مجلس۹۔ جون۲۰۱۴ء شانِ عظمتِ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین!

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں(کلک کریں)

خلاصۂ مجلس:محبی و محبوبی مرشدی و مولائی حضرت والا دامت برکاتہم رونق افروز تھے، جناب مصطفیٰ  صاحب  کو  اشعار سنانے کا فرمایا، انہوں نے حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کے عظمتِ صحابہ کرام رضوا اللہ علہیم اجمعین سے متعلق اشعار سنائے، جس کی الہامی تشریح بھی حضرت اقدس میر صاحب دامت برکاتہم فرماتے جاتے تھے۔ اشعاروتشریح کے بعد حضرت والا نے خود معارفِ ربانی سے صفحہ ۳۹۹ سے ۴۰۵ تک ملفوظات پڑھ کر سنائے، آج کی مجلس تقریباً  ۱ گھنٹے تک جاری رہی۔۔

ملفوظات

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک آنکھوں نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا تھا اُس میں اللہ تعالیٰ کے انوار موجود تھے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم سید الانبیاء تھے محبوب رب العالمین تھے لیکن آپ نے فقر کو اختیار فرمایا ۔۔۔۔۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فقر اختیاری تھا، آپ کی بندگی کو نبوت پر بھی غالب فرمایا،عبدیت کا کمال نبی کو حاصل ہوتا ہے۔

صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین کی شانِ محبت بیان فرمائی۔ اور اس ضمن میں ایک نہایت اثر انگیز واقعہ بیان فرمایا۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شانِ فدا کاری بیان فرمائی۔

کیفیت احسانی کیا ہے؟ حدیثِ جبریل بیان فرمائی ۔  ۔ ۔ ۔ اللہ تعالیٰ کی ایسی عبادت کرو جیسے تم اللہ کو دیکھ رہے ہو۔

صحابہ کو جو کیفیتِ احسانی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل ہوئی ۔

یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا معجرہ تھا کہ جو اونٹ چرانے والے تھے انہوں نے سارے دنیا حکومت کرکے دیکھائی اس ضمن میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقام بیان فرمایا جب وہ شام کی فتح کے لئے تشریف لے گئے۔

کسریٰ کے دربار میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آمد کی شان بیان فرمائی پورا قصہ بیان فرمایا۔

یہ آپ کی رسالت کا عظیم الشان معجرہ ہے کہ اونٹ چرانے والوں نے سا

صحابہ کرام پر تنقید حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر تنقید ہے۔ ہمیں تو پورا دین صحابہ سے ہی ملا ہے۔ جو صحابہ سے محبت رکھتے ہیں اُن کے دل میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہوتی ہے اور جس کو اُن سے بغض ہوگا اُس کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض ہے۔

صحابہ کی جانثاری، فدا کاری  کی شہادت  خود قرآن مجید دے رہا ہے : رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ  ۔ ۔ ۔ ۔ایک بزرگ کا قول : محبت خود صحابہ کرام  سے محبت سیکھے!

صحابہ کرام کا عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اوراُن کے اندازِ فدا کاری بیان فرمائی۔

کیفیتِ احسانی درجہ بدرجہ منتقل ہوتی آرہی ہے جو شیخ جتنا قوی نسبت ہوتا ہے اُس کا اثر اُس کے متعلقین میں پڑتا ہے۔

 ملفوظات معارفِ ربانی

 ٹیلی ویژن پر دینی پروگرام کا حکم : ارشاد فرمایا کہ ٹیلی ویژن پر جو دین کی تبلیغ اور تلاوت وغیرہ ہوتی ہے ہمارے اکابر کی تحقیق یہی ہے کہ اس سے بچنا چاہیے۔ جس چمچے سے کوئی عورت اپنے بچے کا پاخانہ صاف کر رہی ہو اسی چمچے سے اگر آپ کو حلوہ پیش کرے تو آپ کھائیں گے؟ معلوم ہوا جو چیز غلاظت میں استعمال ہو اس کو نظافت کے آلہ کے طور پر استعمال نہیں کرتے۔ تو جس ٹی وی پر ابھی ناچ گانا ہورہا ہے، عورتوں کا ناچ دِکھایا جارہا ہے اس کے فوراً بعد قرآن شریف کی تلاوت شروع ہوگئی یہ دین کے ساتھ مذاق ہے، توہین ہے۔ اب اگر کوئی اس کے خلاف کوئی نظریہ رکھتا ہے تو ہمارا مقصود بحث اور جرح نہیں ہے ہمیں اپنے بزرگوں کی تحقیق بتانی ہے۔ جیسے ایک گلاس میں پانی ہے، دس ڈاکٹر کہتے ہیں کہ یہ پانی بالکل ٹھیک ہے لیکن ایک ڈاکٹر کا اختلاف ہے، وہ کہتا ہے کہ مجھے شبہ ہے کہ اس میں زہر ملا ہوا ہے تو آپ اس وقت کیا کریں گے؟ احتیاط پر عمل کریں گے اور وہ پانی نہیں پئیں گے تو دین میں کیوں احتیاط نہیں کرتے۔ کون ایسا حاجی اور حجن ہے جو ٹیلیویژن پر بیٹھا ہوا ہے اور دین کی تقریر سن رہا ہے اور تسبیح بھی ہاتھ میں ہے اور سامنے حجن صاحبہ پاندان لیے مع خاندان بیٹھی ہوئی ہیں، اس کے بعد ٹی وی پر جب سامنے کوئی مرد آجاتا ہے تو کیا حجن صاحبہ اُٹھ کر بھاگتی ہیں یا کوئی عورت آگئی تو حاجی صاحب ٹی وی چھوڑ کر بھاگتے ہیں؟ میرے شیخ شاہ ابرار الحق صاحب فرماتے ہیں کہ ٹیلیویژن سانپوں کا پٹارہ ہے، اس کا زہر کتے کا سا ہے جو آہستہ آہستہ اثر کرتا ہے۔ حضرت نے فرمایا کہ ہر دوئی کے اندر ایک لڑکے نے ٹیلیویژن میں ڈاکہ دیکھا۔ اس نے ڈاکوئوں سے مل کر خود اپنے گھر میں ڈاکہ ڈلوادیا اور ڈاکو اس کو بھی اٹھاکر لے گئے، لڑکا بھی گیا اور ٹیلیویژن بھی گیا۔ آہ! ہزاروں خرابیاں اس سے پیدا ہوتی ہیں، نافرمانی پیدا ہوتی ہے، بے حیائی پیدا ہوتی ہے اور کیسے نہ ہوگی جبکہ آج کل ٹیلیویژن میں ایسی ننگی فلمیں دکھائی جاتی ہیں کہ شرم و حیا کا جنازہ نکل جاتا ہے۔ ایک سید لڑکا بہت ہی نیک پانچوں وقت کا نمازی لیکن غلطی سے اس نے ایک ننگی فلم دیکھ لی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ چھ مہینے تک نماز نہیں پڑھی اس نے آکر مجھ سے کہا کہ مجھے بیماری ہوگئی ہے، میرے کپڑے ہر وقت ناپاک رہتے ہیں، سجدہ کرتا ہوں تو وہی ننگی عورت سامنے ہوتی ہے۔ پھر اس کو لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اﷲُ کی ضربیں بتائیں کہ نہا دھو کر خوشبو لگا کر اﷲ کا نام لو اور کچھ مراقبہ بتادیا اور چھ مہینے تک اس کے لیے دعا کی تب جاکے ٹھیک ہوا اور پھر ماشاء اﷲ صحتمند بھی ہوگیا ورنہ معلوم ہوتا تھا کہ مرجائے گا۔ یہ حسین جان لیوا ہیں خالی ایمان ہی نہیں لیتے یہ جان بھی لیتے ہیں، آخرت تو تباہ ہوتی ہی ہے دنیا کی عارضی زندگی بھی تباہ ہوتی ہے۔ میرا ایک شعر ہے   ؎

حسینوں سے جسے پالا پڑا ہے
اسے بس سنکھیا کھانا پڑا ہے

آپ کہیں گے کہ زہر کیوں کھانا پڑتا ہے؟ اس لیے کہ اگر وہ معشوق مل گیا تو روزانہ حرام کاری سے نامرد ہوجائے گا تو پھر حکیم کے پاس جاکر روئے گا تو حکیم اسے کشتۂ سنکھیا کھلائے گا اور اگر معشوق نہیں ملا تو اس کی جدائی کے غم میں سنکھیا کھاکر مرجائے گا۔ تو دونوں صورتوں میں سنکھیا کھانا پڑا وصل میں بھی فصل میں بھی۔ اس تشریح کے بعد میرے شعر کی قدر کیجئے   ؎

حسینوں سے جسے پالا پڑا ہے
اسے بس سنکھیا کھانا پڑا ہے

لہٰذا دوستوں ہمارے اکابر نے یہاں تک کہا ہے کہ ٹیلیویژن سے اگر تلاوت بھی ہورہی ہے تو اس کو مت سنو اور مت دیکھو کیونکہ یہ ایک مجرمانہ آلہ ہے اس کے بعد گانا بجانا شروع ہوجائے گا آپ خود سوچیں کہ جس چمچے سے بچے کا پاخانہ صاف کیا گیا ہو اسی چمچے کو دھوکر آپ کو حلوہ پیش کیا جائے تو ایسا کرنے والے کو آپ دوست سمجھیں گے یا دشمن؟ بس دوستو میں اپنے بزرگوں کی بات پیش کر رہا ہوں اگر عقل میں سلامتی ہوگی تو ان شاء اﷲ آپ کا دل قبول بھی کرلے گا کیونکہ یہ ایک کھلی بات ہے۔

مخلوط تعلیم کا مسئلہ: ارشاد فرمایا کہ اب یہاں اسکول کی تعلیم کامسئلہ ہے۔ اس وقت آپ کے یہاں جو اسکول ہیں ان میں بے پردہ نوجوان لڑکیوں اور لڑکوں کا آپس میں اختلاط ہوتا ہے لہٰذا ان کا دین و ایمان سب ختم ہوجا تا ہے، عشق بازی اور بدمعاشی میں مبتلا ہوکر شادی سے پہلے ہی شادی ہوجاتی ہے لہٰذا اپنی اولاد کو دوزخ میں جس کو ڈالنا ہو وہی اسکول بھیجے۔ سوچیے کہ لڑکے اور لڑکیاں ساتھ ہوں اور شہوت کی آگ نہ بھڑکے گی؟ آگ اورپیٹرول ساتھ رہ سکتے ہیں؟ پٹرول پمپ پر لکھا رہتا ہے No Smoking Please اور عرب میں لکھا ہوا ہوتا ہے ممنوع التدخین پٹرول پمپ کی تو حفاظت ہورہی ہے آگ سے اور عشق کے پٹرول پمپ پر حسینوں کی آگ سے تباہی نہ پھیلے گی؟ لہٰذا حسینوں سے دور بھاگو اور گالوں کو سمجھو کہ سرخ انگارے ہیں۔ خواجہ صاحب فرماتے ہیں    ؎

دیکھ ان آتشیں رخوں کو نہ دیکھ
ان کی جانب نہ آنکھ اٹھا زِنہار
دور ہی سے یہ کہہ الٰہی خیر
وقنا  ربنا  عذاب  النار 

اور غالب کہتا ہے    ؎

آگرے کے شعلہ رُو ہیں آگ رے
بھاگ رے مرزا یہاں سے بھاگ رے

خالہ زاد، ماموں زاد، پھوپھی زاد، چچازاد بہنوں اور اپنی سالی یعنی بیوی کی بہن سے پردہ لازم ہے تو غیر رشتہ دار نامحرموں سے اختلاط کیسے جائز ہوگا؟ کراچی کا واقعہ سن لیجئے۔ ایک صاحب بہت ہی دین دار تھے ڈاڑھی بھی رکھ لی تھی، لوگ ان کے پاس امانتیں رکھواتے تھے لیکن سالی سے پردہ نہیں کرتے تھے۔ اس ایک نافرمانی کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے عشق میں مبتلا ہوگئے، بارہ بجے رات کو ڈاڑھی منڈائی اور سالی کو لے کر دوسرے ملک کو بھاگ گئے، چھوٹے چھوٹے بچے آج تک رو رہے ہیں کہ ابا کہاں ہیں۔ لہٰذا پردۂ شرعی کی بہت سخت ضرورت ہے۔ اس لیے اپنی بیوی کی بہنوں سے اور تمام نامحرموں سے پردہ کیجئے اور بھابھی سے تو اور بھی زیادہ خطرناک معاملہ ہے، اس سے سخت احتیاط کی ضرورت ہے۔ ایک عورت نے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا میں شوہر کے بھائی سے پردہ کروں؟ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شوہر کا بھائی تو موت ہے موت۔ حضرت مولانا ابرار الحق صاحب نے فرمایا کہ ایک شخص ان سے بیعت ہوا اور اس نے اپنی بیوی کو شرعی پردہ کرانا شروع کیا۔ ان کا بھائی آیا جو پہلے بھابھی کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتا تھا لیکن اب ان کو باہر کھانا کھلاکر رخصت کردیا تو بھائی صاحب ناراض ہوگئے اور کہا کہ میں اب کبھی تمہارے یہاں نہیں آؤں گا، تم میرے بھائی نہیں ہو تم نے میرا بائیکاٹ کیا، تم کیسے بھائی ہو۔ غرض سخت ناراض ہوگئے تو حضرت کوبلایا۔ حضرت نے ان کے بھائی کو بلایا اور پوچھا کہ آپ کیوں ناراض ہیں؟ کہا کہ بھائی کے یہاں آیا تھا، بھائی نے غیروں کی طرح معاملہ کیا، بھائی والا معاملہ نہیں کیا، بھابھی سے نہیں ملنے دیا۔ فرمایا کہ کیا آپ بھائی سے ملنے آئے تھے یا بھابھی سے؟ کہا کہ بھائی سے۔ فرمایا کہ بھائی ملا ؟ کہا کہ ہاں ملا تھا۔ بھائی نے کھانا وغیرہ کھلایا تھا یا نہیں؟ کہا ہاں کھلایا تھا، تو پھر آپ کو کیا غم ہے؟ معلوم ہوا کہ آپ بھائی سے نہیں بھابھی سے ملنے آئے تھے۔ حضرت نے جب یہ فرمایا تو بھائی کی سمجھ میں بات آگئی اور ناراضگی دور ہوگئی۔ بہرحال اپنے گھروں میں شرعی پردہ کیجئے اور کسی کا بالکل خوف نہ کیجئے   ؎

سارا جہاں خلاف ہو پروا نہ چاہیے
پیشِ نظر تو مرضی جانانہ چاہیے
پھر اس نظر سے جانچ کے تو کر یہ فیصلہ
کیا کیا تو کرنا چاہیے کیا کیا نہ چاہیے

خاندان سے مت ڈرو، معاشرہ سے مت ڈرو، معاشرہ کوئی چیز نہیں، زمانہ کوئی چیز نہیں۔ مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی شفیع صاحب رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے تھے کہ جو لوگ ملّا ہوکر یہ کہتے ہیں کہ بھائی ہم کیا کریں زمانے سے مجبور ہوگئے، معاشرہ سے مجبور ہوگئے، سوسائٹی سے مجبور ہوگئے تو مفتی اعظم پاکستان نے فرمایا کہ دیکھو زمانے کو خدا مت بنائو، زمانہ ہمارا خدا نہیں ہے۔ اب شعر سنو جو حضرت مفتی صاحب کا ہے   ؎

ہم کو مٹاسکے  یہ  زمانے  میں  دم  نہیں
ہم سے زمانہ خود ہے زمانے سے ہم نہیں

زمانہ کیا چیز ہے؟ زمانہ ہم بناتے ہیں، ساری دنیا اگر بے پردہ ہوجائے آپ پردہ کیجئے، ساری دنیا بے ڈاڑھی ہوجائے آپ ڈاڑھی رکھ لیجئے، ساری دنیا خدا سے کافر ہوکر بھاگ جائے ہم مومن رہیں گے ان شاء اﷲ، ہم اﷲ پر جان دینے کے لیے تیار ہیں۔ ایک صاحب نے کہا کہ اکیلا چنا بھاڑ کو کیسے پھوڑ سکتا ہے، سوسائٹی اورزمانہ تو بھاڑ ہے اور اکیلا چنا بھاڑ کونہیں پھوڑ سکتا تو ایک مجذوب نے اس کا کیا عمدہ جواب دیا کہ اکیلا چنا بھاڑ نہیں پھوڑ سکتا لیکن خود تو پھوٹ سکتا ہے۔ تم اپنی جان اﷲ پر فدا کردو تم اپنی جنت بنالو، تمہارا تو کام بن گیا۔

بعض بیہودہ رواج اور ان کا علاج: ارشاد فرمایا کہ میں نے سنا ہے کہ یہاں بھی اور پاکستان کے بعض علاقوں میں بھی رواج ہے کہ سسر صاحب اپنی بہو کا ، ساس اپنے داماد کا، بہن بھائیوں کا اور بھائی بہنوں کا بوسہ لیتے ہیں۔ یہ قطعی حرام ہے، خوب سمجھ لیجئے بلکہ بہت خطرناک بات ہے کہ اگر بوسہ لیتے ہوئے سسر کو شہوت پیدا ہوگئی تو بیٹے پر بہو ہمیشہ کے لیے حرام ہوجائے گی۔ سمجھ لیجئے، ساری زندگی زِنا ہوتا رہے گا۔ اسی طرح ساس نے داماد کا بوسہ لیا اور شہوت ہوگئی تو بیٹی ہمیشہ کے لیے داماد پر حرام ہوجائے گی۔ لہٰذا ان برائیوں کو مٹانے کے لیے محنت کیجئے ان شاء اﷲ جب بار بار کہیں گے ضرور اثر ہوگا، رات بھر تہجد پڑھنے سے بہتر ہوگا کہ آپ کسی برائی کو مٹادیں۔

اس پر ایک واقعہ بیان فرمایا ۔ ۔ ۔ قربِ قیامت ہے جیسے جیسے آفتاب نبوت کا دور، دُور ہوتا جارہا ہے تاریکی بڑھتی جارہی ہے اِس لئے اس زمانے میں محرم رشتوں سے بھی احتیاط کرنی چاہیئے۔

اس سے بھی زیادہ بری ایک اور رسم ہے۔ میں نے سنا ہے کہ یہاں منگنی کے بعد یعنی شادی کی بات پکی ہونے کے بعد لڑکا لڑکی کو لے کر پہاڑوں پر سیر و تفریح کے لیے لے جاتا ہے۔ تو سن لیجئے کہ یہ بالکل حرام ہے۔ خوب سمجھ لیجئے کہ جب تک نکاح نہ ہوجائے اس کو پہاڑوں پر لے جانا، ادھر ادھر گھمانا یہ سب حرام ہے۔ یہ سب کرکے اﷲ کو ناراض کرتے ہو، ظالمو نکاح کیوں نہیں کردیتے۔

خواتین کو بے پردہ پڑھانے کی مذمت: اب رہا مدارسِ دینیہ میں پردہ کے ساتھ تعلیم کا مسئلہ۔ افریقہ میں ایک عالم سے میں نے کہا کہ جب لڑکیاں دس سال کی ہوجائیں تو ان سے پردہ شروع کردو۔ حدیث شریف میں ہے کہ جب لڑکا اور لڑکی دس سال کے ہوجائیں تو دونوں کے بستروں کو الگ کردو، بھائی بھائی کے ساتھ، بہن بہن کے ساتھ نہ لیٹے، بدرجہ مجبوری بیٹی ماں کے ساتھ اور بیٹا باپ کے ساتھ سوسکتا ہے۔ یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ دس سال میں گناہ ہوسکتا ہے۔ لندن میں دس سال کی لڑکی حاملہ ہوئی ہے، ساری دنیا میں ٹیلیویژن پر دِکھایا گیا۔ پس نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی بات پر اعتماد کرو۔ انبیاء علیہم السلام کو نفسیات کا بھی ماہر بنایا جاتا ہے۔ دوستو! اسی لیے عرض کررہا ہوں کہ لڑکیوں کو بے پردہ مت پڑھائیے ورنہ کس منہ سے  یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِہِمْ کی تفسیر کروگے؟ لڑکیاں کہیں گی کہ مولانا آپ یہ آیت پڑھا رہے ہیں اور ہمیں دیکھ رہے ہیں۔ حضرت عبداﷲ ابن مکتوم نابینا صحابی تھے یا نہیں ان سے حضور صلی اﷲعلیہ وسلم نے پردہ کرایا یا نہیں؟ وہ صحابی جس نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی صحبت اٹھائی اس نابینا صحابی سے ازواج مطہرات اور صحابیات کو تو پردہ کرایا جارہا ہے اور آج بینا ملا کے لیے پردہ نہ ہو ذرا غور کیجئے۔ جب ہماری مائوں نے کہا اَلَیْسَ ہُوَ اَعْمٰی کیا وہ اندھے نہیں ہیں تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے کیا فرمایا  لَسْتُمَا تُبْصِرَانِہٖ کیا تم دونوں دیکھتی نہیں ہو اَفَعَمْیَاوَانِ اَنْتُمَا کیا تم دونوں نابینا ہو۔

تو افریقہ کے عالم صاحب نے بتایا کہ جب میں نے نظر نیچی کرکے پڑھانا شروع کردیا تو مہتمم صاحب کہنے لگے کہ مولانا اگر پڑھانا ہے تو لڑکیوں کی نظر سے نظر ملا کے پڑھاؤ۔ یہ جو آپ تصوف دِکھلا رہے ہیں لڑکیاں کیسے سمجھیں گی۔ ارے کچھ باتیں تو آنکھوں سے سمجھی جاتی ہیں۔ آہ! کتنی قابلِ افسوس بات ہے، ایسے مہتمم کو قیامت کے دن کتنا سخت عذاب ہوگا اگر توبہ نہ کی۔ ایک اﷲ والا بے چارہ بچنا چاہتا ہے، نظر نیچی کرکے پڑھانا چاہتا ہے اس کو تم کہتے ہو کہ نظر ڈالو۔

ارشاد فرمایا: اس لئے حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ نے مدرسۃ البنات سے متعلق فرمایا تھا کہ اگر مدرسۃ البنات کھولو گے تو سر پکڑ کر روؤ گے۔

تقویٰ سے پڑھانے کی ایک تدبیر: ارشاد فرمایا کہ بنگلہ دیش میں ایک عالم نے مجھ سے کہا کہ میں بخاری شریف پڑھاتا ہوں لیکن کبھی مجھ کو کافیہ کے طلبہ دے دیئے جاتے ہیں جو کم عمر اور حسین ہوتے ہیں۔ ان سے کیسے بچوں؟ میں نے ان کو طریقہ بتایا کہ جو لڑکے ڈاڑھی والے اور کم حسین ہیں ان کو سامنے رکھئے اور جو زیادہ حسین ہیں جن سے آپ کو مجاہدہ ہوتا ہے ان کو داہنے بائیں بٹھائیے تو وہ حسین نمکین لڑکے حاشیہ بن جائیں گے اور غیرحسین متن بن جائیں گے اور متن جلی ہوتا ہے اور حاشیہ خفی ہوتا ہے تو آپ کی آنکھوں کو ان کے حسن کی نوک پلک کا ادراک کم ہوگا۔ اس نسخے سے ان عالم کو فائدہ پہنچا، اتنی دعائیں دیں اور آج تک وہ ہمارا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ اب اگر کسی طالبِ علم کے دل میں شیطان یہ وسوسہ ڈالے کہ استاد مجھ پر شفقت نہیں کرتا تو آپ ان کو بتادیں کہ بھائی تم سے احتیاط مجھ پر شرعاً واجب ہے اور ان شاء اﷲ آپ کو زیادہ فیض ہوگا کیوں کہ اﷲ دیکھ رہا ہے کہ میرے خوف سے یہ استاد ان بچوں کو نہیں دیکھ رہا ہے، اﷲ تعالیٰ ان کے علم میں برکت دے گا، اس کے پڑھانے میں برکت دے گا، ان کے پڑھنے میں برکت دے گا۔ تجربہ کی بات کہتا ہوں۔ بس حسینوں سے ذرا فاصلہ رکھئے اس پر میرا شعر ہے   ؎

میرے ایامِ غم بھی عید رہے
ان سے کچھ فاصلے مفید رہے

یعنی فاصلوں سے کسی کے حسن کا اگر غم رہے تو یہ مضر نہیں بلکہ مفید ہے کیونکہ اس غم میں سکون چھپا ہوا ہے، تقویٰ سے سکون ملتا ہے، اس لیے حسینوں سے فاصلے مفید ہیں۔ مولانا تقی عثمانی نے یہ شعر سن کر فرمایا آپ کا یہ شعر نہایت حسین ہے۔ ان فاصلوں سے جو غم ہوگا اس غم سے کوئی نقصان نہیں ہوگا جیسے کسی کا کباب سے پرہیز ہو اور کباب کھانے کو دل چاہتا ہے تو اس کے غم سے کوئی نقصان نہیں ہوگا جب تک آپ کھائیں گے نہیں۔ میرے شیخ شاہ ابرار الحق صاحب دامت برکاتہم نے فرمایا کہ روزہ میں پانی کی ٹھنڈی بوتل دیکھ کر دل چاہتا ہے کہ پی لوں تو کیا تقاضے سے روزہ ٹوٹ جائے گا یا اور اجر بڑھ جائے گا؟ اسی طرح حسن سے فاصلوں پر جو غم ہوگا اس سے قرب اور بڑھ جائے گا۔

ارشاد فرمایا: حضرت مولانا صدیق صاحب باندوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے حضرت والا سے کہ آپ کا ہر لفظ اور ہر جملہ اس قابل ہے کہ اِس کو شائع کردیا جائے۔ حضرت مولانا صدیق باندوی صاحب کی حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ سے محبت بیان فرمائی۔۔۔۔۔ اکابر علماء حضرت والا کا مقام پہچانتے تھے۔ ۔ ۔ ۔حضرت والا کی عجیب شان تھی۔ دُعا فرمائی: اللہ تعالیٰ حضرت جوارِ رحمت میں جگہ دے۔ اور جنت میں حضرت والا سے ساتھ دخولِ اولیں عطا فرمائے۔

 

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries