--( بعد عصرومغرب مجلس اور بعد عشاء عظیم الشان اُمید افزاء یادگار بیان)--

۴ دسمبر ۲۰۱۹ء بروز بدھ

(۲۸: خلاصہ) نمازِ فجر کی ادائیگی کے بعد حضرت دادا شیخ دامت برکاتہم کا معمول ظہر نماز تک آرام کرنے کا تھا، اس لیے  ظہر سے کچھ دیر پہلے بیدار ہوئے ، نمازِ ظہر کی ادائیگی کے بعد کچھ دیر مختصر مجلس فرمائی پھر کھانے کی ترتیب تھی، کھانے سے فراغت کے بعد حسب معمول کثیر تعداد میں احباب حضرت کے حجرۂ مبارک میں جمع تھے ، کمرہ مکمل طور پر بھر چکا تھا، ہمارے حضرت شیخ، حضرت مفتی نعیم صاحب اور دیگر خدام حاضرِ خدمت تھے۔ باہر بھی احباب زیارت سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کررہے تھے،  حجرہ کے دروازے شیشے کی سلائیڈنگ پر مشتمل ہیں جس پر پردہ ڈلا رہتا ہے اور بوقت ضرورت پردہ کھول دیا جاتا ہے ، احباب کی محبت کا یہ عالم تھا کہ باہر شیشے سے زیارت کرتے تھے اور دروازے سے چپکے رہتے تھے کہ جیسے ہی جگہ ملے اندر چلے جائیں لیکن ظاہر ہے کہ کمرہ مکمل بھر جاتا تھا تو احباب کو باہر بیٹھنا پڑتا ہے، آنکھوں سے زیارت کرتے تھے اور محسوس کرتے تھے کہ اندر حضرت دادا شیخ دامت برکاتہم ملفوظات کے موتی بکھیر رہے ہیں لیکن جب حضرت دادا شیخ دامت برکاتہم کی اجازت دیتے تب باہر کے اسپیکر کھول دیے جاتے  اور احباب دید کے ساتھ شنید کی لذت سے دوچند مزہ پاتے!، حضرت دادا شیخ بھی یہاں کے احباب کی فداکاری ، والہانہ محبت سے بہت متاثر ہوتے تھے، کئی بار اس کا ذکر بھی فرمایا،  چنانچہ حضرت دادا شیخ ملفوظات کے جواہرات لُٹاتے رہے اور حاضرینِ مجلس بقدرِ ظرف نفعِ عظیم محسوس کرتے، یہ مجلس عصر سے کچھ پہلے ختم ہوئی، ہمارے حضرت شیخ مدظلہ نے حضرت دادا شیخ دامت برکاتہم سے عرض  کہ بدھ کو بڑی تعداد میں طلبہ کرام آتے ہیں ، حضرت بعد عصر کچھ نصائح فرمادیں تو احسان وگا، حضرت نے قبول فرمایا، یہاں تک کی آڈیو منسلک ہے:

(۲۸: آڈیو)نمازِ عصر سے پہلے تک بہت مفید مجلس میں ارشادات: نسب کو محفوظ کرنے کی اہمیت کاذکر، عربوں میں اِس کا خوب اہتمام ہے۔۔ وہاں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی اولادیں موجود ہیں اُن کو اپنا نسب خوب معلوم ہوتا ہے۔۔ اس پر ایک عرب کا تذکرہ فرمایا کہ اُن سے مل کر دل مست ہوگیا جب معلوم ہوا کہ یہ صحابہؓ کی اولاد میں سے ہیں۔۔۔پھر ایک صاحب کا مشورہ کے لیے حضرت دادا شیخ دامت برکاتہم کے پاس فون آیا جس میں حضرت دادا شیخ نے اُن کو بیٹی کے رشتے کے حوالے سے مفید نصائح سے نوازا کہ ہمارے حضرت والاؒ اس حوالے سے تین نصائح فرماتے تھے(۱) صحت دیکھو (۲) تقویٰ دیکھو (۳) کھاتے پیتے لوگ ہوں، اسی کی روشنی میں فیصلہ کرنا چاہیے پھر اُن صاحب کو دُعا دی۔۔۔جیسے ہی فون ختم ہوا تو حضرت مفتی نعیم صاحب نے  دینی کتب پیش گئیں جن کی حضرت دادا شیخ کو عرصے سے تلاش تھی، اس اچانک خوشی پر ایسا مسرور ہوئے کہ گریہ طاری ہوگیا! پھر حضرت مفتی نعیم صاحب نے کچھ کتابوں کا تعارف کروایا ، خوب دعائیں لیں!، پھر حضرت دادا شیخ دامت برکاتہم نے فارسی زبان کے حوالے سے کچھ بات فرمائی۔حضرت مفتی زین العابدین صاحبؒ کا تذکرہ فرمایا۔۔۔۔ حضرت شیخ دامت برکاتہم نے حضرت دادا شیخ دامت برکاتہم سے عصر نمازِ کے بعد طلبہ کرام کو مسجد اختر میں نصائح کے حوالے سے عرض پیش کی ،جو الحمدللہ قبول ہوئی، عصر جماعت کا وقت قریب تھا، حضرت دادا شیخ دامت برکاتہم تیاری فرمانے لگے۔۔

(۲۹:خلاصہ) بدھ کے روز مسجد اختر میں قریبی مدرسے خصوصاً جامعہ اشرف المدارس سے طلبہ کرام آجاتے ہیں  چنانچہ   نمازِ عصر کی ادائیگی بعد حضرت دادا شیخ دامت برکاتہم نے  طلبہ کرام کو مختصر لیکن نہایت جامع  نصائح سے نوازا جس کی آڈیو ضروری مضامین کی تفصیل کے ساتھ منسلک ہے:

(۲۹: آڈیو)بعد عصر مسجد اختر : طلبہ و علماء کرام  کو قیمتی نصائح "علم کے ساتھ خشیت اور خشیت کے ساتھ اطاعت لازم ہے"

خاص مضامین کاخلاصہ

00:11) ہمارے حضرت  شاہ فیروز عبد اللہ میمن صاحب دامت برکاتہم نے حضرت دادا شیخ دامت برکاتہم کا مختصر تعارف کروایا 02:18) حضرت دادا شیخ عارف باللہ حضرت مولانا شاہ عبد المتین صاحب دامت برکاتہم نے بیان شروع فرمایا، خطبہ پڑھا 04:10) شروع میں دعا فرمائی (گریہ کے ساتھ روتےہوئے)۔ 04:35) علم بڑی نعمت اور بڑا شرف ہے، لیکن علم وہ ہے جس کے ساتھ خشیت الٰہیہ ہو! اگر یہ حاصل نہیں ہے تو اکابر کی نظر میں یہ علم نہیں ہے، اللہ و رسول کے نزدیک علماء وہ ہیں جو اپنے علم شریعت کے مطابق عمل کرتے ہیں، ہمیشہ علم کے مطابق ان کے اعمال ہوں تو پھر ہی وہ عالم دین ہیں۔۔ ورنہ عالم نہیں ہے، اگر مشغول معاصی ہے تو وہ عالم نہیں! دوامِ گناہ نہ ہو، ہاں کبھی گناہ ہوگیا تو معافی مانگ لی ، وہ مبتلائے معصیت رہتا ہے وہ عالمِ دین نہیں جاہل ہے۔ 07:00) مولانا گنگوہیؒ  کی شانِ علم و عظمت کا تذکرہ! حکیم الامت حضرت تھانویؒ کا قول۔ حضرت گنگوہی نے جب حضرت حاجی صاحب نے تعلق قائم کیا تو علماء نے اعتراض کیا کہ ایک غیر عالم سے بیعت ہوگئے اس کا سبب کیا ہے، فرمایا کہ ہم اس لیے گئے کہ تاکہ ہمارے معلومات معمولات بن جائیں، صرف علم کافی نہیں ہے، علم کے ساتھ علم ضروری ہے۔ 09:10) خشیت وہ ہے جس کے ساتھ عمل ہو۔ یعنی ڈر تو رہے ہیں لیکن اطاعت نہیں ہے، تو پھر یہ خشیت ہی نہیں ہے ، خشیت وہی ہے جس کے ساتھ اللہ و رسول ﷺ کی اطاعت ہو! 10:15) ایمان نام ہے محبت کا! جو بھی ایمان لایا اس کا مطلب یہ ہے کہ اُس نے غیروں کو چھوڑ کر حق تعالیٰ کو پسند کرلیا، اللہ تعالیٰ کی محبت میں وہ پھنس گیا ہے! محبت وہ دولت ہے جس کی برکت سے بندہ زمین پر ہو کر اس کی روح عرش عالم پر ہوتی ہے، حضرت خواجہ صاحب کا شعر روتے ہوئے پڑھا۔۔۔ غم تھا اسیرانِ چمن بال و پر کے جانے سے۔اُڑ چلے قفس لے کر بوئے دل کے آنے سے۔ شعر کی عاشقانہ تشریح فرمائی 12:43) مولانا رومی ؒ کی شعر کی تشریح ، کہ جب اللہ والے اپنے دل میں اللہ کی خوشبو محسوس کرتے ہیں ۔۔۔ اللہ پاک ہم سب کو عطا فرمائے ۔ 13:56) اللہ سے ڈرنے کا کیا مطلب اس کی مثال فرمائی، محبت سے ڈرنا خشیت ہے! ورنہ سانپ سے بھی تو لوگ ڈرتے ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ کہیں مجھ سے ناراض تو نہیں ہے!۔ خشیت اُس وقت ثابت ہوگی جب اُس کو اطاعت حاصل ہوگی ، جو باتیں اللہ پاک کی طرف سے لازم کردی گئیں یہ اُن کا کرم ہے کہ انہوں نے ہمیں کچھ اپنے چاہنے کے کام بتادئیے۔ خدا کی قسم! دنیا کی تمام نعمتوں سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔ فرماتے ہیں کہ میرے لیے کچھ کرکے دِکھاؤ 16:39) اطاعت کا وجود ہوتا ہے معمولاتِ شریعہ لازمہ پر عمل کرنے اور جہاں جہاں حق تعالیٰ نے منع کردیا اُس سے ہم دور رہیں! 17:48) علم صرف اور صرف وہ ہے جو علومِ اکابر کے تابع ہو! وہ علم جو اکابر کی نگاہ میں معتبر ہو وہی معتبر ہے۔ اکابر کے راستے میں فلاح اور کامیابی ہے، تمام برکات اور خیر اکابر کے راستے میں ہے۔ 20:30)حدیث شریف کا مفہوم : لوگ اُس وقت تک خیر ہی خیر میں رہیں گے جب تک کہ وہ اکابر کے علوم سے دین حاصل کریں گے۔ علم اگر اکابر کا ہو تو وہ ہی دین ہے۔ حدیث "البرکۃ مع اکابرکم" کی عاشقانہ تشریح۔ اگر اکابرِ دین کو چھوڑ کر دوسروں سے علم دین حاصل کرتے ہیں تو یقیناً وہ راہِ دین سے ہٹا ہوا ہے۔ وہی علم معتبر ہے جو علوم اکابر کے موافق، جو اکابرکے علوم سے ٹکرائے وہ علم نہیں ضلالت ہے۔ 24:10) حکیم الامت حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن گنج مرادآبادی ؒ یہ فرماتے تھے اگر مجھے تعین سے معلوم ہوجائے کہ آج رات شبِ قدر ہے تو ساری رات میں یہی دُعا کرتا رہوں گا "اے اللہ کوئی نیک صحبت مل جائے۔ 25:17) حضرت تھانوی ؒجب مولانا فضل الرحمن گنج مرادآبادی رحمۃ اللہ علیہ سے ایک دفعہ ملاقات کےلیے حاضر ہوئے تو اس تفصیلی تذکرہ فرمایا۔۔ اللہ والے نعمتوں میں منعم حقیقی کا کرشمہ دیکھتے تھے۔۔درختوں کا ایک ایک پتہ حق تعالیٰ کی معرفت کا ایک دفتر ہے 30:54) خلاصہ یہ ہے کہ ایک تو علم صحیح ہو ۔۔ اور اکابر علم سے حاصل کیا ہو۔۔۔ اور علم کے ساتھ خشیت ۔۔ تو وہی سچا نائب رسول ہے اور جو سچا نائب ہوتا ہے اس کے علم میں برکتیں بڑھتی ہی رہتیں ہیں۔ 32:11) جس سے حق تعالیٰ کامیاب فرمانا چاہتے ہیں اس کو علم دین اور فہم دین سے نوازتے ہیں۔ 34:11) حضرت دادا شیخ دامت برکاتہم کو پیغام دیا گیا کہ بنگلہ دیش میں جامعہ حکیم الامت میں طالب علم یہ مجلس سن رہے  تھے، تو اُن کو خوب دعاؤں سے نوازا۔

(۳۰: خلاصہ) مسجد اختر میں زبردست بیان کے بعد چند خاص احباب سے مسجد میں ملاقات فرمائی ، پھر مسجد میں مغرب کی نماز کا انتظار فرمایا اس دوران حضرت شیخ دامت برکاتہم نے پرلطف باتیں فرماتے رہے، حضرت شیخ نے حضرت دادا شیخ دامت برکاتہم کے بیان کے دوران مولانا فضل الرحمٰن گنج مرادی صاحبؒ کی خدمت میں  حضرت حکیم الامت ؒ کی حاضری والے واقعہ سنانے کے انداز کی بہت تعریف فرمائی اور عرض کیا کہ یہی واقعہ کتابوں میں پڑھا لیکن اُس میں وہ مزہ نہیں ہےجو آپ کے زبانِ مبارک سے سن کر مزہ آتا ہے،آپ کا حق ہم سے ادا نہیں ہوسکتا،حضرت دادا شیخ دامت برکاتہم یہ سن کر بہت خوش ہوئے خوب دعائیں دیں پھر نمازِ مغرب کی ادائیگی کے بعد کچھ احباب سے دوبارہ ملاقات ہوئی مسجد سے نکل کر غرفۃ السالکین حجرۂ مبارک کی طرف واپس تشریف لے جانے لگے، غرفۃ السالکین کے انتظام اور ترتیب کو ایک نظر دیکھتے جاتے تھے اور تعریف فرماتے رہے،  راستے میں بہت سے محبین زیارت کے لیے منتظر تھے، کچھ احباب سے ملاقاتیں بھی ہوئیں ، کچھ کا حضرت شیخ دامت برکاتہم نے تعارف کروایا ،پُر لطف باتیں ۔۔حضرت دادا شیخ نے فرمایا "یہاں سبھی کچھ مجھے بہت اچھا لگتا ہے ، حضرت والا ؒ کے ذوق و مزاج کے بالکل مطابق ہےحضرت والا حیات ہوتے تو کتنا خوش ہوتے"۔ یہ فرماتے ہوئے حجرۂ مبارک میں داخل ہوئے اور حضرت شیخ مدظلہ نے احباب سے فرمایا کہ آپ حضرات باہر انتظار فرمائیں! یہاں تک کی  آڈیو منسلک ہے:

(۳۰: آڈیو) بعد عصر مسجد اختر کے بیان کے بعد ملاقاتیں، باتیں اور  مغرب نماز کے بعد غرفہ واپس آتے ہوئے ملفوظات

(۳۱: خلاصہ) مسجد اختر میں زبردست بیان کے بعد نمازِ مغرب کی ادائیگی کے بعد  غرفۃ السالکین حجرہ میں واپس تشریف لائے وہاں کچھ دیر بعد  عظیم الشان علمی مجلس  ہوئی جو عشاء نمازسےآدھا گھنٹے  اختتام پذیر ہوئی،یہاں تک کی آڈیو ذیل میں اہم مضامین کی تفصیل کے ساتھ منسلک ہے:

(۳۱: آڈیو) مغرب کے بعد غرفۃ السالکین میں مجلس مبارک میں عظیم الشان ارشادات کا خلاصہ :صبح و شام کی مسنون دعاؤں کی تعلیم۔۔۔ اعلیٰ چائے پینے کے ذوق کا تذکرہ فرمایااس پر ایک واقعہ بیان فرمایا۔۔۔حضرت داداشیخ دامت برکاتہم نے ہمارے شیخ حضرت شاہ فیروز عبد اللہ میمن صاحب مدظلہ سے دریافت فرمایا کہ یہاں روزانہ عشاء بعد اتنا بڑا مجمع ہوتا ہے کیا؟ حضرت شیخ نے عرض کیا "حضرت روزانہ نہیں ہوتا یہ تو حضرت والا کی وجہ سے ہورہا ہے۔ ویسے جمعرات مرکزی بیان میں بہت احباب دور دور سے آتے ہیں، جن میں بڑی تعداد میں طلبہ، علماء،مفتیانِ کرام ہوتے ہیں، پھر شبِ جمعہ میں قیام بھی کرتے ہیں" اور پھر قیام کے انتظامات کا ذکر فرمایا ۔حضرت  دادا شیخ دامت برکاتہم اس انتظام کا سن کر بہت خوش ہوتے رہے۔مجلس میں حاضر مولانا شاہین اقبال اثر ؔ صاحب نے ایک لطیفہ بھی سنایا۔حضرت دادا شیخ دامت برکاتہم نے فرمایا ’’واقعی انتظامی شان نہ ہو تو سب غارت ہوجاتا ہے‘‘۔ پھر غرفہ کے انتظام کے بارے میں حضرت شیخ دامت برکاتہم نے مولانا سہیل صاحب مدظلہ کا تذکرہ فرمایا کہ ماشاء اللہ مواعظ کے کاموں کے ساتھ غرفہ میں انتظامات میں پیش پیش رہتے ہیں! یہ سُن کر حضرت بہت خوش ہوئے خوب دعادی!۔۔اس دوران حضرت دادا شیخ دامت برکاتہم کو ایک صاحب کا فون آیا اُن کو بیٹی کے رشتے کے حوالے سے نصائح فرمائیں! ۔ بنگلہ اور اردو زبان بولنے والوں کے بارے میں دلچسپ باتیں فرمائیں۔زبان بولنے کے قواعد پر پُرلطف بحث فرمائی، اور اپنے استاذ محترم کا قول نقل  فرمایا کہ قواعدِ اردو کا ملحوظ رکھنا  بھی ضروری ہے لیکن مکمل قابو نہیں پاسکتے جب تک کہ  اہل زبان کے ساتھ مزاولت یعنی بات چیت اور رابطہ نہ ہو! ۔۔۔ اپنے بزرگوں کے مضامین،الفاظ وتعبیرات میں جو بات ہے وہ ترجمہ میں کیسے آسکتی ہے۔۔۔ بزرگوں جن الفاظ کو استعمال فرماتے ہیں اُن میں بھی نور آجاتا ہے اور بزرگوں کے ملبوسات اور تبرکات میں بھی برکت آجاتی ہے۔۔ اس پر حضرت امام شافعی رحمہ اللہ کا واقعہ بیان فرمایا کہ اپنے شاگرد امام احمد ابن جنبل رحمہ اللہ کا کرتہ جب انہوں نے ہدیتاً بھجوایا تو امام شافعی رحمہ اللہ نے کرتے کو آنکھوں سے لگایا اور اس کو دھلوا کر اس کا پانی پیا اور فرمایا کہ مجھے اُمید ہے کہ امام احمد ابن حنبل  کے کرتے کی برکت سے مجھے شفا ہوجائے گی اور جتنے بھی مریض پیئےگے اُن کو بھی شفا ہوجائے گی۔انہوں نے یوں فرمایا کہ حالانکہ محدث ہیں فقیہ ہیں  ، اس سے بالکل ثابت  ہوتا ہے کہ اکابر دین اور مقبولانِ بارگاہِ الٰہی میں بھی برکات ہیں!اس پر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک واقعہ بیان فرمایا کہ وہ ایک کالی ٹوپی پہن کر جہاد  کرتے تھے، وہ  گم ہوگئی تو بہت فکر مند ہوئے، خوب تلاش کروائی  پھر جب ملی تو تلاش کی وجہ  بیان فرمائی کہ اس کی تلاش کی وجہ یہ تھی کہ حضورﷺ نے عنایت فرمائی تھی اور جس جنگ میں بھی اس کو ساتھ رکھتا ہوں مجھے فتح نصیب ہوتی ہے۔ اب اس کو کیا کہیں گے؟ بعض لوگوں کو ذوق ہی عجیب ہے ہر بات پر فتویٰ لگادیتے ہیں! چند قطرے علوم کے حاصل ہوئے اور اُس کو کافی سمجھ لیا! یہ صحیح نہیں ! اس لیے ہمیشہ اکابرِ دین کی طرف علوم حل کرنے اور مسائل حل کرنے کے لیے رجوع ضروری ہے!۔۔ اس پر حضرت دادا شیخ دامت برکاتہم نے بہت خوشی کا اظہار فرمایا کہ یہاں غرفہ میں دارالافتاء ہے اس میں مفتی نعیم صاحب نے یہاں تین اکابر( حضرت حکیم الامت ؒ ، مفتی شفیع صاحبؒ ، علامہ ظفر احمد عثمانی ؒ ) کے علوم کو اصل قرار دیا ہےاور جو اصلی مراجع و ماخذ ہیں اُ ن کو لازمی قرار دیا ہے، یہ خاص بات ہے! اکابر کے علوم کے حصول اور افتاء کا ذوق اور بصیرت حاصل ہوتی ہےکہ اکابر اِن اُمور میں اِس طرح سے فیصلہ فرماتے تھے۔ ان شاءاللہ ! یہاں یہ ترتیب بہت زیادہ نافع رہے گی ورنہ جب اکابر کے علوم کا التزام نہیں رہتا تو پھر آزادی سی پیدا ہوجاتی ہے جو کہ سخت مضر ہے!۔۔۔ اس پر حدیث شریف بیان فرمائی: "البرکۃ مع  اکابرکم"، "الخیر مع اکابرکم" ۔۔۔مباحثے کی دو صورتیں بیان فرمائیں کہ  ایک تو یہ ہے کہ بحث ولڑائی کو اور تیز کردے اور دوسرا یہ ہے کہ مفاہمت کی صورت کہ دِلوں میں بات اُتر جائے!۔۔ مسلمان ہے تو وہ قابلِ احترام ہے اُنس کے اکرام کی تقریر میں، وعظ میں ،  ہر چیز میں رعایت ہونی چاہیے۔۔۔۔ ایمان والوں کے ساتھ حُسن سلوک چاہیے۔۔۔ایسااکرام کرنا چاہیے کہ وہ سمجھنے لگ جائیں کہ یہ واقعی ہمیں دل سے چاہتے ہیں!چونکہ ہم اہل ایمان ہیں اِن کے ہاں اِس کی بڑی قدر معلوم ہوتی ہے۔۔۔اس پر حضرت حاجی صاحبؒ کے ایک غیر مقلد مرید کا واقعہ بیان فرمایا ۔۔۔ اکابرِ دین کی شان، ان کا حوصلہ اورحُسن اخلاق  کی بلندیاں بیان فرمائیں!اس پر حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ کی اہل رسومات کی مسجد میں نماز پڑھنا اور امام صاحب کا حضرت کے حُسن اخلاق سے متاثر ہوکر تائب ہونے کا واقعہ پورا بیان فرماکرفرمایا میرے دوستو! یہ اسلام ہے  کہ قریب لانے والی بات کرو ، دُور ہٹانے والی بات مت کرو!آسان طریقے سے لوگوں کو دین سِکھاؤ اور قریب لاؤ باتوں میں سختی کا انداز نہ ہونا چاہیے۔۔۔ یہاں دعوت دین پہچانے والوں کو بہت مفید نصائح فرمائیں!۔۔۔ یہاں پر اِس غلط فہمی کا ازالہ بھی فرمایا کہ بعض مشایخ اپنے خاص احباب کے ساتھ کبھی سختی کا معاملہ کرتے ہیں اس کی تشریح فرمائی کہ وہ اُنہی لوگوں پر سختی کرتے ہیں جن کے بارے میں سمجھتے ہیں کہ اُن کو گوارا ہوگا اور ان کی سختی بھی اصلاح کے لیے ہوتی ہے،ا اُس میں مقصود یہ ہوتا ہے کہ اللہ کی طرف لانا! اُس میں بھی یہ ہے کہ کبھی سخی کرو لیکن اصل یہ ہے کہ نرمی کرو!۔۔ مومن کے ساتھ رحمت کا معاملہ ہونا چاہیے۔۔۔حضورﷺ کی شان میں آیت "وما ارسلنک الا رحمۃ للعالمین" پڑھی اور ترجمہ فرمایا کہ آپ تو بس رحمۃ للعالمین ہیں! اس سے یہ معلوم ہوا کہ شانِ رحمت، شانِ خیر خواہی  کو غالب رکھنا چاہیے، اُسی سے فائدہ ہوتا ہے۔حضور ﷺ نے اخلاق مبارک ایک منافق کے ساتھ جو گھر پر آیا تھا!۔۔۔آپ ﷺحسن اخلاق کی بلندیاں!  حدیث پاک  بیان فرمائی کہ حضور ﷺ نے دو چیزیں چھوڑی فرمایا کہ اگر ان دونوں کو مضبوط پکڑو گے تو ہرگز گمراہی نہیں آسکتی! ایک  اللہ کی کتاب ہے اورایک تمہارے رسول ﷺ کا طریقہ ہے!۔۔۔۔ اِس عظیم الشان ملفوظات کے درمیان زبان کے حوالے سے ایک اصول و فلسفہ بیان فرمایا کہ ایک زبان کسی اہلِ زبان کے پاس پہنچتی ہے تو اپنے مقام سے نزول کرکے اہل زبان کے لہجے اور اخلاق قبول کرنے پر مجبور ہوتی ہے، اس پر ایک لفظ "افطاری" کے الف پر زبر اور زیر کے حوالے سے دلچسپ  واقعہ بیان فرمایا۔۔۔۔یہاں پر مولانا اثر صاحب نے عرض کیا حضرت ایسی غلطیوں کو اغلاط العوام کہتے ہیں یہاں اردو کے ادیب اس کو قبول نہیں کرتےفوراً حضرت دادا شیخ دامت برکاتہم نے نہایت دلچسپ انداز میں جواب ارشاد فرمایا: "نہیں بھئ اس کے علاوہ بھی  چیزیں ہیں ،  پکڑ لوں گا تو خبر ہوجائے گی یعنی پھنس جائیں گے" اس پر سب لوگ بہت ہنسے ! (ماشاء اللہ) پھر حضرت دادا شیخ دامت برکاتہم نے اس پر حضرت والا رحمہ اللہ کا ایک واقعہ بیان فرمایا اور فرمایا کہ ایسا ہوتا ہے زبان پر مختلف ادوار میں تبدیلیاں آتیں ہیں! اس پر پہلے زمانے کے تراجم اور اِس زمانے تراجم میں فرق بیان فرمایا۔ دوبارہ  منافق کے ساتھ آپ ﷺ کے اخلاق مبارک کا واقعہ مکمل فرمایا کہ منافقت اُس کا اپنا معاملہ ہے اُن کی خرابی ہے! میں کیوں  اپنے حسن اخلاق کے معارج سے نیچے اُتر آؤں کیوں نا میں اپنے حسن اخلاق کو محفوظ رکھوں!۔۔اس سے آپ ﷺ نے ہمیں سبق دیا ہے کہ کسی کی خاطر اپنے حسن خلق کے مقام سے نیچے آنا یہ صحیح نہیں ہے!۔۔ بعض بزرگوں پر غلبۂ حال ہوجاتا ہے، جس کی اتباع نہیں کرنی۔۔۔ اس پرایک مجذوب کی دعا سے اور ڈنڈ ے سے بارش ہونے کا واقعہ بیان فرمایا۔۔۔اور پھر حکیم امیر احمد صاحب کا دلچسپ واقعہ بھی سنایا۔۔۔۔غلبۂ حال  اور غلبۂ محبت والی چیزیں اپنی جگہ پر محمود شمار ہوتی ہیں، یہ حضرات بے نفس ہیں اللہ کے لیے ان کا سب معاملہ ہوتا ہےلیکن تعلیماتِ شریعہ کی روشنی میں فیصلہ کرنا چاہیے کہ ہمیں کس طرح سے چلنا ہے! ۔۔۔ اورغلبہ ٔ حال کی  نقل کرنے سے دل میں کدورت آئے گی، دل میں اندھیرا آئے گا کیونکہ آپ کو تو غلبہ ٔ حال ہے نہیں آپ تو نقل کررہے ہیں! اس لیے بزرگوں کے غلبۂ حال کی نقل نہیں کرنی چاہیے۔۔۔ یہ ملفوظات بہت ہی عظیم الشان مدلل مضامین پر مشتمل تھے جس پر سب حاضرینِ مجلس مست و سرشار تھے، سبحان اللہ ! ماشاء اللہ کے نعرے لگ رہے تھے! ۔۔ اس پر فرمایا کہ ہمارے حضرت والا ؒ کی یہ شان تھی کہ ہر ہر بات مدلل ہوتی تھی اس لیے اِس دور میں دین کی باتیں کرنا یہ دلائل شریعت سے مدلل ہونا چاہیے۔۔یا کم ازکم اکابرکی حد تک رُک جانا چاہیے، انحصار چاہیے، رہیں رُک جانا چاہیے پھر بھی خیر ہی خیر ہےکیونکہ اکابر صراطِ مستقیم سے کسی طرح ہٹتے نہیں ہیں۔۔۔۔۔حدیث پاک بیان فرمائی جس کا مفہو م ہے کہ کہ ہر دور میں میری اُمت میں ایسے مقبولینِ حق کا   قافلہ ہوگا، وہ سوفیصد دین پر قائم رہیں گے منجانب اللہ اُن کی نصرت مستقل جاری رہے گی اور مستقل یہ سلسلہ جاری رہے گا۔اللھم آمین! ....  عشاء میں کچھ وقت تھا لہٰذا حضرت دادا شیخ دامت برکاتہم آرام کرنا تھا،  مجلس کے اختتام کے بعد خاص احباب نے حضرت کے بیان کی بہت تعریف فرمائی کہ بالکل ایسا لگتا ہے شیخ العرب والعجم عارف باللہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمہ اللہ کی روح دوبارہ دنیا میں آگئی ہے وہی نفع محسوس ہورہا ہے۔ اس پر انتہائی فنائیت سے فرمایا : ’’یہ سب حضرت والا رحمہ اللہ کا فیض ہے ، اللہ تعالیٰ تقصیرات کی مغفرت کے ساتھ اس کو قبول فرمائے اور اس کا پورا ثواب حضرت والا رحمہ اللہ اور حضرت پیرانی صاحب رحمہا اللہ اور حضرت میر صاحب رحمہ اللہ کو عنایت فرمائے‘‘ فرمایا کہ : الحمدللہ میں جب بھی دعا مانگتا ہوں ! اور تخلیہ میں بھی  دعا کرتا ہوں تو حضرت والا ؒ کے ساتھ مجھے ہمت نہیں ہوتی کہ میں امی جان اور حضرت میر صاحب کو فراموش کردوں! مجھے ڈر لگتا ہے کہ حضرت والا کو تکلیف ہوگی کہ ظالم تونے اِن کا خیال نہ رکھا! تجھے پتہ ہی نہیں تھا کہ میرا اِن کے ساتھ کیا رشتہ اور تعلق رہا۔اس لیے ہمیشہ سے یہ معمول ہے جہاں بھی دعا کی توفیق ہوتی ہے اِن دونوں کو ہم فراموش نہیں کرسکتے۔ حضرت میر صاحب رحمہ اللہ بھی میرے بہت بڑے محسن ہیں، حکیم الامت رحمہ اللہ کے سلسلے کے بہت سے علوم و معارف ، اسرار و حِکم ان کے ذریعے سے مجھے معلوم ہوئے! میرے بہت بڑے محسن ہیں اللہ اُن کے درجات کو بےشمار بلند فرمائے! اپنے محسنین کا شکرگذار تو رہنا چاہیے! دین اور اکابر کے راستے میں جو حضرات محسن ہوں تو وہ تو بڑے محسنین ہیں!‘‘۔ پھر حضرت  دادا شیخ دامت برکاتہم آرام فرمانے لگے ، خدام خدمت کررہے تھے ، جناب عامر کمال صاحب نے عرض کیا کہ ’’ملفوظات  ایسے مدلل الہامی عاشقانہ عارفانہ شرح کے ساتھ  ہورہے ہیں کہ تمام علماء کرام ، مفتیان کرام   سر دھن رہے ہیں اور مفتی نعیم صاحب فرمارہے تھے کہ میرے پاس الفاظ نہیں ہے! ایسے علوم و معارف بیان ہورہے ہیں۔‘‘  حضرت دادا شیخ نے فرمایا کہ ’’فارسی زبان بھی تو ہم نے سیکھی ہے اگر اہل زبان سے ربط رہے تو فارسی  بولنے کی بھی توفیق ہونے لگے‘‘، جناب عامر بھائی نے عرض کیا ’’حضرت! مفتی نعیم صاحب تو بہت اشتیاق کا اظہار کررہے ہیں کہ تمام طلبہ اور مفتیان کرام کے سامنے ایک مثنوی شریف کا درس ہوجائے! " حضرت دادا شیخ خوش ہوتے رہے۔۔۔۔۔عشاء اذان کی آواز آنے لگی۔۔۔

(۳۲: خلاصہ)مغرب کی عظیم الشان مجلس کے بعد حضرت دادا شیخ دامت برکاتہم نے کچھ دیر آرام فرمایا اور پھر نمازِ عشاء کے لیے مسجد اختر میں تشریف لائے اور نماز کے بعد مایوسی و نا اُمیدی سے نکالنے والا، اللہ کے راستے میں اُمیدوں کے سینکڑوں آفتاب روشن کرنے والا عظیم الشان درد بھرا بیان فرمایا جس کی آڈیو اہم مضامین کی تفصیل کے ساتھ منسلک ہے: 

(۳۲: آڈیو) مسجد اختر بعد عشاء بیان:ہزاروں لاکھوں گناہ ہوجائیں کبھی اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا! فوراً توبہ کرلینا!

خاص مضامین کاخلاصہ

 00:50) اسوہ رسول اکرمﷺ سے مفتی انوار صاحب نے پڑھ کر سنایا ! حضرت دادا شیخ حضرت مولانا شاہ عبد المتین صاحب دامت برکاتہم نشست پر تشریف فرما تھے 07:00) مفتی انوار الحق صاحب نے حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ  کے درد بھرے اشعار ’’ درِ رازِ شریعت کھولتی ہے‘‘ پڑھے! 12:40)  پھر جناب سید ثروت صاحب نے حضرت دادا شیخ دامت برکاتہم کے حکم سے حضرت والا رحمہ اللہ کے اشعار صحبتِ شیخ سے زندگانی ملی‘‘ سنائے 23:09) حضرت دادا شیخ دامت برکاتہم کے حکم پر جناب مصطفیٰ صاحب نے بھی حضرت والاؒ  کے اشعار ’’ شکوۂ یار عشق میں کبھی روا نہیں‘‘ بہت درد سے پڑھے 34:20) پھرحضرت دادا شیخ دامت برکاتہم کے حکم پر مولانا عبد الکریم صاحب نے حضرت والا ؒ کے نعت شریف کے اشعار ’’فیضان مدینہ ہے یہ فیضان مدینہ‘‘ بہت درد سے پڑھ کر سنائے 41:51) حضرت دادا شیخ دامت برکاتہم نے خطبہ پڑھا اور بیان شروع فرمایا 43:52) اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ ہم ہردم اللہ پر فدا ہوتے رہیں، حضرت والا ؒ یہی فرماتے کہ ہر سانس اپنے مالک تعالیٰ پر فدا کریں۔۔۔ گناہوں میں کیا رکھا ہے؟ زندگی پریشان ہوجاتی ہے۔۔۔ اس حضرت والا کا شعر :اُف کتنا تاریک گناہ گار کا عالم۔۔۔۔انوار سے معمور ہے ابرار کا عالم۔۔۔( بہت گریہ سے روتے ہوئے شعر مکمل فرمایا) جو اللہ کو خوش رکھتا ہے قسم بخدا! دم بدم تعلق مع اللہ بڑھتا رہتا ہے۔۔۔اللہ پاک وہ زندگی ہم سب کو عطا فرمائے! 46:09) مولانا رومی ؒ کا شعر اور ترجمہ کہ نور ہی نور والی زندگی ہوتی ہے جس سے حق تعالیٰ خوش ہوں۔۔۔۔ ایک تو سانس کے ذریعے سے زندہ رہنا ہے اس طرح تو فرعون نمرود بھی زندہ رہتے ہیں، جانور بھی زندہ رہتا ہے، اصل زندگی یہ ہے کہ انفاسِ قدسیہ اور تعلق مع اللہ کے ساتھ زندہ رہا جائے۔۔ جانور زندہ رہتا ہے سانس کے ذریعے سے اور انسان زندہ رہتا ہے تعلق مع اللہ سے اور جو ہردم اللہ پر اپنی جان فدا کرے وہی اصل انسان ہے۔ 48:49) ایک بزرگ سرمد ؒ کا شعر اور ترجمہ یہ کہ دو راستے ہیں فیصلہ کرلو یا تو جان اللہ پر فدا کرنا ہے۔۔۔ یا پھر جاؤ کہیں جا کر مرو!۔۔۔ جو عشاق حق ہوتے ہیں وہ ہر لمحہ اپنے سانس کی نگرانی رکھتے ہیں۔۔۔ حق تعالیٰ جس کو قبول فرماتے ہیں پھر مردود نہیں فرماتے بلکہ استغفار کی توفیق سے مزید نور عطا فرما دیتے ہیں۔۔ 50:40) توبہ کی چار شرائط ۔ توبہ کی توفیق جب ہوجاتی ہے تو حق تعالیٰ اس کو انوار سے نواز دیتے ہیں۔۔توبہ ایسی چیز ہے! 52:33) حکیم الامت حضرت تھانویؒ کا فرمان ہے کہ توبہ کے ذریعے سے بندہ بالکل صاف ہوجاتا ہے ۔۔اللہ پاک ہمیں کثرت توبہ اور استغفار کی توفیق عطا فرمائے!۔۔۔۔حدیث کا مفہوم ہے اگر گناہ گار گناہوں سے تائب ہوچکا ہے تو پھر حق تعالیٰ اس کو اپنا محبوب فرمالیتے ہیں 53:47) ابلیس سے بھی غلطی ہوئی لیکن وہ نادم نہ ہوا اور حضرت آدم علیہ السلام سے بھی چوک ہوئی لیکن وہ نادم ہوئے تو مقبول ہوئے،۔۔۔ اگر غلطی ہوجائے تو مایوس نہ ہونا اللہ کی راہ میں مایوسی کا نام و نشان نہیں ہے! کتنی ہی غلطیاں ہوجائیں پھر بھی آؤ توبہ کرلو! اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ  ابھی ہم تمہیں اپنی آغوشِ رحمت میں لےلیں ہیں ۔۔ اللہ کا ایک نام ’’تواب‘‘ ہے کہ بہت زیادہ معاف کرنے والا!کیا شان ہے محبوب پاک کے شانِ کرم و رحمت کی! ۔۔۔غیر محدود خزائنِ مغفرت کے ساتھ حق تعالیٰ منتظر ہیں معاف کرنے کےلیے! اللہ کے ہاں تو نااُمیدی کا نشان بھی نہیں ہے 58:33) حضرت بابا انجم صاحبؒ کا تذکرہ اور ان کے ایک زبردست شعر فرمایا ۔۔۔ مجھے اُس کریم مطلق کا آسرا ہے۔۔۔ بعض لوگ کم فہمی کی وجہ سے وعظ کرتے ہوئے لوگوں کو مایوس کردیتے ہیں۔۔۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ تو فرماتے ہیں کبائر سے کبائر گناہوں میں مبتلا ہونے والے بھی مایوس نہ ہوں توبہ کرلیں ہم معاف کردیں گے 01:00:27) حضرت والاؒ نے فرمایا ہے کہ اول تو گناہوں سے بچنے کا اہتمام یعنی تقویٰ کا اہتمام رکھو۔۔۔ لیکن بعض لوگوں کی ایسی عادت ہوتی ہے کہ گناہ سے توبہ کرتے ہیں پھر بھی گناہ ہوجاتا ہے تو بس روتے رہو! توبہ کرتے رہو! ان شاء اللہ اسی طرح اللہ تک پہنچ جاؤگے! دن میں بار بار گناہ ہو جاتا ہے تو بار بار توبہ کرلیتا ہے تو یہ گناہوں پر اصرار کرنے والے مجرمین میں سے نہیں ہے۔اول تو شیوہ ٔ تقویٰ ہو پھر شیوۂ ندامت و استغفار رہے۔بس اپنے ہر عمل کو ایسا سمجھے کہ یہ سب اللہ کی توفیق سے ہوا ہے یہ اللہ کی عنایت ہے! 01:03:27) ہماری زبان تو ایسی ناپاک ہے یہ تو اللہ کا کرم ہے کہ ہمیں حکم فرمایا کہ میرا نام لیا کرو۔۔۔ بقسم بخدا! جو حق تعالیٰ کا نام لینے والا ہے وہ ان شاء اللہ منزلِ مقصود تک پہنچ جائے گا۔۔ اللہ تعالیٰ کا نام اور ذکر کرنے پر عظیم الشان علوم بیان فرمائے۔01:05:11) جس کو اللہ تعالیٰ اپنے دروازہ پر لاتے ہیں اُس کےلیے اپنے دروازے کھول بھی دیتے ہیں ، اس پر خواجہ صاحب کا شعر فرمایا ؎ تو ہو جس بھی حال گڑگڑائے جا۔۔ دوستو صدا لگانا ہمارا کام ہے! دروازہ کھولنا اُن کا کام ہے!بحان اللہ! 01:06:25) جو لوگ اللہ کےلیے تڑپتے ہیں اور اہل اللہ کی خدمت میں جاتے ہیں یہ  اللہ والوں کے پاس جانا خود سے نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ بلاتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی عنایت سے توفیق ہوتی ہے۔ پھر اتنی مہربانیوں کے باوجود مایوس ہوجانا تو حماقت ہی تو ہے۔۔ مایوس کے راستے پر لے جانا صرف ابلیس کی تلبیس ہے! بس اس شعر کو یاد رکھیں اور کثرت سے پڑھیں۔۔کہ ’’ مجھے اُس کریم مطلق کا آسرا ہے۔۔ ارے او! گناہ کے بچے مجھے کیا ڈرا رہا ہے۔۔ 01:08:25) مولانا رومیؒ کا مایوسی سے نکالنے والا شعر فرمایا۔۔ اے عظیم از گناہانِ عظیم ۔۔تو توانی عف کردن از کریم۔ مایوس ہونا حرام اور کفر ہے۔ کثرت سے اگر گناہ ہوجائیں لیکن بار بار توبہ کرنے والا مجرمین میں شامل نہیں ہے۔ تو اگر مجرم نہیں ہے تو پھر فرماں بردار ہی ہے۔۔ دو ہی تو ہیں مجرم اور فرماں بردار۔ 01:11:25) اہل اللہ سے ساتھ تعلق اور محبت ہونا علامت ہے کہ یہ بندہ ان شاء اللہ کامیاب ہوہی جائے گا۔ اس پر ایک حکیم صاحب کا واقعہ سنایا اُن کو ایک پاگل دیکھ کر ہنسنے لگا تو فورا اپنے مطب میں گئے۔ اور پاگل پن سے بچنے والی دوا کھائی اور کہا کہ اگر  مجھ میں پاگل پن کا کوئی حصہ  نہ ہوتا تو یہ پاگل مجھ کو دیکھ کر خوش نہ ہوتا،اس واقعہ کو بیان کر کے حضرت تھانویؒ نے فرمایا کہ اہل اللہ کے ساتھ تعلق اور محبت ہونا یہ علامت ہے کہ حق تعالیٰ سے محبت کی کوئی چیز اس کے اندر ہے!اور اس کی یہ محبت کسبی نہیں ہے وہبی ہے بس اس محبت کی قدر کرلیں۔۔ بقسم بخدا! اہل اللہ کے ساتھ تعلق رکھنے والا محروم نہیں رہتا۔۔ 01:16:30) حضرت شیخ دامت برکاتہم نے مائیک پر بیان کی تفصیل فرمائی اور بتایا کہ بہت سے لوگ دور سے حضرت دادا شیخ کی زیارت کے لیے آرہے ہیں کل غرفہ کی چھت پر ٹینٹ لگے گا، اتنے لوگ ہیں ماشاء اللہ! پھر حضرت شیخ نے حضرت دادا شیخ دامت برکاتہم سے بہت سے احباب کی طرف سے دعاؤں کا عرض  جس پھر حضرت دادا شیخ دامت برکاتہم نے یوں دعا فرمائی کہ : اللہ تعالیٰ سب کے نیک مقاصد اپنے کرم سے پورے فرمادے! تمام پریشانیاں  کو دور فرمادے!  تمام مصائب سے نجات عطا فرمادے! رزق میں برکت عطا فرمادے! توفیق توبہ سے نوازے اور سب دکھ و غم حق تعالیٰ اپنے کرم سے دور فرمادے! ہر غم اور پریشانی کو حق تعالیٰ عافیت سے تبدیل فرمادے ! رحمتوں سے تبدیل فرمادے ! اچھے حالات سے تبدیل فرمادے!اپنا بنا لے اور اپنا بنا کر زندہ رکھے اور جب اُٹھائیں تو آغوش رحمت میں اپنے لے لیں ! آمین یارب العالمین بوسیلۃ  سید المرسلین رحمۃ للعالمین ﷺ! 

(۳۳: خلاصہ)مسجد اختر میں  " گنہگاروں کے لیے مژدہ ٔ جاں فزا"  عظیم الشان بیان فرمانے کے بعد مسجد اختر میں ہی ہمارے حضرت شیخ  دامت برکاتہم نے روتے ہوئے حضرت دادا شیخ دامت برکاتہم نے عرض کیا: "حضرت آپ کا اندازِ بیان دلوں کو کاٹنے والا ہے! آپ ماشاء اللہ! اللہ تعالیٰ کی محبت میں بے ہوش کرکے آپریشن کررہے تھے ، دل چاہتا ہے کہ آپ کے پیروں میں پڑ کر آپ کو واپس جانے ہی نہ دیں، اتنے لوگوں کے پیغام آرہے ہیں کہ حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت میر صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے بعد پہلی دفعہ ایسا عظیم الشان فائدہ ہورہا ہے ، کتنی بہو بیٹیوں نے پیغام بھیجا ہے کہ حضرت کو مہربانی کرکے روک لیں! ہماری بھی یہی تمنا ہے! حضرت نے بیانات لوگ الگ ڈلوارہے ہیں ۔۔ اور ہزاروں لوگوں کو بیانات بھیج رہے ہیں! (بہت روتے ہوئے عرض کیا) کہ میرے پاس الفاظ نہیں ہے ایسا لگتا ہے حضرت والا ؒ تشریف فرماہیں! حضرت میر صاحبؒ تشریف فرماہیں! آپ کے سینے میں اللہ کی محبت کی ایسی آگ لگی ہوئی ہے اللہ پاک اِس کا ایک ذرہ عطا فرمادے! اللہ تعالیٰ آپ کا وفادار بنادے! آخری سانس تک آپ کے ساتھ وفاداری کرنے کی توفیق عطا فرمادے!" مسجد اختر میں حضرت شیخ دامت برکاتہم کے بھائیوں کو بھی خوب دعاؤں سے نوازا۔۔۔۔ پھر حضرت دادا شیخ دامت برکاتہم مسجد کی محراب کی طرف والے دروازے سے باہر  مسنون دعاؤں کے اہتمام کے ساتھ رونق افروز  ہوئےجہاں  بڑی تعداد میں احباب حضرت دادا شیخ کی زیارت، نظر ڈلوانے  ، ،سلام و دُعا کے منتظر تھے، بڑی تعداد میں احباب اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو ساتھ لائے تھے ،  یہ منظر دیکھ کر حضرت دادا شیخ خوب مسرور ہوئے اور سب کو دعاؤں سے نوازا!۔ عظیم الشان اُمید افزاء مایوسی سے نکالنے والے بیان سے احباب پر بہت اثر تھا کئی لوگ آواز سے رو رہے تھے ، کئی آنکھوں میں اشک لیے اور لبوں پر مسکراہٹ سجائے قطبِ زمانہ امیر محبت عارف باللہ حضرت مولانا شاہ عبد المتین صاحب دامت برکاتہم   کو محبت بھری نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔ مسجد اختر کی سیڑھیوں سے ہوتے ہوئے غرفہ السالکین حجرۂ مبارک تک واپسی کا سفر ہورہا تھا راستے میں کچھ پرانے احباب سے ملاقاتیں بھی ہوئیں ، خوشی کا اظہار فرمایا دعاؤں سے مالامال فرمایا!۔ راستے میں ایک  بزرگ نے اپنے گھر والوں کے حوالے  حضرت دادا شیخ دامت برکاتہم نے کچھ سوالات کیے کہ نماز کی رکعات بھول جاتی ہیں، قرآن پڑھتے ہوئے بہت نیند آتی ہے  تو حضرت دادا شیخ نے بہت اُمید افزاء جوابات ارشاد فرمائے جس سے وہ بزرگ مست ہوگئے۔۔۔ غرفۃ السالکین ہال میں  جناب سید ثروت صاحب نے حضرت دادا شیخ دامت برکاتہم کی خدمت میں مولانا منصور الحق صاحب دامت برکاتہم کے اشعار"آبِ رحمت سے مری جاں کو نہا لینے دو"۔۔ پیش کرکے سب کو مست کردیا، ہال بھرا ہوا تھا سب یہ اشعارثروت صاحب کے ساتھ پڑھ رہے تھے اور مست ہورہے تھے۔ ہمارے حضرت شیخ دامت برکاتہم بھی ساتھ ساتھ پڑھ رہے تھے۔ اشعار کے بعد ہال میں موجود کئی احباب نے آج کے بیان کی تعریف فرمائی کہ بہت نفع ہوا، حضرت دادا شیخ دامت برکاتہم حق تعالیٰ کا شکر ادا کرتے جاتے تھے، حضرت شیخ نے فرمایا کہ ہم یہ سب بیانات دوبارہ سنیں گے۔ آہستہ آہستہ چلتے ہوئےحضرت دادا شیخ دامت برکاتہم حجرہ ٔ مبارک میں رونق افروز ہوگئے ، حجرہ میں  چند خاص احباب اور بنگلہ دیش کے مہمان  ہی کو آنے کی اجازت تھی باقی سب احباب باہر رہ گئے۔ یہاں پہنچ کر حضرت دادا شیخ نےآج ہونے والے بیان کے حوالے سے کچھ ارشادات فرمائے جس کا خلاصہ یہ ہے:" گنہگاروں کو اُمید مغفرت و رحمت دلانا قرآن و حدیث میں  موجود ہے، ہم لوگ اس کو بیان نہیں کرتے، عقل سے سوچتے ہیں کہ اس سے گنہگاروں کو اور جوشِ گناہ بڑھے گا ۔نہیں! بلکہ حق تعالیٰ کی رحمت کی شان کو دیکھ کر وہ اور زیادہ اللہ کی طرف بھاگ آتے ہیں کہ ہم جیسے مجرمین کے لیے اس قدر معافی کی بشارتیں ہیں!"۔ کچھ خاص احباب نے آج کے عظیم الشان اُمید افراء ایمان افروز بیان کے بارے میں عرض کیا کہ: "بیان میں عشق کی آگ بھری ہوئی ہے"۔ پھر کچھ احباب سے ملاقات کے بعد  رات کھانے کی ترتیب تھی۔ یہاں تک کی آڈیو منسلک ہے:

(۳۳: آڈیو)عشاء میں عظیم الشان بیان کے بعد غرفۃ السالکین تشریف لاتے ہوئےاور حجرہ میں  ارشادت ، احباب کے تاثرات

(۳۴: خلاصہ)رات کھانے کے بعد حجرۂ مبارک میں کھانے کے بعد کی سنت دعاؤں پر مختصر بات فرمائی ،اس پر حضرت ہردوئی رحمہ اللہ کا پرلطف واقعہ بیان فرمایا! پھر سید ثروت صاحب نے جناب اثر صاحب کے اشعار پیش کیے ، خوب ہنسایا اور مختلف زبانوں میں بول کر  تمام حاضرین کو خوش کیا خوب دعائیں لیں! جس سے حضرت دادا شیخ دامت برکاتہم بہت لطف اندوز ہوئے اور فرمایا کہ :بہت مزہ آیا اور بہت نفع ہوا! حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس کی پوری طرح یاد تازہ ہوگئی۔۔ ایک طرف مزے بھی خوب ہیں اور نفع بھی عظیم ہے۔۔ اللہ تعالیٰ ہمارے حضرت والا کے درجات کو بےشمار بلند فرمائے۔ حضرت والا کے فیوض و برکات کو تاقیامت سارے عالم میں جاری رکھے۔اس مختصر مجلس سے سب حاضرین ِ مجلس مست و سرشار ہوگئے! مجلس کے بعد چونکہ رات کے ۱۲ بج چکے تھے ، حضرت دادا شیخ کو آرام کرنا تھا، تو محبین رفتہ رفتہ کمرہ خالی کرنے لگے، جب صرف چند احباب رہ گئے تو کچھ خاص احباب نے آج کے عظیم الشان کے نفع عظیم کے بارے میں حضرت دادا شیخ کو مطلع کیا تو حضرت دادا شیخ نے فرمایا کہ بیان میں بعض بندے خوشیوں میں زاروقطار رورہے تھے کہ ایسا عجیب معاملہ ہے کہ گنہگاروں کے لیے بھی ایسی خوشخبریاں ہیں!۔ پھر حضرت دادا شیخ نے کمرے میں موجود خاص احباب سے اپنے لیے اور جامعہ اور خانقاہ کے لیے، اپنے گھر والوں کےلیے دعاکرنے کا فرمایا  ۔ یہاں تک آڈیو منسلک ہے:

(۳۴: آڈیو)رات کھانے کے بعد حجرۂ مبارک میں مختصر پرلطف مزاح مجلس! رات سوتے وقت کچھ خاص احباب کے تاثرات

پانچویں دن کی تمام آڈیوز کو محفوظ کرنے کےلیے کلک کیجیے!

بقیہ دنوں کی رُوداد کےلیے درج ذیل لنک پر کلک کیجیے

۳۰ نومبر بروز ہفتہ.......یکم دسمبر برو ز اتوار.......۲ دسمبر بروز پیر......۳ دسمبر بروز منگل.......۵ دسمبر بروز جمعرات

۶ دسمبر بروز جمعہ.......۷ دسمبر برو ز ہفتہ.........۸ دسمبر بروز اتوار.........۹ دسمبر بروز پیر.........۱۰ دسمبر بروز منگل 

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries