مجلس۵۔ جون۲۰۱۴ء اشکِ ندامت کی دولت !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں(کلک کریں)

خلاصۂ مجلس:محبی و محبوبی مرشدی و مولائی حضرت والا دامت برکاتہم رونق افروز تھے،   مولانا ابراہیم کشمیری صاحب کو اشعار سنانے کا فرمایا درمیان درمیان میں ہر شعر کی الہامی تشریح بھی فرمائی، یہ سلسلہ تقریبا ۴۰ منٹ جاری رہا اس کے بعد  جناب ممتاز صاحب کو کتاب معارفِ ربانی پڑھنے کو فرمایا، ممتاز صاحب نے صفحہ ۳۵۳ سے ۳۵۹ تک ملفوظات پڑھے، آج کی مجلس تقریباً ۱ گھنٹے ۸ منٹ تک جاری رہی۔۔

ملفوظات

اشکِ ندامت کی دولت فرشتوں کو بھی نصیب نہیں

بہت ہی بیوقوف ہے وہ شخص جو اللہ کو چھوڑ کر غیر اللہ سے دل لگاتا تھا۔

حسینوں کی اصلیت بڑھاپے میں ظاہر ہوجاتی ہے۔

حضرت والا جوش میں فرماتے تھے کہ اگر سارے عالم کے بادشاہ جمع ہوجائیں اور پھر میں تقریر کروں تو بادشاہ اپنی بادشاہتیں بھول جائیں گے۔

حضرت والا کی برکت سے اہل خرد اللہ تعالیٰ کے دیوانے بن گئے

اہل اللہ کو اپنے ظاہر کی زیادہ پروا نہیں ہوتی، اس ضمن میں حضرت والا کے مجاہدات بیان فرمائے

اہل اللہ ویسے چاک گریباں ہوتے ہیں دل میں عظیم الشان دولتِ نسبت مع اللہ رکھتے ہیں۔

اہل اللہ کے سینوں میں جو دولت ہے وہ تلواروں سے نہیں ملتی بلکہ اُن کی جوتیاں اٹھانے سے ملتی ہے۔

حضرت پھولپوریؒ کے تقویٰ کا رعب ، نواب چھتاری

حضرت پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ کی مجھے دو بار زیارت ہوئی ، پورا واقعہ درد بھرے انداز میں بیان فرمایا

اہل اللہ اپنے ظاہر سے بے خبر اللہ سے باخبر ہوتے ہیں

اللہ تعالیٰ کی محبت کا درد اہل درد سے ہی ملتا ہے۔

ہر بزرگ کا الگ رنگ ہوتا ہے۔ لیکن جن پر اللہ کے محبت کا غلبہ ہوتا ہے اُنہی سےاللہ تعالیٰ کی محبتِ قویہ حاصل ہوتی ہے۔

گناہوں سے بچنے کا غم اٹھانا اہل اللہ کا خاص مشغلہ ہوتا ہے، اور یہ مشغلہ صرف ذاتی ہی نہیں متعدی بھی ہوتا ہے۔

اللہ کے دردِ محبت کی دولت صرف شیخ ہی سے ملتی ہے، اس ہی لئے شیخ سارے جہاں سے زیادہ مہربان ہوتا ہے اور شیخ سے محبت صرف اللہ کےلئے ہوتی ہے۔

شہوت کی آگ میں اندھیرا ہی اندھیرا ہے بظاہر روشنی نظر آتئی ہے  ۔ ۔ ۔ اللہ کے قرب کی نور کی لذت جو چھک لیتا ہے وہ نارِ شہوت کو طبعاً ناپسند کرت۔

جن کی جانیں تقویٰ کی ٹھنڈک سے مشرف ہیں اُن کو گناہوں کی آگ کی تپش محسوس ہوجاتی ہے۔  جیسے کوئی ائیرکنڈیشن کی ٹھنڈک کا عادی ہو وہ باہر گرمی میں جائے گا تو اُس کو تپش کا احساس فوراً ہوجاتا ہے۔

حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کے مجاہداتِ غیر اختیاریہ کا ذکر فرمایا ۔ ۔

حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ اپنے شیخ پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ کی ایسی خدمت کی جیسے ہزار سال پہلے مریدین اپنے شیخ کی کیا کرتے تھے ۔ ۔ ۔  اس پر حضرت والا کے حالاتِ زندگی بیان فرمائے۔

جو حاسدین تھے آج اُن کو کوئی نہیں جانتا اور حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کا شہرہ سارے عالم میں ہوگیا

جس کو اہل دنیا نے خار سمجھا تھا اُس کے دل میں نسبت مع اللہ گلستان تھا  ۔ ۔ ۔ جتنا وقت گزرتا جائے گا لوگ حضرت والا کی پہچان ہوتی جائے گی اور میرا گمان اقرب الیقین یہ ہے کہ اب جتنے بھی مجددین اور مصلحین اور مشایخ قیامت تک آئیں گے وہ حضرت والا شیخ العرب والعجم عارف باللہ مجدد زمانہ رومی ثانی ، تبریزِ وقت جنیدِ زمانہ  حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے تعلیمات سے ہی استفادہ کرتے ہیں۔

علم دینِ کا بقدر ضرورت حاصل کرنا فرض ہے، کتابوں سے اور علمائے کرام سے سیکھے۔

ملفوظات معارفِ ربانی

 آج ری یونین کے شہر سینٹ جوزف کی مسجد عمر میں حضرت اقدس دامت برکاتہم کا وعظ تجویز تھا، اس مسجد کے امام مولانا یوسف علی صاحب جو راندھیر کے فارغ ہیں اور حضرت والا سے بیعت ہیں ان کی درخواست پر یہ بیان تجویز ہوا تھا۔ چنانچہ آج دوپہر بارہ بجے حضرت والا سینٹ جوزف کے لیے روانہ ہوئے اور بارہ بج کر چالیس منٹ پر حضرت والا کا بیان شروع ہوا اور چونکہ وقت مختصر تھا لہٰذا حضرت والا نے قلبِ سلیم کی مختصر اور نہایت جامع تفسیر بیان فرمائی۔ مسجد میں آج تبلیغی جماعت بھی آئی ہوئی تھی ان کے لیے بھی حضرت والا نے چند کلمات بطور نصیحت فرمائے جن کا فرانسیسی ترجمہ مولانا حافظ داؤد بدات صاحب نے کیا۔

تبلیغ کے دو اہم لوازِم : فرمایا کہ معلوم ہوا کہ یہاں تبلیغی جماعت بھی آئی ہوئی ہے اس سے بڑا دل خوش ہوا۔ تبلیغی جماعت ہمارے بزرگ حضرت مولانا الیاس صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کی قائم کی ہوئی ہے جو حضرت مولانا خلیل احمد صاحب سہارن پوری رحمۃ اﷲ علیہ کے خلیفہ تھے اور حضرت مولانا خلیل احمد صاحب قطبِ عالم مولانا رشیداحمد صاحب گنگو ہی رحمۃ اﷲ علیہ کے خلیفہ تھے اور چلتے پھرتے کتب خانہ تھے، انہوں نے ابودائود شریف کی شرح بذل المجہود سفرِ حج کے دوران لکھی۔ حضرت گنگوہی رحمۃ اﷲ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے خلیل کو اﷲ نے نسبتِ صحابہ عطا فرمائی ہے، مولانا الیاس صاحب رحمۃ اﷲ علیہ ان سے بیعت ہوئے اور ان کے خلیفہ بھی ہوئے۔ حضرت مولانا الیاس صاحب رحمۃ اﷲ علیہ عالم بھی تھے اور جیسا کہ ابھی عرض کیا کہ مولانا خلیل احمد صاحب سہارن پوری رحمۃ اﷲ علیہ کے خلیفہ بھی تھے جس سے ثابت ہوا کہ مدارس کا قیام بھی ضروری ہے اور خانقاہوں کا وجود بھی ضروری ہے، مولانا الیاس صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کا وجود اور ان کی دینی خدمات کی بنیاد انہی دو چیزوں پر ہے۔ علم کی نعمت انہوں نے مظاہر العلوم سہارن پور سے حاصل کی اور تصوف اور اﷲ تعالیٰ کی محبت اور اخلاص کی نعمت مولانا خلیل احمد صاحب سہارن پوری رحمۃ اﷲ علیہ کی صحبت سے حاصل کی۔ اس سے معلوم ہوا کہ تبلیغ کے لیے دو چیزیں بہت ضروری ہیں۔ تبلیغ کی جس محنت و حرکت کا بانی ان دو صفات سے موصوف ہو تو سارے لوگوں پر لازم ہوا کہ ان دو صفات کو حاصل کریںورنہ ان سے تبلیغ کا کام نہیں ہوسکے گا۔ نمبر۱ علمِ دین کی نعمت، علمِ دین پڑھیںیا کتابوں سے سیکھیں ۔نمبر ۲ کسی اﷲ والے سے اصلاحی تعلق ہونا چاہیے۔ اگر یہ دونوں باتیں اہم نہ ہوتیں تو اس جماعت کے بانی نے بھی حاصل نہ کی ہوتیں۔ کیونکہ تبلیغ کے لیے علم کی ضرورت ہے، علم نہ ہوگاتو تبلیغ کس چیز کی کریں گے؟ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں:

یٰاَ یُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ (سورۃُ المائدۃ، اٰیۃ:۶۷)

اے نبی! تبلیغ کیجئے اس کی جو آپ پر نازل کیا گیاہے، معلوم ہوا کہمَا اُنْزِلَکا علم ضروری ہے ورنہ تبلیغ کس چیز کی کروگے اور دوسرے شعبہ تزکیۂ و تصوف کے متعلق بس اتنا ہی کہوں گا کہ تبلیغ کا اتنا بڑا کام اس شخص سے لیا گیا جس نے ایک عمر خانقاہ میں ایک اﷲ والے کی صحبت و خدمت میں گذاری اور اپنے نفس کا تزکیہ کرایا اور لوگوں کے لیے داعی الی اﷲ بننے کے لیے اور ان کی اصلاح و تربیت کے لیے سندِ خلافت عطا ہوئی، میں پوچھتا ہوں کہ یہ کام کسی ایسے عالم سے کیوں نہیں لیاگیا جس نے کسی اﷲ والے سے اپنے نفس کا تزکیہ نہیں کرایا، اس سے معلوم ہوا کہ صحیح معنوں میں اﷲ والا بننے کے لیے یہ دونوں چیزیں انتہائی اہم ہیںلہٰذا اس کی طرف خاص توجہ کرنی چاہیے۔

مِزاح : (۱) نماز کے بعد امام مسجد مولانا یوسف صاحب نے دعوت کا انتظام کیا تھا۔ کھانے کے دوران حضرت والا سے میزبان نے عرض کیا کہ تھوڑا سا مسالہ لیجئے بہت مزے دار ہے تو فرمایا کہ میر صاحب کو دو،ان کو مسالہ بہت پسند ہے کیونکہ ان کے سالا نہیں ہے، جب مسمّٰی نہیں ہے تو اسم ہی سے مزہ لے لیتا ہے اور اسم بھی نہیں تو مشابہ اسم  ہی سے تسلی حاصل کرتا ہے۔ حضرت والا کے اس مزاح سے سب لوگ بے اختیار ہنس پڑے۔

(۲)ایک صاحب نے کہا کہ یہاں عیسائی لڑکیاں مسلمان ہوجاتی ہیں اور دو چار سال بعد بھاگ جاتی ہیں اور دوبارہ عیسائی ہو جاتی ہیں تو حضرت والا نے مزاحاً فرمایا کہ وہ اسلام کے لیے تھوڑی مسلمان ہوتی ہیںمسلمانی کے لیے مسلمان ہوتی ہیں۔ اس جملہ پر تمام حضرات بہت محظوظ ہوئے اور بے اختیار ہنس پڑے۔ 

پھر فرمایا کہ اکثر شوہر کی اخلاقی خرابیوں سے بھی ایسا ہو تا ہے کہ وہ بدظن ہوکر بھاگ جاتی ہیں۔ اگر کوئی کافر اسلام لائے تو اس کا اسلام قبول ہے، یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ دل سے اسلام نہیں لایا، فلاں غرض سے لایا ہے کیونکہ ایک صحابی نے عرض کیا کہ ایک کافر میری تلوار کے نیچے آیا تو اس نے کلمہ پڑھ لیا لیکن میں نے اس کو قتل کردیا کیونکہ اس نے جان بچانے کے لیے کلمہ پڑھا تھا تو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ناراضگی کا اظہار فرمایا اور فرمایا ھَلْ شَقَقْتَ قَلْبَہٗ کیا تو نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا؟ اس کے بعد عورتوں کے حقوق پر نصائح فرمائے۔
نوٹ: مزاح میں بھی حدودِ شریعت کا پاس رکھنا اور احباب کو علمِ صحیح سے آگاہ کرنا یہ حضرت والا کی خاص شان ہے تاکہ لوگ جہالت میں مبتلا نہ ہوں۔

دستر خوان اُٹھانے کی دعا کی سنت: پھر فرمایا کہ اب دستر خوان اُٹھوائیے، فی الحال سب برتنوں کو دستر خوان سے اُٹھا کر ایک طرف رکھ دیجئے تاکہ دستر خوان اُٹھنے کی دعا پڑھ لی جائے۔ اس سنت سے آج کل بہت غفلت ہے، مہمان دستر خوان اُٹھنے سے پہلے اُٹھ جاتے ہیں اور دستر خوان اُٹھانے کی دعا نہیں پڑھتے، دستر خوان اُٹھنے سے پہلے اُٹھ جانا کھانے کے اِکرام کے خلاف ہے، کم از کم ایک آدمی دستر خوان پر بیٹھا رہے۔

کھانے کا ایک ادب: دستر خوان اٹھانے کے بعد حضرت والاکے ہاتھ دھلوانے کے لیے تسلہ لایا گیا جو معلوم ہوتا تھا کہ کھانے پینے کی چیزوں میں استعمال ہوتاہے تو حضرت والا نے فرمایا کہ جس برتن میں ہاتھ دھلوائے جائیں اس میں کھانا نہ کھایا جاتا ہو یا کھانے کی چیزوں میں استعمال نہ ہوتا ہو۔ ہاتھ دھلوانے کے لیے الگ برتن ہو تو ٹھیک ہے ورنہ کھانے پینے کے برتنوں میں ہاتھ دھوناٹھیک نہیں۔ ہم اُٹھ کر باہر جا کر ہاتھ دھولیں گے لہٰذا حضرت والا نے باہر جاکر ہاتھ دھوئے۔ 

شہوانی ہیجان توڑنے کے لیے دو مراقبے: کھانے سے فارغ ہونے کے بعد تقریباًڈھائی بجے کے قریب یہاں سے خانقاہ سینٹ پیئر کے لیے روانگی ہوئی۔ راستہ میں فرمایا کہ اگر اچانک نظر کسی لڑکی پر پڑجائے کیونکہ یہاں تو چاروں طرف رانیں ننگی کیے ہوئے لڑکیاں پھر رہی ہیں تو فوراًنظر پر بریک لگا دو تاکہ دوبارہ نہ اُٹھے اور فوراًیہ مراقبہ کرو کہ اس کو ڈائریا ہو گیاہے اور اس کے پیچھے سے بہت زوروں سے فوارہ کی طرح پاخانہ نکل رہاہے اورزبردست تعفن اور بد بو ہے اور اس کے پچھلے حصّہ پر چاروں طرف پاخانہ لگا ہوا ہے اور رانوں پر بہہ کرآ رہا ہے اور آگے پیچھے مکھیاں بھنک رہی ہیں۔ یہ مراقبہ ان لوگوں کے لیے بھی مفید ہے جو لڑکوں کی طرف میلان رکھتے ہیں۔
اور دوسرا مرقبہ یہ ہے کہ نو مہینے پورے ہو کر رحم کے منہ کا قطر آدھے فٹ کا ہوگیا ہے اور اس میں سے بچے کا سر نکل رہا ہے اور خون جاری ہے، بالٹی بھر بھر کے خون پھینکا جا رہا ہے، ایسی حالت میں کوئی صحبت کر سکتا ہے؟ کوئی شخص اس وقت قادر نہیں ہوسکتا۔ اس سے جوطبعی ہیجان ہے ان شا ء اﷲ وہ ٹوٹ جائے گا اور شیطان دب جائے گا لیکن نظر بچا کر یہ مراقبے مفید ہیں، کوئی دیکھتا بھی رہے اور مراقبہ بھی کرے تو کچھ مفید نہیں ہوگا۔

جلوسِ حُسنِ رفتہ: راستہ میں کچھ بوڑھے فرانسیسی عورت و مرد جارہے تھے تو فرمایا میرا دل چاہتا ہے کہ ستر سال کے بڈھے مرد اور ستر سال کی بڈھی عورتوں کا ایک سالانہ جلوس نکلنا چاہیے، ستر سالہ بڈھی عورتوں کی چھاتیاں ایک ایک فٹ لٹک گئی ہوں اور گالوں میں دو دو انچ گہرے گڈھے ہوگئے ہوں، منہ میں ایک بھی دانت نہ ہو، ہاتھوں میں مصنوعی بتیسیاں لیے ہوئے، دھنسی ہوئی آنکھوں پر گیارہ نمبر کے چشمے لگے ہوئے اور ایک بڑا سا بورڈ ہاتھوں میں اُٹھائے ہوں جس پر میرا یہ شعر لکھا ہو   ؎

حسنِ رفتہ کا تماشہ دیکھ کر
عشق کے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے 

اور دوسری بُڑھیا کے ہاتھ میں یہ بینر ہو   ؎

حسنِ فانی کا تماشہ دیکھتے جائو ذرا
عہدِ ماضی میں کبھی غارت گرِ ایماں تھے ہم

(یہ شعر حضرت والا نے فی البدیہہ فرمایا۔ جامع) اور ان کے ہاتھوں میں مختلف بینر ہوں جن پر مختلف نعرے لکھے ہوں مثلاً حسن کا انجام، ہم پر مرنے والے کہاں ہیں؟ ہمارا بوسہ لینے کی تمنا رکھنے والے کہاں ہیں؟ ہماری یاد میں رات کو تارے گننے والو! تم کہاں ہو؟ اور ایک بینر پر میرا یہ شعر لکھا ہو   ؎

اِدھر جغرافیہ بدلا اُدھر تاریخ بھی بدلی
نہ ان کی ہسڑی باقی نہ میری مسڑی باقی

عبرت کے لیے مختلف عنوان اﷲ تعالیٰ عطا فرماتے ہیں تاکہ ان چیزوں کی فنائیت اور حقارت پیشِ نظر رہے۔
(نوٹ: ظرافت و مزاح کے پیرایہ میں حضرت والا کا یہ اندازِ اصلاح بالکل منفرد ہے جس سے حسنِ مجاز کی فنائیت کا استحضار ہوتا ہے اور دل غیر اﷲ کی محبت سے سرد ہوجاتا ہے، جامع۔)

نظر کی حفاظت کی ایک عجیب حکمت: نظر کی حفاظت کی اس لیے بھی ضرورت ہے کہ ہر بد نظری کے بعد دل میں اس کو حاصل کرنے کی تمنا پیدا ہوگی کیونکہ ہرتمنا اپنی تکمیل چاہتی ہے یعنی ہر آغازِ تمنا مقتضی ہے تکمیلِ تمنا کی اور ہر تمنا کا پورا ہونا عقلاً محال ہے۔ اس لیے بدنظری سے آدمی پریشان رہتا ہے لہٰذا نظر کی حفاظت بہت ضروری ہے ورنہ اتنی پریشانی آئے گی کہ زندگی تلخ ہو جائے گی۔
اس سفر میں حضرت والا دامت برکاتہم نے ضعف کی وجہ سے کسی کی دعوتِ طعام قبول نہیں فرمائی کیونکہ مختلف جگہوں پر جانے میں تکلیف ہوتی ہے۔ اس لیے شروع ہی میں فرمادیا تھا کہ جس کا جی چاہے کھانا خانقاہ میں لے آئے لیکن آج مولانا دائود کے والد صاحب نے درخواست کی کہ رات کا کھانا حضرت والا ان کے مکان پر جو یہاں سے قریب بھی ہے تناول فرمالیں۔ تعلق خاص کی وجہ سے حضرت والا نے ان کی دعوت قبول فرمالی اور رات نو بجے کے قریب سینٹ پیئر سے کار میں تشریف لائے اور کھانے کے بعد کچھ ارشادات فرمائے جو یہاں نقل کیے جاتے ہیں
!

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries