مجلس۱۳۔ جون۲۰۱۴ء ۔ محبت کی کرامت !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں(کلک کریں)

خلاصۂ مجلس:محبی و محبوبی مرشدی و مولائی حضرت والا میر صاحب دامت برکاتہم مجلس میں رونق افروز تھے، شروع میں حضرت والا رحمۃ اللہ کا مختصر بیان سنایا گیا جو شعبان کے پندرھویں شپ میں ہونے والی بدعات کےرد میں تھا۔ اس مختصر بیان کو ۲ بار حضرت نے تمام حاضرینِ مجلس کو سنوایا اور پھر اس ذیل میں چند ملفوظات ارشاد فرمائے۔ اس کے بعد ملفوظات معارفِ ربانی حضرت نے خود پڑھ کر سنائے۔ آج  صفحہ ۴۴۶ سے ۴۵۴ تک ملفوظات پڑھ کر سنائے گئے ،درمیان درمیان میں حضرت ارشادات بھی فرماتے رہے،آج کی مجلس تقریباً  ۵۴ منٹ تک جاری رہی۔۔

ملفوظات

۱۵ شعبان کے حوالے سے ہونے والی بدعات کا رد فرمایا اور اس سلسلے میں حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کا ۱۵ شعبان کے حوالے سےمختصر بیان بھی تمام حاضرینِ مجلس کو بار بار سنایا۔

 ملفوظات معارفِ ربانی

اکرامِ شیخ کا استدلال نصِ قطعی سے : حکیم الامت فرماتے ہیں کہ جب کوئی اﷲ کے لیے شیخ کی عزت کرتا ہے تو یہ تُوَقِّرُوْہٗ پر عمل ہے، اﷲ تعالیٰ فرمارہے ہیں کہ اے صحابۂ رسول تم لوگ میرے نبی کی عزت و توقیر کرو۔ حکیم الامت بیان القرآن کے حاشیہ میں لکھتے ہیں کہ یہی آیت دلیل ہے شیخ کی عزت اور توقیر کی، اگر کوئی شخص شیخ کی توقیر نہیں کرتا خالی محبت کرتا ہے تو اُس کا اِس آیت پر عمل نہیں ہے اور وہ کامل نہیں ہوسکتا۔ اس لیے حکیم الامت کا مشورہ ہے کہ ہمیشہ شیخ کی محبت کو عظمت کے ساتھ جمع کرو، خالی محبت سے کام نہیںچلے گا ورنہ خالی تُحِبُّوْہٗ نازل ہوتا کہ اے لوگو! میرے نبی سے محبت کرو لیکن  تُوَقِّرُوْہٗ نازل فرمایا کہ میرے نبی کی عزت کرو یعنی محبت پر عظمت غالب رہے۔ اس لیے محبت اور عظمت شیخ کے حقوق میں سے ہے، شیخ کی محبت کو عظمت کے ساتھ جمع کرو کیونکہ یہ اﷲ کی راہ کا رہبر ہے، جب منزل قیمتی ہے تو رہبر بھی قیمتی ہے اور راستہ بھی قیمتی ہے اﷲ قیمتی ہے یا نہیں؟ تو کیا ان کی منزل قیمتی نہیں ہوگی؟ اور اس منزل تک لے جانے والا راہبر قیمتی نہیں ہوگا؟ اس راستہ کا ایک ایک کانٹا بھی قیمتی ہوگا اور ایک ایک پھول بھی قیمتی ہوگا، عناصر پر عشق اتنا غالب ہونا چاہیے کہ عناصر کے تقاضے باقی نہ رہیں یعنی سستی، نیند وغیرہ کا غلبہ باقی نہ رہے، یہ سب شیطانی اثرات ہیں، عشق میں اتنا جلا بھُنا رہنا چاہیے کہ شیخ کے سامنے اﷲ کی محبت کے مضامین کے لیے شگفتہ، شاداں و فرحاں اور خنداں رہے اور ر گ رگ میں بجلیاں دوڑرہی ہوں، اب میں اپنے شیخ کا کروڑ کروڑ شکریہ ادا کرتا ہوں کہ شیخ نے رات کے ایک ایک بجے تک جگایا، بارہ بجے جلسہ ختم ہوا، ایک بجے تک میں نے حضرت کے پیردبائے اور پھر تین بجے اُٹھ گئے اور اختر کی جوانی کی نیند تھی، مگر حضرت نے ہم کو ہر وقت مستعدپایا، تو میں اﷲ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتا ہوں  وَ لاَ فَخْرَ یَا رَبِّیْ لیکن اس سے کسی کی تنقیص مراد نہیں ہے جیسے میر صاحب کی سستی معذوریت کے درجہ میں ہے، میر صاحب میرے پاس سے پانچ سال کے لیے غائب ہوگئے تھے کیونکہ بیمار ہوگئے تھے، یہ جتنا کام کررہے ہیں اور میرا جتنا ساتھ دے رہے ہیں اس پر شکر ادا کرتا ہوں کہ یا اﷲ آپ نے انہیں دوبارہ عطا فرمادیا، میں تو ان سے بالکل محروم ہوگیا تھا، ان کے لیے میں ملتزم پر اور بیت اﷲمیں بہت رویا لیکن اس کے باوجود میرا دل یہ چاہتا ہے کہ طالب اور مرید کی رگ رگ میں عشقِ الٰہی کی آگ کی چنگاریاں، بجلی اور کرنٹ دوڑ رہا ہو تو اگر وہ عالم بھی نہیں ہے تو بھی ان شاء اﷲ تعالیٰ بہت بڑا صاحبِ نسبت ہوگا۔

نفس کو مارنے کا انعام اور اگر عالم ہوگا تو اتنا بڑا صاحبِ نسبت ہوگا جس سے ایک عالم زندہ ہوگا جس کو مولانا رومی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں   ؎

نفسِ خود را کش جہانے زندہ کن

کہ اپنے نفس کو ماردو یعنی بری خواہشات کو مغلوب کردو تو ایک جہان تم سے زندہ ہوگا، دیکھ لو آج مولانا رومی سے سارا عالم زندہ ہورہا ہے یا نہیں؟   ؎

خواجہ را کشتست او را بندہ کن

نفس نے تمہارے سردار یعنی تمہاری روح کو مارا ہوا ہے، تم سے گناہ کرا رہا ہے، نفس غلام ہے، روح مالک ہے، اگر روح نہ رہے تو نفس رہے گا؟ لیکن افسوس نفس وہ نالائق غلام ہے جس نے اپنے مالک کو قتل کررکھا ہے یعنی مغلوب کررکھا ہے۔ اس لیے مولانا رومی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ   ؎

نفسِ خود راکش جہانے زندہ کن 

پہلے نفس کو مارنے کا انعام سن لو، راز بعد میں بتاؤں گا، انعام یہ ہے کہ تم سے ایک جہان زندہ ہوجائے گا ورنہ دیکھ لو کہ کیسے کیسے علماء ومصنفین گذرگئے آج کوئی ان کا نام بھی نہیں جانتا لیکن حضرت حاجی امداد اﷲ صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کانام جانتے ہویا نہیں؟ کتنے بڑے عالم تھے، ان کی آہ وفغاں سے سارے عالم میں قیامت تک ان کا نام زندہ رہے گا۔ اب اس کا راز سن لو کہ یہ کیوں کہا کہ نفس کو مارو اس لیے کہ نفس تمہاری روح کاقاتل ہے، تمہاری روح سے گناہ کرارہا ہے، روح بالکل بے کس ہوچکی ہے، جہاں چاہتا ہے سینما وی سی آر اور بد نظری وغیرہ کراتا رہتا ہے لہٰذا اس ظالم سے قتل کا قصاص لو، اس کو غلام بناؤ۔

مولانا کہتے ہیں کہ اگر نفس کو مارلیا تو تم سے جہان کیسے زندہ ہوگا یعنی تمہارے ذریعہ بہت بڑے بڑے اولیاء اﷲ کیسے پیدا ہوں گے؟ اس کی دلیل بھی قرآن پاک سے بیان کررہے ہیں، مولانا رومی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ کیا تم نے وہ آیت نہیں تلاوت کی  وَفِی الْقِصَاصِ حیٰوۃٌ  یَّا اُولِی الْاَلْبَابِ ایک قاتل کو قتل کردو تو کتنے لوگ زندگی پاجائیں گے تو مولانا رومی رحمۃ اﷲ علیہ اس آیت سے استدلال کررہے ہیں کہ اگر تم نفس سے اپنی روح کا قصاص لے لو، اس کو مار دو، مغلوب کر لو تو تم کو تو حیات عطا ہوگی ہی لیکن تمہاری حیات سے کتنے حیات یافتہ ہوں گے یعنی تم ایسے اﷲ والے بنو گے کہ تمہاری ذات سے کروڑوں اﷲ والے بن جائیں گے اور اگر نفس کی غلامی کرتے رہے تو خود بھی ذلیل رہو گے اور تم سے کسی کو نفع بھی نہیں ہوگا، چاہے لاکھ علم ہو، کاتبِ ملفوظاتِ شیخ ہو، چاہے جامع ملفوظاتِ شیخ ہو اور چاہے قائلِ ملفوظاتِ شیخ ہو لیکن چونکہ نفس زندہ ہے، گناہ نہیں چھوڑ رہا ہے لہٰذا اس کا نفع نہ لازم رہے گا کہ خود بھی صاحبِ نسبتِ قویہ نہیں رہے گا اور نہ ہی نسبتِ متعدیہ ہوگی یعنی دوسروں کو اس سے فیض نہیں ہوگا۔ اس لیے شیخ پر بہت ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔

ایک دن تو ہر ایک کو مرنا ہے اور مرکے گناہ چھوڑنا ہے یا نہیں؟ بتاؤ موت کے بعد کوئی گناہ کرسکتا ہے؟ تو جب مجبوراً چھوڑوگے تو ابھی کیوں نہیں چھوڑتے ہو؟ اُس مجبوری کے چھوڑنے پر تو کوئی انعام بھی نہیں ہے، بااختیار ہوتے ہوئے ابھی گناہ چھوڑ دو تو ولی اﷲ ہوجاؤ۔

نفع کے لیے مناسبت شرط ہے:  لہٰذا اس پہاڑ پر تین کام بیان کرتاہوں کہ کسی اہل اﷲ سے تعلق جوڑو لیکن جس سے مناسبت ہو، اگر مناسبت نہ ہو تو تعلق جوڑنے کے بعد بھی بھاگ سکتا ہے کیونکہ حکیم الامت نے فرمایا کہ مریدی کا توڑنا مرید کے اختیار میں ہے پیر کے اختیار میں نہیں ہے کیونکہ مریداپنے ارادہ کا فاعل ہے اور ہر فاعل اپنے فعل کو ترک کرسکتا ہے۔ دیکھیے کیا نقطہ بیان کیا ہے کہ اگر مرید کو مناسبت نہیں ہے اور غلطی سے کہیں دیکھا دیکھی شہرت وجاہ اور حب جاہ سے لگ گیا مگر اس کو فائد ہ نہیں ہورہا کیونکہ اگر خون کا گروپ نہیں ملا تو خون چڑھانے سے بھی طاقت محسوس نہیں ہوگی اور تعلق مع اﷲ کی دولت میں اضافہ نہیں ہوگا لہٰذا خاموشی سے بیعت تو ڑ دو اور دوسرا شیخ تلا ش کرو، اس پہلے والے کو اطلاع بھی نہ کرو بلکہ کبھی کبھی خط بھیج کر اس کی دعائیں لیتا رہے تاکہ اس کی دل آزاری نہ ہو اس لیے کوئی یہ نہ سوچے کہ میں کہاں پھنس گیا۔ حکیم الامت نے یہ تحقیق بیان کردی کہ مریدی کاقائم رکھنا یا نہ رکھنا خود مرید کے اختیار میں ہے۔ شیخ اگر کہہ دے جاؤ تم خانقاہ سے نکل جاؤ، آج سے میںتمہارا پیر نہیں ہوں اورنہ تم میرے مرید ہو تو حکیم الامت فرماتے ہیں کہ اس سے اس کی مریدی نہیں ختم ہوگی، اگر اس نے پکارارادہ کیا ہوا ہے کہ ہمیں ان کو نہیں چھوڑنا ہے، انہیں کا بن کر رہنا ہے چنانچہ جب حکیم الامت نے خواجہ صاحب کو خانقاہ سے نکالا تو انہوں نے یہ شعرلکھ کر حکیم الامت کو بھیجا   ؎

اُدھر وہ در نہ کھولیں گے اِدھر میں در نہ چھوڑوں گا
حکومت  اپنی   اپنی   ہے   کہیں   اُن  کی  کہیں  میری 

یعنی بھگانے کی حکومت اُن کی ہے اور نہ بھاگنے کی حکومت میرے اختیار میں ہے لہٰذا جب یہ شعر لکھ کر بھیجا تو اسی وقت معافی ہوگئی تھی اور حضرت خواجہ صاحب کو شیخ نے جو پیار دیا ہے پوری روئے زمین پر آپ حکیم الامت کے کسی خلیفہ سے پوچھ لیں کہ خواجہ صاحب کا کیا مقام تھا، خواجہ صاحب کو عقلی محبت کے ساتھ ساتھ طبعی محبت بھی تھی اور ایک راز کی بات بتادوں کہ اگر شیخ کے ساتھ عقلی محبت کے ساتھ ساتھ طبعی محبت بھی ہوجائے تو بے حد مفید ہے ورنہ عقلی محبت سے گاڑی ذرا مشکل سے چلتی ہے۔

 مندرجہ بالا ملفوظ میں تشریح میں اپنا ذاتی واقعہ بیان فرمایا۔

حضرت مولانا ابرار الحق صاحب دامت برکاتہم نے مجھ سے فرما یا کہ اعظم گڈھ میں ایک مرتبہ حکیم الامت کے پانچ خلفاء جمع ہوگئے، عجیب واقعہ ہے کہ پانچ خلفاء شبلی منزل میںمہمان ہوئے، اب ان خلیفہ کے نا م بھی سن لیجئے، علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اﷲ علیہ، مولانا شاہ وصی اﷲ صاحب رحمۃ اﷲ علیہ، مولانا شاہ عبد الغنی صاحب رحمۃا ﷲ علیہ، مولانا شاہ ابر ارالحق صاحب دامت برکاتہم، ڈاکٹر عبد الحی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ اور خواجہ عزیز الحسن صاحب رحمۃ اﷲ علیہ مگر گفتگو حضرت خواجہ صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کررہے تھے اور پانچوں حضرات مریدکی طرح حضرت خواجہ صاحب کا وعظ سن رہے تھے، یہ کیا بات ہے؟ کیا شاہ عبد الغنی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کا علم معمولی تھا؟ لیکن حضرت خواجہ صاحب عشق کی وجہ سے اپنے پیر بھائیوں میں ایک نمایاں مقام رکھتے تھے کیونکہ وہ عاشقِ شیخ تھے ا س لیے اﷲ نے ان کو اونچا مقام دیا تھا، باقی چاہے کتنے ہی بڑے عالم ہوں لیکن ہر شخص حضرت خواجہ صاحب ہی کا وعظ سنتا تھا، کسی کو ہمت نہیں ہوتی تھی کہ حضرت خواجہ صاحب کو اپنا ملفوظ سنائے یا منطق کی قاضی حمد اﷲ وغیرہ کی کوئی شکل اوّل وغیرہ سنادیں اور اس کی وجہ یہ تھی کہ خواجہ صاحب حضرت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ کے الفاظ بعینہٖ نقل کرتے تھے، الفاظ میں بھی ان سے تسامح نہیں ہوتا تھا اس لیے لوگوں کو اس میں مزہ آتا تھا اور عاشق کی کچھ عظمت بھی ایسی ہوجاتی ہے جس کے بارے میں مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا   ؎

عشق جس کا امام ہوتا ہے
اُس کا اونچا مقام ہوتا ہے

محبت کی کرامت: حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو تمام صحابہ کے مقابلے میں محبت کی وجہ سے زیادہ درجہ ملا ہے۔ یہ روایت ملا علی قاری رحمۃ اﷲ علیہ نے لکھی ہے مَا فُضِّلَ اَبُوْ بَکْرٍ النَّاسَلاَ بِکَثْرَۃِ عِبَادَۃٍ  ابوبکر رضی اﷲ عنہ کو تمام صحابہ پر جو فضیلت حاصل ہوئی وہ زیادہ عبادت سے نہیں ہوئی وَلاَ بِکَثْرَۃِ  فَتْوٰی وَلاَ بِکَثْرَۃِ رِوَایَۃٍ نہ تو ان کی روایات زیادہ ہیں، نہ عبادات زیادہ ہیں اور نہ زیادہ فتویٰ دیئے وَلٰکِنْ بِشَیْ ئٍ مَّا وُقِّرَ فِیْ صَدْرِہٖ لیکن ان کے سینہ میں اور ان کے قلب میں اﷲ تعالیٰ کی محبت کا اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی محبت کا جو مقام تھا بس وہ چیز ان کو اوپر لے گئی کہ انہوں نے جان کو جان نہ سمجھا کہ غارِ ثور میں سانپ کے بل پر اپنا انگوٹھا لگا دیا اور سانپ نے کاٹ بھی لیا، جب بھی کوئی بھی موقع آیا تو صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ ہر لحاظ سے سب سے پیش پیش رہتے تھے، جنگ اُحد میں عرض کیا یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم مجھ سے آپ کا خون نہیں دیکھا جاتا، میں خونِ نبوت بہنے کا تحمل نہیں کرسکتا لہٰذا تلوار کھینچ لی اور کہا کہ آج ان کافروں کو ماروں گا یا شہید ہوجاؤں گا، میری زندگی کس کام کی ہے کہ میں اپنے نبی کا خون اپنی آنکھوں سے دیکھوں۔ تو جس وقت تلوار کھینچ کر آگے بڑھے تو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کو پکڑ لیا اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا خون بہہ رہا ہے لیکن آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا  شِمْ سَیْفَکَ  اے ابوبکر! تلوار کو میان میں رکھ لاَ تُفْجِعْنَابِنَفْسِکَ شہید ہو کر مجھے جدائی کاغم مت دو، اس سے پتہ چلتا ہے کہ صدیق کا درجہ شہیدوں سے زیادہ ہوتا ہے کیونکہ وہ کارِنبوت انجام دیتا ہے۔ اس لیے قرآن کا اسلوبِ بیان اور اسلوبِ نزول دیکھئے  مِنَ النَّبِیِّیْنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّہَدَآئِ وَالصَّالِحِیْنَ آہ! جنہوں نے جان دی وہ پیچھے رہ گئے زندہ شہید سے لہٰذا زندہ شہید بنو اور زندہ شہید وہ ہے جو اﷲ اور رسول پر ہر وقت فدا رہے اور دین کے کام اور دین کی محنت پر اپنی جان ومال کو قربان کرتا رہے اور اپنے نفس کی خواہشات کا خون کرتا رہے اور ایک سانس بھی کو ناراض نہ کرے تو ان شاء اﷲ تعالیٰ یہ شہیدوں سے افضل ہوگا، اﷲ تعالیٰ نے صدیق کو شہید سے پہلے بیان کیا اورصدیقین جمع نازل کیا یعنی قیامت تک ایسے صدیقین اور اولیاء اﷲ پیدا ہوسکتے ہیں جو شہیدوں سے افضل ہوں گے باوجود اس کے کہ وہ حیات ہوں گے لیکن رات دن دین کی تبلیغ اور نشر و اشاعت میں مصروف ہونے اور اﷲ کے عشق میں آہ وفغاں کرنے اور اخلاص کے اعلیٰ مقام کی وجہ سے وہ شہیدوں سے افضل ہوں گے، ان ہی کی برکت سے اﷲ کے عشاق پیدا ہوتے ہیں ورنہ اگر خالی کتاب رہ جائے توعشق تو کسی درجہ میں ہوسکتا ہے لیکن عشق کی رہنمائی نہیں ہوسکتی، عشق غلط جگہ پہنچ جائے گا یعنی عشق حد سے زیادہ بڑھ جائے گا اور بدعتی ہوجائیں گے۔

تشریح میں فرمایا : صدیقین قیامت تک پیدا ہوتے رہے گے، لیکن حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے نہیں ہوں گے۔ لیکن اپنے اپنے درجے میں قیامت تک صدیق ہوتے رہے گے۔

سنت و بدعت کی انوکھی تعریف:  اسی لیے آپ کو سنت کی ایک عاشقانہ تعریف سناتا ہوں کہ سنت کیا ہے اور بدعت کیا ہے اور یہ تعریف بہت بڑے بزرگ مولانا محمد احمد صاحب رحمۃاﷲ علیہ نے کی ہے، فرماتے ہیں   ؎

مے توحید سے سرشار ہوں سنت ہے یہی

یہاں توحید سے مراد سنت کے مطابق اﷲ کی وحدانیت کو ماننا ہے یعنی جو اﷲ کو ایک جانے اور اﷲ تعالیٰ کی فرماں برداری میں ساری کائنات سے روکش ہوجائے تب اس کی توحید کامل ہوتی ہے، تو حیدِ اعتقادی تو کامل ہوسکتی ہے توحیدِ عملی بھی تو کامل ہونی چاہیے، اﷲ کے حکم کے مقابلہ میں کسی کی نہ سنے یہاں تک کہ اپنے نفس کی بھی نہ سنے، جو اپنے نفس کی بات مانتا ہے وہ عملاً فاسق ہے، مشرکوں جیسا عمل کرتا ہے، جو اپنے نفس کی خواہشات کو خدا بناتا ہے تو وہ الٰہِ باطل کاعابد بناہوا ہے یا نہیں؟ اَفَرَاَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰھَہٗ ھَوَاہٗ کیا آپ نے ایسے نالائقوں کو دیکھا جو اپنے نفس کی خواہش کو خدا بنائے ہوئے ہیں۔ کوئی حسین شکل سامنے آجائے تو پاگل کی طرح سے اس کو دیکھ رہا ہے۔ دوستو! یہی کہتا ہوں کہ ایمان کا امتحان اسی وقت ہوتا ہے کہ جب سڑکوں پر لڑکیاں اور لڑکے چڈی پہن کر گذررہے ہوں پھر دیکھو کہ آپ کو اﷲ سے کتنی محبت ہے، پھر اپنی نگرانی کروکہ ہم کو اﷲ کی کتنی محبت ہے، کہیں ہم نے نفس کی خواہش کو خدا تو نہیں بنایا ہوا ہے، اس آیت کو یاد کر لو اَفَرَاَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰھَہٗ ھَوَاہٗ کیا آپ نے ایسے لوگوں کو نہیں دیکھا کہ جو اپنی نفس کی خواہش کو خدا بنائے ہوئے ہیں، جب ان کے سامنے حسن کا مال آگیا اس وقت نہ ان کو قرآن یا د آتا ہے نہ حدیث، نہ شیخ یاد نہ اس کی رفاقتیں یاد، نہ توحید، نہ ملتزم، نہ روضۂ پاک اس ظالم کوکچھ یاد نہیں رہتا، تو اس نے اپنی خواہشات کو خدا بنایا یا نہیں؟ اس آیت کی رُوسے وہ موحد ہے؟ اس سے مولانا محمد احمد صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کا یہی مقصد ہے   ؎

مے توحید سے سرشار ہوں سنت ہے یہی
دل کسی غیر کو دے دیں تو یہی بدعت ہے

یہ کتنی پیاری تعریف ہے یعنی اس کے اندر علم کی روح ہے، اس شعر کو سن کر ندوۃ کے بڑے بڑے علماء بھی مست ہوگئے   ؎

دل کسی غیر کو دے دیں تو یہی بدعت ہے 

جب سڑکوں پر موٹر میں بیٹھے ہوئے جارہے ہیں اور رنگ برنگ کی ٹیڈیاں سامنے آئیں اور آپ نے ان کو دیکھ لیا، اﷲ کے فرمانِ عالی شان غضِ بصر کو نظر انداز کرکے آپ نے ان پر نظر اندازی کی، جب آپ کسی حسین پر نظر انداز ہوئے تو اﷲ کے حکم سے آپ نے نظر اندازی کی، امرِ الٰہی کو آپ نے نظر انداز کردیا۔

جس وقت شاہ محمود نے کہا تھا کہ ایک قیمتی موتی ہے کوئی اس کا توڑ نے والا ہے؟ شاہ محمود نے حکم دیا کہ اس موتی کو توڑ دو، سب نے آپس میں مشورہ کیا کہ اتنا قیمتی موتی کسی ملک میں نہیں ہے لہٰذا ہم اسے نہیں توڑیں گے اور اگرہم توڑیں گے تو بعد میں بادشاہ سزا دے گا کہ میں تو تم لوگوں کاامتحان لے رہا تھا تم نے موتی کیوں توڑ دیا لہٰذا شاہ محمود کے حکمِ شاہی کے باوجود سب وزیروں نے توڑنے سے انکار کردیا کہ بہت قیمتی موتی ہے، محمودکا ایک عاشق غلام تھا جس کانام ایاز تھا، اس نے ایاز کو حکم دیا کہ ایاز اس موتی کو توڑ دو تو اس نے فوراً پتھر اٹھایا اور موتی توڑ دیا، جب اس نے موتی توڑا تو پینسٹھ وزیروں نے شور مچادیا ایں چہ گستاخ است واﷲ کافراست یہ ایاز گستاخ ہے کافر ہے کہ اتنا قیمتی موتی توڑ دیا۔ اس وقت شاہ نے کہا اے ایاز تم کو یہ لوگ کافر اور گستاخ بتارہے ہیں ان کو جواب دو کہ تم نے اس موتی کو کیوں توڑا تو ایاز نے جواب دیا   ؎

گفت ایاز اے مہترانِ نامور

ایاز نے کہا اے محترم وزیرو! میں نے موتی کیوں تو ڑا اور تم نے کیوں نہیں توڑا تو میں آپ لوگوں سے سوال کرتا ہوں تب میرے عمل کا راز ظاہر ہوگا، یہ بتائیے   ؎  

 امرِ شہ بہتر بہ قیمت یا گُہر

شاہ کا حکم زیادہ قیمتی ہے یا موتی؟ آہ سوچ لو اس کو! جو موتی سڑکوں پر پھر رہے ہیں وہ زیادہ قیمتی ہیں یا اﷲ کا حکم! واﷲ کہتا ہوں کہ کسی اﷲ والے کی غلامی کرو تب پتہ چلے گا کہ دین کیا چیز ہے ورنہ تفسیریں پڑھانے والے عورتوں کو پڑھا رہے ہیں۔ آپ بتائیے اگر یہی ظالم کسی اﷲ والے کی جوتیاں اٹھاتے تو کبھی عورتوں کو نہ پڑھاتے، انکار کردیتے کہ ہم پیٹ پر پتھر باندھ لیں گے لیکن ہم سے یہ نہیں ہوسکتا کہ ہم جوان لڑکیوں کو دیکھتے ہوئے غضِ بصر کی تفسیر پڑھائیں، مگر کوئی اس وقت تک پیٹ پر پتھر نہیں باند ھ سکتا جب تک کہ اس کے دل میں نسبت کا موتی نہ ہو یعنی صاحبِ نسبت نہ ہو، جب اﷲ کی نسبت عطا ہوگی تب چھوٹی دولت سے انحراف کرے گا، نسبت مع اﷲ کی دولت بڑی دولت ہے، جب بڑی دولت ہوتی ہے تو چھوٹی دولت سے انحراف کرسکتا ہے، بڑی نعمت کو دیکھ کر چھوٹی نعمت کوچھوڑ سکتا ہے، اﷲ کو دیکھ کر آخرت کی نعمت کے سامنے دنیا چھوڑسکتا ہے۔

بتائیے ایاز کے واقعہ سے سبق لینا چائیے یا نہیں؟ اس نے کتنا پیارا سوال کیا جب ان لوگوں نے کہا کہ شاہ کا موتی نایاب تھا اور خزانہ میں اس کا بدل نہیں تھا تم نے اسے کیوں توڑا؟ تو ایاز نے جو جواب دیا وہ ہم سب کے لیے سبق ہے یانہیں؟ اس کے جواب میں تصوف کی روح ہے لہٰذا  اس سبق کو یاد کرلو   ؎

گفت ایاز اے مہترانِ نامور
امرِ شہ بہتر بہ قیمت یا گُہر

اے معزز وزیرو! شاہی حکم زیادہ قیمتی ہے یا یہ حسین اور قیمتی موتی، یہ حسین زیادہ قیمتی ہیں یا اﷲ کا حکم، جب کسی حسین یا حسینہ پر  نظر ڈالو تو چپل اپنے ساتھ رکھو اور کھوپڑی پر چپل مارو کہ کس بے دردی سے دیکھتے ہو، یہ اﷲ کے ساتھ غداری ہے کہ نہیں؟ اگر گناہ نہیں چھوڑتے تو حق تعالیٰ کی نعمتیں کیوں کھاتے ہو؟ سب نعمتوں کو چھوڑ دو، اگر ہم گناہ نہیں چھوڑ رہے ہیں تو ہمارا یہ کھانا شریفانہ کھانا نہیں بے حیائی کاکھانا ہے۔

وَجَعَلَنَا مُسْلِمِیْنَ کی انوکھی شرح:  کیونکہ ملا علی قاری رحمۃ اﷲ علیہ نے  وَجَعَلَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ کی شرح لکھی ہے کہ یا اﷲ آپ کا شکر ہے کہ آپ نے ہمیں کھانا کھلایا ہے، پانی پلایا ہے اور سب سے بڑی چیز یہ ہے کہ ہم شریفانہ کھارہے ہیں کیونکہ آپ نے ہم کو مطیع و فرماں بردار بنایا  وَجَعَلَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ اَیْ  مِنَ الْمُوَحِّدِیْنَ وَ الْمُنْقَادِیْنَ فِیْ جَمِیْعِ اَمْرِ الدِّیْنِ آپ نے ہمیں تمام اُمورِ شریعت کا پابند بنایا ہے اب ہم مطیعانہ، شریفانہ، فرماں برداری اور شرافت کے ساتھ کھارہے ہیں ورنہ غیر شریفانہ کھانا ہوتا۔ مجھ کو ایاز کے واقعہ سے اتنا سبق ملتا ہے جب میں سوچتا ہوں کہ آہ ایاز نے کیا جواب دیا کہ اے مہترانِ نامور، اے معزز وزیرو! تم مجھ کو کافر بنارہے ہو کہ میںنے موتی توڑ دیا۔ بتاؤ، بادشاہ نے کیوں حکم دیا تھا کہ اس کو توڑو   ؎

امرِ شہ بہتر بقیمت یا گُہر

شاہی حکم زیادہ قیمتی ہے یایہ موتی تو جس وقت آپ سڑکوں پر ہوں اس آیت کا مراقبہ کریں اور اس شعر کو سامنے رکھیں کہ اﷲ نے ہم کو غضِ بصر کا حکم دیا ہے اب یہ حکم زیادہ قیمتی ہے یا یہ مرنے والی لاشیں؟ جو غضِ بصر کے حکم کو توڑ کر ان حسین موتیوں کو دیکھتے ہیں تو اگر ان پر ابھی لقوہ گرجائے یا فالج گرجائے اور ان کا چہرہ خوفناک جغرافیہ والا بن جائے تو پھر اپنی طبیعت سے بھاگتے ہیں حکمِ الٰہی سے نہیں بھاگتے، کیا حال ہے ہمارے ایمان کا، اﷲ ہمارے حال پر رحم کردے اور اپنی رحمت سے ہم سب کو معاف کردے، کوئی مستثنیٰ نہیں ہم سب اس میں شامل ہیں۔ مولانا رومی رحمۃ اﷲ علیہ کو دعا دو کہ اﷲ اس شخص کی قبر کو نور سے بھر دے کہ جس نے ایسے پیار ے انداز سے امت کو غض بصر اور باطل خداؤں سے صَرفِ نظر کرناسکھایا۔
اﷲ سے دعا کرو کہ یا اﷲ! ہم ان حسینوں پر نظر انداز نہ ہوں اور اﷲ کے حکم کو نظر انداز نہ کریں پھر دیکھو ایسا چین اور ایسا سکون ملے گا کہ میں ایک لاکھ قسمیں کھاتا ہوں کہ جس دن ان حسینوں سے نظر بچانے پر آپ کو کنٹرول حاصل ہوجائے گا قلب کو اتنا سکون ملے گا، اتنی بہار ملے گی کہ گھاس کا ایک ایک تنکا اور پہاڑ کا ایک ایک ذرہ اور سبزہ وچاند اور سورج اور آسمان وزمین اور سمندر کا ہرقطرہ آپ کو توحید کا جام ومینا معلوم ہوگا۔ ان حسینوں کے گال، بال، ان کے مال اور ان کی پنڈلی اور ان کی ران یہ سب ہمارے لیے حجابات ہیں اور اتنے بڑے حجابات ہیں کہ انسان اِن مردہ لاشوں میں پھنس کر اپنے اﷲ سے دور ہوجاتا ہے۔ سوچو اس بات کو کہ یہ کتنا بڑا نقصان ہے جس لیلیٰ کی وجہ سے انسان خالقِ لیلیٰ سے محروم ہوجائے ایسی لیلیٰ کو لات مارو اور عاشقِ مولیٰ بنو، یہ حسین آپ کے کچھ کام نہ آئیں گے، مولیٰ ہی کام آئے گا۔
میں ان لوگوں سے ایک سوال کرتا ہوں جو کہتے ہیں کہ صاحب نظر بچانے میں بڑی مشقت ہے اور اس سے بچنا بہت مشکل ہے تو میں کہتاہوں کہ اﷲ ہم سب کو سلامت رکھے لیکن اگر اﷲ کسی کے کوئی مرض پیدا کردے، نظربازوں پر خدا فالج گرادے یاگردے میں درد پیدا کردے یاگردے بیکار ہوجائیں تو بتائیے چارپائی پر پڑے ہگ رہے ہیں اُس وقت میری تقریر کی قدر ہوگی، مسٹنڈے لوگ سمجھتے ہیںکہ ارے ابھی تو ہم میں خوب طاقت ہے، اﷲ تعالیٰ سے پناہ مانگو، ہم بھی مانگیں اورسب ایک دوسرے کے لیے دعا کریں۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ ِﷲِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَصَلَّی اﷲُ تَعَالٰی عَلٰی
خَیْرِخَلْقِہٖ مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ اَجْمَعِیْنَ
بِرَحْمَتِکَ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ

آخر میں درد بھری دُعا فرمائی۔۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries