مجلس۸۔ جون۲۰۱۴ء رزق کا یقینی دروازہ صرف تقویٰ ہے!

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں(کلک کریں)

خلاصۂ مجلس:محبی و محبوبی مرشدی و مولائی حضرت والا دامت برکاتہم رونق افروز تھے، جناب ثروت صاحب  کو  اشعار سنانے کا فرمایا، انہوں نے حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کے نعتیہ اشعار سنائے، جس کی الہامی تشریح بھی حضرت اقدس میر صاحب دامت برکاتہم فرماتے جاتے تھے۔ اشعاروتشریح کے بعد حضرت والا نے خود معارفِ ربانی سے صفحہ ۳۸۵ سے ۳۹۹ تک ملفوظات پڑھ کر سنائے، آج کی مجلس تقریباً  ۱ گھنٹے تک جاری رہی۔۔

ملفوظات

صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین نے اپنے جانیں قربان کردیں اور ہم سے یہ بھی نہیں ہوتا کہ اپنی نگاہوں کو ہی قربان کردیں، اللہ تعالیٰ ہمیں ہر گناہ بچنے کی توفیق عطا فرمادے۔

ایک گناہ کو چھوڑ دینا ایک لاکھ تہجد سے افضل ہے۔ کیونکہ نافرمانی سے سارا قرب خاک میں مل جاتا ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا اے ابوہریرہ تو حرام کو چھوڑ دے تو تم سب سے بڑے عبادت گزار ہوجاؤں گے۔

اور عبادتیں تو اپنے وقت پر ختم ہوجاتی ہیں لیکن تقویٰ یعنی گناہوں سے بچنا ایسی عبادت ہے جو ۲۴ گھنٹے

تقویٰ والا ۲۴ گھنٹے کا وفادار ہے اور عبادت گذار ہے۔ اسی لئے سب سے بڑا عبادت گذار ہوتا ہے۔

یہ شعر صرف اللہ کا عاشق ہی کہہ تھا، کہ مدینہ منورہ کے ذرات ایسے محبوب ہیں کہ میری خواہش ہے کہ میں اِن ذرات میں مستور ہوجاؤں گا۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ کی خاک بھی بہت پیاری تھی۔

ہر ہفتہ کہ روز مسجد قبا کی زیارت کرنا سنت ہے۔

جب بزرگوں کے لباس اور جگہ میں برکت رکھی ہے، تو نبی علیہ السلام نے جہاں

حضرت والا ایسے تسلی اور حوصلہ افزائی فرماتے تھے کہ مایوس سے مایوس دل بھی خوش ہوجاتا تھا، اس ضمن میں ایک صاحب کے واقع بیان فرمایا۔

وظیفہ کی مثال درخواست کی سی ہے اصل چیز اللہ تعالیٰ کو خوش کرنا ، گناہ کے کاموں کو چھوڑ دیں ظاہر اولیاء اللہ جیسا بنالو، پھر تم مجھ سے کہنا کہ اختر کیا کہہ رہا ہے۔

حضرت والا یہی فرماتے تھے کہ بس گناہوں کو چھوڑ دو ۔ ۔ ۔ اگر کاموں میں مشکل ہورہی ہے کہ یہ اس بات کی علامت ہے کہ کہیں گڑبڑ ہورہی ہے ۔ ۔ ۔ اس تقویٰ کے چند انعامات بیان فرمائے۔

رزق کا یقینی دروازہ صرف تقویٰ ہے۔

اسباب کی طرف ہمارے توجہ زیادہ ہے لیکن تقویٰ کی طرف فکر نہیں ، اسباب اختیار تو کرو لیکن سبب پر بھروسہ نہ کرو بھروسہ اللہ پر کرو۔ اس ضمن میں ایک حدیث مبارک بیان فرمائی توکل کی تعیر

سبب اختیار کرو لیکن سبب بھروسہ نہ کرو!

اس زمانے میں اگر جائز لذت بھی نہیں دے گا تو نفس بالکل

خوب کھاؤ خوب ہنسو بولو لیکن گناہ نہ کرو!ا

ہر حرام خواہش کو دل سے خالی کرنے کی ہی دل اللہ کے لئے خالی ہوتا ہے۔

ملفوظات معارفِ ربانی

 اﷲ تعالیٰ کی اشد محبت مطلوب ہے : میں عرض کررہا تھا کہ اﷲ کی محبت اشد مومن کامل کے لیے مطلوب ہے جو قرآن پاک کی نص قطعی سے ثابت ہے، میں وہ تصوف پیش نہیں کروں گا جو قرآن اور حدیث سے مدلل نہ ہو۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا ِﷲِ جو مجھ پر ایمان لائے میری محبت ان کے دل میں شدید نہیں اشد ہوتی ہے۔ بیوی کی اگر شدید ہے کاروبار کی شدید ہے بریانی اور کباب کی شدید ہے اپنے عالم شباب سے شدید ہے تو اﷲ میاں کی اشد ہونی چاہیے۔ جوانی چاہتی ہے کسی چیز کو جو اﷲ کی مرضی کے خلاف ہے لیکن جس جوان نے اپنی جوانی اﷲ پر فدا کردی بخاری شریف کی روایت ہے کہ اس کو عرش کا سایہ ملے گا لیکن اس محبت کے حصول کا طریقہ کیا ہوگا، ہم کیا کریں کہ ہمارے دل میں محبت اشد پیدا ہوجائے چاہے دنیا کی محبت شدید رہے بیوی کی محبت شدید رہے لیکن اﷲ کی محبت اشد ہو۔ ایک صاحب نے لکھا کہ حضرت جب ذکر کرتا ہوں تو بیوی کی یاد آتی ہے منہ سے اﷲ اﷲ نکل رہا ہے اور دل میں بیوی کا خیال آجاتا ہے۔ حضرت حکیم الامت نے تحریر فرمایا کہ چونکہ بیوی کی محبت حلال ہے جائز ہے اس لئے اس کا خیال آنے میں کوئی حرج نہیں کم از کم بیوی ہی کا تو خیال آرہا ہے حلال محبت میں مشغول ہو حرام میں تو مشغول نہیں ہو اگر بیوی نہ ہوتی توپتہ نہیں خیال کہاں چلا جاتا اس لیے ہم لوگوں کے لیے یہی مناسب ہے کہ کچھ مباح میں مشغول رہیں ہاں ان شاء اﷲ تعالیٰ ایک دن آئے گا کہ قلب میں سوائے اﷲ کے کچھ نہیں ہوگا۔ خواجہ صاحب فرماتے ہیں   ؎

ہرتمنا دل سے رخصت ہوگئی
اب تو آجا اب تو خلوت ہوگئی

لیکن اس کے لیے ایک زمانہ چاہیے، لا الٰہ کی تکمیل کے لیے ایک زمانہ چاہیے، بہت سے باطل خدائوں کے پلوں سے عبور کرکے بہت باطل خدائوں سے انحراف کرکے تب اﷲ ملتا ہے اﷲ ایسے آسانی سے نہیں ملتا۔ اﷲ کا سودا بہت مہنگا ہے اور یہ کس نے بتایا؟ جس ذات نے اﷲ کو پہچانا اس نے بتایا۔ ایک حکیم کسی موتی والے خمیرہ کو کہہ دے کہ بڑا قیمتی ہے تو اس کا کہا ہوا معتبر ہوگا یا ایک گوشت بیچنے والا یا آلو بیچنے والا کہہ دے کہ یہ دوا قیمتی ہے تو اس کا کہا ہوا معتبر ہوگا؟ سرور عالم صلی اﷲ علیہ وسلم فرمارہے ہیں اَلاَ اِنَّ سِلْعَۃَ اﷲِاﷲ کی قیمت بہت بڑی ہے ان کی قیمت کون ادا کرسکتا ہے۔ لہٰذا یہ محبت کیسے حاصل ہو؟

اشد محبت کے حصول کا طریقہ : اس کا طریقہ بخاری شریف کی حدیث میں سرور عالم صلی اﷲ علیہ وسلم ارشاد فرمارہے ہیں جو دراصل بزبانِ نبوت آیت وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا ِﷲِکی تفسیر ہے۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم بارگاہِ الٰہی میں عرض کرتے ہیں اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ حُبَّکَ اے اﷲ میں آپ سے آپ کی محبت کا سوال کرتا ہوں وَ حُبَّ مَنْ یُّحِبُّکَ  اور جو بندے آپ سے محبت رکھتے ہیں ان کی محبت کا بھی سوال کرتا ہوں لہٰذا اﷲ والوں سے محبت رکھنا اس حدیث سے ثابت ہے خواہ وہ اپنا پیر ہو یا نہ ہو، یہ الگ بات ہے کہ اپنے شیخ کی محبت زیادہ ہوگی جیسے باپ کی محبت زیادہ ہوتی ہے لیکن چچا اور ماموں آجائے توان سے بھی محبت کرتے ہو یا نہیں؟ تو اپنے شیخ کی محبت تو سب سے زیادہ ہوگی لیکن اﷲ کا کوئی اور عاشق آجائے تو اس سے بھی محبت کرو۔ اس لیے وَحُبَّ مَنْ یُّحِبُّکَ میں تمام اﷲ والوں سے محبت کی تعلیم ہے کہ اے خدا جتنے بندے زمین پر آپ سے محبت کرتے ہیں ہم ان کی محبت بھی مانگتے ہیں۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم آگے اﷲ تعالیٰ سے عرض کرتے ہیں  وَالْعَمَلَ الَّذِیْ یُبَلِّغُنِیْ حُبِّکَ اور ہمیں ایسے اعمال کی محبت بھی عطا فرما جو ہم کو آپ کی محبت تک پہنچادے۔ یہ تو سوال ہوگیا اور اس میں محبت کے حصول کا طریقہ بھی بیان ہوگیا کہ اﷲ تعالیٰ کی محبت اور اعمال کی توفیق وَحُبَّ مَنْ یُّحِبُّکَ سے حاصل ہوگی پس اﷲ والوں کی محبت سے دو مقصود حاصل ہوں گے۔ نمبر ایک اﷲ کی محبت اور نمبر ۲ اﷲ کی محبت کے اعمال۔ چنانچہ علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اﷲ علیہ مجاز بیعت حضرت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کا احسان ہے کہ اﷲ کی محبت اور اعمال کی توفیق کے درمیان میں اﷲ والوں کی محبت کو رکھ دیا جو رابطہ کا کام کرے گا یعنی اﷲ تعالیٰ کے عاشقوں کے ساتھ رہنے سے اﷲ تعالیٰ کے عاشق بھی بن جائیں گے اور ان اعمال کی توفیق بھی نصیب ہوجائے گی جو اﷲ تعالیٰ کی محبت کا ذریعہ ہیں۔

اسی لیے اﷲ والوں نے ہمیشہ کسی اﷲ والے سے تعلق قائم کیا ہے اور ان کا یہ عمل بھی حدیث کی اتباع ہے۔ لہٰذا کسی اہل اﷲ سے جہاں آپ کو مناسبت ہو ضرور تعلق قائم کریں یہ ہمارے بزرگوں کا سرمایہ ہے ہمارے بزرگوں کی سیرت ہمارے بزرگوں کی دولت ہمارے بزرگوں کی تاریخ ہے کہ جو بڑے بڑے علماء تھے انہوں نے اہل اﷲ کے سامنے زانوئے ادب تہہ کیا ہے۔ مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اﷲ علیہ، مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اﷲ علیہ، اور مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ ان حضرات نے حاجی صاحب غیر عالم سے رجوع کیا ہے۔ شاہ ابرار الحق صاحب فرماتے ہیں کہ ایسے جلیل القدر علماء نے غیر عالم کو پیر بنایا لیکن آج عالم کو عالم پیر بناتے ہوئے شرم آرہی ہے، یہ کیا بات ہے؟ طلب اور پیاس نہیں ہے۔

حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کی شان بیان فرمائی،  حضرت تھانویؒ فرماتے تھے کہ ہمارے اکابر کو امام غزالی اور امام رازی سے بھی بڑھ گئے۔

رسید بک پر چندہ لینے کے لیے نام رکھیں گے جامعہ قاسمیہ، جامعہ رشیدیہ، جامعہ اشرفیہ تاکہ امت کو ان بزرگوں کے نام پر حسن ظن ہو اور خوب پیسہ آئے لیکن بھائی ان بزرگوں نے چندہ نہیں کیا تھا کچھ کام بھی کیا تھا، اہل اﷲ کے سامنے اپنے نفس کو مٹایا تھا۔ حکیم الامت فرماتے ہیں کہ جب تک ہم نے حاجی صاحب سے بیعت نہیں کی تھی ہم تینوں کو وہ عزت حاصل نہیں تھی لیکن جب حاجی صاحب سے بیعت کی اور اﷲ اﷲ کیا، پھر اﷲ تعالیٰ نے ایک درد بھرا دل عطا کیا کہ جہاں بھی ہم لوگ گئے اﷲ تعالیٰ نے عزت عطا فرمائی لیکن عزت کے لیے اہل اﷲ سے تعلق نہ کریں رب العزت کے لیے کریں۔ ہم اﷲ والوں سے صرف اﷲ کے لئے تعلق کریں۔ میرے شیخ حضرت مولانا شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے تھے کہ کباب کہاں سے لیتے ہو؟ کباب والوں سے، مٹھائی کہاں سے لیتے ہو؟ مٹھائی والوں سے کپڑا کہاں سے خریدتے ہو؟ کپڑے والوں سے لیکن اﷲ کہاں سے حاصل کرو گے؟ کتابوں سے؟ کتابوں سے کپڑا کیوں نہیں خریدتے کتابوں سے مٹھائی کیوں نہیں خریدتے۔ میرے مرشد اول شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے تھے کہ اﷲ اﷲ والوں ہی سے ملے گا۔ کتابوں سے ہمیں کمیت علمیہ تو مل جائے گی کہ مغرب کی تین رکعتیں ہیں اور عشا کی چار ہیں وغیرہ مگر کیفیات علوم اﷲ والوں کے سینوں سے ملتی ہیں۔ علامہ سید سلیمان ندوی صاحب نے فرمایا کہ آج کل اہلِ علم کے اعمال و اخلاق میں جو کوتاہی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ علمِ نبوت کے بعد نورِ نبوت کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور نور نبوت علم نبوت پر عمل کی توفیق کا ضامن ہوتا ہے اور نور نبوت ملتا ہے اہل اﷲ کے سینوں سے۔ اہلِ علم کے اعمال و اخلاق میں کمزوری کی وجہ یہی ہے کہ اہل اﷲ کے سینوں سے نورِ نبوت حاصل نہیں کرتے۔ مالابدمنہ میں قاضی ثناء اﷲ پانی پتی رحمۃ اﷲ علیہ لکھتے ہیں کہ اے بھائی کتابوں میں تم نے فقہ ظاہری تو پڑھ لیا امانورِ باطن صلی اﷲ علیہ وسلم از سینۂ درویشاں باید جست لیکن نورِ نبوت اﷲ والوں کے سینوں سے ملے گا۔ شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ اختر میاں سنو! اﷲ کا راستہ ویسے تو مشکل ہے کہ نفس کا مقابلہ کرنا گناہوں سے بچنا آسان نہیں لیکن اﷲ والوں کاہاتھ اگر ہاتھ میں آجائے تو اﷲ کا راستہ نہ یہ کہ آسان ہوجاتا ہے بلکہ مزے دار بھی ہوجاتا ہے آہ! ایک شاعر کا شعر یاد آگیا کہ   ؎

مجھے سہل ہوگئیں منزلیں کہ ہوا کے رخ بھی بدل گئے
ترا ہاتھ  ہاتھ  میں  آگیا  تو  چراغ  راہ  کے  جل  گئے

جو آپ سے اس وقت مخاطب ہے الحمدﷲ پہلی ہی ملاقات میں چالیس دن اس نے اپنے شیخ کے ساتھ گذارے ہیں اور پہلی نظر جو شیخ پر پڑی تو دل نے کہا کہ آہ! مجھے شمس الدین تبریزی مل گیا۔ میرے شیخ حضرت شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ حضرت حکیم الامت کے اجل خلفاء میں تھے۔ بارہ مرتبہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی اور مجھ سے فرمایا کہ اختر مجھ کو ایک دن سرور عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ایسی زیارت نصیب ہوئی کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی چشم مبارک کے لال لال ڈورے بھی نظر آئے اور میں نے عرض کیا کہ یارسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کیا عبدالغنی نے آپ کو خوب دیکھ لیا تو ارشاد فرمایا کہ ہاں عبدالغنی آج تم نے ہم کو خوب دیکھ لیا۔ جب حضرت تھانہ بھون میں حاضر ہوتے تو حکیم الامت ان کے لیے کھڑے ہوجاتے تھے اور کئی قدم بڑھ کر استقبال کرتے اور فرماتے تھے اے آمدنت باعث صد شادی مایعنی اے عبدالغنی آپ کے آنے سے مجھے سینکڑوں خوشی ہوئی۔ حکیم الامت کا خط چھپا ہوا ہے جس میں میرے شیخ کو حضرت نے یوں مخاطب کیا ہے محبی و محبوبی شاہ عبدالغنی پھولپوری سلمہ اﷲ تعالیٰ وکرمہ۔ آہ! اﷲ کا شکر ادا کرتا ہوں پہلی ہی ملاقات میں چالیس دن شیخ کے پاس لگانے کی توفیق ہوئی۔ حضرت نے مجھے نہیں پہچانا مگر میں نے پہچان لیا کہ جنگل کی مسجد میں اور کون درویش ہوگا۔ جب میری پہلی ملاقات ہوئی حضرت تلاوت کر رہے تھے بقرعید کا دن تھا۔ میں نے اپنی والدہ صاحبہ سے اجازت لے لی تھی کہ میں شیخ کے ساتھ بقر عید کروں گا۔ میں نے والدہ سے کہا کہ میں نے آپ کے ساتھ بقر عید بہت کی ہے میں چاہتا ہوں کہ ایک روحانی باپ کے ساتھ بقر عید کروں آپ مجھے اجازت دیجئے۔ میرے جذبات کو دیکھ کر انہوں نے اجازت دے دی، اور جب میں پہنچا تو بقر عید کا دن تھا آٹھ بجے دن صبح صبح۔ حضرت کو دیکھا کہ تلاوت کر رہے ہیں میں خاموش کھڑا رہا لیکن پتہ نہیں حضرت کو کیسے محسوس ہوا کہ کوئی کھڑا ہوا ہے میری طرف گھوم کر دیکھا جیسے ہی حضرت سے آنکھ ملی تو میں نے فوراً کہا السلام علیکم ورحمۃ اﷲ و برکاتہ محمد اختر ہے، پرتابگڈھ سے آیا ہے چالیس دن رہنے کے ارادہ سے اور آپ کااجازت نامہ میرے پاس موجود ہے تو حضرت بہت خوش ہوگئے۔ جب میں نے پہلا خط لکھا تو اس میں یہ لکھا تھا کہ دل و جان اے شاہ قربانت کنم یعنی اے شاہ میں آپ پر اپنا دل اور اپنی جان فدا کرنا چاہتا ہوں تو حضرت نے اس پر لکھا کہ تمہارا مزاج محبت کا معلوم ہوتا ہے ان شاء اﷲ اﷲ کا راستہ جلد طے ہوجائے گا۔ یہ شیخ نے مجھے بشارت دی۔ اس لیے عرض کرتا ہوں کہ شیخ کی خدمت میں جو مزہ پایا میں وہ بریانی اکیلا نہیں کھانا چاہتا، چاہتا ہوں کہ تقسیم کرکے کھائوں لہٰذا آپ لوگ بھی اپنے اپنے شیخ کے پاس رہ کر یہ مزہ حاصل کریں۔

علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اﷲ علیہ ایک زمانہ میں تصوف کا مذاق اڑاتے تھے کہ تھانہ بھون میں کیا ہوتا ہے وہاں جانے سے کیا ملتا ہے وغیرہ۔ ایک دن مولانا ظفر احمد صاحب عثمانی رحمۃ اﷲ علیہ دنے ایک شعر لکھ دیا کہ مولانا کب تک علم کے مطالعہ میں رہو گے   ؎

قال را بگذار مردِ حال شو
پیشِ مردِ کاملے پامال شو

قال یقول کی تعلیل کب تک نکالتے رہے گے اپنی علت نکالو۔ جائو، کسی مرد کامل کے سامنے اپنے کو فنا کردو۔ یہ خط پڑھتے ہی ان کے دل پر چوٹ لگ گئی۔ وہ سید سلیمان ندوی جن کے علم کا غلغلہ شرق و غرب میں مچا ہوا تھا اور ہندوستان کے علماء کے نزدیک ان کا بلند مقام تھا تھانہ بھون آئے، ایک ہی مجلس اُٹھائی حکیم الامت کی بات سنی اور رونے لگے کہ آہ ہم سمجھتے تھے کہ ہم عالم ہیں لیکن آج معلوم ہوا کہ علم تو اس درویش کے پاس ہے اور روتے ہوئے یہ شعر کہے   ؎

جانے کس انداز سے تقریر کی
پھر نہ پیدا شبۂ باطل ہوا
آج ہی پایا مزہ قرآن میں
جیسے قرآں آج ہی نازل ہوا
چھوڑ کر تدریس و درس و مدرسہ
شیخ بھی رندوں میں اب شامل  ہوا

مدرسہ و درس و تدریس چھوڑنے سے مراد علم کی تحصیل چھوڑنا نہیں ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ علم کو محض معلومات حاصل کرنے کے لیے پڑھنا چھوڑ دیا۔ اﷲ کی محبت حاصل ہونے کے بعد علم کا مزہ ہے، علم کا مزہ اس وقت ہے جب آپ معلوم کو معمول بنالیں۔ بتائیے کہ ایک ایسا شخص ہے جس نے لیلیٰ کی کبھی زیارت نہیں کی ہو مگر پروفیسر ہوگیا اور لیلیٰ سے کبھی ملا بھی نہیں لیکن لیلیٰ کے شہر کا جغرافیہ بتارہا ہے کہ یہاں جائو وہاں جائو تو اس کی تقریر میں کیا مزہ ہوگا لیکن یہی تقریر مجنوں کی زبانی سنو تو کیا ہوگا۔ آہ جس عالم نے اﷲ تعالیٰ کی محبت حاصل نہیں کی اس کا درسِ قرآن و حدیث بے کیف اور بے روح ہوتا ہے اور ایک عالم جو اﷲ و رسول کے عشق میں ڈوبا ہوا ہے اس کے درس سے ارواح پر زلزلہ طاری ہوتا ہے، اﷲ والا بننے کے بعد ہی پھر منبر منبر ہوتا ہے اور سجدہ سجدہ ہوتا ہے۔ ملا علی قاری نے مرقاۃ شرح مشکوۃ میں ایک واقعہ لکھا ہے کہ ایک عالم جو مفتی اور محدث بھی تھے۔ انہوں نے ایک شیخ سے کہا کہ حضرت میں اپنی اصلاح چاہتا ہوں۔ شیخ نے دیکھا کہ ان کے اندر تکبر ہے لہٰذا ان کی اصلاح کے لیے فرمایا کہ آپ کو ایک سال تک خانقاہ میں رہنا ہوگا، وعظ نہیں کہہ سکتے  حدیث نہیں پڑھاسکتے فتویٰ نہیں دے سکتے یہاں تک کہ اس وقت کے بعض اہل فتاویٰ نے ان کو کفر کا فتویٰ دیا کہ یہ کیسا شیخ ہے جس نے سب کچھ چھڑادیا لیکن وہ عالم مخلص تھے انہوں نے پہچان لیا کہ میرا شیخ اﷲ والا ہے۔ ایک سال کے بعد شیخ نے اجازت دی کہ جائیے تقریر کیجئے۔ ملا علی قاری رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ پہلی ہی تقریر میں تمام سامعین صاحب نسبت ہوگئے۔ اس لیے شیخ عبدالقادر جیلانی بڑے پیر صاحب رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ پہلے ذکر و تلاوت سے اپنے دل کا مٹکا بھرلو، جب بھر کر چھلکنے لگے تو چھلکتا ہوا مال امت کو دو۔ اگر اپنا ہی مٹکا خالی ہوگا تو کیا دوگے۔ دیکھو کانپور میں حکیم الامت نے تقریر کی جس میں میرے شیخ بھی موجود تھے، تقریر کرتے کرتے حکیم الامت نے زور سے نعرہ مارا ہائے امداد اﷲ! اور بیٹھ گئے اور رونے لگے۔ بعد میں کسی نے پوچھا کہ حضرت آج آپ نے حضرت حاجی صاحب کا نام کیوں لیا۔ تو فرمایا کہ دل میں بیک وقت اتنے علوم آئے کہ دل تشکر سے بھر گیا کہ آہ حاجی صاحب کے فیض سے اتنے مضامین آرہے ہیں ورنہ اگر کتب خانے کا کتب خانہ پڑھ لیتا تو ایسے مضامین کی آمد نہ ہوتی۔ ایک بار مظاہر العلوم کے علماء نے حضرت حکیم الامت سے پوچھا کہ حضرت آپ کے علم میں اتنی برکت کیوں ہے؟ کیا آپ کتب بینی زیادہ کرتے ہیں؟ فرمایا کہ ہم نے کتابیں وہی پڑھی ہیں جتنی آپ نے پڑھی ہیں مگر ہم نے کتب بینی سے زیادہ قطب بینی کی ہے۔ علم دین حاصل کرنا تو ضروری ہے ورنہ آدمی جاہل رہتا ہے۔ علم دین کے سونے پر اہل اﷲ کی صحبت کا سہاگہ لگنے سے اس پر نکھار آتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو اپنے اکابر کی باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ لہٰذا ہم میں سے ہر ایک اپنی مناسبت کا کوئی مربی اور شیخ تلاش کرے، ان سے باضابطہ اصلاحی تعلق کرے اور ان سے کوئی ذکر پوچھ لیجئے۔ حکیم الامت فرماتے ہیں کہ شیخ کے پاس رہنا ایسا ہے جیسے آگ کے سامنے بیٹھنا لیکن جب وہاں سے دوربیوی بچوں کے پاس جائوگے، ٹھنڈے ہوجائو گے، اس لیے فرمایا کہ شیخ سے ذکر کا کشتہ لے لو تو شیخ سے دور جاکر بھی گرم رہوگے۔ فرمایا کہ جیسے حکیم اجمل خان ململ کا باریک کرتہ پہن کر جاڑے میں دلی میں ٹانگے پر بیٹھ کر ایک گھنٹہ فجر سے پہلے پورے دلی کی سیر کرتے تھے کیونکہ وہ کشتہ کھاتے تھے تو فرمایا کہ اﷲ کے نام کا کشتہ سیکھ لو تو شیخ سے دور ہوکر بھی اپنے ملکوں میں، اپنے گائوں میں گرم رہوگے یعنی ایمان و عمل کے ساتھ رہوگے۔ پس چالیس دن شیخ کے یہاں رہ لیجئے، پھر خط و کتابت کرتے رہئے اور ذکر کے پابند رہیے ان شاء اﷲ تعالیٰ، اﷲ کی محبت میں سرگرم رہیں گے۔

اشد محبت کی مقدار : پس حُبَّ مَنْ یُّحِبُّکَ سے معلوم ہوا کہ اﷲ کی محبت اور محبت کے اعمال کی توفیق حاصل کرنے کا طریقہ اہل اﷲ کی محبت ہے۔ اب کتنی محبت ہونی چاہیے؟ حدیث میں آگے محبت کے حدود اربعہ بیان ہوئے ہیں۔ جب کوئی زمین خریدتا ہے تو اس کے حدود متعین ہوتے ہیں کہ مشرق میں اتنی اور مغرب میں اتنی ہے۔ بخاری شریف کی اس حدیث میں اگلی جو عبارت ہے اس میں سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے محبت کے حدود اربعہ کو متعین فرمادیا کہ اَللّٰہُمَّ اجْعَلْ حُبَّکَ اَحَبَّ اِلَیَّ مِنْ نَّفْسِیْ اے اﷲ مجھ کو اتنی محبت دے دے کہ آپ مجھے میری جان سے زیادہ محبوب ہوجائیں۔ پس جو جان سے زیادہ اﷲ کو پیار کرے گا کیا وہ آنکھیں خراب کرے گا۔ بندہ آنکھ کس کے لیے خراب کرتا ہے؟ دل کو خوش کرنے کے لیے لہٰذا جب دل و جان خدا پر فدا کرچکا تو نفس سے کہے گا کہ اے نفس میں تیری بات نہیں سنتا میرا اﷲ مجھ سے ناراض ہوجائے گا جو مجھے جان سے زیادہ پیارا ہے۔ ہر گناہ چھوڑنے کا یہی اعلیٰ مقام ہے بس اس محبت کو حاصل کرلیجئے تو ان شاء اﷲ تعالیٰ، اﷲ کا راستہ آسان ہوجائے گا۔ مِنْ نَّفْسِیْ کے بعد فرمایا وَمِنْ اَہْلِی اپنی جان کے بعد پھر بیوی بچوں کی محبت ہوتی ہے لہٰذا فرماتے ہیں کہ یا اﷲ اہل و عیال سے بھی زیادہ آپ ہمیں محبوب ہوجائیں کیونکہ اگر آپ بیوی سے کہیں کہ میں اکیس دن کے لیے اپنی اصلاح اور تربیت کے لیے کراچی جانا چاہتا ہوں تو بیوی کہے گی کہ مجھے تو ڈرائونے خواب نظر آتے ہیں، میں اکیلی نہیں رہ سکتی اور اگر آپ کہیں کہ میں دبئی کویت یا مسقط جانا چاہتا ہوں تاکہ خوب کمائوں اور پانچ دس لاکھ ریال لائوں اور تمہارے لیے مکان اور زیورات بنادوں اور بیٹیوں کی شادی کردوں تو وہ بیوی کہے گی کہ پھر دیر کس بات کی ہے، اگر جانے کے لیے پیسے نہ ہوں تو میرا زیور حاضر ہے اسے بیچو یہ آخر کس کام آئے گا؟ تو دوستو! دنیا کے کاموں میں بیوی بچے حائل نہیں ہوتے لیکن اﷲ کی محبت میں بعض دفعہ حائل ہوجاتے ہیں۔ اس لیے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ دعا سکھائی کہ یا اﷲ مجھے اپنی اتنی محبت دے دے کہ بیوی بچوں سے بھی زیادہ۔ اﷲ سے اﷲ کی محبت اپنی جان سے زیادہ اور اہل و عیال سے زیادہ مانگنے کے بعد حضور صلی اﷲ علیہ وسلم مانگتے ہیں وَمِنَ الْمَآءِ الْبَارِدِ اور شدید پیاس میں پیاسے کو پانی سے جو محبت ہوتی ہے اے اﷲ اس سے زیادہ اپنی محبت عطا فرمادیجئے۔ حضرت حاجی صاحب نے اپنے شعر میں اس حدیث کا گویا ترجمہ کردیا   ؎

پیاسا چاہے جیسے آبِ سرد کو
تیری پیاس اس بھی بڑھ کر مجھ کو ہو

بتائیے شدید پیاس میں ٹھنڈے پانی سے جو مزہ آتا ہے جب اس سے بڑھ کر مزہ ذکر و تلاوت میں آئے گا تو کوئی چھوڑے گا اﷲ کا نام؟ پھر کوئی کر ے گا گناہ؟ یہ جو سستی اور غفلت ہے گناہوں کا ارتکاب ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ ہمارے قلب میں وہ بات نہیں ہے ورنہ بتائیے شدید پیاس میں ٹھنڈے پانی سے کیا معلوم ہوتا ہے؟ کہ رگ رگ میں جان آگئی۔ اسی لیے سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اﷲ تعالیٰ کی محبت جان سے زیادہ اہل و عیال سے زیادہ اور ٹھنڈے پانی سے زیادہ مانگی ہے۔

تو اس وقت بیان میں نص قطعی وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا ِﷲِ سے اﷲ تعالیٰ کی اشد محبت کی مطلوبیت بیان ہوئی پھر یہ محبت کیسے حاصل ہواس کا طریقہ بھی حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے بتادیا کہ اﷲ سے مدد مانگئے اہل اﷲ سے محبت کیجئے اَسْئَلُک بتاتا ہے کہ سوال کیجئے اﷲ سے اﷲ کی محبت کا اور وَحُبَّ مَنْ یُّحِبُّکَ بتاتا ہے کہ کسی اﷲ والے پر جان دے دیجئے۔ اس پر مجھے اپنا ایک شعر یاد آگیا   ؎

مجھے کچھ خبر نہیں تھی ترا درد کیا ہے یارب
ترے عاشقوں سے سیکھا ترے سنگ در پہ مرنا

اﷲ پر مرنا آتا ہے کسی مرنے والے کی صحبت سے، جو اﷲ پر فدا ہورہا ہو اس پر فدا ہونے سے اﷲ پر فدا ہونا آتا ہے، سجدے میں میرے شیخ اتنا روتے تھے کہ میں کیا بتائوں آج تک ان کے رونے کی آواز میرے کانوں میں گونج رہی ہے اور تیسرا جز کہ وَحُبَّ عَمَلٍ یُّبَلِّغُنِیْ حُبَّک اہل اﷲ کی صحبت سے اﷲ کی محبت بھی نصیب ہوگی اور اعمال کی توفیق بھی ہوجائے گی۔ پس اس وقت تک سانس نہ لیجئے جب تک اتنی محبت حاصل نہ ہوجائے یعنی اپنی جان سے زیادہ اپنے اہل و عیال سے زیادہ اور شدید پیاس میں ٹھنڈے پانی سے زیادہ اﷲ کے نام میں مزہ آنے لگے.

ذکر کی پابندی کے سلسلے میں فرمایا کہ ذکر کرتا رہے اس ضمن میں ایک کنواں کودنے کی مثال ارشاد فرمائی۔!

 

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries