مجلس۱۵۔ جون۲۰۱۴ء نہیں دیوانۂ حق جو تیرا دیوانہ نہیں !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں(کلک کریں)

خلاصۂ مجلس:محبی و محبوبی مرشدی و مولائی حضرت والا میر صاحب دامت برکاتہم میں رونق افروز تھے ، حضرت والا کے حکم پر جناب مصطفیٰ صاحب نے حضرت والا میر صاحب دامت برکاتہم کے اشعار سنائے، اس کے بعد جناب ممتاز صاحب نے ملفوظات معارفِ ربانی پڑھ کر سناتے رہے۔ آج صفحہ۴۶۵ سے۴۶۸ تک ملفوظات پڑھ کر سنائے گئے، درمیان درمیان میں حضرت ارشادات بھی فرماتے رہے،آج کی مجلس تقریباً ۵۳ منٹ تک جاری رہی۔۔

ملفوظات

حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ یہ میرے شیخ کی غلامی کا صدقہ ہے کہ سارے دنیا کے سلاطین بھی اگر جمع ہوجائیں تو میرے دل پر ذرہ برابر بھی اِن کا اثر نہیں ہوگا، بلکہ میری تقریر سے اِن کو اپنی سلطنتیں اُڑتی ہوئی نظر آئیں گی۔

حضرت والا حالاتِ زندگی اور مجاہدات ذکر فرمائے۔

 ملفوظات معارفِ ربانی

شرعی پردہ کی تاکید: اس کے بعد ناشتہ کے لیے دسترخوان لگایا گیا اور ناشتہ کے بعد حضرت والا نے یہ دعا پڑھی:

اَلْحَمْدُ ِﷲِ الَّذِیْ اَطْعَمَنَا وَ سَقَانَا وَ جَعَلَنَا مُسْلِمِیْنَ

اور ارشاد فرمایا کہ ملا علی قاری رحمۃاﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ اس دعا میںاَوَ جَعَلَنَا مُسْلِمِیْنَ  کے دومعنیٰ ہیںاَیْ مِنَ الْمُوَحِّدِیْنَ وَ الْمُنْقَادِیْنَ فِیْ جَمِیْعِ اَمْرِ الدِّیْنِ  یعنی اﷲ تعالیٰ نے ہم کو توحید نصیب فرمائی کہ ہم مشرک نہیں ہیں، اﷲ کے حکم پر عمل کرتے ہیں، نظر کی حفاظت کرتے ہیں، یہ نہیں کہ گھر میں نامحرم عورتوں میں گھسے جارہے ہیں۔ سب خیال رکھو اس بات کا ورنہ قیامت کے دن مقدمہ چل جائے گا، جس گھر میں نامحرم عورتیں، خالہ زاد، پھوپھی زاد، بھابھی، سالی، ممانی، چچی وغیرہ ہوں تو بغیر اجازت کے مت گھسو، پہلے پردہ کراؤ کہ میں آرہا ہوں، اول تو گھر میں گھسنے کی ضرورت ہی کیا ہے، اگر کسی مرد کو کھانا پکانے کا سلیقہ ہے تو بھی وہ نامحرم عورتوں میں گھس کر ہرگز نہ پکائے کہ لائیے بھابھی جان آپ کے لیے کھانا پکا دوں اب چمچہ بھی چلا رہے ہیں اور بھابھی سے گفتگو بھی ہورہی ہے بلکہ ان سے یہ کہلوا دیں کہ اگر آپ کو میری خدمت چاہیے تو یہاں سے ہٹ جائیں یا باورچی خانہ گھر کے باہر بنائیے۔ آپ حضرات میرے یہاں کبھی تشریف لائیں تو دیکھیے گا کہ تو باورچی خانہ بالکل باہر ہے کہ کسی عورت کا سایہ بھی نہیں پڑسکتا ہے، تو باہر پکا کر کے اندر بھجوا دو، نیکی کی نیکی ہوگئی تقویٰ کا تقویٰ ہوگیا۔ یہ رواج عا م ہے، میں نے اپنے دیہاتوں میں دیکھا ہے کہ خالو صاحب حقہ لیے اندر چلے آرہے ہیں اور ساری عورتیں وہاں سردی میں لکٹریاں جلا کر سینک رہی ہیں، خالو صاحب سامنے بیٹھے ہوئے ہیں، یہ نفس کا بہت خطرناک مرض ہے، جب نفس کچھ نہیں پاتا تو پھر اِدھر اُدھر دیکھ کر حسن کا اوس چاٹتا ہے، اگر نظر سے مزہ نہ آتا تو سرور ِعالم صلی اﷲ علیہ وسلم بدنظری کو آنکھوں کا زِنا کیوں فرماتے؟ بخاری شریف کی روایت ہے:

زِنَا الْعَیْنِ النَّظَرُ

بری نظر سے عورتوں کو دیکھنا آنکھوں کا زِنا ہے، نفس کو مزہ آتا ہے تب ہی تو اسے زِنا قرار دیا گیا اور اس عملِ بد کی وجہ سے حلاوتِ ایمانی سے محروم رہے گا، اس کو کبھی عبادت کا مزہ نہیں آئے گا، یہ ظالم کیا ایمان کی مٹھاس پائے گا۔ میرے شیخ نے فرمایا کہ خالو سے بھی پردہ ہے تو میں نے کہا بھئی اس بھالو کو نکالو یہ کہاں گھسا چلا آرہا ہے، خالو بروزن بھالو،ریچھ کو اُردو میں بھالو کہتے ہیں، بڑی مشکل سے انہیں نکالا گیا۔ بدنظری کی عادت پڑی ہوئی ہے، نظر سے نفس مزہ لیتا رہتا ہے جسے چھوڑنا نہیں چاہتا۔ نیک اعمال کرنا ایسا ہے جیسا کہ گنا چوسنا اور گناہ چھوڑنا ایسا ہے جیسے کوئی منہ سے گنا چھین رہا ہو، دیکھیے اس سے کیسی لڑائی لڑتا ہے۔
بدنظری کے گناہ کو لوگ آج کل گناہ نہیں سمجھتے بلکہ اگر کوئی یہ گناہ نہ کرے تو اسے خشک سمجھتے ہیں یعنی ناپسندیدہ عناصر میں اس کا شمار ہوتا ہے، اگر یہ کسی گھر جائے اور بھابھی سے بات نہ کرے اورخالہ کی بیٹیوں سے گفتگو نہ کرے کیونکہ ان سے پردہ شرعاً فرض ہے تو کہتی ہیں کہ بھائی کیسے آئے کہ باہر ہی باہر سے چلے گئے، بھیانے تو ہمارا حق ادا ہی نہ کیا، بھیا ہم کو بالکل بھول گئے حالانکہ اس بیچارہ نے تقویٰ سے، اﷲ کے خوف سے اپنے کو باہر رکھا، جس کے دل میں خدا کو راضی کرنے کا داعیہ پیدا ہوجائے وہ سارے زمانے سے نہیں ڈرتا   ؎

سارا جہاں خلاف ہو پروا نہ چاہیے
پیش نظر تو مرضیِ جانانہ چاہیے
پھر اس نظر سے جانچ کے تو کر یہ فیصلہ
کیا کیا تو کرنا چاہیے کیا کیا نہ چاہیے

اور زمانے سے ڈرنا بھی نہیں چاہیے کہ زمانہ کیا کہے گا، حضرت مفتی شفیع صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کا شعر ہے جو مفتی اعظم پاکستان تھے   ؎

ہم کو مٹاسکے یہ زمانے میںدم نہیں
ہم سے زمانہ خود ہے زمانے سے ہم نہیں

ہم زمانہ ساز ہیں، زمانہ سازی ہمارے اختیار میں ہے۔ زمانہ ہمیں نہیں بناتا، ہم زمانہ بناتے ہیں، تو تقویٰ برباد کرنے کا شیطان نے ایک طریقہ یہ نکالا کہ جہاز میں بیٹھے ائیرہوسٹس سے گفتگو کررہے ہیں کچھ لطیفہ سنا کے ہنسا دیا اب جو وہ اس کے لطیفہ پر ہنس گئی تو یہ سمجھا کہ میںکامیاب ہوگیا حالانکہ ظالم خدا کے غضب میں آگیا ہے، دوسرے کو ہنسا کر اپنے رونے کا انتظام کررہا ہے، ان لطیفہ گو لوگوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ اتنا ہی لطیفہ بیان کرو، اتنا ہی ہنساؤ جتنا تمہیں رونا نہ پڑے، جھوٹے لطیفے سنا کر دوسروں کو ہنسا رہے ہیں۔ بتائیے! ائیر ہوسٹس کو ہنسانے سے تمہیں کیا ملے گا؟ وہ توسوری کہہ کر چلی جاتی ہے اور دل میںیہ کہتی ہوگی کہ کوئی مسخرا ہے، ایسے لوگوں کی کوئی عزت نہیںہوتی، ہاں اگر کوئی باوقار انداز میں اپنی سیٹ پر بیٹھے ہوتے ہیں، نظر بچا کررکھتے ہیں، دعائیں مانگتے ہیں تو وہ بھی سوچتی ہے کہ یہ کوئی اﷲ والا ہے۔
دورانِ گفتگو یہ جملہ ارشاد فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ کی محبت کی چوٹ اور محبت کا زخم اگر بھرنے لگے تو فوراً کسی اﷲ والے کے پاس جاؤ، اس کی آہ وفغاں سنو تاکہ پھر خدا کی یاد میں تمہارے زخم ہرے ہوجائیں۔

دل کی سختی دور کرنے کا انجکشن : جس کے دل میں سختی ہو، آخرت کی یاد میں کمی ہو اور نماز میں دل نہ لگتا ہو دنیا کی محبت میں پھنسا ہوا ہو اس کو ایک انجکشن بتارہا ہوں، روزانہ یہ انجکشن لگانا چاہیے اور وہ انجکشن امریکہ سے نہیں آئے گا، نہ کنیڈا سے آئے گا نہ لندن سے آئے گا، وہ انجکشن ہروقت آپ کے پاس ہے، آنکھ بند کی اور یہ مراقبہ کرلیا کہ ایک دن قبر میں اُترنا ہے، جب جنازہ قبر میں اُترے گا تو کتنی دنیا آپ کو سلامی دے گی؟ کتنی تعریف ہوگی؟ کتنا بینک بیلنس جائے گا؟ کتنی بلڈنگ لے جاؤ گے؟ کتنے ٹیلی ویژن، قالین اور ٹیلی فون قبر میں جائیں گے؟ بس اس مراقبہ کا ایک منٹ کا انجکشن کافی ہے پھر ان شاء اﷲ آپ کو سارے عالم میں اﷲ ہی اﷲ یاد آئے گا، دنیا ہاتھ میں ہوگی، جیب میں ہوگی لیکن دل میں خدا ہوگا۔۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries