۔ جب حضرت والا یہ ارشاد فرمارہے تھے تو احقر کے دل پر عجیب کیف و سرور کا عالم تھا جس کو الفاظ تعبیر نہیں کرسکتے کہ ایک بھنگی کو شاہ عزت و شرف دے رہا تھا   ؎ 

مستی   سے   تیرا  ساقی  کیا  حال  ہوا  ہوگا
جب تو نے وہ مے ظالم شیشہ میں بھری ہوگی

حافظ امین پٹیل صاحب کے گھر پر: فجر کی نماز کے بعد حضرت والا نے حافظ داؤد بدات صاحب سے فرمایا کہ آج حافظ امین پٹیل صاحب کے یہاں جانا چاہیے وہ خوش ہوجائیںگے کیونکہ وہ اپنے یہاں کچھ دن قیام کے لیے بلانا بھی چاہتے تھے۔ مولانا داؤد صاحب سے فرمایا کہ امین پٹیل صاحب سے فون ملائو۔فون پر فرمایا کہ ہم تین،چار آدمی تقریباً آدھے پون گھنٹہ میں آپ کے یہاں پہنچ رہے ہیںاور ناشتہ آپ کے یہاں کریں گے لیکن مختصر ناشتہ بس چائے اور  بسکٹ کافی ہے اورفرمایا کہ دیکھیے اس طرح آنے میں ہمیں بھی راحت ہے اور آپ کو بھی ورنہ پہلے سے انتظام کرو پریشانی میں پڑو اور اس میں کوئی پابندی نہیں جب چاہا آگئے، نہ آپ پابند نہ ہم۔

آج ہی کراچی سے حضرت والا کے ایک بہت عاشق مرید فاروق صاحب آنے والے تھے جن کو حضرت والا مزاحاً فاروق ایس ایس کہتے ہیں کیونکہ پہلے وہ اردو نہیں جانتے تھے اور انگریزی میں بات کرتے ہوئے اکثر یس یس (Yes Yes) کہتے تو حضرت والا نے ان کا نام فاروق ایس ایس رکھ دیا بعض حضرات ان کو ایئرپورٹ لینے جاچکے تھے۔ حضرت والا نے فرمایا کہ دل چاہتا ہے کہ فاروق ایس ایس سے ایئر پورٹ پر ہی ملاقات کروں وہ خوش ہو جائیں گے، آٹھ ما ہ کراچی رہے ہیں اور میرا دل چاہتا تھاکہ وہ آجائیں، ان کی یہاں بہت کمی محسوس ہورہی تھی، بہت جلا بھنا آدمی ہے، بہت محبت والا ہے اس لیے دل کا تقاضا ہے کہ ائیرپورٹ جاؤں۔

اپنے خادموں کے ساتھ حضرت والا کی شفقت کی یہ ایک ادنیٰ مثال ہے اور فرمایا کہ امین صاحب کو فون کردو کہ ہمیں پہنچنے میں تقریباً پون گھنٹہ کی مزید دیر ہوجائے گی تاکہ اُنہیں انتظار کی تکلیف نہ ہو۔ 

علاجِ وسوسہ: کار میں حضرت والا کے ساتھ مولانا عمر فاروق، احقر اور مولانا دائود صاحب تھے جو کار چلا رہے تھے۔ راستہ میں مولانا عمر فاروق کو مخاطب کرکے فرمایا کہ اگر کوئی وسوسہ کا مریض آجائے تو اس کو کسی ڈاکٹر سے علاج کا مشورہ دے دینا اوریَاحَیُّ یَاقَیُّوْمُ پانچ سو سے دو ہزار تک حسب ِتحمل بتا دینا ان شاء اﷲ وساوس دور ہوجائیںگے۔ یَاحَیُّ یَاقَیُّوْمُ  اسم اعظم ہے۔  یَاحَیُّ کے معنی ہیں اَیْ اَزَلاً اَبَداً وَ حَیَاۃُ کُلِّ شَیٍٔ بِہٖ مُؤَبَّـداً ہر چیز کی حیات جس سے قائم ہے اورقَیُّوْمُ کے معنی ہیں بِذَاتِہٖ قَائِمٌ وَیُقَوِّمُ غَیْرَہٗ بِقُدْرَتِہِ الْقَاہِرَۃِ جو اپنی ذات سے قائم ہے اور ساری کائنات کو اپنی قدرتِ قاہرہ سے سنبھالے ہوئے ہے، اس نام کی برکت سے ان شاء اﷲ تعالیٰ دل بھی سنبھل جائے گا۔ 

زِنا کا سبب بے پردگی ہے: کار ہی میں فرمایا کہ شرعی پردہ نہ ہونے سے بہت زیادہ خرابی اور دین کی بربادی ہے۔ بے پردگی کو زِنا کے عام ہونے میں بہت دخل ہے اور یہ انگریزوں اور یہودیوں کی چال ہے تاکہ مسلمانوں سے تقویٰ نکل جائے۔ اسلام نے عورت کے لیے پردہ بتایا انہوں نے عورت کو بے پردہ کردیا۔ اسلام نے ناف سے لے کر گھٹنے تک چھپانے کا حکم دیا انہوں نے اس کی مخالفت میں رانیں کھول دیں، اپنی بہو بیٹیوں کو دوسرے شہوت کی نظر سے دیکھیں اس کا احساس اور غیرت نہ ہونا یہ عقل پر عذابِ الٰہی ہے۔ شہوت سے ہر وقت ننگی ٹانگیں دیکھنے سے منی پتلی ہوجاتی ہے اور جب منی پتلی ہوگئی تو بیوی سے صحبت کرتے وقت انزال جلد ہوگا جس سے عورت کو سکون نہ ہوگا۔ انگریز عورتوں میں زِنا اس لیے عام ہے کہ اپنے شوہروں سے ان کو سکون نہیں ملتا۔ دس سے زِنا کراکے ایک مرد کا مزہ پاتی ہے۔ ایسی عورت سے دس آدمیوں کے نطفہ سے جو اولاد ہوگی وہ ’’لمیٹڈ فرم‘‘ ہوگی۔

 زِنا کاایک عظیم نقصان : چنانچہ برطانیہ بلکہ تمام مغربی ممالک میں کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ اس کا باپ کون ہے، اگر کسی انگریز سے پوچھ لو کہ آپ کے والد کا کیا نام ہے تو ناراض ہوجاتا ہے یہ گویا اس کے لیے بہت بڑی گالی ہے۔ اسی لیے ان کو اپنے ماں باپ سے محبت نہیں اور ماں باپ کو اولاد پر وہ رحمت و شفقت نہیں کیونکہ وہ بھی سمجھتے ہیں کہ نہ جانے یہ کس کا ہے۔ زِنا کایہ کتنا بڑا نقصان ہے کہ ماں باپ اولاد کے اکرام اور محبت سے محروم ہو گئے اور اولاد ماں باپ کی شفقت سے محروم ہو گئی۔ اگر کبھی لندن جانا ہوا تووہاں ان شاء اﷲ یہ تقریر کروں گا۔
میرے شیخ حضرت مولانا شاہ ابرارالحق صاحب آج کل لندن میں ہیںاور مجھ سے فرمایا تھا کہ لندن میں دین کے بہت زیادہ کام کی ضرورت ہے۔ امکان ہے کہ شاید عنقریب وہاں کا سفر ہو، احباب عرصہ سے بلارہے ہیں۔

مخلوقِ خُدا پر حضرت والا کی رحمت کی ایک شان : مولانا عمر فاروق صاحب نے عرض کیا کہ لندن میں تو ری یونین سے بھی زیادہ بے حیائی ہے وہاں تو مسلمان لڑکیوں کا حال اور بھی زیادہ خراب ہے اور کچھ اسی قسم کے جملے کہے تو حضرت والا نے فرمایا کہ کسی عالم سے یا خادمِ دین سے اصلاح کی خاطر بیان کرنے میں تو مضائقہ نہیں جیسے آپ نے اس وقت بیان کردیا لیکن بلا ضرورتِ شدیدہ آپس میں محض مشغلے کے طور پر ان فحش باتوں کو بیان نہ کرنا چاہیے کیونکہ ایک تو نفس کو گناہ کے تذکروں سے مزہ ملتا ہے، یہ نفس بڑا ظالم ہے، باتوں سے بھی مزہ لے لیتا ہے، دوسرے اﷲ تعالیٰ کو بھی پسند نہیں کہ ان کے بندوں کا چاہے وہ کافر ہی کیوں نہ ہو بے ضرورت بُرائی سے تذکرہ کیا جائے جیسے باپ یہ پسند نہیں کرتا کہ اس کی نالائق اولاد کا لوگ بے ضرورت بُرائی سے تذکرہ کریں۔ اگر دوست کی اولاد نالائق ہے اور وہ اس کو بری حالت میں دیکھے تو آنکھوں پر ہاتھ رکھ لے گا اور کہے گا کہ یا اﷲ میرے دوست کے بچوں کی اِصلاح کردے، ان کو اس بری حالت میں نہیں دیکھے گا، بتائیے دوست سے تعلق کا کیا تقاضا ہے؟ کیا دوستی کا تقاضا یہ ہے کہ دوست کی اولاد کوبری حالت میںدیکھ کرمزے لو یا ان کی اصلاح کے لیے اﷲ سے روؤ جیسے اگر اپنی اولاد کو برے حال میں دیکھے تو کیا کرے گا؟ روئے گایا مزے لے گا؟ اگر خُد انخواستہ کوئی اپنی لڑکی کو زِنا کی حالت میں دیکھے تو کیا باپ کو مزہ آئے گا یا سجدے میں گر کر روئے گا اور بزرگوں سے دعا کرائے گا بس سمجھ لیجئے کہ اﷲ کے خاص بندے وہ ہیں جو اﷲ کی مخلوق کو بری حالت میں دیکھنا پسند نہیں کرتے لہٰذا یہاں بھی اگر عیسائی لڑکیاں ننگی حا لت میں گذریں تو فوراً آنکھ بند کرکے اﷲ سے عرض کرو کہ یا اﷲ یہ آپ کی مخلوق ہے، آپ کی بندیاں ہیں میں ان کو اس حالت میں دیکھنے سے پناہ چاہتا ہوں، سارے عالم کے کافروں کو یا اﷲ ایمان نصیب فرما   ؎  

ہیں تری سرکار میں سب خوبیاں
ناریوں کو فضل سے کر نوریاں 

اس سے مخلوقِ خدا پر حضرت والا کی شانِ رحمت ظاہر ہے اور نفس کے شر سے حفاظت کی بھی عجیب تعلیم ہے۔ اس کے بعد حضرت والا نے یہ شعر پڑھا   ؎

دوستوں میں مجھ کو سوکھی روٹیاں
غیرو ں میں بہتر ہیں از بریانیاں

فرمایا کہ اس شعر سے لوگ میرا مزاج پہچان جائیں گے کہ کیسی محبت کا مزاج میرے رب نے مجھے عطا فرمایا ہے۔

احقر نے پوچھا کہ حضرت کیا یہ شعر آج ہوئے ہیں تو فرمایا کل رات ۔ پھر یہ شعر سُنایا   ؎

فقر کے دامن میں دے دے اے خُدا
آفتابِ     عزت      سلطانیاں

اور فرمایا کہ ری یونین کی خانقاہ میرے لیے بہت با فیض ہو رہی ہے، روزانہ اشعار ہو رہے ہیں   ؎ 

ہے نظر اخترؔ کی بس تیری طرف
منتظر ہے فضل کی یہ میری جاں

گر نہ ہوتا فضل رب دوجہاں
کب دعا میں ہوتی یہ آہ و فغاں

دل پہ جب کرتا ہے وہ فضل نہاں
ہوتی ہے توفیق فریاد و فغاں

ہوں گریزاں از ہمہ کارِ جہاں
ہے لبوں پر آہ سوئے آسماں

یعنی دنیا کے کاموں میں اب دل نہیں لگ رہا ہے،ہمہ وقت دل اﷲ کو یاد کررہا ہے ؎

کہہ رہا ہوں دردِ دل کی داستاں
اپنے رب سے لیکن از راہِ نہاں

میرے دل میں رازِ غم ہے جو نہاں
کر نہیں سکتا اُسے ہرگز بیاں

اپنے رب ہی سے کہوں گا داستاں
ہے عبث مخلوق پر کرنا عیاں

کیا کہوں میں لذتِ آہ و فغاں
ہے زمیں پر جیسے میرا آسماں

فرمایا کہ دیکھو! اﷲ تعالیٰ کے قرب کو کیسا تعبیر کیا ہے ۔ یہ سب شعر حضرت والا کار میں سُنا رہے تھے   ؎ 

بے خبر از قصۂ ہر دو جہاں
میرا سر ہے اور ان کا آستاں

یعنی ہمیں خبر ہی نہیں کہ دونوں جہان کہاں ہیں۔ اس میںلذتِ سجدہ کا بیان ہے۔ اتنے میں ہم لوگ ائیرپورٹ پہنچ گئے لیکن معلوم ہوا کہ کافی دیرہوئی جہاز آچکا ہے۔ حضرت والا نے فرمایا کہ یہاں سے اگر فاروق ایس ایس کا شہر قریب ہو تو ان سے ملاقات کرتے ہوئے چلیں۔ مولانا دائود صاحب نے کہا کہ جی ہاں یہاں سے قریب ہے۔ تھوڑی دیر میں ہم لوگ فاروق ایس ایس کے گھر پہنچ گئے۔ حضرت والا کو دیکھ کر فاروق صاحب دوڑے ہوئے آئے اور حضرت والا سے معانقہ کیا اور عرض کیا کہ کراچی سے چلتے وقت حضرت والا نے دعافرمائی تھی کہ اﷲ تمہیں ری یونین پہنچادے تو آپ کی دعاقبول ہوگئی ۔ تھوڑی دیر کے بعد حضرت والا حافظ امین پٹیل صاحب کے شہر سینٹ پال کے لیے روانہ ہوئے۔ راستے میں مولانا عمر فاروق سے فرمایا کہ دیکھو میں نے ری یونین کی تعریف کی ہے   ؎ 

سمندر کا ساحل پہاڑوں کا دامن
عجب لطف ملتا ہے ری یونین میں
جب اُڑ جائوں گا میں کراچی کی جانب
کہاں مجھ کو پائو گے ری یونین میں

اصل مقصد رضائے حق اور اشاعتِ دین ہے: سینٹ پال پہنچ کر حافظ امین پٹیل صاحب کے یہاں ناشتہ کے بعد دورانِ گفتگو فرمایا کہ بزرگوں کا مشورہ ہے کہ جس جگہ دین کا کام ہو سکے وہاں رہنا چاہیے۔ مکہ شریف اور مدینہ شریف کا قیام حاضری دربار ہے اور دین کا کام کارِ سرکار ہے جس کے لیے کتنے پیغمبروں کی شہادت کو اﷲ تعالیٰ نے گوارا فرمایا اور طائف کے بازار میں اور اُحد کے میدان میں سید ا لانبیاء صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا خونِ مبارک اس قدر بہا کہ نعلین خونِ مبارک سے بھر گئیں۔ بیت اﷲ میں ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے لیکن بیت اﷲ کی نمازوں کے اتنے زبردست ثواب کے باوجود حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو اور صحابہ کو ہجرت کرائی گئی۔ معلوم ہوا کہ یہ مقاصد میں سے نہیں ہے۔ اصل مقصد رضائے حق اور دین کی اشاعت ہے۔ اﷲ کی رضا اس میں ہے کہ دین زیادہ پھیلے لہٰذا ایک لاکھ کے ثواب کے بجائے مدینہ شریف میں پچاس ہزار ثواب کی طرف بھیج دیا کیونکہ اﷲ تعالیٰ کی رضا سب پر بھاری ہے۔ ایک شخص کے پاس دس کروڑ ثواب ہے لیکن کسی بات سے اﷲ ناراض ہے اور ایک شخص سے اﷲ خوش ہے کسی بات سے ناراض نہیں اگرچہ اس کے پاس کچھ ثواب نہیں لیکن اس کے پلّہ میں رضائے الٰہی ہے۔ بتائیے! یہ شخص نفع میں ہے یا پہلے والا۔

در آشیاں طائر نبود: حضرت والا نے عثمان صاحب کو ایک صاحب کے گھر بھیجا کہ اگر وہ ہوں تو ان سے ملاقات ہو جائے گی لیکن معلوم ہوا کہ وہ کہیں گئے ہوئے تھے تو حضرت والا نے یہ مصرع فرمایا جو اسی وقت موزوں ہوا    ؎  

چوں رسیدم در چمن در آشیاں طائر نبود

یعنی جب میں چمن میں پہنچا تو پرندہ آشیانے میں نہیں تھاکہیں دانہ کی تلاش میں گیا ہوا تھا۔ اﷲ تعالیٰ کا فضل ہوتا ہے تو ذرہ ذرہ سے ہدایت ملتی ہے۔ مضمون کچھ ہوگا، مقصد دوسرا ہوتا ہے۔مقصد اﷲ کی یاد ہوتی ہے مثلاً کسی ولی اﷲ سے ملنے گئے اور وہ نہیں مل سکا تو کبھی محبت بندوق کسی کے کندھے پر رکھتی ہے اور نشانہ کسی اور کو بناتی ہے، یہ سب بہانے ہوتے ہیں۔ دیکھئے یہاں دعوت کے بہانہ سے ملاقات ہوگئی ان سب کا منشاء اﷲ تعالیٰ کی محبت ہے ۔ اگر اﷲ کے لیے محبت نہ ہوتی تو میں یہاں کیوں آتا؟

محبت و شفقت: دیکھئے! ایس ایس فاروق تو میرا مرید ہے۔ کیا شیخ کے ذمہ لازم ہے کہ وہ کسی مرید کی زیارت کرنے جائے لیکن میں نے سوچا کہ اگر میرا بیٹا مظہر آتا تو میں ائیر پورٹ ضرور جاتا اور مر یدبھی روحانی اولاد ہوتا ہے اس لیے میں نے حافظ دائود سے کہا کہ چلو ان سے مل آئیں اور دیکھو وہ کتنا خوش ہوئے ان سے پوچھو کہ جس رفتار سے دوڑ کر آئے اور لپٹ گئے۔ محبت تو دونوں طرف سے ہوتی ہے۔ اگر دونوں ہونٹ نہ ملیں تومحبت کی لغت بھی ادا نہیں ہوسکتی ۔ مرید کو جتنی محبت شیخ سے ہوگی اتنی ہی شیخ کو مرید سے ہوگی۔ ایک مریدنے شیخ سے پوچھا کہ آپ کے دل میں میری کتنی محبت ہے تو شیخ نے جواب دیا کہ جتنی تیرے دل میں میری محبت ہے، اپنے دل میں دیکھ کہ میری کتنی محبت ہے اتنی ہی تیری محبت میرے دل میں ہوگی۔

حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی جاں نثاری :  حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنی جان فدا کی، مال فدا کیا، صحابہ میں سب سے زیادہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے محبت کی تو آپ نے بھی فرمایا کہ سب کی محبت کا حق میں نے دنیا ہی میں ادا کر دیا لیکن ابو بکر صدیق کی محبت کا حق مجھ سے نہیںادا ہو سکا، اﷲ تعالیٰ ہی ان کا حق ادا کریں گے۔ یہ سرکاری اعلان ہے سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کی جانب سے کیونکہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے جان کی بازی لگائی تھی۔ غارِ ثور میں سانپ کے بل میں اپنا انگوٹھا لگا دیاکہ میرے نبی کو نہ کاٹ لے۔ اور بلوں میں تو اپنا کرتہ پھاڑ کر لگا دیا تھا لیکن ایک بل رہ گیا تھا تو وہاں اپنا انگوٹھا لگا دیا اور ان کو سانپ نے کاٹ لیا، حضور صلی اﷲ علیہ وسلم اس وقت آرام فرما رہے تھے اور آپ کا سر مبارک حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے زانو پر تھا، تکلیف سے حضرت صدیق اکبر کے آنسو جو گرے تو آپ جاگ گئے اور دریافت فرمایا کہ کیوں رو رہے ہو؟ عرض کیا کہ سانپ نے کاٹ لیا ہے۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنا لعاب ِدہن لگا دیا سب زہر اُتر گیا۔ بعض تاریخوں میں ہے کہ وہ سانپ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا عاشق تھا اور کئی سو برس سے آپ کا انتظا ر کر رہاتھا، وہ جن تھا اور چاہ رہا تھا کہ میں آپ کی زیارت کرلوں، اور یہاں تو صدیق اکبر نے جان کی بازی لگائی اور غزوۂ تبوک میں پورا مال لا کر رکھ دیا۔ کیا شان تھی کہ ہر وقت جان و مال و عزت و آبرو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم پر فدا کرنے کو تیار تھے۔

گناہ کے تقاضوں کا علاج: کبھی کبھی یہ مراقبہ کیا کریں کہ ایک دن قبر میں جانا ہے۔ دین کے ہر کام میں اس مراقبہ سے آپ کی بیٹری چارج ہو جائے گی۔ تقاضائے معصیت کا اور ذوقِ حُسن بینی کا بھی یہی علاج ہے کہ یہ سوچیں کہ ایک دن قبر میں لیٹنا ہے۔ دنیا کے تمام جائز کام کرو تجارت کرو، ملازمت کرو، کار میں چلو لیکن دل میںکچھ نہ رکھو، دل میں تیار رہو کہ یہ دنیا پردیس ہے، ہم اسٹیشن پرہیں، ریل آنے والی ہے، اس میں بیٹھنا ہے، موت کی ریل آئے گی اور بیٹھ کر چل دیں گے۔ بس اس کی کوشش اور دعا کروکہ اﷲ قبول کرے اور ہم سے راضی و خوش ہوجائے بس وہاں جاتے ہی دیکھنا کہ وہاں کی دنیا ہی کچھ اور ہوگی، جاتے ہی حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی زیارت ،صحابہ کی زیارت، اپنے بزرگوں اور مشایخ کی زیارت ہوگی، پھر ان شاء اﷲ مزے ہی مزے ہوں گے۔

کچھ دیر قیام فرمانے کے بعد حضرت والا واپس خانقاہ سینٹ پیئر کے لیے روانہ ہو گئے، راستہ میں حضرت والا کار میں رات کی غز ل کے اشعار ترنم سے نہایت درد بھرے انداز میں پڑھ رہے تھے جو افادۂ قارئین کے لیے پیش ہیں   ؎

ہر نفس ہو آپ پر قربان جاں
آپ ہم سب پر ہیں کتنے مہرباں

 

زندگی قربان کردو دوستاں
پائو گے مالک سے لطفِ بوستاں

جب خُدا نے مفت میں دی تجھ کو جاں
کیوں نہیں کرتا فدا پھر اپنی جاں

 اے خُدائے پاک ربِ دو جہاں
مانگتے ہیں تجھ سے ہم دونوں جہاں

 کون ہے اس غم کا میرے رازداں
ہاں مگر ہے باخبر رب جہاں

داستانِ غم کا ہے وہ آستاں
بے خبر ہے جس یہ سارا جہاں

زندگی دیتا ہے ربِ دو جہاں
پھر اسی پہ کر فدا توقلب و جاں

یہ گلستاں ہو مبارک باغباں
دل مرا لگتا نہیں لیکن یہاں

درحقیقت ہے مرا ذوقِ نہاں
جا کے صحرا میں کروں آہ و فغاں

جب چمکتی ہیں فلک پر بجلیاں
آشیاںمیں طائروں کی سن فغاں

دوستو! سن لو یہ ہے راز بلا
یہ ہے تکمیل و فائے عاشقاں

ہر بلا دفع بلا ہائے عظیم
ورنہ کیوں بھیجے گا میرا مہرباں

بہر توفیق دعا ہے دوستو!
ہر  بلائے  خالق  کون  و  مکاں

خانقاہ پہنچنے پر مولانا دائود صاحب کے والد صاحب نے بتایا کہ گذشتہ رات لندن سے دوبار فون آیا اور خانقاہ ری یونین کا فون نمبر معلوم کیا جو بتا دیا گیا اس کے بعد فون کٹ گیا یہ نہیں معلوم ہو سکا کہ کس کا تھا، غالب گمان یہی ہے کہ حضرت اقدس مولانا شاہ ابرارالحق صاحب نے لندن سے کسی سے فون کرایا ہوگا چنانچہ وعظ کے بعد دس بجے کے قریب لندن فون کیا گیا تو معلوم ہوا کہ حضرت والا کہیں تشریف لے گئے ہیں۔

صبح حضرت والا، احقر اور مولانا عمر فاروق حاجی احمد ولی صاحب کے گاؤں سیر کے لیے گئے۔ واپسی کے وقت حاجی احمد ولی صاحب نے کہا کہ مولانا دائود بدات کے والد صاحب کے یہاں سے لندن فون کریںگے۔ ان کا گھر یہاں سے قریب ہے۔ وہاں سے لندن فون کیاگیاحضرت مولانا شاہ ابرارالحق صاحب دامت برکاتہم نے فون اُٹھایا اور حضرت والا نے خیر و عافیت معلوم کی۔ حضرت ہردوئی دامت برکاتہم نے فون پر فرمایا کہ میں برطانیہ میں جگہ جگہ مجلس دعوت الحق قائم کر رہا ہوں آپ ری یونین میں قائم کریں۔ حضرت والا نے عرض کیا کہ سفر کے وقت ہی یہاں پر مجلس قائم کرنے کا خیال تھا جس طرح کراچی میں پچاس شاخیں قائم ہو گئی ہیں اور الحمد للہ خوب کام ہو رہا ہے۔ اسی طرح ان شاء اﷲ تعالیٰ یہاں بھی کام شروع کردیا جائے گا۔ 

ری یونین میں مجلس دعوۃ الحق کا قیام : فون کے بعد حضرت والا نے فرمایا کہ دعوت الحق کاکام بہت برکت والا ہے اور بہت آسان ہے۔ جب تک یہ مجلس قائم نہیں کی تھی تو میں سمجھتا تھا کہ بہت مشکل ہے لیکن جب کام شروع کیا تو معلوم ہوا کہ بالکل آسان ہے۔ لہٰذا آج ہی سے مجلس دعوت الحق قائم کردی جائے گی، مولانا دائود اور ان کے والد صاحب قابلِ مبارک باد ہیں اور ان کے لیے بڑی سعادت کی بات ہے کہ ان کے گھر سے یہ شروع ہو رہا ہے۔ ہم تو یہاں فون کرنے آئے تھے لیکن یہ نہیں معلوم تھا کہ یہاں یہ نعمت عطا ہونے والی ہے۔ پھر حضرت والا نے ری یونین کے چار شہروں کے لیے چار حلقے قائم کردیئے اور طریقہ کار بتایا کر ہر حلقے کا ایک ناظم، نائب ناظم ، خازن ، اور چند کارکن مقرر فرمائے اور ایک رجسٹر پر ان کے نام لکھ دیئے گئے اور فرمایا کہ ہفتہ میں ایک دن مقرر کر لیا جائے جس میں سب کارکن مل کر بیٹھ جائیں اورحیاۃ المسلمین ،جزاء الاعمال ، بہشتی زیور کا ساتوں حصّہ اور ایک منٹ کا مدرسہ دس پندرہ منٹ پڑھ کر سُنا دیں، اس کا نام مجلسِ نصیحت ہے اور پھر ایک تسبیح لاَ اِلٰہَ  اِلاَّ اﷲُ  کا ذکر کریںاور منکرات کی روک ٹوک کے لیے مشورے کریںکہ اپنے خاندانوں سے کسی طرح برائیوں کو مٹایا جائے، شادی، بیاہ، غمی سب سنت کے مطابق ہو جائیں اس کے لیے آپس میں مشورہ کرکے ان برائیوں کو مٹانے کی کوشش کریں جس کے لیے میرے شیخ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب دامت برکاتہم نے چھوٹے چھوٹے بہت مفید رسالے تحریر فرمائے ہیں مثلاً اشرف الخطاب، اشرف النظام وغیرہ جو کراچی سے منگوالیں۔ ان کے مطالعہ سے دعوۃ الحق کا کام کرنے میں آسانی ہوگی اور ہرہفتہ ہر شخص کم از کم دس دس فرینک دین کی نشرو اشاعت کے لیے جمع کرے اور ہر ماہ یہ رقم مرکز میں خانقاہ امدادیہ اشرفیہ بھجوادی جائے اور مولانا دائود ہر حلقے کا الگ حساب رکھیں پھر جو دین کی کتاب یا تبلیغی پرچے شائع کرنا ہوںاس میں یہ رقم خرچ کی جائے اور مرکز کو ہر شاخ ماہانہ رپورٹ بھیجے کہ مہینے میں کیا کام کیا گیا۔

ان شاء اﷲ تعالیٰ اس سے جگہ جگہ دین کا کام شروع ہو جائے گا اور اس کی برکات نظر کے سامنے آجائیں گی۔ یہ ایک مجددزمانہ حضرت حکیم الامت کا کام ہے اور حضرت کو اس سے کتنا تعلق تھا وہ اس بات سے ظاہر ہے کہ حضرت نے فرمایا کہ میں اس دن کا بے چینی سے منتظر ہوں کہ یہ کام شروع ہو۔ لہٰذا ایک رجسٹر بنایا جائے جس میں کام کا طریقہ کار مذکور ہو اور اس کے مطابق کام کیا جائے۔ دیکھیے خانقاہ میں ہفتہ میں ایک دن تو کچھ لوگ آسکتے ہیں لیکن پھر پورے ہفتہ خالی رہیں یہ مناسب نہیں لہٰذا اس کام کے اجراء سے جگہ جگہ دینی مجلسیں قائم ہوں گی اور جگہ جگہ دین کا کام ہوگا جو بُرائیوں کی ا صلاح کے لیے بہت ضروری ہے۔ کراچی میں پچاس حلقے مجلس کے قائم ہو گئے اور لوگ بتارہے ہیںکہ اس سے بہت زبردست نفع ہو رہا ہے۔ اتوا ر کے دن علماء کی مجلس میں ان شاء اﷲ اس کا ذکر کروں گااور مزید شاخیں ان شاء اﷲ قائم ہوں گی۔ اگر دعوۃ الحق یہاں قائم نہ کی جاتی تو میرے شیخ کو تکلیف ہوتی، اﷲ تعالیٰ کا کروڑ کروڑ شکر ہے کہ اس نے اس کام کو کرنے کی توفیق عطا فرمائی، دعا کریں کہ اﷲ ہم سب سے یہ کام لے لے اور اُسے قبول فرمائے۔

تقریباً ا گھنٹے پر مشتمل آج کی مجلس اختتام کو پہنچی حضرت والا نے آخر میں دُعا فرمائی۔!

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries