--(غرفہ بعد ظہر و مغرب عظیم الشان علمی و الہامی مجلس،مسجد میں عشاء بیان)--

۳ دسمبر ۲۰۱۹ء بروزمنگل

(۲۱: خلاصہ) نمازِ فجر کی ادائیگی کے بعد حضرت دادا شیخ دامت برکاتہم پر نیند کا بہت غلبہ تھا اس لیے بغیر ناشتہ کیے آرام فرمایا،ظہر سے کچھ پہلے بیدار ہوئے، ہلکا ناشتہ فرماکر دوا کھائی، چونکہ حضرت دادا شیخ دامت برکاتہم کو ضعف ہے بیمار بھی ہیں اس لیے نمازِ ظہر حجرہ میں ہی باجماعت ادا کرنی تھی، اس  لیے دورانِ مجلس ہمارے حضرت شیخ دامت برکاتہم اطلاع دے کر نمازِ ظہر کے لیےمسجد اختر  تشریف لے گئے، حضرت دادا شیخ دامت برکاتہم  کے ملفوظات جاری رہے،  نصف گھنٹے تک بہت قیمتی نصائح فرماتے رہے، اس صرف چند خاص خدام حاضر تھےجنہوں نے حضرت کے ساتھ نماز باجماعت ادا کرنی تھی۔ اس مجلس میں تین اہم مضامین بیان ہوئے تھے،جس کی تفصیل بمع آڈیو  منسلک ہے:

(۲۱: آڈیو) نمازِ ظہر سے پہلےحجرہ ٔ مبارک میں مایوس دلوں کو عظیم الشان تسلی کے الہامی ارشادات:گنہگاروں کو رحمتِ حق سے خوب تسلی اور اُمید دلانی چاہیے۔کہ توبہ کرلو معافی مل جائے گی۔۔۔ اس پر حضرت دادا شیخ دامت برکاتہم کا اپنے دو واقعات بیان فرمائے کہ بیان ہوا، اُن میں کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو یہ سمجھتے تھے کہ جب ہم کو عذاب ہونا ہی ہے، جہنم میں جانا ہی ہے تو یہاں خوب گناہ کرتے رہیں،   بیان کے بعد  اُن کو اللہ تعالیٰ سے ایسی اُمیدِ رحمت و ڈھارسِ مغفرت ہوئی کہ حضرت نے سامنے سب گناہوں سے توبہ کی اور ہاتھ پکڑ کر رونے لگے  کہ ہم گنہگاروں  کے لیے ارحم الراحمین  کی طرف سے ایسی  مہربانی ہے، ایسی رعایت ہیں! بس ہم آج سے توبہ کرتے ہیں۔۔ سبحان اللہ !۔۔۔ دینی مضامین کے لیے طریقہ ہوتا ہے۔۔۔مجرمین کو یہ بتایا تو جائے کہ گناہوں میں یہ نقصانات ہیں۔۔۔لیکن ساتھ ہی ساتھ توبہ کا بھی بتایا جائے کہ توبہ سے کروڑوں گناہ بھی معاف ہوجاتے ہیں۔۔۔ علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ کا ملفوظ کہ حق بات حق نیت حق طریقے سے کہنے سے اثر ہوتا ہے۔۔۔۔حضور ﷺ کی گنہگاروں پر شانِ رحمت و شفقت ۔۔۔ حدیث پاک مفہوم کہ میری شفاعت امت کےکبیرہ گناہ کرنے والے مجرمین کے لیے ہے۔۔۔ ایمان سینے میں ہونے کی وجہ سے ایمان والا بالکل بے پروا نہیں ہوسکتا۔یہ تسلی کے مضامین سن کرگنہگاروں کو ایمان کی برکت سے شرمندگی اور ندامت طاری ہوجاتی ہے کہ آپ ﷺ ہم جیسے گنہگاروں کے لیے شفاعت فرمائیں گے!پھر وہاں کیسے منہ دِکھائیں گے چلو ابھی توبہ کرلیتے ہیں! ایسی احادیث سننے سے یہ نتیجہ اور اثر مرتب ہوتا ہے۔۔۔یہ نہیں کہ وہ گناہوں کی طرف اور بڑھتے ہیں!حضورﷺ کے فرمان کا دل پر اثر ہوتا ہے۔۔۔۔ داڑھی پر خضاب، مہندی لگانے کی سنت ۔۔۔حضرت والا ؒ کے ذوق کا بیان ۔۔۔اس پرحضرت میر صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا تذکرہ پُرنور کہ ہمیشہ دل کو سب سے صاف رکھنے کا انتہائی اہتمام فرماتے تھے۔۔اس پر کچھ واقعات بیان فرمائے۔۔صدیق زمانہ حضرت والا میر صاحب ؒ کی قبر مبارک پر حاضری سے بہت نور محسوس ہونے کا ذکر فرمایا۔۔۔سنتوں کو زندہ کرنا چاہیے۔۔۔اس پر اپنے کچھ واقعات بیان فرمائے۔۔۔ لوگوں کے خوف سے سنت نہیں چھوڑنا چاہیے۔۔۔بزرگوں کا مہندی لگانے کے حوالے سے دونوں عمل ہیں کوئی لگاتا ہے کوئی نہیں! کسی پر اعتراض نہیں چاہیے۔۔۔ بال رکھنے کے تین سنت طریقے بیان فرمائے۔۔۔ امرد لڑکوں کو بال رکھنے کو ہمارے بزرگ منع کرتے ہیں۔۔۔دعا فرمائی  اللہ پاک ہمیں اکابرِ دین کے طریق پر جینا اور مرنا نصیب فرمادے۔۔۔اپنے جذبات کے بجائے اکابرِ دین کی تعلیمات کی روشنی میں چلنے اور بولنے کی توفیق عطا فرمائے۔۔۔حضرت کامل الہ آبادی کے شعر اور ان کا تذکرہ۔۔۔ذکر اللہ، استغفاراور درود شریف یہ تینوں کا اہتمام کیا جائے توبہت نفع ہے۔۔۔اصل تو یہ ہے کہ گناہوں کو چھوڑنا۔۔تقویٰ پر جینا۔۔ہمہ وقت تقویٰ کا اہتمام و التزام رہے اُس کے ساتھ اذکار و وظائف بہت مفید ہوتے ہیں جب کہ گناہوں سے پرہیز رہے۔۔۔ایک ہے دارالافتاء اور ایک ہے دارالتقویٰ۔۔دارالافتاء میں احکام و مسائل بیان کیے جاتے ہیں اور دارالتقویٰ  یعنی خانقاہ میں تقویٰ سِکھایا جاتا ہے اُن احکام و مسائل پر عمل سِکھایا جاتا ہے۔۔۔ہمارے پیارے شیخ دامت برکاتہم کا تذکرہ ٔ محبت فرمایا کہ اُن کو کہا کہ اپنے نام کے ساتھ عارف باللہ لکھا کریں۔۔۔

(۲۲: خلاصہ)ہمارے شیخ شاہ فیروز عبد اللہ میمن صاحب دامت برکاتہم احباب کے ساتھ نماز ِ ظہر مسجد اختر میں ادا کرکے دوبارہ حضرت دادا شیخ دامت برکاتہم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضرت دادا شیخ دامت برکاتہم سے کچھ باتیں عرض کیں جس پر حضرت دادا شیخ بہت خوش ہوتے رہے، مسجد اختر اور غرفۃ السالکین کی بہت تعریف فرمائی، خوب دعائیں دیں،  اہم نصائح فرمائیں جس پر مختصر مگر بہت مفیدمجلس ہوگئی، جس کے بعد حضرت دادا شیخ نے نمازِ ظہر ادا فرمائی ، یہاں تک  کی آڈیو منسلک ہے:

(۲۲: آڈیو) نمازِ ظہر کی ادائیگی سے پہلے کچھ اُمور پر اہم نصائح، مفید مختصر مجلس: حضرت شیخ مدظلہ کی اس بات پر حضرت دادا شیخ بہت مسرور ہوئے  کہ "جس طرح آپ فرمائیں کہ یہاں سب کام ویسے ہوں گے نیاڈاکٹر نیا علاج!۔۔۔جیسا آپ فرمائیں گے میں ذرا برابر بھی اِس سے نہیں ہٹوں گا"۔اس پر حضرت دادا شیخ نے بہت خوشیوں سے ارشاد فرمایا: کہ "میرے بیٹے حسن نے مجھ سے یہاں کے بارے میں کہا کہ"یہاں تو سارا وہی حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کا رنگ ہے"۔۔۔ پھرحضرت  شیخ نے مختلف مواقع پر حضرت  والا رحمۃ اللہ علیہ  کتابوں کی تقسیم  کی ترتیب کا عرض کیا  تو حضرت دادا شیخ خوب خوش ہوئے، فرمایا :ماشاء اللہ!بہت بڑا کام ہورہا ہے۔ایسا لگتا ہے ان شاء اللہ تعالیٰ قیامت تک یہ سلسلہ جاری رہے گا!۔۔۔بس حق تعالیٰ کی طرف متوجہ رہنا چاہیے۔۔۔پھر مزید اس ضمن میں ارشادات فرماتے رہے۔۔۔ حضرت شیخ کے ایک سوال پر جواب ارشاد فرماتے ہوئے دین اور دنیا میں اعتدال کے حوالے سے بہت زبردست ملفوظات فرمائے کہ: دین میں بھی مشغولیت رہے اور دنیا کے کاروبار میں وقت دیں۔۔۔ اس پر حضرت عمرفاروقؓ کا واقعہ بیان فرمایا کہ وہ ایک دن حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور ایک دن اپنے کاروبار کو دیکھتے ان کی جگہ حضرت عمرؓ کے دوست حضور ﷺ کی خدمت میں بیٹھتے اور وہاں کی باتیں حضرت عمر ؓ کو بتاتے، پھر ایک دن وہ صحابیؓ اپنے کام کو جاتے تو حضرت عمرؓ اُن کو باتیں سناتے۔۔۔اس ترتیب پرقرآن پاک کے حوالے سے مزید ارشاداتِ عجیبہ فرمائے۔۔۔ اس سے معلوم ہوا کہ حق تعالیٰ نے کتنا حُسن ِ انتظام رکھا ہے دین سیکھنے اور سِکھانے کےلیے۔۔۔ اپنے صاحبزادوں کا تذکرہ فرمایا کہ پچپن سے حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت تھے ،ان کے بیعت ہونے کا واقعہ بیان فرمایا۔۔ حضرت دادا شیخ نے فرمایا میں تو حضرت والا ؒ سے کہتا رہتا تھا کہ حضرت میں تو آپ کی دعاؤں میں جی رہا ہوں!

(۲۳: خلاصہ)نمازِ ظہر کی ادائیگی کے بعد  دوپہر کھانے کی ترتیب تھی، کھانے سے فراغت کے بعد حضرت دادا شیخ دامت برکاتہم سے صدیق زمانہ حضرت میر صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے اپنی گہری وابستگی کا  کچھ دیر تک تذکرہ فرماتے رہے،پھر قیلولہ فرمایا۔

(۲۳: آڈیو) دوپہر کھانے کے بعد صدیق زمانہ حضرت میر صاحب رحمۃ اللہ علیہ  کا تذکرہ،ارشاداتِ محبت:  حضرت میر صاحب سے گہری محبت کا تعلق تھا، حضرت دادا شیخ کو حضرت میر صاحب ؒ نے خط لکھا تھا کہ پوری دنیا میں حضرت والاکے بعد آپ میرے سب سے زیادہ محبوب ہیں!۔۔آہ ہم سے اُن کی قدر نہ ہوسکی، بہت ہی مخلص تھے۔۔۔۔ منکرات کو بالکل برداشت نہیں فرماتے تھے اور حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ  کے مسلک و تعلیمات پر سوجان سے فدا تھےاورسرِ مو انحراف اُن کو بالکل برداشت نہیں تھا۔۔۔گوارا نہیں فرماسکتے تھے اس معاملے میں ان کی عجیب شان تھی! اُن کی صحبت میں بیٹھ کر ہمیں نفع عظیم ہوتا تھا۔۔ حضرت حکیم الامتؒ کے علوم و معارف کی خصوصیات، امتیازات ،خاص خاص باتیں فرمایا کرتے تھے۔۔۔حُبِّ شیخ میں عدیم المثال تھے، حضرت میر صاحب ؒ کی  اس عظیم الشان نایاب محبتِ شیخ   پر حضرت دادا شیخ دامت برکاتہم نےایک واقعہ بھی بیان فرمایا جس سے معلوم ہوا کہ حُبِّ شیخ میں عجیب عالم تھا۔۔۔

(۲۴: خلاصہ)نمازِ عصر سے پندرہ منٹ پہلے حضرت دادا شیخ قیلولہ فرماکر بیدار ہوئے، نمازِعصر کے لیے مسجدتشریف لے گئے، نماز کے بعد واپسی پر حضرت شیخ دامت برکاتہم کا ارادہ تھا کہ غرفۃ السالکین میں موجود مختلف شعبہ جات کا  حضرت دادا شیخ دامت برکاتہم کو دورہ کروایا جائے، جس کو حضرت دادا شیخ نے منظور فرمایا  اور عصر نماز مسجد اختر میں ادا کرنے کے بعد واپسی پر مختلف شعبہ جات  جن میں استقبالیہ دارالافتاء، اصلاحی مشورہ کا روم، کمپیوٹر روم کا تفصیلی دورہ فرمایا پھر حجرۂ مبارک میں ادارہ تالیفاتِ اختریہ سے چھپنے والی مطبوعات کا جائزہ لیا، ایک صاحب سے مزاح، مفتی انوار صاحب کی تعریف۔۔۔مغرب نماز کی تیاری۔۔۔ یہاں تک کی آڈیودرج ذیل مضامین کی تفصیل کے ساتھ منسلک ہے:

(۲۴: آڈیو) نمازِ عصر کے بعد غرفۃ السالکین میں موجود شعبہ جات  کا تفصیلی دورہ،ارشادات اور دعائیں: ہمارے حضرت شیخ نے تمام شعبہ جات کے کمروں میں ہونے والے کاموں  کا تعارف کروایا! سب سے پہلے مرکزِ الافتاء وارشاد کے استقبالیہ کے کمرہ میں تشریف لے گئے وہاں موجود مفتیانِ کرام سے حضرت دادا شیخ دامت برکاتہم نے ملاقات فرمائی، کچھ باتیں فرمائیں پھر وہاں سے متصل اصلاحی مشورے کے کمرہ میں تشریف لائے جس کا تعارف حضرت شیخ کرواتے جارہے تھے بعد ازیں کمپیوٹر روم میں حضرت دادا شیخ دامت برکاتہم رونق افروز ہوئے اور وہاں بھی سب احباب سے فرداً فرداً ملاقاتیں فرمائیں ، کاموں کا جائزہ لیا خوب دعائیں دیں کہ ماشاء اللہ حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ جس طرح چاہتے تھے ویسے ہی یہاں کام ہورہا ہے۔۔۔ پھر وہاں سے اپنے حجرہ ٔ مبارک میں تشریف لے گئے وہاں پر ہمارے حضرت شیخ شاہ فیروز عبد اللہ میمن  مدظلہ نے  حضرت دادا شیخ کو ادارہ تالیفاتِ اختریہ کے تحت چھپنے والے مواعظ و کتب پیش فرمائیں ، ایک ایک وعظ کو حضرت دیکھتے جاتے تھے اور دعائیں دیتے جاتے تھے،  حضرت شیخ دامت برکاتہم نے اپنا ایک وعظ "تصویر کشی اور میڈیاکی تباہ کاریاں"  جوکہ حضرت دادا شیخ  کے حکم پر ہمارے شیخ نے چھپوایا ، اُس میں کچھ عبارتیں حضرت کی اجازت سے  پڑھ کر سنائیں۔۔۔ ایک ساتھی حضرت کو ایک ایک وعظ دیکھاتے جاتے تھے ، مواعظ کےٹائٹل کے عنوانات سے حضرت دادا شیخ نے بہت خوشی کا اظہار فرمایا اور پوچھا کہ یہ سب نام حضرت میر صاحب نے رکھے ہیں ؟ حضرت شیخ نے فرمایا جی حضرت ! اس بہت خوش ہوئے ۔۔۔ خدام سے فرمایا کہ یہ سارے مواعظ ہم ساتھ لے جائیں گے۔۔۔ پھر اصلاحی خطوط کے ساتھ بھیجے جانے والے اصلاحی پرچے بھی ملاحظہ فرمائے۔ پھر ہمارے ایک پیر بھائی جو بہت سوتے ہیں، حضرت شیخ  دامت برکاتہم نے اُن سے متعلق کچھ پرمزاح باتیں ارشاد فرمائیں وہ صاحب خوب ہنستے رہے اور حضرت دادا شیخ دامت برکاتہم بھی خوب لطف لیتے رہے، حاضرینِ مجلس بھی مست و سرشار تھے۔ مجلس کے  اختتام پر مسجد اختر کے امام اور صدیق زمانہ حضرت والا میر صاحب ؒ کے خادم و خلیفہ مفتی انوار صاحب کی تعریف فرمائی کہ حضرت میر صاحب ؒ کی انتہائی اہتمام کے ساتھ خدمت کرتے تھے ، اہل اللہ کی خدمت بیکار نہیں جاتی اس کے دینی و دنیاوی ثمرات ملتے ہیں۔۔ غرفۃ السالکین کے ماحول کی تعریف فرمائی بالکل حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ کا رنگ ہے۔۔ ماشاء اللہ! 

(۲۵: خلاصہ)نمازِ مغرب کے بعد حضرت دادا شیخ دامت برکاتہم حسب معمول اللہ کی محبت کی باتیں ، اکابر کی عظمت و محبت کے قصے سنانے لگے خصوصاً حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ اور حکیم الامت مجددِ الملت حضرت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا تذکرۂ والہانہ فرمایا۔ ان حضرات کےمواعظ و ملفوظات کے مطالعہ کی اہمیت  اور گمراہ لوگوں کی کتابوں اور صحبت سے بہت بچنے کی نصیحت فرمائی۔ علماء کرام کو عظیم الشان نصائح سے نوازا، عظیم الشان علمی و الہامی مجلس مختصر تفصیل کے ساتھ منسلک ہے:

(۲۵: آڈیو) نمازِ مغرب غرفۃا لسالکین میں عظیم الشان مجلس میں اکابرِ دین کی شانِ علمی و اصلاحی پر زبردست ارشادات: اپنے استادِ کبیر محدثِ عظیم مولانا ہدایت اللہ صاحب کا تذکرہ ، خانقاہ تھانہ بھون حضرت حکیم الامتؒ  کی صحبت میں رہے اور حضرت تھانویؒ  کے مہمان ہوا کرتے تھے، بہت شفقتیں ملیں۔۔۔اتنے برس حضرت حکیم الامت ؒ کی صحبت اُٹھانے والے ہمارے حضرت والا شیخ العرب والعجم رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں فرماتے تھے کہ حضرت والا نے حضرت حکیم الامت ؒ کی تعلیمات کو آسان کرکے پیش فرمایا۔۔۔۔اولاً ہمارے شیخ کے مواعظ و ملفوظات کا مطالعہ کرے پھر حضرت حکیم الامت رحمہ اللہ کے مواعظ و ملفوظات کا مطالعے کرے پھر دیکھے کہ  کتنا نفع ہوتا ہے۔۔۔مقبولینِ حق کے کلام میں نور ہی نور ہوتا ہے۔۔۔اس پر فرمایا کہ اکابرِ دین کےمضامین اگر سمجھ میں نہ بھی آئیں پھر بھی کتاب کھول کر صرف ورق گردانی کرے  اس سے بھی انوار حاصل ہوتے ہیں۔۔۔جیسا کہ ایک آدمی کو قرآن پاک پڑھنا نہیں آتا لیکن پھر بھی وہ  محبت سے قرآن پاک کو دیکھے اِس سے اُس کے قلب میں انوار منتقل ہوں گے۔۔۔۔اسی طرح  گمراہ لوگوں کی کتابوں کو نہیں پڑھنا چاہیے۔۔۔ ان کے ساتھ بیٹھنا بھی مضر، ان کے ساتھ رشتہ داری وغیرہ کرنا بھی مضر۔۔۔ایک ساتھ بیٹھ کر دستر خوان پر کھانا کھانے کا معمول رکھنا یہ بھی مضر ہے۔ حدیث پاک میں بھی اِس سے ممانعمت آئی ہے۔۔۔مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کے علوم و معارف کا طویل تذکرہ فرمایا کہ ان کے عالی علوم و مضامین کو سمجھنا بہت مشکل ہے۔۔۔اس پر حضرت گنگوہی رحمہ اللہ کا عظیم الشان جملہ نقل فرمایا کہ افسوس ہے کہ لوگ چاہتے ہیں کہ شہبازِ عرش فرش پر اُتر آئے ۔۔یہاں  پر  حضرت دادا شیخ دامت برکاتہم نے اپنا ایک واقعہ بیان فرمایا کہ حضرت قاسم نانوتویؒ کے مضامین کو سمجھنے کی  کوشش کی تو کیا حال ہوا۔۔ پھرحضرت حکیم الامت ؒ کے ملفوظ نے رہنمائی فرمائی۔۔۔غیر عالم حضرات بھی اگر اکابرِ دین کی کتاب کھول کر بیٹھ جائیں دیکھا کریں اگر سمجھ نہ بھی آئے تب بھی انوار حاصل ہوں گے ۔۔۔۔ اور علماء کو نصیحت فرمائی کہ گمراہ لوگوں کی اچھی اچھی باتوں پر مشتمل تصنیفات سے بھی استفادہ نہ کریں بالکل الگ رہیں۔۔ گنجائش تو ہے لیکن انفیکشن کا خطرہ بھی شدید ہے اُس کا بھی خیال رکھیے گا! اس پر ایک بڑے علامہ کا واقعہ ذکر فرمایا کہ وہ گمراہ لوگوں  کی تصانیف کا ضرورتِ دینیہ سے مطالعہ کررہے تھے لیکن جیسے ہی مطالعہ کرتے  دل میں اندھیرا چھا جاتا تھا اِس کا  اُن کا بہت غم ہوا، معلوم ہوا کہ صاحبِ نسبت تھے جب ہی احساس ہوا، انہوں نے حضرت حکیم الامت کو لکھا تو حضرت نے عجیب جواب ارشاد فرمایا کہ ضرورت سے آپ مطالعہ کررہے ہیں لیکن گمراہ کے کلام میں ظلمات ہی ظلمات ہیں لہٰذا اِس کی تلافی استغفار ہے، دل دھل جائے گا۔۔۔ اس لیے بزرگانِ دین سے گمراہ لوگوں کی تصنیفات تحریرات پڑھنے سے منع فرمایا۔۔۔بعض لوگوں کو بڑے ہمت ہوتی ہے کہتے ہیں کہ مطالعہ کرنا چاہیے لیکن بھئی اولاً یہ دیکھےکہ صراطِ مستقیم ہمارا محفوظ رہے، اُس کی حفاظت کے ساتھ آگے چلنا ہے! پھر سارے عالم کے علوم کا پڑھنا کیا ضروری ہے؟اول کام تو یہ ہے کہ اپنے مالک کو راضی کرے۔اُس کے لیے اتباع شریعت ضروری ہے۔۔۔۔ہمارے حکیم الامت ؒ فرماتے تھے کہ علم مقصود بذات نہیں ہے، علم مقصود ہے برائے اطاعتِ الٰہیہ! اصل مقصود اطاعت  و عبادت ہے!اُس کے لیے علم کی ضرورت پیش آتی ہے۔۔۔اگر اطاعت حاصل نہیں تو علم سے کیا فائدہ!اور اگر اطاعتِ کاملہ حاصل ہےتو علومِ تفصیلہ اگر نہ بھی حاصل ہوں تو نقصان نہیں ہے! ہاں ایک کمی رہ گئی لیکن یہ کمی آخرت کے لیے مضر نہیں ہے! لیکن علم کی عزت، شرف اور عظمت وہ تو ہے!علمِ دین کا بڑا مقام ہے!لیکن علم ہی علم ہے عمل کی فکر نہ ہو تو پھر کیا ہے!۔۔۔ اس پر حضرت گنگوہی ؒ کا ملفوظ بیان فرمایا جب اُن سے پوچھا گیا کہ آپ عالمِ دین اور فقیہ عالم ہوتے ہوئے حضرت حاجی صاحب ؒ کی خدمت میں کیوں گئے؟ فرمایا اس لیے گئے کہ ہماری معلومات معمولات بن جائیں!۔۔۔ عمل والی اطاعت والی زندگی صحبتِ اہل سے حاصل ہوتی ہے، اشکال ہم تو اہل اللہ کے پاس جانے سے پہلے ہی نیک ہیں، پھر کیوں جانا پڑے گا؟ اس کا الہامی جواب اس  پر عجیب و غریب حکیم اور مریض کی مثال بیان فرمائی کہ مریض نہیں سمجھتا کہ حکیم کس کا علاج کررہا ہے وہ تو سمجھتا ہے کہ میں صحیح ہوں! لیکن حکیم مریض کی آواز سے مرض سمجھ جاتا ہے کہ سینے میں انفیکشن ہوگیا تو دوا دیتا ہے۔۔۔اسی لیے فرمایا اپنے گوہرِ علوم و معارف، گوہر عبادات کو کسی صاحبِ نظر کو دِکھائیے!۔۔لوگوں کی تعریف سے کچھ نہ ہوتا ، کسی عارفِ کامل کی نگاہِ منور سے ٹیسٹ کروانا چاہیے کہ ہمارا عمل کہاں تک ٹھیک ہے؟ اس پر حضرت صدیق اکبرؓ کا سوال حضورﷺ سے کہ جب نماز ختم ہوجائے تو اختتام پر ہم حق تعالیٰ سے کیا عرض کریں؟ جواب نبوت کہ کہو اللھم انی ظلمت نفسی ۔۔الخ دعا کا ترجمہ اور  اس پر مقامِ شانِ صدیقِ اکبر ؓ  کا والہانہ ذکر ۔۔۔ گناہوں سے جو ہم استغفار کرتے ہیں وہ بھی واجب الاستغفار ہوجاتا ہے، اس لیے فرمایا کہ مغفرت مانگو کہ اپنے کرم سے معاف فرمادیجیے۔۔۔ حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکی  رحمہ اللہ  ساری رات کعبہ شریف میں  بے تحاشا روتے رہے  یہ شعر پڑھتے اے خدا ای بندہ را رُسوا مکن۔۔۔الخ ۔ اس میں کیا حضرت حاجی کی عبدیت ہے، کیا فنائیت ہے کیا اخلاص ہے!کیا عظمتِ الٰہیہ کا استحضارہے اتنےمٹنے والے اللہ اکبر!جو بڑے ہوتے ہیں اُن کی شانِ ایمان اِس طرح ہوتی ہے، شانِ استحضارِ الٰہیہ کا مقام ایسا ہوتا ہے!۔۔ اسی لیے اللہ والوں کے پاس جانا پڑتا ہے کہ جو امراض ہیں، بیماریاں، کمزوریاں ہیں، پردے ہیں، وہ سمجھ میں بھی آئیں پھر صاف کرنے کی توفیقات عنایت ہوں! حکیم الامت کا ملفوظ کہ’’اہل اللہ کی خدمت میں جانے کا کمترین فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اپنے عیوب نظرآنے لگتے ہیں اور یہ بھی کافی ہے‘‘عجیب! اور یہ کافی  کیسے ہوگا صحبتِ اہل اللہ کی برکت سے قلب میں انوارات اس طرح سے آتے ہیں کہ جس کی روشنی میں اپنی تقصیرات، اپنے عیوب، اپنے نقائص نظر آتے ہیں اس پر مثال عطا فرمائی کہ ایک آدمی جب دیکھتا ہے کہ میرے   کپڑے میں جسم میں پاخانہ لگا ہے تو وہ بیٹھا رہے گا دھونے کے لیے بے چین ہوجائے گا۔۔جب دیکھنے کی توفیق ہوئی تو ساتھ ساتھ بے چینی بھی پیدا ہوگی اُس سے پاک ہونے کی پھر توفیق استغفار بھی عنایت ہوگی اور پھر پاک و صاف زندگی بھی حاصل ہوجائے گی! اِسی لیے فرمایا کہ یہ بھی کافی ہے! (سبحان اللہ)! یہ بات ختم فرماکر فرمایا کہ میرا کوئی ارادہ بیان کا نہیں تھا لیکن عشاقِ حق  طالبین حق کے آنے سے خیال ہوتا ہے کہ ایک دو بات سنا دیتے ہیں۔ پھر غرفۃ السالکین کے حجرۂ مبارک سے باہر دور تک ہال میں کھڑے اور بیٹھے محبین کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ حق تعالیٰ کا کرم اور فضلِ خاص ہے کہ کتنا بڑا الحمدللہ مجمع ہے!  پھر سب کو خوب دعائیں دیں۔۔۔ سندھ بلوچ سوسائٹی کے لیے حضرت والا ؒ کی’’تمنائے بستی صالحین‘‘ ہونے کی دعاؤں کے ظہور کا تذکرہ فرمایا  کہ چاروں طرف حضرت والا  رحمہ اللہ  کے متعلقین اورمحبین ہی محبین  ہیں ماشاء اللہ!۔۔۔خواتین کو پردے سے بیان سننے پر اگر کچھ سمجھ نہ بھی آئے تو  سننے سے ہی قلب میں نور آئے گا، ۔۔۔امام مسلم رحمہ اللہ کا واقعہ بیان فرمایا کہ مطالعۂ دین میں انہماک کی وجہ سے کھجور کا ٹوکرا کھاگئے ، احساس بھی نہ ہوا۔۔۔ دعا ؛ عافیت والی زندگی مانگنا چاہیے اور ہر دُعا میں عافیت کی درخواست کرے، حضورﷺ نے فرمایا کہ جب بھی اللہ تعالیٰ سے مانگو عافیت ضرور مانگا کرو، عافیت کی اتنی اہمیت ہے۔۔۔دعا قبول ہو یا نہ ہو اللہ تعالیٰ کی حضور دعا کرنا حاضری دینا خود عظیم الشان نعمت ہے۔۔۔۔ اس پر ایک صاحب کا واقعہ بیان فرمایا جو کسی دنیاوی بادشاہ سے مل آئے تھے پھر ہر ایک کو بتاتے رہتے ہیں ۔۔۔دعامیں انتہائی قرب عطا ہوتا ہے سوچئے یہ کتنا بڑا شرف ہے!۔۔۔ دعا قبول ہونا  تو اور بات ہے دعا کرنے کی توفیق بھی بہت بڑی بات ہے!

(۲۶: خلاصہ)نمازِ مغرب کے بعد غرفہ میں بہت عظیم الشان علمی و الہامی مجلس کے بعد حضرت دادا شیخ دامت برکاتہم نےنمازِ عشاء کی تیاری فرمائی, اِس دوران ہمارے شیخ دامت برکاتہم بھی حاضرخدمت تھے اُن سے کچھ باتیں فرماتے رہے، صدیق زمانہ حضرت میر صاحب اورحضرت والا ؒ کی آپس میں وابستگی کا ذکر فرمایا اور لطیفہ سنایا اور ہمارے شیخ دامت برکاتہم کے گھر میں سے ایک خط کا ذکر  فرمایا جو حضرت دادا شیخ دامت برکاتہم کی خدمت میں لکھا گیا تھا جس میں خوب عقیدت کااظہار تھا، خوش ہوئے۔ رفتہ رفتہ  ہجوم عشاق کے ساتھ مسجد اختر  پہنچ گئے، نمازِ عشاءادا فرمائی جس کے بعد حضرت داداشیخ نے بہت ہی درد بھرا بیان فرمایا جس کی مختصر تفصیل آڈیو کے ساتھ منسلک ہے:

(۲۶: آڈیو)نمازِ عشاء سے پہلے مختصر گفتگو اور مسجد اختر میں بیان :"اللہ والوں کے ساتھ رہنے والا شقی نہیں رہتا"

بیان کے اہم مضامین

 00:42) مفتی انوار صاحب نے اسوۂ رسول ﷺ سے آپ ﷺ کی خشیت الٰہیہ کا بیان 02:40) حضرت دادا شیخ دامت برکاتہم کے حکم سے حضرت مولانا شاہین اقبال صاحب نے اشعار سنانا شروع کیے۔ 19:59) مولانا عبد الکریم صاحب نے حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ نے اشعار’’آہ جو دل ترے غم کا حامل نہیں‘‘ پڑھے 27:23) حضرت دادا شیخ دامت برکاتہم نے خطبہ پڑھ کر بیان شروع فرمایا 28:44) جو اللہ کا ہوگیا اُس کو سب کچھ حاصل ہوگیا، جس کو اللہ نہ ملا اُس کو کچھ نہ ملا! خواجہ صاحب کاشعر۔۔ جو تُو میرا تو سب میرا۔۔۔ اور شعر ’’دل ازل سے تھا کوئی آج کا شیدائی ہے‘‘۔۔ ( بہت گریہ سے روتے ہوئے یہ شعر پڑھا) 30:34) حاجی صاحب نے فرمایا: شیخ کا نام ہوتا ہے ، اس لیے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں پیدا فرمایا اُسی وقت ہمارے اندر محبت رکھ دی لیکن جب اللہ والے کے ساتھ تعلق قائم کرتا ہے جب ہی اُس کا انکشاف ہوتا ہے، ماچس کی رگڑ مثال سے بات سمجھائی، شیخ کی رگڑ سے طالب کے روح میں اللہ تعالیٰ کی محبت جل اُٹھتی ہے 32:22) جو اللہ کے لیے غم اُٹھاتا ہے اُس کو دنیا میں ہی جنت کا مزہ ملتا ہے۔ شعر: لطف جنت کا جسے تڑپنے میں ملتا نہ ہو ۔۔۔بس اللہ تعالیٰ ہمارے لیے اپنا راستہ آسان فرمادے! لذیذ فرمادے!۔ حضرت پھولپوریؒ کا ملفوظ: اہل اللہ کی صحبت سے جنت کا راستہ صرف آسان نہیں مزیدار ہوجاتا ہے۔ 34:27) عجیب بات ہے ۔۔۔ مدت دراز تک انسان گناہوں سے بچتا ہے، تو اپنے کو فرشتہ سمجھنے لگتا ہے، لیکن یہ نفس اچانک ڈستا ہے، بےفکر نہ رہے۔ نفس ہمیشہ برائی کی طرف کھینچتا رہے گا اس کا کام یہی ہے۔۔بالکل پکی بات ہے۔قرآن پاک کی آیت ان ان النفس لأمارة بالسوء کی تشریح۔۔ 37:29) نفس اور شیطان کے وسوسے میں فرق ۔۔ بار بار گناہوں کا تقاضا نفس کی طرف سے ہوتا ہے، نفس شیطان سے بڑا دشمن ہے، اور ہمارے پہلو میں ہے، لیکن حق تعالیٰ نے ساتھ ہی فرمادیا کہ الا ما رحم ربي۔ کہ اگر میرے رحمت میں آجاؤ گے تو بچ جاؤ گے بالکل آسان ہے 39:02) آپ ﷺ کی یہ ذمہ داری تھی کہ آپ قرآن پاک کو سمجھادیں! تشریح و تفسیر فرمائی کہ اللہ کی رحمت کے سائے میں کس طرح آتے ہیں، اس پر حدیث پاک: حضور ﷺ فرمایا کہ اللهم ارحمنی بترک معاصیک۔ جو گناہوں سے بچتا ہے وہ اللہ کی رحمت کے سائے میں رہتا ہے، اور ایک اور حدیث کا مفہوم ہےکہ جو اللہ والوں کے ساتھ رہتا ہے اس میں سعادت ہی سعادت رہی گی شقاوت اس کے پاس نہیں آسکتی رحمت ہی رحمت رہے گی۔ 42:03) خواجہ صاحب کا درد بھرا شعر اور اس کی تشریح۔ "جو چپ بیٹھوں تو اک کوہِ گراں معلوم ہوتا ہوں"۔۔۔ عارفین کو حق تعالیٰ ادراک بھی عطا فرماتے ہیں کہ اُن کے قلب میں عطا فرمادیتے ہیں کہ تُو تَو میرا ہے، اس لیے  پھر اُس کو محبوب پاک کو راضی کرنے کا غم ہمیشہ لگا رہتا ہے، اللہ کی ناراضگی سے بچنے کا غم ہی دردِ دل ہے، جس دل کو حق تعالیٰ کا غم عطا نہیں ہوتا وہ دل دل ہی نہیں 44:55) عجیب بات کہ ! ایک طرف انسان کو حقیر چیز سے پیدا کیا اور دوسری طرف یاد الٰہی کی توفیق دی، اللہ تعالیٰ نے  خود ہی فرمایا کہ اگر تم نے ہمیں یاد کیا تو ہم تمہیں ہمہ وقت یاد رکھیں گے۔ 45:53) ایک بزرگ حضرت حکیم الامت سے ملنے گئے! انہوں نے حضرت تھانوی کو اُٹھنے میں مدد دی تو حضرت تھانویؒ نے فرمایا کہ وہاں بھی ہمارا خیال رکھیے گا!۔۔ سبحان اللہ!  کچھ کج فہم لوگ اس پر بھی اعتراض کرتے ہیں کہ ایسا کہا حالانکہ اللہ والوں  کوبھی اللہ تعالیٰ شفاعت کا  اختیار دیں گے تو یہی تو ہے کہ "وہاں ہمارا خیال رکھیے گا"۔ 48:10) بندہ مجاہدہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے راستہ آسان فرماتے رہتے ہیں۔ 49:51) حدیث ھم الجلساء لا یشقی جلیسہم ۔۔۔ کی عاشقانہ تشریح 51:12) عام مسلمان تو گناہوں سے ڈرتے ہیں ، اور اہل اللہ اس بات سے ہمیشہ ڈرتے رہتے ہیں کہ کہیں میں مردود نہ ہوجاؤں، جتنی عظمت الٰہیہ کھلتی جاتی ہےہے تو ہروقت یہی ڈر لگا رہتا ہے۔ 53:01) حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کے لیے کاملین کی زبان سے رومیٔ ثانی کا لقب عطا ہوا۔ حدیثِ محبت کا بیان:حق تعالیٰ جب کسی سے محبت فرماتے ہیں تو حضرت جبرئیل علیہ السلام بھی محبت فرماتے ہیں پھر سب فرشتے بھی محبت کرتے ہیں پھر پوری دنیا میں اس سے محبت کرنے والے پیدا ہوجاتے ہیں۔ مولانا رومی ؒ کی شعر کی تشریح از کرم از عشق معزولم مکن۔۔۔ کی عاشقانہ تشریح 56:19) حضرت خواجہ صاحب کا سوال اور حضرت حکیم الامت کا جواب: سوال کہ جب نسبت  عطا ہوتی ہے تو کیا معلوم ہوجاتا ہے، جواب: خواجہ صاحب جب آپ بالغ ہوئے تھے تو کیا معلوم نہ ہوا تھا؟ عجیب۔۔۔تو جسم جب بالغ ہوتا ہے  اس کا احساس ہوجاتا ہے تو جب روح بالغ ہوتی ہے تو رَگ رَگ میں اس کا ادراک ہوتا ہے، جیسے بخار سے جسم کے رَگ رَگ میں احساس ہوتا ہے اسی طرح تعلق مع اللہ کی گرمی کا احساس روح کو ہوجاتا ہے، تب ہر وقت اللہ تعالیٰ پر روح فدا رہتی ہے جس سے پھر جسم بھی فدا رہتا ہے۔ 58:20) حق تعالیٰ کے اپنے بندوں سے محبت کے انداز۔ فرماتے ہیں فاذکرونی اذکرکم۔۔ کہ میرے بندوں مجھے یاد کرو گے تو میں تمہیں یاد کروں گا۔ جب محبت ہوجاتی ہے سب آسان ہوجاتا ہے، جیسے یہ حضرت والا کا عجیب محبت بھرےاشعار  ہیں: سلہٹ کے رہنے والوں مجھ کو نہ بھول جانا۔۔۔ یہ سن کر وہاں سہلٹ میں سب بہت رونے لگ تھےے۔ 01:01:04) قرآن و حدیث کسی عارف کامل سے پڑھنی چاہیے تو عجیب تاثیر ہوگی، اسی کو حضرت گنگوہی فرماتے تھے حدیث پڑھنے پڑھانے کا مزہ جب ہے جب پڑھنے والا بھی صاحب نسبت ہو اور پڑھانے والا بھی صاحب نسبت ہو! 01:02:33) نفس سے حفاظت جب ہوگی جب اللہ کی رحمت کے سائے میں رہو گے! 01:04:19) دعا :  اللہ تعالیٰ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ کے دردِ دل سے شیخ کے صدقے ہمیں بھی نوازدیں! 01:06:19) واقعہ حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ۔۔۔ اللہ کو اللہ کے لیے چاہو، عاشق ذاتِ الٰہی رہو کہ اول نمبر پر اللہ کو چاہو پھر دوسرے نمبر پر جنت کو چاہو کہ وہاں اللہ کے دیدار سے مشرف ہوگا۔ 01:12:58) مقربین الٰہی کی برکت سے گناہ گار بھی اللہ کی رحمت پاجاتے ہیں، یہ ایسی کاملین کی جماعت ہے کہ ان کے ساتھ جو ہم نشیں ہوتا ہے اُس کو بھی انعامات سے نوازدیں گے سعید ہوجائیں گے، شقی نہ رہیں گے۔ یہ اللہ والوں کا اکرام ہے کہ ان  کی خاطران کی صحبت کی برکت سے شقی سعید ہوجاتے ہیں اس پر ۔۔۔ حضرت ڈاکٹر عبد الحئی عارفیؒ   کا شعر فرمایا کہ  اُن سے ملنے کی یہی ہے راہ ۔۔۔۔ ملنے والوں سے راہ پیدا کر۔۔۔ 01:15:58) دونوں کام کرنے ہیں: مجاہدات اور تعلقِ اہل اللہ ! اور یہ بھی یاد رکھیں کہ تعلق اہل اللہ مضبوط ہو، اس لیے کہ چار حق مرشد کے ہیں :اطلاع و اتباع، انقیاد و اعتقاد۔۔ 01:17:29) حضرت گنگوہی کے ایک ملفوظ کو حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے سہل فرمادیا۔۔۔ فرمایا کہ شیخ کو تمام عالم سے اپنی اصلاح کے لیے انفع سمجھے۔۔۔ 01:18:18) مناسبت پر علم عظیم، دل دل سے لیتا ہے! اللہ والوں کے ساتھ بیٹھنے والوں کو اس کی خبر بھی نہیں ہوتی کہ اللہ والوں کےاوصاف، چاہت سب منتقل ہوجاتیں ہے اور اُس طالب کو پتہ بھی نہیں چلتا 01:20:39) حضرت ہردوئی رحمۃ اللہ علیہ کی شان کا بیان کہ  یہی دو باتیں زیادہ فرماتے تھے گناہوں کو چھوڑ دو۔۔۔ اتباع سنت کرو۔ اتباع سنت اور منکرات کا انکار حسبِ استطاعت۔ فرماتے تھے کہ اچھی باتوں کےلیے تو جماعتیں ہیں کیا نکیرِ منکرات کےلیے بھی جماعتیں ہیں؟ 01:23:01) حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا ملفوظ: جب تک نسبت راسخ نہ ہو تو مختلف مشایخ کے پاس جانا اچھا نہیں ہے، پھر جب نسبت راسخ ہوجائے گی تو پھر کہیں جانے کا دل ہی نہ چاہے گا ۔ 01:23:57) حضرت دادا شیخ دامت برکاتہم کے چھوٹے بھائی کا واقعہ بیعت بیان فرمایا۔۔حضرت والا رحمہ اللہ علیہ  نے حضرت دادا شیخ سے فرمایا کہ اپنے چھوٹے بھائی سےجا کرپوچھو کہ میں(یعنی حضرت والا) کیسا لگتا ہوں؟۔۔۔ 01:25:48) اللہ کا راستہ ایسا ہے کہ بس چلتے رہنا ہے۔۔۔ چلتے رہنا ہے ، اگر کہیں غفلت ہوجائے تو توبہ کرلو، اگر شیخ کے ساتھ چل رہے ہیں تو غلطیاں ہوں گی شیخ کو بتادو وہ سمجھا دے گا تو ان شاء اللہ منزل تک پہنچ جائیں گے۔ 01:27:40) حضرت دادا شیخ دامت برکاتہم نے ہمارے حضرت شیخ دامت برکاتہم کی محبت کا تذکرہ فرمایا کہ مسجد اختر میں آکر مجھے بہت خوشی ہے! کہ وہی بہاریں ہیں ماشاءاللہ! مجھے بہت خوشی ہے یہاں آکر!ماشاء اللہ سب پرانے احباب سے ملاقات ہوگئی۔۔ 01:32:09) مولانا سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کا تذکرہ کہ کس طرح حضرت حکیم الامت حضرت تھانویؒ سے تعلقِ بیعت ہوا! پھر کیسے دیوانے ہوئے اور حضرت مجدد کےسامنے اپنے کو مٹادیا ۔۔۔۔۔۔حضرت حکیم الامتؒ کی شانِ کہ بڑے بڑے گناہ گاروں کو ایسی تسلی دیتے تھے کہ کام بن جاتا ہے۔ مشایخ پر لازم ہے کہ طالبین کے قلب کی تسلی کا خیال رکھیں!مجاہدات اور صحبتِ دیوانگان دونوں ضروری ہیں! نفس کی حرام خواہشات کو پھانسی دے دو تو اللہ کو پاجاؤ گے۔پیر جنگی کے جذب کا واقعہ۔۔ پھر دوبارہ حضرت مولانا سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے تعلق مجدد الملت حضرت شیخ تھانوی ؒ کا واقعہ مکمل فرمایا! 01:41:09) حضرت شیخ نے آخر میں رجسٹرر سے حضرت دادا شیخ دامت برکاتہم کے بیان سنے جانے کی تفصیل بیان فرمائی اور حضرت دادا شیخ نے درد بھری دعا فرمائی! 

(۲۷: خلاصہ)عشاء کا بیان بہت عظیم الشان علوم و معارف پر مشتمل تھا ، بیان کے بعد حضرت دادا شیخ دامت برکاتہم مسجد سے غرفۃ السالکین واپس آنے لگے تو  غرفۃ السالکین کے  ہال جناب سید ثروث حسین صاحب نے  مولانا منصور صاحب کے اشعار" رشکِ مہتاب جو محفل میں ہوئے جلوۂ فروز ۔۔درودیوار سے چھن چھن کے ضیاء آنے لگی" پھر ثروت صاحب کو دعائیں دیں۔۔۔۔۔حجرۂ مبارک میں جاتے ہوئے ایک صاحب کے بیٹے کو عظیم الشان دُعا دی اور دیگر احباب کودعائیں دیتے ہوئے حجرہ ٔ مبارک میں رونق افروز ہوئے جہاں رات کھانے کی ترتیب تھی، کھانے سے فراغت کے بعد کچھ دیر مزاح کی مجلس ہوئی،جس کے بعد اس حوالے سے  نصائح بھی فرمائیں کہ ایسی مجالس کے بعد استغفار لازم ہے تاکہ دل دھل جائے۔اس لیے استغفار بھی کیا جائے اور مجلس سے اُٹھنے کی دعا بھی پڑھی جائے۔۔۔

(۲۷: آڈیو)بیان کے بعد غرفۃ السالکین واپس تشریف آتے ہوئے اور حجرۂ مبارک میں مختصر اہم ارشادات

چوتھے دن کی تمام آڈیوز کو محفوظ کرنے کےلیے کلک کیجیے!

بقیہ دنوں کی رُوداد کےلیے درج ذیل لنک پر کلک کیجیے

۳۰ نومبر بروز ہفتہ.......یکم دسمبر برو ز اتوار.......۲ دسمبر بروز پیر......۴ دسمبر بروز بدھ.......۵ دسمبر بروز جمعرات

۶ دسمبر بروز جمعہ.......۷ دسمبر برو ز ہفتہ.........۸ دسمبر بروز اتوار.........۹ دسمبر بروز پیر.........۱۰ دسمبر بروز منگل 


 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries