مجلس۱۱۔ جون۲۰۱۴ء حضرت والا کا عظیم الشان فہمِ دین !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں(کلک کریں)

خلاصۂ مجلس:محبی و محبوبی مرشدی و مولائی حضرت والا میر صاحب دامت برکاتہم رونق افروز تھے، جناب اثر صاحب دامت برکاتہم حاضرِ خدمت تھے، حضرت والا نے ان کو اشعار سنانے کو فرمایا، اثر صاحب نے اپنے اشعار سنائے جن کو سن کر حضرت والا بہت خوش ہوئے، اشعار کے بعد جناب ممتاز صاحب کع معارفِ ربانی سے ملفوظات پڑھنے کو فرمایا، انہوں نے کچھ دیر ملفوظات سنائے اس کے بعد حضرت والا نے خود کتاب سے ملفوظات پڑھنے شروع کئے، آج  صفحہ ۴۱۸ سے ۴۳۲ تک ملفوظات پڑھ کر سنائے گئے ،درمیان درمیان میں حضرت ارشادات بھی فرماتے رہے،آج کی مجلس تقریباً  ۱ گھنٹے تک جاری رہی۔۔

 ملفوظات معارفِ ربانی

 جمعہ کے دن کی موت کی فضیلت : ارشاد فرمایا کہ اﷲ کرے ہم سب کو جمعہ کے دن موت آئے اور جمعہ کے دن انتقال نصیب ہو کیونکہ حدیثِ پاک ہے:

مَا مِنْ مُسْلِمٍ اَوْ مُسْلِمَۃٍ یَمُوْتُ فِیْ یَوْمِ الْجُمُعَۃِ اَوْ لَیْلَۃِ الْجُمُعَۃِ اِلاَّ وُقِیَ عَذَابَ الْقَبْرِ وَ فِتْنَۃَ الْقَبْرِ وَ لَقِیَ اﷲَ وَ لاَ حِسَابَ عَلَیْہِ وَ جَآئَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَ مَعَہُ شُھُوْدٌ یَّشْھَدُوْنَ لَہٗ اَوْ طَابِعٌ (مرقاۃ المفاتیح، با ب الجمعۃ)

جو جمعہ کے دن یا شبِ جمعہ کو مرے گا اسے قبر میں عذاب نہیں ہوگا اور قیامت کے کوئی حساب نہیں ہوگا اور میدانِ حشر میں وہ اس حال میں آئے گا کہ اس پر شہیدوں کی مہر لگی ہوگی ۔ یہ حدیث ملا علی قاری رحمۃ اﷲ علیہ محدثِ عظیم نے مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں لکھی ہے اور اپنی یہ تحقیق پیش کی ہےفَاِنَّ ھٰذَا الْحَدِیْثَ یَحْتَمِلُ الْاِطْلاَ قَ وَالتَّقْیِیْدَیہ حدیث محتمل ہے کہ قیامت تک سوال و جواب نہ ہو اور مقید بھی ہوسکتی ہے مگر فرماتے ہیں وَالْاِطْلاَقُ ھُوَ الْاَوَّلُ وَ الْاَوَّلُ ھُوَ الْاَوْلٰی نَظْراً اِلٰی فَضْلِ الْمَوْلٰی اس حدیث کو مطلق رکھنا اولیٰ ہے کیونکہ اس میں مولیٰ کے فضل پر نظر ہے اور مقید کرنا اﷲ تعالیٰ کے فضل کے منافی ہے کیونکہ اﷲ کی رحمت سے بعید ہے کہ جمعہ کے دن تو عذاب نہیں ہوگا اور ہفتہ کے دن سے کھنچائی شروع ہوجائے گی۔ آہ! ملا علی قاری رحمۃ اﷲ علیہ کو اﷲ جزا دے، کیا علوم ہیں ان حضرات کے! فرماتے ہیں کہ بس اس حدیث کو مطلق رکھو کیونکہ مولیٰ کے فضل پر نظر ہے کہ قبر میں قیامت تک حساب نہیں ہوگا۔

اب رہ گیا یہ کہ جمعہ کے دن اتنا ثواب کیوں ہے؟ تو جو اﷲ بیت اﷲ میں ایک لاکھ کا ثواب رکھ سکتا ہے، جو اﷲ اپنے گھر کو شرف دے سکتا ہے، مکان کو شرف دے سکتا ہے وہی اﷲ زمان کو یعنی جمعہ کے دن کو بھی شرف دے سکتا ہے، یہ شرفِ زمانی ہے، وہ شرفِ مکانی ہے۔ مکان اور زمان کا خالق اﷲ ہے، وہ شرفِ مکانی دینے پر بھی قادر ہے اور شرفِ زمانی دینے پر بھی قادر ہے۔ اس لیے ملا علی قاری فرماتے ہیں لیس فی فضل ھذا الحدیث مجال للقیاس و النظر اس حدیث کی فضیلت میں اس بات کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ آپ قیاس اور عقل لڑائیں اعتماداً علی قول الصادق المصدوق صلی اﷲ علیہ وسلم یعنی سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارشاد پر اعتماد کرو کہ جو جمعہ کے دن مرے گا اس کو عذابِ قبر نہیں ہوگا ، اس پر قیامت کے دن شہیدوں کی مہر لگی ہوگی و لا حساب علیہ اور قیامت کے دن اس سے کوئی حساب نہیں ہوگا۔ اس لیے اﷲ سے دعا کرو کہ اﷲ اپنی رحمت سے جمعہ کے دن ہم سب کی موت مقدر فرمادے کیونکہ یہ چیز اختیاری نہیں ہے۔

 حضرت حاجی صاحب کی کرامت : ارشاد فرمایا کہ ایک بڑے عالم نے حاجی صاحب سے عرض کیا کہ حضرت مجھے بیعت کرلیجیے لیکن میں بیعت اس شرط پر ہوں گا کہ میں تہجد نہیں پڑھوں گا، مجھ سے نہیں ہوتا رات کا اُٹھنا تو حاجی صاحب نے فرمایا کہ اچھا مرید ہوکر شرط لگا رہے ہو تو پھر پیر بھی شرط لگائے گا وہ یہ ہے کہ آپ تھوڑا ساہمارا بتایا ہوا خمیرہ چاٹ لیا کرو یعنی کچھ ذکر کرلیا کرو۔
ان عالم صاحب نے عرض کیا کہ حضرت میں آپ کی شرط قبول کرتا ہوں آپ ذکر بتادیجئے۔ حضرت حاجی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ نے ذکر بتا دیا، انہوں نے ذکر کیا اور عشاء کے بعد سوگئے، رات کے پچھلے پہر خارش شروع ہوئی تو کھجانے لگے جس سے سوزش پیدا ہوئی تو کہنے لگے کہ لاؤ اس کو دھو لوں اور جب دھونے لگے تو چہرہ بھی دھو لیا پیر بھی دھو لیے اس طرح وضو ہوگیا تو کہا چلو نماز بھی پڑھ لو پھر صبح ہنستے ہوئے حاجی صاحب سے کہا کہ حضرت خوب ترکیب نکالی، اپنی توجہ کے فیضان سے آپ نے مجھے تہجد پڑھوا دی ورنہ میرا ارادہ نہیں تھا۔ اس کے بعد پوری زندگی تہجد نہیں چھوٹی۔ تو اﷲ والوں کے تعلق کی برکت سے کمیت اورکیفیت دونوں نعمتوں میں ترقی ہوتی ہے خاص کر کیفیت میں، اگر آپ نے کسی اﷲ والے کو نہیں پکڑا تو آپ کی دورکعت نفل دو رکعت ہی رہے گی لیکن اگر کسی اﷲ والے سے تعلق جوڑ لیا اور اس کی صحبت میں رہ کر اﷲ کے عارف ہوگئے تو عارف باﷲ کی دورکعت غیر عارف کی ایک لاکھ رکعات سے افضل ہے کیونکہ اﷲ والوں سے درد بھرا دل ملتا ہے، معرفت ویقین ملتا ہے جس سے دورکعت نفل ایک لاکھ رکعات نفل سے افضل ہوجاتی ہے۔

 حضرت والا کا عظیم الشان فہمِ دین : جب کوئی مبارک رات آتی ہے تو میں اس میں کسی حدیث شریف کا درس دیتا ہوں کیونکہ حدیث شریف میں ہے کہ جو کوئی دین کا مضمون سن لے تو ایک ہزار رکعت سے افضل ہے، میں کمزور ہوں ایک ہزار رکعت نفل نہیں پڑھ سکتا ہوں، اس وجہ سے کوئی مضمون بیان کردیتا ہوں جس سے امید ہے کہ ان شاء اﷲ تعالیٰ ایک ہزاررکعت کا ثواب مل جائے گا۔

صحبتِ اہل اﷲ کی مدت:  تو دوستو یہ عرض کررہا تھاکہ اﷲ والوں کی صحبت بنیادی چیز ہے کُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِیْنَ  کی تفسیر میں علامہ آلوسی رحمۃا ﷲ علیہ تفسیر روح المعانی میں فرماتے ہیں کہ خَالِطُوْھُمْ لِتَکُوْنُوْا مِثْلَھُمْ یعنی اﷲ والوں کے ساتھ اتنا رہو کہ اُن جیسے بن جاؤ۔ پہلے زمانے میں بزرگوں نے تزکیۂ نفس کے لیے دوسال کی مدت رکھی تھی، اگر کوئی عالم ہے تو دس سال درسِ نظامی کے لیے اور دو سال درسِ ایمانی کے لیے لیکن حاجی صاحب نے اس مدت کو چھ مہینہ کردیا اور حکیم الامت نے اسی پر عمل کیا یعنی چھ مہینے حاجی صاحب کی خدمت میں مکہ مکرمہ رہے اور پھر واپس ہندوستان آگئے۔ حکیم الامت نے دیکھا کہ اب علماء حضرات بہت مشغول ہوگئے ہیں، عموماً غریب لوگ مولوی بنتے ہیں اور جہاں عالم ہوئے تو ماں باپ کہتے ہیں کہ کچھ کما کر لاؤ ہم بڈھے ہوگئے ہیں۔ اس لیے اب کسی کو چھ مہینے لگانا مشکل ہو گیا ہے توحکیم الامت نے فرمایا کہ چھ مہینہ کے بجائے چالیس دن کافی ہیں اور اب حکیم الامت کے اس ادنیٰ غلام نے بیس دن کردئیے ہیںکیونکہ یہاں معلوم ہوا کہ کمیٹی والے مولویوں کو چھٹی نہیں دیتے لہٰذا چالیس دن کی چھٹی جب نہیں ملتی تو چلو بیس اکیس دن کے لیے آجاؤ۔ مرغی انڈے کو اکیس دن تک اپنے پروں کے نیچے رکھ کر گرمی پہنچائے تو اس میں جان آجاتی ہے، تو میں نے دل میں سوچا کہ جب اﷲ اکیس دن میں مردہ انڈے کو زندہ کردیتا ہے تو ایمان کی برکت سے علماء حضرات کواکیس دن میں وہ سب کچھ دے سکتا ہے جو چالیس دن میں دے گا لہٰذا میںنے اپنے ان دوستوں کو جو مجھ سے تعلق رکھتے ہیںاور میرے پاس کراچی آنا چاہتے ہیں اکیس دن ہی بتایا ہے۔ میں دعا کروں گا کہ اﷲ تعالیٰ اکیس دن ہی میں اُن کو چالیس دن کا نفع عطا فرمائے، آمین۔

فجر کی نماز کے بعدحضرت والا دامت برکاتہم نے احمد ولی صاحب سے فرمایا کہ ابھی سیر کو چلنا ہے اور راستہ سے مولوی ثناء اﷲ صاحب کو ساتھ لے لیںگے، ان سے اپنے اشعار سننے ہیں، انہوں نے مولوی دائود کے والد صاحب کے یہاں پڑھا تھا، بہت اچھی آواز ہے، یہ بھی اﷲ کی نعمت ہے۔ چنانچہ ایک گاڑی میں حضرت والا کے ساتھ احقر اور حاجی احمد صاحب اور مولانا دائود صاحب تھے اور دوسری گاڑی میں مولانا عمر فاروق، فاروق ایس ایس، الیاس صاحب وغیرہ تھے۔ راستہ میں سینٹ لوئیس سے مولانا ثناء اﷲ صاحب کو لیا، تھوڑی دور ایک جنگل تھاجس میںایک تالاب تھااور دوسری طرف سمندر تھا، سمندر کی موجوں میں آج بہت جوش تھا، سمندر کے کنارے قالین بچھا دیا گیا، حضرت والا اور دوسرے ساتھیوں نے اشراق کے نوافل پڑھے پھر حضرت والا بہت دیر تک دعا مانگتے رہے، اس کے بعد سب لوگوں نے لا الٰہ الااﷲ اور اﷲ اﷲ کی ایک تسبیح پڑھی، پھر تالاب کے کنارے درختوں کے نیچے سبزہ پر دری بچھادی گئی، حضرت والا اور ہم سب خدام سمندر کے کنارے سے اٹھ کروہاں بیٹھ گئے، پھر مولانا ثناء اﷲ صاحب نے نہایت خوش الحانی سے حضرت والا کی یہ غز ل پڑھی   ؎

لذتِ ذکر نام  خُدا   ہے   چمن
اور غفلت کی دنیا ہے دشت و دمن

حضرت والا دامت برکاتہم کے درد بھرے اشعار مولانا ثناء اﷲ صاحب کی درد بھری آواز میں سن کر سب کے دل اﷲ کی محبت سے گرم ہو گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد حضرت والا نے فرمایا کہ اب چلنا چاہیے بھوک لگ رہی ہے اور احقر کو مخاطب کرتے ہوئے بر جستہ یہ شعر فرمایا   ؎

چلو میر صاحب رہائش کی جانب
مجھے کچھ سموسہ کی یاد آرہی ہے

اور فرمایا کہ الفاظ کچھ ہوتے ہیں معانی کچھ اور ہوتے ہیں، ہر لفظ سے مقصود اﷲ تعالیٰ ہی کی ذات ہے، منشاء یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں کو کیسی کیسی نعمتیں کھلاتے ہیں لہٰذا اب ان کی نعمتوں میں مشغول ہو کر ان کو یاد کرو۔ جس کے دل میں اﷲ ہوتا ہے پھر اسے ہر طرف اﷲ ہی اﷲ نظر آتا ہے، جیسے مثنوی میں مولانا رومی نے لکھا ہے کہ زُلیخا جب کوئی بات کرتی تھی تو اس کا مقصود حضرت یوسف علیہ السلام ہوتے تھے، کبھی کہتی تھی کہ آج پتے تالیاں بجا رہے ہیں قوالیاں کر رہے ہیں ، منشاء اس کا حضرت یوسف علیہ السلام ہی کو یا د کرنا تھا۔
بعد ظہر احقر سے فرمایا کہ فلاں کام کرلو پھر فوراً فرمایا کہ کر لیجئے، میں جلدی میں اس طرح کہہ دیتا ہوں کچھ خیال نہ کرنا۔ احقر نے عرض کیا کہ حضرت جب کر لیجئے فرماتے ہیں تو مجھے اتنا مزہ نہیں آتاجتنا اس وقت آتا ہے جب حضرت فرماتے ہیں کہ یہ کرلو اور اگر کبھی یوں فرمادیتے ہیں کہ تو یہ کام کرلے تو روح مست ہو جاتی ہے۔ اس پر حضرت والا نے بر جستہ یہ شعر فرمایا   ؎

عشقِ مردہ سے عشقِ زندہ تک
میرؔ پہنچا  ہے  کیسا   تابندہ

مِزاح: پھر کھانے کا وقت ہوگیا، دستر خوان پر گائے کا گوشت بھی تھا فرمایا کہ اُس دن پہاڑ پر دیکھاتھا کہ یہاں کی گائیں بہت تگڑی ہیں پھر احقر سے مزاحاً فرمایا کہ اگر کوئی گائے آپ کو دیکھ لیتی تو کہتی کہ اے میرے سردار! آپ کی باڈی مجھے بہت محبوب ہے کیونکہ میرا بیل جو تھا وہ اِسی قسم کا تھا، اُس کی صحبت سے ہم عرصہ سے محروم ہیں، اس کے بعد وہ گائے ایک بات اور کہتی کہ سنا ہے آپ کے پاس کوئی گائے نہیں ہے، ہم میں سے جس کو چاہیں آپ سلیکٹ (Select) کرسکتے ہیں، ہم آپ کو ریجیکٹ (Reject) نہیں کریں گے۔ حضرت والا کے مزاح پر سب لوگ ہنس پڑے۔ اپنے خُدام کے ساتھ یہ شفقت و دلجوئی حضرتِ اقدس کا خاص انداز ہے۔ دستر خوان پر احقر دال لینے لگا تو مولانا عمر فاروق صاحب نے کہا کہ یہ نہ کھائیے، اس میں نمک بہت تیز ہے ۔ حضرت والا نے فی البدیہہ یہ شعر فرمایا   ؎

نمک سے اور نمکینوں سے جو بیمار ہوتا ہے
صحیح معنوں میں اس کا پیر ہی تیمار ہوتا ہے

اس کے بعد حضرت والا قیلولہ کے لیے لیٹ گئے۔ عبد العزیز صاحب اور چند لوگ پائوں دبا رہے تھے کہ احقر کو اچانک چھینک آئی جو طویل ہوتی ہے اور کئی چھینکوں کا مجموعہ ہوتی ہے تو حضرتِ اقدس مرشدی دامت برکاتہم نے فرمایا کہ عبدالعزیز آسٹریلیا یہاں سے قریب ہے کیا؟ انہوں نے کہا نہیں حضرت، تو حضرت والا نے فرمایا کہ پھر یہاں آسٹریلیا کا مرغا کہاں سے آگیا؟

تدفین کے بعد دعا اور نصیحت: آج حضرت والا کے احبابِ خصوصی میں سے ایک صاحب کی والدہ کا انتقال ہوگیا۔ ان کی تدفین کے موقع پر حضرت والا قبرستان تشریف لے گئے اور تدفین کے بعد دعا فرمائی کہ اے اللہ! مرحومہ کو بے حساب بخش دے،  ان کے گھر والوں کو صبرِ جمیل عطا فرمادے اور ان کی موت سے ہم سب کو سبق لینے کی توفیق عطا فرما، جو دین میں سست ہے یا اللہ! اس کو پکا نمازی بنادے، یا اللہ! جو روزے میں سست ہے اس کو پکا روزہ دار بنادے، یا اللہ! جن کی ڈاڑھیاں نہیں ہیںان کو ڈاڑھی رکھنے کی توفیق عطا فرمادے۔ یا ربَّ العالمین! ہم سب کو آخرت کی تیاری کی توفیق عطا فرمادے۔ چاہے کتنا ہی بڑا بادشاہ ہو،عالم ہو، تاجر ہو، پیر ہو، کوئی بھی ہو سب کو ایک دن قبر میں جانا ہے اس لیے اے اللہ! ہم کو اپنی قبروں کو یاد کرنے اور نصیحت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرما اور مرحومہ کی بے حساب مغفرت فرما، آمین۔
دعا مانگنے کے بعد ارشاد فرمایا کہ دفن کے بعد دعا مانگنا سنت ہے البتہ نمازِ جنازہ کے بعد بعض جگہ لوگ دعا مانگتے ہیں یہ بدعت ہے۔ نمازِ جنازہ کے بعد دعا نہیں مانگنا چاہیے کیونکہ نمازِ جنازہ تو خود دعا ہے۔ ایصالِ ثواب کے لیے قل ھو اللہ شریف پڑھے، سورہ یٰسین پڑھے شریعت میں کسی سورۃ کی قید نہیں ہے جو چاہو پڑھ کے ساری زندگی بخشتے رہو لیکن مردے کو مالی ثواب زیادہ پہنچتا ہے، یہ مسئلہ حضرت حکیم الامت نے کمالاتِ اشرفیہ میں لکھا ہے کہ مردے کے لیے زبانی عبادت سے زیادہ مالی عبادت افضل ہے لہٰذا آپ کو افضل طریقہ بتا رہا ہوں کہ زبان اور مال دونوں سے ثواب پہنچائو، کچھ مال مرحومہ کے نام سے دین کے کسی کام میں لگا دو۔
الحمدللہ! تکفین و تدفین سب سنت کے مطابق ہوئی، جس کام کو علماء کرام نے منع کیا ہے اور صحابہ کے زمانہ میں جو کام نہیں ہوا وہ الحمد ﷲ آج یہاں نہیں ہوا، آپ لوگ ہمیشہ اس کا خیال رکھیے اور علماء کرام سے پوچھیے کہ غم میں اور خوشی میں صحابہ نے کیا کیا تھا اور کیا نہیں کیا، ان سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا عاشق کون ہو سکتا ہے، وہ شاگردِ اوّل ہیں۔ بس ان کے نقشِ قدم پر چلیے۔

سمندر کے کنارے مجلسِ اشعار: فجر کے بعد حسبِ معمول حضرت والا سیر کے لیے سمندر کے کنارے تشریف لے گئے اور فرمایا کہ رات کچھ شعر ہوئے ہیں، تازہ جلیبی ہے، ان شاء اﷲ مزہ آجائے گا۔ پھر ایک صاحب نے ترنم سے یہ اشعار پڑھے   ؎

پہاڑوں کا دامن سمندر کا ساحل
مری آہِ دل کے یہی ہیں منازل

میری آہ کا جو راستہ ہے وہ دامنِ کوہ، ساحلِ سمندر، جنگل اور بیابان ہیں، میری آہ ان راستوںسے ہوتی ہوئی آسمان پر پہنچ جاتی ہے۔ ایک خاص بات ابھی دل میں آئی ہے کہ نبوت کا آغاز غارِ حرا سے ہوا تھا، بتائیے غارِ حرا پہاڑ میں ہے یا نہیں؟ معلوم ہوا کہ دامنِ کوہ میں کوئی اللہ میاں کی ٹوہ لگائے تو منزل تک جلدی پہنچ جاتا ہے اور ٹوہ کہتے ہیں تلاش کرنے کو تو پہاڑوں کے دامن اور سمندر کے ساحل پر میں آج کل ٹوہ میں لگاہوا ہوں   ؎

نہیں کوئی رہبر ہے راہِ جنوں کا
مگر سایۂ صحبتِ شیخِ کامل

راہِ جنوں کا مطلب ہے کہ اللہ کا دیوانہ بننے کا اور کوئی راستہ نہیں ہے سوائے صحبتِ شیخِ کامل کے  ؎

جنازہ  ہوا  قبر  میں  آج  داخل
ہوئی خاکِ تن آج مٹی میں شامل
                                         ترا  فیض ہے  صحبتِ  شیخِ  کامل
                                         ہوا سب کا دل دردِ نسبت کا حامل
مرے دوستو! ذکر کی برکتوں سے
سکینہ ہوا دل پہ ہم سب کے نازل
                                         عجب درد سے کس نے تفسیر کی ہے
                                         کہ قرآں ہوا آج ہی جیسے نازل
خدا شیخ کو میرے رکھے سلامت
کہ ناقص ہوئے ان کی صحبت سے کامل
                                         یہ اُمید ہے تیرے لطف و کرم سے
                                         کہ اختر بھی ہو اہلِ جنت میں شامل

میں دین کو نہایت لذیذ انداز میں سکھاتا ہوں کہ الحمدللہ بڑے بڑے مسٹروں کا دل میرے پاس نہیں گھبراتا، کالج یونیورسٹی کے کتنے نوجوان میرے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ کی صحبت میں وقت کا پتہ ہی نہیں چلتا، یہ اللہ تعالیٰ کا احسانِ عظیم ہے۔ میں اپنے رب کی تعریف کس طرح کروں، یہ چاند سورج وقت پر نکل رہے ہیں، یہ پہاڑ، سمندر، آسمان، زمین اللہ کی نشانیاں ہیں، ان ہی چیزوں کے بارے میں فرمایا کہ تم مجھ کو کس طرح سمجھ سکتے ہو بس میری مخلوقات کو دیکھ کر مجھے پہچانو کہ میںکیسا ہوں، میری مخلوق سے میری  خلاقیت کی عظمت کو پہچانو، سائنس دان جو اﷲ کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کائنات خودبخود وجود میں آگئی ان سے کہو کہ ایک معمولی سی کیل بغیر بنانے والے کے نہیں بن سکتی تو یہ زمین، آسمان، چاند، سورج، پہاڑ اور سمندر بغیر بنانے والے کے بن گئے؟ سمندر تو تم کیا بناؤ گے تھوڑ ا سا پانی بنا کر دکھا دو۔

سمندر میں نمک ہونے کی حکمت: ارشاد فرمایا کہ سمندر کا پانی اگر میٹھا ہوتا تو پانی سڑ جاتا اتنی بدبو آتی کہ سب مچھلیاں مرجاتیں اور سمندر کے قریب جتنے ممالک ہیں وہ بھی سب ختم ہوجاتے اسی لیے اﷲ تعالیٰ نے سمندر میں نمک رکھا ہے جیسے قربانی کی کھال پر نمک لگا دیتے ہیں تاکہ سڑے نہیں۔ اسی طرح اگر نمک نہ ہو تو سمندر سڑ جائے۔

کیفیات و احوال کا ادب: ارشاد  فرمایا  کہ کیفیات واحوال اﷲ تعالیٰ کے مہمان ہوتے ہیں لہٰذا اگر کسی صوفی پر کوئی حال آجائے کہ کھڑا ہوجائے تو سب کھڑے ہوجاؤ، اگر رونے لگے تو سب رونے لگو ورنہ اس کی روح نکل جائے گی، اس سے موت واقع ہوسکتی ہے کہ ہم کو رونا آیا اور یہ کمبخت ہنس رہا ہے۔

خانقاہ ری یونین کے قیام پر اظہارِ تشکر: فرمایا کہ اﷲ اس خانقاہ کو دنیا میں بھی عزت دے ماشاء اﷲ یہاں میرے اتنے اشعار ہوئے ہیں، میر صاحب خود بھی تاریخ جانتے ہیں کہ اتنے شعر کہیں بھی نہیں ہوئے، بنگلہ دیش میں بھی نہیں ہوئے، افریقہ میں بھی نہیں ہوئے، پاکستان و ہندوستان میں بھی نہیں ہوئے، اﷲ تعالیٰ نے اس فضا اور جغرافیہ میں درد پیدا کیا ہے جیسے جنگل میں کوئل کوکتی ہے تو شاعر کہتا ہے کہ   ؎

کوئل کا دور دور درختوں پہ بولنا
سینہ میں اہلِ درد کے نشتر گھنگھولنا

مولانا داؤد اور ان کے والد کو اﷲ تعالیٰ جزاء خیر دے کہ انہوں نے اﷲ کے نام پر اتنی بڑی خانقاہ وقف کی، یہ معمولی بات نہیں ہے، یہ اﷲ پاک کی توفیقِ عظیم ہے کہ انہوںنے ری یونین میں اتنی جگہ اس کام کے لیے وقف کی، بتائیے اگر وہ اس زمین کو بیچتے تو ان کو کتنا پیسہ ملتا لیکن اﷲ کا عاشق تو ان کے نام پر سلطنت بیچ دیتا ہے اور بیچتا نہیںہے بلکہ لٹا دیتا ہے جیسا ابراھیم ابن ادھم رحمۃ اﷲ علیہ نے سلطنت کو چھوڑ دیا تھا۔

دل سے دعا نکلتی ہے ا ن کے لیے اور ان کے ابا کے لیے کہ انہوں نے اتنی قربانیاں پیش کیں یا اﷲ آپ اس کو قبول فرمایئے اور بڑے بڑے اولیاء اﷲ یہاں سے پیدا فرمائیے لیکن جو کام بھی ہو رہا ہے اﷲ کے کرم سے ہورہا ہے، ہمارے اندر تو کوئی ہنر نہیں ہے جیسے حسین عورت آئینہ کو دیکھ کر یوں سمجھتی ہے کہ میاں صاحب میرے حسن سے مسحور ہوکر میرے ہی ہوکر رہ جائیں گے لیکن جس بے چاری کی صورت اچھی نہ ہو، اس میں کچھ ہنر بھی نہ ہو تو وہ کہتی ہے کہ یااﷲ! میرے شوہر کی نظر میں مجھ کو پیاری بنادے، اسی طرح ہم لوگوں کے پاس کوئی ہنر تو ہے نہیں بس اﷲ سے دعا کرتے ہیں کہ یااﷲ آپ اختر کو، میرے دوستوں کو محض اپنے کرم سے اپنا بنا لیجیے، ہمارے عیبوں پر نظر نہ فرمائیے، ہمارے عیبوں کے باوجود ہم کو خرید لیجیے۔ ہم آپ سے یہی مانگتے ہیں۔

کراچی کی خانقاہ ہو، بنگلہ دیش کی خانقاہ ہو یا یہاں کی خانقاہ ہو صرف دعا کی برکت سے کام ہورہا ہے، اﷲ ہمیں مزید دعا کی توفیق دے، یہ ایک انعامِ عظیم ہے اختر پر اور یہ بھی ہمارے بزرگوں کا فیض ہے کہ دعا جب مانگتا ہوں تو ایسا لگتا ہے کہ ابھی پوری ہوا چاہتی ہے الحمد ﷲ اور جس کو دعا میں مزا آجائے تو اس کو سمجھ لیں کہ اسے اﷲ کی طرف سے ایک بہت بڑا انعام حاصل ہوگیا ہے۔

ڈاکٹر عبد الحی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے تھے کہ جب بندہ دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتا ہے تو ساری کائنات اس کے دونوں ہاتھوں کے نیچے ہوجاتی ہے کیونکہ اﷲ کے نیچے دونوں جہاں ہے دنیا بھی اور آخرت بھی تو اﷲ کے سامنے جو ہاتھ اُٹھ گیا تو سارا جہاں اس کے ہاتھ کے نیچے ہوجاتا ہے۔ آہ! اس بندے کی قسمت کو دیکھو جو اﷲ سے بھیک مانگ رہا ہے کہ اس کے ہاتھ دونوں جہاں سے اوپر ہیں۔

اب دعا کرلو کہ یا اللہ! ہم سب کے ذکر کو قبول فرما، اپنے نامِ پاک کی عظمتوں کے صدقے میں ہم کو محروم نہ فرما، یا اللہ! اس حدیث کی بشارت کے صدقے میں کہ اللہ تعالیٰ اس بات سے شرم فرماتے ہیں کہ اپنے بندوں کے ہاتھ کو خالی واپس کردے یا اﷲ! ہم سب کو تقویٰ کی اور اپنی رضا کی دولت نصیب فرما، دین پر استقامت عطا فرما اور دنیا بھی خوب دیجئے، اے مالکِ دوجہاں ہمیں دونوں جہاں عطا فرما، یااﷲ! ہم سب کو معافی نصیب فرما، یاربَّ العالمین ہم سب کے گناہوں کو معاف فرما اَللّٰھُمَّ اِنَّ رَحْمَتَکَ اَوْسَعُ مِنِّیْ یا اﷲ! اپنی رحمت سے معاف فرمادے، جملہ گناہوںکو معاف فرمادے، اے اﷲ! گناہ کے نقصاناتِ لازمہ متعدیہ کی اپنی شانِ کرم کے شایان شانِ تلافی فرماتے ہوئے اپنی ستاریت اور غفاریت سے پردہ پوشی فرما دے، میدانِ محشر میں بے حساب مغفرت فرما دے، جنت میں ہم سب کو ابرار اور نیک بندوں کے ساتھ داخل فرما اور اے اﷲ ہمارے جو نیک ارادے ہیں اپنی رحمت سے ان میں ہمیں کامیابی نصیب فرما۔ یااﷲ! ہماری تمام تعمیرات کی تکمیل فرما یا، گلشنِ اقبال کی ساری تعمیرات کی تکمیل فرما، یااﷲ! مشرق، مغرب، شمال، جنوب کی جن روحوں کو اختر سے مناسبت ہے ان سب کو جمع فرما اور ان کو میری تربیت کا بہانہ بنا کر یااﷲ اختر کو اور ان سب کو اولیاء صدیقین کی آخری سرحد تک پہنچا دے، یارب العالمین !ڈھاکہ کی خانقاہ کو بھی قبول فرما، ری یونین کی خانقاہ کو بھی قبول فرما، یااﷲ مشرق و مغرب، شمال و جنوب کی جن روحوں کو مجھ سے مناسبت ہے ان سب کو جمع فرما ، اے اﷲ! ہم سے ان کی خدمت کے بہانے اتنے بڑے بڑے کام لے لیجئے کہ قیامت تک ان کے نشانات باقی رہیں اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ لِسَانَ صِدْقٍ فِی الْاٰخِرِیْنَ یا اﷲ! ہم سب سے راضی ہوجائیے، یااﷲ! اپنی ناراضگی اور غضب سے ہم سب کوبچائیے، یااﷲ! دین کی صورت میں بھی دنیا سے بچائیے، یااﷲ! عجب، کبر اور تمام ناراضگی والے اعمال سے بچائیے، یااﷲ! اختر کو اور میرے سب احباب کو اپنی ناراضگی سے بچائیے، یااﷲ! اختر کو اپنی رضا پر استقامت عطا فرمائیے، یااﷲ! اختر کو ہر قسم کی دنیاوی پریشانی سے محفوظ فرما، یااﷲ! جتنے سوئے قضاء ہیں ذلت و خواری، معصیت، عذابِ قبر، محشر غرض جتنے سوء قضاء ہیں سب کو حسنِ قضا سے تبدیل فرمادے، یا اﷲ! اختر، میری اولاد اور گھر والوں، میرے احباب اور ان کے گھر والوں سب کے لیے سوء قضا کو حسنِ قضا سے تبدیل فرمادیجئے، یا اﷲ! ان مناظرِ قدرت کو ہم سب کے ایمان و یقین کی تقویت کا سبب بنادیجئے، یااﷲ! اس سمندر کو دیکھ کر ہمیں اپنی ذاتِ پاک کی عظمتیں نصیب فرما، یا اﷲ! سورج چاند، زمین و آسمان، پہاڑ و سمندر کو ہمارے ایمان ویقین کی ترقی کا ذریعہ بنا دے، یااﷲ! اپنی رحمت سے ہم سب سے راضی اور خوشی ہوجائیے، یا ربَّ العالمین! ہم سب کے گناہوں کو معاف فرمادے۔ یااﷲ! زندگی بھر کی تمام دعاؤں کو قبول فرما، یااﷲ! آئندہ سال حجِ مبرور مقدر فرما، یااﷲ! ہر غم کی موت محفوظ فرما، یااﷲ! ہر وقت خوشی دِکھا اور ہر غم سے بچا، میرے پوتوں اور نواسوں کو حافظِ قرآن اور عالم و صاحبِ نسبت بنادے، میرے دوستوں کی اولاد کو بھی عالم وحافظ اور صاحبِ نسبت بنادے، مانگے بے مانگے سب کو عطا فرمادے، آمین۔

رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ وَتُبْ عَلَیْنَا اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ وَصَلَّی اﷲُ تَعَالٰی عَلٰی خَیْرِخَلْقِہٖ مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ اَجْمَعِیْنَ بِرَحْمَتِکَ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ

مزاح: ہم لوگ سمندر سے واپس ہوئے تو احقر نے عرض کیا کہ بہت دیر ہوچکی ہے اب اگر ناشتہ کریں گے تو پھر بھوک نہیں لگے گی تھوڑا ساتو ناشتہ کرہی لیا تھا تو حضرت والا نے مزاحاً فرمایا کہ میر صاحب مدبر معلوم ہوتے ہیں مگر یہ مدبر کہیں دُبُر سے تو نہیں ہے۔۔۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries