اتوار مجلس۸۔ جون۲۰۱۴ء اللہ والوں کے تذکرے باقی رہتے ہیں!

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں(کلک کریں)

خلاصۂ مجلس:محبی و محبوبی مرشدی و مولائی حضرت والا دامت برکاتہم آمد میں تاخیر تھی۔ حضرت والا کے حکم پر جناب اثر صاحب دامت برکاتہم نے نے اپنے اشعار سنانا شروع کئے اتنے میں حضرت والا تشریف لائے اور اشعار کو جاری رکھنے کو فرمایا،  آج جناب اثر صاحب نے اپنے تازہ اشعار پیش فرمائے حضرت والا  نے بہت پسند فرمائے اور خوب تعریف فرمائی اس لئے بعد حضرت والا نے خود معارفِ ربانی سے ملفوظات پڑھنے شروع کئے،۔معارفِ ربانی سے صفحہ ۳۶۹ سے ۳۸۹ تک ملفوظات پڑھ کر سنائے۔ آج کی پُر درد مجلس تقریباً ا گھنٹہ ۵ منٹ تک جاری رہی۔۔

ملفوظات

جب کوئی تعریف کرے تو یہ سوچنا چاہیے کہ یہ میری تعریف نہیں ہورہی میرے شیخ کی تعریف ہورہی ہے ، اور یہ بھی سوچو کہ یہ اللہ تعالیٰ کے پردۂ ستاریت کی تعریف ہے، اگر اللہ تعالیٰ ہمارے اَترے پَترے کھول دیں تو مخلوق ہمیں اپنے پاس بیٹھنے نہ دے۔

ملفوظاتِ معارف ربانی

صحابہ کرام کی عظمت:  ارشاد فرمایا کہ آیت یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوْاﷲَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِیْنَ بنیاد ہے اﷲ والا بننے کی، ولی اﷲ بننے کی، نسبت مع اﷲ کے عطا ہونے کی یعنی عطاء نسبت اور بقاء نسبت اور ارتقاء نسبت کی یعنی اہل اﷲ کی صحبت سے نسبت عطاء بھی ہوتی ہے پھر باقی بھی رہتی ہے اور ترقی بھی کرتی رہتی ہے اور نسبت کی تعبیر کیا ہے؟ اﷲ پاک سے خصوصی تعلق علیٰ سطح الولایت کا نام نسبت ہے یعنی وہ تعلق جو اولیاء اﷲ کو عطا ہوتا ہے اس کا نام نسبت ہے اور عطاء نسبت، بقاء نسبت اور ارتقاء نسبت کا ذریعہ اہل اﷲ کی صحبت ہے۔ جب سے یہ دنیا قائم ہوئی ہے اور جو نبی بھی آیا ہے اس کے سینہ سے تما م تجلیاتِ نبوت اور تعلق مع اﷲ کی دولت سب سے پہلے جس طبقہ کو ملی وہ صحابہ کا طبقہ ہے۔ صحابہ سے پھر تابعین کو اور تابعین سے تبع تابعین کو ملی۔ تبع تابعین کے بعد جو بزرگ ہوئے وہ صوفیاء کہلائے۔ اب اگر کوئی کہے کہ صحابہ کو صوفی کیوں نہیں کہتے تو جواب یہ ہے کہ صحابہ کو صوفی کہنا ان کی توہین ہے، ان کا شرف اور عزت یہی ہے کہ وہ صحابی ہیں، صحبت یافتۂ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ہے۔ ساری دنیا کے صوفیاء اور اولیاء ائمہ حدیث و فقہ مفسرین، محدثین و مجتہدین ایک ادنیٰ صحابی کے برابر نہیں ہوسکتے

جامع دعائیں: ارشاد فرمایا کہ حضرت حسن بصری رحمۃ اﷲ علیہ کے بارے میں محدثین لکھتے ہیں کہ قَدْرَاٰی مِأَۃً وَعِشْرِیْنَ صَحَابِیًا  انہوں نے ایک سوبیس صحابہ کی زیارت کی تھی اور اور ان کی والدہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے گھر میں ملازمت کرتی تھیں، ہماری ماں اور حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی بیوی حضرت ام سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی ملازمہ تھیں۔ جب حضرت خواجہ حسن بصری پیدا ہوئے تو حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کا زمانہ تھا۔ یہ حضرت حسن بصری کو حضرت عمررضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں لے گئیں اور عرض کیا کہ آپ ان کی سنت تحنیک فرمادیجئے۔ سنت تحنیک آپ جانتے ہی ہیں کہ کوئی کھجور وغیرہ خاندان کا بزرگ منہ میں چبا کر بچے کو کھلادیتا ہے لہٰذا حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے جب تحنیک فرمائی تھی تو حضرت خواجہ حسن بصری کو دو دعائیںدیں۔ وہ دو دعائیں کیا تھیں

اَللّٰہُمَّ فَقِّہْہٗ فِی الدِّیْنَ وَ حَبِّبْہٗ اِلَی النَّاسِ (۱) اﷲ اس کو دین کا فقیہ بنا اور لوگوں میں محبوب کردے۔ بڑی جامع دعا ہے کیونکہ اگر دین کا فقیہ ہو، دین کی فہم رکھتاہو لیکن لوگوں میں محبوب نہ ہو تو لوگ اس سے دین نہیں سیکھیں گے اور اگر لوگوں میں تو محبوب ہو لیکن فقیہ نہ ہو تو گمراہی پھیلائے گا۔ اب ہم اس کو اپنے لیے کیسے مانگیں گے اَللّٰہُمَّ فَقِّہْنَا فِی الدِّیْنِ وَحَبِّبْنَا اِلَی النَّاسِ اے اﷲ! ہم سب کو دین کی فقہ، دین کی فہم عطا فرما اور ہمیں اپنے بندوں میں محبوب فرما۔

بعض لوگ غلط فہمی سے اﷲ کے بندوں میں محبوب ہونے کو رِیا سمجھتے ہیں۔ ایک صاحب نے حضرت شاہ ابرار الحق صاحب دامت برکاتہم سے درخواست کی کہ جیب میں جو تسبیح ہے سب کے سامنے نہیں پڑھوں گا۔ فرمایا کیوں؟ کہا کہ اگر میں سب کے سامنے پڑھتا ہوں تو دل میں وسوسہ آتا ہے کہ لوگ مجھ کو نیک سمجھے لگیں گے۔ تو حضرت نے فرمایا کہ کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ لوگ آپ کو بدمعاش سمجھیں، آپ اپنے آپ کو حقیر سمجھیں، اگر لوگ نیک سمجھتے ہیں تو اﷲ تعالیٰ کی نعمت ہے۔ اس نعمت کے لیے تو مضمون دعا حضور صلی اﷲعلیہ وسلم نے سکھایا کہ اَللّٰہُمَّ اجْعَلْنِیْ فِی عَیْنِیْ صَغِیْرًا اے اﷲ مجھ کو میری نظر میں چھوٹا کردے میں اپنے کو بڑا نہ سمجھوں لیکن وَ فِیْ اَعْیُنِ النَّاسِ کَبِیْرًا اور اپنی مخلوق میں مجھ کو بڑا دِکھادے کہ اﷲ کی طرف سے مخلوق میں عزت ہونا محبوبیت ہونا انعامات میں سے ہے مطلوبِ نبوت ہے۔ سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے مانگا کہ نہیں مانگا؟ جس کو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مانگا اس میں خیر ہی خیر ہے۔ اپنی نگاہ میں حقیر ہونا مطلوب ہے دوسروں کی نگاہ میں حقیر ہونا مطلوب نہیں ہے کیونکہ اگر دوسروں کی نگاہ میں حقیر ہو گا تو لوگ اس سے دین نہیں سیکھیں گے اور اگر دوسروں کی نگاہ میں وہ بڑا ہوگا تو عظمت کی وجہ سے لوگ اس سے دین کا فائدہ اُٹھائیں گے۔ اپنی نگاہ میں اپنی حقارت اور مخلوق کی نگاہ میں وجاہت مطلوب ہے۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی جامع دعائیں اور آپ کے علومِ نبوت خود دلیل نبوت ہیں۔ 

سلسلوں میں تفریق کی ممانعت : ارشاد فرمایا کہ حضرت شاہ محمد احمد صاحب سلسلہ نقشبندیہ کے بہت بڑے اولیاء اﷲ میں سے تھے، ہمارے شیخ نے بھی ان کو اپنا بڑا بنایا، میں نے خود ان کی صحبت اختیار کی، بیعت ہوا اور ان سے خلافت بھی ملی ہے۔ اس لیے اعلان کرتا ہوں کہ چشتیہ، نقشبندیہ اور اس قسم کے الفاظ میں تفریق نہیں ہونی چاہیے۔ اگر اجتماع بھی کریں تو یہ نہ کہیں کہ آج چشتیوں کا اجتماع ہوگا، نقشبندیوں کا اجتماع ہوگا، سہروردیوں کااجتماع ہوگا، سلسلہ قادریہ والوں کا اجتماع ہوگا۔ یہ کہو کہ آج ایک دینی اجتماع ہے۔ بتلائیے اگر کہیں دینی اجتماع ہو اور وہاں یہ اعلان ہو کہ آج حنفیوں کا اجتماع ہے، دوسرے سے معلوم ہو کہ یہاں مالکیوں کا ہے، تیسرا کہے کہ حنبلیوں کا ہورہا ہے اور چوتھی جگہ شافعیوں کا ہورہا ہے تو دیکھو امت کتنی تقسیم ہوجائے گی۔ جیسے ائیر پورٹ جانے کے لیے مختلف راستے ہوتے ہیں کہ جس راستے سے چاہو ائیر پورٹ چلے جائو مگر شرط یہ ہے کہ راستہ مستند ہو اور ائیر پورٹ ہی کو جاتا ہو۔ اسی طرح فقہ ظاہری کے مذاہب اربعہ، فقہ باطنی کے سلاسل اربعہ وہ مستند راستے ہیں جو اﷲ تک پہنچاتے ہیں۔ جس راستہ سے آپ کو مناسبت ہو اس سے چلے جائیں دوسرے راستوں کی تحقیر نہ کریں کیونکہ وہ بھی منزلِ مقصود ہی کو جارہے ہیں جس طرح سے فقہ ظاہری میں کسی فقہی مذہب کی تنقیص جائز نہیں اسی طرح فقہ باطنی کے سلاسل میں بھی منع ہے۔ کسی چشتی کو یہ حق نہیں کہ نقشبندی کی تنقیص کرے یا نقشبندی چشتی کو حقیر سمجھے کہ چاروں سلسلے برحق ہیں، چاروں سلسلوں کا راستہ معتبر ہے لہٰذا چاروں کا احترام واجب ہے، جس کی جس سے مناسبت ہو اس کو اختیار کرلو لیکن اس میں آپس میں تقابل اور تفاضل مت کرو اس سے پھر معاملہ فرقہ اور پارٹی بندی کا ہوجاتا ہے اور رفیق کے بجائے فریق ہوجاتا ہے لہٰذا تقابل اور تفاضل مت کرو، یہ سارے راستے اﷲ کے ہیں۔ شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اﷲ علیہ بھی ہمارے بزرگ ہیں ہم ان پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ وہ بھی ولی اﷲ تھے، خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اﷲ علیہ کو بھی اور شیخ بہاء الدین نقشبندی رحمۃ اﷲ علیہ کو بھی اور شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اﷲ علیہ کو بھی ہم ولی اﷲ سمجھتے ہیں، ہمارے یہ چاروں امام فقہ باطنی کے امام ہیں، ان میں سے کسی کی تنقیص و تنقید جائز نہیں۔ ایک سلسلہ والے دوسرے سلسلے والوں سے ملتے رہیں۔ سلسلہ کو ایسا معبود نہ بناؤ کہ کوئی کسی کے پاس نہ جائے، روک تھام نہ کرو، طریقۂ تعلیم اپنا رکھو لیکن اﷲ کے راستے پر جوچل رہے ہیں وہ ہمارا ہی قافلہ ہے، اﷲ والوں کا قافلہ ہے۔ اسی لیے ہمارے اکابر آپس میں شیرو شکر تھے۔ چنانچہ شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اﷲ علیہ سلسلہ نقشبندیہ میں شاہ فضلِ رحمن صاحب گنج مراد آبادی رحمۃ اﷲ علیہ کے خلیفہ کے خلیفہ تھے مگر میرے شیخ ان کے ہاں جاتے تھے اور وہ شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کے ہاں آتے تھے۔ ان کی کتاب عرفانِ محبت دیکھو ایسے جلے بھنے اشعار ہیں کہ عشق و مستی میں چشتیوں سے بھی آگے تھے، میں ان پر عاشق ہی اس وجہ سے ہوا ہوں کہ وہ اﷲ تعالیٰ کے عشق میں اعلیٰ مقام رکھتے تھے۔ میری پہلی ملاقات جب ہوئی جب میں کالج میں پڑھ رہا تھا اور بالغ ہوگیا تھا پندرہ سال کی عمر سے اٹھارہ سال کی عمر تک میں نے ان کی تین سال زیارت کی، پہلی مجلس میں میں نے دیکھا کہ ندوہ کے بڑے بڑے علماء موجود تھے اور حضرت یہ شعر پڑھ رہے تھے، بڑی دردناک اور پیاری آوز تھی   ؎

دلِ مضطرب کا  یہ  پیغام  ہے
ترے بن سکوں ہے نہ آرام ہے
جو آغاز  میں  فکر انجام  ہے
ترا عشق  شاید  ابھی  خام ہے
تڑپنے سے ہم کو فقط کام ہے
یہی بس  محبت  کا  انعام  ہے

جس کو محبت ہوتی ہے وہ اﷲ کے عشق میں تڑپتا رہتا ہے لیکن اب کوئی کہے کہ صاحب تڑپنے میں بڑی تکلیف ہوتی ہوگی تو تڑپنا دو قسم کا ہوتا ہے، ایک تو دردِ گردہ سے تڑپ رہا ہے، کوئی ہارٹ اٹیک میں تڑپ رہا ہے، کوئی کسی معشوق کے غم میں تڑپ رہا ہے۔ اس تڑپنے میں تو تکلیف ہوتی ہے لیکن اﷲ کی محبت میں تڑپنے میں جنت کا لطف ملتا ہے۔ لہٰذا حضرت نے اس شعر کو دوسرے شعر سے حل فرمادیا   ؎

لطف جنت کا تڑپنے میں جسے ملتا نہ ہو
وہ کسی کا ہو تو ہو لیکن تیرا بسمل نہیں

اﷲ کا عشق معمولی نعمت نہیں ہے۔ اس ذرّۂ درد کے لیے تمام اولیاء اﷲ اﷲ سے روئے ہیں کہ اے خدا اپنے دردِ محبت کا ایک ذرّہ ہم کو عطافرمادے، ایک ذرّۂ غم دے دے، علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اﷲ علیہ دعا کرتے تھے   ؎

ترے غم کی جو مجھ کو دولت ملے
غمِ   دو جہاں  سے  فراغت  ملے

یعنی اے خدا! اگر تیرے غم کی دولت مل جائے تو غمِ دو جہاں سے نجات ہوجائے گی۔ 

تشریح میں فرمایا: مولانا سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے حالات بیان فرمائے کہ وہ حضرت تھانویؒ کے کیسے بیعت ہوئے، اور کیسے اپنے کو شیخ کے سامنے اپنے کو مٹایا  ۔ ۔ ۔ ۔پورا واقعہ بیان فرمایا۔ حضرت تھانویؒ فرماتے تھے کہ اگر اخلاص سیکھنا ہے تو سید سلیمان ندوی سے سیکھ لو۔

اللہ والوں کی صحبت کی کرامت بیان فرمائی۔ اس ضمن میں امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کے حالات ذکر فرمائے۔ کہ وہ پہلے تصوف اور اصلاحِ نفس کے قائل نہیں تھے لیکن پھر جب دیکھا کہ علم پر جیسا عمل ہونا چاہئے وہ نہیں ہوپارہا تو شیخ سے تعلق قائم کیا پھر ہی امام غزالی امام غزالی ہوئے۔ ۔ ۔ ۔ جن علماء کا اللہ والوں سے تعلق  تھا اُنہی کی تصنیفات اور تالیفات وغیرہ باقی ہیں اور جنہوں نے تعلق نہیں کیا آج اُن کو کوئی نہیں جانتا ۔ ۔ ۔  اس لئے کہ اللہ باقی ہیں تو اللہ والوں کے تذکرے بھی باقی ہیں۔

آیت اشد حباﷲ کی حدیث سے عجیب تفسیر: ارشاد فرمایا کہ میں نے وعدہ کیا تھا کہ اﷲ تعالیٰ کی محبت پر مجلسِ علماء میں کچھ عرض کروں گا لہٰذا اس کو بھی ساتھ ساتھ عرض کرتا ہوں۔ بخاری شریف کی حدیث   اَللّٰہم  اِنِّیْ  اَسْئَلُکَ  حُبَّک …الخ  اصل میں بزبانِ نبوت  وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا ِﷲِ کی تفسیر ہے۔ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا ِﷲِ یہ تو جملہ خبریہ ہے لیکن خبریہ میں جملہ انشائیہ پوشیدہ ہے کہ جو لوگ مومن کامل بننا چاہتے ہیں ان کو میری محبت سارے عالم سے زیادہ کرنی پڑے گی ورنہ وہ مومن کامل نہیں ہوں گے۔ جب اﷲ کی محبت سب محبتوں پر غالب ہوجائے جتنی محبت آپ کو بیوی سے ہے بچوں سے ہے کاروبار سے ہے اپنے پیٹ سے اپنے نفس سے اپنی جان سے ہے سب پر خدا کی محبت غالب ہوجائے تب سمجھ لو کہ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا ِﷲِ کا مقام آپ کو مل گیا۔ جگر مرادآبادی اﷲ والا شاعر کہتا ہے جنہوں نے آخر میں ڈاڑھی رکھ لی تھی اور آخر میں بہت بزرگ ہوگئے تھے فرماتے ہیں کہ  ؎

میرا کمالِ عشق بس اتنا  ہے  اے  جگرؔ
وہ مجھ پہ چھا گئے میں زمانے پہ چھا گیا 

جس پر اﷲ کی محبت چھا جاتی ہے وہ سارے عالم پر غالب ہوجاتا ہے اور اﷲ کی محبت غالب ہونے کی یعنی اشد محبت کی کیا علامت ہے جیسے کوئی عورت سامنے آگئی بہت ہی نمکین بالکل رشک لیلیٰ لیکن آپ نے اپنی آنکھوں پر خدا کے حکم کو غالب کرلیا اور نظر کو نیچے کرلیا، بچالیا یا گانا بہت عمدہ آرہا ہے بہترین مغنیہ ہے چاہے وہ عربی ہی میں کیوں نہ ہو اور آخر میں یا حبیبی کہہ رہی ہو لیکن آپ نے اپنے کان میں انگلی دے دی۔ رشوت کی حرام بریانی آئی حرام پیسے کے شامی کباب کی زبردست خوشبو ہے لیکن آپ نے نہیں کھایا اور آسمان کی طرف دیکھا   ؎

ہم بتاتے کسے اپنی مجبوریاں
رہ گئے جانب آسماں دیکھ  کر

اور اﷲ سے سودا کرلیا۔ کس چیز کا؟ شامی کباب اور بریانی نہ کھانے کا اور لڑکی کو نہ دیکھنے کا اور گانا نہ سننے کا اور کہا کہ اے خدا میں بھی انسان ہوں میرا بھی دل ہے، دل چاہتا ہے کہ اس کو دیکھ لوں گانا سن لوں اور بریانی اور شامی کباب کھالوں لیکن اے اﷲ آپ مجھے دیکھ رہے ہیں میری نظر پر آپ کی نظر محافظ و پاسبان ہے، آپ مجھے مسلسل دیکھ رہے ہیں کہ میرا بندہ کدھر دیکھتا ہے اس خوف سے اگر آپ نے اپنے آپ کو بچالیا تو سمجھ لو کہ آپ پر اﷲ کی محبت چھاگئی، اشد محبت حاصل ہوگئی، ایسا بندہ جہاں بھی جائے گا غالب رہے گا۔
حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ جس نے خدا کے حکم کو اپنے سارے جسم پر غالب کرلیا جہاں رہے گا غالب رہے گااور اگر اﷲ کے حکم کو پیچھے ڈال دیا اور اپنی خواہش کوآگے کیا جہاں بھی جائے گا بے چینی پریشانی اور ذلت و خواری ملے گی یہ نہ سوچو کہ اﷲ کی نافرمانی کرکے رشتہ داروں میں جاکر مال اُڑائیں گے، جو خدا کو ناراض کرتا ہے مخلوق کے قلوب سے اﷲ اس کی محبت چھین لیتا ہے۔ خواجہ عزیز الحسن مجذوب رحمۃ اﷲ علیہ اپنے ایک شعر میں اس حقیقت کو بیان فرماتے ہیں   ؎

نگاہِ    اقربا    بدلی    مزاجِ    دوستاں    بدلا
نظر اک ان کی کیا بدلی کہ کل سارا جہاں بدلا

یعنی اے خدا جب کوئی گناہ ہوجاتا ہے تو رشتہ داروں کی نظر بدل جاتی ہے اور دوستوں کا مزاج بھی بدل جاتا ہے وہ جہاں کہیں بھی جاتا ہے لوگ اسے ذلت کی نظر سے دیکھتے ہیں حالانکہ کسی کو کیا خبرکہ اس نے کوئی گناہ کیا ہے مگر اﷲ تو دیکھ رہا ہے، قلوب کا مالک تو اﷲ ہے۔

اﷲ تعالیٰ کی اشد محبت مطلوب ہے: میں عرض کررہا تھا کہ اﷲ کی محبت اشد مومن کامل کے لیے مطلوب ہے جو قرآن پاک کی نص قطعی سے ثابت ہے، میں وہ تصوف پیش نہیں کروں گا جو قرآن اور حدیث سے مدلل نہ ہو۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا ِﷲِ جو مجھ پر ایمان لائے میری محبت ان کے دل میں شدید نہیں اشد ہوتی ہے۔ بیوی کی اگر شدید ہے کاروبار کی شدید ہے بریانی اور کباب کی شدید ہے اپنے عالم شباب سے شدید ہے تو اﷲ میاں کی اشد ہونی چاہیے۔ جوانی چاہتی ہے کسی چیز کو جو اﷲ کی مرضی کے خلاف ہے لیکن جس جوان نے اپنی جوانی اﷲ پر فدا کردی بخاری شریف کی روایت ہے کہ اس کو عرش کا سایہ ملے گا لیکن اس محبت کے حصول کا طریقہ کیا ہوگا، ہم کیا کریں کہ ہمارے دل میں محبت اشد پیدا ہوجائے چاہے دنیا کی محبت شدید رہے بیوی کی محبت شدید رہے لیکن اﷲ کی محبت اشد ہو۔ ایک صاحب نے لکھا کہ حضرت جب ذکر کرتا ہوں تو بیوی کی یاد آتی ہے منہ سے اﷲ اﷲ نکل رہا ہے اور دل میں بیوی کا خیال آجاتا ہے۔ حضرت حکیم الامت نے تحریر فرمایا کہ چونکہ بیوی کی محبت حلال ہے جائز ہے اس لئے اس کا خیال آنے میں کوئی حرج نہیں کم از کم بیوی ہی کا تو خیال آرہا ہے حلال محبت میں مشغول ہو حرام میں تو مشغول نہیں ہو اگر بیوی نہ ہوتی توپتہ نہیں خیال کہاں چلا جاتا اس لیے ہم لوگوں کے لیے یہی مناسب ہے کہ کچھ مباح میں مشغول رہیں ہاں ان شاء اﷲ تعالیٰ ایک دن آئے گا کہ قلب میں سوائے اﷲ کے کچھ نہیں ہوگا۔ خواجہ صاحب فرماتے ہیں   ؎

ہرتمنا دل سے رخصت ہوگئی
اب تو آجا اب تو خلوت ہوگئی

 

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries