مجلس۴۔ جون۲۰۱۴ء پریشانی وغم علامتِ عدمِ قبولیت نہیں!

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں(کلک کریں)

خلاصۂ مجلس:محبی و محبوبی مرشدی و مولائی حضرت والا دامت برکاتہم کی آمد میں تاخیر تھی، پہلے جناب مصطفیٰ صاحب نے حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کے اشعار پیش کیئے اِس دوران ہی حضرت والا مجلس میں رونق افروز ہوئے اور حاضرینِ مجلس کو سلام فرمایا اورجناب ممتاز صاحب کو کتاب معارفِ ربانی پڑھنے کو فرمایا، ممتاز صاحب نے صفحہ ۳۳۷ سے ۳۵۳ تک ملفوظات پڑھے، آج کی مجلس تقریباً ۱ گھنٹے تک جاری رہی۔۔

ملفوظات معارفِ ربانی

پریشانی و غم علامتِ عدمِ قبولیت نہیں: اس کے بعد حضرت والا خانقاہ کے لیے واپس روانہ ہوئے اور راستہ میں کار میںفرمایاکہ اگر کبھی کوئی پریشانی یا غم آجائے تو یہ علامت غیر مقبولیت کی نہیں ہے، اپنے پیاروں کو غم بھی تو دیا، حضرت یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ میں تین اندھیروںمیں تھے رات کا اندھیرا ،پانی کے نیچے کا اندھیرا، مچھلی کے پیٹ کا اندھیرا۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں وَھُوَ کَظِیمٌ اور وہ غم سے گھٹ رہے تھے۔ معلوم ہوا کہ اپنے مقبولین پر بھی مصیبت بھیجتے ہیں لیکن یہ ان کے بلندی درجات کے لیے ہوتی ہے۔ چنانچہ مچھلی کے پیٹ میں حضرت یونس علیہ السلام کو معراج نصیب ہوئی ۔جب مچھلی نے نگلا اور پانی کے اندر لے کر بھاگی تو اﷲ تعالیٰ نے مچھلی کو حکم دیا کہ اے مچھلی یونس میرا پیغمبر ہے۔ خبر دار اس کو کھانا نہیں، یہ تیری غذا نہیں ہے۔ آہ ! جو غم دیتا ہے وہ غم کی دوا بھی بھیجتا ہے   ؎

درد از یار است و درماں نیز ہم

اور آپ کو مچھلی کے پیٹ میں لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ سُبْحَانَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ ملا۔ تفسیر روح المعانی میں ہے کہ جب مچھلی حضرت یونس علیہ السلام کو لے کر پانی کی تہہ میں گئی تو کنکریوں سے آواز آرہی تھی لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ سُبْحَانَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ   اﷲ تعالیٰ نے کنکریوں کو حکم دے دیا کہ یہ آیت پڑھو۔ بس آپ سمجھ گئے کہ اس اسمِ اعظم سے ہی نجات ملے گی اور آپ نے بھی پڑھنا شروع کردیا۔ وَنَجَّیْنَاہُ مِنَ الْغَمِّ وَ کَذٰلِکَ نُنْجِی الْمُؤْمِنِیْنَ پس ہم نے ان کو غم سے نجات دی اور اسی طرح ہم مومنین کو نجات دیتے ہیں۔ 

اسی طرح حضرت یعقوب علیہ السلام کو ان کے بیٹے یوسف علیہ السلام کی جُدائی میں اتنا غم ملا کہ آنکھیں سفید ہوگئیں وَابْیَضَّتْ عَیْنَاہُ مِنَ الْحُزْنِ فَھُوَ کَظِیْمٌ اور وہ غم میں گھٹا کرتے تھے۔ اپنے پیاروں کو غم دینے میں کیا راز ہے یہ غم دینے والا جانتا ہے کہ اس سے کتنا قرب عطا ہوتاہے۔

بس بندہ اﷲ تعالیٰ کی نافرمانی نہ کرے، ایک سانس بھی اﷲ تعالیٰ کی ناراضگی میں نہ جیے پھر وہ جس حال میں رکھیں وہی اس کے لیے بہترہے، جو چیز اﷲ سے دور کردے وہ حقیقت میں مصیبت ہے اور جو مصیبت اﷲ سے قریب کردے وہ رحمت ہے البتہ غم اور مصیبت کو مانگنا نہیں چاہیے کیونکہ غم کو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے موت فرمایا ہے اور یہ دعا مانگی ہے:

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِن مَّوْتِ الْغَمِّ وَ الْہَمِّ (کنزُ العمال)

اے اﷲ! میں پناہ چاہتا ہوں غم کی موت سے اور ھم کی موت سے اور ھم اس شدید غم کو کہتے ہیں جو انسان کو گُھلادے البتہ اگر اﷲ کی طرف سے آجائے تو راضی برضا رہے اور اس کے دور ہونے کی دعا کرے اور اگر شیطان وسوسہ ڈالے کہ دیکھو تم اتنا اﷲ اﷲ کرتے ہو پھر بھی مصیبت آرہی ہے شاید تم اﷲ کے یہاں مقبول نہیں ہو تو اس کے ان وسوسوں سے بالکل مایوس نہ ہوں اور اس سے کہہ دو کہ اگر غم غیر مقبول ہونے کی علامت ہوتا تو اپنے پیاروں کو نہ دیتے۔ جب انبیاء پر غم آیا ہے جو معصوم تھے تو ان سے زیادہ کون مقبول ہوسکتا ہے، یہ تو غیر اضطراری سنت ادا ہورہی ہے۔ بس ان شاء اﷲ تعالیٰ اس مراقبہ سے شیطان بھاگ جائے گا۔

مجلسِ درسِ مثنوی: مسجد میں مغرب کی جماعت سے فارغ ہو کر بہت سے علماء حضرت والا کے ساتھ خانقاہ میں حاضر ہوئے اور حضرت والا سے مثنوی کے درس کی درخواست کی۔ فاروق ایس ایس جو کل ہی کراچی سے آئے تھے انہوں نے عرض کیا کہ حضرت میں ’’نے‘‘ سن رہا ہوں۔ ان کا اشارہ مثنوی کے اس شعر کی طرف تھا   ؎

بشنو از نے چوں حکایت می کند
و از جدائی ہا شکایت می کند

حضرت والا نے ارشاد فرمایا کہ حضرت حاجی صاحب کے خلیفہ مولانا محمد حسین صاحب الٰہ آبادی نے مثنوی کی جو شرح حاجی صاحب کی تقریر کی روشنی میں لکھی ہے اس میں لکھا ہے کہ بشنواز نے میں ــ’’نے‘‘ سے مراد خود مولانا رومی ہیں۔ حاجی صاحب کے وہ خاص شاگر د تھے جنہوں نے مثنوی حاجی صاحب سے پڑھی تھی، اس شرح میں میں نے پڑھا کہ اس شعر میں بانسری سے مراد مولانا رومی نے خود کو لیا ہے کہ میں درد بھرے دل سے جو اشعار کہہ رہا ہوں یہ میں اﷲ تعالیٰ کی جدائی کے غم میں نالے کررہا ہوں ان کو سنو جیسے بانسری اپنے مرکز کی جدائی کے غم میں روتی ہے ویسے ہی میرے رونے سے مرد و عورت اﷲ کی محبت میں رو رہے ہیں   ؎ 

از نیستاں تا مرا ببریدہ اند
از نفیرم مرد و زن نالیدہ اند

اور جب میں روتا ہوں تو پوری مخلوق میرے ساتھ روتی ہے، جب میں نالہ کرتا ہوں تو آسمان بھی میرے ساتھ نالہ کرتا ہے   ؎ 

چوں بگریم خلقہا گریاں شوند
چوں بنالم چرخہا نالاں شوند

اب دو اشعار کی شرح اور سن لیجئے۔ مولانا رومی فرماتے ہیں   ؎

دولتِ عشاق او پائندہ باد

اے خدا! آپ کے عاشقوں کے پاس آپ کے عشق و محبت کی جو دولت ہے وہ ہمیشہ قائم رہے یعنی ان سے کوئی گناہ نہ ہوجائے کہ جس سے یہ دولت چھین لی جائے، اﷲ کے عاشقوں سے کوئی گناہ نہ ہو کہ جس سے اﷲ ناراض ہو کر اُن سے اُن کی دولتِ محبت چھین لے، اے اﷲ! ان کوگناہوں سے تحفظ عطا فرما، استقامت نصیب فرما اور اپنی محبت کی دولت کو لوٹنے والوں یعنی حسینوں سے بچا۔ اس لیے ری یونین کے ساحلِ سمندر پر جب ننگی عورتیں سور ج کی شعاعوں میں سن باتھ لے رہی ہوں تو ان کے قریب بھی مت جائو ورنہ جب آنکھ بند کرو گے شیطان وہی نقشہ پیش کردے گا۔ گناہوں کے مناظر اور اسباب سے بھی بچو۔ اﷲ تعالیٰ کے بندوں کے عیب پر نظر بھی مت ڈالو، نہ ان کو شہوت کی نظر سے دیکھو کیونکہ وہ اﷲ تعالیٰ کے بندے ہیں۔ اگر کسی باپ کے نالائق بیٹے یا بیٹی کو کوئی بُری نظر سے دیکھتا ہے اور باپ کو پتہ چل جائے تو اسی دن باپ اپنے دوستوں کے رجسٹر سے اس کا نام خارج کر دے گا کہ تم کو شرم نہیں آئی کہ میر ی اولاد کو تم نے ایسی حالت میں دیکھا، وہ تو نالائق تھی لیکن تم کیوں نالائق ہوئے؟ کیا میری محبت کا یہی حق تھا کہ میری اولاد کو تم بُری حالت میں دیکھ کر مزے لو؟ اِسی طرح اﷲ تعالیٰ کو بھی یہ پسند نہیں کہ کافر عورتوں کو، لڑکوں اور مردوں کو کوئی شہوت سے دیکھے، وہ تو کافر تھے، نالائق تھے لیکن تم نے ان کو اس حالت میں کیوں دیکھا؟ تم تو ہمارے تھے، تم کو تو دعا کرنی چاہیے تھی کہ اے اﷲ! دنیاکے جملہ کافروں کو جو آپ کے بندے تو ہیں ان کو ایمان عطا فرمادے، ان کے ایمان کے لیے روتے، دعا کرتے، بجائے اس کے تم حرام مزے لوٹ رہے ہو۔ اس لیے یہ نہ سمجھو کہ ہم ان کو بُری نظر سے دیکھ کر یا بدفعلی کرکے کافروں کو ذلیل کررہے ہیں، تم اپنے ایمان کو ضائع کررہے ہو اور اﷲ تعالیٰ سے دور ہورہے ہو۔ اس لیے جہاں تک ہوسکے ان کے تذکرے بھی نہ کرو اور جہاں تک ہوسکے ایسے مناظر سے دور رہو۔ جب کہیں ساحلِ سمندر پر نظر آجائے کہ ان کی موٹریں کھڑی ہیں تو دور ہی سے بھاگ جائو  فَفِرُّوْا اِلَی اﷲِ ہوجاؤیہ ہے دولتِ عشاق!

عاشقوں کی دولت کیا ہے؟ ذکراﷲ، تلاوتِ کلامِ پاک، اشکِ ندامت، استغفار و توبہ، دین پر استقامت اور گناہوں کے مواقع سے دور رہنا، لاَ تَقْرَبُوْا پر عمل کرنا، اسبابِ گناہ سے کوسوں دور رہنا۔ یہ ہے عاشقوں کی دولت جس کے باقی رہنے کی مولانا دعا فرمارہے ہیں۔ یہ مولانا رومی کی دعا ہے لیکن یہ مثنوی کی نہیںہے دیوانِ شمس تبریز کی ہے۔ دیوانِ شمس تبریز کے پچاس ہزار اشعار سب مولانا رومی ہی کے ہیں لیکن اپنے شیخ سے اپنے دیوان کو منسوب کردیا، ان کے نام پر اپنے دیوان کا نام دیوانِ شمس تبریز رکھ دیا اور مثنوی مولانا روم میں ساڑھے اٹھائیس ہزار اشعار ہیں۔ تو مولانا اﷲ کے عاشقوں کو کیا پیاری دعا دے رہے ہیں کہ اے اﷲ! آپ کے عاشقوں کی دولت ہمیشہ قائم رہے یعنی اے اﷲ! ان کے تقویٰ کو اپنی خصوصی حفاظت نصیب فرما جس کی وجہ سے وہ آپ کی عنایتِ خاصہ اور رحمتِ عامہ سے محروم نہ رہیں۔ آگے فرماتے ہیں   ؎  

نہہ فلک مر عاشقاں را بندہ باد 

اے اﷲ! نو آسمان آپ کے عاشقوں کے غلام بن جائیں۔ کیا دعا ہے سبحان اﷲ! آپ کہیں گے کہ آسمان توسات ہیںلیکن مولانا نے کرسی اور عرشِ اعظم کو بھی شامل کردیا اور اولیاء اﷲ کا درجہ عرشِ اعظم سے بھی زیادہ ہے، دلیل قرآن شریف کی نصِ قطعی ہے:

اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّنَھَرٍ فِیْ مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِیْکٍ مُّقْتَدِرٍ (سورۃ القمر،اٰیۃ:۵۵-۵۴)

اسی لیے میرے شیخ شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا کہ اولیاء اﷲ عرشِ اعظم سے افضل ہیں بوجہ ربِّ عرشِ عظیم کے قربِ خاص کے   ؎

نہہ فلک مر عاشقاں را بندہ باد 

اے خدا! نو آسمان آپ کے عاشقوں کے غلام بن جائیں، یہ معمولی دعا نہیں ہے، کسی اور کے ذہن میں بھی یہ بات کبھی نہیں آئی، آپ نے یہ مضمون کہیں نہیں سنا ہوگا، مولانا رومی اﷲ تعالیٰ کے عاشقوں کو کیا درجہ دے رہے ہیں کہ اے اﷲ جو لوگ آپ پر عاشق ہیں، آپ کی محبت کی دولت پارہے ہیں، سات آسمان، ایک کرسی اور ایک عرشِ اعظم یہ سب تیرے عاشقوں کے غلام بن جائیں۔ آپ اﷲ ہیں،آپ بہت بڑے مالک ہیں جو آپ پر عاشق ہوا تو آسمان تو پھر مخلوق ہے، جو خالق کو پاگیاتو مخلوق اس کے سامنے کیا چیز ہے؟ اسی لیے مولانا رومی اﷲ کے عاشقوں کو دعا دے رہے ہیں   ؎

بوستانِ عاشقاں سر سبز باد 

اے اﷲ! آپ کے عاشقوں کا باغ ہمیشہ ہرا بھرا رہے اور عاشقوں کا باغ کیا ہے؟ اﷲ کے عاشقوں کا باغ آہ وفغاں ہے، اشکبار آنکھیں ہیں، دردِ دل سے اﷲ کو یا د کرنا ہے، ذکراﷲ ہے، تلاوتِ قرآنِ پاک ہے، استغفار و توبہ ہے، ندامت کے آنسو ہیں، گڑگڑا کر خدائے تعالیٰ کے دیدار کی تمنا کرنا ہے، حسنِ خاتمہ کی درخواست کرنا ہے، بے حساب مغفرت کی دعا مانگنا ہے، درد بھرے دل سے آہ کرناہے، اہل اﷲ کی صحبت میں بیٹھنا ہے۔ یہ ہے اﷲ کے عاشقوں کا باغ اوریہ ہرا بھرا کب ہوتا ہے؟ اشکباری سے، آہ و زاری سے جو اﷲ کی یاری کو مضبوط کرتا ہے، اُس کو راضی رکھتا ہے اور نافرمانی کر کے ناراض نہیں کرتا اس کی محبت کا باغ ہمیشہ ہرا بھرا رہتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی محبت کے باغ میں آنکھوں کے آنسو پانی دیتے ہیں، دنیا کے پانی سے یہ باغ ہرا بھرا نہیں ہوتا، اشکبار آنکھوں سے اﷲ کی محبت کا باغ ہر ابھرا ہوتا ہے۔ اسی لیے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم یہ دعا مانگتے ہیں:

{ اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنِیْ عَیْنَیْنِ ھَطَّالَتَیْنِ تَشْفِیَانِ الْقَلْبَ بِذُرُوْفِ الدُّمُوْعِ مِنْ خَشْیَتِکَ قَبْلَ اَنْ تَکُوْنَ الدُّمُوْعُ دَمًا وَّ الْاَضْرَاسُ جَمْرًا}
(الجامع الصغیر للسیوطی، ج:۱، ص:۵۹) (وفی روایۃٍ تسقیان القلب بذروف الدمع کما فی المناجات المقبول)

اے اﷲ! میں آپ سے بہت رونے والی آنکھیں مانگتا ہوں جو بارش کی طرح روئیں، ایسی آنکھیں جو آنسوئوں کی موسلا دھار بارش کرنے والی ہوں۔ یہ نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مانگ رہے ہیں، یہ کوئی ایسا تصوف نہیں ہے جو قرآن و حدیث سے مدلل نہ ہو۔ بعض خشک مولوی کہتے ہیں کہ یہ رونا کیا چیز ہے نعوذ باﷲ! ایسوں کو تو میں دین سے بالکل ہی کورا سمجھتا ہوں،دین کی ہوا بھی ان کو نہیں لگی۔ اصل میں عشق و محبت نہیں ہے اس لیے ان کی سمجھ میں نہیں آتا حالانکہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اﷲ تعالیٰ سے مانگ رہے ہیں کہ اے اﷲ مجھے ایسی آنکھیں عطا فرما جو آنسوئوں کی موسلا دھار بارش کرنے والی ہوں، یہ عَیْنَیْنِ موصوف ہے اس کی صفت آگے آرہی ہے  ھَطَّالَتَیْنِ  وہ آنکھیں جو آپ کے عشق و محبت میں آنسوئوں کی موسلا دھار بارش کریں، بہت زیادہ برسنے والی ہوں  تَسْقِیَانِ الْقَلْبَ بِذُرُوْفِ الدَّمْعِ جن کے آنسو میرے دل کو سیراب کردیں اور میرا دل ہرا بھرا ہو اجائے قَبْلَ اَنْ تَکُوْنَ الدُّمُوْعُ دَماً وَ الْاَضْرَاسُ جَمْراً قبل اس کے کہ جہنم میںیہ آنسو خون بن جائیں اور ڈاڑھیں انگارہ بن جائیں۔ جہنمی جب دوزخ میں روئیں گے تو ان کے آنسو خون کے ہوں گے اور دوزخی کا جبڑاآگ بن جائے گا اَلْعَیَاذُ بِاﷲِ۔ اﷲ ہم سب کو پناہ میں رکھے رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَہَنَّمَ یااﷲ! ہم سب کو عذابِ جہنم سے بچا، آمین۔
مقصد مولانا رومی کا یہ ہے کہ اے خدا !ا پنی نافرمانی اور اپنے قہر و غضب کے اعمال سے حرام لذت کے استیراد اور درآمد سے اپنے عاشقوں کو تحفظ عطا فرما کیونکہ باغ کبھی جل بھی جاتا ہے۔ مولانا شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا کہ جو کبیرہ گناہ کرتا ہے گویا اس نے اپنے ایمان کے ہرے بھرے باغ میں آگ لگا دی، کسی پودے کے قریب آگ لگا دو تو وہ برسوں تک ہرا بھرا نہیں ہوسکتا، جو عادۃً گناہ کرتا ہے گویا اس نے اپنے ایمان کے باغ میں آگ لگا دی، اب لاکھ نماز روزہ کرتا رہے لیکن قلب میں حلاوتِ ایمانی سے محروم رہے گا، رسمی طور پر وہ سجدہ کر ے گا لیکن گناہِ کبیرہ کرنے والا ایمان کی حلاوت اور دردِ محبت سے محروم رہتا ہے۔ اس لیے مولانا نے یہ دعا دی کہ اے اﷲ اپنے عاشقوں کے باغ کو ہر وقت ہرا بھرا رکھیے یعنی اشکہائے ندامت، استغفار و توبہ، دین پر استقامت عطا فرمائیے اور ان کو گناہوں سے بچائیے، گناہوں سے بچنا اس لیے ضروری ہے کہ گناہ اﷲ سے دور کردیتا ہے لہٰذا ان کے با غِ قرب پر خزاں نہ آنے دیجئے   ؎

آفتابِ عاشقاں تابندہ باد

   اے اﷲ! آپ کے عاشقوں کا سورج ہمیشہ چمکتا رہے یعنی کفروشرک کے بادلوں میں، گناہ کے بادلوں میں، ریا اور دِکھاوے کے بادلوں میں، بدنظری کی حرام لذت کے بادلوں میں کہیں یہ چُھپ نہ جائے۔ اس لیے اے اﷲ! تمام گناہوں سے اپنے عاشقوں کو بچائیے اور ان کا سورج ہمیشہ چمکائیے۔ کیا دعا ہے! میں تو کہتا ہوں کہ مولانا رومی سے محبت کرو، یہ شخص شمس الاولیاء ہے، آفتابِ اولیاء ہے، قیامت تک اولیاء اﷲ مثنوی سے فیض حاصل کریںگے۔

 قرآن پاک اور حدیث پاک کے علاوہ لائو کوئی دعا جو اس کے مقابلہ کی ہو۔ اپنی محبت کا دردِ عظیم اﷲ تعالیٰ نے ان کو عطا فرمایا تھا۔ ایک شعر میں مولانا فرماتے ہیں   ؎ 

ہر کجا بینی تو خوں بر خاک ہا
پس یقیں می داں کہ آں از چشمِ ما 

اے لوگو ! اس زمین پر چاہے سمندر کا ساحل ہو یا پہاڑوں کا دامن غرض جہاں کہیں دیکھنا کہ کسی کا خون پڑا ہوا ہے تو یقین کرلینا کہ وہ میری آنکھوں ہی سے گرا ہوگا، جلال الدین رومی یہاں آیا ہوگا اور تنہائی میں اﷲ کی محبت میں رویا ہوگا، اﷲ کا ایک ولی اتنی بڑی بات کہہ رہا ہے کہ پہاڑوں کے دامن میں، دریائوں کے کنارے پر، سمندر کے ساحل پر کہیں خون کے آنسو دیکھو تو سمجھ لینا کہ جلال الدین نے اﷲ تعالیٰ کی محبت میں آہ و فغاں کی ہوگی اور جو آنسو گرے ہوئے ہیں وہ اسی کے ہوں گے   ؎

آہ را جز آسماں ہمدم نبود
راز را غیرِ خدا محرم نبود

فرماتے ہیں کہ آسمان کے سوا میری آہوں کا جاننے والا کوئی نہیں ہوتا، ہمدم کے معنیٰ ساتھی کے ہیں یعنی آسمان کے سوا میرا کوئی دوست نہیں، اس محبت کے راز کو سوائے اﷲ کے کوئی نہیں جانتا۔ میں سچ کہتا ہوں کہ ایک انسان دوسرے انسان کی کیفیتِ تعلق مع اﷲ کو، اس کے دردِ محبت کو اور اس کی تنہائیوں کے راز کو نہیں جان سکتا، اہل اﷲ کی بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ دوسروں کو اس کی خبر ہی نہیں ہوتی کہ وہ کس مقام پر ہیں، نہ وہ خود بتاتے ہیں نہ اپنی باتوںمیں بیان کرتے ہیں تو دوسروں کو کیسے معلوم ہوگی۔ اس لیے کہتا ہوں کہ اﷲ کا بہت بڑا احسان ہے جس کو خدا اپنی عبادت کی اور اپنی یاد کی توفیق دے دیں لہٰذا موقع غنیمت سمجھ کر کبھی کبھی پہاڑوں کے دامن میں یا سمندر کے ساحل پر چلے جایا کرو اور اگر اﷲ والے دوست، پیر بھائی اور احباب بھی ساتھ ہوں تو کوئی حرج نہیں، خلوت غیروں سے مطلوب ہے اپنوں سے نہیں، یہ اﷲ والے تو یار ہیں، یاروں سے تھوڑی تنہائی ہوتی ہے، اگر مطلق خلوت مطلوب ہوتی تو اﷲ تعالیٰ اپنے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے لیے یہ نازل فرماتے کہ آپ جاکے پہاڑ کے دامن میں مجھ کو یاد کرکے روئیے بلکہ اﷲ تعالیٰ نے یہ نازل فرمایا:

{وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَدٰۃِوَالْعَشِیِّ } (سورۃُ الکہف، اٰیۃ:۲۸)

اے میرے نبی! آپ میرے عاشقوں میں جاکر بیٹھیے جو صبح شام میری یاد میں لگے ہوئے ہیں تو معلوم ہوا کہ اگر اﷲ کے عاشق مل جائیں تو ان میں جاکر بیٹھنا تنہائی سے بہتر ہے اِلاَّ یہ کہ رات کا وقت ہو، اب ایک آدمی رات کے بارہ بجے سورہا ہے اور آپ کہیں کہ آئو باہر گھومنے چلیں۔

اسی سے اﷲ والوں کی صحبت کی اہمیت ثابت ہوتی ہے جیسے انڈا کتنے ہی کمالات رکھتا ہو جب مرغی کے پرمیں رہے گا تب جاکر اس سے بچہ پیدا ہوگا ورنہ مردہ ہی رہے گا اور گندا ہو جائے گا، اسی طرح جو علماء اہل اﷲ سے باضابطہ نہیں جڑتے ان کے بارے میں میں کیا کہوں، بس دعا کرتا ہوں، ان کی عظمتیں سر آنکھوں پر لیکن اگر وہ کسی اہل اﷲ سے باضابطہ تعلق قائم کرکے ذکر اللہ پر مداومت اور گناہوں سے بچنے کاا لتزام کر لیں تو ان کے علم میں روحانیت آجائے گی، ان کو خود پتا چل جائے کہ میں پہلے کیا تھا اور اب کیا سے کیا ہوا جارہا ہوں۔

درس کے دوران علماء اور دیگر احباب اشکبار تھے۔ بہت سے علماء نے عرض کیا کہ مثنوی کا ایسا درس ہم نے آج تک نہیں سنا تھا جس کے مضامین اور عنوانات عجیب اور ایک ایک لفظ میں عشق کی آگ بھری ہوئی تھی۔
ابھی عشاء کے بعد کی مجلس جو روزانہ ہوتی ہے باقی تھی، مغرب کے بعد بہت دیر تک یہ درسِ مثنوی ہوا اس لیے حضرت والا سے احقر راقم الحروف نے درخواست کی کہ تھوڑی دیر آرام فرمالیں۔ حضرت اقدس نے فرمایا کہ ہاں آرام ضروری ہے ورنہ ضعف اور زیادہ ہوجائے گا۔ 

 سینٹ جوزف ری یونین : آج صبح حافظ داؤد صاحب کی گاڑی میں حضرت والا سیر کے لیے نکلے۔ راستہ میں دیکھا کہ عبد العزیز صاحب کھڑے تھے۔ حضرت والا کو دیکھ کر وہ خوش ہوگئے۔ حافظ داؤد صاحب نے کہا کہ یہ شہر سینٹ جوزف ہے۔ حضرت والا نے فرمایا کہ سیر سے واپس ہوکر آج عبد العزیز کے یہاں ناشتہ کریں گے۔

ناشتہ پر فرمایا کہ بہت سے احباب نے کہا کہ آپ میرے گھر کھانا کھالیں، میں نے عذر کردیا کہ آج کل طبیعت ٹھیک نہیں ہے لیکن آپ کے یہاں میرا رزق لکھا ہوا تھا۔ قسمت کی بات دیکھو ایک صاحب کئی دن سے کہہ رہے تھے کہ میرے گھر چلیں لیکن آپ کے بغیر دعوت کے آگیا۔ یہ ہے وہ چیز، شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ میرے پیر فرماتے تھے کہ بے مانگے موتی ملے، مانگے ملے نہ بھیک۔ کبھی مانگنے سے بھیک بھی نہیں ملتی اور بغیر مانگے اﷲ تعالیٰ موتی دے دیتے ہیں، اب ان کو بغیر درخواست کے دوست احباب مل گئے۔

ایک مرتبہ سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے کسی صحابی کے ہاں تشریف لے گئے، کچھ احباب بھی ساتھ تھے، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ تمہارے پاس کچھ کھانے کو ہے؟ اس حدیث سے علماء نے ثابت کیا ہے کہ استھداء یعنی ھدیہ طلب کرنا بھی سنت ہے بشرطیکہ محبت قوی اور شدید ہو۔ راستے میں میں نے علی سے کہا کہ عبدالعزیز کو فون کرو کہ بھوک لگ رہی ہے، مجھے آج اس سنت کا مزہ آرہا ہے کہ ایک صحابی سے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ آج تمہارے پاس کچھ کھانے کو ہے؟ معلوم ہوا کہ محبت کی ایک شان اور محبت کا ایک رنگ یہ بھی ہے، اگر آپ سے ان کا تعلق قوی نہ ہوتا توآپ  ایسی بات ہرگز نہ فرماتے، جہاں تعلق انتہائی قوی ہو اور نہایت درجہ کی محبت ہو کہ وہ اس بات سے خوش ہوگا وہیں ایسا معاملہ کیا جاتا ہے اور جہاں محبت نہ ہو تو وہ کہے گا کہ کہاں سے بلا آگئی مولویوں کی، صبح صبح یلغار ہوگئی، یلغار اردو کا بہت عمدہ لفظ ہے، جیسے مچھر زیادہ ہو جاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ آج کل مچھروں کی یلغار ہے لیکن جو محبت والا ہے وہ کہے گا کہ نعمتِ غیر مترقبہ مل گئی، ایسی نعمت اﷲ نے دے دی جس کی ہمیں اُمید بھی نہیں تھی۔ نعمتِ غیر مترقبہ اُس نعمت کو کہتے ہیں جس کی اُمید نہ ہو اور وہ مل جائے۔ تو جو محبت والا نہیں ہے وہ کہے گا کہ یہ آفتِ ناگہانی کہاں سے آگئی۔ ایک مرتبہ مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اﷲ علیہ سے اچانک ملاقات ہوگئی، میں نے عرض کیا کہ حضرت آپ مجھے بطور نعمتِ غیر مترقبہ مل گئے ہیں تو ہنس کر فرمایا بھئی چاہے نعمت غیر مترقبہ کہہ لو چاہے آفتِ ناگہانی کہہ لو۔ بزرگانِ دین مزاح بھی کرتے ہیں اور اپنے چھوٹوں پر شفقت فرماتے ہیں۔

حضرت شاہ عبد الغنی صاحب کا ایک واقعہ: ارشاد فرمایا کہ میرے شیخ شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ اتنے بڑے عالم تھے کہ دیوبند کے صدر مدرس کے لیے منتخب ہوئے تھے۔ حضرت حکیم الامت تھانوی نے لکھا کہ میں آپ کو دار العلوم دیوبند کی صدر مدرسی کے لیے منتخب کرتا ہوں، آپ کیا تنخواہ لیں گے؟ حضرت نے عرض کیا کہ تنخواہ کی کوئی ضرورت نہیں میں چنے چبا کر پڑھادوں گا۔ حضرت نے فرمایا کہ ہمیں آپ سے یہی امید تھی کہ آپ ایسا کردکھائیں گے یعنی یہ نہیں کہ مبالغہ کررہے ہوں۔
تو شاہ عبدالغنی رحمۃ اﷲ علیہ جو اتنے بڑے عالم تھے انہوں نے مجھ سے خود فرمایا کہ جب تک میں حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ سے بیعت نہیں ہوا تھا، اﷲ اﷲ نہیں کیا تھا، جانتا ہی نہیں تھا کہ ذکر کیا چیز ہے لیکن جب حضرت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ سے تعلق قائم ہوا تب ذکر کا مزہ آیا ورنہ بیضاوی، منطق اور فلسفہ پڑھتے رہے، سب کچھ زبان پر تھا لیکن دل خالی اور ویران تھا۔

بغیر صحبت اہل اﷲ کے دین نہیں ملتا:  میں اس کی مثال دیتا ہوں کہ جیسے اعلان ہوجائے کہ اس خیمہ میں لیلیٰ ہے لیکن جب خیمہ کے اندر گئے تو دیکھا کہ اندر کتا بندھا ہوا ہے، ہماری ڈاڑھیاں، ہماری ٹوپیاں یہ مولیٰ کے خیمے ہیں، لیکن ہمارے دل میں مولیٰ نہیں ہے، جب انسان ان لوگوں کو آزماتا ہے، ان کے ساتھ رہتا ہے تب پتا چلتا ہے کہ انہوں نے کسی کے روپیہ پر قبضہ کرلیا، کسی کا حق مار لیا۔
ایک صاحب نے مجھ سے روپیہ لیا کہ ہم کیلا بیچیں گے اور ہر مہینہ آپ کو نفع دیں گے، اس کے بعد معلوم ہوا کہ وہ میرا پیسہ لے کر تبلیغ میں چلے گئے، میں نے سمجھا شاید بعد میں آکر دے دیں گے، آج بارہ سال ہوگئے ایک پیسہ واپس نہیں کیا۔ بتاؤ! یہ کیا ہے؟ خیمہ تو ہے مگر لیلیٰ نہیں ہے، لیلیٰ کے بجائے کتا اور سور بندھا ہوا ہے، اس شخص کو کم از کم مجھ سے معافی تو مانگنی چاہیے تھی، اگر پیسہ نہیں دے سکتا تھا تو میرے پاس آناچاہیے تھاکہ میں نے آپ کا اتنا روپیہ ضائع کردیا مجھے معاف کردیجیے، لیکن یہ کیسا دین ہے؟ ایسوں کو دین کی ہوا بھی نہیں لگی۔ اس لیے کہتا ہوں کہ محض تبلیغی چلوں سے، ذکر و تسبیح سے، نفلی حج اور عمرہ سے تقویٰ پیدا نہیں ہوتا جب تک کسی اﷲ والے صاحبِ تقویٰ کی صحبت میں نہ بیٹھیں ۔ اگر ان چیزوں سے تقویٰ پیدا ہوتا تواﷲ تعالیٰ قرآن پاک میں کیوں فرماتے:

یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوْا اﷲَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِیْنَ (سورۃُ التوبۃ، اٰیۃ:۱۱۹)

اے ایمان والو! تقویٰ اختیار کرو لیکن تقویٰ کہاں سے ملے گا؟ صادقین متقین یعنی اﷲ والوں سے ملے گا۔ اس لیے کہتا ہوں کہ تقویٰ اس کا نام ہے کہ اﷲ تعالیٰ کا بھی حق ادا کرو اور اﷲ تعالیٰ کی مخلوق کا حق بھی ادا کرو، اگر دیکھ رہے ہو کہ چیونٹیاں چل رہی ہیںتو راستہ بدل دو یا پیر بچا کر ان پر سے گذرو، یہ نہیں کہ بے دھیانی سے ان پر پیر رکھے چلے جا رہے ہیں اگر پاؤں کے نیچے آکر دس چیونٹیاں مر گئیں تو کیا اﷲ کے یہاں ان کا مقدمہ نہیں چلے گا؟
علامہ بدرالدین عینی نے شرح بخاری عمدۃالقاری میں خواجہ حسن بصری رحمۃ اﷲ علیہ کی تفسیر نقل کی ہے کہ ابرار یعنی اﷲ کے نیک بندے کون ہیں؟
اَلَّذِیْنَ لاَ یُؤْذُوْنَ الذَّرَّ جو چیونٹی کو بھی تکلیف نہ دیں وَلاَ یَرْضَوْنَ الشَّرَّ  اور جو اﷲ کی کسی نافرمانی سے خوش نہ ہوں، یہ کیا کہ جہاں چڈی پہنے ہوئی عورتیں لیٹی ہیں اور وہاں ان کو دیکھ کر آپ خوش ہو رہے ہیں، ڈاڑھی بھی ہے، ٹوپی بھی ہے، تسبیح بھی ہے، بزرگوں کے ساتھ اُٹھنا بیٹھنا بھی ہے لیکن ایسے مناظر کو دیکھ کر خوش ہورہے ہیں بتائو ایسا شخص ابرار ہے یا اشرار ہے؟ اس میں شر ہے، اس کو تو رونا چاہیے کہ اے اﷲ میں آپ کی پناہ چاہتا ہوں ایسی حالت سے، اے اﷲ آپ کا احسان ہے کہ آپ نے ہم لوگوں ایسے گناہ میں مبتلا ہونے سے بچا یا اَلْحَمْدُ ِﷲِ الَّذِیْ عَافَانِیْ مِمَّا بْتلَاَکُمْ بِہٖ اور اگر عریانی دیکھ کر منہ میں پانی آگیا تو بتاؤ ایسا شخص ابرار ہوسکتا ہے؟ ایسے خیال سے بھی توبہ واجب ہے یا نہیں؟ یَعْلَمُ خَائِنَۃَ الْاَعْیُنِ وَمَا تُخْفِی الصُّدُوْرُ اﷲ تعالیٰ آنکھوں کی خیانت اور چوری سے بھی واقف ہیں اور جو دل میں خراب خیال پکاتا ہے اﷲ تعالیٰ اس سے بھی واقف ہیں اَللّٰھُمَّ اسْتُرْعَوْرَاتِنَاوَاٰمِنْ رَوْعَاتِنَا۔

ایک مرتبہ حضرت حاجی امداد اﷲ رحمۃ اﷲ علیہ پوری رات سجدے میں روتے رہے اور یہ شعر پڑھتے رہے   ؎

اے خدا ایں بندہ را رسوا مکن
گر بدم من سرِّ من پیدا مکن

زکوٰۃ کا مستحق: ارشاد فرمایا کہ یسے مالدار لوگ بھی ہیںجو زکوٰۃ کے مستحق ہوگئے۔ ڈھاکہ میں میرے سامنے ایک شخص آیا اور کھانے کے لیے پیسے مانگنے لگا، لوگوں نے بتایا کہ یہ کروڑ پتی تھا، اس کی دو دو فیکٹریاں چل رہی تھیں، جب پاکستان ٹوٹ کر بنگلہ دیش بنا تو جو شخص اس کے گھر میں کنستر کے ذریعہ پانی بھرتا تھا اس نے انہیں مار کر بھگا دیا اور ان کے مکان پر اور ساری چیزوں پر قبضہ کر لیا، اب وہ ان کی موٹر میں بیٹھ کر گھوم رہا ہے اور یہ بھیک مانگ کر گذارہ کر رہے ہیں، کتنا بڑا انقلاب ہے یہ کہ مالدارآدمی بھیک مانگنے لگ جاتاہے۔ لہٰذا علماء کی عزت قائم کرنے کے لیے میرا یہ ذوق ہے کہ علماء کے متعلق یہ اعلان ہو کہ ایک ملا آیا ہوا ہے، جو سخت مصیبت زدہ مالدار ہوں وہ رجوع کریں، اس میں علماء کی عزت ہوگی کہ ایک مولوی ایسابھی ہے۔

بس اب دعا کیجیے کہ یااﷲ! اپنے فضل سے ہم سب کو سارے عالم میں اپنے دردِ محبت کے نشر کے لیے قبول فرما، اﷲ ہم سب کو ایمان والی زندگی، حیاتِ تقویٰ نصیب فرمائیں، یا رب العالمین! اصول کے ساتھ دین کی خدمت نصیب فرما، اے اﷲ! ہم سب کی کوتاہیوں کو معاف فرما، اپنی مرضی کے مطابق دین کی خدمت کی توفیق عطا فرما، اپنی رضا کو ہمارے قلوب میں ڈال دے، اے اﷲ! ہم کو ہمارے نفوس کے حوالہ نہ کر یَاحَیُّ یَاقَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ نَسْتَغِیْثُ اَصْلِحْ لَنَا شَأْنَنَا کُلَّہُ وَ لاَ تَکِلْنَا اِلٰی اَنْفُسِنَا طَرْفَۃَ عَیْنٍ۔ یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ یَا ذَا الْجَلاَلِ وَ الْاِکْرَامِ  اے اﷲ! ہمارے حالات کو درست فرمادے، اے اﷲ! ہماری زندگی کے ہر شعبہ کو درست فرما، ہم سب کو اپنا پسندیدہ اور محبوب بنا اور ہمارے جو اعمال، کیفیات، احوال، حرکات و سکنات آپ کو پسند نہ آرہے ہوں انہیں معاف فرما، ان کی اصلاح فرما، اے اﷲ! دل میں توفیق ڈال دے، یا رب العالمین! ہمیں ہمارے نفس کے حوالہ نہ فرما، ہماری ہر سانس کو اپنی مرضی کا، اپنی پسند کا بنا دے، اپنی نا پسندیدگی کے اعمال و احوال سے حفاظت مقدر فرما، یااﷲ! اپنی رضا پر جینا اور مرنا نصیب فرما، جس بات سے آپ خوش ہوں ہمیں اس کی توفیق عطا فرما، جس بات سے آپ ناخوش ہوں ان سے بچنے کی توفیق عطا فرما، اے خدا! ہم شیطان و نفس کے مکر سے پناہ چاہتے ہیں، آپ کی ناپسندیدہ چیز کو نفس و شیطان کہیں ہم کو پسندیدہ شکل میں نہ پیش کردے  اَللَّھُمَّ اَرِنَاالْحَقَّ حَقًّا وَّ ارْزُقْنَا اتِّبَاعَہُ وَاَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلاً وَّ ارْزُقْنَا اجْتِنَابَہُ یا اﷲ! اپنی مرضی کا راستہ دکھادے، اس پر چلنے کی توفیق اور ہمت عطا فرمادے، جن باتوں سے آپ ناراض ہوتے ہیں یارب العالمین ہمارے قلوب کو ان کی فہم نصیب فرما دے اور ان سے بچنے کی توفیق عطا فرمادے، اے مالک! ہم سب کو ایسی توفیق عطا فرمادے کہ ہم اپنی ہر سانس کو آپ کی رضاپر فدا کر دیں اور ایسی عقل و فہم اور توفیق عطا فرمادے کہ ہم ایک سانس بھی آپ کو ناراض نہ کریں چاہے وہ صورت دین میں ہو، بدن میں ہویا دنیا میں ہو، اے اﷲ! حق کو ہم پر ظاہر فرما، آمین

اَللّٰھُمَّ وَفِّقْنَا لِمَا تُحِبُّ وَتَرْضٰی اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْئَلُکَ رِضَاکَ وَالْجَنَّۃَ وَنَعُوْذُبِکَ مِنْ سَخَطِکَ وَالنَّارِوَصَلَّی اﷲُ تَعَالٰی عَلَی خَیْرِخَلْقِہٖ مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ اَجْمَعِیْنَ بِرَحْمَتِکَ یَااَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ۔

یہاں آج کے مجلس کا سلسلہ اختتام کو پہنچا آج صفحہ ۳۳۷ سے ۳۵۳ تک ملفوظات پڑھے گئے !

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries