مجلس۷۔ جون۲۰۱۴ء اہل اللہ کا دل غم پروف ہوتا ہے!

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں(کلک کریں)

خلاصۂ مجلس:محبی و محبوبی مرشدی و مولائی حضرت والا دامت برکاتہم رونق افروز تھے، جناب رمضان صاحب  کو  اشعار سنانے کا فرمایا، انہوں نے حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کے اشعار سنائے، جس کی الہامی تشریح بھی حضرت اقدس میر صاحب دامت برکاتہم فرماتے جاتے تھے۔ اشعاروتشریح کے بعد حضرت والا نے خود معارفِ ربانی سے صفحہ ۳۶۹ سے ۳۸۵ تک ملفوظات پڑھ کر سنائے، آج کی مجلس تقریباً  ۱ گھنٹے تک جاری رہی۔۔

ملفوظات

شیخ کامل کے تعلق سے گناہ گار کی ذلت اور رسوائیاں عزت سے تبدیل ہوجاتے، گناہوں کو اللہ تعالیٰ حسانات سے تبدیل فرمادیتے ہیں ۔ اس پر حضرت وحشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عزت دینے

شیخ کامل کے تعلق سے خراب اخلاق تبدیل فرمادیتے ہیں

حضرت فرماتے ہیں شیخ کامل کی برکت سے ذلت کے نقشے عزت سے تبدیل فرمادیتے ہیں

شیخ کامل کی برکت سے نفس امارہ پہلے نفسِ لومہ ہوتا ہے پھر اور ترقی کرتا ہے تو نفس مطمئنہ اور مرتے وقت فرشتے اُس کو یہی کہتے ہیں

تو کسی غیر کے پاس نہیں جارہا، جس اللہ کے لئے تو نے غم اُٹھائے اُسی اللہ

نفس امارہ کے سر کو شیخِ کامل کچل دیتا ہے۔

حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی  شیخ جو کہتا ہے الہام سے کہتا ہے

شیخ کی تدبیر الہامی ہوتی ہے ۔ ۔  اس پر ایک بزرگ کا قصہ بیان فرمایا۔

یہی اللہ والا ہونے کی علامت ہے، کہ اس کو اپنی اصلاح کی فکر ہوتی ہے اور وہ اپنی اصلاح کے لئے شیخ کے سامنے اپنے عیوب ظاہر کرتا ہے یہ اُس کی اخلاص کی دلیل۔

حضرت تھانویؒ نے ایک نواب صاحب کی اصلاحِ نفس فرمائی ۔ ۔ ۔ پورا واقعہ بیان فرمایا۔

حضرت تھانویؒ کی شانِ اصلاح بیان فرمائی

قیامت تک ایسے لوگ رہیں گے کہ جو کہ قیامت کے دن حجت ہوں گے کہ وہ اس ہی معاشرے میں رہتے ہوئے اللہ پر اپنی جان قربان کرتے ہیں

اس زمانے میں بھی دنیا کے ادارے میں کام کرنے والے ایسے لوگ ہیں جو ڈاڑھی والے اللہ والے وہی ایسے لوگوں پر حجت ہوں گے جو یہ کہتے ہیں کہ ہم مجبور ہیں معاشرے کی وجہ سے۔

اللہ کا غم دنیا کے تمام غموں کو کھا جاتا ہے۔ اہل اللہ کا دل غم پروف ہوتا ہے۔

بس جو اللہ تعالیٰ کا غم رکھتے ہیں وہ سارے غموں سے آزاد ہوجاتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ رفتہ رفتہ اپنے قرب کی منازل طے کراتے ہیں۔ پھر ایسا قرب نصیب ہوجاتا ہے کہ گویا وہ اللہ کو دیکھتے ہیں صرف محسوس ہی نہیں کرتے وہ پاتے ہیں دل میں اللہ۔

اللہ کی محبت کا درد ایسا ہے کہ میں ایسے چارہ گر کو تلاش کرتا ہوں جو اس درد کو اور بڑھا دے۔

اللہ والوں کی خاموشی بھی ہادی ہوتی ہےیعنی  ہدایت ہوتی ہے۔

جس اللہ والے سے مناسبت ہو اُس کی خاموشی بھی فائدہ ہوتا ہے۔

مناسبت یہ ہے کہ صرف صحبت سے فائدہ ہو، چاہے تقریر نہ ہو۔

اللہ کی محبت کا تیر جس کو لگ گیا پھر وہ ہر وقت تیر انداز کو تلاش کرتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کو تلاش کرتا ہے یعنی عبادات اور گناہوں سے بچ کر اللہ تعالیٰ کو خوش کرتا ہے۔

صحابہ کرام اللہ تعالیٰ کی فضل و رضا کو سونگھتے پھرتے ہے یہی تیر انداز کو ڈھونڈنا ہے۔

محبت خود صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین سے محبت سیکھے

یہ مٹی کا جسم جب خالق افلاک پر فدا ہوتی ہیں تو پھر وہ عرش تک پہنچ جاتی ہے۔

ملفوظات معارفِ ربانی

 بیوقوفوں کا مرض : حکیم الامت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیںکہ نظر بازی بیوقوفوں کا مرض ہے کیونکہ بد نظری سے وہ مل تھوڑی جائے گی۔لہٰذا دیکھنا بے وقوفی ہے یا نہیں کہ ملنا نہ ملانا مفت میں دل کو جلانا۔ حضرت تھانوی فرماتے ہیں کہ پنجاب کا ایک نیا شادی شدہ جوڑا ریل کے ڈبہ میں بیٹھا تھا اور سامنے دوسری ریل میں ایک بد نظری کا مریض بیٹھا تھا وہ بار بار اُٹھ کر اس نوجوان پنجابی کی بیوی کو دیکھتا تھا۔ اس نوجوان کو غصہ آگیا اور وہیں سے چیخ کر کہا کہ ابے خبیث کے بچے میری عورت کو کیوں دیکھتا ہے؟ لاکھ دیکھ لے مگر تجھے ملے گی نہیں، رات کو میرے ہی پاس سوئے گی۔ حضرت حکیم الامت رحمۃ اﷲ علیہ نے اس واقعہ کو اپنے وعظ میں نقل کیا اور فرمایا کہ واقعی بد نگاہی کا گناہ احمقانہ ہے کہ ملنا ملانا کچھ نہیں اور اﷲ کا غضب مفت میں مول لینا ہے

گناہ کا دنیا میں نقد عذاب : لیکن شیطان کہتا ہے کہ دوزخ تو اُدھار ہے گناہوں سے نقد مزہ لے لو لیکن اس سے کہہ دیجئے کہ جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کی ایک نقد دوزخ شروع ہوجاتی ہے، فَاِنَّ لَہٗ مَعِیْشَۃً ضَنْکاً  کا عذاب شروع ہوجاتا ہے۔ اﷲ جس سے ناراض ہوتا ہے اُس کی زندگی اُسی وقت تلخ ہو جاتی ہے، فائے تعقیبیہ ہے یعنی جیسے ہی گناہ ہوا اور دل میں پریشانی آئی، یہ بھی ایک دوزخ ہے۔

تقویٰ سے دنیا ہی میں کیفِ جنت: اسی طرح جو تقویٰ اختیار کرتا ہے اور نظر بچاتا ہے تو اُسی وقت حلاوتِ ایمانی اُس کے دل میں اُتر جاتی ہے، ذرا کوئی عمل کرکے تو دیکھے کہ دل کو کیسی حلاوت ملتی ہے، یہ دنیا کی جنت ہے، ملا علی قاری رحمۃ اﷲ علیہ نے اس کا نام رکھا ہے جَنَّۃُ ٗ فِیْ الدُّنْیَا بِالْحُضُوْرِ مَعَ الْمَوْلٰی ہر وقت اﷲ تعالیٰ کی حضوری قلب میں رہنا یہ وہ جنت ہے جو متقی بندوں کو دنیا ہی میں عطا ہوجاتی ہے جس سے وہ ہر وقت ایک کیف اور مستی میں رہتے ہیں، ان کے دل کی خوشی کے عالم کو دوسرا نہیں سمجھ سکتا، اﷲ بے مثل ہیں، ان کی عطا فرمودہ کیف و سرمستی بھی بے مثل ہوتی ہے، ہم اس کو کسی چیز سے تشبیہ نہیں دے سکتے۔

حلاوتِ ایمانی کی لذتِ بے مثل: نورِ تقویٰ سے جو حلاوتِ ایمانی قلب کو نصیب ہوتی ہے اس حلاوت کی مثال ہم دنیا میں کسی چیز سے نہیں دے سکتے نہ شہد سے، نہ شکر سے، نہ ملیدہ سے، نہ حلوہ سے، اس لیے کہ اﷲ تعالیٰ کی ذات بے مثل ہے تو ان کے قرب کی لذت کی بھی کوئی مثال نہیں، خود فرما دیا وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدُٗ ہمارا کوئی کفو اور ہمسر نہیں اور لَیْس کَمِثْلِہٖ شیْءٌ اﷲ تعالیٰ کے جیسا کوئی ہے ہی نہیں تو ان کے نام کی مٹھاس کو ہم کیسے بیان کر سکتے ہیں؟ بس یہی کہہ سکتے ہیں کہ ساری کائنات کی لذتوں سے مافوق اور بالا تر ان کے نام کی لذت ہے جس کو دل ہی محسوس کرتا ہے   ؎  

تو دل میں تو آتا ہے سمجھ میں نہیں آتا
ہم جان گئے بس تری پہچان یہی ہے

اور یہ قرب کی جنت تو اﷲ کے عاشقوں کو اس دنیا میں ملتی ہے جس کو صوفیاء نے جَنَّۃُ ٗ فِیْ الدُّنْیَا بِالْحُضُوْرِ مَعَ  الْمَوْلٰی فرمایا اور آخرت کی جنت کیا ہے؟ وہ اﷲ تعالیٰ کا دیدا رہے جَنَّۃُ ٗ فِیْ الْعُقْبٰی بِلِقَاءِ الْمَوْلٰی یہ جنت کی روح ہے، اﷲ کا دیدا ر حاصلِ جنت ہے۔

حق تعالیٰ کی محبوبیت کی انوکھی دلیل: اسی لیے اﷲ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں کافروں کو دھمکی دی ہے کہ قیامت کے دن ہم تم کو اپنا دیدار نہیں کرائیں گے کَلاَّ اِنَّھُمْ عَن رَّبِّھِمْ یَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوْبُوْنَ یہ آیت اﷲ کی شانِ محبوبیت کی دلیل ہے کیونکہ آج تک دنیا کے کسی حاکم نے مجرموں کو یہ سزا نہیں سنائی کہ ہم تمہیں اپنے دید ار سے محروم کر دیں گے، کیونکہ وہ حاکمِ محض ہوتے ہیں، محبوب نہیں ہوتے اور اگر کوئی حاکم یہ اعلان کرے کہ ہم تمہیں اپنا دیدار نہیں کرائیں گے تو مجرم کہیں گے کہ تیری صورت پر جھاڑو پھرے تو بس ہماری سزا معاف کردے لیکن اﷲ تعالیٰ کایہ اِرشاد اس بات کی دلیل ہے کہ وہ محبوب ہیں جو اُن سے محجوب ہوگیا بہت بڑا محروم ہوگیا۔ اسی لیے اپنے دیدار سے محجوبی کو موقع سزا میں بیان فرمایا۔

اس وقت کا یہ مضمون ہدایت و تقویٰ حاصل کرنے اور ولی اﷲ بنانے کے لیے کافی ہے بشرطیکہ عمل کرو اور اگر عمل نہ کرو تو لاکھ برس کسی شیخ کے ساتھ رہو اور لاکھوں ملفوظات یاد کرلو بلکہ جامع الملفوظات، کاتب الملفوظات اور ناشر الملفوظات بھی ہو جائو لیکن خود ولی اﷲ نہیں بنوگے، تمہاری باتوں کو پڑھ کر اور عمل کرکے دوسرے ولی اﷲ بن جائیں گے۔ اس لیے خود بھی عمل کیجئے۔ انسان سوپ اور یخنی پکائے اور خود نہ پیئے تو کمزور رہے گایا نہیں؟ علماء کی ذمہ داری ہے کہ ہم جتنا علم کو نشر کرتے ہیں اس سے زیادہ پہلے ہم اس پر عمل کریں۔ اس میں برکت بھی زیادہ ہوتی ہے، جو خود باعمل ہوتاہے اس کی بات میں اﷲ تعالیٰ اثر ڈال دیتے ہیں اور اگر بد عمل انسان وعظ کہے گا یا ملفوظات شائع کرے گا تو اس میں وہ اثر نہیں ہوگا جو اہلِ تقویٰ کی بات میں اﷲ تعالیٰ ڈالتے ہیں۔

اب دعا کرلیجیے کہ اے اﷲ! جو کچھ ہم سنتے ہیں اختر بھی محتاج ہے اس پر عمل کرنے کا۔ اے اﷲ! ان دونوں آیتوں پر عمل کی توفیق دے دے، ہم ایک سانس بھی آپ کی نافرمانی نہ کریں تاکہ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیْشَۃً ضَنْکاً  کے عذاب سے ہم سب کو نجات اور حفاظت نصیب ہو اور اے اﷲ اعمالِ صالحہ کی برکت سے وہ بالطف حیات عطا فرمایئے جس کا آپ نے فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً میں وعدہ فرمایا ہے، اے اﷲ! یہ دونوں نعمتیں ہم سب کو اور ہمارے گھر والوں کوعطا فرمادے، آمین۔

اس وقت رات کے گیارہ بج چکے تھے۔حضرت والا کے ساتھ ہم لوگ سینٹ پیئر خانقاہ کے لیے روانہ ہوگئے۔

آج صبح ساڑھے گیارہ بجے مولانا عمر فاروق صاحب احقر کے کمرے میں آئے، احقر سفر نامہ لکھ رہا تھا، انہوں نے بتایا کہ مولانا رشید بزرگ صاحب آئے تھے اور حضرت والا کے ساتھ ابھی ابھی لی مارک (Les Mark)کی پہاڑیوں کی سیر کے لیے روانہ ہوئے ہیں اور حضرت والا دامت برکاتہم نے احقر کے لیے فرمایا ہے کہ مولانا دائود کے ساتھ آجائے۔

مولانا دائود صاحب کچھ ضروری کاموں سے فارغ ہو کر تقریباً بارہ بجے خانقاہ سے روانہ ہوئے۔کار میں ان کے ساتھ احقر اور الیاس صوفی صاحب تھے۔ مولانا عمر فاروق اور حسن پٹیل صاحب ہم سے پہلے جاچکے تھے، تقریباً دس منٹ بعد ہماری کار پہاڑی راستوں سے گذر رہی تھی۔ آج موسم قدرے گرم تھا اور پہاڑ کی سیر کے لیے نہایت موزوں،جتنی بلندی کی طرف ہم بڑھتے جاتے تھے منظر خوش نما ہوتا جاتا تھا۔ دور نیچے سمندر نظر آرہا تھااور چاروں طرف سبزہ سے لدے ہوئے بلند قامت پہاڑ اور ان کے وسیع قدرتی سبزہ زار گویا زمین پر مخمل بچھا ہوا تھا۔ تقریباً آدھے گھنٹہ کی کوہ پیمائی کے بعد پہاڑوں کی بلندیوں پر سرو قد درختوں کی قطاریں نظر آئیں اور نہایت ہلکا کہر سبزپوش پہاڑوں پر مثل آنچل کے گررہا تھا لیکن اتنا ہلکا تھا کہ منظر صاف نظر آرہا تھا۔ ایک بجے کے قریب ہم منزلِ مقصود پر پہنچ گئے اور الحمدللہ وہاںمحبی ومحبوبی و مرشدی عارف باﷲ حضرت والا دامت برکاتہم کو پالیا ورنہ اب تک ان مناظر میں احقرکوکچھ مزہ نہیں آرہاتھا۔ حضرت والا کے بغیر احقر کو کوئی چیز اچھی نہیں لگتی اور دوستوں کے ساتھ بھی تنہائی محسوس ہورہی تھی اور احقر کو اپنے یہ شعر یاد آرہے تھے جو کسی زمانے میں حضرت کی یاد میں کہے تھے   ؎

سامنے تم ہو تو دنیا ہے مجھے خُلدِ بریں
اور قیامت کا سماں تم سے بچھڑ جانے میں
پاس اگر تم ہو تو ہے آباد ویرانہ مرا
ورنہ آبادی بھی شامل میرے ویرانے میں ہے

اس مقام کانام فرانسیسی زبان میں Fennets ہے اس کا ترجمہ ہے کھڑکی۔ کیونکہ یہ پہاڑ اتنی بلندی پر ہے کہ یہاں سے تمام پہاڑوں کی چوٹیاں ایسی نظر آتی ہیں جیسے بلند چھت کی کھڑکی سے میدان، علاوہ ری یونین کے بلند ترین سیاہ پہاڑکے کہ وہ اس سے بھی بلند ہے۔ حضرت والا نے احقر سے فرمایا کہ وہاں سامنے جا کر دیکھو کیا منظر ہے اور اﷲ تعالیٰ سے جنت مانگ لوکہ یہ دنیائے فانی جب ایسی حسین بنائی ہے تو جنت کیسی ہوگی۔ یہ پہاڑاوردرخت اور یہ خوشنما مناظر تو زلزلۂ قیامت کی زد میں ہیں، ایک دن قیامت کا زلزلہ ان کو ختم کردے گا لہٰذا اﷲ تعالیٰ سے جنت کا سوال کرو کہ اے اﷲ! ہم آپ سے جنت مانگتے ہیں اور ان اعمال کی توفیق بھی جو جنت میں لے جانے والے ہیںاور دوزخ سے پناہ چاہتے ہیں اور ان اعمال سے بھی جو دوزخ میں لے جانے والے ہیں، جنت کا ہمارا استحقاق تو نہیں ہے لیکن دوزخ کے عذاب کا تحمل نہیں ہے۔ اس لیے بدونِ استحقاق محض اپنے کرم سے ہم سب کو جنت نصیب فرمادیں، آمین۔ 

احقر نے آگے بڑھ کر جب بلندی سے نیچے کی طرف دیکھا تو اتنا حسین منظر پہلے کبھی نگاہوں سے نہیں گذرا تھا۔ نیچے سبز پوش پہاڑوں کے ساکت و خاموش عظیم القامت خیمے جا بجا پہلو بہ پہلو گڑے ہوئے تھے اور گہرائی در گہرائی میں سانپ کی طرح بل کھاتی ہوئی سڑکیں اتنی چھوٹی معلوم ہورہی تھیں جیسے بچوں کے کھلونے ہوں اور سامنے ری یونین کا سب سے بلند اور طویل و عریض سیاہ پہاڑ جس کی بلندیاں کہر آلود تھیں یوں معلوم ہوتا تھا کہ آسمان پر کوئی بادل ہے اور چاروں طرف ایک ھو کا عالم۔ کان لگا کر غور سے سننے سے دور دراز چشموں کی ہلکی ہلکی دلکش آواز فضا کی خاموشی کی ہمنوا تھی اور سارے مناظر پر تنہائی برس رہی تھی اور کسی شاعر نے شاید کسی ایسی ہی خیالی بستی کے لیے یہ شعر کہے تھے جو اس وقت احقر کو یا د آرہے تھے   ؎ 

آفاق کے اُس پار اک اس طرح کی بستی ہو
صدیوں سے جو انساں کی صورت کو ترستی ہو
اور اس کے مناظر پر تنہائی برستی ہو
یوں ہو تو وہیں لے چل اے عشق کہیں لے چل

موسم میں خوشگوار ہلکی سی خنکی تھی۔ اب کچھ بھوک بھی محسوس ہونے لگی تھی۔ اس منظر کے عین مقابل میں زمین پر دریاں اور چٹائیاں بچھا دی گئیں اور چا ئے،  بسکٹ، مٹھائی اور پھل وغیرہ سے ضیافت کی گئی جو مولانا داؤد صاحب ساتھ لائے تھے۔

ضیافت سے فارغ ہوکر حضرت والا نے احقر سے فرمایا کہ میرے وہ اشعار پڑھو جو یہاں آنے سے کچھ دن پہلے کراچی میں ہوئے تھے، جیسا بھی ہو بے تکلف دردِ دل سے پڑھیے۔ حضرت والا کے ارشاد کے مطابق احقر نے ترنم سے وہ اشعار پڑھے  ؎

منور کردے یا رب! مجھ کو تقویٰ کے معالم سے
ترے درتک جو پہنچادے ملادے ایسے عالم سے

علاجِ حزن و غم ہے صرف توبہ کر گناہوں سے
اندھیرے بے سکونی ہیں معاصی کے لوازم سے

جو دل سے غیر مخلص ہو وفاداری سے عاری ہو
بہت محتاط رہنا چاہیے پھر ایسے خادم سے

کیا برباد جس نے آخرت کو اپنی غفلت سے
بھلا پھر فائدہ کیا اس کو دنیا کے مغانم سے

حضرت والا نے فرمایا کہ مغانم کے معنی ہیں غنیمت یعنی اﷲ تعالیٰ کو بھول کر جس نے اپنی آخرت تباہ کرلی اگر وہ دنیا میں بادشاہ ہوگیا، وزیر ہوگیا، بہت بڑا تاجر ہو گیا تو بھی کیا فائدہ؟ پھر فرمایا کہ پڑھنے والے کو داد بھی دو اور یہ بھی دیکھو کہ یہ درخت اپنی قطاروں کے ساتھ ہم لوگوں کے کلام کو سن رہے ہیں۔ پھر احقر نے اگلا شعر پڑھا   ؎

نہ اہلِ دل کی صحبت ہو نہ دردِ دل کی نعمت ہو
تو پڑھ لکھ کر بھی وہ محروم ہو گا قلبِ سالم سے

کسی کی آہِ سوزندہ فلک پر نعرہ زن بھی ہو
تو پھر ظالم کو ڈرنا چاہیے اپنے مظالم سے

اس شعر کے متعلق فرمایا کہ یہ بالکل اِلہامی ہے یعنی میرے دماغ کو اس میں بالکل دخل نہیں۔ رات کو ڈھائی بجے میر ی آنکھ کھلی تو یہ مصرع میری زبان پر جاری تھا اس کو میں نے بنایا نہیں   ؎ 

کسی کی آہِ سوزندہ فلک پر نعرہ زن بھی ہو

آسمان پر وہ آہِ بارگاہِ حق کا دروازہ کھٹکھٹا رہی ہے کہ رحم کیجئے، ظالموں کے مقابلہ میں میر ی مدد کیجئے۔ آہ ِسوزاں تو بہت لوگوں نے استعمال کیا ہے، آہِ سوزندہ کی لغت شاید زمین پر پہلی بار اختر نے استعمال کی ہے یعنی یہ میری آہ جلانے والی ہے، جدھر سے گذرے گی ظالموں کو جلا کر خاک کر دے گی   ؎

کہیں شامل نہ ہو طائر کی بھی آہ و فغاں اس میں
دھواں اُٹھا نشیمن سے یہ کہہ صیادِ ظالم سے

کتب خانے تو ہیں اخترؔ بہت آفاقِ عالم میں
جو ہو اﷲ کا عالم ملو تم ایسے عالم سے 

حضرت والا نے فرمایا کہ جَزَاکَ اﷲُ خَیْرًا  بہت اچھا پڑھا، ماشاء اﷲ دردِ دل سے پڑھا، جو شعر زیادہ درد دل والے تھے ان کو کئی بار پڑھا، یہ سمجھ کی بات ہے، آخر بیس سال سے رات دن میرے ساتھ ہیں۔

ایسی دنیا سے کیا دل لگانا: پھر حضرت والا نے فرمایا کہ یہ مناظر لاکھ حسین ہوں لیکن ایک دن فنا ہونے والے ہیں، قیامت کا زلزلہ ان کو تباہ کر دے گالہٰذا ان سے دل نہ لگاؤ۔ حسنِ تباہ سے بس نباہ کرلو، ان کو دیکھ کر اﷲ تعالیٰ سے جنت مانگ لو:

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ الْجَنَّۃَ وَمَا قَرَّبَ اِلَیْھَا مِنْ قَوْلٍ اَوْ عَمَلٍ وَاَعُوْذُ بِکَ مِنَ النَّارِ وَمَا قَرَّبَ اِلَیْھَا مِنْ قَوْلٍ اَوْ عَمَلٍ  (سنن ابن ماجۃ، کتاب الدعائ، باب الجوامع من الدعائ،ص:۲۷۳)

احقر نے عرض کیا کہ حضرت والا نے ایک بار فرمایا تھا کہ جس دنیا سے ہمیشہ کے لیے جانا اور پھر لوٹ کر کبھی نہ آنا ایسی دنیا سے دل کا کیا لگانا۔ اس ارشادِ مبارک کو احقر نے منظوم کردیا تھا اگر اجازت ہو تو یہاں کے احباب کو سنادوں؟ حضرت اقدس نے فرمایا کہ ضرور سُنائو۔پھر احقر نے یہ ملفوظِ منظوم سُنایا جس کو سب حضرات نے پسند فرمایا   ؎ 

جس جہاں سے ہمیشہ کو جانا
اور کبھی لوٹ کر پھر نہ آنا
یہ ہے ارشادِ قطبِ زمانہ
ایسی دنیا سے کیا دل لگانا

(احقر اس وقت سوچ رہاتھا کہ دنیا دار توان رنگین مناظر کو دیکھ کر اﷲ کو اور زیادہ بھول جاتے ہیں اور ان مناظر کی رنگینیوں میں گم ہوجاتے ہیں لیکن واہ رے میرے شیخ! ان مناظر کو دیکھ کر ان کو اﷲ اور زیادہ یاد آرہا ہے اور دوسروں کو بھی اﷲ سے غافل نہیں ہونے دے رہے۔ یہ وہ تربیت ہے جو اوراقِ کتب نہیں دے سکتے بلکہ کوئی سوختہ جان ہی دے سکتا ہے۔ آہ! وہ لوگ جنہوں نے صرف کتب خانوں ہی کو کافی سمجھا اور کسی اﷲ والے پر جان فدا نہ کی اُن کو علم کی روح اور علم کی مٹھاس حاصل نہ ہوسکی۔ اس وقت حضرت والا کے اس شعر کا مطلب اﷲ کے فضل سے سمجھ میں آیا؎

کتب خانے تو ہیں اخترؔ بہت آفاقِ عالم میں
جو ہو اﷲ کا عالم ملو تم ایسے عالم سے

اور حقیقت یہ ہے کہ ان کو تو زندگی کا لطف بھی نہ ملا    ؎

لطف جینے کا اسے حاصل نہیں
جس نے دیکھی ہی نہ بزمِ عاشقاں

اﷲ تعالیٰ احقر کو اور ہم سب کو حضرت اقدس دامت برکاتہم کی صحیح معنوں میں قدر کی توفیق عطا فرمائے، آمین ۔جامع)

اس کے بعد حضرت والا نے ان اشعار کو سنانے کے لیے فرمایا جو آج صبح ہی حضرت اقدس پر وارد ہوئے جن میں نہایت درد بھرے نعت کے اشعار بھی ہیں   ؎ 

لذتِ ذکرِ نامِ خُدا ہے چمن
اور غفلت کی دنیا ہے دشت و دمن

آپ کے نام پر جس نے ہجرت کیا
پاگیا پاگیا وہ بہارِ وطن

ہے ضروری گناہوں کو بھی چھوڑدیں
اصل ہجرت نہیں صرف ترک ِ وطن

ہے یہ فیضانِ آہ و فغاں دیکھ لو
دامنِ کوہ میں دل ہے کیسا مگن

بالیقیں پائے گا نسبتِ اولیاء
جس کے دل کو لگی ہے خدا سے لگن

شہرِ محبوب ہوگا جہاں بھی کہیں
عاشقوں کا سُنا ہے وہی ہے وطن

کون سا حصّۂ زمین کعبہ و عرش سے افضل ہے؟: فرمایا کہ ایک بات سنو! مدینہ شریف میں روضۂ پاک کے اندر زمین کے جس ٹکڑے پر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا جسمِ مبارک ہے، علماء نے لکھا ہے کہ وہ حصّۂ زمین کعبہ سے افضل ہے، بیت اﷲ سے افضل ہے، عرشِ اعظم سے افضل ہے  ؎

پھر مدینہ کی لذت کو میں کیا کہوں
کاش ہوتا مدینہ میں میرا وطن

کس طرح میں کہوں دل سے اے دوستو!
زندہ باد اے وطن، زندہ باد اے وطن

فرمایا یعنی ہم دل سے وطن زندہ باد نہیں کہہ سکتے کیونکہ ہمارا دل تو مدینہ میں ہے   ؎

ہوں وطن میں مگر دل مدینہ میں ہے
اے مدینہ! فد ا تجھ پہ ہوں صد وطن

نیک لوگوں میں ہو صاحبِ دردِ دل
ہے چمن میں کوئی جیسے رشکِ چمن

فرمایا کہ اس شعر کا مطلب یہ ہے کہ صالحین کے مجمع میں کوئی سب سے بڑا ولی اﷲ ہو تو جیسے چمن میں پھول تو بہت سے ہیں لیکن جس کی نسبت سب سے زیادہ قوی ہے وہ گویا چمن میں رشکِ چمن ہے   ؎

روز و شب ہے یہ اخترؔ کی آہ و فغاں
بخش دے روزِ محشر مجھے ذوالمنن

دو بج رہے تھے، ابھی ظہر کی نماز بھی نہیں پڑھی تھی اور دوپہر کا کھانا بھی نہیں کھایا تھا اور فضا بھی آہستگی سے بدل رہی تھی، سامنے ری یونین کے سب سے بلند پہاڑ کی چوٹیوں کو کہر کی سرمئی چادر کبھی چھپا لیتی کبھی ہٹ کر نمایاں کردیتی۔لوگوں نے کہا کہ کچھ دیر میں کہر زیادہ گرنے لگے گا لہٰذا اپنی اپنی کاروں میں سب لوگ سوار ہوگئے۔ اور سینٹ پیئر(St.Pierre) خانقاہ کے لیے روانہ ہوگئے۔

حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی حقانیت پر ایک عجیب استدلال: حضرت اقدس دامت برکاتہم کار کی اگلی سیٹ پر تشریف فرما تھے اور مولانا دائود صاحب کار چلا رہے تھے۔ احقر اور فاروق ایس ایس اور مولانا عمر فاروق پچھلی سیٹ پر تھے۔ تھوڑی دیر بعد جب کار پہاڑ کے پرپیچ راستوں سے گذر رہی تھی تو حضرت اقدس مرشدی دامت برکاتہم نے احقر کو مخاطب کرکے فرمایا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی  وَاﷲُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم خیمہ میں تھے، صحابہ آپ کی پاسبانی کر رہے تھے۔ یہ آیت نازل ہوتے ہی آپ نے خیمہ سے چہرۂ مبارک نکالا اور پاسبانی کرنے والے صحابہ سے فرمایا کہ اب آپ لوگ جائیے، اﷲ تعالیٰ نے میری حفاظت کا ذمہ لے لیا ہے۔ اگر کوئی جھوٹا نبی ہوتا تو اس کے دل میں دغدغا ہوتا کہ ایسا نہ ہو کہ کافر آکر مجھے قتل کردیں لہٰذا وہ کبھی ایسا اعلان نہ کرتا۔ یہ آپ کی نبوت کی بہت اہم دلیل ہے۔ اس آیت کے نزول کے بعد پھر کبھی آپ نے پہرہ نہیں لگانے دیا۔ اﷲ پر اتنا یقین اﷲ کے سچے نبی ہی کو ہو سکتا ہے۔

اَلْحَمْدُ ِﷲِ الَّذِیْ عَافَانِیْ مِمَّا بْتَلاَ کَ بِہٖ کی عجیب تشریح: شہرکے اندر داخل ہونے کے بعد فرمایا کہ یہاں کی سڑکوں پر بے حیائی کے ساتھ مرد و عورت کا اختلاط ہے، پس اگر اچانک نظر پڑجائے تو فوراً نظر ہٹا کر یہ پڑھو:

اَلْحَمْدُ ِﷲِ الَّذِیْ عَافَانِیْ مِمَّاابْتَلاَ کَ بِہِ وَفَضَّلَنِیْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِمَّنْ خَلَقَ تَفْضِیْلاً (سننُ الترمذی،کتابُ الدعوات،باب ما یقول اذا رأی مبتلی،ج:۲،ص:۱۸۱)

اس کی برکت سے ان شاء اﷲ تعالیٰ اس آفت میں مبتلاء ہونے سے محفوظ رہوگے۔ ان سے کوئی پوچھے کہ اگر تمہارے ساتھ یہ عورت تمہاری بیوی ہے تو گھر میں عیش کرو سڑکوں پر کیا لپٹا لپٹی چما چاٹی کرتے ہو۔ اس حرکت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ غیر عورت ہے کیونکہ اگر تمہاری بیوی ہوتی تو تمہارے قبضہ میں ہوتی، پھر کیوں بے صبری کرتے۔ سڑکوں پر یہ حرکت علامتِ بے صبری ہے، اﷲ تعالیٰ نے انسان بنایا ہے، جانور تو نہیں ہو کہ کتاکتی کی طرح جہاں چاہا جفتی کرلی، شکر کرو کہ اﷲ تعالیٰ نے ہم کو ایمان و اسلام عطا فرمایا اور اس بے حیائی سے بچا لیا ورنہ کتے اور سور سے بدتر ہوتے۔
احقر نے عرض کیا کہ پاکستان میں ایک صاحب کہتے تھے کہ مغربی ممالک میں بدنظری کا مرض نہیں ہے کیونکہ عریانی عام ہونے کی وجہ سے ان کا احساس ہی ختم ہوگیا ہے لیکن احقر نے کل ہی دیکھا کہ ایک نوجوان انگریز ایک لڑکی کو گھور گھور کے دیکھ رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد حضرت والا نے یہ مصرع فرمایا   ؎

اس طرح حریصانہ نظر ڈال رہا ہے

پھر فرمایا کہ کوئی کہہ نہیں سکتا کہ اگلے مصرع میں کیا کہوں گا۔پھر دوسرا مصرع یہ فرمایا   ؎

جیسے کہ کبھی میر نے مرغا نہیں دیکھا

حضرت والا دامت برکاتہم کے مزاح سے کار میں بیٹھے ہوئے ہم سب لوگ ہنس پڑے !

 

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries