مجلس۱۴۔ جون۲۰۱۴ء دین کا حاصل نیک عمل کرنا اور گناہ سے بچنا ہے !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں(کلک کریں)

خلاصۂ مجلس:محبی و محبوبی مرشدی و مولائی حضرت والا میر صاحب دامت برکاتہم کی آمد میں تاخیر تھی، حضرت والا کے حکم پر جناب مصطفیٰ صاحب نے حضرت والا میر صاحب دامت برکاتہم کے اشعار سنائے، اس کے بعد جناب ممتاز صاحب نے ملفوظات معارفِ ربانی پڑھ کر سناتے رہے۔ اتنے میں حضرت والا مجلس میں رونق افروز ہوئے اور ملفوظات معارفِ ربانی سے خود پڑھ کر سنائے۔ آج صفحہ۴۵۴ سے۴۶۰ تک ملفوظات پڑھ کر سنائے گئے، درمیان درمیان میں حضرت ارشادات بھی فرماتے رہے،آج کی مجلس تقریباً  ۱ گھنٹہ ۵ منٹ تک جاری رہی۔۔

ملفوظات

ہمارے بزرگوں کا طریقہ ہے کہ جہاں دعوت ہوتی ہیں وہاں بیان نہیں فرماتے ہیں، یہی  حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کا معمول تھا۔ اورحضرت مولانا ابرار الحق صاحب کا بھی یہی معمول تھا۔ ۔  اس پر ایک واقعہ بیان فرمایا ۔ ۔ 

 ملفوظات معارفِ ربانی

آج کراچی روانگی کا دن تھا اور حضرت والا عموماً روانگی کے دن دعوت قبول نہیں فرماتے لیکن عثمان پٹیل صاحب کئی دفعہ درخواست کرچکے تھے کہ حضرت والا ان کے یہاں کھانا تناول فرمائیں لیکن بوجوہ مصروفیت اس کا موقع نہیں ملا۔ اس لیے حضرت والا نے فرمایا کہ آج عثمان پٹیل کے یہاں ناشتہ کریں گے، ان کا دل خوش ہوجائے گا چنانچہ حضرت والا سینٹ پیئر سے سینٹ پال تشریف لائے اور یہ بیان فرمایا جو قارئین کے پیشِ نظر ہے

اَلْحَمْدُ ِﷲِ وَکَفٰی وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاﷲِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَاوَقَالَ تَعَالٰی مَنْ عَمِلَ صَالِحاً مِّنْ ذَکَرٍاَوْ اُنْثٰی وَ ھُوَ مُؤمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً
وَ قَالَ تَعَالٰی مَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیْشَۃً ضَنْکاً

اس وقت تین آیات پڑھی ہیں جن کا ترجمہ یہ ہے نمبر۱۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہوَالَّذِیْنَ جَاہَدُوْا فِیْنَا جو میرے لیے مشقت اُٹھاتا ہے اور مجھ کو تلاش کرتا ہے میں ضرور اس کو مل جاتا ہوں اور میں اس کو کیسے ملتا ہوں؟ لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا اس کے لیے بے شمار راستے کھول دیتا ہوں تاکہ وہ صیحیح اور سیدھی راہ اختیار کرکے ہم سے ملاقات کرلے۔ سُبُلْ جمع ہے سبیل کی اور اﷲ کا جمع غیر محدود ہوتا ہے جبکہ بندوں کا جمع محدود ہوتا ہے۔ فِیْنَا کی چار تفسیر ہیں:

(۱) اَلَّذِیْنَ اخْتَارُوْا الْمَشَقَّۃَ فِی ابْتِغَاءِ مَرَضَاتِنَا جو لوگ مجھ کو خوش کرنے کے لیے ہر قسم تکلیف اُٹھاتے ہیں اور میری خوشی کو تلاش کرتے پھرتے ہیں کہ کیا عمل کرلوں کہ میرا اﷲ خوش ہوجائے ابتغائے مرضات اس کانام ہے یعنی اﷲ کی مرضیات تلاش کرنا اور اس مقصد کے لیے اﷲ والوں کو تلاش کرنا جیسے کوئی امرود کا عاشق ہے تو امرود والے کو تلاش کرے گا لہٰذا جو اﷲکا عاشق ہوتا ہے وہ اﷲ والوں کو تلاش کرتا ہے۔

(۲)اَلَّذِیْنَ اخْتَارُوْا الْمَشَقَّۃَ فِیْ نُصْرَۃِ دِیْنِنَا جو لوگ اﷲ کے دین کی مدد اور نصرت کے لیے اور دین کو پھیلا نے کے لیے مشقت اُٹھاتے ہیں۔

(۳) اَلَّذِیْنَ اخْتَارُوْا الْمَشَقَّۃَ فِیْ امْتِثَالِ اَوَامِرِنَا  جو اﷲ کے احکام کو بجا لانے کے لیے ہر تکلیف اُٹھاتے ہیں۔

 (۴) اَلَّذِیْنَ اخْتَارُوْا الْمَشَقَّۃَ فِیْ الْاِنْتِہَآءِ عَن مَّنَاھِیْنَا جو اﷲ کی نافرمانی اور گناہ سے بچنے میں ہرقسم کی تکلیف اٹھاتے ہیں جیسے حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ اے خدا مصر کی جو عورتیں مجھے برے راستے کی طرف بلارہی ہیں اس کے مقابلہ میں آپ کی رضا کے لیے قید خانہ مجھے احب ہے،قَالَ رَبِّ السِّجْنُ اَحَبُّ اِلَیَّ مِمَّا  یَدْعُوْنَنِیْ  اِلَیْہِ، یَدْعُوْنَ جمع نازل ہوا ہے اس پر بنگلہ دیش میں ایک عالم نے اِشکال کیا کہ جب زلیخا واحد تھی یعنی گناہ کی دعوت اکیلی عورت دے رہی تھی تو اﷲ تعالیٰ نے یَدْعُوْنَ جمع کیوں نازل فرمایا ؟میں نے اس کاجواب ان کو دیا کہ چونکہ مصر کی تمام عورتیں یوسف علیہ السلام سے سفارش کررہی تھیں کہ اے یوسف تم زلیخا کی بات مان لو اور اس کے ساتھ نعوذ باﷲ وہ کام کر لو جو یہ چاہتی ہے تو برائی کا مشورہ دینے والوں کو اﷲ تعالیٰ نے اُسی درجہ میں رکھا جس درجہ میں گناہ کرنے والی عورت تھی، گناہ کے کام کا مشورہ دینے والیوں اور سفارش کرنے والیوں کو اﷲ تعالیٰ نے اُسی عورت کے ساتھ شامل کردیا، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو گناہ کاراستہ بتائے گا وہ بھی گناہ کرنے والے کے ساتھ شامل ہے۔ اس لیے یدعون نازل فرمایا دوسری عورتیں چونکہ سفارش کررہی تھیں، یوسف علیہ السلام کو بہکانے کی کوشش کر رہی تھیں کہ راضی ہوجاؤ، کیوں انکار کررہے ہو؟ لیکن جانِ یوسف نے عاشقانہ اعلان کیا کہ رَبِّ السِّجْنُ اَحَبُّ اِلَیَّ مِمَّا یَدْعُوْنَنِیْ اِلَیْہِ اے خدا! تیرے راستے میں تکلیف اُٹھانا اور تجھ کو خوش رکھنا اور اپنے نفس کو حرام خوشی سے بچانا اور اگر اس راستے میں مجھ کو قید خانہ بھی ملے تو مجھے احب ہوگا۔ میں نے الٰہ آباد میں علماء ندوہ کے سامنے یہ عرض کیا کہ اس آیت سے اﷲ تعالیٰ کی شانِ محبوبیت ثابت ہوتی ہے کہ اﷲ تعالیٰ اتنے پیارے، اتنے محبوب ہیں کہ جب ان کے راستے کے قید خانے احب ہوتے ہیں تو ان کی راہ کے گلستاں کیسے ہوں گے، دیکھیے کیسا عنوان ہے، الحمد ﷲ رب العٰلمین۔

تو جو اﷲ کے راستے میں چار قسم کی کوشش کرے گا (۱) اﷲ کی رضا اور خوشی تلاش کرے گا(۲) اس کے دین کی مدد کرے گا، اس کے دین کو پھیلائے گا، دین پھیلانے والوں کی مدد کرے گا، جان مال عزت و آبرو سے ان کا ساتھ دے گا (۳) جو اﷲ کے تمام احکام کو بجالائے گا(۴) اور جو گناہ سے بچے گا۔ بعض لوگ وظیفہ بہت پڑھتے ہیں لیکن کوئی عورت سامنے آجائے پھر دیکھو تسبیح درجیب نگاہ بر حسین، تسبیح جیب میں رکھی اور عورت کو دیکھ رہا ہے، میں نے اس کانام تسبیح درجیب رکھا ہے، اﷲ کا شکر ہے کہ تقریر کو مزے دار بنادیا یہ بھی اﷲ کا احسان ہے ورنہ آدمی گھبراجاتا ہے کہ کون جائے وہاں ہم بور ہوجاتے ہیں، میں کہتاہوں کہ میں آپ کو بور نہیں کروں گا اور بوری تنگ بھی نہ ہونے دوں گا۔
دوسری آیت جو میں نے تلاوت کی تھی اس کی تفسیر یہ ہے کہ جوایمان لائے اور اچھے اعمال کرے تو اﷲ تعالیٰ لام تاکید بانون ثقیلہ سے اعلان کررہے ہیں کہ اے دنیا والو! میری بات بہت وزنی ہے، بانون ثقیلہ ہے، حرفاً، لفظاً اور ظاہراً لہٰذا خوب سمجھ لوکہ میں اس کو بالطف حیات دوں گا، اس کی زندگی مزے دار ہوجائے گی، جو ہم سے دوستی کرے گا، ہم کو خوش کرے گا اور گناہ سے بچے گا وہ بہت مزہ پائے گا۔ بتاؤ لطفِ حیات کس کے قبضہ میں ہے؟ زندگی کو خوش رکھنا کس کے قبضہ میں ہے؟ تو جس کے اختیار میں خوشی ہے وہ خالقِ خوشی ہے، خوشی کو پیدا کرتا ہے، اس کا وعدہ ہے کہ جو مجھ کو راضی کرے گا، مجھ کو آسمان پر خوش رکھے گا میں اس کو زمین پر خوش رکھوں گا اور جو مجھ کو ناراض کرے گا تو ساری زمین میںجہاں جاؤ گے میری ہی حکومت ہے، دنیا کا سیاسی مجرم ہندوستان میں جرم کرکے ری یونین میں آسکتاہے، پاکستان کامجرم امریکہ بھاگ سکتا ہے لیکن اﷲ کانافرمان کہیں پناہ نہیں پاسکتا، جہاں بھی جائے گا زمین خدا کی ہے جہاں جائے گا آسمان خدا کا ہے ایسی مملکت کی حدود سے کہاں بھاگو گے؟ لہٰذا اس آیت کو سوچ لو میرے پیارے دوستو! محض اضافۂ علم کی نیت سے میری بات مت سنو، بلکہ درد بھرے دل سے کہتا ہوں کہ بتاؤ بالطف زندگی چاہتے ہو یاعذاب کی زندگی چاہتے ہو؟ خوش رہنا چاہتے ہو یا پریشان رہنا چاہتے ہو؟ تو خوشی کے لیے اﷲ تعالیٰ نے اعلان فرمایا کہ مجھے خوش کرو، نیک عمل کرو، گناہ سے بچو پھر ہم تم کو خوش رکھیں گے، اگر تم اپنی حرام خوشیوں کاانتظام کرو گے تو تم کمزور ہو میرے عذاب کا مقابلہ نہیںکرسکتے، تم چاہتے ہوکہ عورتوں کو دیکھ کر خوشی حاصل کریں، زِنا سے بدمعاشی سے، شراب سے خوشی حاصل کریں تو یادرکھو کہ تم خوشی کے خالق نہیں ہو، خوشی کا خالق میں ہوں، میں تمہیں اسبابِ نافرمانی اور حرام خوشیوں کی سزا میں وہ عذاب دوں گاکہ تمہیں نانی یاد آجائے گی۔ اب آپ کہیں گے کہ نانی یاد آنے کا کیا مطلب ہے؟ پہلے زمانے میں جب ماں بچہ کو مارتی تھی تو بچہ نانی سے شکایت کرتا تھا کہ نانی! دیکھو آپ کی بٹیا  ہم کو مار رہی ہے، کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اگر ہم کو اماں سے کوئی چھڑا سکتا ہے تو وہ اس کی اماں ہے، میری تو اماں یہ ہے اور اس کی اماں وہ ہے، تو کہتا تھا نانی دوڑو دیکھو تو آپ کی بٹیا ہم کو مار رہی ہے، آج اس محاورے کا پتہ چلاکہ نانی یاد آنے کی صحیح تعریف اختر نے بیان کردی۔

اﷲ تعالیٰ کی ذات مفت میں نہیں ملے گی، اس کے لیے مجاہدہ کرنا پڑے گا، اگر بلاتکلیف حلوہ کھاکے خدا چاہتے ہو تو بین الاقوامی احمق ہو کیونکہ خدا ئے تعالیٰ قرآن میں فرمارہا ہے کہ بغیر مجاہدہ وتکلیف کے ہم کسی کو اپنا نہیں بناتے۔ اور دوسری آیت میں اعلان ہے کہ اگر خوشگوار زندگی چاہتے ہو، بالطف حیات چاہتے ہو تو اﷲ کو راضی کرو، گناہوں میں لطف تلاش کرنے والا اُلّو، نالائق اور بین الاقوامی گدھا ہے کیونکہ خدا تو فرمارہا ہے کہ نیک عمل کے ذریعہ اگر مجھ کو خوش کرو گے تو میں تمہاری زندگی بالطف بنادوں گا اور تم حرام خواہشوں کے ذریعہ اپنے لطف کا خود انتظام کررہے ہو، اور تیسری آیت یہ ہے کہ جو شخص گناہوں کے ذریعہ حرام خوشیاں درآمد کرے گا، اپنا دل گناہوں سے اور لعنتی خوشی سے خوش کرے گا تو اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں اس کی زندگی کو تلخ کردوں گا، وہ ساری زندگی نہایت پریشان رہے گا۔ واﷲ! قسم کھا کے کہتا ہوں کہ جو بھی کسی عورت کو دیکھتا ہو یا گناہوں میں مبتلا ہو اس کے سر پر قرآن رکھ کر پوچھو اگر وہ مومن ہے تو یہی کہے گا چین نہیں ہے، پریشان ہوں، اگر کافر ہے تو اس سے یہ کہو کہ تجھے زمین وآسمان کے خالق کی قسم دیتا ہوں بتا تو چین سے ہے یا نہیں؟ اس وقت ساری دنیائے رومانٹک پریشان ہے کیونکہ بعض چیزیں ایسی ہیں جو ایمان اور مذہب کے علاوہ بین الاقوامی سطح پر بھی بری ہیں جیسے زِنا کرنا بین الاقوامی طور پر برا سمجھا جاتا  ہے، کسی عورت سے چھیڑ چھاڑ کرنے کو کافر بھی سمجھتے ہیں کہ یہ کام اچھا نہیں ہے کیونکہ اس سے انسان حلالی ہونے کی بجائے انٹرنیشنل لمیٹیڈ فرم کا حرامی ہوجاتاہے۔ آپ بتائیں! ایک عورت سے دس آدمی زِنا کریں گے تو اس کا نطفہ صحیح رہے گا؟ اس سے جو اولاد پیدا ہوگی وہ کیسی ہوگی، حرامی ہوگی یا نہیں؟ لہٰذا انگریز جو بڑے ترقی یافتہ بنتے ہیں انہیں مُلاّ ہونے کی حیثیت سے میرا چیلنج ہے کہ اپنے حلالی ہونے کا ثبوت پیش کریں، وہ خود دیکھتے ہیں کہ اس کی ماں سے کتنے مرد زِنا کرتے ہیں، جب انگریز بالغ ہوتا ہے تب سمجھ آتی ہے کہ میری اماں کے پاس یہ لوگ کیوں آتے ہیں، اسی لیے اس کے دل میں ماں باپ کی محبت نہیں ہوتی، یورپ امریکہ میں جب ماں باپ بوڑھے ہوجاتے ہیں تو انہیں فارمی مرغیوں کی طرح شہر سے باہر اولڈ ہاؤس میں پھینک دیتے ہیں اور سال میں ایک دفعہ کیک وغیرہ لے جاتے ہیں کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ ہماری رگوں میں میرے باپ کا خون نہیں ہے، پتہ نہیں میرے باپ کتنے ہیں، یہ انگریز جو کہتے ہیں کہ مسلمان کچھ ترقی یافتہ نہیں تو تم حرامی بن کر کیا ترقی یافتہ ہو؟ تمہارا تو منہ اس قابل نہیں ہے کہ تم ہم سے بات کرو، ہمارا اسلام تو کہتا ہے کہ خبردار کوئی کسی عورت سے زِنا نہ کرے تاکہ انسان حرامی نہ ہو۔ اگر کوئی پوچھے کہ شریعت نے زِنا کو کیوں منع کیا ہے تو ا س کو بتاؤ کہ اﷲ تعالیٰ نے زِنا کو حرام کرکے ہم کو حرامی ہونے سے بچالیا ،بتائیے! اﷲ نے احسان فرمایا یا نہیں؟ لیکن بے وقوف قسم کے لوگ یہی کہتے ہیں کہ کاش ہم بھی سانڈ کی طرح ہوتے جس گائے کو دیکھتے اس کی طرف لگ جاتے، تو اس کا علاج کیا ہے؟ ان کی عقل ماری ہوئی ہے، اسلام کے ہر قانون میں میں حسن ثابت کرسکتا ہوں، شریعت کا کوئی قانون ایسا نہیں جس میں اﷲ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی عزت اور آبرو کا تحفظ نہ فرمایا ہو مثلاً شراب ہی کو لے لیں، شراب پینے کے بعد آدمی گالیاں بکتا ہے، عقل ٹھیک نہیں رہتی، ماں کے ساتھ زِنا کرلیتا ہے لہٰذا اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کرو، جب ان کافروںکو دیکھو کہ راستے میں چما چاٹی کررہے ہیں، بدمعاشی کررہے ہیں یا کسی بھی بری حالت میں ہیں تو یہ کہواَلْحَمْدُ ِﷲِ الَّذِیْ عَافَانِیْ مِمَّا بْتَلاَکَ بِہٖ وَفَضَّلَنِیْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقَ تَفْضِیْلاً ۔ ابھی ابھی مجھے دو شعر اور ایک واقعہ یاد آگیا جس کو سنا کر تقریر ختم کروں گا۔

جب کو مصیبت میں دیکھو یا کسی کے بارے میں سنو تو دل ہی دل میں دُعا کر لو اَلْحَمْدُ ِﷲِ الَّذِیْ عَافَانِیْ مِمَّا بْتَلاَکَ بِہٖ وَفَضَّلَنِیْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقَ تَفْضِیْلاً، تو جسمانی بیماری اور روحانی دونوں بیماریوں سے حفاظت رہے گی۔ زور سے مت پڑھو حکم یہ ہے کہ آہستہ پڑھو! نیک آدمی کے سامنے تو آہستہ پڑھے اور کسی فاسق و فاجر کے سامنے اونچی آواز میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔

اس کے بعد درد بھری دُعا فرمائی۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries