مجلس۱۲۔ جون۲۰۱۴ء نیک ماحول عظیم نعمت ہے !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں(کلک کریں)

خلاصۂ مجلس:محبی و محبوبی مرشدی و مولائی حضرت والا میر صاحب دامت برکاتہم کی آمد میں تاخیر تھی، جناب ثروت صاحب دامت برکاتہم نے پہلے حضرت والا رحمۃ اللہ کے اشعار سنائے، پھر مولانا منصور صاحب اور پھر آخر میں جناب تائب صاحب دامت برکاتہم کے اشعار سنائے۔ پھر جناب ممتاز صاحب نے کچھ باتیں حضرت والا کی محبت میں ارشاد فرمائی، اتنے میں اطلاع آئی کہ حضرت والا دامت برکاتہم مجلس میں رونق افروز ہوئے۔ اور جناب ممتاز صاحب کو معارفِ ربانی سے ملفوظات پڑھنے کو فرمایا، آج  صفحہ ۴۳۳ سے ۴۴۶ تک ملفوظات پڑھ کر سنائے گئے ،درمیان درمیان میں حضرت ارشادات بھی فرماتے رہے،آج کی مجلس تقریباً  سوا گھنٹے تک جاری رہی۔۔

ملفوظات

مناسبت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو شرعی حقوق تو ادا کرتا رہے۔

خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے دو لطائف ذکر فرمائے۔

ہمارے بزرگ زندہ دل تھے ، خوش رہتے تھے، خشک نہیں تھے۔

 ملفوظات معارفِ ربانی

 ایک غلط مقولہ کی اصلاح : (۱)ارشاد فرمایا کہ حضراتِ صوفیاء کے یہاں یہ بات مشہور ہے کہـ ولی را ولی می شناسد کہ ولی کو ولی ہی پہچانتا ہے لیکن حضرت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ قول صحیح نہیں ہے کیونکہ بعض اولیاء بعض دوسرے اولیاء کے مقام سے واقف نہ تھے یا تو وہ کم نسبت والے تھے اور دوسرے ان سے بلند نسبت والے تھے یا پھر ان کے اختلافِ ذوق کی وجہ سے ایک دوسرے کے مقام سے واقف نہ ہوسکے تھے مثلاً ایک میں عشق ومستیاں اور شورش اور چشتیت غالب تھی اور دوسرا سنجیدہ، خاموش طبع اور سسکیاں بھرنے والا تھا کہ آواز بھی نہ نکلے تو وہ ایک دوسرے کامقام نہیں پہچان سکے یہاں تک کہ زیادہ ملنا بھی نہیں رکھا جیسے یوپی میں حضرت حکیم الامت رحمۃ اﷲ علیہ کے دو خلیفہ تھے، دونوں ایک دوسرے سے بات چیت بھی نہیں کرتے تھے، حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ سے کسی نے کہاکہ یہ دونوں آپ کے خلیفہ ہیں آپ ان دونوں کو ملا کیوں نہیں دیتے کیونکہ اس سے بدگمانی ہوتی ہے کہ کیسے شیخ ہیں کہ ان کے دو خلیفہ کا آپس میں ملنا جلنا نہیں ہے تو حضرت نے فرمایاکہ ان کا اختلاف ان کے اتفاق سے افضل ہے کیونکہ ان کے مزاجوں میں مناسبت نہیں ہے، اکٹھے رہیں گے تو لڑائی شروع ہوجائے گی، جب دل سے دل نہیں ملتا تو آدمی کہاں تک نباہ کرے گا، جب محبت نہ ہو اور دل سے دل نہ ملے تو اس کے ساتھ نباہ کرنا سخت مجاہدہ ہے   ؎

بڑی مشکل سے ان کی بیوفائی مجھ کو راس آئی
کبھی اوپر کبھی نیچے اگرچہ میری سانس آئی

جس کے ساتھ مناسبت نہ ہو اور پھر اس کے ساتھ گذارا کرنا پڑے تو شدید مجاہدہ ہوتا ہے، گو اس مجاہدہ پر اجرِ عظیم ہے لیکن اس سے اﷲ کی پناہ مانگنی چاہیے تو حضرت فرماتے ہیں کہ یہ جملہ کہ ولی کو ولی پہچانتا ہے صحیح نہیں ہے بلکہ مشہور ہوگیا ہے، حقیقت یہ ہے کہ ولی را نبی می شناسد کہ ولی کو نبی پہچانتا ہے کیونکہ نبی جامع ہوتا ہے تمام اولیاء اﷲ کو، نبوت کا مقام بہت اونچا ہوتا ہے جیسے کوئی آدمی اوپر سے دور بین کے ذریعہ سب کو دیکھ رہاہے لیکن نیچے والے اسے نہیں دیکھ پارہے چنانچہ نبی سب کو پہچانتا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کس مقام پر ہیں اور حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کس مقام پر ہیں۔

شیخ کا مقام: لہٰذا اصلاح کے لیے مرید کی خود رائی کو مٹانا بھی شیخ کے ذمہ ہے۔ ایک مرتبہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ اے عمر! تم رات کو تہجد میں زور زور سے قرآن شریف کیوں پڑھ رہے تھے؟ انہوں نے کہاکہ میں شیطان کو بھگانے کے لیے بلند آواز سے پڑھ رہا تھا پھر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے دریافت فرمایا کہ اے ابوبکر! تم رات کو تہجد میں بہت آہستہ آواز سے قرآن شریف کیوں پڑھ رہے تھے؟ انہوں نے عرض کیا کہ میں اﷲ تعالیٰ کو سنارہا تھا اور چاہے جس آواز سے بھی ہو اﷲ سنتا ہے۔ پھر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے دونوں کو اپنی اپنی رائے سے نزول فرمادیا تاکہ نبوت کی رائے صحابہ کی رائے پر غالب آجائے۔ آپ نے صدیق اکبر سے فرمایا کہ تم اپنی آواز کو تھوڑی بلند کرلو اور حضرت عمر فاروق سے فرمایا کہ تم اپنی آواز کو تھوڑا ساکم کرلو۔ حضرت امام مجدد الف ثانی رحمۃ اﷲ علیہ نے اپنے مکتوبات میں لکھا ہے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان دونوں کو اپنی اپنی رائے سے ہٹا کر خود رائی کے مقام سے نکالا اور ان کو مقامِ فنا تک پہنچادیا لہٰذا شیخ کبھی جائز کام کو بھی چھڑا دیتا ہے تاکہ مرید میں شیخ کی اتباع اور اطاعت کی شان پیدا ہو۔

میرے شیخ شاہ عبد الغنی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے تھے کہ اﷲ نے شیخ کو عجیب مقام دیا ہے۔ اگر وہ ذکر اور تلاوت ملتوی کراکے کسی مرید سے یہ کہہ دے کہ تمہارا کام خانقاہ میں صرف جھاڑو لگانا اور لیٹرین صاف کرنا اور مہمان جو اﷲ کے لیے خانقاہ میں ہیں ان کی خدمت کرنا ہے تو وہ اسی راہ سے اﷲ تک پہنچ جائے گا، شیخ نے جو طریق اس کے لیے مقرر کیا ہے اسی سے وہ اﷲ تک پہنچ جائے گا۔
ملا علی قاری رحمۃ اﷲ علیہ نے لکھا ہے کہ ایک محدث اور مفتی ایک اﷲ والے سے بیعت ہوئے تو شیخ نے کہاکہ اب نہ فتویٰ دینا، نہ بیان کرنا اور نہ حدیث پڑھانا تو ا س وقت کے بعض مفتیوں نے فتویٰ دے دیا کہ یہ پیر کافر ہے حالانکہ وہ پیر بہت بڑے شیخ تھے اور چونکہ ان کے مقام سے یہ مفتی صاحب جو مرید ہوئے تھے واقف تھے لہٰذا انہوں نے شیخ کی بات پر عمل کیا اور سال بھر تک نہ بیان کیا، نہ حدیث کا درس دیا اور نہ فتویٰ دیا بس ذکر و فکر کرتے رہے، شیخ نے جو معمول بتایا تھا وہ کرتے رہے۔ ایک سال کے بعد جب شیخ نے دیکھا کہ اصلاح ہوگئی اور دل نسبت مع اﷲ کے نور سے بھر گیا تو فرمایا کہ اب منبر پر جاؤ اور بیان کرو، سال بھر کے بعد جب بیان کیا تو ایک ایک لفظ سے لو گ صاحبِ نسبت ہورہے تھے، ان الفاظ کا اثر بڑھ گیا تھا کیونکہ نفس مٹ گیا تھا، ایک سال تک نفس کو مٹانا پڑا حبِّ جاہ سے اور حبِّ باہ سے یہاں تک کہ حبِّ آہ میں مشغول ہوگئے ۔

شیخ سے تعلق و محبت کے بعض احوال: (۳) ارشاد فرمایا کہعشق ایسا ظالم ہے کہ لغت نہ بھی جانتا ہو تو آنکھوں سے سمجھ جاتا ہے   ؎

بے سوالی بھی نہ خالی جائے گی
دل کی بات آنکھوں سے پالی جائے گی

یعنی اگر محبت سے شیخ کو دیکھ لے اور سوال بھی نہ کرے تو بغیر واسطۂ زبان شیخ کے دل میں اس کی محبت کا اثر منتقل ہوجائے گا۔ تو محبت اور عشق عجیب چیز ہے اگر یہ نہ ہو تو شیخ کے لیے بھی مشکل ہوجاتی ہے، اگر اﷲ تعالیٰ نے شیخ کی محبت دے دی تو سلوک کے تمام منازل کو طے کرنے کے لیے بس یہی چیز اس کے لیے کافی ہے، جب میں نے اپنے شیخ کو پہلا خط لکھا تو یہ شعر لکھا   ؎

دل وجاں اے شاہ قربانت کنم
دل ہدف را تیرِ مژگانت کنم

یعنی میں اپنی سترہ سال کی جوانی اور اپنی ساری رومانٹک دنیا اپنے شیخ پر فدا کررہا ہوں اور اپنے دل کو آپ کی آنکھوں کے تیر کاہدف بنانا چاہتا ہوں یعنی آپ اپنی نگاہِ کرم مجھ پر ڈالیے تو حضرت نے اس کا جو جواب لکھا اس میں فرمایا کہ تمہارا مزاج محبت کا معلوم ہوتا ہے ان شاء اﷲ بہت جلد راستہ طے کرلوگے اور فرمایا کہ شیخ کی محبت تمام مقامات کی کنجی ہے، یہ شاہ عبد الغنی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کا جواب ہے جو حضرت حکیم الامت رحمۃ اﷲ علیہ کے خلفاء میں ایک ممتاز مقام رکھتے تھے اور بڑے بڑے خلفاء آپ کے شاگرد تھے، حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اﷲ علیہ جیسے علماء حضرت کے سامنے آکر مرید کی طرح بیٹھتے تھے، مولانا ظفر احمد عثمانی رحمۃ اﷲ علیہ اور ڈاکٹر عبد الحی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ اور مولانا ابرارالحق صاحب جیسے اکابر نے حضرت کو شیخ بنایا ہوا تھا۔ اس سے زیادہ ان کے حالات کے بارے میں کیا کہوں، میں نے ان جیسا اﷲ کا عاشق نہیں پایا، باعمل، باعلم، صاحب ِتقویٰ، صاحبِ معمولات اور صاحبِ طاقت تھے، ان کی صحت اتنی اچھی تھی کہ مسلسل آٹھ گھنٹے عبادت کرتے تھے، میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، کوئی ذرا کرکے تو دِکھائے، تین بجے رات کو اُٹھے، دس پارے تلاوت کیے، قصیدہ بردہ شریف پورا پڑھا، مناجاتِ مقبول کی ساتوں منزلیں پوری پڑھیں، بارہ تسبیح پوری کی، اشراق اور چاشت پڑھی اورجب گیارہ بج گئے تو مجھ سے فرمایا کہ عبد الغنی تین بجے کا اُٹھا ہوا ہے اب گیارہ بج رہے ہیں تو کتنے گھنٹے ہوئے؟ میںنے کہا کہ آٹھ گھنٹہ ہوئے۔ فرمایا کہ دیکھو بھئی میں اَسّی برس کا ہوں لیکن میں نے ابھی تک کمر سیدھی نہیں کی، اﷲ نے اپنے سامنے مجھ کو کیسے بِٹھا ئے رکھا ہے، اور حضرت تلاوت بھی کیسے کرتے تھے کہ درمیان درمیان میں زور سے کبھی آہ کی آواز لگاتے تھے اور کبھی زور سے اﷲ کہتے تھے کہ پوری مسجد ہل جاتی تھی جیسے کوئی شدید بھوکا شامی کباب اور بریانی کھا رہا ہو یا جیسے کوئی شدید پیاس میں شربتِ روح افزا پی رہا ہو۔ اس طرح حضرت تلاوت کرتے تھے، یہ نہیں کہ باربار گھڑی دیکھ رہے ہیں کہ کیا کریں دل تو نہیں لگ رہا ہے مگر پیر کا حکم ہے اس لیے معمول پورا کرنا ہے، یہ مجبوری والا پورا کرنا اور ہے اور وہ عاشقانہ پورا کرنااور ہے دونوں میں بہت فرق ہے۔ آپ بتائیے ایک آدمی کو بھوک نہیںلگ رہی اور وہ زبردستی ٹھونس رہا ہے اور ایک کئی روز کا بھوکا ہے تو ان دونوں کے کھانے میں فرق ہے یا نہیں؟ تو اﷲ کی بھوک اور پیاس عاشقوں میںہوتی ہے۔ میں نے بڑا مزہ لوٹا ہے اپنے شیخ کے ذکر سے اور تہجد کے وقت ان کی آہ و بکا سے مگر میں ایسی جگہ بیٹھتا تھا کہ میری آواز شیخ کو نہ پہنچے، اس طرح بیٹھنا کہ اپنی آہ و بکا شیخ کو سنائی دے تو ا س سے ان کی خلوت میں خلل پڑتا ہے۔ اس لیے مرید پر فرض ہے کہ وہ ایسی جگہ بیٹھے کہ شیخ کو خبر نہ ہو جبکہ وہ اپنی خلوتِ خاص میں ہو چنانچہ میں ایسی جگہ بیٹھتا تھا کہ حضرت مجھے نہیں دیکھ سکتے تھے لیکن میں خود دیکھتا تھا کہ شیخ کیا کررہے ہیں تو تہجد میں دو دو رکعت جگہ چھوڑ چھوڑ کر پڑھتے تھے اور وہ اس طرح کہ دورکعت پڑھی سلام پھیرا اور خوب روئے پھر اس کے بعد دوسری جگہ ہٹ کر وہاں دورکعت پڑھی اور سلام پھیرنے کے بعد حضرت خوب روتے تھے   ؎

آنسو گرارہا ہوں جگہ چھوڑ چھوڑ کے

میں نے مبسوط سرخسی میں دیکھا ہے کہ نفلیں جگہ چھوڑ چھوڑ کر پڑھولِتَعَدُّدِ الشَّوَاہِدِ عَلَی الْخَیْرِ تاکہ نیکیوں کے گواہ زیادہ ہوں، دورکعت یہاں پڑھی اور دو رکعت وہاں، ایک آنسو یہاں گرایا اور ایک آنسو وہاں گرایا تو زمین ہماری اشکباریوں کی اور ہماری عبادت کی کتنی گواہی دے گی۔ تو میں عرض کررہا تھا کہ عبادت کا مزہ جب ہے جب اﷲ تعالیٰ کی محبت کی خوب پیاس اور بھوک لگ جائے اور روح اﷲ کے عشق کی شدت سے بھوکی اور پیاسی ہوجائے پھر جب اس حالت میں اﷲ کہو گے تب مزہ آئے گا۔ بتاؤ! اگر کسی کو شدید پیاس لگی ہوتو جب پانی پیے گا تو اس کو نیند آئے گی؟ یہ جولوگ کہتے ہیں کہ صاحب کیا کریں جب بھی ذکر کرتے ہیں نیند آنے لگتی ہے، میں کہتا ہوں کہ شدید پیاس میں پانی پیتے ہوئے سو کر دکھاؤ۔ جون کا لمبے دن والا روزہ ہے، شدید بھوک لگی ہے، افطاری کے وقت دستر خوان پر بریانی، کباب، کوفتے، دہی بڑے اور مختلف چیزیں رکھی ہیں، خوب ٹھنڈا لیموں ڈالا ہوا شربت اور اس میں برف کے ٹکڑے پڑے ہوئے ہیں تو اس وقت کسی کو نیند آئے گی؟ افطاری کے وقت آج تک آپ نے کسی سوتے دیکھا ہے؟ اُس وقت کان اذان کی طرف لگے ہوتے ہیں کہ کب مؤذن اﷲ اکبر کہے اور کب میں دہی بڑے ہڑپ کروں مگر مؤمن کی دعا اس وقت کیوں قبول ہوتی ہے؟ حدیث میں ہے کہ افطار سے پہلے دعا قبول ہوتی ہے لیکن کیوں قبول ہوتی ہے اس کا راز عاشقوں سے پوچھئے اور عاشقوں کے غلام اختر سے پوچھئے کیونکہ بندہ اس وقت دیکھتا ہے کہ اگرچہ دہی بڑا سامنے ہے مگر اﷲ کی بڑائی اس سے بھی زیادہ اس کے سامنے ہے لہٰذا جب تک اذان نہیں ہوجاتی اس وقت تک دہی بڑے کو ہاتھ نہیں لگاتا تو اﷲ کو رحم آتا ہے کہ کھانا سامنے موجود ہے مگر میرا بندہ میری عظمت اور کبریائی کے پیشِ نظر بھوکا پیاسا بیٹھا دیکھ رہا ہے، ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم تو ا س پر رحم آجاتا ہے، اس لیے دعا قبول ہوتی ہے، یہ راز ہے دعا کی قبولیت کا، قرآن و حدیث کے بھی راز ہوتے ہیں جو اﷲ تعالیٰ اپنے خاص بندوں پر اور خاص بندوں کے غلاموں پر منکشف کرتے ہیں۔

بعض اختلاف بعض اتفاق سے افضل ہوتا ہے: تو میں وہ قصہ بتارہا تھا کہ حکیم الامت کے دو خلفاء ایک ہی شہر میں رہنے والے لیکن ایک دوسرے سے بات نہیں کرتے تھے مگر ان کا پیر کامل تھا، کبھی ان دونوں کو حکم نہیں دیا کہ تم دونوں گلے ملو اور روزانہ ملاقات کرو بڑی بدنامی پھیل رہی ہے، یہ حضرت حکیم الامت کے تفقہ کا کمال ہے، یہ بہت بڑا کمال ہے معمولی بات نہیں ہے۔ جب لوگوں نے حضرت سے کہا کہ آپ کے دونوں خلیفہ آپس میں بات نہیں کرتے، اس طریق سے سلوک بدنام ہوتا ہے کہ یہ کیسا تصوف ہے کہ دونوں ایک ہی پیر کے خلیفہ ہیں اور آپس میں بات نہیں کرتے، اس وقت حضرت کا یہ جملہ کہ ان دونوں کا اختلاف ان کے اتفاق سے افضل ہے کیونکہ ان کے مزاج میں مناسبت نہیں تھی اور جب مناسبت نہیں ہوتی تو ایک دوسرے سے کلفت محسوس ہوتی ہے، جب اُلفت نہیں ہوتی ہے تو کلفت ہوتی ہے اور جب اِذَا جَآئَ تِ الْاُلْفَۃُ رُفِعَتِ الْکُلْفَۃُ جب اُلفت ہوجائے گی تو کلفت نہیں محسوس ہوگی۔ اس لیے اگر بزرگوں میں بعضوں میں آپس میں مناسبت نہ ہو تو اس کا سبب مزاج کا اختلاف بھی ہوتا ہے، مطلب یہ کہ ایک چشتی ہے اور ایک نقشبندی، ایک ٹھنڈے مزاج کا ہے اور ایک گرم مزاج کا، گرم مزاج والا ہر وقت روئے گا، آہ و فغاں کرے گا، شور و غل کرے گا اور ٹھنڈے مزاج والا خاموشی سے اﷲاﷲ کرے گا تو دونوں کے مزاج میں مناسبت نہ ہونے کی وجہ سے ٹھنڈے مزاج والا دوسرے کی آہ وفغاں سے گھبرائے گا اور اُٹھ کے کہیں اورچلاجائے گا کیونکہ مزاج میں ہم آہنگی نہیں ہے لیکن اس میں کسی کی تنقیص نہیں ہے، ہم کب بلاتے ہیں کہ نقشبندی ہمارے پاس آجائیں لیکن نقشبندی کسی گروہ یا پارٹی کا نام نہیں ہے مزاج کانام ہے، مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اﷲ علیہ نقشبندی تھے لیکن مزاج میں چشتیت اتنی غضب کی تھی کہ بڑے بڑے عاشق ان کے غلام تھے، سارا ندوہ ان کے قدموںمیں آگیا تھا، ان سے بڑھ کر کس کا عشق ہوگا، مولانا کا شعر ہے   ؎

دلِ مضطرب کا یہ پیغام ہے
ترے بن سکوں ہے نہ آرام ہے

بتاؤ ایسا شخص مزاجاً نقشبندی ہوسکتا ہے، مولانا مزاجاً چشتی تھے، سلسلہ نقشبندی تھا تو اس لیے میں کہتا ہوں کہ کسی کو حقیر مت سمجھو نہ نقشبندی نہ چشتی جس کا اﷲ جیسا مزاج بنائے البتہ دونوں کے مشروب الگ ہیں، ہم مشرب ہونا چاہیے، جب ہمارا مشروب الگ ہے تو ہم ان کے ساتھ کیسے رہ سکتے ہیں؟ کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے ان دونوں کے مشروب بیان کیے ہیں، نقشبندیوں یعنی ٹھنڈے مزاج والوں کے لیے فرمایا شَرَاباً کَافُوْرًا کیونکہ دنیا میں یہ لوگ ٹھنڈے تھے، شور و غل نہیں مچایا اور آہ وفغاں نہیں کی، نالۂ دردناک نہیں کیا لہٰذا اس ٹھنڈے مزاج کا بدلہ یہ ہے کہ شراب بھی ٹھنڈی پلائی جائے گی، جنت میں شَرَاباً کَافُوْرًا ہے کہ نہیں؟ یہ جو تقریر کر رہا ہوں یہ مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃا ﷲ علیہ کی تحقیق ہے کہ ان نقشبندیوں اور ٹھنڈے مزاج والوں کو شَرَاباً کَافُوْرًا ملے گی اور چشتیوں کو جو گرماگرم رہتے ہیں ہروقت آہ وفغاں اور اشکبار آنکھیں اور سینہ میں تڑپتا ہوا دل رکھتے ہیں ان کو کون سی ملے گی؟  شَرَاباً زَنْجَبِیْلاً  زنجبیل کہتے ہیں ادرک کو اور یہ بڑی گرم ہوتی ہے، ادرک کا سوڈا پی کر دیکھو کتنا جوش آتا ہے اور کافور کا سوڈا پیو تو ٹھنڈے ہوجاؤ گے۔

لیکن بعض نقشبندی بعض وقت چشتیوں سے بھی آگے ہوتے ہیں۔ بتلائیے کہ مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کو آپ نے کیسا پایا، سراپا عشق و محبت پایا یا نہیں، بس کیا کہوں کہ ہم ان پر دیوانے تھے لیکن وہ بھی ہمارے دیوانے تھے جب بھی کوئی ان کے پاس جاتا تھا حضرت مجھے ضرور پوچھتے تھے، ایک خط میں مجھے لکھا تھا کہ تم سے زیادہ میرا دنیا میں کوئی محبت کرنے والا نہیں ہے، میرصاحب اس کے گواہ ہیں اور جب میں خدمت میں حاضر ہوتا تھا تو وہ شگفتہ ہوجاتے تھے، جب حضرت میرا وعظ کراتے تھے تو یہی فرماتے تھے کہ یہی روح المعانی اور بھی مولوی بیان کرتے ہیں لیکن مجھ کو مزہ نہیں آتا مگر جب تم بیان کرتے ہو تو اس کا لطف کچھ اور ہی ہوتا ہے، میںنے کہا حضرت ہم آپ کے شاگرد ہیں، آپ جیسے اﷲ والوں کی جوتیاں اٹھا کر وہی چیز دردِ محبت سے بیان کرتے ہیں اس لیے اﷲ تعالیٰ اس میںلذت ڈال دیتے ہیں اور دوسرے خالی علمی باتیں کرتے ہیں یعنی ان کے نقوش اور حروف میں اتنا رس نہیںہوتا کیونکہ انہوں نے محبت کی رس ملائی نہیں کھائی، رس ملائی والوں سے دوستی نہیں کی اور رس والوں کی جوتیاں نہیں اٹھائیں۔

اس لیے کہتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ اگر کسی مولوی کو اپنا درد بھرا دل دے دے تو پھر یہ مولوی مولاوی یعنیٰ مولیٰ والا ہوجاتا ہے اور چمک جاتا ہے اﷲ اس سے دین کا عظیم الشان کام لیتا ہے۔ آپ تاریخ اٹھا کر دیکھئے اُنہیں علماء سے اﷲتعالیٰ نے زیادہ کام لیا ہے جنہوں نے اﷲ والوں کے ساتھ ایک زمانہ گذارا ہے پھر اﷲ تعالیٰ نے ان کو مقبولیت اور محبوبیت عطا فرمائی۔ یہ بات مشکوٰۃ شریف کی حدیث سے ثابت کرتا ہوں کہ جو کسی اﷲ والے کا اکرام کرے گا، اپنے نفس کو مٹائے گا اﷲ تعالیٰ اس کو اکرامِ دنیا نصیب فرمائیں گے۔ آپ بتلائیے کہ شیخ کی عزت اﷲ کے لیے ہوتی ہے یا دنیا کے لیے ہوتی ہے؟ یہ عزت اﷲ کے لیے ہوتی ہے تو اس کا صلہ یہ ہوگا کہ اﷲ تعالیٰ اس کا اکرام فرمائیں گے اور جس کا اکرام اﷲ کرے گا ساری دنیا اس کا اکرام کرنے پر مجبور ہوگی اﷲ تعالیٰ جس کااکرام فرماتے ہیں اُس کو جَزَآئً وِّفَاقاً دیتے ہیں۔

حضرت والا کے لئے حضرت پھولپوریؒ نے بہت دیر تک طویل دُعا فرمائی۔ تقریباً آدھا گھنٹہ دُعا فرمائی، حضرت والا فرماتے تھےاکہ

جو آپ سے اللہ آپ سے عظیم الشان کام پوری عالم میں لےرہا ہے یہ آپ کی شیخ کی خدمت کا فیض ہے۔

اپنا ذاتی واقعہ بیان فرمایا۔ فرمایا دیکھو ان وساوس سے کبھی گھبرانا نہیں، بس اِن کو دبا دو۔۔۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries