مجلس۶۔ جون۲۰۱۴ء بالطف زندگی کا طریقۂ حصول !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں(کلک کریں)

خلاصۂ مجلس:محبی و محبوبی مرشدی و مولائی حضرت والا دامت برکاتہم رونق افروز تھے، جناب تائب صاحب  کو  اشعار سنانے کا فرمایا، انہوں نے حضرت اقدس میر صاحب دامت برکاتہم اشعار شبِ صحرا مہیب سناٹا سنائے، حضرت والا نے بہت پسند فرمائے۔ اس کے بعد حضرت والا نے خود معارفِ ربانی سے صفحہ ۳۵۹ سے ۳۶۹ تک ملفوظات پڑھ کر سنائے، آج کی مجلس تقریباً  ۴۴ منٹ تک جاری رہی۔۔

ملفوظات

شیخ کی محبت کا مقصود صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہوتی ہے۔

جب گھر سے نکلے پہلے ارادہ کرے کہ مجھے بدنگاہی نہیں کرنی تب ہی وہ بچ سکے گا۔

جو نافرمانی کرے گا کہ وہ ہمیشہ ناخوش رہے گا تاوقتیکہ وہ توبہ نہ کرلے۔

ملفوظات معارفِ ربانی

 گناہ کی ظلمت اور حرارت کا علاج: فرمایا کہ ایک بار جون پور سے حضرت ڈاکٹر عبدالحی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ اعظم گڑھ تشریف لائے، اُس زمانہ میں ہم لوگ شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ سے بخاری شریف پڑھتے تھے، حضرت نے بخاری شریف حضرت گنگوہی رحمۃ اﷲ علیہ کے شاگر د مولانا ماجد علی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ سے پڑھی تھی۔ تو ڈاکٹر صاحب نے حضرت سے پوچھا کہ حدیث شریف میں جو یہ دعا سکھائی گئی ہے:

{اَللّٰھُمَّ اغْسِلْ خَطَایَاءَ بِمَاءِالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ}
(صحیحُ البخاری،کتابُ الدعوات، بابُ الاستعاذۃ من ارذل العمر)

اے اﷲ! میرے گناہوں کو برف کے پانی سے اور اولے کے پانی سے دھودے تو اس میں برف اور اولے کے پانی سے دھونے کو کیوں تشبیہہ دی ہے؟ اس میں کیا حکمت ہے؟ تو حضرت شاہ عبدالغنی صاحب نے آنکھیں بند کر لیں اور چند سیکنڈ کے بعد آنکھیں کھولیں اور فرمایا کہ ڈاکٹر صاحب جواب آگیا۔ فرمایا کہ ہر گناہ سے دو چیزیں پیدا ہوتی ہیں، قلب میں ظلمت اور نفس میں حرارت لہٰذا برف کے پانی سے حرارت کا علاج کیا گیااور اولے کے پانی سے ظلمت کا علاج کیا گیا جو زیادہ شفاف اور اُجلا ہوتا ہے۔

ہر گناہ میں عذاب کی خاصیت ہے: اور میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ اگر قلب سلیم ہے تو ہر گناہ میں اس کو عذاب محسوس ہوگا۔ اگر ایک نظر بھی کسی کرسچین لڑکی پر یا کسی بھی حسین پر ڈال دی تو اس کے دل پر عذاب شروع ہو گیا، اس کو پریشانی اور اندھیرے محسوس ہوں گے بشرطیکہ قلب سلیم ہو اور گناہوں کے تسلسل سے مردہ نہ ہو چکا ہو تو ایک نظر غلط پڑنے سے کانپ جائے گا۔ اس لیے وہ کہے گا کہ توبہ کے راستہ ہی میں خیریت ہے، آنکھ بند رکھو اور سکون سے رہو۔ یہاں ری یونین کی سڑکوں پر بس ڈرائیور تو آنکھیں کھلی رکھے، وہ اگر آنکھ بند کرے گا تو ایکسیڈنٹ ہو جائے گا لیکن باقی لوگوں کو اِدھر اُدھرجھانکنا مناسب نہیں ورنہ گناہ سے نہیں بچ سکتے یہاں عدمِ قصدِ نظر کافی نہیں قصدِ عدمِ نظر ضروری ہے یعنی یہاں سڑکوں پر نکلتے وقت دیکھنے کا ارادہ نہ ہونا کافی نہیں بلکہ گھر سے نکلتے وقت یہ ارادہ ہو کہ نہیں دیکھنا ہے تو کامیاب ہوجائے گا۔

گناہ سے بچنا خوشی کی ضمانت ہے: تقویٰ میں سکون ہے۔ اﷲ کو خوش کرنا کیا معمولی نعمت ہے؟ جو اس زمین پر اپنے اﷲ کو خوش کرلے اس کی خوشی کو ساری کائنات ختم نہیں کرسکتی۔ جو اﷲ کو خوش کر لے اس بندہ کی خوشی کا اﷲ کفیل ہو جاتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی رحمت کا تقاضا ہے کہ میرا بندہ مجھ کو خوش کرنے کے لیے گناہ سے بچ رہا ہے، اپنی خوشیوں کو برباد کررہا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس کے دل کو آباد فرماتے ہیں۔ مولانا شا ہ محمد احمد صاحب کا شعر ہے   ؎

بربادِ محبت کو نہ برباد کریں گے
میرے دلِ ناشاد کو وہ شاد کریں گے 

جس نے اپنی خوشیوں کو اﷲ کو راضی کرنے کے لیے برباد کر دیا گویا وہ خود برباد ہوگیا تو اس کو اﷲ کیا مزید برباد کریں گے؟ جنہوں نے اپنے دل کو ناشا د یعنی حرام خوشیوں سے بچایا ان کو خوش رکھنا اﷲ تعالیٰ کے ذمہ ہے، وہ ارحم الرحمین ہیں اور جس کے لیے اﷲ تعالیٰ آسمان پر فیصلہ کرلے کہ مجھے اس بندہ کو خوش رکھناہے سارے عالم کے مصائب اس کی خوشی کو نقصان نہیں پہنچا سکتے اور جو اپنے دل کو خوش کرنے کے لیے حرام خوشیوں کا انتظام کر تا ہے، بندہ ہو کر اﷲ تعالیٰ کی نافرمانی سے اپنا دل خوش کر تا ہے ایسا شخص ہر وقت معذب رہتا ہے۔

اﷲ تعالیٰ کی نافرمانی کے ساتھ تلخی حیات لازم ہے: اﷲ تعالیٰ کی نافرمانی کے ساتھ تلخی حیات لازم ہے۔ جو اس میں شک کرے گا کافر ہوجائے گا۔ اس کی دلیل یہ آیت ہے:

وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَاِنَّ لَہُ مَعِیْشَۃً ضَنْکاً (سورۃ طٰہٰ، اٰیۃ:۱۲۴)

جو میری نافرمانی کرے گا اس کی زندگی تلخ ہوجائے گی۔ اور جملہ اِسمیہ سے بیان فرمایا یعنی دو اماً اس کی زندگی تلخ رہے گی، ہمیشہ پریشان رہے گا۔

اﷲ تعالیٰ کی فرمانبرداری کے ساتھ بالطف زندگی لازم ہے: اور اعمال صالحہ کے ساتھ کیا بشارت ہے؟ فرماتے ہیں فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً  طَیِّبَۃً جو اﷲ تعالیٰ کی فرمانبرداری میں رہے گا اس کو ہم ضرور ضرور با لطف حیات دیں گے۔ آہ! یہ ترجمہ حکیم الامت کا ہے۔ سبحان اﷲ! حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں خالقِ حیات ہوں، میں زندگی دیتا ہوں توجو مجھ کو خوش کرتا ہے میں اس کی حیات کو بالطف کر دیتاہوں۔ اے ظالمو! تم لطفِ حیات کہاں تلاش کرنے جارہے ہو؟ میرے غضب اور قہر کے اعمال میں، میری نافرمانی میں؟ اگر تم کو لطف لینا ہے تو مجھ سے تعلق قائم کرو، مجھ کو خوش رکھو، ان ننگی ٹانگوں میں کچھ نہیں ہے بس خون اور پیپ بھری ہوئی ہے، ابھی روح نکل جائے تب دیکھنا کہ تین دن کے بعد ان کا کیا حال ہوتاہے۔

با لطف حیات کا حصول اور تلخ حیات سے نجات: تو اﷲ تعالیٰ کے قہر و غضب سے بچنے کے لیے، اﷲ تعالیٰ کی رحمت کی مسلسل بارش اپنے اوپر برسانے کے لیے، چین سے جینے کے لیے، کلفتوں سے بچنے کے لیے، با لطف حیات کے لیے اور معذب اور تلخ حیات سے بچنے کے لیے کلام اﷲ کی بس یہ دو آیتیں ہمیشہ سامنے رکھیے۔

(۱) جو اﷲ کو راضی کر ے گا، نیک عمل کرے گا تو اﷲ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ ہم اس کو بالطف حیات دیں گے  فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً  طَیِّبَۃً  کا ترجمہ مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا کہ ہم اس کو بالطف زندگی دیںگے۔ جو زندگی کا خالق ہے، مالک ہے جب اس کا یہ اعلان ہے تو اس کا قول معتبر ہوگا یا ہمارے دل کا کہ چلو زِنا کرو، بدمعاشی کرو، کرسچین لڑکیوں کے حسن کو دیکھو، سمندر کے ساحل پر جائو جہاں وہ ننگی ہو کر اپنا رنگ تبدیل کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔ بتائیے! کس کا قول صحیح ہوگا؟ جس نے زندگی دی اس کا قول صحیح ہوگا یا ان کا قول صحیح ہوگاجو مرنے والے ہیں، جن کو خود اپنی زندگی پر کوئی قدرت اور کنٹرول نہیں ہے، جب اﷲ تعالیٰ کا حکم ہوگا مرجائیںگے، تو کہاں خالقِ حیات کا قول اور کہاں وہ حیات جو مستعار ہے جس حیات کو اپنی حیات پر کوئی قدرت اور اختیار نہیں، جس وقت چاہے اﷲ اس کو موت دے دے، بچے بھی مرتے ہیں، جوانوں کو بھی موت آتی ہے، قبرستانوں میں جائیے تو عمر کا کوئی دور ایسا نہیں جو وہاں موجود نہ ہو، ایک سال کا بچہ بھی ہوگا تو دس سال کا لڑکا بھی ہوگا، بیس سال کا جوان بھی ہوگا اور ساٹھ سترکے سال کے بوڑھے بھی ہوں گے۔ جو خالقِ حیات ہے اس کا یہ ارشاد ہے کہ اگر بالطف زندگی چاہتے ہو تو اسے میری نافرمانی میں تلاش کرنے کی حماقت سے باز آجائو کیونکہ میں خالقِ حیات ہوں، لطف کا بھی خالق ہوں، تم عبدالطف مت بنو، عبد اللطیف بنو، ہمارے ذمہ ہے کہ اگر تم ہم کو خوش کروگے تو ہم تم کو بالطف حیات دیں گے۔

اﷲ تعالیٰ فرمارہے ہیں مَنْ عَمِلَ صَالِحاً مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَھُومُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً  طَیِّبَۃً جو ایمان لائے اور اچھے اعمال کرے تو ہم اس کو بالطف زندگی دیں گے۔ اس آیت کے بعد پھر اعمالِ صالحہ کے خلاف کہیں اور لطف تلاش کرنا حماقت ہے۔ فاسقانہ اعمال میں، نافرمانی میںجو شخص لطف تلاش کرتا ہے چاہے وہ کوئی بھی ہو عالم ہو، پیر ہو، صوفی ہو، کسی قوم کا ہو، کسی ملک کا ہو دوستو! اس سے بڑھ کر بین الاقوامی بے وقوف اور گدھا کوئی نہیں ہو سکتا کہ اتنے بڑے مالک کے اِرشاد کے بعد نافرمانی میں لطف تلاش کرتا ہے اور نافرمانی کے مختلف درجات ہیں۔ ایک تویہ ہے کہ آنکھوں سے دیکھ لیا، یہ آنکھ کا زِنا ہوگیا، دوسرے یہ کہ بالکل ہی فحش میں مبتلا ہوگیا، جس درجہ کا گناہ ہوگا اس درجہ کی تلخی حیات لازم ہوگی۔ لہٰذا گناہ کے مقدمات سے بھی بچئے، اگر نفس نے ادنیٰ سی حرام لذت بھی حاصل کرلی تو سمجھ لیجئے کہ وہ شخص اﷲ کی طرف سے اُتنا معذب ہو جائے گا جتنا حصہ نفس نے حرام لذت کا درآمد کیاہے۔

اور دوسرا مضمون یہ ہے کہ جب فرماںبرداری پر، اﷲ تعالیٰ کو خوش رکھنے پر اتنا بڑا انعام ہے کہ اﷲ کا وعدہ ہے کہ میں تمہیں بالطف حیات دوں گا کیونکہ میں تمہاری حیات کا خالق ہوں، تم نے اپنی حیات کو اپنے خالق پر فدا کیا تو میری ذمہ داری ہے کہ میں تم کو خوش رکھوں، تم نے اپنی حرام خوشیوں کا خون کیا، اپنی خوشیوں کو خاک میں ملایا تو احساناً خالقِ افلاک کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ تمہیں خوش رکھے اور بالطف حیات دے۔

تمہارے اپنے تجویز کردہ لطف میں یہ بات کہاں حاصل ہو سکتی ہے، اس میں تو ہمیشہ پریشانی رہے گی۔ بتائیے! نفس کیا تجویز کرتا ہے؟ یہی کہ کسی حسین کو مت چھوڑو، سب کو دیکھ لو اور صرف دیکھو ہی نہیں ساری منازل طے کرلو لیکن یہ نفس دشمن کا مشورہ ہے، دیکھ لو اس میں کیا ملتا ہے، گناہ میں کبھی کسی نے چین پایا ہے؟ نافرمانی پر تلخ زندگی کی وعید ہے اور اﷲ تعالیٰ کی فرماںبرداری پر حیاتِ طیبہ کا انعام ہے۔

حیاۃ طیبۃ کو لام تاکید بانون ثقیلہ سے کیوں بیان فرمایا؟: اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً ہم اس کو بالطف زندگی دیں گے اور عنوان تو دیکھیے لام تاکید بانون ثقیلہ سے وعدہ فرمایا کہ ضرور ضرورہم ایسے بندوں کو بالطف حیات دیں گے تو یہ لام تاکید کیوں نازل کیا؟ اﷲ اتنے بڑے مالک ہیں، اتنے بڑے صادق القول ہیں کہ ان کا بغیر لام تاکید کے فرمادینا ہی کافی تھا پھر یہ لام تاکید بانون ثقیلہ اس لیے نازل فرمایا کہ تم ہمارے اس وعدہ کو خفیفہ مت سمجھو، بانون ثقیلہ اس لیے نازل کر رہا ہوں کہ میرا وعدہ معمولی بات نہیں ہے، بہت بھاری بات ہے، میرا وعدہ بہت وزنی وعدہ ہے۔ نون ثقیلہ کا یہ ثقل تو لغت کی بات ہے، لیکن اصل میں ہمارا وعدہ بہت بھاری ہے تاکہ تم اس کو خفیفہ نہ سمجھو، ہلکا نہ سمجھو بلکہ یقین رکھو کہ اپنی فرماںبرداری پر وہ ضرور بالضرور بالطف زندگی دیں گے۔

اور اس کا دوسرا پہلو بھی سوچیے کہ جب فرمانبرداری پر ایسا انعام ہے تو نافرمانی پر اس کا عکس ہوگا یا نہیں؟ جب فرماںبرداری پر بالطف زندگی کا وعدہ ہے تو نافرمانی پر سلبِ لطف ہو گا یا نہیں؟ آپ لوگ تو ماشاء اﷲ علماء ہیں بتایئے قضیہ عکس ہو جاتاہے تو نافرمانی پر اس کا عکس ہو گا یا نہیں؟ لہٰذا جو نافرمانی کرے گا، گناہ سے حرام لذت کو اپنے دل میں درآمد کرے گا تو بالطف حیات کا وعدہ اس کے لیے ختم ہوجائے گا اور اس کا عکس ہو جائے گا  فَاِنَّ لَہٗ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا ہم اس کی زندگی کو تلخ کر دیںگے۔آہ! خالقِ حیات جس کی زندگی کو تلخ کرنے کا فیصلہ کرلے تو کون ظالم ہے جو پوری کائنات میں کہیں مزہ پاجائے، ہر طرف اس کو عذاب ہی عذاب نظر آئے گا۔ ہمارے میر صاحب نے ایک بہت عمدہ شعر کہا ہے کہ گناہ کے بعد دل کی کیا کیفیت ہوتی ہے (اورپھر احقر سے فرمایا کہ وہ شعر سُنائو، جو احقر نے سُنادیئے ؎

شبِ صحرا مہیب سناٹا
موت ہو جیسے زندگی پہ محیط
یا صدورِ گناہ سے دل کی
تنگ ہونے لگے فضائے بسیط

دو علمِ عظیم : دیکھیے اس آیت میں اﷲ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ جو ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گایعنی ہم کو خوش کرے گا اور اپنی حرام خوشیوںپر خاک ڈالے گا ایسے شخص کے لیے اﷲ تعالیٰ نے انعام کا وعدہ بصورت جملہ فعلیہ فرمایا  فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً تو یہاں جملہ فعلیہ کیوں نازل فرمایا اور نافرمانی پر عذاب کے لیے جو وعدہ فرمایا وہاں جملہ اسمیہ نازل فرمایا  فَاِنَّ لَہٗ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا اس میں کیا راز ہے؟ میرے دل میں ابھی اﷲ تعالیٰ نے یہ بات ڈالی جو زندگی میں پہلی بار یہاں مولانا داؤد اور ان کے والد کے گھر بیان کر رہا ہوں کہ انعام کا وعدہ تو جملہ فعلیہ سے فرمایا مضارع سے اور عذاب کی وعید جملہ اسمیہ سے فرمائی۔

مَعِیْشَۃً ضَنْکًا کی وعید جملہ اسمیہ سے بیان فرمانے کا راز: راز اس میں یہ ہے کہ نافرمان ہر وقت دائمی طور پر معذب رہے گااور جملہ اسمیہ دوام و ثبوت پر دلالت کرتا ہے چونکہ گناہ کی سزا میں اس کی دنیاوی زندگی کو دائماً عذاب میں مبتلا رکھنا ہے لہٰذا نافرمانی کی وجہ سے یہ دواماً پریشان رہے گا اس لیے جملہ اسمیہ سے فرمایا  فَاِنَّ لَہٗ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا زندہ تو رہے گا مرے گا نہیں لیکن حیات تلخ رہے گی، نہ جیے گا نہ مرے گا ہر وقت پریشان رہے گا، ایسی زندگی کیا زندگی ہے جیسے کہتے ہیں کہ زندگی اور موت کے درمیان میں جی رہا ہوں۔ حضرت مولانا اسعد اﷲ صاحب نے ان لوگوں کی حیات کا نقشہ کھینچا ہے جو حسینوں کو دیکھتے ہیں اور ان کے عشق میں مبتلا رہتے ہیں۔ فرماتے ہیں؎ 

عشقِ بتاں میں اسعد کرتے ہو فکرِ راحت
دوزخ میں ڈھونڈتے ہو جنت کی خوابگاہیں

اﷲ تعالیٰ کے غضب اور قہر کے اعمال میں تم جنت تلاش کررہے ہو فَاِنَّ لَہٗ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا  اس کی زندگی دائمی طور پر تلخ ہوجائے گی۔

حَیٰوۃً طَیِّبَۃً کو جملہ فعلیہ سے بیان کرنے کی حکمت: اور فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً کے انعام کو فعلِ مضارع سے کیوں بیان فرمایا؟ فعلِ مضارع میں استمرار کے ساتھ تجدد بھی ہوتا ہے یعنی ایسے شخص کو ہر وقت نئی نئی لذت عطا ہوگی، روزہ کا مزہ الگ، نماز کا مزہ الگ، سجدہ کا مزہ الگ، رکوع کا مزہ الگ، قیام کا مزہ الگ، قعود کا مزہ الگ، سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْمِ کا مزہ الگ، سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلیٰ کا مزہ الگ فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً میں تجدد اِستمراری ہے لہٰذا ہر وقت نئی نئی لذت ملے گی، جس کا محبوب ہر وقت نئی شان رکھتا ہو کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِیْ شَأْنٍ  اس کے عاشقوں کی بھی ہر وقت نئی شان رہتی ہے۔ علامہ آـلوسی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ یہاں یوم کے معنی دن کے نہیں وقت کے ہیں، اَیْ فِیْ کُلِّ وَقْتٍ مِّنَ اْلاَوْقَاتِ وَفِیْ کُلِّ لَحْظَۃٍ مِّنَ اللَّحْظَاتِ وَفِیْ کُلِّ لَمْحَۃٍ مِّنَ اللَّمْحَاتِ  ہر لمحہ، ہر لحظہ، ہر وقت اﷲ تعالیٰ کی ایک نئی شان ہے اور اس کا عکس ان کے عاشقوں پر بھی پڑتا ہے جس سے ان کا ہر لحظۂ حیات، ہر لمحۂ حیات ایک نئی شان کا ہوتاہے ، ان کی بھی ہر وقت ایک نئی شان ہوتی ہے، کھانے کے وقت ایک نئی شان ہے، کھا رہے ہیںاور شکر ادا کررہے ہیں،کھانے کے بعد ایک دوسری شان ہے، کھانے کے بعد دعا پڑھ کر لطف حاصل کر رہے ہیں پھر دستر خوان سے اُٹھنے کی دعا پڑھ کر حمد کا مزہ لے رہے ہیںاور بندگی اور فقر و احتیاج کی ایک نئی شان میں ہیں، پھر دین کی بات بھی سناکر جس کی کھائی اُس کی گائی کا لطف لے رہے ہیں یعنی جس کا کھایاہے اس کی تعریف بھی کر رہے ہیں کہ اے اﷲ! آپ کی کیا شان ہے کہ کتنا عمدہ کھانا کھلایا۔ غرض اﷲ کے عاشقوں کی بھی ہر وقت ایک نئی شان ہے۔

ایک عالم کا اشکال اور حضرت والا کا الہامی جواب  کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِیْ شَأْنٍ

آخر میں جنت کا دل آویز تذکرہ فرمایا !

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries